اسم گرامی : سید جلال الدین
المعروف: سید شاہ چندا حسینی
القابات: قطب
الاقطب شیخ المشائخ
حسب و نسب: آپ
علیہ الرحمہ سید سادات صحیح النسب والحسب سے ہیں ۔ مجمع الانساب کے مولف سید محی
الدین قادری نے آپ کے نسب کا شجرہ لکھا ہے۔
حضرت سید شاہ چند ا حسینی کا شجرہ نسب: سید جلال الدین عرف چند احسینی بن سید علی جہاں شیر بن سید
خضر بن سید محمد بن سید احمد بن سید یحی بن سید زید بن سید حسین بن سید سراج الدین
بن سید شرف الدین بن سید زین الدین بن سید ابوالحسن بن سید عبداللہ بن سیدمحمد بن
سیدعمر اسرار الله بن سید یحی بن سید حسین الدمقہ بن سید ابوالحسن بن سید اصغر بن
سید علی اصغر بن سید امام زید بن الشہید المظلوم بن امام زین العابدین بن
سیدالشہدا امام شہید دشت کربلا۔ (رضوان اللہ علیہم اجمعین)
تعلیم و تربیت: آپ متعدد علوم و فنون کے ماہر، عربی و فارسی کے بہت بڑے عالم اور بزرگ ہیں۔ آپ
علیہ الرحمہ دکن کے اولیائے متقدمین سے ہیں۔ آپ یوسف عادل شاہ بانی سلطنت عادل
شاہی کے زمانہ میں ہند سے دکن میں آئے ۔ موضع گوگی علاقہ بیجاپور میں فروکش ہوئے ۔
اُس وقت موضع مذکور میں بادشاہی لنگر خانہ قائم تھا۔ اکثر علماء وفقراء وہاں رونق
افزاء ہوتے تھے تھے۔
آپ نے گوگی میں
ہدایت و تلقین و تدریس و تعلیم شروع کر دی اور اسلام کی اشاعت میں ایسی کوشش
فرمائی کہ اکثر ہنود آپ کی توجہ سے مسلمان ہو گئے ۔ آپ علیہ الرحمہ صاحب خوارق
عادات و کرامات تھے ۔ یوسف عادل شاہ آپ علیہ الرحمہ سے حسن عقیدت و نیک ارادت
رکھتا تھا اور ہمیشہ آپ علیہ الرحمہ کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا اور نذرو نیازات
پیش کرتا تھا۔ آپ علیہ الرحمہ اطمینان سے خلائق کو ہدایت فرماتے تھے ۔ جب تک زندہ
رہے ہدایت وارشاد میں مشغول رہے۔ آخر آپ نے دس تاریخ ماہ شعبان ۸۵۸
میں بہشت بریں کو رحلت کی ۔ گوگی میں مدفون ہوئے عادل شاہ نے مرقد مبارک پر گنبد
پختہ تعمیر کیا۔ چوں کہ عادل شاہ آپ سے اعتقاد رکھتا تھا۔ رحلت کے بعد نہایت غمگین
ہوا اور وصیت کیا کہ مجھ کو وفات کے بعد حضرت کے پائین روضہ دفن کرنا چنانچہ وزراء
وامراء نے بادشاہ کو انتقال کے بعد حسب الوصیت گوگی میں آپ کے مرقد کے متصل دفن
کیا۔
آپ علیہ الرحمہ کی
ارادت کا سلسلہ: آپ شیخ عارف بن
ضیا علیہ الرحمہ کے مرید و خلیفہ ۔ شیخ فرید الدین ضیاء علیہ الرحمہ کے وہ حضرت
سیدنا شیخ سعد مخدوم زنجانی علیہ الرحمہ
وہ مخدوم علاء الحق پنڈوی اسعد لاہوری گنج نبات علیہ الرحمہ کے وہ آئینہ ہند حضرت
شیخ اخی سراج الدین علیہ الرحمہ کے ۔ وہ حضرت
مخدوم نصیر الدین روشن چراغ دہلوی
علیہ الرحمہ وہ محبوب الہی شیخ نظام الدین اولیاء علیہ الرحمہ کے مرید و خلیفہ ہیں
۔ (تاریخ اولیائے دکن حصہ١/ ۲۵۲ محمد عبدالجبار خان صوفی مطبع رحمانی حیدر آباد دکن )
حضرت سید شاہ چندا حسینی علیہ الرحمہ کا سلسلۂ خلافت: قطب الاقطاب حضرت سید شاہ جلال حسینی المعروف سید شاہ چندا
حسینی اشرفی علیہ الرحمہ المتوفی ۸۵۸ہجری
کے دو واسطے ہیں ایک حضرت مخدوم نصیر
الدین روشن چراغ دہلوی علیہ الرحمہ سے
ہوتا ہوا محبوب الہی حضرت نظام الدین اولیاء علیہ الرحمہ تک پہنچتا ہے اور دوسرا
غوث العالم محبوب یزدانی سلطان سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی علیہ الرحمہ سے ہوتا
ہوا محبو ب الہی حضرت نظام الدین اولیاء علیہ الرحمہ تک پہنچتا ہے۔
"مشائخ
و علماء دکن و کچھو چھ شریف کے روحانی و علمی تعلقات" نامی رسالہ کی تحقیق و
ترتیب کے دوران راقم الحروف(سید پیر پادشاہ حسینی اشرفی حیدرآبادی علیہ الرحمہ) نے
فرزند سجادہ نشین گوگی شریف، حضرت مولانا سید محمد یوسف حسینی صاحب سے رابطہ کر کے
حضرت چندا حسینی رحمۃ اللہ علیہ کے حالات مبارک بالخصوص آپ کے سلسلہ ارادت و خلافت
کے متعلق دریافت کیا تو مولانا نے زبانی آگاہی کے علاوہ اپنا ایک تحقیقی مقالہ کے
ذریعہ فیا کس روانہ فرمایا جس کا اقتباس یہاں درج کیا جاتا ہے ۔مولانا سید محمد
یوسف حسینی تحریر کرتے ہیں۔ حضرت سید شاہ جلال الدین حسینی المعروف سید شاہ چند ا
حسینی اشرفی علیہ الرحمہ کا شمار ہندوستان کے ان اولیائے کبار میں ہوتا ہے جنہوں
نے اپنے مخصوص انداز و سلوک کے ذریعہ کفر و شرک کی فضاؤں کو نور ایمانی کی روشنی
میں تبدیل کر دیا اور حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری علیہ الرحمہ کے بعد چراغ
چشتیہ کو اپنے لہو سے روشن رکھا۔ آپ علیہ الرحمہ کی ذات کو اس حیثیت سے بھی خصوصیت
حاصل ہے کہ آپ کی اولاد میں پشت در پشت ولایت جاری رہی ۔ آپ علیہ الرحمہ نے نہ صرف
اپنی ساری زندگی اشاعت دین میں صرف کر دی بلکہ اپنی اولاد کو بھی اس کام کے لئے
وقف فرما دیا چنانچہ آپ کا یہ دستور تھا کہ اولاد کی تعلیم و تربیت کے بعد انھیں
اشاعت دین کے لئے ترک وطن کا حکم فرماتے یہی وجہ ہے کہ آج آپ کی اولاد کے آستانے
مختلف مقامات پر موجود نظر آتے ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ آپ کی اولاد میں جتنے اولیاء
کرام اپنے وطن سے ہجرت کر کے اشاعت دین کے لئے روانہ ہوئے وہ تاحیات کبھی اپنے وطن
واپس نہیں لوٹے بلکہ اشاعت دین کی راہ میں جو جہاں پہنچ کر وصال پائے وہیں پر ان
کی بارگا ہیں مرجع خلائق بنی موجود ہیں۔ ان حضرات کے حالات ، تعلیمات، کرامات،
تاریخ کی مختلف کتابوں ، تاریخ فرشتہ، بساطین السلاطین ، روضۃ الاولیاء، واقعات
مملکت بیجاپور ، انوار جلالی، مرأة الحقیقت، تجلیات جلالیہ شمس جلالت وغیرہ میں
تفصیل کے ساتھ درج ہیں۔ آپ علیہ الرحمہ حضرت بندہ نواز گیسو دراز علیہ الرحمہ کے
ہمعصر بزرگ ہیں سوانحات و تواریخ میں ہے کہ آپ کی ولادت کے دن حضرت بندہ نواز علیہ
الرحمہ نے جب نماز فجر ادا کی اور دعا کے لئے ہاتھ اُٹھائے تو بہت دیر تک آسمان کی
طرف دیکھتے رہے۔ بعد میں مریدین کے استفسار پر آپ نے بتایا کہ آج مولائے کائنات
حضرت سید نا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی نسل سے ایک صاحب کمال پیدا ہوا ہے جس کے
پیدا ہونے کی خوشیاں آسمان پر منائی جارہی ہیں۔ میں انہیں کو دیکھنے میں مستغرق ہو
گیا تھا۔ (حوالہ واقعات مملکت بیجا پور حصہ سوم) تذکرے اور سوانحات کی کتابوں میں
ہے کہ آپ کی ذات سے مختلف محیر العقول کرامات کا ظہور ہوا ہے۔ ایک زندہ کرامت یہ
بھی ہے کہ طلوع آفتاب کے وقت آپ کی چوکھنڈی کا سایہ اپنے مغربی جانب موجود چار
عادل شاہی بادشاہوں کی چوکھنڈی پر پڑتا ہے مگر غروب آفتاب کے وقت بادشاہوں کی
چوکھنڈی کا سایہ آپ کی چوکھنڈی کے دروازے کی دہلیز تک پہونچ کر اس طرح مڑ جاتا ہے
جیسے بوسہ لیکر واپس ہورہا ہو۔ تاریخ فرشتہ، واقعات مملکت بیجاپور ، روضتہ
الاولیاء اور دیگر کتب سوانحات و تواریخ میں یہ بات خاص طور سے تحریر ہے کہ آپ
صحیح النسب سادات سے ہیں ۔ چوبیں ۲۴ واسطوں سے آپ کا نسب مولائے کائنات حضرت سید نا علی کرم
اللہ وجہہ الکریم سے جاملتا ہے ( تاریخ فرشتہ ) آپ کا سلسلہ خلافت سلطان مخدوم
حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی کچھو چھوی قد س سرہ سے ملتا ہے (مراۃ الحقیقت)
اجداد کرام کی مختلف ممالک سے ہوتے ہوئے ہندوستان تشریف آوری:قطب گوگی حضرت سید شاہ
چندا حسینی علیہ الرحمہ کے اجداد کرام میں
حضرت سید محمد رضی اللہ عنہ بن حضرت سید یحیی رضی اللہ عنہ نے چوتھی صدی ہجری کے اوائل میں مدینہ منورہ
سے عراق کا قصد فرمایا یہ وہ زمانہ تھا جس میں زیادہ سے زیادہ اولیائے اکرام نے عجم
کارخ فرمایاتھا اور اشاعت اسلام کے لیے سب
سے پہلے عراق کی سرزمین کو منتخب کیا تھا ۔حضرت سید محمد رضی اللہ عنہ نے عراق پہنج
کر اس علاقہ میں اپنے اجداد کرام کا فیض پھیلایا
۔آپ کی اولاد بصرہ وغیرہ میں پھیل گئی اور عراق میں ہر طرف اس خانوادہ کےاولیاء
اکرام سے دین اسلا م کی کرنین چمک گائیں اسطرح
آپکے سلسلہ کے اولیائے اکرام پانچویں صدی ہجری میں ایران پہنچے اور یہاں پرچم اسلام
کو بلند فرمایا آج بھی عراق اور ایران کے مختلف علاقوں میں ان اولیاء اکرام کی بارگاہ
ہے مرجع جن وہ بشر ہے ۔
قطب
گوگی حضرت سیدشاہ چندا حسینی قدس سرہ کے اجداد اکرام میں حضرت
سید یحییٰ رضی اللہ عنہ بن حضرت سید زید رضی اللہ عنہ نے 668ہجری میں ملتان کا قصد فرمایا اور یہاں تشریف لائے اور آپ کی اولاد ملتان سے گجرات تک پھیل گئی چنانچہ
آپ کے سلسلے کے اولیاء اکرام کی بارگاہ ہیں آج بھی کچھ میں موجود ہیں۔
حضرت قطب گوگی حضرت سید شاہ چندہ حسینی کہ جد امجد حضرت سید شاہ جہانشیر حسینی رضی اللہ عنہ اپنی اہلیہ محترمہ اور اپنے بھائی حضرت سید شاہ عجب
شیر حسینی رضی اللہ عنہ کے ہم راہ جنوبی ہندوستان کی سمت چلے اور گلبرگہ شریف کی سرزمین
پر رونق افروز ہوئے ۔
جد امجد کی کرامات
کا ظہور:حضرت سید شاہ جہانشیر حسینی رضی اللہ عنہ جب گلبرگہ شریف تشریف لائے تو
فیروز شاہ بہمنی نے آپ کی قدر شناسی کرتے ہوئے آپ کو اور آپ کے بھائی کو اپنی فوج میں
اعلی عہدوں پر مقرر کیا آپ دونوں حضرات فوج میں بر سر خدمات
تھے کے اس عجیب وغریب کرامات سے بہمنی حکومت دہل اٹھی کہ ایک دن فیروز شاہ بہمنی اپنے
فوجی دستہ سمیت شکار کیلئے نکلا ہوا تھا ۔جس میں یہ دونوں بزرگ بھی شامل تھے جب بادشاہ
شکار سے سیر ہوا تو واپس کا حکم دیا بادشاہ کی سواری جاہ و حشم کے ساتھ
جب محل پہنچی تو اسکی شہزادی بالا خانہ
پر کھڑی شاہی جلوس کی آمد کامنظر دیکھ رہی
تھی کیا دیکھتی ہے کے بادشاہ کہ سر پر دو گھوڑے سوار ہوا میں اڑے چلے
آ رہے ہیں یہ دیکھ کر اسکے ہوش اڑگئے جب بادشاہ قصر شاہی میں داخل ہوا تو شہزادی نے حیرت سے چشم دید حالات بتادئے ۔ شہنشاہ پر یہ سنکر سناٹا چھا گیا اور کہنے لگا کہ اس سے بے خبر ہوں کہ میری فوج میں ایسے باکمال
اور خدار سید بزرگ موجود ہیں ۔
چنانچہ اس نے ان دونوں کی خفیہ تلاش کا حکم دیا جاسوس اس کام پر معمور ہوگئے کئی دن یہ جستجو جاری رہی لیکن ان بزرگوں کا پتہ نہ چل
سکا اس دوران ایک دن ایسا شدید طوفان آیا کے
بڑے بڑے تن آور درختوں کو جڑ سے اکھاڑ دیا جاسوس اس کام میں لگے ہوئے تھے گشت کرتے
کرتے وہ ایسے خیمے پر پہنچے کہ طوفان بادو باران کے باوجود اس خیمے میں چراغ جل رہا
ہے اور دونوں بزرگ تلاوت قرآن مجید میں مصروف ہیں ۔ان دونوں جاسوسوں نے لوٹ کر بادشاہ
کو اس کی خبر کی اور غیب سے ان دونوں حضرات نے یہ معلوم کر لیا کے سلطان نے ہماری ولایت
کو جان لیا ہے اور خدا سے ہمکو یہ حکم ہے کے ولایت راز میں رکھی جائے لہازا اب ہمارے
لئے بہتر یہی ہے کہ ہم یہاں سے کوچ کر جائے ۔
بہمنی فوج سے
روانگی :حضرت سیدشاہ جہانشیر حسینی اپنی اہلیہ اور بھائی کے ہمراہ اس
طوفانی شب میں گلبرگہ شریف سے نکل پڑے اور
اثنائے راہ میں دریا ئے بھیماپر پہنچے تو دیکھا کے دریا لبالب بہہ رہی ہے ۔آپ نے بسم
اللہ کہہ کر اپنے قدم پانی میں رکھے اور اس
پانی پر دوشالہ بچھا دیا جو ان تینوں کیلئے کشتی کا کام کرنے لگا جسکے تینوں کناروں پر یہ تینوں
حضرات سوار تھے کہ تھوڑی دیر بعد دوشالہ خالی کونہ ہوا سے اڑنے لگا ہوا تیز ہونے لگی اور تینوں کے فکر کا باعث ہوئی
تو حضرت سید شاہ جہانشیر حسینی کی اہلیہ جو کہ حاملہ تھیں کے شکم مبارک سے آواز آنے
لگی کہ اس پر جلال الدین ہے اس پر جلال الدین ہے اس آواز کے ساتھ وہ کونہ تھم گیا دو
شالہ کشتی کیطرح دریا پر چلنے لگا اور اسطرح
آپ نے دریا کو عبور فرمایا ۔ جب آپ دریا کے کنارے پہنچے تو ولادت کے آثار ظاہر
ہورہے تھے لہزاو ہیں دریا کے کنارے موضع ردے واڑی میں قیام فرمایا ۔
تاجدارِ
ولایت کی ولادت: موضع روےواڑی میں
قیام فرنانے کے تھوڑی دیر بعد ہی شکم مادر سے آواز آئی کہ اے مادر محترمہ اب سید جلال
الدین کی دنیا میں آمد کا وقت ہوچکا ہے اس کے لئے تہبند کا انتظام کیجیئے چنانچہ والدہ
محترمہ نے مشکے میں لپیٹ کر کپڑا نگل لیا تھوڑی دیر بعد نو مولود تہبند باندھے تولد ہوئے۔
حضرت خواجہ بندہ نواز علیہ الرحمہ کی پیشنگوئی: ادھر اس تاجدار ولایت کی ہورہی ہے ادھر گلبرگہ میں خواجہ دکن
حضرت خواجہ بندہ نواز گیسودراز رضی اللہ عنہ
بہت دیر تک آ سمان کیطرف دیکھتے رہے ۔حاضرین کے دریافت کرنے پر حضرت خواجہ نے فر ما یا کہ مقام روے واڑی میں حضرت علی
کرم اللہ وجہ کی اولاد میں ابھی ابھی
ایک ایسے بچے کی ولادت ہوئی ہے جو صاحب ولایت بھی ہے اور صحیح النسب بھی آسمان میں
اسکی خوشی مبائی جارہی ہے میں عالم
بالا کے اس جشن کو دیکھ رہا تھا اور خوش ہورہا
تھا ۔
غیب سے
گہوارےکا نمودار ہونا: آپ کے والدین اپنے اس نومولود کیلئے بظاہر فکر مند ہوئے کہ دوران سفر اس نومولود کو لیکر کہاں
جائیں کیا کریں کہ آسمان سے ایک گہوارہ نمودار ہوا جو آپکو لیکر وہاں سے اڑگیا ۔والدین
پریشان ہوئے اور بچے کی تلاش میں پھر نے لگے اور تلاش کرتے کرتے دو تین سال بعد گوگی
شریف پہنچے تو دیکھا کہ وہاں ایک نیم کے درخت کو گہوارہ لگا ہوا ہے ۔
انگشت مبارک سے دودھ کا
جاری ہونا: درخت کے
گھنے سائے میں جہاں گہوارہ لگا ہوا
تھا اسپر چڑیاں چھائی رہتی تھیں
جب آپکو دودھ پینا ہوتا تو اپنی انگشت شہادت چوسنے لگتے جس سے
دودھ جاری ہوتا اور آپ نوش فرمالیا کرتے تھے ۔
استرار جی قوت کا خاتمہ : جب آپ تقریبن بارہ سال کی عمر شریف کو پہنچے تو وہاں
موجود ایک صاحب استرراج جوگی نے آپ کی بارگاہ میں گستاخی کی تو آپ نے اپنی کرامت سے
ایسے عاجز کر دیا جس سے وہ وہاں سے فرار ہوگیا ۔اس طرح گوگی شریف میں حق کا علم بلند فرمایا جو اولیائے اکرام کی کرامتوں کا
عین مقصد ہیں ۔
حضرت خواجہ بندہ نواز علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں حاضری: 820ہجری میں جب آپ کی عمر شریف 16سال کی ہوئی ۔
آپ نے اکتساب فیوض باطنی نیاز مندی کے حصول کے لئے حضرت خواجہ
کی بارگاہ میں حاضری دی اور جب خواجہ دکن کی مجلس میں پہنچے تو حضرت خواجہ نہ
اٹھکر آپ کو خیر مقدمی اعزاز سے نوازا اور حاضرین کے استفسار پر فرمایا کہ یہ ایک ولی
کامل اور قطب ہیں ۔جو اولیاء اکرام میں چندا کی طرح روشن ہے حضرت خواجہ کے
یہ فرمانے کے بعد سے آپ اپنے اسم شریف سید شاہ جلال الدین حسینی کے بجائے سید شاہ چندا حسینی کے نام سے مشہور ہوئے ۔
آپ علیہ الرحمہ کا خانوادہ : حضرت سید شاہ جلال الدین محمد شاہ چندا حسینی اشرفی علیہ الرحمہ کی شادی حضرت شیخ کاٹو کی
پہلی صاحبزادی مومنہ پارسا حضرتہ بی بی مخدوم جہاں رحمۃ اللہ علیہا سے ہوئی جو
حضرت سلطان المشائخ شاه محمد محمود صوفی سرمست اسید الاولیاء شاہ گنج شہیداں امام
کر بلاء ثانی سگر شریف علیہ الرحمہ کی نواسی تھیں ۔
آپ علیہ الرحمہ کی اولاد و امجاد:قطب الاقطاب حضرت سید شاہ چندا حسینی اشرفی علیہ الرحمہ کے
چار فرزند تھے۔
(۱) حضرت سید محمد نور عالم حسینی علیہ الرحمہ گوگی شریف
(۲) حضرت سید شمس
عالم حسینی اشرفی را ئچور ی علیہ الرحمہ
(۳) حضرت سید عبد
الرحیم حسینی اشرفی علیہ الرحمہ بیدر
کرناٹک
(۴) حضرت سید
منتہیٰ حسینی اشرفی علیہ الرحمہ بیدر کرناٹک ۔
حضرت بندہ نواز علیہ
الرحمہ نے فرمایا تھا کہ شاہ چند حسینی اشرفی علیہ الرحمہ کی اولاد کثرت سے پھیلے
گی، چنانچہ ہندوستان کے متعدد مقامات (گوگی شریف، رائچور، کولم پلی، کوئل کنڈہ،
کوسگی، بھونگیر، دھڑے سگور، شولاپور، بیدر وغیرہ) میں آپ کی اولاد و امجاد کے
آستانے مرجع خلائق ہیں۔صرف دکن میں آپ علیہ الرحمہ کی اولاد کے پچیس آستانے مرجع
خلائق ہیں۔آپ علیہ الرحمہ نے ۶۳ سال عمر مصطفوی پا کر ١٠رشعبان ۸۵۸ کو رحلت
فرمائی۔ آپ علیہ الرحمہ کا مزار مبارک گوگی شریف تعلقہ شاہ پور ضلع گلبر کہ کرنا
تک میں چشمہ فیضان کی شکل میں موجود ہے۔ (مآخذومراجع: مشائخ
و علماء دکن و کچھو چھ شریف کے روحانی و علمی تعلقات اور دیگر مضامین )
No comments:
Post a Comment