حضرت سیدنامخدوم شاہ محمد حسین سہروردی علیہ الرحمہ

 

ہندوستان میں بالخصوص شمالی ہند کے مشرقی علاقہ بنگال وبہار میں چشتیہ سلسلہ سے قبل جس سلسلہ کے بزرگان دین نے اسلام کی ترویج واشاعت کا بیڑااٹھایا،ان میں سہروردی سلسلہ کوخاص اہمیت ومقام حاصل ہے،ان اولیائے کرام کی مرہون منت ہندوستان کایہ خطہ اسلام کی روشنی سے منور ہوا،اور مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوا،تاریخ اسلامی بنگالہ کے مطا لعہ سے ظاہرہے کہ اس سلسلہ کے بزرگان کااسلام کی اشاعت وترویج میں خاص الخاص یوگدان رہاہے۔

سلسلہ سہروردیہ کے کچھ بزرگان نے بالواسطہ صاحب سلسلہ سے فیض حاصل کرکے وارد بنگال وبہار ہوئے تھے،ان میں سرفہرست شیخ شہاب الدین جگجوت کاشغری،حضرت شیخ تقی الدین عربی مہسوی،حضرت شیخ جلال الدین تبریزی قدس سرہماجیسے بلندمراتب بزرگان نے بالواسطہ صاحب سلسلہ حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی علیہ الرحمہ سے اخذ فیض کئے تھے،پھران کے روحانی ونسبی اولادواحفادنےانکےمشن کوجاری رکھا، انہیں میں سے ایک قطب العارفین سیدالسالکین،قطب بنگال وبہار، مخدومنا ومولانا سیدشاہ محمدحسین سہروردی ملقب بہ تیغ برہنہ قدس سرہ کی عظیم ترین شخصیت بھی ہیں، جنہیں غوث العالم محبوب یزدانی  مخدوم سید محمداشرف جہانگیرسمنانی قدس سرہ النورانی نے"گلزار حسینی"اور"شمع حسینی"کے القابات سے نہ صرف یاد فرمایاہے،بلکہ ان کی دینی خدمات اورکارنامے کوسراہابھی ہیں۔چنانچہ آپ مشہورومعروف خانوادہ کے چشم چراغ تھے،حضرت مخدوم شیخ سلیمان لنگرزمین کاکوی کی صاحبزادی بی بی کمال جووالدہ ماجدہ کے ہم نام ہے کی شادی شاہ حسام الدین سے ہوئی، جن کے صاحبزادے شیخ حسین غریب دھکڑپوش علیہ الرحمہ تھے،گویاکہ آپ والدہ کی طرف سے حسینی سیدتھے، جبکہ والدکی طرف سے ہاشمی تھے۔ مخدوم جہاں فردوسی،اور سیداحمدچرم پوش دونوں خالہ زاد بھائی تھے،اورشیخ حسین دھکڑپوش کے دونوں بزرگ ماموہوئے،اس لحاظ سے حضرت مخدوم شاہ محمد حسین سہروردی علیہ الرحمہ کے دونوں بزرگ نانا ہوئے۔

جائے پیدائش:اس بابت قطعی طورپر کچھ کہانہیں جاسکتا،البتہ قیاس سے معلوم ہوتاہے،جیساکہ آپ کے والد بزرگوار حضرت شیخ محمدحسین غریب دھکڑپوش علیہ الرحمہ منیرشریف کے باشندہ تھے،لیکن زندگی کے بیشتر اوقات علاقہ بنگال میں بسرفرمائی،ممکن ہے کہ مخدوم شاہ محمد حسین سہروردی علیہ الرحمہ کی پیدائش منیر شریف یا جلکی شریف جہاں پر آپ کی خانقاہ تھی،ان دونوں مقامات میں سے کسی ایک مقام پر ہوئی ہوں۔

تعلیم وتربیت: آپ کاننہال بھی سہروردی فیضان سے مالامال تھا، مادری نسب پیرسید شہاب الدین جگجوت علیہ الرحمہ سے ملتاہے، پدری نسبت بھی چشتی اور سہروردی فیوض وبرکات کاسنگم تھا، ظاہرہے، تعلیم وتربیت بھی والدین کریمین کی زیرعاطفت پائی تھی، البتہ بنگال میں کب وارد ہوئے تھے، یہ بات اگرچہ ابھی میری معلومات سے باہر ہے۔لیکن قیاس کیاجاسکتاہے کہ آپ اپنے والد بزرگوار ہی کے پاس ولایت بنگال میں تعلیم وتربیت پائی،اور یہی پرجوان ہوئے ہوں گے،کیوں کہ حضرت شیخ حسین دھکڑپوش علیہ الرحمہ کادائرہ تبلیغ بنگال کے سرحدی اضلاع پورنیہ ودیناج پورہی تھا، لہذا آپ ظاہری علوم فنون سے آراستہ ہوئے،اور اس کے ساتھ باطنی علوم پر بھی مہارت حاصل کرلی،عالم باعمل کے ساتھ،،العلماء ورثۃ الانبیاء،،کاصحیح مصداق ٹھہرے۔

خلافت واجازت: آپ کے والدحضرت شیخ حسین غریب دھکڑپوش رحمۃاللہ علیہ سہروردی سلسلہ میں حضرت شیخ سلیمان مہسوی علیہ الرحمہ سے بیعت وارادت رکھتے تھے، بلکہ جانشین تھے،اوراسکے ساتھ چشتیہ سلسلہ سے بھی اجازت وخلافت مخدوم شیخ علاء الحق پنڈوی علیہ الرحمہ سے حاصل تھی،جیسا کہ مولوی اعجازالحق قدوسی نے لکھاہے کہ "شیخ حسین دھاکرپوش رحمۃ اللہ علیہ حضرت  مخدوم شیخ علاء الحق  پنڈوی (پیرومرشدمخدوم کچھوچھہ)  قد س سرہ النورانی کے عظیم المرتبت خلفاء میں سے ہیں،اپنی تعلیم اور روحانی تربیت کے بعد شیخ حسین نے پورنیہ کو مرکز بناکر ترویج اسلام کا کام شروع کیا یہیں شیخ حسین نے ایک خانقاہ بھی تعمیر کی"۔ (تذکرہ صوفیائے بنگال صفحہ۱۶۱)

لہذاجب حضرت مخدوم شاہ حسین سہروردی علیہ الرحمہ تعلیم وتربیت سے فارغ ہوگئے،تو والدگرامی نے اپنی جانشینی کے لئے آپ کاانتخاب کیا،اور جملہ سلاسل کی اجازت وخلافت سے شاد کام فرماکر تبلیغ واشاعت دین کیلئے ماذون فرمایا،آپ کونہ صرف ان دونوں سلسلوں کی اجازت وخلافت حاصل ہوئی،بلکہ چشتی وسہروردی فیوض وبرکات کے قاسم اور جانشین بھی ہوئے۔

دینی خدمات وکارنامے:آپ نہ صرف ایک داعئ دین عالم باعمل تھے، بلکہ مجاہدقسم کی طبیعت کے مالک بھی تھے،آپ کی دینی خدمات کے حوالے سے میں یہاں پر حضرت مخدوم سلطان سیداشرف جہانگیر سمنانی کچھوچھوی قدس سرہ کے صرف چار شعراور اس کاترجمہ پیش کروں گا، جس سے آپ کی دینی خدمات و تبلیغی کارنامے معلوم ہوجائیں گے کہ آپ نے کس طرح اسلام دشمن بادشاہ کے سامنے اعلاء کلمۃ الحق پیش کیا، چنانچہ فرماتے ہیں کہ... .....

چراغ دین اسلام ہدایت کہ می افروختہ ہرگوشہ ازنو ترجمہ: دین واسلام کی ہدایت کاچراغ کہ اس کے نور سے ہرگوشہ روشن ہے۔

 نشست ازباد کفرکنس رائی فروزازحسرتی اجساد منصور ترجمہ:کفرکنس    کے جھولا                 پر بیٹھ کر اجساد منصور کاشمع روشن کرتا ہے۔

 چراغ نوری وشمع حسینی نشست ازباد تیغ وآب منظور ترجمہ:چراغ نوری وچراغ حسینی کوکہ تیغ اور آب منظور کے جھولاپرہے۔

 چراغ و شمع مردم راچہ گوئی کہ طبع ہر کہ بودہ خورد کافور ترجمہ:چراغ لوگوں کوکیاکہتاہے۔کہ ہر ایک کی طبیعت مثل کافور ہے۔  

                                                                                                                                                                                                               (مکتوبات اشرفی اردو مترجم مکتوب نمبر ۴۵،جلد ۲صفحہ ۴۲تا۴۴)

وفات حسرت آیات: جس زمانے میں مخدوم شاہ حسین سہروردی جلکی اور اس کے اطراف میں تبلیغ دین ومسند ارشادوہدایت کی بساط بچھائی تھی،انہیں دنوں مملکت بنگال کی سیاسی حالت نے پلٹاکھایا،مسندحکومت مسلم حکمرانوں کے ہاتھوں سے نکل کر غیرمسلم کے ہاتھ لگ گئی،جس نے عمومی طور پرعام مسلمانوں کواورخصوصی طورپراولیاومشائخین کوبزور شمشیرتہہ تیغ کرناشروع کردیا،جس میں بہت سے اولیاء کرام راجہ کے ظلم کی تلوار سے شہیدہوئے،لیکن آپ ارشادوتبلیغ میں اس قدرمنہمک اور سرگرم عمل ہوئے،کہ اپنے گردوپیش کی خبر نہ رہی،اسلامی اخلاق وکردارکی روشنی میں اسلام کی نوری کرن سے علاقہ کو تابناک کردیا،اس محنت وتبلیغ نے آپ کوبھی بت پرست حکمرانوں کادشمن بنادیا۔چنانچہ ابھی آپ نے شادی بھی نہیں کی تھی،بھری جوانی میں راجہ بلیاکے ظلم وسفاکی کی نذر ہوگئے،مولوی اعجازالحق قدوسی نے لکھاہےکہ "جس زمانے میں کہ بنگال میں راجا گنیش کے مظالم کی چکی بڑی تیزی سے چل رہی تھی، یہ بزرگ بھی اس کے مظالم سے نہ بچ سکے،اس ظالم نے آپ(شیخ حسین دھکڑپوش) کے صاحب زادے مخدوم شاہ حسین علیہ الرحمہ کوشہید کردیا۔" (تذکرہ صوفیائے بنگال ص۱۶۱) لہذاحضرت مخدوم شاہ حسین شہید سہروردی علیہ الرحمہ کی سال وصال سے متعلق عام طورپر جوتاریخ وفات مشہور ہے، وہ آٹھ بیساکھ ہے،لیکن اس سے سن وسال کاپتہ نہیں چلتا،لیکن حقیرنے معتبر تاریخی قرائن سے اندازہ کیاہے،جوکہ تقریباً سنہ ۸۱۵ہجری/مطابق ۱۴۱۲عیسوی کاسال آپ کی تاریخ وفات معلوم ہوتی ہے۔واللہ تعالی اعلم     آخری آرامگاہ: مزار شریف جلکی شریف بارسوئی سب ڈویژن کے بلاک اعظم نگر (کٹیہار بہار) میں مرجع عام وخاص ہے۔اوربنگلہ سن وسال کے بیساکھ مہینے کی آٹھ تاریخ کوبڑے تزک واحتشام سے عرس ہوتاہے۔{نوٹ: اس مضمون کاماخوذ حقیر کاتحریر کردہ رسالہ "تذکرہ گلزارحسینی"قلمی ہے}(محمدساجدرضاقادری رضوی جگناتھ پور،آبادپور،بارسوئی،کٹیہار،بہار)


No comments:

Post a Comment