سرکار آسی غازی پوری علیہ الرحمہ

 

سرکار آسی غازی پوری علیہ الرحمہ کی ذات محتاج تعارف نہیں۔آپ ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ آپ کا اسم گرامی عبدالعلیم اور تاریخی نام "ظہور الحق" ہے اور پہلے عاصی تخلص اختیار کیا پھر آسی۔، 19 شعبان المعظم 1250ھ میں موضع سکندر پور ضلع بلیا میں پیدا ہوۓ۔ آپ کے والد ماجد شیخ قنبر حسین اپنے وقت کے کامل بزرگ تھے، آپ کا پدری نسب نامہ حضرت عمر فاروق سے جا ملتا ہے، آپ کی نویں پشت میں حضرت شیخ مبارک اپنے عہد کے مرشد کامل تھے، 966ھ میں قصبہ سکندر پور ضلع بلیا میں رشد و ہدایت کا سلسلہ قائم کیا اور 1016ھ میں وصال فرمایا، آپ کی والدہ بی بی عمدہ مفتی احسان علی قاضی پورہ آرہ کی صاحبزادی تھیں، مفتی موصوف شاہ غلام حیدر بلیاوی کے اجل خلفا میں شمار کئے جاتے ہیں، مفتی احسان علی حضرت ابوبکر صدیق کی اولاد میں سے ہیں اس لئے آپ پدری اور مادری نسب کے اعتبار سے صدیقی اور فاروقی ہیں۔

تعلیم و تربیت : آپ علیہ الرحمہ کی ابتدائی تعلیم وتربیت قطب الہندحضرت مولاناشاہ غلام معین الدین رشیدی سجادہ نشین خانقاہِ رشیدیہ جون پور کی آغوشِ شفقت میں ہوئی اوربیعت وارادت کاشرف بھی انہیں سےحاصل ہے۔ یہ حضرت مولانا غلام معین الدین حضرت آسؔی کےوالد ماجد حضرت شیخ قنبر حسین کےپیربھائی تھے۔ابوالحسنات مولانا عبدالحئی فرنگی محلی لکھنؤی کےوالدِماجد حضرت مولانا عبدالحلیم فرنگی محلی سےحضرت آسؔی نےمدرسہ حنیفہ جون پور میں کتبِ منقول ومعقول کی تکمیل فرمائی۔ اورفنِ شاعری میں حضرت شاہ غلام اعظم افؔضل الہ آبادی سجادہ نشین دائرہء شاہ اجمل الہ آباد کی شاگردی اختیارکی۔ آپ نے علم و فن دین و مذہب اخلاق وروحانیت سلوک و تصوف ،قوم وملت سماج معاشرہ شعر و ادب زبان و بیان فکر و تحقیق و تصنیف وتالیف غرض کہ ہر شعبے میں نمایاں اور قابل فخر خدمات پیش فرمائی ہیں۔کیونکہ آپ عالم، فقیہ ، عارف،مصلح،صوفی، واعظ، مصنف، طبیب ، حکیم، شاعر، اور خانقاہ رشیدیہ جونپور کے آٹھویں سجادہ نشین تھے۔

آپ کے مشاہیرمعاصرین : شیخ المشائخ مخدوم الاولیاءمولاناسید شاہ علی حسین اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی، اعلی حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی، حضرت مولانا فضل الرحمن گنج مراد آبادی، سلطان الواعظین حضرت سیداحمد اشرف اشرفی الجیلانی ، حضرت مولانا شاہ عبدالقادر عثمانی بدایونی، مولانا شاہ انواراللہ فاروقی حیدرآبادی، شاہ حفیظ الدین لطیفی رحمن پوری کٹیہاری بہار،سید شاہ شہودالحق اصدقی بہاری،حضرت خواجہ الطاف حسین حالی، نواب مرزا خان داغ دہلوی، ڈاکٹر اقبال، شاہ سراج الدین وارثی تھے۔

 سوانح اشرفی میاں کچھوچھوی بنام”حیات مخدوم الاولیاء ” میں مرقوم ہے۔ کہ شیخ المشائخ مولانا سید شاہ علی حسین اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی،خانقاہ رشیدیہ جونپور شریف بحرالاسرار قطب العرفاء والعشاق حضرت مولانا شاہ عبدالعلیم آسی رشیدی سکندری ثم غازی پوری کی دیدو ملاقات کے لیےتشریف لائے۔ حضرت آسی علیہ الرحمہ نےاستقبال کیا اور معانقہ و مصافحہ کے بعد فرمایا کہ: آپ میرے لیے دعا فرمائیں کہ اللہ تعالی میرا خاتمہ بالخیر فرمائے آپ حضرت غوث پاک اور مخدومِ کچھوچھہ کی اولاد ہیں سید ہیں، حضور اشرفی میاں تاجدار کچھوچھہ نے بھی فرمایا کہ : آپ میرے لیے دعا فرمائیں کہ "حق تعالی میرا خاتمہ بالخیر فرمائے۔ آپ اللہ والے ہیں ۔” (حیات مخدوم الاولیاء صفحہ 140)

حضرت سرکار آسی غازی پوری علیہ الرحمہ پروصال سےچارپانچ سال پہلے چشتیَت کا بہت زیادہ غلبہ ہوگیا تھا۔ ایک مرتبہ صوفی شاہ عبدالسبحان (جو سرکار آسی علیہ الرحمہ کے مریدوخلیفہ تھے)مراقبےمیں تھے توحضرت خواجہ غریب نواز کی زیارت سے مشرف ہوئے اور انہوں نے یہ ارشاد فرمایا:”میں محمد عبدالعلیم کاہوں اور محمد عبدالعلیم میرے ہیں۔”اسی طرح حضرت سلطان المشائخ خواجہ نظام الدین اولیاء محبوب الہی رضی اللہ عنہ کے مزار پر تھے کہ حضرت محبوب الہی نے یہ زریں قول ارشاد فرمایا:محمد عبدالعلیم کو میرا سلام کہنا اور کہنا کہ میرے سلسلےکارواج ان اطراف میں تمہاری ذات سے قائم ہے۔(نفس مصدر صفحہ 67 )

یہ قبولیت اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ اللہ تعالی اور اس کے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کے دینی و دعوتی خدمات کو قبول فرما لیا ہے اور آپ بانی سلسلہ رشیدیہ حضرت قطب الاقطاب جونپوری علیہ الرحمہ،پیران کرام صوفیہ اسلام اور سلاسل طریقت کےمشن ومقصدکے سچے امین و جانشین اور ترجمان علمبردار تھے۔

وصال مبارک : سرکار آسی علیہ الرحمہ صاحبِ کمال شاعر گذرے ہیں، ان کے شاگردوں کی تعداد بھی اچھی خاص ہوئی ہے، شمشاد لکھنوی، حکیم فریدالدین احمد فرید، حکیم سید محمد شاد غازی پوری، مولانا محمد ایمن سکندپوری اور لبیب سکندر پوری ان کے اہم شاگرد ہیں، آسی غازی پوری نے اپنی ساری زندگی غازی پور ہی میں گذار دی، علم و فضل، رشد و ہدایت، شعر و ادب کا یہ درخشندہ ستارہ 2 جمادی الاول 1335ہجری کو پچاسی برس کی عمر میں وابستگان سلسلہ رشیدیہ سے ہمیشہ کے لئے پردہ فرما کر واصل بحق ہوگئے اور محلہ نورالدین پورہ، غازی پور میں سپرد خاک ہوا، آپ کا آستانہ مرجع خلائق ہے جس سے فیوض و برکات جاری ہیں۔


No comments:

Post a Comment