بوہری فرقہ کا آغاز اور افکار و نظریات


 امام جعفر صادق رحمۃ اللّٰہ علیہ کے کئی بیٹے تھے جن میں سب سے بڑے حضرت اسماعیل رحمۃ اللّٰہ علیہ تھے۔آپ رحمۃ اللّٰہ علیہ کے زمانے میں ہی کچھ لوگوں نے تصوّر کرنا شروع کر دیا تھا کہ ان کے بعد حضرت اسماعیل رحمۃ اللّٰہ علیہ ہی امام ہوں گے لیکن حضرت اسماعیل رحمۃ اللّٰہ علیہ کی وفات امام جعفر صادق رحمۃ اللّٰہ کی زندگی میں ہی ہو گئی۔

جب امام جعفر صادق رحمۃ اللّٰہ علیہ کی شہادت ہوئی تو ان کی وصیّت کے مطابق اکثر لوگوں نے امام موسیٰ کاظم رحمۃ اللّٰہ علیہ کو امام مان لیا لیکن ایک جماعت نے کہا کہ اسماعیل بڑے بیٹے تھے،اب وہ نہیں تو ان کی اولاد میں امامت رہنی چاہیے ، یہ لوگ "اسماعیلی" کہلائے۔اس وقت تک یہ باعمل قسم کے شیعہ تھے لیکن اثنا عشری نہ تھے۔

جن لوگوں نے امام جعفر صادق رحمۃ اللّٰہ علیہ کی شہادت کے بعد امامت کو حضرت اسماعیل رحمۃ اللّٰہ علیہ کی نسل میں مان لیا تو آگے چل کر ایک وقت آیا جب ان اسماعیل کی اولاد میں سے ایک شخص مہدی کو مصر میں خلافت ملی جہاں اس نے "خلافت فاطمی" کی بنیاد رکھی۔ایک نسل میں ان کے ہاں خلافت پر جھگڑا ہوا،مستعلی اور نزار دو بھائی تھے،مستعلی کو خلافت ملی لیکن لوگوں میں دو گروہ ہو گئے،ایک نے مستعلی کو امام مان لیا اور ایک گروہ نے نزار کو مان لیا۔مستعلی کو ماننے والوں کو مستعلیہ کہا جاتا ہے جو آج کل کے" بوہری" ہیں اور نزار کے ماننے والوں کو نزاریہ کہا جاتا ہے جو آجکل کے "آغا خانی" ہیں۔

دوسری طرف بوہریوں کی خلافت ایک طویل عرصے تک مصر میں رہی لیکن صلیبی جنگوں کے زمانے میں سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے پے در پے حملوں کے بعد اس شیعہ اسماعیلی حکومت کو ختم کر دیا۔جب مصر میں بوہریوں کی امامت ختم ہوئی تو انہوں نے ہندوستان و یمن کو اپنا مرکز بنالیا،ان کی امامت کا سلسلہ خلافت فاطمی کے ختم ہوتے ہی ختم ہو چکا ہے،البتہ ان کے ہاں"داعیوں" کا سلسلہ جاری ہے،موجودہ دور میں برھان الدّین ان کے داعی ہیں جن کا انتقال پچھلے دنوں ہوا۔آگے چل کر بوہریوں کے ہاں بھی دو فرقے ہوئے۔ (1)داؤدی           (2) سلیمانی

داؤدی بوہروں میں اختلافات ہوتے رہے ہیں ۔ جن کی وجہ سے کئی اور گروہ بنتے گئے جیسے علوی بوہرہ، قطبی بوہرہ اور ہیبتی بوہرہ وغیرہ یمن مین سلیمانیوں کی اکثریت ہے اور پاکستان و بھارت میں داؤدیوں کی ہے۔ گجرات کی اسلامی سلطنت کے زمانے میں بوہرہ جماعت کے کچھ لوگ مذہب چھوڑ کر سنی ہو گئے اور صغیری بوہرہ کہلائے۔ ان لوگوں کے مذہبی رہنما ’’ملا جی‘‘ کہلاتے ہیں۔

محمد برہان الدین بن طاہر سیف الدین جن کو ان کے والد نے 19 سال کی عمر میں 1934ء میں 52 واں داعی مطلق مقرر کیا تھا 14 جنوری 2014 ء کو وفات پا گئے ان کے بعد ان کے فرزند مفضل سیف الدین موجودہ 53 ویں داعی مطلق ہیں۔ داؤدی بوہروں کی آبادی کے بارے میں صحیح معلومات نہیں ہیں تاہم ہندوستان میں تقریباً دو لاکھ دس ہزار بوہرے رہتے ہیں بعض تخمینوں کے مطابق عالمی سطح پر بوہروں کی تعداد پانچ لاکھ بتائی جاتی ہے، داودی بوہرے ہندوستان ،پاکستان، یمن،سری لنکا مشرق بعید اور خلیج فارس کے جنوبی علاقوں میں بھی بستے ہیں۔ البتہ ان ملکوں میں داودی بوہروں کی تعداد میں کمی آ رہی ہے ۔

ان کا اختلاف محض علاقائی ہے،داؤدی بوہریوں کے داعی ہندوستانی ہوتے ہیں اور گجرات کے شہر سورت میں ان کا مرکز ہے جبکہ سلیمانی بوہریوں کے داعی یمن میں ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں ہندوستان کے جنوبی علاقوں میں بھی ہیں،پاکستان میں سلیمانی بوہریوں کی ایک قلیل تعداد ہے،داؤدی بوہری کے لوگ بہت آرام سے پہچانے جاتے ہیں کیونکہ ان کے مرد مخصوص ٹولی اور لباس پہنتے ہیں اور ان کی عورتیں ایک مخصوص حجاب کرتی ہیں جبکہ سلیمانی بوہری پہچانے نہیں جاتے کیونکہ ان کا کوئی مخصوص لباس نہیں ہے۔

داؤدی بوہروں میں ایک اختلاف 29 ویں داعی مطلق عبد الطیب زکی الدین (1030 تا 1041) کے بارے علی بن ابراہیم نے کیا اور خود کو داعی مطلق بننے کا حقدار ٹھہرایا اور علوی بوہرہ فرقہ بنا لیا ان کا مرکز گجرات کا علاقہ برودہ ہے۔ یہ لوگ داؤدی بوہروں سے شادی بیاہ نہیں کرتے۔ داؤدی بوہرہ کے اس بہت چھوٹے گروہ علوی بوہرہ کے 1980 ء سے موجودہ 44 ویں داعی مطلق ابو حاتم طیب ضیاء الدین صاحب ہیں۔علوی بوہرہ کی وب گاہ علوی بوہرہ میں سے ایک گروہ ناگوشہ بوہرہ یا ناگوشئہ بوہرہ بھی کہلاتا ہے جو سبزی خور ہیں اور گوشت نہیں کھاتے اور دیگر ہندی رسوم پر عمل کرتے ہیں اور اسلام کے منکر ہو گئے ہیں۔

سلیمانی داعی مطلق نے جو یمنی قبیلے بنویام کے مَکرمی خاندان سے تھے، یمن کے شمال مشرقی علاقے نجران میں ہمیشہ سے اپنی رہائش گاہ قائم رکھی یہ علاقہ 1930 ء میں، سعودی عرب کے جنوبی حصے میں باقاعدہ شامل ہو گیا۔ سلیمانی بوہرہ کے موجودہ 49 ویں داعی مطلق 1976ء سے شرفی حسین بن حسن مکرمی ہیں۔ سلیمانی بوہروں کی آبادی فی الحال 000، 70 سے زیادہ نہیں ہے۔ ان میں سے اکثر یمن میں رہائش پزیر ہیں۔ بر صغیر کے سلیمانی چند ہزار افراد ہیں جو زیادہ تر ممبئی، برودا، احمدآباد و حیدرآباد دکن میں رہتے ہیں؛ سلیمانی بوہرہ کے لوگ تھوڑی سی تعداد میں پاکستان میں مقیم ہیں۔

"بوہری فرقہ کے عقائد و نظریات"

واضح رہے کہ"بوہری فرقہ" کا نظریاتی تعلق شیعوں کے اسماعیلی مستعلوی فرقہ سے ہے جس کا مرکز کتب تاریخ کے مطابق ۹۴۶ھ میں یمن سے احمد آباد(گجرات) ہندوستان منتقل ہوا جہاں وہ اپنے مخصوص کاروبار کی وجہ سے جو کہ تجارت ہے "بوہرے" کہلائے۔(تاریخ فاطمیین مصر صفحہ :۳۷۲‘ط:میرمحمد کراچی)

اس فرقہ کے ساتھ مسلمانوں کا اختلاف فقط فروعی مسائل ہی میں نہیں بلکہ بہت سے بنیادی عقائد میں بھی ہے۔

ایک عرصہ قبل بوہریوں میں چھر یوں اور زنجیروں سے ماتم ہوتا تھا مگر بعد میں بوہریوں کے موجودہ پیر برہان الدین نے چھریوں اور زنجیروں سے ماتم کرنے سے منع کردیا اُس نے اپنے مریدین سے صرف ہاتھ سے ماتم کرنے کا حکم جاری کیالہٰذا وہ اب ہاتھ سے ماتم کرتے ہیں ۔

بوہری فرقہ بھی شیعوں کی طرح حضرت ابو بکر و عمر و عثمان و معاویہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو نہیں مانتا اور گستاخیاں بھی کرتا ہے ۔شیعوں کی طرح یہ لوگ بھی فجر ،ظہرین اور مغربین پڑھتے ہیں نماز شیعوں کی طرح ہاتھ چھوڑ کر پڑھتے ہیں سجدے میں ٹِکلی نہیں رکھتے ۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ لوگ خلیفۃ الرّسول مانتے ہیں اس کے علاوہ ان کا یہ عقیدہ ہے کہ سرکار ﷺکو Slow Poison یعنی زہر دیا گیا ۔بوہریوں کے نزدیک سیاہ لباس پہننے کی مما نعت ہے سفید لباس ،داڑھی اور مخصوص ٹوپی پہننے کا شدید حکم ہے ۔

بوہریوں کا ایک مخصوص مصری کیلنڈر ہوتاہے جسکے حساب سے وہ سارا سال گزارتے ہیں دنیا میں ان کی تعداد کچھ زیادہ نہیں یہ مخصوص اور اقلیتی فرقہ ہے ۔

اب ہم آپ کے سامنے بوہرہ پیر برہان الدین کے کچھ کفریہ کلما ت پیش کرتے ہیں ۔

عبارت نمبر 1:گجراتی زبان میں شائع کردہ اپنے ایک کتا بچے میں کہا ہے کہ سورہ النجم میں ’’والنجم اذاھوی‘‘کہہ کر اللہ تعالیٰ نے داعی سیدنا نجم الدین کی بزرگی اور عظمت کسی قسم کھائی ہے اور انہیں نجم کا لقب دیا ہے واضح رہے کہ نجم الدین موجودہ پیشوا برھان الدین کا دادا تھا ۔(معاذاللہ) مزید لکھا ہے کہ یہ آیت قدجاء کم برھان من ربکم وانزلنا الیکم نورا مبینا ۔ پیر بُرھا ن الدین کے لئے ہے ۔(معاذاللہ )

عبارت نمبر 2:مجھے حضرت محمد ﷺکے اختیارات حاصل ہیں اور میں بھی شارع ہونے کے وہ جملہ اختیارات رکھتا ہوں جو رسول اللہ ﷺکو حاصل تھے ۔(معاذاللہ )

عبارت نمبر 3:برھان الدین لکھتا ہے کہ میں اختیار کلّی رکھتا ہوں کہ قرآنِ مجید کے احکام و تعلیمات اور شریعت کے اصول و قوانین میں جب اور جس وقت چاہوں ترمیم کرتا رہوں ۔(معاذاللہ )

عبارت نمبر 4:میرے تمام ماننے والے میرے ادنیٰ غلام ہیں اور اُن کے جان و مال ،ان کی پسند نا پسند اور ان کی جملہ مرضیات کا مالک میں اور صرف میں ہوں ۔

عبارت نمبر 5:میں خیرات و صدقات کے نام سے وصول ہو نیوالی جملہ اقوم کو خود اپنی ذات اور اپنے خاندان پر خرچ کرنے کا بلا شر کت غیر مجازہوں اورکسی کو یہ حق نہیں کہ وہ اس سلسلے میں مجھ سے کچھ پوچھے کوئی سوال کرے ۔

عبارت نمبر 6:میں کسی بھی ملک میں حکومت کے اندر حکومت ہوں اور میرا حکم ہر ملک میں میرے ماننے والوں کے لئے اس ملک کے مرو جہ قانون سے افضل ہے جسکی پابندی ضروری ہے خواہ وہ میرا حکم اس ملک کے آئین و قانون کے منافی ہی کیوں نہ ہو ۔

عبارت نمبر7:میں تمام مساجد ،قبرستان خیرات و زکوٰۃ اور بیت المال کا مطلق مالک ہوں بلکہ نیکی بھی میری ملکیت ہے میری طاقت و قدرت عظیم اور مطلق ہے میری اجازت اور میرے آگے سر تسلیم کئے بغیر کسی کا بھی کوئی نیک عمل بارگاہ ِ خداوندی میں قابل قبول نہیں۔

عبارت نمبر8:جس کسی کو میں مجاز نہیں ہوا اس کی نمازیں بھی فضول ہیں ۔میری اجازت کے بغیر حج درست نہیں ۔ یہ تمام عبارات کتاب :’’کیا یہ لوگ مسلمان ہیں ؟‘‘جسے اعیان جماعت کے ارکان نے مرتب کی ہے سے لی گئی ہیں ۔یہ لوگ مسلمانوں کو مُسلَہ کہہ کر یاد کرتے اورپکارتے ہیں اوراپنے آپ کو مومن کہتے ہیں ۔

ذیل میں ان کے عقائد ونظریات درج کئے جاتے ہیں۔

کلینڈر: بوہروں کا کہنا ہے کہ سال کے بارہ مہنے ہوتے ہیں ۔ جن میں چھ کامل اور چھ ناقص ہوتے ہین ۔ پس عقل کی رو سے واجب ہے کہ سال کی ابتدا اور انتہا نقصان اور کمال پر ہوئی ۔ پس سال کا پہلا مہینہ محرم سے شروع ہوتا اس لیے وہ کامل ٹہرا اور دوسرا مہنہ صفر ناقص ٹہرا ۔ اس طرح ربیع اول کامل اور ربیع لثانی ناقص ، جمادعی الاول کامل جمادی الاخر ناقص ، ماہ رجب کام اور شعبان ناقص ، ماہ رمضان کامل اور شوال ناقص اور ذیقعہ کامل اور ذی الحج ناقص ۔ ہر کام ماہ تیس دن کا اور ناقص انتیس دن کا ہوتا ہے ۔ اس طرح ان کا کلینڈر ہجری کلینڈر سے فرق ہوتا ۔ جب کہ یہ کاروباری حساب و کتاب ہندی ماہ اور تاریخوں کے کرتے ہیں ۔ (ویکیپیڈیا آزاد دائرۃ المعارف)

نمازیں: ان کی نمازیں شیعوں کے برعکس اول وقت ہوتی ہیں ۔ دن میں تین مرتبہ نمازیں پڑھتے ہیں ۔ پہلی فجر ، دوسری بار ظہر کی ساڑھے بارہ کے لگ بھگ اور ظہر کی نماز پڑھ کر وہیں بیٹھے رہتے ہیں اور آدھا گھنٹہ کے بعد عصر کی پڑھ لیتے ہیں ۔ اس طرح مغرب کی نماز پڑھنے کے کچھ دیر بعد عشاء کی نماز پڑھ لیتے ہیں ۔ مسجد میں عورتوں کے لیے ایک حصہ مخصوص ہوتا ہے ۔ پیش امام بطور عامل اور قاضی کے داعی کی طرف سے ہر بستی میں مقرر ہوتے ہیں اور اس کی معرفت سالانہ نذرانہ ایک اپنے مقدر کے مطابق اور زکوۃ داعی کو بھیجتا ہے ۔

بوہروں کے نزدیک رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت کی مودت و محبت رکن اسلام ہے یہ لوگ قسم میثاق میں جس پر تمام بوہرے متفق ہیں کہتے ہیں کہ " صدق دل سے امام ابو القاسم امیر المومنین کی جوتمہارے امام ہیں پیروی کریں " ان کے فرائض پنجگانہ اس طرح ہیں۔ان کی اذان شیعہ اثنا عشری کی طرح ہے لیکن وضو کا طریقہ اہل سنت کی طرح ہے ،بوہرے نمازکے دوران میں ہاتھہ کھلے رکھتے ہیں نمازکے لیے ان کا لباس مخصوص ہوتا ہے یہ لوگ تین وقت نمازپڑھتے ہیں اور ہر نماز کے اختتام پر رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ،حضرت علی بن ابی طالب اور حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا اور اپنے اکیس اماموں کا نام لیتے ہیں ۔ بوہرے نمازجمعہ کے قائل نہیں ہیں ان کی دعاؤں کی کتاب کانامصحیفۃ الصلاۃ "ہے بوہروں کے نزدیک شفاعت کا نہایت اہم مقام ہے ۔

بوہروں نماز کے کپڑے علحید رکھتے ہیں ۔ مگر جب کپڑے دستیاب نہ ہوں تو پہنے ہوئے کپڑوں میں نماز پڑھ لیتے ہیں ۔ (ویکیپیڈیا آزاد دائرۃ المعارف)

روزے و حج:یہ عموماً رمضان سے ایک یا دون دن پہلے ان کے روضہ شروع ہوجاتے ہیں اور عید بھی ان کی پہلے ہوتی ہے ۔ اس طرح یہ عشرہ محرم کے مراسم اور حج بھی چند دن پہلے کرلیتے ہیں ۔ کمال تو یہ ہے کہ اس خاموشی سے حج کرلیتے ہیں کہ کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی ہے ۔ بوہروں کا روزہ تیس دنوں کا ماہ رمضان میں ہوتا ہے یہ لوگ ہر مہینے کی پہلی اور آخری تاریخ اور ہر جمعرات کوبھی روزہ رکھتے ہيں اس کے علاوہ ہر مہینے کے وسطی بدھ کوبھی روزہ رکھتے ہیں۔ روزے اہل سنت سے چند روزقبل شروع کرکے چند روز پہلے ہی تمام کرتے ہیں ۔ (ویکیپیڈیا آزاد دائرۃ المعارف)

زکوۃ: ہربوہرے پر زکوۃ واجب ہے ان پر چھ طرح کی زکاتیں واجب ہیں جو حسب ذیل ہیں۔ 1.زکوۃ صلات ؛اس کی مقدار چار آنہ ہے اور ہرفرد پرواجب ہے2. زکوۃ فطرہ اس کی مقدار بھی چار آنہ ہے۔ 3.  زکوۃ حق النفس یہ زکا ت عروج ارواح اموات ہے جس کی مقدار ایک سو انیس روپے ہے۔ 4.جق نکاح ؛یہ زکوۃ حق ازدواج کے طور پر اداکی جاتی ہے اس کی مقدار گیارہ روپے ہے۔ 5. زکوۃ سلامی سیدنا؛ یہ داعی مطلق کے لیے نقدی تحفے ہیں۔ 6 .زکوۃ دعوت؛یہ زکوۃ دعوت کے اخراجات پورے کرنے کے لیے ادا کی جاتی ہے اور تین طرح کی ہے۔ الف ؛آمدنی پر ٹیکس جو تاجر برادری سے لی جاتی ہے۔ ب ؛خمس جو متوقع آمدنی کا ایک بٹا پانچ حصہ ہوتا ہے جیسے وراثت میں ملنے والے اموال۔ ج ؛ وہ لوگ جو بیماری کی وجہ سے نماز و روزہ ادا نہیں کرسکتے ان پر بھی یہ زکوۃ واجب ہے۔ 7۔ نذر مقام ،امام غائب کی نذر کے لے جو پیسہ رکھا جاتا ہے اسے کہتے ہیں ۔

زیارت: بوہروں کے نزدیک استطاعت رکھنے والون پر حج واجب ہے اور اس فریضے کے لیے ضروری ہے کہ قسم میثاق کھائی جائے یہ لوگ مکہ کے علاوہ کربلا کی زیارت کو بھی جاتے ہيں اور کچھ لوگ نجف و قاہرہ بھی جاتے ہيں ہندوستان میں بوہروں کی مشہور زیارتگاہیں احمد آباد ،سورت ،جام نگر، مانڈوی، اجین اور ب رہانپور میں ہیں۔ بوہروں کے مشاہد اولیاء میں ان مقامات کانام لیا جا سکتا ہے مقبرہ جندابائی ممبئی ،مقبرہ نتا بائی ،مقبرہ مولانا وحید بائی ،مقبرہ مولانا نور الدین ممبئی۔ بوہروں کے نزدیک محرم کے تابوتوں اور تعزیوں کے لیے نذر کرنا شرک ہے لیکن ان کے نزدیک اولیاء خدا کے مزارت پرنذر کرنا جائز ہے اس علاوہ وہ اور بھی نذورات کے قائل ہیں جیسے معین دنوں میں نذر کا روزہ رکھنا ،بعض دعائيں باربار پڑھنا، کھانا کھلانا ،مذہبی مقامات تعمیرکرنا اور وقف کرنا۔ بوہروں پر عہد اولیاء کی بناپر جہاد واجب ہے اور جہاد ہر زمانے میں جب بھی امام یا داعی ضروری سمجھیں واجب ہے اور اس میں خلوص سے شرکت ضروری ہے ۔

معاشرتی زندگی: بوہرے علما بات چیت اور اور خط کتابت کے لیے عربی کو ترجیع دیتے ہیں لیکن عام پیروکار اردو اور گجراتی استعمال کرتے ہیں ۔ بوہرے مذہبی بحث سے بچتے ہیں اور اپنے مذہب کی کتابیں کسی غیر مذہب کو نہیں دیکھاتے ہیں ۔ پہلے یہ ڈارھی رکھتے تھے مگر اب کچھ رکھتے اور کچھ منڈاتے ہیں ۔ یہ پہلے نہ مسکرات یعنی تمباکو پینا یا کھانا یا سونگھنے اور سگریٹ سے پرہیز کرتے تھے ، مگر ان میں بھی مسکرات کا استعمال بڑھ گیا ہے ۔ یہ دوسرے مذہبوں سے الگ کسی ایک جگہ رہاہش اختیار کرتے ہیں اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ دوسرے مذہب کے لوگ اس علاقہ میں نہیں رہیں ۔ ان کی مسجد اور قبرستان علحیدہ ہوتے ہیں ۔ اس طرح یہ اپنی سماجی تقریب شادی بیاہ ، غمی وغیرہ میں غیر بوہروں کو شریک نہیں کرتے ہیں ۔ ناچ وغیرہ تو نہیں البتہ بینڈ بجواتے ہیں ۔ اس طرح دوسرے مسلمانوں میں شادی بیاہ نہیں کرتے ہیں ۔ عاشورہ کے دن کسی ہل سنت کو اپنی مجلس میں شریک نہیں کرتے ہیں اور اس کا خاص خیال رکھا جاتا ہے ۔ ہاں دوسرے دنوں میں شریک ہونے دیتے ہیں ۔ دوسرے شیعوں کی طرح صرف پر والی مچھلی وہ بھی زندہ لاکر اس کو ذبح کر کھاتے ہیں اس کے لیے ملا جی کی نصیحت ہے۔

مردار مچھے نکھاوَ منا چھ مردار کھانا ڈہیرا نبا چھ

یعنی مردار مچھلی نہیں کھاوَ اس کا کھانا منع ہے ۔ کیوں کہ مردار مچھلی کھانے آدمی بھینگا ہوجاتا ہے ۔  (ویکیپیڈیا آزاد دائرۃ المعارف)

لباس: بوہروں کا لباس عام طور پر عمامہ اور لمبی اچکن ہوتاہے۔ سفید رنگ خاص بوہروں کا ہے اور یہ رنگ انھوں نے عباسیوں کی ضد میں جن کا رنگ سیاہ تھا اختیار کیا تھا ۔ بوہرہ عورتیں عام لباس پہنتی ہیں اور باہر نکلنتے وقت لباس پر ایک اسکرٹ نما لہنگا اور اوپر آدھا برقع پہنتی ہیں ۔ مگر پردہ نہیں کرتی ہیں ۔ (ویکیپیڈیا آزاد دائرۃ المعارف)

طلاق: بوہروں میں طلاق اور عورتوں میں نکاح ثانی کا دستور بھی ہے ۔ گجرات کی بعض تاریخی کتب کے مطابق طلاق کے لیے شوہر خاموشی سے بیوی کے دوپٹے میں پانچ روپیے باندھ دیتا ہے ۔ عورت جب روپیے دیکھتی ہے تو سمجھ جاتی ہے کہ شوہر نے اسے طلاق دے دی ہے اور وہ اپنے ماں باپ کے گھر چلی جاتا ہے ۔ یہ آپس میں کتنا ہی اختلاف کریں مگر دوسروں کے مقابلے یکجا ہوجاتے ہیں ۔ (ویکیپیڈیا آزاد دائرۃ المعارف)

تدفین: بوہرے مردے کو دفن کرتے ہیں تو قبر میں تختہ نہیں دیتے ہیں تھوڑی سی مٹی صاف کرکے اس پہلے میت کے اوپر ڈالتے ہیں اور اسے ہاتھوں سے خوب دباتے ہیں ۔ بعد اس کے دوسرے لوگ مٹی دیتے ہیں اور دستور یہ ہے کہ جو قبر ہوتی ہے اسی کی مٹی دالی جاتی ہے ۔ دوسری جگہ کی مٹی کو ڈالنا گناہ سمجھتے ہیں ۔ قبر میں مٹی بھر کر اس کو ہموار کرتے ہیں اور پانی کا چھڑکاوَ کرکے اس پر پھول ڈالتے ہیں ۔ اس کے بعد تمام شرکاء قبر کو درمیان سے بوسہ دیتے ہیں ۔ اس کے بعد میت کے وارث سے سب بغل گیر ہوتے ہیں اور کسی قسم کی تعزیت نہیں کرتے ہیں ۔ عامل میت کے ساتھ نہیں جاتا ہے ۔ بلکہ پہلے کسی سواری کے ذریعہ قبرستان پہنچ جاتا ہے ۔ یہ غسل و کفن کے بعد مردے کے ہاتھ ایک صحیفہ رکھتے ہیں ۔ جس میں میت کی عقائد کی عامل کی طرف تصدیق ، سیدنا و مولانا کے بعد داعی کا نام اور ماذونہ سیدی کے بعد مکاسر کا نام درج ہوتا ہے ۔ (ویکیپیڈیا آزاد دائرۃ المعارف)

بوہرے اور ہندو: بوہرے ہندوّں سے سخت پرہیز کرتے ہیں لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں کچھ باتیں ہندووَں کی باقی ہیں ۔ مثلاً ان کی عورتیں پردہ نہیں کرتی ہیں ۔ یہ سود لیتے اور دیتے ہیں ۔ دیوالی میں ہندووَں سے زیادہ خوشی اور روشنی سے زیادہ سامان کرتے ہیں ۔ اسی رات میں کھاتہ کی پرانی کتاب کو بند کردیتے ہیں اور نئی کھاتے کی کتاب شروع کرتے ہیں ۔ ان کا عامل ہر دکان پر جاکر کھاتے کی نئی کتاب پر بسم اللہ لکھتا ہے اور دکان دار کچھ اس کی نذر کرتا ہے ۔ اس لیے بہت سے انگریزوں کا خیال ہے کہ بوہرے ہندووَں کے رسم و عقیدے پر اب تک چلتے ہیں ۔ مگر عجیب بات ہے یہ کہ ہندووَں کے یہاں کھانے اور پانی تک پینے سے بچتے ہیں ۔ ان کے ایک داعی ملا لقمان جی نے ان کی چالیس سکھاؤں میں یوں نصیحت کی ہے ۔

ہندو نے ہاتھ سرنکھا جو                   مومن تھی نے کافر نتھا جو

یعنی ہندو کے ہاتھ کی مٹھائی مت کھائیوں ۔ مومن ہوکر کافر مت بنیو ۔ اگر ہندو دھوبی کپڑا لاتا ہے تو اسے پہلے پاک کرتے ہیں ۔ (ویکیپیڈیا آزاد دائرۃ المعارف)

لڑکی کا ختنہ: بوہروں میں لڑکی کا بھی ختنہ ہوتا ہے اور یہ ایک بوڑھی عورت کرتی ہے جو مکہ ، مدینہ اور کربلا معلی ہوکر آئی ہو اور حضرت فاطمہ مزار کو بوسہ دے چکی ہو ۔ اس ختنہ کی تقریب میں مرد شریک نہیں ہوتے ہیں ۔ یہ ختنہ پانچ سے نو سال کی عمر میں کیا جاتا ہے ، ایک چھوٹے سے نشتر سے گہیوں کے دانے کے برابر شگاف لگایا جاتا ہے ۔ (ویکیپیڈیا آزاد دائرۃ المعارف)

(1)توحید: مسلمانوں کا اجماعی عقیدہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ ایک ہے،ذات وصفات میں اس کا کوئی شریک نہیں مگر اسماعیلیوں کے ہاں اللّٰہ تعالیٰ کو کسی صفت سے موصوف نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ کی تمام صفات درحقیقت ائمہ کی صفات ہیں اللّٰہ تعالیٰ کے لئے کسی صفت کا اقرار کرنا شرک ہے چنانچہ ڈاکٹر زاہد علی صاحب اپنی کتاب ”تاریخ فاطمیین مصر“میں رقمطراز ہیں:"مبدع سبحانہ وتعالیٰ ایک ہے اور وہ کسی صفت یا نعت سے موصوف ومنعوت نہیں کیا جاسکتا،اسے کسی صفت سے موصوف کرنا گویا اس کی ذات میں کثرت ثابت کرنا ہے جو شرک کا مترادف ہے"۔(تاریخ فاطمیین مصر صفحہ :۵۳۹‘ نیز ”الملل والنحل“ للشہر ستانی: ۲۲۹‘ ط:بیروت)

(2) کلمہ: مسلمانوں کا کلمہ "لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ (ﷺ)” ہے مگراسماعیلی بوہریوں کا کلمہ " لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ  مولانا علی ولی اللّٰہ وصی رسول اللّٰہ" ہے۔(اسماعیلیہ صفحہ :۱۲۳‘ط: الرحیم اکیڈمی)

(3)رسالت:مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ حضرات انبیائے کرام علیہم السلام اللہ تعالیٰ کے انتہائی مقرب اور برگزیدہ بندے ہیں،وہ معصوم ہیں ان سے خطا سرزد نہیں ہوسکتی اور نہ ہی مخلوق میں کسی کو ان جیسا مقام حاصل ہے اس کے برعکس اسماعیلیوں کے نزدیک انبیائے کرام سے گناہ بھی سرزد ہو سکتے ہیں اور ان کے ائمہ کا درجہ بھی انبیائے کرام سے بڑھا ہوا ہے،ملاحظہ کریں۔"دور ستر میں امام خدا کے الہام سے حسب ضرورت اپنی جگہ پر اپنے نائبوں کو مقرر کرتا ہے جو "مستودع یعنی انبیاء: کہے جاتے ہیں اور جن میں مشہور آدم،نوح،موسیٰ اور عیسیٰ ہیں"۔(تاریخ فاطمیین مصر صفحہ :۴۹۴)اور جعفر بن منصور الیمن لکھتا ہے:"تمام انبیاء کی حد تنزیل ہے،ان کی شریعتوں میں اختلاف اور شبہ پایا جاتا ہےان سے گناہ صادر ہوئے کیونکہ انہوں نے ایسے مراتب طلب کئے جن کے وہ مستحق نہ تھے،وہ سب غیر معصوم تھے ان میں آنحضرتﷺ بھی شامل ہیں بخلاف اس کے آپ کے وصی مولانا علی اور آپ کی نسل میں جتنے ائمہ ہوئے ان کی حد تاویل ہے جس میں کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا۔(ہمارے اسماعیلی مذہب کی حقیقت اور اس کا نظام‘ صفحہ :۷۰-۷۱ بحوالہ ”تاویل الزکاة“ للسید جعفر بن منصور صفحہ :۱۴۹-۱۵۶)

(4)ختمِ نبوت: مسلمانوں کا اجماعی عقیدہ ہے کہ حضرت محمدﷺ خاتم النبیین ہیں‘آپ کے بعد نہ تو کوئی نیا نبی آئے گا اور نہ ہی کوئی رسول مگر فرقہ اسماعیلیہ کے امام معز (متوفی ۳۶۵ھ) سے منقول ساتویں دعا جسے اسماعیلی شنبہ(ہفتہ) کے روز پڑھتے ہیں اور اسے نہایت متبرک سمجھتے ہیں اس میں امام محمد بن اسماعیل کے متعلق کہا گیا ہے کہ وہ ساتویں امام ہونے کے علاوہ ساتویں وصی،ساتویں ناطق اور ساتویں رسول بھی ہیں،اللّٰہ تعالیٰ نے ان کے قیام سے ”عالم الطبائع“ کو ختم کیا اور (حضرت محمد ﷺ) کی شریعت کو معطل کیا۔(تاریخ فاطمیین مصر صفحہ :۵۴۳)

(5) صحابہ کرام علیہم الرضوان سے بغض و عداوت: مسلمانوں کو یہ عقیدہ ہے کہ پیارے آقاﷺ کے تمام صحابہ کرام پاکباز،سچے،اللّٰہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی اور قطعی جنتی ہیں مگر "اسماعیلیہ"(یعنی بوہری اور آغاخانی) چونکہ "امامیہ" کی ایک شاخ کی حیثیت رکھتا ہے اس لئے اس کے بنیادی عقائد میں صحابہ سے بغض اور ان سے بیزاری کا اظہار کرنا بھی ہے یہاں تک کہ اکابر صحابہ کرام کی تکفیر بھی کرتے ہیں۔علامہ شہرستانی لکھتے ہیں:"ثم ان الامامیة تخطت عن ھذہ الدرجة الی الوقیعة فی کبار الصحابة طعناً وتکفیراً"(الملل والنحل :191،192،ط۔بیروت)

(6)امامت: عمومی طور پر ائمہ سے متعلق ان کے عقائد یہ ہیں:

ان کا درجہ رسول اللّٰہﷺ کے برابر اور دوسرے نبیوں سے بالا ترہوتا ہے۔(اس کی ایک مثال عقیدہ ”رسالت“ کے تحت گذرچکی ہے)

·      امام حرام کو حلال اور حلال کو حرام قرار دے سکتا ہے۔)اسماعیلیہ صفحہ :۴۶-۴۷(

·      امام کو‘ شریعت میں ترمیم وتنسیخ کا اختیار ہے۔)اسماعیلیہ صفحہ :۱۲۱(

·      ائمہ‘خدا کے اوصاف سے موصوف ہوتے ہیں۔)اس کی وضاحت عقیدہ ”توحید“ کے بیان میں ہوچکی ہے(

·      اماموں کو اللہ کی طرف وحی آتی ہے۔)ہمارے اسماعیلی مذہب کی حقیقت صفحہ :۳۵۸(

·      امام معصوم ہوتا ہے اس سے کوئی خطا نہیں ہوسکتی اور نہ ہی وہ کسی چھوٹے یا بڑے گناہ کا قصد و ارادہ کرسکتا ہے۔)ہمارے اسماعیلی مذہب کی حقیقت صفحہ :۵۵۴-۵۵۵ بحوالہ ”تاویل الزکاة“ صفحہ :۱۴۹-۱۵۶(

·      ہرزمانے میں ایک امام کا وجود ضروری ہے،اسی کے وجود کی برکت سے زمین برقرار ہے ورنہ وہ متزلزل ہوجائے۔)تاریخ فاطمیین مصر صفحہ :۳۷۸(

·      امام مذہبی اور سیاسی دونوں حکومتوں کا مالک ہوتا ہے زمین کے ہرحصے پر وہ حکومت کرسکتاہے اس کا فیصلہ آخری ہوتا ہے۔)تاریخ فاطمین مصر صفحہ :۳۷۸(

(7) قرآن پاک:نبی یا رسول کا کام یہ ہے کہ وہ جو بات اس کے دل میں آتی ہے اور بہتر معلوم ہوتی ہے وہ لوگوں کو بتا دیتا ہے اور اس کا نام کلام الٰہی رکھتا ہے تاکہ لوگوں میں یہ قول اثر کر جائے اور وہ اسے مان لیں،نبی کریم ﷺ نے اس کا ظاہر بیان کیا جب کہ حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ نے بہ حیثیت صامت کے اس کا باطن بیان کیا جو مقصود اصلی ہے۔ (اسماعیلیہ صفحہ :۱۲۱(

بوہرے دوسرے شیعہ فرقوں کی طرح قران میں تحریف اور کمی بیشی کے قائل ہیں ۔ ان کے مطابق مصحف عثمانی میں دس سپارے نہیں ہیں ، جن میں اہل بیت کے بارے میں باتیں درج ہیں اور یہ دس سپارے جنابِ امیر کے پاس تھے اور انھوں اس خیال سے نہیں دیے کے اہل بیت کے ذکر کی وجہ سے تلف کردیے جائیں گے ۔ اس کے علاوہ قران میں کئی جگہ تحریف کے قائل ہیں ۔ ان کا کہنا ہے دس پارے نہ ہونے کی صورت میں مصحف عثمانی سے کام نکالا جائے ۔ ان کا خیال ہے کہ یہ دس سپارے بعض خاص خاص شیعہ اکابر کے پاس ہیں ۔ (ویکیپیڈیا  آزاد دائرالمعارف)

ان تمام عقائد کے بعد ظاہر ہے کہ بنیادی اور اصولی مسائل میں اس طرح کے عقائد رکھنا سراسر کفر والحاد ہے اور ایسے عقائد کا حامل شخص یا فرقہ دائرۂ اسلام سے خارج ہے۔اللّٰہ پاک ہمیں ان باطل فرقوں سے محفوظ فرمائے اور ہمیشہ مسلکِ حق اہلسنّت و الجماعت پر ثابت قدم رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ خاتم الانبیاء و المرسلینﷺ 

No comments:

Post a Comment