------------------
زیر نظر مسئلہ یہ ہے کہ حضرت
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا جنازہ کس نے پڑھایا؟؟؟
اس مسئلہ کو شیعہ زاکرین دن
رات جھوٹ بولتے ہوے یہ ثابت کرنے کی کوشش لغو کرتے ہیں کہ حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ
عنہا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ناراض تھیں ۔اور آپ نے وصیت فرمائی تھی کہ وہ میرے
جنازے میں شریک نہ ہوں ۔تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کو رات کو ہی دفن کر دیا تھا
۔اور خلیفۃ المسلمین کو اس کی خبر ہی نہ ہونے دی۔اُس رات سے ان لوگوں نے حضرت علی رضی
اللہ عنہ اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے درمیان ناراضگی اور اختلاف کو ثابت کرنے
کی کوشش کی ہے۔
لیکن
جمہور علماء اہلسنت کا موقف ہے اور مستند ترین کتابوں میں یہ موجود ہے کہ حضرت فاطمہ
رضی اللہ عنہا کا جنازہ خلیفہ بلا فصل انبیاء کے بعد رسول اللہ ﷺ کے ظاہری و باطنی
اور روحانی خلیفہ و جانشین حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے پڑھائی ہے اور
اسی پر اکثر امت مسلمہ کا اتفاق ہے۔
اس لیے ثبوت
کے لیے ہم معتبر کتب سے دلائل دیتے ہیں:۔
حوالہ نمبر ١۔عن حماد عن ابراھیم النخعی قال صلی ابوبکر
الصدیق علی فاطمۃ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فکبر اربعا۔
ترجمہ۔حضرت ابرھیم نخعی نے
کہا کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فاطمہ بنت رسول اللہﷺ کی نماز جنازہ پڑھائی اور
چار تکبیریں کہیں۔(طبقات ابن سعد جلد ثامن صفحہ ١٩ تذکرہ فاطمہ مطبوعہ لیدن یورپ)
حوالہ نمبر ٢:۔عن مجاھد عن الشعبی قال صلی علیھا ابوبکر
رضی اللہ عنہ وعنہا
ترجمہ:۔حضرت شعبی فرماتے ہیں
کہ فاطمہ پر ابوبکر الصدیق نے نماز جنازہ پڑھایا
(بحوالہ طبقات ابن سعد جلد ٨ صفحہ ١٩تذکر ہ فاطمہ
طبع لیدن یورپ)
حوالہ نمبر ٣:۔تیسری روایت امام بہیقی
سے اپنی سند کیساتھ منقول ہے لکھتے ہیں کہ حدثنا محمد بن عثمان ابن
ابی شیبۃ حدثنا عون بن سلام حدثنا سوار بن مصعب عن مجالدعن الشعبی ان فاطمۃ اماماتت
دفنھا علی لیلا واخذ بضبعی ابی بکر الصدیق فقدمہ یعنی فی الصلوۃ علیھا(رضوان اللہ علیہم
اجمعین)
ترجمہ:۔یعنی جب حضرت فاطمہ
فوت ہوئیں تو حضرت علی رضی اللہ عنھما نے انکو رات میں ہی دفن کردیا اور جنازے کے موقع
پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے دونوں بازو پکڑ کر جنازہ
پڑھانے کیلئے مقدم کردیا۔(بحوالہ السنن الکبریٰ للبیہقی مو الجواھر النقی جلد٤ صفحہ
٢٩کتاب الجنائز)
حوالہ نمبر ٤:۔شیعہ امام معصوم محمد
باقر سے مروی روایت صاحب کنز العمال نے علی المتقی الہندی نے بحوالہ خطیب ذکر کی ہےعن جعفر ابن
محمد عن ابیہ قال ماتت فاطمہ بنت رسول اللہ فجاء ابوبکر و عمر لیصلوافقال ابوبکر لعلی
ابن ابی طالب تقدم قال ما کنت لاتقدم وانت خلیفۃ رسول اللہ فتقدم ابوبکر و صلی علیھا
ترجمہ :۔امام جعفر صادق امام
محمد باقرسے روایت کرتے ہیں کہ حضرت فاطمہ دختر رسول اللہ ؐ فوت ہوئیں تو ابوبکر و
عمر دونوں جنازہ پڑھنے کیلئے آئے تو ابوبکر نے علی المرتضٰی سے جنازہ پڑھانے کے لئے
فرمایا کہ آگے تشریف لائیے تو علی المرتضٰی نے جواب دیا کہ آپ خیفۃ رسول ہیں آپکی موجودگی
میں ٫٫میں ،،آگے بڑھ کر جنازہ نہیں پڑھا سکتا پس ابوبکر صدیق نے آگے بڑھ کر جنازہ پڑھایا (بحوالہ کنزالعمال (خط فی رواۃ مالک)جلد ٦ صفحہ
٣١٨(طبع قدیم)روایت ٥٢٩٩باب فضائل الصحابہ ۔فصل الصدیق مسندات علی )
حوالہ نمبر ٥:۔حضرت امام زین العابدین
رضی اللہ عنہ کی روایت حاضر ہے اس مسئلہ کو اس روایت نے خاصی حد تک حل کر دیا ہے۔عن مالک عن
جعفر ابن محمد عن ابیہ عن جدہ علی ابن حسین قال ماتت فاطمہ بین المغرب والعشاء فحضرھا
ابوبکر و عمر وعثمان والزبیر وعبدالرحمان ابن عوف فلما وضعت لیصلیٰ علیھا قال علی تقدم
یا ابابکر قال وانت شاھد یا اباالحسن؟قال نعم !فواللہ لا یصلی علیھا غیرک فصلٰی علیھا
ابوبکر(رضوان اللہ علیہم اجمعین)ودفنت لیلا (بحوالہ
ریاض النضرۃ فی مناقب العشرہ مبشرہلمحب الطبری جلد١صفحہ ١٥٦باب وفات فاطمہ)
ترجمہ:۔جعفر صادق اپنے والد
محمد باقر سے اور وہ اپنے والد امام زین العابدین سے روایت کرتے ہیںکہ مغرب و عشاء
کے درمیان حضرت فاطمۃالزہراء کی وفات ہوئی ان کی وفات پر ابوبکر و عمر وعثمان وزبیر
وعبدالرحمان بن عوف حضرات حاضر ہوئےجب نماز جنازہ پڑھنے کیلئے جنازہ سامنے رکھا گیا
تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق سے کہا کہ جنازہ پڑھانے کیلئے آگے تشریف
لائیے ۔اللہ کی قسم! آپ کے بغیر کوئی دوسرا شخص فاطمہ
کا جنازہ نہیں پڑھائے گا پس ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا پر نمازجنازہ
پڑھائی اور رات کو دفن کی گئیں۔
حوالہ نمبر ٦:۔شاہ عبدالعزیز نے تحفہ
اثنا عشریہ کے باب مطاعن میں طعن نمبر ١٤ کے آخر میں فصل الخطاب سے نقل کرتے ہو ئے
ریاض النضرۃ کی روایت کے قریب قریب روایت ذکر کی ہےوہ بھی درج ذیل ہے: در
فصل الخطاب آوردہ کہ ابوبکر صدیق و عثمان وعبدالرحمانابن عوف وزبیربن عوام وقت نماز
عشاء حاضر شدندو رحلت حضرت فاطمہدرمیان مغرب و عشاء شب سہ شنبہ سوم ماہ رمضان ١١ھبعد
ازششماہ از واقعہ سرور جہاں بوقوع آمدہبودوستین عمرش بست و ہشت بود وابوبکر بموجب گفتہ
علی المرتضٰی پیش امام شدونماز بروئے گزاشتو چہار تکبیر بر آورد۔(
بحوالہ اثنا عشریہ مطاعن صدیقی طعن نمبر ١٤ صفحہ نمبر ٤٤٥ طبع نول کشور لکھنوئ)
ترجمہ:۔فصل الخطاب کے مصنف
نے ذکر کیا ہے کہ ابو بکرصدیق و عثمان و عبدالرحمان بن عوف وزبیر بن عوام تمام حضرات
عشاء کی نماز کے وقت حاضر ہوئے اور سیدہ فاطمہ کی رحلت مغرب و عشاء کے درمیان ہوئی
منگل کی رات تیسری رمضان شریف حضورؐ کے چھ ماہ بعد فاطمہ کا انتقال مبارک ہوا اسوقت
فاطمہ کی عمر ٢٨ سال تھی علی المرتضٰی کے فرمان کے مطابق ابوبکرالصدیق نماز جنازہ کے
لیئے امام بنے اور چار تکبیروں کے ساتھ نماز جنازہ پڑھائی۔
حوالہ نمبر ٧:۔حافظ ابو نعیم اصفہانی
نے حلیۃ الاولیاء میں اپنی مکمل سند کیساتھ ابن عباس سے جنازہ کی روایت کی ہےعن میمون بن
مھران عن ابن عباس النبی اتی بجنازۃ فصلٰی علیھا اربعا وقال کیرت الملائکۃ علیٰ ادم
اربع تکبیرات و کبرابوبکر علیٰ فاطمہ اربعا وکبر عمر علیٰ ابی بکر اربعا وکبر صہیب
علیٰ عمر اربعا
ترجمہ: حضرت ابن عباس ذکر
کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺکے پاس ایک جنازہ لایا گیا آپ نے اس پر نماز جنازہ پڑھی اور
چار تکبیریں کہیں اور فرمایا کہ ملائکہ نے آدم علیہ السلام پر چار تکبیریں کہیں تھیں
اور ابن عباس مزید فرماتے ہیں کہ ابوبکر نے حضرت فاطمہ کے جنازہ کے موقع پر چار تکبیریں
کہیں اور عمر نے ابوبکر اور صہیب نے عمر پر چار تکبیریں کہیں تھیں۔بحوالہ حلیۃ الاولیاء
لابی نعیم الاصفہانہ جلد نمبر٤ صفحہ ٩٦ تذکرہ میمون بن مھران)
حوالہ نمبر ٨:۔کتاب بزل القوۃ فی
حوادث سنی النبوۃ(عربی)مؤلفہ علامہ مخدوم ہاشم سندھی کے اردو ترجمہ موسومہ سیدہ سید
الانبیاء مترجم (مفتی علیم الدین )کے صفحہ ٦٠٦ پر حضرت فاطمۃ الزھراء کے وصال کے ضمن
میں حاشیہ میں موجود ہے کہ آپکا جنازہ حضرت صدیق اکبر نے پڑھایا(بحوالہ سیرت سید الانبیاء
اردو ترجمہ بذل القوۃ فی حوادث سنی النبوۃ عربی صفحہ نمبر ٦٠٦ کا حاشیہ نمبر ١)
حوالہ نمبر ٩:۔تاریخ ابن کثیر البدایہ
و النھایہ از حضرت علامہ عماد الدین ابن کثیردمشقی اردوترجمہ حصہ ششم صفحہ ٤٤٣ پر ایک
روایت مذکور ہے کہ آپکی نماز جنازہ حضرت ابوبکر صدیق نے پڑھائی ۔حضرت عباس اور حضرت علی کے متعلق بھی روایات
موجود ہیں (بحوالہ تاریخ ابن کثیر اردو ترجمہ البدیہ والنھایہ از امام ابن کثیر حصہ
ششم صفحہ ٤٤٣)
حوالہ نمبر١٠:۔مدارج النبوت اردو
ترجمہ از حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی( مترجم الحاج مفتی غلام معین الدین )کے صفحہ
٥٤٤ پر موجود ہے کہ روایتوں سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ حضرت ابوبکر الصدیق رضی اللہ
عنہ تشریف لائے اور حضرت فاطمہ کی جنازہ پڑھائی اور حضرت عثمان بن عفان و عبدالرحمان
ابن عوف اور زبیر بن العوام (رضی اللہ عنہم)بھی آئے ۔(مدارج النبوت از شیخ عبدالحق
محدث دہلوی جلد دوم صفحہ ٥٤٤ مطبوعہ ضیاء القرآن لاہور)
نتیجہ: ان دس کتابوں کی ان روایات کے بعد یہ بات
پایا ثبوت تک پہنچ گئی ہے کہ حضرت فاطمۃ الزھراء رضی اللہ عنہا کا جنازہ خلیفہ وقت
خلیفۃ المسلمین خلیفۃالرسول جانشین سرور عالم امام المسلمین والمومنین حضرت ابوبکر صدیق اکبر
رضی اللہ عنہ نے خود پڑھائی اور خود حضرت سیدنا شیر خدا علی رضی اللہ عنہ نے آپکو مصلیٰ
امامت پر کھڑا کیا اور خود انکی اقتداء میں نماز جنازہ ادا کی اس نماز جنازہ سے فقہ کے اس مسئلہ کی طرف
بھی راہنمائی ملتی ہے کہ امامت کا سب سے زیادہ حقدار حاکم وقت ہے اگر وہ حاضر نہ ہو
تو قاضی اور وہ بھی حاضر نہ ہو تو محلے کا امام امامت کرانے کا زیادہ حقدار ہے یہاں
جن روایات میں حضرت علی و عباس رضی اللہ عنہ ْکی روایات میں حضرت صدی کو بھی شامل کیا
گیا ہے اس کی تطبیق یہ ہے کہ کہ حاکم وقت کی موجودگی میں باقی افراد امامت کے اھل نہیں
اور اسوقت کیونکہ صدیق اکبر موجود تھے اس لئیے صدیق اکبر والی روایات کو ترجیح دی جائے
گی(رضوان اللہ علیہم اجمعین)اور رہا یہ مسئلہ کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ناراض تھیں
یا حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ کی خلافت کے حق میں نہیں تھے یا آپ مجبور تھے یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ سیدہ فاطمہ
رضی اللہ تعالی عنہا حضرت ابوبکر رضی اللہ
عنہ سے کیوں ناراض تھیں؟؟
کیا اپنے والد رسول اللہﷺکی حدیث مبارکہ سن کر ناراض
تھیں (نعوذباللہ) ؟؟؟
پوری دنیا کے شیعہ کو چیلنج
ہے کہ وہ یہ الفاظ دیکھا کہ حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ہو کہ "میں
حضرت ابوبکر سے ناراض ہوں" چلینج ہے یہ سب دشمنانِ اسلام اثناء عشری شیعہ ذاکرین
کے جھوٹے من گھڑت افسانے ہیں جو چودہ سو سالوں سے امت مسلمہ کو گمراہ کرنے کے لیے ممبروں
پر رو رو کر سناتے ہیں اور یہ ساری باتیں ان روایات سے باطل ہو جاتی ہیں کہ نماز جنازہ
کے سلسلے میں تو آپ مجبور نہیں تھے بلکہ حضرت ابوبکر رضی عنہ نے حضرت علی رضی اللہ
عنہ کو اپنے اوپر ترجیح دی اس وقت ان کو اختیار تھا کہ آپ چاہتے تو خود امامت کرا سکتے
تھے لیکن انھوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اپنے اوپر ترجیح دی اور یہ کہ انکی
اقتداء میں نماز جنازہ پڑھ کر ان تمام خدشات اور نظریات اور اقوال کو باطل کردیا کہ
آپ ان کو خلیفہ برحق نہیں مانتے تھے آپ مجبوراً ان کی خلافت کو مانتے تھے یا حضرت فاطمہ
رضی اللہ عنہا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے معاذاللہ ناراض تھیں اور انہوں نے حضرت
علی رضی اللہ عنہ کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اطلاع نہ کرنے کا کہا تھا اور حضرت
علی رضی اللہ عنہ نے آپ کو رات کو دفن کر دیا یہ ساری باتیں دشمنانِ اسلام رافضی شیعہ
کی خرافات اور یہ باتیں صحابہ کرام لوگوں کے درمیان اختلافات کو ظاہر کر کے اپنے گھٹیا
مقاصد حاصل کرنے اور لوگوں کے جزبات بھڑکا کر اپنا الو سیدھا کرنے کی کوشش کرتے ہیں
تاکہ صحابہ کرام کو برا بھلا اور مشکوک کر کے اسلام کی جڑیں کھوکھلی کی جائیں ملت جعفریہ
اہل تشیع کا سب سے بڑا یہی مقصد ہے بس،،
اللہ تعالیٰ ان روایات کی
روشنی میں خلفائے راشدین اور اہلبیت اطہار سے محبت کرنے اور اپنا عقیدہ اہلسنت کے مروجہ
قواعد و ضوابط اور نظریات کے مطابق رکھنے کی توفیق عطاء فرمائے آمین ثم آمین
+91
80521 67976
+91
96903 63948
+91
84670 12496
+91
75709 21570
+92
311 2059022
نظر کرم فرمائیں اور خاص کر حوالاجات پر نظر ڈالیں تمام حوالاجات درست ہے یا نہیں
No comments:
Post a Comment