ولادت باسعادت: آپ کی ولادت باسعادت آپ کے آبائی گاؤں موضع
وتکلو تحصیل چاڈورا ضلع بڈگام ریاست جموں کشمیر میں عبد الخالق ابن عبد الکریم کے
یہاں انتہائی پاکیزہ گھرانے میں7 دسمبر 1933میں ہوئی۔
تعلیم
وتربیت: آپ چونکہ بچپن سے انتہائی ذہین وفطین تھے اور
علم دین سیکھنے کاشروع سے ذوق وشوق تھا۔ ابتدائی تعلیم آپ نے اپنے آبائی گاؤں میں
ہی حاصل کی۔ آپ کی ذہانت و فطانت کو دیکھ کر آپ کے بہنوئی جو کہ جاڈورا کے تحصیل
دار تھے آپ کا داخلہ امام النحو شیخ الاساتذہ صدر العلماء علامہ سید غلام جیلانی
اشرفی محدث میرٹھی قدس سرہ العزیز کےپاس مدرسہ اسلامیہ اندرکوٹ میرٹھ میں کرایا۔آپ
علامہ غلام جیلانی اشرفی میرٹھی علیہ الرحمہ کے انتہائی چہیتے شاگرد رشید
تھے۔فضیلت تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد مدرسہ مظہر العلوم سہارنپور میں داخلہ لیا
اور قاری عبد الخالق سے تین سال تک علم تجوید حاصل کیا۔
شیر
ملت کی حق گوئی و بے باکی: مدرسہ مظہر العلوم سہارنپور کے زمانہ طالب علمی
کے سال آخر فراغت کے ایام میں ایک روز آیت مبارکہ انّما انا
بشر مثلکم پر قاری عبد الخالق اور دیگر مدرسین سے شدید بحت ومباحثہ ہو گیا۔ کیو
نکہ ان لوگوں کو نہیں معلوم تھا کہ یہ سنی صحیح العقیدہ عالم ہیں اس بحث کے بعد
جبکہ وہ لاجواب ہو چکے تھے جب انہیں اس بات کا علم ہوا کہ آپ کا تعلق اہل سنت
وجماعت سے ہے تو وہ لوگ آپ کی جان کے دشمن ہو گئے۔ اسی دوران آپ کے ایک ساتھی نے
آپ کو مطلع کیا کہ مدرسین طلبہ کے ساتھ رات میں آپ پر حملہ کرنے کی سازشیں کر رہے
ہیں۔تو آپ نے فوراً مدرسہ چھوڑا دیا لیکن بعد میں کچھ بااثراحباب کے دباؤ میں
مدرسہ مظہر العلوم کی انتظامیہ کو سند قرات دینی پڑی جس میں خصوصیت کے ساتھ ظریف
احمد خان ساکن خورجہ ضلع بلند شہر کا اہم کردار تھا جو کہ سہارنپور میں بھی ایک
خاص پکڑ رکھتے تھے۔
بیعت
وخلافت: حضور شیر ملت علامہ عبد القدوس کشمیری علیہ
الرحمہ عالم اسلام کی اس عظیم المرتبت شخصیت سے بیعت تھے جس کے فتوی وتقوی کے ڈنکے
ہر چہار جانب بج رہے تھے یعنی آپ علیہ الرحمہ شہزادہ اعلیٰ حضرت مفتی اعظم عالم
اسلام حضرتِ علامہ الشاہ ابو البرکات مفتی مصطفیٰ رضا خان قدس سرہ العزیز سے بیعت
تھے اور مرشد گرامی سے شرف خلافت بھی حاصل تھی علاوہ ازیں آپ کو امام المناظرین
غیظ المنافقین سلطان العلماء حضور مجاہد ملت علامہ الشاہ حبیب الرحمٰن اشرفی قدس
سرہ العزیز سے بھی تمام تر سلاسل کی اجازت وخلافت حاصل تھی
دینی
خدمات: تعلیم سے فراغت کے بعد کشمیر کے شہر سری نگر کے
ایک علاقے میں جسے لال چوک کے نام سے جانا جاتا ہے وہاں کی ایک مسجد میں امامت و
خطابت کے فرائض انجام دیئے۔آپ کے والد گرامی نے فرمایا بیٹا کشمیر میں آپ کی اشد
ضرورت ہے لیکن یہاں کے حالات اچھے نہیں ہیں اس لئے تم نے جہاں تعلیم حاصل کی ہے
وہیں دینی خدمت انجام دو آپ نے اس حکم پر پھر سے ایک بات خورجہ (میرٹھ) کا رخ کیا
کچھ دن وہاں خدمت دین انجام دے کر ظریف احمد خاں کے مشورے پر م عروس البلاد ممبئی
عظمی کا رخ کیا۔ تقریباً 1955ء میں آپ کا ورود مسعود شہر ممبئی میں ہوا اور یہاں
مختلف مساجد میں امامت و خطابت کے فرائض انجام دیئے۔ 5 مارچ 1962ء میں آپ بحیثیتِ
امام وخطیب ہانڈی والی مسجد سیفی جبلی اسٹریٹ بھنڈی بازار ممبئی میں فائز ہوئے۔ جس
وقت آپ امامت کے منصب پر فائز ہوئے اس وقت مسجد کے حالات بہت خستہ تھے۔ زلزلے میں
ایک منارہ بھی شہید ہو چکا تھا مسجد کے ٹرسٹی حضرات جنہوں نے مسجد قائم کی تھی
انہوں نے ٹیکس نہیں دیا تھا جس کے سبب عدالت کی طرف سے مسجد کی جائداد کے لئے
نیلامی کا حکم ہو گیا تھا۔ اس وقت آپ علیہ الرحمہ نے ممبئی کے ایک مشہور سماجی
خدمات انجام دینے والی شخصیت امین کھنڈوانی سے رابطہ کیا اور عدالت میں درخواست
پیش کیا کہ ہمارا بھی موقف سنا جائے عدالت کے حکم پر اور بانی مسجد کی رضا مندی سے
مسجد اور اسکی ملکیت کچھی میمن ٹرسٹ کو سونپ دی گئی بعد میں آپ نے ایک تعمیری
کمیٹی تشکیل دی اور خود پوری مسجد از سر نو تعمیر کا ذمہ لیا جس پر نئی ٹرسٹ نے
بھی رضا مندی ظاہر کی۔اس طرح آپ نے اس مسجد کو ضائع ہونے سے بچایا اور اسکی تعمیر
نو کی۔
آپ ہمیشہ مسلک اہلسنت (مسلک اعلیٰ حضرت) کی تبلیغ واشاعت میں مصروف
رہے آپ نے حقانی پالن پوری جیسے بد عقیدہ پر ممبئی کی زمین تنگ کر دی اور پولیس
ڈیپارٹمنٹ سے اس پر پابندی عائد کرائی ممبئی کی سرزمین کو ان ناپاک ناہنجاروں کی
چنگل سے ان مساجد کو آزاد کرایا جو درحقیقت اہلسنّت وجماعت کی تھیں۔ جن میں
بالخصوص پٹھان واڑی کی دونوں مسجدیں بڑی وچھوٹی اور بائکلہ موتی مسجد ،تیلی محلہ
رسول مسجد ان کے علاوہ اور بھی تقریباً بیس سے زائد مساجد ہیں جن کو آپ نے اہلسنّت
وجماعت کے لوگوں کو واپس کرایا
رفاہی خدمات: جس طرح آپ نے دینی خدمات انجام دیں اسی طرح خدمت
خلق اور قومی مسائل کے لئے بھی گراں قدر خدمات انجام دیں۔
آپ کئی ملی سماجی رفاہی
تنظیموں سے جڑے ہوئے تھے جن سے دین وملت کی خدمت انجام دی جاتی انہیں میں سے مشہور
ومعروف تنظیم آل انڈیا تبلیغ سیرت بھی ہے جس کے بانی وسرپرست رئیس اعظم اڑیسہ حضور
مجاہد ملت حضرت علامہ مولانا حبیب الرحمن علیہ الرحمہ تھے ممبئی اور مہاراشٹر سطح
پر تبلیغ سیرت کا قیام 14 اپریل 1978ء کو عمل میں آیا آپ کی صدرات اور مجاہد ملت
علیہ الرحمہ کی سرپرستی میں ایک جلسہ عام جمنا بازارا اسٹریٹ ممبئی3 بھنڈی بازار
میں منعقد ہوا جس میں آپ کو مہاراشٹر سطح کا صدر منتخب کیا گیا۔ اسی طرح سنی جمعیۃ
العلماء ہند کے نائب بھی تھے 1989ء میں جب بھاگل پور میں خوف ناک فساد برپا ہوئے
تو اس وقت آپ کی قیادت میں ایک ریلیف کمیٹی تشکیل دی گئی جس کے ذریعے لاکھوں
متاثرین کو مدد پہونچائی گئی۔1990ء میں خلیجی جنگ کے موقع پر ایک لاکھ سے زائد ہندوستانیوں کو آل
انڈیا تبلیغ سیرت کے بینر تلے بخیر وعافیت ہندوستان لانے میں مدد کیا۔
1992 ء میں بابری مسجد فسادات
کے موقع پر مسلم علاقوں میں جا جاکر ریلیف پہونچائی اور جن علاقوں میں مسلمان
پھنسے ہوئے تھے انہیں وہاں سے نکال کر ہانڈی والی مسجد اور دوسرے محفوظ مقامات پر
پہونچایا آپ پوری پوری رات علاقوں کا تن تنہا دورہ کرتے تاکہ کوئی ناخوشگوار واقعہ
پیش نہ آئے۔ ایک موقعہ پر یہ افواہ پھیلی کہ اسلام پورہ میں مسلمانوں کو مارا جا
رہا ہے تو ہزاروں کی تعداد میں لوگ جمع ہو گئے اس وقت ڈونگری پولیس تھانے کے A. C. P موجود
تھا بھیڑ نے پھراؤ کیا جس میں A. C. Pزخمی ہو گیا۔ آپ نے ان کو سمجھایا اور خود حکمت عملی سے کام لیتے
ہوئے پھیڑ پر لاٹھی چارج کیا اور مجمع کو پیچھے ڈھکیلا پھر اسلام پورہ جاکر حالات
کا جائزہ لیا اور سازگار ماحول پیدا کیا۔
26 جولائی 2005 ء کو ممبئی
اور مہاراشٹر کے علاقوں میں جو بھیانک سیلاب آیا تھا اس کے لئے آپ نے ایک ریلیف
کمیٹی تشکیل دی جس کا نام سینٹرل ریلیف کمپنی رکھا گیا اس وقت کے مہاراشٹر چیف
منسٹر نے آپ کے اعتماد پر کمیٹی کو کم وبیش 140 ٹن اناج فراہم کیا اس کے علاوہ
ریاستی اس وقت وزیر انیس احمد نے ہزاروں کلو دودھ پاؤڈر ریاستی وزیر بابا صدیقی نے
کئی ہزار کمبل کپڑے اور دیگر ذرائع سے بہت سارا تعاون حاصل ہوا جو آپ کی نگرانی
میں مصیبت زدگان اور ضرورت مندوں کو تقسیم کیا گیا۔
وصال پر ملال: علم
وفضل کا یہ مہر تاباں عالم اسلام کو ضیاءبار کرتے ہوئے 16 ذوالقعدہ 8 دسمبر 2006
کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے روپوش ہوا ۔ انا للہ وإنا إلیہ راجعون
No comments:
Post a Comment