حضور اعلی حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی علیہ الرحمہ


 اسم گرامی:سید علی حسین (ماخوز از:تحائف اشرفی مقدمہ ص ١٢ ناشر جمیعۃ الاشرف جامع اشرف کچھوچھہ مقدسہ) کنیت: ابواحمد (ماخوز از:تحائف اشرفی ص ٣٨ )  لقب خاندانی:شاہ،پیر   خطاب:سجادہ نشین سرکار کلاں (ماخوزاز:تحائف اشرفی ص ٣٨ ) تخلص: اشرؔفی (المعروف بہ اشرفی میاں) ماخوز از:تحائف اشرفی ص ٣٨ ) القابات:اعلی حضرت،شیخ المشائخ،مخدوم الاولیاء،محبوب ربانی،عالم ربانی،پیر لاثانی،ہم شبیہ غوث جیلانی۔وغیرہ) ماخوز از:تحائف اشرفی ص ٥،وظائف اشرفی۔ ص ١٧) والد گرامی:حضرت سیدشاہ سعادت علی اشرفی جیلانی علیہ الرحمہ (ماخوز از:تحائف اشرفی مقدمہ ص ١٢) ولادت سراپا سعادت: ٢٢ ربیع الثانی ١٢٦٦ ؁ ہجری بمطابق دسمبر1844 ؁عیسوی کو بروز دوشنبہ بوقت صبح صادق(عہدواجد علی والی اودھ،تحائف اشرفی ص ٤٠)

 پدری نسب:سلسلۂ پدری نسب حسنی ہے آپ محبوب سبحانی  غوث صمدانی حضرت قطب عالم غوث الاعظم سیدنا ابومحمد محی الدین الشیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے اولاد امجاد سے ہیں اسی لئے جیلانی کہلاتے ہیں۔اور محبوب یزدانی غوث العالم حضرت مخدوم  سیداشرف جہانگیر سمنانی السامانی قدس سرہ النورانی کے ہمشیرہ زادے اور نیز باعتبار تبنیت حضور مخدوم اشرف سمنانی چشتی علیہ الرحمہ کے فرزند برحق اور بلحاظ خلافت خلیفہ مطلق ہیں۔اسی لئے یہ خاندان والا شان حضرت  مخدوم اوحدالدین سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ کی طرف منسوب ہوکر خاندان اشرفیہ کہلاتا ہے۔)ماخوز از:تحائف اشرفی ص ٣٨ تا ٣٩)

شجرہ نسب پدری: حاجی سید شاہ ابو احمد محمد علی حسین(المعروف اعلی حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی) ابن حاجی سید شاہ سعادت علی ابن سید شاہ قلندر بخش ابن سید شاہ تراب اشرف ابن سید شاہ محمد نواز اشرف ابن سید شاہ محمد غوث اشرف ابن سید شاہ جمال الدین ابن سید شاہ عزیز الرحمن ابن سید شاہ محمد عثمان ابن سید شاہ ابو الفتح ابن سید شاہ محمد ابن سید شاہ محمد اشرف ابن سید شاہ حسن خلف اکبر ابن سید شاہ عبد الرزاق (المعروف نورالعین خلیفہ و جانشین مخدوم اشرف سمنانی) ابن حضرت سید عبد الغفور حسن جیلانی علیہ الرحمہ ابن حضرت سید ابو العباس احمد جیلانی ابن حضرت سید بدرالدین حسن ابن حضرت سید علاؤ الدین علی ابن حضرت سید شمس الدین محمد جیلانی ابن حضرت سید سیف الدین یحییٰ حموی ابن سید ظہیرالدین احمد ابن حضرت سید ابو نصر محمد ابن حضرت سید عماد الدین ابو صالح نصر ابن قاضی القضاۃ سید تاج الدین عبد الرزاق خلف اکبر ابن حضور غوث الثقلین ابومحمد سید محی الدین عبد القادر الجیلانی علیہ الرحمہ ابن حضرت سید ابی صالح موسیٰ جنگی دوست ابن سید عبداللہ جیلی ابن حضرت سید یحییٰ ابن حضرت سید محمد ابن حضرت سید داؤد ابن حضرت سید موسیٰ ابن حضرت سید عبد اللہ ابن حضرت سید موسیٰ الجون ابن حضرت سید عبد اللہ محض ابن حضرت  سید حسن مثنیٰ رضی اللہ عنہ ابن حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ ابن حضرت سیدنا اسد اللہ الغالب امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ زوج حضرت حضرت سیدہ کائنات حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بنت امام الانبیاء حضرت سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ واصحابہ وسلم (ماخوذ از ماہنامہ اشرفیہ مبارکپور کا حافظ ملت نمبر ص ٥٢٤،حیات حافظ ملت ص ٨١ مصنف علامہ بدر القادری مصباحی،وظائف اشرفی۔ ص۱۰ ۔ تصنیف حضور اشرفی میاں۔ حق اکیدمی مبارک پور، سیرت اشرفی ص ٢ تا ٣،مطبع رضا آفسیٹ ممبئی، مولانا طبیب الدین صدیقی اشرفی، صحائف اشرفی حصہ دوم صفحہ٦٢) 

حضور شیخ المشائخ سید علی حسین اشرفی میاں اشرفی جیلانی کچھوچھوی علیہ الرحمہ کا شجرہ نسب پدری حسنی ہے جیسا کے مذکور ہوا اور آپ علیہ الرحمہ حضور غوث اعظم علیہ الرحمہ کی اولاد میں سے ہیں۔اس پر دلیل کی تو کوئی ضرورت نہیں لیکن پھر بھی دلیل کے طور پر حضور تارک سلطنت حضرت سید مخدوم اشرف سمنانی چشتی علیہ الرحمہ کے ملفوظات شریف سے ایک عبارت نقل ہے جس میں حضور مخدوم الآفاق سید عبد الرزاق نور العین علیہ الرحمہ کے سلسلہ نسب کے متعلق حضور سید مخدوم اشرف سمنانی چشتی علیہ الرحمہ کے ارشاد موجود ہےاور یاد رہے حضور اعلیٰ حضرت اشرفی میاں رحمۃ اللہ علیہ اور جملہ سادات کچھوچھہ شریف حضور سید عبد الرزاق نور العین علیہ الرحمہ کی اولاد سے ہیں چنانچہ حضور سلطان التارکین غوث العالم محبوب یزدانی حضور سید مخدوم اشرف سمنانی چشتی علیہ الرحمہ کے مرید و خلیفہ حضور نظام الدین یمنی اشرفی رحمۃ اللہ علیہ لطائف اشرفیہ میں سرکار سید مخدوم اشرف سمنانی چشتی علیہ الرحمہ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ حضرت قدوۃ الکبرا"حضور سید اشرف سمنانی علیہ الرحمہ" فرماتے تھے کہ فرزند اعز اشرف الآفاق سید عبد الرزاق"کا"نسب بھی حضرت غوث الثقلین عبد القادر جیلانی علیہ الرحمہ تک پہنچتا ہے۔جس زمانہ میں یہ فقیر"سید اشرف سمنانی" گیلان" المعروف جیلان" گیا تھا تو سید عبد الغفور حسن سے سید عبد الرزاق کو لیکر بصد اعراز و اکرام اپنی فرزندی میں لیا،اس تقریب کی جہت سے سادات حسنی اور حسینی کے اشراف و اکابر مدعو کئے گئے اور ماہرین انساب بھی فراہم کئے گئے جنہوں نے سید عبد الرزاق کے نسب کی تحقیق کی نسب کی اسی چانچ پڑتال کے دوران سادات حسینی نور بخشیہ اور سادات حسنیہ کی نسبتیں ظاہر ہوئی(یعنی حضور اشرف الآفاق سید عبد الرزاق المعروف سرکار نور العین علیہ الرحمہ والد اور والدہ کی طرف سے حسنی حسینی سادات سے ہیں)۔ (بحوالہ لطائف اشرفی"یعنی ملفوظات محبوب یزدانی حضور سید مخدوم اشرف سمنانی مترجم جلد سوئم ص ٥١٣  لطیفہ نمبر ٥٢ جامع ملفوظات حضرت نظام الدین یمنی اشرفی علیہ الرحمہ مترجم پروفیسر ایس ایم لطیف اللہ طابع اوکھائی پرنٹنگ پریس کراچی(پاکستان)

بسم اللٰہ خوانی:جب آپ علیہ الرحمہ کی عمر مبارک چار سال چار ماہ چار دن کی ہوئی تو خاندان عالی شان کے معمول کے مطابق عارف کامل حضرت مولانا گل محمد خلیل آبادی علیہ الرحمہ نے بسم اللہ خوانی کرائی۔ (ماخوز از:تحائف اشرفی ص ٤٠)

تعلیمی سفر اور اساتذہ:حضرت مولانا امانت علی کچھوچھوی علیہ الرحمہ سے فارسی کی درسی کتابوں کی تعلیم حاصل کی،پھر حضرت مولانا سلامت علی گورکھپوری علیہ الرحمہ،اور حضرت مولانا قادر بخش کچھوچھوی علیہ الرحمہ سے تعلیم کی تکمیل فرمائی۔ (ماخوز از:تحائف اشرفی ص١٢، ٤٠،وظائف اشرفی۔ ص١١، تصنیف حضور اشرفی میاں۔ناشر حق اکیدمی مبارک پور،  سیرت اشرفی ص ٣)

تکمیل علوم و فنون: آپ نے١٢٨٢ ہجری میں سولہ سال کی قلیل عمر میں تمام علوم ظاہری کی تکمیل فرمائی۔(ماخوز از:ماہنامہ اشرفیہ مبارکپور کا حافظ ملت نمبر ص ٥٢٥) پیر و مرشد:علوم ظاہری سے فراغت کے بعد ١٢٨٢ھ میں اپنے برادر کلاں اشرف الصوفیاء ابو محمد حضرت سید اشرف حسین اشرفی الجیلانی قدس سرہ النورانی کی دست مبارک پر بیعت ہو کر اجازت و خلافت حاصل فرمائی۔ (تحائف اشرفی ص ١٢، ٤٠)

شادی خانہ آبادی:آپ علیہ الرحمہ کی شادی ١٢٨٥ ہجری میں حضرت سید شاہ حمایت اشرف اشرفی الجیلانی ابن سید شاہ نقی الدین اشرف اشرفی الجیلانی بسکھاروی کی دختر نیک اختر سے ہوئی جن سے ایک فرزند عالم ربانی حضرت علامہ مولانا سید احمد اشرف اشرفی جیلانی علیہ الرحمہ اور ایک صاحبزادی ہوئی۔پہلی بیوی کے انتقال کے بعد دوسری شادی حضرت سید شاہ تجمل حسین اشرف صالح پور علیہ الرحمہ کی صاحبزادی سے ہوئی جن سے ایک فرزند عارف باللہ حضرت سید مصطفیٰ اشرف علیہ الرحمہ اور دو صاحبزادیاں ہوئیں (ماخوز از:تحائف اشرفی مقدمہ ص ١٢، ٤٦)

 سجادہ نشینی:١٢٩٧ہجری میں آپ علیہ الرحمہ مسند سجادہ نشینی پر متمکن ہوئے۔(ماخوز از:تحائف اشرفی ص ٤٢)

منازل عرفان: ١٢٩٠ ؁ ہجری میں حسب ارشاد ارواح بزرگان ایک سال مسلسل غوث العالم سید اشرف جہانگیر سمنانی علیہ الرحمہ کے درگاہ معلیٰ پر چلّے کی غرض سے معتکف رہے۔اسی مدت میں بہ برکت روحانی حضرت محبوب یزدانی مخدوم سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ و بہ توجہ حضرت محبوب سبحانی سید محی الدین عبدا لقادر جیلانی قدس سرہ تمام منازل ایقان و عرفان کو طے فرمایا۔ ( ماخوز ا:تحائف اشرفی ص ٤٠ تا ٤١)

تعلیم اذکار مخصوصہ:آپ علیہ الرحمہ نے تعلیم اذکار مخصوصہ حضرت سید شاہ عمادالدین اشرف اشرفی عرف لکڑشاہ کچھوچھوی قدس سرہ سے پائی۔حضرت عمادالدین اشرف اشرفی عرف لکڑشاہ کچھوچھوی"عرف"حضرت لکڑشاہ علیہ الرحمہ خاندان اشرفیہ میں مشاہیر مشائخ سے گزرے ہیں اسی طرح دیگر اوراد و ظائف کی اجازت اکثر علماء و مشائخ ہندوستان سے حاصل فرمائی۔چناں چہ حضرت راج شاہ صاحب سوندھوی قدس سرہ سے اجازت و خلافت خاندان قادریہ وخاندان زاہدیہ حاصل کی اور تعلیم سلطان الاذکار وشغل محمودؔ اوردیگر اشغال مخصوصہ سے مشرف ہوئے۔ حضرت مولانا شاہ محمد امیر کابلی قدس سرہ سے مقام بلیامیں سلسلہ قادریہ منوریہ میں مجاذاور ماذون ہوئے اور تعلیم طریقہ خاص ذکر خفی قلبیؔ جو مدت مدورسے متعلق ہے حاصل کی۔اس سلسلے کو سلسلۃ الذھب کہتے ہیں جو عرفی طور سے چارواسطوں سے حضرت غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ تک پہنچتا ہے۔یعنی اعلیٰ حضرت اشرفی میاں علیہ الرحمہ کو حضرت شاہ محمد امیر کابلی علیہ الرحمہ سے حاصل ہوا۔ان کو حضرت مُلا اخون فقیر رامپوری قدس سرہ سے۔ان کو حضرت شاہ منورالہ آبادی علیہ الرحمہ سے۔جنکی عمر ساڑھے پانسو (٥٥٠) برس کی ہوئی۔ان کو حضرت شاہ دولاقدس سرہ سے۔ان کو حضرت غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ سے۔اسی طرح سلسلہ اویسیہ اشرفیہ کی تعلیم حضرت سید محمد حسن غاریپوری سے حاصل ہوئی۔سید محمد حسن غازیپوری کو شاہ محمد باسط علی قدس سرہ سے ان کو شاہ عبدالعلیم قدس سرہ سے۔ان کو شاہ ابوالغوث گرم دیوان قدس سرہ سے۔ان کو غوث العالم محبوب یزدانی حضرت مخدوم سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی سے۔انکو خود عاشق رسول سیدنا حضرت اُویس قرنی رضی اللہ عنہ سے۔علاوہ ازیں شغل تلاوتؔ وجود،شغل اسمؔ ذات،شغل جامؔ جہاں نما، شغل ہفت ؔدورہ، شغل خفی قلبیؔ، شغل دونیمؔ ودیگراشغال ومراقباتؔ وعمل شجرہؔ زردواورادخمسہؔ وحرزیمانیؔ حزب البحرؔودعائے حیدریؔ ودعائے ؔبمشخ وحزرابوؔدجانہ ودعائے برؔہتی وچہلؔ اسماء وسی وسہؔ آیت دافع ؔسحروقصیدہ ؔبردہ وقصیدہ ؔغوثیہ ودروداکبرؔوعمل سورہ جنؔ وسورہ مزمل ؔوسورہ یاسینؔ وصلٰوۃ الختامؔ وغیرہ کی اجازت حضرت قدوۃ السالکین مولانا سید شاہ اٰلِ رسول مارہروی علیہ الرحمہ سے حاصل ہوئی۔اسی طرح حرزیمانی کی اجازت سید شاہ سعادت علی محقق احمد پوری قدس سرہ سے سلسلہ شطاریہ میں حاصل کی۔حضرت مولانا سید شاہ عبدالقادر خلیفہ سید شاہ علی سجادہ نشین بغدادشریف سے مکہ معظمہ میں اجازت حرزؔیمانی مع ارشادات ظاہری وباطنی حاصل فرمائی۔حضرت مولانا نوازش رسول سجادہ نشین بیتھوی سے اجازت خاندانی حرزیمانی بطریقہ عالیہ اشرفیہ حاصل کی۔حضرت شاہ مقبول احمد حافظ عبدالعزیز دہلوی عرف اخون قدس سرہ سے دہلی میں حسب اجازت روحانیہ حضر ت غوث الثقلین رضی اللہ عنہ اجازت کامل حرزؔیمانی وحزبؔ البحر ودؔعائے بمشخ ودعائے ؔحیدری ودیگر اعمال مخصوصہ حاصل کی۔دلائل الخیرات کی اجازت آپ کو اپنے پیر و مرشد وبرادر بزرگ  علیہ الرحمہ کے واسطےحضرت مولاناابوالحیاء نعیم قدس سرہ  فرنگی محلی لکھنوی سے حاصل ہوئی۔نیز دلائل ؔالخیرات کی اجازت حضرت سید شاہ عبدالغنی قدس سرہ بیتھوی اور حضرت سید محمد رضوان مدنی اور مولانا عبدالحق ہندی مہاجر مکہ معظمہ سے بواسطہ پیرو مرشد برادربزرگ سے حاصل ہوئی۔علاوہ ازیں جسقدر دیگر نعمات و برکات اعلیٰ حضرت اشرفی میاں علیہ الرحمہ کو مختلف واسطوں سے حاصل ہوئے اس کی تفصیل بہت طویل ہے۔(ماخوز از:تحائف اشرفی ص ٤٢ تا ٤٤)

زیارت حرمین شریفین

آپ نےحج اول و حاضری مدینہ ١٢٩٣ ہجری میں کیا(اس سفر میں آپ علیہ الرحمہ کو دربار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے خاص نعمتیں عنایت کی گئیں)حج دوم و حاضری مدینہ آپ نے ١٣٢٣ ہجری کیا(اس سفر میں آپ علیہ الرحمہ کو مشائخ حرمین الشریفین سے ذکر و اذکار کی اجازت حاصل ہوئی) حج سوم و حاضری مدنیۃ المنورۃ آپ نے ١٣٢٩ ہجری میں کیا۔بعدہ آپ علیہ الرحمہ دین و تبلیغ کےاشاعت کے لئےحجاز شریف،طائف شریف،بیت المقدس،شام،مصر،حام شریف،حمص،مدائن،یمن، دمشق،بصرہ،حلب،ترکی تشریف لے گئے۔  حج چہارم و حاضری مدینہ آپ نے ١٣٥٤ ہجری میں فرمایا۔ (ماخوز از:تحائف اشرفی ص ١٢، ٤٢،سیرت اشرفی ص ٤٥ تا ٧٦، ماہنامہ اشرفیہ مبارکپور کا حافظ ملت نمبر ص٥٢٥)

خلافت واجازت:سلسلہ قادریہ اشرفیہ،سلسلہ چشتیہ اشرفیہ، سلسلہ چشتیہ مودودیہ،سلسلہ اویسہ،سلسلہ نقشبندیہ ابوالعلائیہ منعمیہ،سلسلہ منوریہ معمریہ،سلسلہ قادریہ برکاتیہ، سلسلہ نقشبندیہ ابوالعلائیہ برکاتیہ،سلسلہ مداریہ برکاتیہ، سلسلہ چشتیہ برکاتیہ،سلسلہ سہروریہ برکاتیہ،سلسلہ نظامیہ فخریہ،سلسلہ نقشبندیہ فخریہ، سلسلہ شاذلیہ،سلسلہ عالیہ زاہدیہ۔ (سیرت اشرفی ص ٥ تا ٢٥) 

چند مشہور خلفاء کرام: حضرت الشیخ الحاجی الحرمین السید مرتضی الحسن (مکۃ المکرمہ)،حضرت الشیخ الحاجی الحرمین السید آل رسول الحسین (المکۃ المکرمہ)،حضرت علامہ الشیخ محمدالاشرفی بن شیخ احمد کردی (مدینہ شریف)،  حضرت الشیخ قاضی فخرالدین مدنی، الشیخ حمزہ ابوالجود المدنی الانصاری المعلم (مدینہ شریف)، الشیخ علی ابوالجود بن الشیخ ابوبکر الاشرفی المعلم (مدینہ شریف)،الشیخ محمد بہاء الدین خاشفجی المدنی  قیمۃ الجنۃ المعلم (مدینہ شریف)، الشیخ حضرت السید احمد حلوانی الاشرفی ابن سید ابرار احمد(مدینہ شریف)، مولانا الفاضل الشیخ محمد علی حسین باب السلام (مدینہ شریف)،محمد علاء الدین البکری الاشرفی (مدینہ شریف)،الشیخ محکم الدین الاشرفی باب الرحمہ(مدینہ شریف)، الشیخ حضرت علامہ محمدصالح صافی الاشرفی (دمشق ملک شام)، الشیخ حضرت علامہ  السید محمد عبداللہ حسن ملک (یمن)، حضرت علامہ محمد یوسف بغدادی، فصیح اللسان حضرت سید شاہ نذر اشرف کچھوچھوی، خسرو "دربار اشرفی" صدر الافاضل حضرت محمد نعیم الدین اشرفی مرادآبادی، علامہ سیدمحمدالمعروف محدث اعظم ہند اشرفی الجیلانی، مبلغ اسلام حضرت مولانا شاہ عبدالعلیم میرٹھی صدیقی مدنی، فخرالعلماءحضرت علامہ سید شاہ محمد فاخراشرفی الہ آبادی حضرت مولانامحمدعبدالحئ اشرفی برادرحضرت محدث سورتی، مبلغ اسلام حضرت سید میر محمد غلام بھیک عرف میر نیرنگ اشرفی انبالوی،استاذ العلماء حضرت علامہ سید شاہ امیر حمزہ اشرفی،حضرت مولانا خلیل الدین اشرفی خلیل اللہ شاہ بریلوی،مبلغ اسلام حضرت مولاناغلام قطب الدین اشرفی برہمچاری،قطب ربانی مولانا سید شاہ طاہر اشرف اشرفی الجیلانی دہلوی،امام المحدثین سید دیدارعلی شاہ محدث الواری مفتی اعظم لاہور ،تاج العلماءمفتی محمد عمر اشرفی نعیمی  فاضل مرادآبادی،بحرالعلوم حضرت علامہ مفتی عبدالحفیظ حقانی حفظ اللہ شاہ  اشرفی، مفتی اعظم پاکستان علامہ سید شاہ ابوالبرکات اشرفی لاہوری،مفسرقرآن علامہ سید شاہ ابوالحسنات احمد قادری اشرفی لاہوری، خطیب اعظم مولانا شاہ عارف اللہ اشرفی میرٹھی، مجاہد ملت حضرت علامہ شاہ حبیب الرحمن عباسی اشرفی اڑیسوی،حکیم الامت حضرت علامہ مفتی محمد احمد یار خاں نعیمی اشرفی، سلطان الواعظین حضرت سید شاہ احمد اشرف اشرفی کچھوچھوی ،حجۃ الاسلام حضرت علامہ شاہ حامد رضاؔ خاں بریلوی خلف اکبر امام احمد رضا خاں،استاذ العلماءحضرت مولانا مفتی محمد عبدالرشید خان اشرفی ناگپوری،استاذ العلماء حضرت  مولانا محمد یونس اشرفی سنبھلی، امین شریعت حضرت مولانا شاہ محمدرفاقت حسین اشرفی مفتی اعظم کانپور،قطب مدینہ حضرت مولانا الشیخ محمد ضیاء الدین مدنی، رئیس المحققین حضرت سیدسلیمان اشرف اشرفی بہاری،صدرالعلماء امام النحو حضرت غلام جیلانی اشرفی میرٹھی، جلالۃ العلم حافظ ملت حضرت مولانا عبدالعزیز  اشرفی محدث مرادآبادی،ابوالفتح حضرت علامہ سید محمد مجتبیٰ اشرف اشرفی کچھوچھوی،حضرت الشیخ سید شاہ  عبدالعزیز مدنی اشرفی مدینہ منورہ ، استاذالعلماء حضرت علامہ مولانا محمد علی حسین اشرفی   مدنی علیہ الرحمہ مدنیہ منورہ ،حضرت سید شاہ نذیر الحق اشرفی علیہ الرحمہ چاٹگام،غوثِ وقت سرکار کلاں حضرت سید شاہ مختار اشرف اشرفی الجیلانی، حضرت علامہ عارف اللہ شاہ قادری اشرفی،حکیم حضرت سید محمد  اقبال اشرفی، استاذ العلماء حضرت علامہ  غلام قادر اشرفی، حضرت سید آل حسن اشرفی  سنبھلی، حضرت علامہ مفتی محمد حسین اشرفی سنبھلی، حضرت علامہ غلام علی اشرفی اوکاڑوی، حکیم سید اشفاق احمد اشرفی، حضرت علامہ مفتی ابوذر روؔفی اسرائیلی وارثی اشرفی سنبھلی،  پیر طریقت حکیم سید اخلاق احمد اشرفی، سید شاہ غلام معین الدین البخاری  اشرفی اولاد مخدوم جہاں جہانیاں گشت،ابوالحسنات حضرت سید محمد احمد اشرفی لاہور، استاذالعلماء مولانا محمد مشتاق احمد کانپوری، مولاناحبیب الحسنین   اشرفی، سید محمد صدیق  خلف الصدق سید مجتبی اشرفی (پنڈوا شریف)، حضرت مولانا سید شاہ ابوالحسن المعروف بہ ابوالخیر اشرفی ،حضرت مولانا سید شاہ نعمت اشرف اشرفی الجیلانی علیہ الرحمہ جائس، حضرت علامہ  مولانا محمد عبدالحق اشرفی گنگوہی، مفتی آگرہ حضرت مولانا  محمد نثار احمد کانپوری، استاذ زمن حضرت مولانا شاہ احمد حسن  فاضل کانپوری،محدث اعظم پاکستان حضرت مولانا سردار احمد (پاکستان)حضرت سید شاہ محمد مصطفی اشرف اشرفی الجیلانی،حضرت علامہ محمد عبیداللہ شاہ صاحب اشرفی سوندھ شریف،حضرت علامہ غلام محمد ترنم اشرفی امرتسری،خطیب العلماء مولانا نذیر احمد خجندی اشرفی میرٹھی،سید شاہ محمد سعید حسنی حیدری مدنی اشرفی،حضرت مولانا سید شاہ غلام علی معینی اشرفی،اجمیر شریف،حضرت علامہ محمد عارف حسین اشرفی دہلی،شیخ المشائخ زین العابدین صابری چشتی اشرفی،استاذالعلماء حضرت سید محمد میراں اشرفی علیہ الرحمہ بھٹکل،حضرت علامہ محمد احمد مختار صدیقی اشرفی(میرٹھ)،حضرت علامہ قاضی محمد ایوب حسین اشرفی (بدایوں شریف)ابوالبرکات حضرت مولانا احمد اشرفی (الور)استا ذالعلماء حضرت علامہ عبدالحکیم خجندی اشرفی،شمس العلماء حضرت  محمد احسن اللہ فصیحی اشرفی(غازی پور) ابولضیاء حضرت علامہ ریاض النور احمد صدیقی  اشرفی، سید شاہ جعفر اشرف اشرفی (کچھوچھہ شریف) حضرت محمد بشیر صدیقی   اشرفی (جنوبی افریقہ) فقیہ اعظم حضرت علامہ مولانا محمد یوسف اشرفی،حضرت حاجی خلیل احمد ہفتؔ زبان  اشرفی، حضرت  علامہ مولانا عبداللہ شاہ پشاوری العلوی،حضرت علامہ مولانا  انبرعلی نیاز اشرفی، شیخ المشائخ حضرت سید شاہ فداعلی اشرفی جیلانی اولا دمحبوب سبحانی، حضرت علامہ مولانا سید شاہ علی ہمدم، حکیم سید آل حسن اشرفی ہاپوری، علامہ محمد اکبر خاں اشرفی  مصنف میلاد اکبر ، حضرت مولانا مفتی امتیاز احمد،حضرت علامہ عبدالغنی اشرفی الجلالی ہزاروی،حضرت محمد صوفی جان کامل علیمی  اشرفی،مولانا الشاہ عبدالحکیم صدیقی میرٹھی ، حضرت علامہ مولانا محمد عبدالمجید انولوی، حضرت علامہ عبدالاحد  اشرفی  ابن ا ستاذ المحدثین حضرت مولانا وصی احمد سورتی، شیخ المشائخ حضرت مولانا رستم علی اشرفی   اکبرآبادی، مبلغ اسلام حضرت الشاہ رکن الدین   اشرفی  مصنف رکن الدین، سید شاہ رشید الدین فردوسی بہاری  آستانہ مخدوم جہاں شرف الدین یحی منیری، مبلغ اسلام حضرت شاہ محمد قائم قتیل سراجی  اشرفی داناپوری، مخدوم ملت سید سردار چشتی قادری اشرفی، صوفی ملت حضرت عبد الغفور اشرفی برہانپوری، حضرت سید شاہ نجم الدین اشرفی علیہ الرحمہ الملقب ضیاء اللہ شاہ (پٹنہ سیٹی بہار)،قاضی سید شاہ شمس الدین اشرفی المقلب ضیاء اللہ شاہ ثانی (رحمہم اللہ علیہم اجمعین) ۔ (ماخوز از:تحائف اشرفی مقدمہ ص ٤، ٥، ٦، ٧،٨،٩،معارف شیخ اعظم جلد دوم ص ١٥٢،١٥٦، سیرت اشرفی ص ٤٢، سیرت اشرفی ص ٩٠ تا ١٠٠،مخدوم اولیاء ص ٣٥١ تا ٣٧٢)     

خلفاء و مریدین کی تعداد:آپ کے خلفاء و مریدین کی صحیح تعداد کا تو علم نہیں لیکن لکھنے والوں نے لکھا ہے کہ وصال کے وقت آپ کے خلفاء کی تعداد ساڑھے تیرہ سو اور مریدین کی تعداد تیئس لاکھ تھی۔ (حافظ ملت نمبر ص ٥٣٠)

دینی خدمات:شدہی تحریک کے انسداد کیلے انجمن اسلام کا قیام کرانا۔(یاد رہے جب ١٣٤١ھ مطابق ١٩٢٣ء کے شروع ہی میں شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم پنڈت سردھا نند نے لوگوں کو شدہی بنانے کے لیے تحریک شدہی چلائی جو بہت زیادہ زور پکڑ گئی اور جاہل مسلمان اس چکر میں آکر اسلام ترک کرکے شدھی ہونے لگے تو دیگر مشائخین اہل سنت و جماعت کے ساتھ اعلی حضرت اشرفی میاں علیہ الرحمہ باوجود کبر سنی ہونے کے اپنے خلفاء و مریدین کے ساتھ اس شدھی تحریک کے انسداد کے لیے نمایاں حصہ لیا چناں چہ اعلی حضرت اشرفی میاں رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے محبوب مرید و خلیفہ حضرت مولانا میر سید بھیک نیرنگ انبالوی علیہ الرحمہ کو انجمن اسلام کے قیام حکم دیا۔اور اس کے ذریعہ لوگوں میں اسلامی تعلیمات بڑے پیمانے پر پھیلایا گیا اور شدھی تحریک کو ختم کرنے کی بھر پور کوشش کی گئی اور بحمدہ تعالیٰ اس میں مکمل کامیابی حاصل ہوئی اس شدھی تحریک کو ہمیشہ کے لیے نیست و نابود کرنے کے لیے حضرت صدر الافاضل علامہ سید نعیم الدین مرادآبادی قادری اشرفی علیہ الرحمہ،حضرت علامہ مولانا سید غلام قطب الدین برہمچاری اشرفی علیہ الرحمہ اور حضرت مفتی عبد العزیز خان اشرفی علیہ الرحمہ نے اعلی حضرت اشرفی میاں علیہ الرحمہ کے حکم سے راچپوتانہ میں بڑے سرگرم دورے کئے اور شدھی تحریک کا مکمل سدّباب ہو گیا۔ (ماخوز از:سیرت اشرفی ص ٨٤،سیدی ابو البرکات ص ٢٤ تا ٢٥،مرتب سید محمود احمد رضوی اشرفی ناشر شعبہ تبلیغ حزب الاحناف لاہور )

اسی طرح آپ نے بہت سی مسجدوں اور مدرسوں کا قیام و سنگ بنیاد رکھا اور بہت سے مدرسوں کی سرپرستی فرمائی اور تاعمر ان مدرسوں کی تحفظ بقا کے لئے کوشاں رہے مثلاً جامعہ اشرفیہ کچھوچھہ شریف،مدرسہ اشرفیہ ضیاء العلوم خیرآباد، مدرسہ فیض العلوم محمد آباد کہنہ،الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور اعظم گڑھ،جامعہ نعیمیہ مرادآباد،جامعہ حزب الاحناف پاکستان،مدرسۃ الحدیث دہلی،دارالعلوم نعمانیہ دہلی،اسی طرح کتب خانہ اشرفیہ اہتمام ،اشرفی پریس انتظام،ماہنامہ اشرفی کا اجراء،حضرت مولانا احمد اشرف ہال کا قیام،خانقاہ اشرفیہ حسنیہ سرکار کلاں کچھوچھہ شریف کی تعمیر و توسیع،وغیرہ۔ (ماخوز از:سیرت اشرفی ص ٨٦، ماہنامہ اشرفیہ مبارکپور کا حافظ ملت نمبر ص ٥٢٩،حیات مخدوم اولیاء ص ٣٢٣ تا ٣٤٧)

تصنیفی خدمات:آپ علیہ الرحمہ ویسے تو مستقبل طور پر تصنیفی کام نہیں کرتے تھے بلکہ آپ ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ اکابرین نے جو لکھا ہے وہی کافی و شافی ہے لیکن پھر بھی آپ نے مریدین و خلفاء کے لیے صرف تین کتابیں تصنیف فرمائی جو علم و فن کا گنجینہ ہے۔ صحائف اشرفی  (حصہ اول/دوم)           تحائف اشرفی         اور وظائف اشرفی۔     (ماخوز از:تحائف اشرفی مقدمہ ص ١٢)

  وصال : ۱۱ رجب المرجب ۱۳۵۵ ہجری ۱۹۳۶ء بوقت صبح،عمر ٨٩ سال     مزار شریف:کچھوچھہ شریف (تحائف اشرفی صفحہ ١٢)

                                                                   (از قلم:ابو الفیض راج محلی ساکن مٹیال،راج محل،صاحب گنج۔جھارکھنڈ ٨١٦١٠٨)

No comments:

Post a Comment