قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ
(القران الکریم/آل عمران ٣١)
ترجمہ کنز القرآن: اے محبوب تم فرما دو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست
رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہو جاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا ۔
حاشیہ : اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ کی محبت کا دعویٰ جب ہی سچا ہو سکتا ہے جب آدمی
سید عالم ﷺ کا منبع ہو اور حضور کی اطاعت اختیار کرے۔ شان نزول
: حضرت ابن عباس رضی
اللہ عنہما سے مردی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم قریش کے پاس ٹھہرے، جنہوں
نے خانہ کعبہ میں بت نصب کئے تھے اور انہیں سجا سجا کر ان کو سجد ہ کر رہے تھے ۔ حضور
ﷺ نے فرمایا، اے گروہ قریش ! خدا کی قسم تم اپنے آباء حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل
علیہم السلام کے دین کے خلاف ہو گئے ۔ قریش نے کہا ہم ان بتوں کو اللہ کی محبت میں
پوجتے ہیں تاکہ یہ ہمیں اللہ سے قریب کریں ۔ اس پر یہ آیتہ کو یمہ نازل ہوئی اور بتایا
گیا کہ محبت الہی کا دعویٰ سید عالم ﷺ کے اتباع و فرمانبرداری کے بغیر قبول نہیں ۔
جو اس دعوے کا ثبوت دنیا چاہے حضور کی غلامی کرے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بت
پرستی کو منع فرمایا تو بت پرستی کرنے والا حضور کا نافرمان اور محبت الہی میں جھوٹا
ہے ۔
غوث
العالم محبوب یزدانی سلطان حضرت مخدوم سید
اشرف جہانگیر سمنانی کچھوچھوی قد س سرہ نے
لطائف اشرفی کے لطیفہ ششم میں اس کی تفسیر پیش کی ہے لیکن اس کے بہت سے مضمرات
مختلف مقامات پر مختلف حالات کے تحت بیان کئے ہیں۔ ہم انہیں زیادہ وضاحت کے ساتھ آسان
طریقہ سے پیش کرنے کی کوشش کریں گے جو سبھی قارئین کے لئے قابل فہم ہو جائے۔ محبت
اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اس لئے یہ قدیم ہے یہ خود اسی آیت میں يحببكم اللہ (اللہ تم سے محبت کرے گا) سے ظاہر ہے ۔ جب اللہ
تعالیٰ محبت کرنے والا ہے یعنی محب ہے تو محبت کا تقاضا ہے کہ اس کا کوئی محبوب ہو
اور یہ صفت یعنی محبت قدیم محبوب کی ذات میں منعکس ہو۔
حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی علیہ الرحمہ فرماتے
ہیں کہ محبت قدیم جذبۂ حقیقت محمدی میں ایسا ہی ہے جیسے مقناطیس کی کشش لوہے میں۔
مقناطیس سے جو لوہا متصل ہو گا اُس میں مقناطیس کی صفت سرایت کر جائے گی، اور پھر
اس دوسرے مقناطیس سے جو لوہا متصل ہو گا اس میں بھی مقناطیس کی صفت آجائے گی، اسی
طرح ہر مقناطیس لوہے سے جو لوہا ملتا جائے گا ان سب میں مقناطیس کی صفت پیدا ہو جائے
گی ۔ روح محمدی ﷺ سب سے پہلے وہ بندہ ہیں
جو حق تعالیٰ سے پہلے سب سے زیادہ قریب ہیں ، اس لئے حق تعالیٰ کی مقناطیسیت ان کی
روح کے اندر سب سے زیادہ جذب ہوئی ہے ۔ اس کے بعد ان کی روح سے سب سے زیادہ جو متصل
ہوا ان کے اندر اسی درجہ حسب استعداد مقناطیسیت جذب ہوتی گئی اور یہ سلسلہ جذب و الجذاب قیامت تک جاری رہے گا
اور اس طرح مرید اور مراد کا سلسلہ قائم رہے گا اور ہر روح اپنی استعداد کے مطابق فیضیاب ہوتی رہے
گی ۔ اسی طرح ہر مرید جو اپنے پیر سے متصل ہوا حسب استعداد وہ بشرط اجازت مراد بھی
ہے ، یعنی جو مرید ہے وہ مراد بھی ہے ، اور یہ متابعت رسول ﷺ کی برکت کے اثر سے ہے۔
جو جتنا زیادہ اتباع رسول ﷺ کرے گا اس کے اندر جاذبیت کا اثر اتنا ہی زیادہ ہو گا
۔ اس سے ظاہر ہے کہ مراد وہی ہے جو پہلے مرید ہو۔ جس کا مراد نہیں وہ مرید نہیں اور
جو مرید نہیں وہ اس جاذبیت کے اثر سے محروم ہے۔ مشائخ کی روح سے مسلسل اتصال کے سبب
مرید کی روح روح پیغمبر ﷺ سے متصل اور فیضیاب ہوتی ہے ۔ اور مریدی کا مقصد بھی یہی
ہے کہ وہ روح پیغمبر ﷺ سے متصل اور مستفید ہو کیوں کہ وہی تمام مریدوں کے مراد اعظم
ہیں ۔ وہ مل گئے تو سب مل گیا ، وہ نہ ملے تو کچھ نہ ملا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہر
مرید کا سلسلہ اپنے مرادا عظم سے اس طرح ملتا ہو کہ وہ درمیان میں کہیں سے منقطع نہ
ہو اگر وہ درمیان میں کہیں سے منقطع ہو گیا تو سلسلہ کی برکت سے محروم ہو جائے گا
، اس میں وہ اثر جاذبیت پیدا نہ ہو سکے گی جس طرح ایک مقناطیس سے ملنے کے بعد دوسرے
لوہے میں بھی مقناطیسیت پیدا ہو جاتی ہے۔ اس مقناطیسیت کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے ارادے
کو اپنی مراد کے ارادے کے تابع بنا کے یعنی خود کو ادارے سے خالی کر لے اور مراد کے
آگے ایسا ہو جائے جسے غسال کے سامنے مردہ ۔ جب اس کا دل اپنے ہر ا را دے سے خالی ہو
جائے گا تو وہ محبت الہی کا خزینہ بن جائے گا اور اپنی استعداد کے مطابق اس کے اندر
مقناطیسیت پیدا ہو جائے گی لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ اس کی مراد یعنی اس کا شیخ
خود اپنے شیخ سے محبت الہی کی میراث پائے ہوئے ہو اور محبوبیت کے درجہ تک پہونچ چکا
ہو ۔ اگر کوئی شخص کتنا ہی بڑا عالم ، عابد اور زاہد ہو لیکن خود مرید نہ ہو تو وہ
فیض رسانی کے اثر سے محروم رہے گا کیونکہ وہ مراد اعظم رسول اکرم ﷺ کی روح سے فیضیاب
نہ ہو سکے گا ، اور روح مراد اعظم کی برکت کے اثر کے بغیر فیضیاب او رفیض رساں ہونا
ممکن نہیں ۔ اسی طرح اگر کوئی شیخ کامل نہ ہو لیکن مرید ہو اور اس کا سلسلہ ارادت
روح رسول اللہ ﷺ سے سلسلہ بسلسلہ ملتا ہو تو اس کی روح خود اپنے مراد اعظم علیہ السلام
سے مستفید ہوگی اور دوسروں کو بھی فیض پہونچائے گی۔ دنیا میں جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ
عام طور سے اسباب کے تابع ہے لیکن اس کا مسبب صرف اللہ تعالیٰ ہے اسلئے خلقت میں بھی
جسم روح اور اس کے تمام خصائص اسباب کے تابع ہیں محبت جو انسان کی فطرت میں داخل ہے
یہ بھی پیدائشی اور فطری ہے اس لئے بچے بہت جلد اپنی ماں سے محبت کرنے لگتا ہے اس
کی وجہ ماں کی صفت رحمت ہے جو خالق ہی کا عطیہ ہے اور رحمت بھی اسی خالق کی صفت ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ محبت کا رحمت سے خاص تعلق ہے کیونکہ جذب محبت بغیر صفت رحمت کے
نہیں ہو سکتی ۔ چونکہ رحمت اور محبت دونوں اللہ تعالی کی صفات ہیں اس لئے وہی سب سے
زیادہ رحمت والا اور وہی سب سے زیادہ محبت کرنے والا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ سب
سے زیادہ محبت کا مستحق خالق کائنات ہے جو بے مثل ہے۔ اس لئے صرف وہی معبود ہے۔
ترجمہ:
حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی علیہ الرحمہ نقل فرماتے ہیں کہ اسباب محبت پانچ ہیں ۔ اول: اپنے نفس کے وجود و بقا کی محبت ، اور ہر شخص کو یہ معلوم ہے کہ وہ اپنے وجود
کے بقا کا طالب ہے اور سبھی اپنے وجود کے بقا کے لئے نفع کے حصول اور مضرت کے دفع
کا اہتمام کرتے ہیں ، چونکہ وجود و بقا کی محبت انسانی ضرورت ہے تو اس کے باقی رکھنے
والے اور اس موجد کی محبت بطریق اولی ضروری ہے۔یہ کتنی عجیب بات ہے کہ کوئی گرمی سے
بچنے کیلئے درخت کے سایہ کو دوست رکھے اور درخت جس سے سایہ کا قیام ہے اس کو دوست
نہ رکھے اس لئے کہ یہ خود بے خبر ہےاور اس میں شک نہیں کہ جاہل حق تعالیٰ کو دوست
نہیں رکھتا کہ اس کی محبت کا ثمرہ خود اس کی محبت ہی ہے۔ دوم: محبت محسن و منعم ۔ یہ ظاہر ہے کہ منعم و محسن کو پیدا کرنے والا اللہ ہی ہے
، وہی منعم کے دل میں یہ ڈالتا ہے کہ اسکی سعادت اور فلاح دوسروں کوفلاح پہونچانے
میں ہے اور حق تعالیٰ اس کو اس امر میں بے قرار کردیتا ہے پس حضرت حق سبحانہ کی ذات بدرجۂ اولیٰ محبوب
ہے ہر منعم اور محسن سے۔ سوم: صاحب کمال کی محبت ، جب کوئی شخص صفات
کمال میں سے کسی صفت سے موصوف ہوتا ہے۔ مثلا علم سخاوت ، تقوٰی وغیرہ تودہ صفت کمال
محبت کا سبب بن جاتی ہے ، پس وہ ذات جو جمیع کمالات کا منبع ہے اور تمام مکارم اخلاق
اور محامد اوصاف اسکے کمال کے فیض کا ایک شمہ ہے وہ محبت کی بدرجہ اولیٰ مستحق ہے
۔ چہارم : محبت جمیل ہے ، جب یہ عاریتی حسن جو حقیقت میں
عکس و خیال سے زیادہ نہیں ہے جو کہ آب و گل اور گوشت و پوست کے پردہ سے باہر اپنا
جلوہ دکھاتا ہے اور پھر معمولی عارضہ سے متغیر ہو جاتا ہے اور پھر بھی وہ محبوب ہے
پس وہ جمیل علی الاطلاق کہ تمام ممکنات کا جمال اس کے جمال کے انوار کا ایک پر تو
ہے اور جس کا ظہور کسی صورت اور مظہر میں مقید نہیں ہے محبت میں اولیٰ تر ہے ۔پنجم :وہ محبت جو آپس میں ایک دوسرے کی روح کے تعاون کا نتیجہ ہے
خلاصہ یہ ہے کہ ایک روح اپنے سے بلند مرتبہ روح کی طرف صعود کرتی ہے ایسا نہیں ہے
کہ اعلیٰ مرتبہ والی روح نزول کرے ، اسطرح جب ایک روح دوسرے بلند مرتبہ روحانیت سے
مناسبت پیدا کر لیتی ہے اور اسطرح اس میں نزول کے بجائے صعود کی کیفیت پیدا ہو جاتی
ہے تو وہ اپنے سے بر تر مرتبہ والی روح سے محبت کرنے لگتی ہے لیکن محبت کے ان اسباب
کا مسبب تو حق تعالیٰ ہی ہے جس نے بغیر استحقاق اور علت کے بندے کو یہ قربت بخشی تو
محبت میں وہ بدرجہ اولیٰ مستحق ہے۔ (تفسیر اشرفی از فادات عالم
ربانی غوث العالم سید اشرف جہانگیر سمنانی
علیہ الرحمہ/ حضرت سید وحید اشرف اشرفی جیلانی کچھوچھوی حفظہ اللہ صفحہ ٣-١٢)
No comments:
Post a Comment