حضرت شرف الدین بوعلی شاہ قلندرچشتی علیہ الرحمہ

 

اسم گرامی: حضرت شاہ شرف الدین۔

لقب: بو علی قلندر۔

سلسلۂ نسب اس طرح ہے: کہ حضرت شاہ شرف الدین بو علی قلندر بن سالار فخر الدین زبیر بن سالار حسن بن سالار عزیز بن ابوبکر غازی بن فارس بن عبد الرحمٰن بن عبد الرحیم بن دانک بن امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہم۔ (اقتباس الانوار:516)۔آپ علیہ الرحمہ پانی پت کے قدیم باشندے ہیں۔چنانچہ آپ کے والدین یعنی سالار فخر الدین اور بی بی حافظہ جمال کے مزارات پانی پت کے شمال کی طرف اب بھی موجود ہیں۔(ایضا:516)

تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 605ھ،مطابق 1209ء کو (پانی پت (ہند) میں ہوئی۔

تحصیلِ علم : آپ نے اکتسابِ علم میں بہت کوشش کی۔حدیث،فقہ،صرف ونحو،تفسیرمیں اعلیٰ قابلیت حاصل کی،عربی و فارسی زبان میں عبورحاصل تھا،آپ نے جلدہی تحصیل علوم ظاہری سے فراغت پائی۔آپ تحصیلِ علم سے فارغ ہوکررُشدوہدایت میں مشغول ہوئے۔مسجدقوت الاسلام میں وعظ فرماتے تھے اور یہ سلسلہ بارہ سال تک جاری رہا۔

بیعت و خلافت : آپ کی بیعت و خلافت میں بہت اختلاف ہے۔بعض کاخیال ہے کہ آپ مریدوخلیفہ قطب الاقطاب حضرت خواجہ قطب الدین بختیارکاکی(رحمۃ اللہ علیہ)کے تھے۔۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ آپ کو مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے نسبت تھی اور مولا علی ہی کے ہاتھ پر بیعت ہوئے اور وہیں آپ کے مرشد ہیں، نیز آپ کی باطنی تربیت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی فرمائی۔

سیرت وخصائص:آپ نے تیس سال تک قطب مینار دہلی میں تدریس فرمائی۔ایک مرتبہ آپ مسجد میں لوگوں کو وعظ فرما رہے تھے کہ مسجدمیں ایک درویش آیااوربآوازبلندیہ کہہ کر چلاگیاکہ "شرف الدین جس کام کے لیے پیداہواہے اس کوبھول گیا،کب تک اس قیل وقال میں رہے گا"۔یعنی حال کی طرف کب آؤ گے۔بس اس فقیر کی صدا ایک چوٹ بن کر دل پر لگی۔ویرانے کی طرف عبادت وریاضت میں مشغول ہو گئے،پھرطبیعت پر جذب کی کیفیت کا غلبہ ہو گیا۔جب جذب و سکر کی انتہا ہو گئی تو اپنی تمام کتابوں اور قلمی یاد داشتوں کو دریا میں پھینک دیا،اور دریا میں مصروفِ عبادت ہو گئے۔آپ ایک عرصے تک دریامیں کھڑے رہے۔پنڈلیوں کاگوشت مچھلیاں کھاگئیں۔حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات ہوئی،اسی طرح بارہ سال گزرگئے۔ ایک روزغیب سے آواز آئی۔"شرف الدین!تیری عبادت قبول کی،مانگ کیامانگتاہے"۔دوبارہ پھرآوازآئی کہ۔"اچھاپانی سے تونکل"۔آپ نے عرض کیاکہ"خودنہیں نکلوں گاتواپنے ہاتھ سے نکال"۔توحضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے اپنے ہاتھ مبارک سے آپ کودریا سے نکالا۔اس سے وجدانی کیفیت اوراستغراق میں مزید اضافہ ہو گیا۔ آخر آپ مجذوب ہو گئے اور جذب و شوق میں اس قدر مستغرق ہوئے کہ دائرہ تکلیف شرعی سے باہر ہو گئے۔۔ شیخ محمد اکرم قدوسی صاحبِ اقتباس الانوار فرماتے ہیں: ’’حضرت شاہ شرف الدین بو علی قلندر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فردِ کامل اور مظہر کل تھے اور آپ کا تفرد کلی (مکمل فرد ہونا) حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے طفیل تھا کیونکہ آپ کو حضرت امیر المومنین علی سے بلاواسطہ تربیت حاصل ہوئی تھی۔ جس کی بدولت آپ جمیع کمالات و ولایت و خلافت ِکبریٰ پر فائز ہوئے۔اسی طرح حضرت بو علی قلندر کی نسبت اویسیہ حاصل ہوئی،اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ آپ کے مربی تھے۔

بوعلی قلند ر علیہ الرحمہ کہلانے کی وجہ تسمیہ : حضرت مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم  نے جب آپ کودریاسے باہرنکالاآپ اسی وقت سے مست الست ہو گئے ،ہر وقت حالتِ جذب میں رہنے لگے،اور اسی دن سے شرف الدین بوعلی قلندرکہلانے لگے۔(تذکرہ اولیائے پاک و ہند:87)۔( شیعیان حیدر کرار کے ملنگوں نے عوام میں یہ مشہور کیا ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت شرف الدین قلندرسے پوچھا مانگ کیا مانگتا ہے: حضرت قلندر نے عرض کیا باری تعالیٰ! مجھے مولا علی (کرم اللہ وجہہ الکریم ) جیسا بنادے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:علی (کرم اللہ وجہہ الکریم) نہیں بن سکتا۔تجھے علی ( علیہ السلام ) جیسا بنانے کے لیے مجھے دوسرا کعبہ بنانا پڑے گا۔ لہذا تجھے ’’بو علی‘‘ بنا دیتا ہوں اور بو علی کا تحت لفظی مطلب علی کا والد ہے اور ادھر ہم اس معنی میں کہہ سکتے ہیں کہ اس کا مطلب علی(کرم اللہ وجہہ الکریم) جیسا ہے۔یہ روایت غلط لکھی ہے، اصل میں یہ ہے کہ آپ نے کئی سال دریا میں تا دریا کے ساتھ بکثرت عبادت کی آخر حکم خداوندی ہوا کہ مانگ کیا مانگتا ہے آپ نے فرمایا یا اللہ مجھے علی (کرم اللہ وجہہ الکریم) کا مرتبہ عطا فرما جواب آیا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے مقام تک پہنچنا مشکل ہے ہان مگر بو علی بن سکتے ہو اس وقت سے بو علی کہلائے۔

تاریخِ وصال، روضہ مبارک،اور اولاد:  آپ علیہ الرحمہ  کا وصال 13/رمضان المبارک 724ھ،مطابق ستمبر1324ء کو بڈھا کھیڑا موضع کرنال میں ہوا،سانحہء وصال جب ہوا تو آپ شغل ہوائی میں ایک درخت کی شاخ پکڑے ہوئے منہ بجانب آسمان کیے بصورت تصویر کھڑے تھے،جب آپ کا وصال ہوا تو حضور نبی اکرم ﷺ نے آپ کے استاد حافظ سراج الدین مکی کو خواب میں آکر آپ کے جسد اطہر کو پانی پت لاکر تجہیز و تدفین کا حکم فرمایا،جب سراج الدین مکی کرنال پہنچے تو لوگوں نے قلندر پاک کی تدفین کردی تھی تو حافظ سراج الدین مکی نے فرمان رسول اللہ ﷺکے مطابق قلندر پاک کے جسد اطہر کو پانی پت لے جانے کی کوشش کی تو اہل کرنال مانع ہوئے،اور جسد اطہر نا لے جانے دیا،تو سراج الدین مکی ایک مصنوعی جنازہ بناکر پانی پت کی طرف یہ کہتے ہوئے چل پڑے کہ اگر آپ کامل ہیں تو خود ہی آجائیں گے،تو اتفاق سے ایک امیر سیر کرتا ہوا وہاں آنکلا،اس نے جنازہ دیکھ کر پوچھا کہ کس کا جنازہ ہے تو بتایا گیا کہ حضرت بوعلی قلندر کا جنازہ ہے،تو اس نے زیارت کی خواہش کی جب خالی چارپائی سے کپڑا ہٹایا گیا تو وہاں قلندر پاک کا جسد اطہر موجود تھا،جسے بعد ازاں پانی پت دفن کر دیا گیا۔آپ کامزار پرانوار پانی پت ، بڈھا کھیڑا موضع کرنال ،باگھوٹی نزد پانی پت تینوں جگہوں میں مرجعِ خلائق ہے۔یہ آپ کی ایک واضح کرامت ہے اور طالبین صادق تینوں مقام سے فیض کا حصول کر سکتے ہیں،کیونکہ جس جگہ آپ ایک دفعہ بیٹھ گئے،وہ جگہ قبلہ گاہء خلائق ہو گئی ۔آپ کا روضہ انور اور اس سے متصل مسجد کو،مہابت خان (جو مغل شہنشاہ جہانگیر کی فوج کا ایک افسر تھا) نے بڑی عقیدت اور محبت سے تیار کروایا اور مہابت خان کی سفید سنگ مرمر سے بنی قبر بھی سید بوعلی شاہ قلندر کے روضہ انور کے قرب میں ہی ہے علاوہ ازیں پانی پت کی مشہور شخصیات،جیسا کہ ابراہیم لودھی(جو لودھی خاندان کا آخری چشم و چراغ تھا،جسے پانی پت کی پہلی جنگ میں ظہیر الدین محمد بابر نے ہراکر ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کی بنیاد رکھی) اور مولانا الطاف حسین حالی کی قبور بھی قلندر پاک کے روضہ سے زیادہ دور نہیں ہیں آپ کی لاتعداد اولاد پاراچنار میں رہائش پزیر ہے،جن کے پاس اصل سلسلہ نسبی کے نسخہ جات موجود ہیں۔

کلام حضرت شرف الدین بو علی قلندر علیہ الرحمہ  :  آپ کے کلام شریف میں دیوان حضرت شرف الدین بو علی قلندر فارسی میں ایک عظیم صوفی کتاب ہے۔ آپ نے حضرت علی کے بارے فارسی میں مشہور شعر لکھا:

حیدریم قلندرم مستم

بندہ مرتضٰی علی ہستم

پیشوائے تمام رندانم

کہ سگِ کوئے شیرِ یزدانم

ایک جگہ مزید اپنا تعارف اس طرح پیش فرماتے ہیں:

"قلندر بوعلی ہَستَم،بنامِ دوست سرمَستم

دلم در عشق اُو بَستم،نمی دانم کُجا رَفتَم"

مزید فرماتے ہیں

سرم پیچاں،دلم پیچاں،سرم پیچیدہء جاناں

شرف چوں مار می پیچد،چہ بینی مار پیچاں را

ایک اور جگہ توحیدی رمز ایسے بیان کرتے ہیں

درگزر از گفتگوئے نامراد

بے مرادی نا مراداں را مراد

خصائل مبارکآپ علیہ الرحمہ  کا قد مبارک میانہ،جسم فربہ اندام،رنگت سانولی،کشادہ پیشانی،گھنگھریالے بال ،گنجان ریش کچھ بال سفید کچھ سیاہ آپ پر اکثر جذب و سکر کا رنگ غالب رہتا تھا آپ کو پان بہت پسند تھا،اور آپ علیہ الرحمہ  ہمیشہ پان استعمال فرماتے تھے اور لوگ آپ کے پان کو بطور تبرک حاصل کرکے استعمال کرتے اور بیماریوں سے شفا پاتے آپ کے پان مبارک سے بانجھ عورتوں کو اولاد نرینہ کا ہونا تو اس وقت پانی پت میں مشہور تھا آپ کی ذات وہ مبارک ہستی ہے،جنہیں مسلمان ،ہندو اور سکھ برابر مانتے ہیں ہندو آج بھی ان کی مناقب پڑھتے اور گاتے ہیں،ان کو ایشور(خدا) کا اوتار(مظہر) سمجھتے ہیں،اور ان کی نیاز میں پان اور لڈو پیش کرتے ہیں اور پیتل کے دیے جلاتے ہیں،اور مرادیں پاتے ہیں ۔آپ رضی اللہ عنہ کا قیام ایک حجرہ مبارکہ میں تھا اور حجرہ مبارک کے دروازہ پر پردہ ہوتا تھا جس کو حاضری کی اجازت ملتی،صرف وہی پردہ اٹھاکر اندر آسکتا تھا بعد ازاں سیدی غوث علی شاہ قلندر نے وہاں قیام فرمایا۔

حضرت بوعلی قلندر علیہ الرحمہ  کی نذر: حضرت بوعلی قلندر علیہ الرحمہ  پاک کی نیاز گوشت کی یخنی،دہی کی لسی اور پتلی روٹی ہے،جس قدر ہو سکے احتیاط سے تیار کرے،تیار کرتے وقت حتی الامکان باوضو رہے،درود سلام سے لبوں کو زینت دے،اور نیاز شریف تیار کرکے فاتحہ شریف پڑھ کر حضرت بوعلی قلندر پاک کی روح پر فتوح کو ایصال ثواب کرے ان شاء اللہ ،بفضل تعالی دینی دنیاوی ہر قسم کی مراد برآئے گی۔(تذکرہ اولیائے پاک و ہند:92/اقتباس الانوار:521/اخبار الاخیار:336) 

No comments:

Post a Comment