ہم اہلسنت والجماعت ہیں بریلوی نہیں

 

مسلکِ اہلِ حق یعنی اہلسنت کی ایک پہچان لفظ ’’بریلوی‘‘ بھی ہے لیکن فی زمانہ مسلک حقہ کے لیے اس اصطلاح کا استعمال کرنا ہم اہلسنت کے حق میں نقصان دہ ثابت ہو رہا ہے ، ہاں یہ بات درست ہے کہ حق و باطل میں امتیاز کرنے کیلیے کسی فَصلِ ممیز کی ضرورت و حاجت پڑتی ہے جس کی بنا پر ہم ایسے الفاظ وضع کرتے ہیں جو صحیح اور غلط میں امتیاز کرنے میں مُمِدّ و مُعَاوِن ہوتے ہیں ، جیسا کہ ماضی بعید میں جب کئی فتنے اٹھے جو سرکار دوعالم ﷺ کی خبرِ غیب کے مطابق کئی فرقوں کے وجود میں آنے کا سبب بنے تو اکابرینِ امت نے اہل حق کے گروہ کی نشاندہی کرنے اور اسے نمایاں کرنے کیلیے بطور علامت ’’اہلسنت و جماعت‘‘ کے لفظ کا انتخاب کیا اور اس لفظ کے انتخاب کی ایک وجہ اس کا بعض احادیث میں صریحا اور بعض میں مفہوما موجود ہونا ہے۔لیکن لفظِ بریلوی اور لفظِ اہلسنت و جماعت کے فصل ممیز ہونے میں کئی وجوہ کی بنا پر فرق ہے۔

ایک تو یہ کہ لفظِ ’’اہلسنت‘‘ کا انتخاب اکابرینِ امت نے کیا کہ جس کا اشارہ بعض نصوص میں بھی ملتا تھا جبکہ لفظِ بریلوی کا مسلک حقہ  کے لئے استعمال اعلیٰ حضرت سے لے کر اب تک کے اکابر علماء نے نہیں کیا بلکہ یہ نام اغیار نے ہمارے سر تھوپا ہے اور یہ لفظ انہی کا عطیہ ہے جیسا کہ ہمارے اکابرین کے ارشادات سے واضح ہے جو کہ ذیل میں مذکور ہیں، ثانیا یہ کہ لفظِ بریلوی کا تعلق جغرافیائی لحاظ سے خاص ملک کے خاص شہر سے ہے کہ جس سے پوری دنیا کے اہلسنت کی واقفیت ہونا ضروری امر نہیں اور اس لفظ کی اسی عدم مقبولیت کی بنا پر ہمارے مخالفین ہمارے متعلق اکثریت سے اقلیت میں ہونے کا تاثر دینا چاہتے ہیں اور دے بھی رہے ہیں اور یوں خودکے لئے صرف اہلسنت کا ٹائیٹل استعمال کر کے عالمی سطح پر اپنا اکثریت میں ہونے کا تاثر بھی دے رہے ہیں اور اہلسنت کے اکابرین سے اصولی اختلاف ہونے کے باوجود اس لفظ پر قبضہ کرنے میں بھی کامیاب ثابت ہو رہے ہیں۔ میں یہاں پر ایک اور بات کرنا چاہتا ہوں کہ فصل ممیز کے طور پر لفظ بریلوی استعمال کرنے کی بجائے آپ مخالفین کے لئے فقط دیوبندی یا وہابی یا پھر کوئی مخصوص نام استعمال کریں  نہ کہ اپنے لیے کسی ایسے لفظ کا انتخاب کریں جس کے برے نتائج پوری اہلسنت کو بھگتناپڑے، یوں آپ کو فرقۂ باطلہ سے امتیاز کا فائدہ بھی حاصل ہو جائے گا اور اس نقصان سے بھی محفوظ رہیں گے جو اب ہم اٹھا رہے ہیں۔

ٹھیک ہے لفظ بریلوی کے استعمال کے قائلین اگر  منطقی لحاظ سے سبقت بھی لے جائیں تو کم از کم وہ ذیل میں اکابرین اہلسنت کے ١٢ ارشادات کو ایک بار ضرور پڑھ لیں ، انہیں پڑھ کر آپ جان جائیں گے کہ آپ غیروں کی سازش کا خود شکار بن رہے ہیں اور اپنے پاؤوں پر خود کلہاڑی مار رہے ہیں ورنہ یہ کوئی ضروریاتِ دین یا ضروریاتِ مذہب اہلسنت کا مسئلہ نہیں کہ جس کی بنا پر ہمیں طعن کیا جائے اور طعن ہم آپ کو بھی نہیں کر رہے صرف اس کے نقصان دہ نتائج سے محفوظ کرنے کیلیے خیر خواہانہ عرض کر رہے ہیں۔وہ ١٢ /اقوال یہ ہیں:

١۔ مفتی اعظم ہند حضرت مولانا الشاہ مصطفی رضا خان نوری  علیہ الرحمہ رحمہ اللہ١٩٦٠ کی دہائی کے آغاز میں اپنے ایک فتوی میں تحریر فرماتے ہیں کہ’’ہم وہی قدیم چودہ سو سالہ اہلسنت و جماعت ہیں اور وہابیہ،دیابنہ ملاعنہ اہلسنت کو بریلوی کہتے ہیں۔ اگر کوئی تم کو بریلوی کہے تو شدت سے انکار کرو‘‘(عرفان مسلک و مذہب صفحہ ٤٧ بحوالہ مطبوعہ ماہنامہ پاسبان الہ باد )

٢۔ سعودی عرب میں گرفتاری کے بعد سی آئی ڈی سے گفتگو کے دوران تاج الشریعہ اختر رضا خان الازہری حفظہ اللہ نے فرمایا: ہم پر کچھ لوگ یہ تہمت لگاتے ہیں کہ ہم اور قادیانی ایک ہیں ۔ یہ غلط ہے۔ اور وہی لوگ ہمیں بریلوی بھی کہتے ہیں، جس سے وہم ہوتا ہے کہ ’’بریلوی‘‘ کسی نئے مذھب کا نام ہے، ایسا نہیں ہے بلکہ ہم اہلسنت و جماعت ہیں۔ (حیات تاج الشریعہ صفحہ ٤٢ بحوالہ عرفان مسلک و مذہب صفحہ ٤٥)

٣۔ حضرت علامہ مولانا مفتی اختررضاخاں الازہری علیہ الرحمہ  نے ایک انٹرویو میں فرمایا: ’’ ہم اپنے آپ کو بریلوی نہیں کہتے، ہمارے مخالف ہمیں بریلوی کہتے ہیں۔‘‘ (ماہنامہ ضیائے حرم، لاہور، فروری١ ١٩٨، صفحہ ١٤)

٤۔ اہلسنت و جماعت  کو بریلوی کہنا  ہندوستانی  دیوبندیوں کا طریقہ ہے ۔ (الحق المبین عربی صفحہ ٣ از تاج الشریعہ  حضرت علامہ اختر رضا خان علیہ الرحمہ  )

اسی کتاب حیات تاج الشریعہ میں یہ بھی درج ہے اقرار نامہ میں تاج الشریعہ نے ان الفاظ کا اضافہ کروایا: ’’بریلویت کوئی نیا مذہب نہیں ہے، ہم لوگ اپنے آپ کو اہلسنت و جماعت کہلوانا ہی پسند کرتے ہیں‘‘۔(حیات تاج الشریعہ صفحہ ٤٢ بحوالہ عرفان مسلک و مذھب صفحہ ٤٥)

٥۔ ماہرِ رضویات پروفیسرڈاکٹرمسعود احمد رحمۃ اللہ علیہ اس بارے میں فرماتے ہیں کہ: ’’اصل میں امام احمد رضا اور اس مسلکِ قدیم کے مخالفین نے اس کے بریلویت کے نام سے یاد کیا ہے اور بقول ابو یحییٰ امام خان نوشروی "یہ نام علما دیوبند کا دیا ہوا ہے"۔ ڈاکٹرجمال الدین (جامعہ حنفیہ، دہلی) نے بھی اپنے ایک تحقیقی مقالے میں یہی تحریر فرمایا ہے کہ یہ نام مخالفین کا دیا ہوا ہے۔‘‘ (آئینہ رضویات، صفحہ ٣٠٠)

٦۔  آستانہ عالیہ شاہ آبادشریف کے سجادہ نشین صاحبزادہ سید محمد فاروق القادری اسے جاہلانہ اقدام قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں؛"اہلسنت و جماعت کو بریلوی کہنا کسی طرح درست نہیں۔‘‘ (فاضل بریلی اور اموربدعت، صفحہ ٦٩)

٧۔ سیالکوٹ کے مشہور عالم دین مفتی حافظ محمد عالم صاحب رحمۃ اللہ علیہ اسے مخالفین کی سازش قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’بریلوی ہمارا مسلک نہیں ہے‘‘ کچھ آگے چل کر یوں رقمطراز ہوتے ہیں: ’’اگر لوگ ہمیں بریلوی کہ دیتےہیں تو ہمیں خود کو بریلویت کے تنگ حصار میں بند نہیں کرنا چاہیے، یہ ہمارے خلاف ایک سازش ہے کہ ہم اجماع امت کے مسلک حقہ اہلسنت کی وسیع شناخت کھو کر بریلویت کا لیبل اور بقیہ فرقہ وارانہ جماعتیں خود کو اہلسنت کہلوائیں۔ ‘‘ (ماہنامہ العلماء، صفحہ ٥٢ ، لاہور، دسمبر جنوری ١٩٩٥-١٩٩٦)

٨۔ حضرت علامہ عبد الحکیم شرف قادری رحمہ اللہ بھی بریلوی نام کو مخالفین کا عطیہ قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’امام احمد رضا بریولی کے افکار و نظریات کی بے پناہ مقبولیت سے متاثر ہو کر مخالفین نے ان کے ہم مسلک علماء و مشائخ کو بریلوی کا نام دے دیا۔ ‘‘ (البریلویہ کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ)

٩۔ جناب سید صابر حسین شاہ بخاری لکھتے ہیں: ’’دشمنوں نے (اعلی حضرت اور انکے ہم مسلک علماء کو) اہل سنت سے الگ کرنے کیلیے ’فرقہ بریلویہ‘‘ مشہور کر دیا۔‘‘(امام احمد رضا کاملین کی نظر میں صفحہ ٢٩)

١٠۔ دیوبندی مولوی سرفراز گکھڑوی کی کتابوں کا مدلل اور باکمال رد لکھنے والے حضرت مفتی غلام فرید ہزاروی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:’’وہابی دیوبندی اس دور میں یہ پراپگنڈہ زور شور سے کر رہے ہیں کہ بریلوی کہلانے والے اب پیدہ ہوئے ہیں‘‘(النجدیت بجواب بریلویت صفحہ ٤٩)

١١۔ مناظر اہلسنت مولانا سعید احمد اسعد لکھتے ہیں: ’’مولانا احمد رضا خان بریلوی کی تابناک مساعی سے گھبرا کر مخالفین نے اعلی حضرت اور انکے مریدین، متوسلین اور شاگردوں کو بدنام کرنے کیلیے کہیں ’’رضا خانی فرقہ‘‘ کے نام سے یاد کرنا شروع کیا اور کہیں ’’بریلوی فرقہ‘‘ کے نام سے اور اس نام کو خوب اچھالا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ بے علم حضرات کو یہ تاثر دیا جائے کہ یہ نیا فرقہ ہے۔‘‘ (وہابیت و بریلویت بجواب بریلویت صفحہ ٤٥)

١٢۔ اہلسنت کے موجودہ بڑے علماء میں سے ایک نام شاگرد حکیم الامت مفتی کبیر علامہ اشرف القادری حفظہ اللہ ہے ، آپ ایک بیان میں فرماتے ہیں: ’’میں تو عرصہ دراز سے ہمارے اپنے احباب کو عرض کرتا رہا ہوں کہ بریلوی نہ کہلوایا کرو ٹھیک ہے فاضل بریلوی ہمارے بہت بڑے عالم اور ہمارے امام ہیں، بریلوی   تو تب ہم کہلائیں کہ جب انہوں نے نیا عقیدہ ایجاد کیا ہو اور ہم اس عقیدے میں انکی پیروی کرتے ہوں انہوں نے تو کوئی عقیدہ ہی ایجاد نہیں کیا  انہوں نے تو اسی اہلسنت و جماعت کے پرانے مذہب پر پہرا دیا ہے اس پر جو اعتراض تھے اس کا جواب دیاہے اس کے مخالفین کا رد کیا ہے ہمارے لوگ جو ہیں وہ بریلوی بن گئے اور بریلوی کہلوانا شروع کر دیا اور کہنے لگے کہ بریلوی کہلوانے سے زیادہ فرق محسوس ہوتا ہے اور اس سے Strenth آتی ہے اور اہلسنت و جماعت کا آدھا میدان خالی دیکھ کر اس پر انہوں(دیوبندیوں/وہابیوں) نے قبضہ کر لیا ‘‘۔ المختصر اس لئے ہم لوگ اہلسنت والجماعت ہیں نہ کہ بریلوی۔  (بشکریہ فقیر المصطفی /سنی عقائد786  بلاگ)


No comments:

Post a Comment