اسم گرامی: حضرت میرسیدمحمد۔
لقب:کالپی شریف کی نسبت
سے"کالپوی" کہلاتے ہیں۔
سلسلہ نسب: آپ علیہ الرحمہ کا سلسلہ نسب اس طرح
ہے: میر سید محمد بن حضرت ابو سعید بن بہاء الدین بن عماد الدین بن اللہ بخش بن
سیف الدین بن مجید الدین بن شمس الدین بن شہاب الدین بن عمر بن حامد بن احمد
الزاہد الحسینی الترمذی ثم الکالپوی ۔رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین ۔آپ کی ولادت
سے قبل ہی حضرت ابی سعید قدس سرہٗ شہر دکن کی جانب تشریف لے گئے اور مفقود الخبر
ہوگئے۔ آپ کا آبائی وطن ترمذ تھا، آپ کے آباؤ اجداد ترمذ سے ہجرت کر کے
جالندھرتشریف لائے۔آپ کے والد ماجد سید ابو سعید قدس سرہٗ نے وہاں سے کالپی کو
اپنا وطن بنایا ۔آپ ترمذی سادات کرام سے ہیں۔آپ کاخاندان علماء وصلحاء اتقیاء کا
خاندان ہے۔(تذکرہ مشائخِ قادریہ رضویہ:315)
تاریخ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت
1006ھ1598ء،کو"کالپی شریف" ہند میں ہوئی۔
تحصیل علم: آپ
اپنی والدۂ ماجدہ کی آغوش تربیت میں پروان چڑھے،یہاں تک کہ جب آپ کی عمر شریف سات
برس کی ہوئی تو حضرت شیخ محمد یونس قدس سرہٗ (جو اپنے وقت کے عظیم محدث تھے)کی
بارگاہ میں پہنچے اور ان سے کسب علوم فرمایا، ان کی خدمت میں آپ نے مطول تک کی
تعلیم حاصل فرمائی اور احادیث کی سندیں بھی مرحمت ہوئیں، اور استاذ موصوف کی متشرع
زندگی کا آپ پر گہرا اثر پڑا، بعدہٗ کچھ کتابیں حضرت عمر جاجموئی سے بھی پڑھیں،
پھر اس کے بعد آپ نے کوڑہ جہان آباد کا سفر فرمایا اور حضرت شیخ جمال بن مخدوم
جہاں نیاں ثانی قدس سرہما کوروی کی بارگاہ میں تمام کتب درسیہ کا اختتام
فرمایا۔(ایضا:315)
بیعت وخلافت: آپ
جب حضرت جمال الاولیاء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت بابرکت میں کسب علم کے واسطے
تشریف لے گے تو آپ کے عالی ظرافت و صلاحیت کو دیکھتے ہوئے اپنے سلسلہ بیعت میں
داخل فرمایا اور تمام سلاسل قادریہ چشتیہ سہروردیہ ، نقشبندیہ مداریہ کی اجازت و
خلافت سے سرفراز فرمایا۔حضرت خواجہ ابوالعلیٰ نقشبندی علیہ الرحمہ نے سلسلہ عالیہ
نقشبندیہ میں خلافت واجازت عطاء فرمائی،اور حضرت شاہ نقشبند خواجہ بہاؤالدین
نقشبند علیہ الرحمہ کی تسبیح بھی عطاء فرمائی۔(تذکرہ اولیائے پاک وہند:272/خزینۃ
الاصفیاء:405)
سیرت وخصائص: سید
الاولیاء،سندالاتقیاء، برہان الاصفیاء ،رئیس العلماء،صاحب فضائلِ کثیرہ،جامع سلاسل
اربعہ،عارف اسرار ربانی حضرت سید شاہ میر محمد کالپوی رحمۃ اللہ علیہ۔ آپ سلسلہ
عالیہ قادریہ رضویہ کے تیسویں امام و شیخ طریقت ہیں۔ آپ کی ذات بڑی باکرامت تھی۔ہر
طالب حق کی طلب کو پورا فرماتے اور آن واحد میں عقدۂ لاینحل کو کھول دیتے، آپ کی
زبان پاک گویا بحر عرفان تھی۔ شریعت کی گتھیوں کے سلجھانےمیں آپ کے ہم عصر وں میں
کوئی آپ کامد مقابل نہ تھا اور آپ ایسے صاحب کمال تھے کہ لعل و گہر کی کوئی حقیقت
آپ کی نظر میں نہ تھی، آپ کی توجہ احیائے قلوب کی ضامن ہوتی تھی، آپ درجہ قطبیت
کبریٰ پر متمکن تھے۔آپ کے فیضان سے بڑے بڑ ےصاحب ِکمال اولیاء ِعصر پیدا ہوئے،
عبادت وریاضت ، تقویٰ وطہارت کے ساتھ اعلیٰ درجہ کے مدرس تھے، بے شمار طالبان علم
آپ کے فیض صحبت سے علم کے آفتاب و ماہتاب بن کر شریعت مطہرہ کی اشاعت فرمائی آپ
علمائے ربانین میں سے تھے۔ آپ اپنے اسلاف کےنقش قدم پر مکمل کار بند تھے۔شریعت و
طریقت میں نا بالغۂ روز گار تھے۔
آپ اغیار کی صحبت سے ہمیشہ پرہیز
فرماتے اور فقراء کے ساتھ نہایت تواضع و انکساری سے پیش آتے۔اگر بادشاہ وقت آپ کی
زیارت کو آتے تو آپ کبھی بھی اس کی تعظیم نہ فرماتے۔آپ کی عبادت و ریاضت کا عالم
بھی ایک عجیب اہمیت کا حامل ہے ، ہر وقت آپ پر ایک کیفیت طاری رہتی دل حزین رکھتے
تھے،اکثر آنسوؤں سے کئی رومال تر ہوجاتے۔نماز پنج وقتہ باجماعت ادا فرماتےکہ سات
سال کی عمر سے نماز با جماعت آپ کی کبھی قضا نہیں ہوئی۔ آخر عمر میں 26 سال تک
متصل صائم رہے سوائے ان دنوں کے جس میں روزہ حرام ہے باقی تمام دنوں میں روزہ دار
رہتے۔
مسنددرس وتدریس: آپ اپنے مرشد کامل سے اکتساب فیض کے
بعد ان کی اجازت و حکم کے مطابق اپنے وطن کالپی شریف تشرف لائےا ور درس و تدریس کا
آغاز فرمایا جو ایک زمانے تک جاری رہا۔ بے شمارا افراد آپ سے فیض یاب ہوئے اور یہ
قدیم اسلامی درسگاہیں انہیں مشائخ کرام سے آباد تھیں۔جن درس گاہوں س بڑے بڑے ادیب
عابد زاہد اور اپنے وقت کے تجربہ کا محقق پیدا ہوئے تھے اور جن کا رعب ِعلم ایک
عالم کی ہدایت و رہبری کا کام انجام دیتا تھا۔آپ کےفیضان علم سےایک جہاں نے اپنے
قلوب واذہان منور فرمائے۔
سلطان الہند حضرت خواجہ غریب نواز
رحمۃ اللہ علیہ سےروحانی نسبت: آپ نےحضرت خواجہ خواجگان خواجہ معین الدین چشتی
اجمیری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مزار مبارک پر بھی حاضری کاشرف حاصل فرمایا۔جب آپ
مزار مقدس پر گئے تو حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رضی اللہ تعالیٰ عنہ ظاہر
ہوئے اور آپ سے یہ ارشاد فرمایا:" کہ جب تم میرے ملک میں آئے ہو تو تمہیں
چاہیے کہ میرے طریقے کو اپناؤ"۔چنانچہ حضرت خواجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے
فیضانِ چشتیہ سے نواز کر دیگر سلاسل کی اجازت بھی مرحمت فرمائی جس سے آپ مراتب
علیا پر فائز ہوئے ۔ یہاں تک کہ آپ کا معمول تھا کہ ہر سال سلطان الہند رضی اللہ
تعالیٰ عنہ کے مزار پر انوار کی زیارت کے لیے اجمیر تشریف لے جاتے، ایک روز آپ
مزار مبارک کے روبرو و حاضر تھے کہ یکایک آپ پر حالت طاری ہوئی اور بےہوش
ہوگئے۔بعدہٗ حضرت خواجہ تشریف عالم باطنمیں تشریف لائے اور آپ کے منہ میں پان
رکھا۔ آپ جب اپنی حالت پر آئے تو آپ کےمنہ میں پان موجود تھا۔حضرت خواجہ کی بارگاہ
سےاتنی قربت ہوگئی تھی کہ جس جگہ بھی آپ چاہتے روحانی ملاقات وزیارت سے مشرف
ہوجاتے اور فیوض و برکات سے ہمکنار ہوتے۔(خزینۃ الاصفیاء:405)
بدکار کونیکو کابنادیا: منقول ہے کہ
ایک شخص صاحب ثروت تھا اور متعدد گناہوں میں مبتلا رہتا تھا ۔ اس کی عادت تھی جس
درویش کا شہرہ سنتا ان کی صحبت میں جاتا۔ بالآخر ایک مرتبہ اس نے سوچا کہ کالپی
شریف حضرت میر سید محمد قدس اللہ سرہ العزیز کی بارگاہ میں چلنا چاہے ۔ اور اپنے
دل میں یہ خیال باندھا کہ اگر پہلی بار دیکھنے کے ساتھ ہی میرے اوپر کوئی کیفیت
طاری ہو گئی تومیں اپنے تمام گناہوں سے تائب ہو جاؤں گا اور اگر کوئی کیفیت
ظاہرنہیں ہو گی تو علی الاعلان شراب نوشی کروں گا۔جب وہ حضرت کی بارگاہ میں پہنچا
تو دیکھتے ہی بے ہوش ہو گیا اور کافی دیر تک عالم بے ہوشی میں پڑا رہا ۔جب افاقہ
ہو ا تو اپنے گریبان کو چاک کر دیا اور فقراختیار کر کے تارکُ الدنیا ہوگیا۔ آپ نے
اپنے کشف سے اس کے آئندہ حالات کا مشاہدہ فرمایااور ایک عمدہ جوڑا مع خادم کے اس
کے پاس روانہ فرمایا۔اس نے خلعت کو قبول نہ کیا ۔خادم نے ہر چند کوشش کی مگر وہ
انکارہی کرتارہا۔آخر کار حضرت خود تشریف لائے اورارشادفرمایاکہ "تم میری
اِرادت کی وجہ سے مرجعِ اربابِ سعادت ہو چکے ہو ، اس لئے جو کچھ بھی تمہیں دیا جا
رہا ہے اسے قبول کر لو، تم کیا جانتے ہو کہ اس میں کیا راز ہے؟"یہاں تک کہ اس
نے خلعت کو پہنا اور پھر اس پر راز سر بستہ منکشف ہوئے اور وہ آپ کے درکا خادم ہو
گیا۔واقف اسرار حقائق حضرت حضرت سید احمد کالپوی رحمۃ اللہ علیہ آپ کے فرزند
ارجمند ہیں۔
تصانیف: آپ علیہ الرحمہ کی مختلف موضوعات پرعربی وفارسی میں کثیر تصانیف
ہیں۔
تاریخِ وصال: آپ کاوصال 26/شعبان 1071ھ،مطابق 25/اپریل 1661ء،بروزپیربوقت
اول دن داعی اجل کو لبیک کہا۔آپ کامزار پرانوار"کالپی شریف" ہند میں
مرجعِ خلائق ہے۔
ماخذومراجع: تذکرہ
مشائخِ قادریہ رضویہ۔خزینۃ الاصفیاء۔تذکرہ اولیائے پاک وہند۔
No comments:
Post a Comment