آپ کا اسم گرامی: علم الدین
والد محترم کا اسم گرامی :حضرت خواجہ شیخ سراج الدین چشتی علیہ الرحمہ ہے۔
والدہ ماجدہ کا اسم گرامی: حضرت بی بی صفیہ علیہا الرحمہ ہے۔
اجازت و خلافت : آپ علیہ الرحمہ کو اپنے والد محترم
سے اجازت و خلافت حاصل تھی۔
شجرہ نسب: آپ علیہ الرحمہ کا شجرہ نسب کئی پشتوں سے ہوتا
ہوا حضرت سیدنا امیر عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ سے جا ملتا ہے۔
آپ کا شجرہ نسب یوں ہے: حضرت خواجہ شیخ علم الدین فاروقی علیہ الرحمہ بنحضرت خواجہ
شیخ سراج الدین فاروقی علیہ الرحمہ بن حضرت خواجہ شیخ کمال الدین فاروقی علیہ
الرحمہ بن حضرت خواجہ شیخ محمد فاروقی علیہ الرحمہ بن حضرت خواجہ شیخ محمود بہ
معروف شیخ ابراہیم فاروقی علیہ الرحمہ بن حضرت خواجہ شیخ عبدالرشید بہ معروف شیخ
رشید الدین فاروقی علیہ الرحمہ بن حضرت
خواجہ شیخ یعقوب فاروقی علیہ الرحمہ (حضرت بابا فریدالدین مسعود گنج شکر علیہ
الرحمہ کے چچا ) بن حضرت خواجہ شیخ سراج الدین بہ معروف قاضی شعیب فاروقی علیہ
الرحمہ (حضرت بابا فریدالدین مسعود گنج شکر علیہ الرحمہ کے دادا حضور)بن حضرت
خواجہ شیخ محمد احمد فاروقی علیہ الرحمہ بن حضرت خواجہ شیخ محمد یوسف فاروقی علیہ
الرحمہ بن حضرت خواجہ شیخ شہاب الدین احمد فرخ شاہ کابلی فاروقی علیہ الرحمہ بن حضرت
خواجہ شیخ نصیر الدین محمود فاروقی علیہ الرحمہ بن حضرت خواجہ شیخ سلیمان فاروقی علیہ
الرحمہ بن حضرت خواجہ شیخ مسعود فاروقی علیہ الرحمہ بن حضرت خواجہ شیخ عبداللہ بہ
معروف واعظ الاصغر فاروقی علیہ الرحمہ بن حضرت خواجہ شیخ ابو الفتح المعروف بہ
واعظ اکبر فاروقی علیہ الرحمہ بن حضرت خواجہ شیخ اسحاق فاروقی علیہ الرحمہ بن حضرت
خواجہ شیخ ابراہیم فاروقی علیہ الرحمہ بن حضرت
خواجہ شیخ ادھم فاروقی علیہ الرحمہ بن حضرت خواجہ شیخ سلیمان فاروقی علیہ الرحمہ بن
حضرت خواجہ شیخ منصور فاروقی علیہ الرحمہ بن حضرت خواجہ شیخ ناصر فاروقی علیہ
الرحمہ بن حضرت شیخ عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ بن حضرت امیر المومنین سیدنا عمر
فاروق ابن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ۔
مخزن چشت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ کرامت عطا کر
رکھی تھی کہ بڑے کافر ، فاسق اور منکرین حق آپ کی خدمت میں کچھ دیر کےلئے بیٹھ
جاتے تو وہ اعمالِ بد سے توبہ کرکے آپ کے مرید بن جاتے پھر آپ کی چند روزہ تربیت
سے وہی افراد بغیر کسی ریاضت اور مجاہدہ کے کامل ولی بن جاتے اور اُن کے ہاتھ پر
کئی طرح کی کرامتیں ظہور پذیر ہوتیں ۔
تحیتہ الحق ، میں مذکور ہے کہ جو شخص آپ کے حلقہ مریدین میں
شامل ہوتا تو سب سے پہلے ابتدائی کورس کے طور پر آپ اس کو نوافلِ اشراق ، اِستعاذہ
، استحباب ، چاشت ،بعد نماز مغرب اوابین چھ رکعت اور دو رکعت نفل حفظ الایمان
پڑھنے کی تاکید فرماتے ۔ یہ تمام نوافل اس طرح ادا کرنے کا حکم دیتے جیسے کہ سلسلہ
چشتیہ میں معمول چلا آ رہا ہے نیز آپ انہیں مسبعات عشرہ پڑھنے کی تلقین بھی فرماتے
۔
کتاب مخزن چشت میں ہے کہ حضرت خواجہ شیخ علم الدین چشتی علیہ
الرحمہ نے فرمایاحب الہی کی دو قسمیں ہیں ایک
محبت ذات
دوسری محبت صفات ۔
محبت ذات تو صرف اللہ تعالیٰ کی دین اور عطا ہے البتہ محبت
صفات کسی ہے جس کے حاصل کرنے کےلئے تخلیہ میں اللہ کا ذکر کرنا انتہائی ضروری ہے
اس محبت کے حصول کےلئے چار رکاوٹوں کو عبور کرنا پڑتا ہے جو اس محبت کے راستہ میں
سّدِ سکندری کی طرح کھڑی ہیں وہ چار روکاوٹیں مخلوقات ، دنیا ، نفس ، شیطان ہیں ۔
مخلوقات سے بچاؤ کا طریقہ یہ ہے کہ انسان خلوت اختیار کرلے
اور دنیا سے بچاو قناعت کرکے حاصل ہو سکتا ہے اور نفس و شیطان کی رکاوٹیں تب دور
ہوں گی کہ آدمی لمحہ بہ لمحہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا رہے ۔
کتاب تذکرہ خواجگان چشت سیکر شریف میں ہے کہ حضرت خواجہ شیخ
علم الدین چشتی علیہ الرحمہ سے کشف و کرامات کا کافی ظہور ہوتا تھا ۔
حضرت خواجہ شیخ علم الدین چشتی علیہ الرحمہ نے ایک خلافت
حضرت سید محمد گیسو دراز علیہ الرحمہ سے بھی حاصل کی آپ کے بے شمار خلفاء تھے مگر
سلسلہ چشتیہ آپ کے فرزند حضرت خواجہ شیخ محمود راجن چشتی علیہ الرحمہ سے جاری ہوا۔
وصال پر ملال: آپ علیہ الرحمہ کا وصال 26 صفر 809 ہجری
بروز بدھ کو ہوا۔ ایک اور روایت کے مطابق
آپ کا وصال 901ہجری بمطابق 1495ء کو ہوا۔ آپ علیہ الرحمہ کا مزار اقدس پیران پٹن
نہر والا محلہ برکات پورہ انڈیا میں آپ علیہ الرحمہ کے والد محترم حضرت خواجہ شیخ
سراج الدین چشتی علیہ الرحمہ کے روضہ اقدس میں موجود ہے۔
No comments:
Post a Comment