لہولہان غزہ (فلسطین) اور مسلمانوں کی بےحسی ؟

 

کمزور ہمیشہ پٹتا ہی رہا ہے، طاقت سے محروم کو جینے کا حق نہیں، اسلام بھی طاقت کے حصول کا مدعی ہے، زمانے کے سامنے آنکھ سے آنکھ ملانے؛ بلکہ اتنا کمر کس لینے کا حامی ہے کہ مخالف دنیا ان سے ہیبت کھائے، ان کے سینہ میں تھرتھراہٹ پیدا ہوجائے، اسلامی سرحد پر نگاہ رکھنے کی جرات نہ ہو، کسی میں وہ سکت نہ ہو کہ مسلمانوں کی طرف انگشت نمائی کرے، ارشاد فرمایا گیا:وَ اَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ وَّ مِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْھِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّ اللّٰہِ وَ عَدُوَّكُمْ وَ اٰخَرِیْنَ مِنْ دُوْنِھِمْ (انفال:٦٠) "اور ( اے مسلمانو !) ان کے مقابلہ جہاں تک ہوسکے ، طاقت اور گھوڑوں کی تیاری رکھو ، جن سے اللہ کے دشمن ، اپنے دشمن اوران کے علاوہ دوسرے لوگوں پر بھی" ۔ لیکن افسوس مسلمانوں نے اس حکم کو پامال کیا، انہوں نے اسلام کو محض صوم و صلوٰۃکا اور تقدس و تحریم کا دین بنا کر قدیم پادری اور پوپ نیز ماضی کے اہل کتاب کا سا سلوک کیا، جس کا انجام آج سر کی آنکھوں سے دیکھا جاسکتا ہے، پورا عرب شکستہ ہے، ٹکڑوں میں بٹا ہوا ہے، وہ اسلام کا مرکز ہو کر اسلام اور مسلمانوں کیلئے ماتم کناں ہیں، انہیں کے گھر میں اپنا ایک کونہ بنا کر یہودی نسل آباد ہوگئی، ان کی زمین غصب کر کے اور ان کی چھاتی پر چڑھ کر تیر و بھالا مار کر ایک چھوٹا سا حصہ کاٹ لیا؛ اور وہاں سے پورا عرب کٹ رہا ہے، ان کی چھری پر عرب کی گردن پڑی ہوئی ہے، مگر جرات نہیں کہ کوئی اقدام کر لیں؛ یا کم از کم چیخ و پکار کریں، حال تو یہ ہے کہ ظلم کو ظلم کہنے سے بھی روکا جارہا ہے، ظالم کے متعلق بات کرنے، لوگوں کو بیدار کرنے اور حق کی طرف بلانے پر پابندیاں لگائی جارہی ہیں، اگر کوئی غیرت مند اٹھتا ہے، ان کی بزدلی اور نامردی کو کوستا ہے تو اسے پس زنداں پھینک دیتے ہیں، پابہ جولاں کر کے گمنامی کے سمندر میں غرق کر دیتے ہیں۔بالخصوص اس وقت غزہ و فلسطین پر ہورہے مظالم، انسان سوز اور اور انسانیت سوز بربریت کے خلاف عرب شترمرغ کا کردار نبھا رہا ہے، پورا ملک قبرستان بنا جارہا ہے، وہاں پر انسانیت سسکتی ہے، روزانہ جارحیت کی جاتی ہے، معصوموں کو قتل گاہ کی طرف کھینچا جاتا ہے، روزانہ  بموں، راکٹوں کی بارش کی جارہی ہے ، سینکڑوں شہید کئے گئے، زخمی ہوئے، اسپتال تک مجروح کر دئے گئے، جنازہ تک نہ اٹھایا جا سکا، آخری آرامگاہ بھی نصیب نہیں، پوری فضا گرد آلود ہے، آسمان ایٹمی ذرات سے پر ہے، ماحول میں زہریلی گیس اور دھواں رواں ہے، جو بچ گئے وہ بھی سانسیں نہیں لے سکتے، رو رہے ہیں، چیخ رہے ہیں، جام شہادت پی رہے ہیں، باری باری پورا فلسطین اور غزہ اسرائیل کے حملوں میں برباد ہوتا جارہا ہے، مسلمانوں کا وجود مٹنے کو ہے، عالمی خبرنامے بھی گواہ ہیں، ظلم کا ہر صفحہ ان کے نام سے رنگین ہے، لاشوں میں نسل نو کی کثرت ہے، ان سب کے باوجود پوری مسلم برادری سکتے میں ہے، تاریخ اسلام میں شاید ایسی بزدلی اور ایسا نکماپن کبھی دیکھا گیا ہوگا، خدا ان شاہینوں کو سلامت رکھے جنہوں نے لاج رکھ لی ہے، جو جام شہادت نوش کر رہے ہیں؛ لیکن قدم پیچھے لینے کو تیار نہیں،  ان کا سینہ ہر وقت کشادہ ہے، ہر حملہ ان کے ایمان کو جلا بخشتا ہے، وہ اسی ثبات و استقامت کے ساتھ بے دست و پا بھی کھڑے نظر آتے ہیں، یقیناً وہ غیور مسلمان ہیں، انہوں نے شہادت گہہ الفت میں قدم رکھا ہے؛ لیکن افسوس عمومی امت مسلمہ اس گہوارہ سے دور ہے، ان کے پڑوس ممالک عربیہ نے زبان بندی کا اصول اپنا لیا ہے، مجاور حرم تو عشق و معاشقہ کی گتھی سلجھانے اور میوزک کنسرٹ کروانے میں مصروف ہیں، امت نے اپنا ضمیر بیچ دیا ہے، ان کے سینوں میں اپنے بھائی کیلئے کوئی احساس نہیں، ابھی اگر کسی یوروپی ملک میں حادثہ ہوجائے تو یہی انسانیت نواز بن جائیں گے، ماتم کرنے لگیں گے، مذمتی بیانات دیں گے، وہ دراصل بتانا چاہتے ہیں؛ کہ اسلام اور مسلمان ان کے نزدیک وہ اہمیت نہیں رکھتے، جو کسی گوری چمڑی کی ہے، خصیہ برداری کی ہے، ریال اور ڈالر کی مدح سرائی کی ہے، یہ بے حسی امت مسلمہ کیلئے بھاری پڑ رہی ہے، مصالحت کی چادر ان پر تنگ ہورہی ہے، امت کا دم گھٹ رہا ہے، قرآن وسنت کی ناقدری ہورہی ہے، اور پوری مسلم برادری رسوا ہورہی ہے؛ لیکن اتنا جان لیں ! اگر آج وہ خموش ہیں تو کل ان پر بھی خموشی برتی جائے گی، ظلم کا انجام تو طے ہے، وہ فطری موت مر کے رہیں گے؛ لیکن اس پر چپ رہنے والے اور بھی بےدردی کی موت مرتے ہیں۔ پھیر تو  لیں گے چھری زہر بھی کھائیں گے ہم یوں نہ موت آئی تو پھر بے موت مرجائیں گے ہم۔


No comments:

Post a Comment