حضرت سید شاہ احمد وجیہ الدین علوی الحسینی گجراتی احمدآبادی علیہ الرحمہ

 

عرس: 30 محرم

حضرت سید شاہ احمد وجیہ الدین علوی الحسینی گجراتی احمدآبادی علیہ الرحمہ

زبدة المحققین، استاذالمفسرین ، ملک العلماء والمشائخ، استاذ الاساتذہ، حضرت سید شاہ احمد وجیہ الدین علوی الحسینی گجراتی احمدآبادی رحمۃ  اللہ علیہ  کی ذات بابرکات بے شمار صوری و معنوی فضائل کا مجموعہ تھی۔آپ  علیہ الرحمہ کا نسب مبارک حضرت امام سیدنا محمد تقی الجواد رضی اللہ عنہ پر منتہی ہوتا ہے۔ آپ کے جد امجد حضرت سید بہاء الدین مکی قدس اللہ سرہ ہند میں تشریف لائے۔ اس سے قبل آپ کے مورث اعلی ملک یمن مقام حضرموت میں مسکن گزیں تھے۔آپ کا اسم گرامی احمد اور لقب وجیہ الدین ہے اور اسی لقب سے آپ خلق خدا کے درمیان مشہور ہوئے۔ آپ نے کم سنی ہی میں قرآن مجید حفظ کر لیا بعدہ علوم دینیہ کی طرف متوجہ ہوئے۔ علوم عربیہ کی بیشتر کتابیں اپنے چچا حضرت مولانا سید قاضی شمس الدین قدس سرہ سے پڑھیں اور کچھ کتابیں اپنے ماموں شاہ بڑا بن ابو القاسم سے بھی پڑھیں، اس طرح آپ اپنے چچا اور ماموں دونوں کے علمی وارث اور امین بن گئے۔اور کتب احادیث کا درس شیخ محدث ابو البرکات بنبانی عباسی قدس سرہ سے قراءۃ ًاور سماعۃً لیا۔ علاوہ ازیں ملک المحدثین علامہ محمد بن محمد مالکی مصری سے علوم حدیث میں سند تکمیل حاصل کی اور علوم عقلیہ کی تعلیم فاضل اجل حضرت علامہ مولانا عماد الدین طارمی  سے اور معروف خطیب و مفسر قرآن حضرت علامہ مولانا ابو الفضل گاذرونی سے بھی علوم و فنون خصوصا تفسیر کا درس لیا۔اور آپ کا طریقہ تھا کہ دوران درس علامہ گاذرونی جو نکات بیان کرتے تھے، آپ اسے لکھ کر محفوظ کر لیا کرتے تھے اور تفسیر بیضاوی پر علامہ کے حواشی آپ ہی کے ہاتھ کے لکھے ہوئے ہیں۔(حضرت شاہ وجیہ الدین علوی گجراتی شخصیت اور کارنامے، ص 30 تا 31 )

درس و تدریس عرصہ دراز تک علوم و فنون کی تحصیل کے بعد، آپ نے درس و تدریس کی انجمن آراستہ کی اور ایک درسگاہ کی بنیاد رکھی جس کا نام “مدرسہ علویہ” رکھا۔ اس وقت صوبہ گجرات پر سلطان بہادر شاہ کی حکمرانی تھی۔ اخیر عمر میں آپ کا ارادہ ہوا کہ درس و تدریس کا سلسلہ موقوف کر دیں اور مدرسہ کی ادارت اور نظامت سنبھالیں۔مگر سرکار اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غیبی اشارہ فرمایا کہ ہم اکثر تمہارے درس سننے کی خاطر تشریف لاتے ہیں لہذا اس کو ترک نہ کرو۔اس مژدہ جانفزا کو سن کر آپ نے اخیر عمر تک درس جاری رکھا اور مدرسہ کا نام “درس محمدی” رکھا۔اس طرح کامل چونسٹھ سال تک آپ نے درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔ [ روضۃ الاولیاء بیجاپور، ص 110، قدیم نسخہ ]۔آپ علیہ الرحمہ نے درس و تدریس کے ساتھ تصنیف و تالیف کے میدان میں بھی نمایاں اور گراں بہا خدمات انجام دی ہیں۔ اور آپ کے رہوار قلم نے تصانیف کا انمول ذخیرہ چھوڑا ہے۔چوں کہ اس دور میں شرح و حواشی لکھنے کا زیادہ رواج تھا، اس لیے آپ کی بیشتر تصانیف شروح و حواشی ہی کی شکل میں ہیں۔اور بعض کتابیں کسی ایک عنوان پر یا کسی قرآنی آیت کی تشریح و توضیح میں مستقل تصنیف فرمائی ہیں۔سطور ذیل میں آپ کے کچھ رسائل اور شروح و حواشی کے اسما لکھے جاتے ہیں:

رسائل:  (1)رسالہ “جنات عدن”( 2 ) رسالہ “تحقیق والذين آمنوا واتبعتهم ذريتهم: ( 3 ) رسالہ “تحقیق فأما من ثقلت موازينه” ( 4 ) رسالہ الایمان ( 5 ) رسالہ “الترتیب في الصلوة” ( 6 ) رسالہ “الکلام”( 7 ) رسالہ “القلب” ( 8 ) رسالہ “تحقیق ابلیس” ( 9 ) رسالہ ” الانسکریة في جواب الطفقریة” ( 10 ) رسالہ “اوارد وجیه” ( 11 ) رسالہ “في اجوبة اعتراضات الفقیه الحیرتي علی الفاضل الهندي” ( 12 ) رسالہ طریقہ بیعت ( 13 ) رسالہ وقف اعراد( 14 ) رسالہ مختصر التعریف بالمولد الشریف للامام الجزري ( 15 ) رسالہ حقیقت محمدیہ ( 16 ) مکتوبات

 شروح و حواشی(1) حاشیة البیضاوي ( 2 ) حاشیه تفسیر رحامني ( 3 ) شرح نزھة النظر ( 4 ) حاشیه ھدایه ( 5 ) حاشیه شرح وقایه ( 6 ) حاشیه تلویح ( 7 ) حاشیه علی شرح العضد علی مختصر ابن الحاجب ( 8 ) حاشیه علی شرح التفتازاني علی الشرح العضدي( 9 ) حاشیه اصول البزدوي( 10 ) حاشیه شرح مواقف للجرجاني( 11 ) حاشیه شرح مقاصد للتفتازاني ( الف ) باب الهیات ( ب ) سمعیات12 ) حاشیه علی شرح التجرید للقوشجي ( 13 ) حاشیه علی شرح التجرید للاصفهاني ( 14 ) حاشیه علی الحاشیة القدیمة الجلالیة علی شرح التجرید ( 15 ) حاشیه علی شرح العقائد ( 16 ) حاشیه علی حاشیة الخیالي( 17 ) حاشیه علی شرح المطالع ( 18 ) حاشیه علی حاشیة السید علی شرح المطالع ( 19 ) حاشیه علی الزبدہ شرح الشمسیه لعلاء الدین النهروالي ( 20 ) حاشیه علی شرح الشمسیه للقطب الرازي ( 21 ) حاشیه شرح حکمة العین ( 22 ) حاشیه شرح چغمیني ( 23 ) شرح رساله قوشجی ( فارسی )( 24 ) حاشیه علی شرح التذکره للنیسابوري  ( 25 ) حاشیه شرح جامي ( 26 ) شرح الوافي ( 27 ) حاشیه علی المنهل الصافي للدمامیني ( 28 ) شرح ابیات المنهل والوجیز ( 29 ) شرح ارشاد النحو ( 30 ) حاشیه ضریري ( 31 ) شرح ابیات تسهیل لابن مالك ( 32 ) حاشیه شرح تهذیب ( 33 ) شرح تلخیص المفتاح ( 34 ) حاشیه علی المطول للتفتازاني ( 35 ) حاشیه علی مختصر التلخیص للتفتازاني و حاشیه علی شرح الجرجاني ( 36 ) شرح البسیط في الفرائض ( 37 ) حاشیه علی الشفاء للقاضي عیاض المالکي ( 38 ) شرح کلید مخازن ( فارسی ) للشیخ محمد غوث الگوالیری ( 39 ) شرح جام جهاں نما ( فارسی ) ( 40 ) شرح تحفه شاھیه ( 41 ) شرح لوائح جامی ( 42 ) وافیه شرح کافیه( 43 ) حاشیه عضدي( حضرت شاہ وجیہ الدین علوی گجراتی شخصیت اور کارنامے، ص 47 تا 50)

تلامذہ آپ کے درس گاہ بافیض سے بے شمار علما و فضلا نے فیض پایا جو اپنے عہد اور علاقہ کے ممتاز اور باکمال ارباب علم و دانش شمار کیے گئے۔ آپ علیہ الرحمہ 29 محرم الحرام 998 ہجری بروز اتوار صبح صادق کے وقت دار فانی سے راہی ملک بقا ہوئے اور مزار مبارک احمد آباد (گجرات) میں مشہور و معرور اور زیارت گاہ خلائق ہے۔


No comments:

Post a Comment