قدوۃ
السالکین، زبدۃ العارفین بانی سلسلہ عالیہ وارثیہ حضرت حاجی حافظ سید وارث علی شاہ
علیہ الرحمہ
عرس: یکم صفرالمظفر
آپ اپنے وقت کے ولیِ کامل تھے۔آپ "سیروفی
الارض" پر عمل پیرا تھے۔ خوب سیر و سیاحت کی۔ آپ جنگلوں، بیابانوں اور
پہاڑوں میں گھومتے اور قدرتِ خداوندی کا مشاہدہ کرتے رہتے تھے۔ اجمیر شریف سے ممبئی تشریف لے گئے۔ ممبئی سے جدہ گئے۔ 29 شعبان
1253ھ کو مکہ معظمہ پہنچے۔ حج کا فریضہ ادا کرکے مدینہ منورہ حاضر ہوئے۔ کچھ دن
وہاں رہے، پھر رخت سفر باندھا۔ بیت المقدس، دمشق، بیروت، بغداد، کاظمین، نجف اشرف،
کربلائے معلیٰ، ایران، قسطنطنیہ کی سیاحت کرکے اور درویشوں سے مل کر پھر مکہ
پہنچے۔ حج سے فارغ ہوکر افریقہ تشریف لے گئے۔ وطن واپس آکر آپ نے دیکھا کہ مکان
شکستہ ہو چکا ہے اور آپ کے ساز و سامان پر آپ کے رشتہ دار قابض ہیں۔ ان کو یہ
فکر ہوئی شاید آپ جائیداد وغیرہ واپس لیں گے اور ممکن ہے عدالتی کارروائی کریں ان
لوگوں کی بے اعتنائی اور بےرخی سے آپ کو تکلیف پہنچی، آپ نے وطن میں زیادہ قیام
کرنا مناسب نہیں سمجھا اور نہ آپ نے شادی کی پھر آپ ہمیشہ کے لئے جائیداد، مکان، ساز و سامان وغیرہ
سے بےنیاز ہوگئے۔
آپ کے
مریدین نے بہت شہرت پائی، جن میں حضرت بیدم شاہ وارثی، حیرت وارثی، عنبر شاہ
وارثی، حضرت اکمل شاہ وارثی حضرت عزت شاہ وارثی نمایاں حیثیت کے حامل ہیں ، وارثی طریقۂ درویشی انہی سے
منسوب ہے۔ان کے پیروکاروں کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ وہ عام طور پر زرد رنگ کا
احرام باندھتے ہیں ۔سبز، کالا ، کلیجی اور سفید احرام بھی باندھا جاتا ہے۔ آپ نے
سخت مجاہدانہ زندگی گذار کر 30/محرم الحرام 1323ہجری، مطابق 7/اپریل 1905عیسوی میں
ضلع بارہ بنکی کے قصبہ دیوہ شریف میں اس جہانِ فانی سے پردہ فرمایا اور آپ کا
مزار "دیواشریف" ضلع بارہ بنکی یوپی انڈیا میں مرجعِ خلائق ہے۔ ( تذکرہ
اولیائے پاک و ہند۔ انسائیکلوپیڈیا اولیائے کرام،ج:6)
No comments:
Post a Comment