جامعہ اشرفیہ مبارکپور کا
قیام
اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی نے مبارکپور
میں ایک عظیم الشان دارالعلوم قائم کیا اور اس کا نام "جامعہ اشرفیہ
"رکھا اس میں درس نظامیہ کا مکمل اہتمام کیا آپ نے ہندوستان کے جید علماء کو
اس دارالعلوم میں تدریس کے لئے راغب کیا آپ کے حکم پر علماء نے رضامندی ظاہر کی
اور پڑھائی لکھائی کا آغاز ہوگیا اور بہت
تھوڑے عرصے میں یہ دارالعلوم ہندوستان کے بڑے مدارس میں شامل ہوگیا۔ یہاں سے ہر
سال کافی تعداد میں علماء فارغ التحصیل ہوتے تھے ۔ اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی
خود اس کی کفالت فرماتے تھےجب سالانہ جلسہ ہوتاتو آپ بنفس نفیس مبارکپور تشریف لے
جاتے جلسے کی صدارت فرماتے اور آخر میں اپنے دست مبارک سے فارغ التحصیل طلباء کی
دستار بندی فرماتے یہ دارالعلوم آج بھی مبارکپور میں موجود ہے اور اب تک بے شمار
تشنگان علم یہاں آکر اپنی پیاس بجھا چکے ہیں یہ اعلیٰ حضرت اشرفی میاں علیہ الرحمہ
والرضوان کا ایسا کارنامہ ہے جو ان شاء
اللہ رہتی دنیا تک قائم ئے گا۔
پیر طریقت جانشین حضور امین شریعت حضرت مولانا
المفتی الحاج الشاہ محمد محمود احمدقادری چشتی نظامی رفاقتی صاحب قبلہ "حیات مخدوم الاولیا محبوب ربانی "
میں فرماتے ہیں کہ غوث ِوقت حضرت
مخدوم المشائخ سرکار کلاں سید شاہ مختار
اشرف اشرفی الجیلانی قدس سرہ نے فرمایا:
1340 ہجری میں میرے جد کریم اعلیٰ حضرت شیخ
المشائخ محبوب ربانی مولانا الشاہ ابو احمد سید علی حسین اشرفی سجادہ نشین
سرکارکلاں کی سرپرستی اور والد محترم حضرت علامہ ابوالمحمود سید شاہ احمد اشرف جیلانی ولی عہد سجادہ نشین سرکارکلاں قدس سرہ کے
اہتمام و انصرام میں
جامعہ اشرفیہ (مبارکپور)
کی بنیاد پڑی تھی ، یہ جامعہ برسہابرس کتاب و
سنت کی ترویج واشاعت کرتا رہا اسی جامعہ کے شیخ الحدیث محدث اعظم ہند ، استادگرامی
مولانا عمادالدین سنبھلی، مولانا مفتی احمد یار خاں صاحب ، علامہ مفتی عبدالرشید
خاں صاحب ، علامہ سید محی الدین اشرف اشرفی ( اور ان کے خلف ارشد حضرت مولانا سید
شاہ معین الدین اشرف) رحمۃ اللہ تعالی علیہم اجمعین نیز دیگر اکابر علماء مختلف
عہدوں میں ہوتے رہے اور یہاں کے فارغین طلبہ آج اکابر ملت اسلامیہ میں شمار کئے
جاتے ہیں ۔
جامعہ اشرفیہ کو مقبول ومستحکم بنانے میں
صدرالافاضل مولانا نعیم الدین مرادآبادی، حضرت مولانا فاخرصاحب الہ آبادی، حضرت
مولانا عبدالباری فرنگی محلی رحمھم اللہ تعالیٰ علیہم
اجمعین کے مساعی جمیلہ کی بھی ایک طویل داستان ہے۔
"جامعہ اشرفیہ کے قیام کا ذکر خیر اعلیٰ
حضرت وعظیم البرکت مخدوم الاولیاء نے اس یاد "فرمان " میں بھی فرمایا
ہے۔
حضرت مخدوم المشائخ قدس سرہ کی ولی عہدی اور
سجادہ نشین کے متعلق اپنی حیات بافیض کے آخری ایک ماہ قبل جمادی الاول 1355 ہجری میں تحریر فرمایا تھا۔
"اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ان
کی اب دستاربندی ہوچلی ہے اور تمام علوم ومعقول تفسیر و حدیث وفقہ ومعانی وتصوف کو
بکمال جانفشانی
جامعہ اشرفیہ
جو اس فقیر کا بنایا ہوا دارالعلوم ہے سے حاصل
کیا"
جامعہ اشرفیہ (مبارکپور) کا انتظام انصرام
حضرت عالم ربانی محبوب حقانی صاحب قبلہ قدس سرہ جیسے روشن دل و دماغ بزرگ فرماتے
تھے، حضرت فرماتے تھے : اگر میری زندگانی نے وفا کی تو جامعہ اشرفیہ کو ہندوستان
کا جامع ازہر بنادوں گا ، ان کا عزم وارادہ
انکے پوتے سیدی مرشدی صدرالمشائخ
شیخ اعظم حضرت مولانا سید شاہ اظہار اشرف اشرفی الجیلانی قدس سرہ النورانی نے پایہ تکمیل کو پہونچایا۔
مزید جاننے کے لئے" خانوادہ ءاشرفیہ
کی عالمی درسگاہیں "کا
ضرور مطالعہ کریں۔
No comments:
Post a Comment