حضور مجاہد ملت حضرت شاہ حبیب الرحمن قادری اشرفی علیہ الرحمہ

 

نام و نسب: آپ کا اسم گرامی حبیب الرحمٰن قادری ہے۔ اور آپ کا سلسلۂ نسب عم رسولﷺ سیدنا عباس بن عبد المطلب رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے ملتا ہے۔

تاریخِ ولادت: حضرت علامہ محمد حبیب الرحمٰن ہاشمی عباسی اشرفی رضوی  رحمۃ اللہ علیہ بتاریخ 8 محرم الحرام 1322ھ بروز شنبہ بوقت صبح صادق، قصبہ دھام نگر، صوبۂ اڑیسہ (موجودہ نام اوڈیشا) انڈیا میں پیدا ہوئے۔

تحصیلِ علم: ابتداءً لوگوں نے حضرت مجاہد ملت علیہ الرحمہ  کو انگریزی تعلیم پڑھانا شروع کردیا جس کو حضرت مجاہد ملت علیہ الرحمہ نے بادل ناخواستہ قبول کر لیا۔ مگر چند دنوں بعد آپ نے انگریزی تعلیم حاصل کرنے سے انکار کردیا۔پھر حضرت مجاہد ملت علیہ الرحمہ کے والد ماجد کی خواہش کے مطابق دینی تعلیم کے لیے مامور کیا گیا۔ اور ابتدائی تعلیم کا سلسلہ گھر پر ہی جاری رہا۔ مدرسہ سبحانیہ الٰہ آباد میں داخلہ لیا، چند سال وہاں تعلیم حاصل کی، مدرسہ سبحانیہ کے اساتذہ اور مہتمم مدرسہ سے علوم و فنون حاصل کیے۔ لیکن وہاں کے اساتذۂ کرام مجاہد ملت کے ذہن و صلاحیت کے مطابق زیادہ بافیض ثابت نہ ہو سکے۔ اس بناء پر مجاہد ملت علیہ الرحمہ زیادہ دنوں تک وہاں نہ رہ کر اجمیر شریف جامعہ عثمانیہ میں مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے، اساتذۂ دارالعلوم جامعہ عثمانیہ سے اکتساب کیا۔ اور یہاں سے اپنی علمی پیاس بجھا کر جامعہ نعیمیہ مراد آباد میں صدر الافاضل حضرت مولانا الشاہ نعیم الدین اشرفی  مراد آبادی کی خدمت گرامی میں حاضری دی اور اکتسابِ علوم کیا، پھر مراد آباد سے ہی سلسلۂ تعلیم ختم کیا۔ رحمۃ اللہ علیہم اجمعین

بیعت و خلافت: مجاہد ملت علیہ الرحمہ کو شرف بیعت و اجازت محبوب ربانی ہم شبیہ غوث الاعظم اعلیٰ حضرت شیخ مخدوم الشاہ علی حسین اشرفی میاں کچھوچھوی علیہ الرحمہ سے حاصل ہوئی۔ اور شہزادۂ اعلیٰ حضرت حجۃ الاسلام حضرت مولانا حامد رضا قادری بریلوی رحمۃ اللہ علیہ (خلیفہ حضور اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی قدس سرہ) نے بھی خلافت و اجازت سے سر فراز فرمایا۔

 سیرت و خصائص: رئیس التارکین مجاہد ملت حضرت علامہ محمد حبیب الرحمٰن ہاشمی عباسی رحمۃ اللہ علیہ ایک عرصہ دراز تک مدرسہ سبحانیہ الٰہ آباد کے صدر مدرس رہے۔ بعدہٗ آپ نے تبلیغِ حق اختیار کی، مختلف دینی خدمات انجام دیں۔ اسلامی تحریکات سے وابسگتی اور گمراہ فرقوں کی سر کوبی مجاہد ملت علیہ الرحمہ کا محبوب مشغلہ تھا۔ ملک بھر میں آپ نے دینی ادارے اور انجمنیں قائم کرنے کا ایک عظیم سلسلہ شروع کیا۔ جہاں اللہ تعالیٰ نے مجاہد ملت کو دولتِ علم و عمل سے نوازا تھا وہی دنیوی مال و متاع سے بھی مالا مال کیا تھا۔ آپ کو دیکھ کر ان متقدمین اولیاء کی یاد تازہ ہوتی ہے جنہوں نے رئیسانہ زندگی ترک کر کے فقیرانہ زندگی کو پسند فرمایا اور نفس کو اپنے اوپر غالب نہیں ہونے دیا۔ مجاہد ملت نے کئی دیوبندیوں سے مناظرہ بھی کیا اور اس میں فتح و کامرانی ہوئی۔ حضرت مجاہد ملت علیہ الرحمہ نے ریاست و امارت، علم و فضل دونوں طرح کی نعمتوں سے حصہ پایا تھا۔ مگر علم و فضل اور عشق و عرفان کو دنیاوی امارت و ریاست پر ہمیشہ غالب رکھا۔ آپ کی زندگی کا سر سری مطالعہ کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ تحائف و نذر کی صورت میں جو کچھ مجاہد ملت کے پاس آیا اُن سب کو اللہ کے راستے میں بے دریغ خرچ فرما دیا کرتے تھے بلکہ مزید گھر سے بھی خرچ فرماتے۔ اسی وجہ سے مجاہد ملت کو زمانے کا رئیس التارکین اور رئیس اعظم اُریسہ کہا جانے لگا۔ جو صرف ایک تعریفی خطاب نہ تھا بلکہ آپ اس کے صحیح مصداق تھے۔ ایک مرتبہ آپ نے پٹنہ میں ہونے والی کانفرنس میں اپنی اہلیہ محترمہ کے تمام زیورات کو لاکر پیش کردیا۔ منتظمینِ کانفرنس نے جب ان زیورات کو قبول نہ کیا تو ارشاد فرمایا کہ "اب تو یہ گھر سے نکل چکا ہے واپس نہیں جا سکتا ہے"۔ حضرت مجاہد ملت علیہ الرحمہ نہایت ذہین، دقیقہ رس، دور اندیش اور معاملہ فہم تھے۔ درس نظامی کے جملہ فنون میں ماہر کامل اور فائق الاقران تھے۔ علم و فضل کا چرچہ پورے ملک ہندوستان میں پھیلا ہوا تھا۔ تشنگانِ علوم کو تشفی بخش درس دیتےتھے۔ 

تاریخِ وصال: حضرت مجاہد ملت علیہ الرحمۃ والرضوان کا انتقال 6 جمادی الاولیٰ 1401ہجری / بمطابق مارچ 1981ء بروز جمعہ، شام، اسمٰعیل ہوٹل، بمبئی میں ہوا۔ وہاں سے نعش مبارک بذریعہ طیارہ کلکتہ لائی گئی۔ پھر وہاں سے آپ کے وطن مالوف کٹک اُریسہ لیجائی گئی۔ اور تیسرے دن اتوار کی شام تقریباً 5 بجے دھام نگر خانقاہ میں سپرد خاک کیا گیا۔(تذکرۂ علماء اہلسنت و دیگرمضامین  سے مآخذ)


No comments:

Post a Comment