کچھوچھہ شریف کا تاریخی پس منظر و برائے زیارت اہم مقامات

وہ جگہیں اور وہ مقامات مقدس ومطہر ، شریف و پاکیزہ اور تاریخی و قابل ذکر ہو جایا کرتے ہیں جنہیں رجال اللہ اور مردان خدا سے نسبت وتعلق حاصل ہوتا ہے۔ تاریخ کی کتابوں میں اور لوگوں کی زبان پر بے شمارا ایسے مقامات ہیں جن کے ساتھ مقدس و شریف جیسی نسبت لگی ہوئی ہے ۔ چنانچہ کہا جاتا ہے مکتہ المکرمہ ،مد ینہ طیبہ، بیت المقدس ،  نجف اشرف ، بغدادشریف ،اجمیر شریف ، گلبرگہ شریف ، بہرائچ شریف ، کلیر شریف اور پنڈ وہ شریف وغیرہ۔ قرآن وسنت کے مطالعے ، انبیاء وصالحین کے آثار وقصص اور ان کے نصائح و وصایا سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ شخصیتوں کے تقدس سے مقامات مقدس ہو جایا کرتے ہیں۔

کچھوچھہ مقد سہ: سرزمین  کچھوچھہ کو مقدس ہونے کا شرف اس لئے حاصل ہے کہ اسے آٹھویں صدی ہجری کے اس مردحق آگاہ سے نسبت وتعلق ہے جو اپنے وقت کا عظیم داعی حق ، بندہ بے نفس، درویش کامل اورغوثیت  و جہانگیری کے بلند مقام پر فائز تھا۔

کچھو چھہ شریف مخدوم پاک علیہ الرحمہ کی آمد سے قبل: مخدوم پاک کی آمد سے پہلے کچھوچھہ کا حال کچھ اچھا نہ تھا، یہاں جوگیوں ، جادوگروں اور ساحروں کا راج تھا، ہر طرف کفرو بے دینی کی چہل پہل تھی یہاں کی فضابڑی مسموم اور  آلودہ تھی  ۔

کچھوچھہ شریف کا انتخاب: حضور غوث العالم تارک السلطنت میرسید اشرف جہانگیر سمنانی علیہ الرحمتہ والرضوان کے مرشد گرامی حضوری علاءالحق والدین قدس سرہ  نے آپ کی تربیت گاہ کے لئے اس جگہ کا انتخاب فرمایا اور بذریعہ کشف اس دیار کا معائنہ بھی کرایا ۔

کچھوچھہ میں مخدوم پاک کی آمد: مخدوم پاک نے دارالسلطنت شہر جون پور سے کوچ کیا اور مختلف جگہوں سے ہوتے ہوتے موضع بہدوند ( بھدوڑ) پہنچے باہر ایک باغ تھا وہاں قیام فرمایا سب سے پہلے جو شخص آپ کی خدمت میں حاضری سے مشرف ہوئے۔وہ ملک محمود تھے۔ آپ نے ان پر بڑی مہربانی اور عنایت فرمائی جب قیلولے کا وقت ہوا تو آپ نے آم کے ایک درخت کے نیچے جو بے حد سایہ دار تھا آرام فرمایا۔ زوال کے وقت آپ بیدار ہوئے تو اصحاب نے دیکھا کہ درخت کی مشرقی شاخ مغرب کی جانب آگئی تھی۔ کچھ وقت تک ملک محمود کے ساتھ گول تالاب کی سیر کی اس کے اطراف کوغور سے دیکھا اور فرمایا کہ ہمیں حضرت مخدوی ( پیر ومرشد ) نے اس جگہ کا حکم دیا تھا یہاں کون سی جگہ مناسب رہے گی۔ ملک محمود نے عرض کیا یہاں ایک جگہ ایک جوگی رہتا ہے وہی جگہ بہتر رہے گی ۔ اس کے چاروں طرف تالاب کا پانی ہے لیکن وہ جگہ کا فرانہ شعبدے سے خالی نہیں ہے اگر اس جوگی کے باطل شعبدوں کا مقابلہ کر لیا جائے تو اس سے بہتر اور کوئی جگہ  نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا''  و قل جاء الحق و زهق الباطل ان الباطل كان زهوقا‘‘خیر جگہ دیکھ لیتے ہیں ۔ اصحاب کی ایک جماعت اور ملک محمودآ گے چل رہے تھے ۔سیر گاہ پہنچے جب آپ نے نظر اٹھا کر دیکھا تو فرمایا کہ یہ ہماری وہی جگہ ہے جس کا حکم حضرت مخددی ( پیرومرشد ) نے دیا تھا لہذا حضرت مخدوم پاک  نے اپنے ایک خادم کو حکم دیا کہ اس (جوگی ) سے کہو یہاں سے چلا جائے ۔ جوگی نے جواب میں کہلوایا، مجھے یہاں سے نکالنا آسان نہیں ہے میں پانچ سو جوگی کے برابر ہوں۔ اگر کوئی قوت ولایت سے نکالے تو نکالے ورنہ ممکن نہیں ہے۔ حضرت مخدوم کچھوچھہ علیہ الرحمہ  نے جمال الدین راوت کو جو اسی دن شرف بیعت سے مشرف ہوئے تھے حکم دیا کہ جاؤ اور جو کچھ وہ طلب کرے سہی اس کے سامنے لاکر دکھاؤ۔ جمال الدین کو تھوڑا ساتا مل ہوا۔ حکم ہوا سا منے آ ؤ اور جو پان آپ تناول فرمارہے تھے۔ اپنے ہاتھ سے ان کے منہ میں ڈال دیا۔ پان چباتے ہی ان کی حالت بدل گئی اور وہ دلیرانہ آگے بڑھے ۔ جوگی نے بہت حربے استعمال میں لائے مگر جب اسے اپنے تمام ٹوٹکوں کی ناکامی کا احساس ہوا تو عاجزی کے ساتھ سامنے آیا اور کہا کہ مجھے حضرت مخدوم پاک علیہ الرحمہ کے پاس لے چلوتا کہ میں اسلام قبول کرلوں۔  جمال الدین نے جوگی کا ہاتھ پکڑا اور حضرت قدوۃ الکبری کے قدموں میں ڈال دیا۔ آپ نے جوگی کوکلمہ شہادت پڑھایا اس کے کے تمام ساتھی بھی نور ایمانی سے منور ہوئے اس نے اپنے مذہب کی تمام کتابیں حضرت قدوۃ الکبری کے سامنے جلا دیں۔ آپ نے اسے عبادت و ریاضت کے کام میں لگا دیا اور اس کے رہنے کے لئے تالاب کے کنارے ایک جگہ مقرر کر دی جس روز وہ جوگی مشرف بہ اسلام ہوا اس کے ساتھ پانچ ہزار آدمی بھی آپ کی ارادت سے مشرف ہوئے۔  جب وہ علاقہ آپ کو حاصل ہو گیا تو آپ نے اس کا نام’’روح آباد رکھا۔ خانقاہ جو آپ نے باہرتعمیر کرائی تھی اسے کثرت آباد سے موسوم فرمایا۔ اسی  طرح ایک چھوٹا سا حجرہ جو یہاں تعمیر کرایا تھا اس کا نام وحدت آباد رکھا۔ آپ بعض اوقات مخلص اصحاب کو ساتھ لے کر روح آباد کے مشرق کی جانب تشریف لے جاتے اور وہاں تشریف فرما ہوتے اور معارف وحقائق کے اسرار و آثار پر گفتگو ہوتی رہتی جب آپ یہاں آ کر تشریف فرما ہوتے تو فرماتے کہ یہاں دل کو بڑ اسکون ملتا ہے اسی بنا پر اس جگہ کو ’دارالامان‘‘ کے نام سے موسوم کیا گیا۔ ایک اور جگہ جانب شمال تھی ۔ جب آپ کا جی چاہتا وہاں تشریف فرما ہوتے ۔ اس جگہ کا نام’’روح افزا‘‘ رکھا۔ آپنے کئی مرتبہ اپنے دوستوں اور ساتھیوں سے فرمایا کہ یہاں ایسی رونق ہوتی جواطراف کے لوگوں کو حاصل نہیں ۔

سرزمین کچھو چھہ سے مخدوم پاک کی انسیت:  سر زمین کچھوچھہ(روح آباد) سے  آپ کی جوانسیت تھی اس کا اندازہ اس شعر سے لگایا   جاسکتا ہے ۔  ترجمہ فارسی : اشرف دل سے (ملک)  سمناں (ایران)  کی محبت دور کر کیوں کہ روح آباد( کچھوچھہ شریف ) ہمارے لئے سمناں ہے ۔

بارگاہِ مخدومی کی حاضری اور بشارت:  ہر سال عرس مخدومی میں لاکھوں عقیدت مندوں کی حاضری ہوتی ہے، عرس مخدومی میں جانے والے بڑے خوش نصیب ہوتے ہیں انہیں اپنی قسمت پر ناز کرنا چاہیے کیوں کہ سلطان التارکین غوث العالم محبوب یزدانی حضور سید مخدوم اشرف سمنانی چشتی رضی اللہ عنہ نے اپنے زائرین(اہل ایمان زائرین) کو بشارت عظمیٰ سنائی ہے،جی ہاں! حضرت سید مخدوم اشرف سمنانی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے کہ:"ہر کہ بر سر قبر من رسد حاجت او بر آید و آمز زیدہ شود ان شاء اللہ و عاقبت او بخیر باشد و آتش دوزخ بروئے حرام کردد"  ترجمہ:جو شخص میری قبر پر حاضری دے گا ان شاء اللہ تعالیٰ اس کی حاجت پوری ہوگی اس کا انجام اچھا ہوگا وہ بخشا جائے گا اور اور دوزخ کی آگ اس پر حرام ہوگی۔(بشارت المریدین قلمی/ ماہنامہ جام نور کا محدث اعظم ہند نمبرصفحہ ١١؛بابت اپریل سنہ ٢٠١١ء/بشکریہ:شبیر احمد راج محلی)

شیخ عبدالرحمن جامی علیہ الرحمہ  قدس سرہ  لکھتے ہیں: جب اس فقیر کے دل میں حضرت خضر علیہ السلام اور دوسرے رجال اللہ کی زیارت کی خواہش پیدا ہوئی اور دل بے قرار ہوا تو حضرت خواجہ معین الدین  چشتی اجمیری قدس سرہ النورانی کی طرف سے اشارہ ہوا کہ پیر سید اشرف جہانگیر کے مزار پر جاؤ۔ وہاں تمہاری مراد پوری ہو جائے گی۔ لہذا جب پہلی بار آستانے پر حاضری ہوئی تو حضرت خضر علیہ السلام کی زیارت سے شرف یاب ہوا۔ مگر ہم کلامی کا شرف حاصل نہ ہوسکا۔ پھر جب دوسری بار حاضر ہوا تو تمام’’ر جال وقت‘‘ کے ساتھ حضرت خضر علیہ السلام کی زیارت ہوئی اور قسم قسم کے فیوض و برکات حاصل کئے۔ اسی جگہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانیت پاک، بعض صحابہ کرام اور اکثر مشائخ چشت کی بھی زیارت کا شرف حاصل ہوا‘‘ ۔  مزید آپ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ ’’اس حکایت کا مقصد یہ ہے کہ ولایت جہانگیری کے تصرف کی وجہ سے آج تک ولایت صوری و معنوی کا عزل و نصب میرسید اشرف جہانگیر قدس سرہ کے مزار پر جاری ہے اور اکثر رجال اللہ کا مجمع وہاں رہتا ہے‘‘ ۔

شیخ عبدالحق محدث دہلوی  رقم طراز ہیں’’:آپ کی قبر بڑا فیض کا مقام ہے اور ایک حوض کے درمیان میں ہے اس علاقہ میں جنات کو دور کرنے کے لئے آپ کا نام لے دینا بڑا تیر بہدف نسخہ ہے‘‘۔  بادشاہ ہندوستان حضرت اورنگ زیب علیہ الرحمہ نے سادات کچھوچھہ مقدسہ  سے اپنی عقیدت و وارفتگی  اور اپنی بے پناہ محبت والفت کا اعلان ان لفظوں میں کیا’’ سادات کچھوچھہ ہمہ داںمقبولان خالق وخلائق ہیں‘‘ ۔  اس خانوادے میں ایسی ایسی عظیم ہستیاں اور اولوالعزم شخصیتیں پیدا ہوتی رہی ہیں جو حکمت و دانائی کے تاجدار علم وروحانیت کے شہسوار، اپنے وقت کے غزالی و رازی اور بایزید بسطامی تھے۔ حضرت سید عبد الرزاق نورالعین صاحب قبلہ علیہ الرحمتہ والرضوان سے لے کرحضرت شیخ مبارک بودلے  (پیرومرشد حضرت نظام الدین بندگی میاں امیٹھوی و ملک محمد جائسی  علیہما الرحمہ ) حضرت مولانا غلام مصطفیٰ اشرفی جیلانی عرف مُلاَّ باسو جائسی علیہ الرحمہ ، مُلاَّ علی قلی اشرف اشرفی الجیلانی  علیہ الرحمہ (استاذ مُلاَّنظام الدین فرنگی محلی علیہ الرحمہ) ، حضرت مولانا سید باقر اشرفی جیلانی ملقب بہ فاضل جائسی علیہ الرحمہ ، حضرت مولانا امام اشرف اشرفی جیلانی علیہ الرحمہ ، حضرت مولانا سید امین اشرف جیلانی  جائسی  علیہ الرحمہ ، ہم شبیہ غوث الاعظم محبوب ربانی  حضرت سید محمد علی حسین المعروف اعلی حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی علیہ الرحمہ ،  عالم ربانی سلطان الواعظین سید احمد اشرف اشرفی الجیلانی علیہ الرحمہ ، حضرت سید محمد المعروف محدث اعظم ہند  علیہ الرحمہ ،حضور سرکارکلاں سیدمختار اشرف اشرفی الجیلانی  علیہ الرحمہ ، مجاہد دوراں سید محمد مظفر حسین علیہ الرحمہ ،  قطب ربانی حضرت ابو مخدوم شاہ سید محمدطاہر اشرف الاشرفی الجیلانی علیہ الرحمہ ، امیر ملت سید امیر اشرف اشرفی الجیلانی علیہ الرحمہ ،اشرف العلما ء سید محمد حامد اشرف اشرفی علیہ الرحمہ ،حکیم الملت  سید شاہ قطب الدین اشرف   اشرفی الجیلانی علیہ الرحمہ ، شیخ اعظم سید شاہ محمد اظہار اشرف اشرفی الجیلانی علیہ الرحمہ ، حضور محبوب العلماء حضرت سید محبوب اشرف  علیہ الرحمہ اور اشرف المشائخ حضرت ابو محمد شاہ سید محمد اشرف الاشرفی الجیلانی علیہ الرحمہ تک سے وہ برگزیدہ اور جلیل القدر شخصیتیں ہیں جنہوں نے اپنی دعوتی سرگرمیوں اور مسلسل تبلیغی دوروں کے ذریعہ ان گنت و بے شمار بندگان خدا کو مضبوط ایمان و عقیده عطا کیا اور انہیں اہل سنت و جماعت کے عقائد ونظریات پر قائم فرما کران کے دین و مذہب کی حفاظت فرمائی ۔

اہم مقامات متعلقہ آستانہ عالیہ کچھوچھہ مقدسہ

لحد خانہ: آستانہ عالیہ کے سامنے ایک قدیم عمارت ہے۔ یہ خانقاہ معلیٰ کہلاتی ہے۔ یہاں پر آپ اپنے مریدین و معتقدین کو روحانیت کا درس دیا کرتے تھے۔ بعد وصال وہاں حضرت   مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی علیہ الرحمہ کوغسل دیا گیا تھا۔ یہ تاریخی اور بہت متبرک ہے۔

روضہ مبارکہ حضرت مخدوم شاہ نظام یمنی قد س سرہ: یہ وہ برگزیدہ صاحب ولایت و علم وعرفان حقیقت اور محبوب مخدوم  اشرف جہانگیر سمنانی  رضی اللہ عنہ ہیں  آپ علیہ الرحمہ نے ۳۰ /سال تک حضرت مخدوم سید اشرف جہانگیر سمنانی شرف ولایت میں رہ کر ”لطائف اشرفی“ لکھی جو حالات سید اشرف کے علاوہ درس تصوف پر ایک مکمل انسائیکلوپیدیا ہے۔ آپ علیہ الرحمہ یمن کے رہنے والے تھے ۔حضرت سے اس قدر متاثر ہوئے کہ ساری زندگی ان کے لیے وقف کر دیا۔آپ کا روضہ مبارک مخدومہ سلطانہ  رفیقہ شفیقہ حیات حضرت حاجی الحرمین سیدنا مخدوم شاه عبدالرزاق نورالعین اشرف قدس سرہ کے روضہ اقدس  سے چند قدم آگے لحد خانہ سے متصل داہنی جانب واقع ہے ۔

روضہ مبارک   حضرت بی بی سلطانہ خاتون رحمۃ اللہ علیہا:جب سلطان اشرف جہانگیر سمنانی  قد س سرہ اپنے فرزند سید عبدالرزاق نورالعین کی ظاہری و باطنی تربیت فرما چکے اور انہیں علوم و فنون سے آراستہ فرمادیا تو آپ کو ان کی شادی کی فکرہوئی۔چنانچہ آپ نے ہندوستان کے سادات گھرانوں میں ان کے لئے تلاش شروع کی اور خانوادوں کے نسب کی تحقیق بھی کی آپ کے پاس پہلے سے ہی سادات کے شجرے تھے  کیونکہ آپ نے ایک کتاب" اشرف الانساب " کے نام سے تحریر کی تھی  جس میں ہندوستان میں رہنے والے تمام سادات کے شجروں کی تحقیق کی تھی۔ایک روایت متواترہ یہ بھی ہے کہ بادشاہ ہندوستان  حضرت محی الدین اورنگ زیب  عالمگیر قد س سرہ نے اسی نسب نامہ کے بنیاد پر حضرات سادات کرام کے وظائف مقررکئے اور جاگیریں پیش کیں۔

 حضرت غوث العالم محبوب یزدانی سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ عنہ نے حضرت مخدوم حاجی نورالعین قد س سرہ کا نکاح " سادات ماہرو" میں کرایا ۔ مکتوبات اشرفی میں سادات ماہرو کے بارے میں تذکرہ ہے کہ یہ لوگ نہایت صحیح النسب ہیں جو کشفاق و کشلاق سے ہندوستان آئے ۔آپ کی اہلیہ محترمہ  کانام  بی بی سلطانہ خاتون تھا جن کا مزارشریف آستانہ حضور مخدوم اشرف جہانگیرسمنانی کے پورب اور دکھن جانب نیر شریف سے کچھ دور پر واقع ہے جو آج بھی مرجع خلائق ہے۔

خانقاہ اشرفیہ حسنیہ سرکارکلاں: سید اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی علیہ الرحمہ  نے درگاہ سے کچھ فاصلےپر اپنی الگ ایک خانقاہ قائم کی اس کا نام"خانقاہ اشرفیہ حسنیہ سرکارکلاں" رکھا آپ نے یہاں رشدوہدایت کا سلسلہ شروع کیا ذکر و فکر مراقبہ اور دیگر معمولات مشائخ طریقت اس میں جاری کئے۔آج بھی   ہر سال ٢٧،٢٨،٢٩ محرم الحرام کو مخدوم پاک علیہ الرحمہ کے عرس کی تمام تقریبات اسی خانقاہ میں ادا  کیے جاتے ہیں ۔

حضرت اشرف حسین میوزیم  : اس میں  خانوادہ اشرفیہ کے تبرکات وملبوسات اور قلمی نوارد موجود ہیں ۔اس کے علاوہ کئی عظیم  شاہکار نوادرات شامل ہیں جن کا  کسی نا کسی شکل میں اسلامی تاریخی، ثقافت اور اسلامی تہذیب کی عکاسی کرتی ہیں۔

جامع اشرف کچھوچھہ مقدسہ:  جامع اشرف آستانہ حضرت مخدوم سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی علیہ الرحمہ کے جواراقدس میں واقع اسلامی وعصری اعلی تعلیم کا عظیم  مرکزی ادارہ ہے۔ اس میں اعداد یہ سے لے کر فاضل تک کی تعلیم دی جاتی ہے ۔ اس کے بعد دوسالہ تخصص فی الفقہ یعنی مفتی کے کورس کی تعلیم بھی باضابطہ دی جارہی ہے۔اس کے علاوہ حفظ و قرآت کا بھی شعبہ ہے ۔ اس ادارہ سے فارغ ہونے والے علماء اور فضلاء کو " جامعی" کہا جاتاہے۔اس کی اہمیت کا اندازہ  اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کی سند ہمدرد یونیورسیٹی نئی دلی ، مولانا آ زا دارد و یو نیورسیٹی حید رآ با د  اور علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی  اور بہار مدرسہ بورڈوغیرہ سے منظور شدہ ہے۔ نیز جامعۃ  الازہر مصر سے معادلہ حاصل ہے۔

حضرت مولانا احمد اشرف ہال : شیخ اعظم حضرت  سید اظہار اشرف اشرفی الجیلانی علیہ الرحمہ  نے خانقاہ اشرفیہ سرکارکلاں میں  تمام اسلامی تقریبات  کے لئے ایک وسیع وعریض شاندار فلک نما عمارت تعمیرکرادی ہے جس کا نام حضرت سلطان الواعظین علیہ الرحمہ کے نام نامی پرہے۔

حضرت مختار اشرف لائبریری :  یہ لا ئبریری ہندوستان کی عظیم لائبریریوں میں نمایاں مقام حاصل کر چکی ہے ۔ یہاں اس حقیقت کا اظہار غالبا نا مناسب نہ ہوگا کہ اس لائبریری میں احادیث و تفاسیر ،فقہ واصول ، تواریخ و سیرت و سوانح، تقابل ادیان ،کلیات و مجلات ، قدیمی مخطوطات ، قلمی نسخے  اورلسانی ادبیات پر عربی، فارسی، اردو، ہندی، سنسکرت ، انگلش میں موجود ہیں  جو عام  لائبریریوں میں دستیاب نہیں ہیں۔

روضۂ اقدس بی بی بلائی: یہ وہ بلی ہیں جو بابا کمال الدین بیانی کی خدمت میں رہتی تھیں جب آپ کو مخدوم باکمال کی صحبت سعید وارادت کا شرف حاصل ہوا تو آپ کے ساتھ بی بی بلائی بھی خدمت مخدوم میں رہنے لگیں۔ اور آپ کی پیاری ہو گئیں ۔  حقیقت ہے کہ "نگاہ مردمومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں" جوکسی محبوب خدا سے منسوب ہو جائے اور اس کی محبت میں اپنی جان قربان کر دے تو وہ محبوب حق اور صاحب روحانیت ہو جاتا ہے ۔  چنانچہ بی بی بلائی کی روحانیت  بھی لطف و کرم مخدوم کے طفیل محتاج قیل و قال نہیں بلکہ مسلم ہے۔ درگاہ معلی سے جانب مشرق کچھ فاصلے پر دفع آسیب وبلیات کے لیے محتاج تعریف نہیں ۔ آسیب زدگان کی زبان سے نکلنے والی چیخ خود      بی بی بلائی کی روحانیت کا اعلان و اقرار کرتی ہے۔

چہارگز دار الامان:  غوث العالم  محبوب یزدانی حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی قد س سرہ کے آستانہ مقدسہ سے ایک کلومیٹر شمالی گوشے میں موجود ہے۔ یہ جگہ پر سکون ذکر الہی، عبادت وریاضت کے لئے بہت مناسب ہے۔ حضرت مع جملہ مریدین و معتقدین  نماز عصر تا مغرب یہاں اوراد و وظائف میں مشغول رہا کرتے تھے۔  بقول مخدوم پاک علیہ الرحمہ کہ  یہ  وہ جگہ ہے  جہاں تاقیامت  حساب بصیرت و دیدۂ باطن کے غوث، قطب اور ابدال سے ملاقات ہوگی ۔ یہ جگہ ایک لمبے تالاب کے کنارے واقع ہے۔

درگاہ پہلوان شہید  علیہ الرحمہ:  آپ کا مکمل تاریخی ذکر نہیں ملتا۔ آپ کی بیشتر کرامتیں ظاہر ہوتی رہی ہیں۔ ایک زمانے جب آپ کے مزار کی نشاند ہی نہیں ہو پار ہی تھی۔ ایک ظالم کے ظلم سے قبروں کے نشان مٹ رہے تھے۔ آپ نے خواب میں کئی لوگوں کو اپنے قبر کی نشاندہی کی۔ ساتھ ہی ظالم کے ظلم سے نجات بھی دلانے کا وعدہ کیا۔ بہت پہلے سے ایک بات مشہور تھی کہ آپ نے روح آباد کے متعلق حضرت سید اشرف کا قول سنا کہ ایک زمانے میں حاجت مندوں کی تعداد بڑھے گی۔ جس کی وجہ سے بے ادبی اور گندگی پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔ لہذاجو بر داشت کر سکے وہ یہاں قیام کرے ورنہ وہ دور کہیں جگہ تلاش کر لے۔ آپ نے اپنا سرخود ہاتھ میں لے کر اپنی قبر تک آئے اور وہیں ہاتھ سے سر چھوڑ کر فرمایا۔ یہی میرے سکون کی جگہ ہے ۔ بہت سے لوگوں نے من گھڑت یہ لکھ دیا ہے کہ پہلوان شہید حضرت مخدوم اشرف کے زمانے سے پہلے کے ہیں ۔ یہ سراسر جھوٹ  اور غلط ہے ۔واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ علیہ الرحمہ کا عہد حضرت کے بعد کا ہے یا اسی دور کا ہے۔ واللہ اعلم

سادات کچھوچھہ مقد سہ: یہاں کے سادات کا سلسلہ نسب حاجی الحرمین  سید شاہ عبد الرزاق نورالعین رحمۃ اللہ علیہ سے ملتا ہے جو کہ  غوث الاعظم سید عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ  کے چوتھی پشت سے تھے۔ حضرت مخدوم اشرف قدس سرہ  حضرت عبدالرزاق نورالعین رحمۃ اللہ علیہ کے فرزندوں کو بہت محبوب رکھتے اور فرماتے ’’جو شخص نورالعین کے فرزندوں سے بغض رکھے گا وہ سارے سلسلہ چشت کا دشمن ہے اور سارے مشائخ چشت کا دشمن، میرادشمن ہے۔  خودحضرت نورالعین  علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ " ایک روز مخدوم پاک قد س سرہ پر عجیب و غریب کیفیت طاری تھی اصحاب کے بارے میں بشارت انگیر اور مسرت آمیز باتیں کررہے تھے ، جب میری باری آئی تو بہت غور کیا آخر میں خوش ہوکر فرمایا ، ہرگز ہرگز میں نے اپنا سب کاسب تم پر نثار کردیا ہے اور کوئی چیز تم سے بچا کرکے نہیں رکھی ہے ۔  اے فرزند نورالعین ! میں نے اللہ تعالیٰ سے تمہاری اولاد کے لئے دعاکی ہے ہمیشہ مسعود اور مقبول رہیں اور تمہاری اولاد میں دستور کے مطابق ایک فرد رجال الغیب میں سے اور ایک مجذوب ہوگا بلکہ ایک فرد پیدا ہوگا جس میں میرے احوال پیوست ہونگے ( لطائف اشرفی ٥٦/٦٢٤) آستانہ مقدسہ کا سجادہ نشین انہیں سادات میں ہی مقرر ہو تا چلا آیا ہے ۔

نیر شریف: نیر شریف کا پانی بہت متبرک اور بے پناہ اہمیتوں کا حامل ہے۔ اس کی کھدائی حضرت مخدوم اشرف رحمۃ اللہ علیہ کے جلو میں خود قلندروں نے ضرب لا الہ الا اللہ سے کی تھی اور حضرت اپنے اصحاب و مریدین کے ساتھ جب حج کو جاتے سب کے ساتھ ایک مشک ہو تا اور آپ زمزم لاکر نیر شریف میں ملاتے اور فرماتے یہ پانی مریضوں کے شفایاب ہونے کا ایک ذریعہ ہے۔ اس کی پانی بہت سارے امراض میں مفید ثابت ہوئی ہے۔ پاگلوں اور جنونی کیفیت رکھنے والوں کے لیے آب شفاء ہے، اس کے علاوہ آسیب و بلیات سے بھی نجات ملتی ہے کسی طرح کا بھی جسمانی یا روحانی مریض ہو ، اس کے لیے فائدہ مند ہے۔ تقریباسات سو سال اس تالاب کی کھدائی کو ہوئے، اس مدت میں  لاکھوں کی تعداد میں لوگ شفایاب ہوئے اور آج بھی ہو رہے ہیں۔

چراغ شریف: حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کے بعد آپ کے نام کا چراغ حضرت سید اشرف جہا نگیر سمنانی کے خلیفہ اکبر اور سجادہ نشین سید عبدالرزاق نور العین رحمۃ اللہ علیہ اوپری حصے میں روشن کیا کرتے تھے جس کی رسم اب تک چلی آئی ہے۔ اس چراغ کی بڑی تاثیر ہے۔  جس گھر میں حضرت کا چراغ روشن ہو تا ہے مؤکلوں کا پہرہ رہتا ہے ۔ دفاع جن  کے لئے بہت ہی کارگر ہے۔

میلہ ماہ اگہن: یہ میلہ ہندی مہینے کے اعتبار سے ایکاد یشی یعنی دیوالی کے بارہ دن پہلے سے شروع ہو تا ہے اور چالیس روز تک مسلسل رہتا ہے۔ اس میلے میں لوگ آتے اور جاتے رہتے ہیں۔ اس میلے میں کافی بھیڑ ہوتی ہے۔ دوسرے مذاہب (ہندو، سکھ، عیسائی، یہودی، پنجابی وغیرہ ) کے لوگ اپنی عقیدت و محبت کے اعتبار سے حضرت مخدوم کچھوچھہ قد س سرہ النورانی  کی بارگاہ میں آتے ہیں اور فائدہ حاصل کرتے ہیں ۔  چونکہ  غوث العالم محبوب یزدانی سلطان سید  مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی السامانی  نوربخشی قد س سرہ النورانی  کا فیض بلا تفریق مذہب و ملت ہر ایک کے دکھ درد کا مداوا کر کے اپنے حسن و اخلاق سے غیر مسلموں کی راہ حق دکھاتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی آپ کی بے تعصبانہ زندگی کی ایک مثال یہ ہے کہ آستانہ مقدسہ پر ہر دھر م ہر مذہب کے لوگ یکساں فیض حاصل کرتے ہیں۔

غسل شریف:  غوث العالم محبوب یزدانی حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی  علیہ الرحمہ کے روضہ مقدسہ وقبر انور کا غسل سال میں ایک بار ہو تا ہے ، اس کی تاریخ معین نہیں ہے بلکہ صاحب سجادہ کے جلو میں خاندان اشر فیہ غسل کی تاریخ طے کر تا ہے اور صاحب سجادہ اس تاریخ کا اعلان کرتے ہیں۔ قبر انور کا غسل خالص کیوڑہ سے دیا جا تا ہے ۔

عدالت:  آپ کی بارگاہ میں تین اوقات کی عدالت معین ہے ۔(ا) بعد نماز فجر سے صبح ساڑھے چھ بجے تک۔( ۲)  دس بجے دن سے زوال کے وقت تک۔( ۳) چار بجے سے مغرب تک۔ان اوقات میں آستانہ  مقدسہ پر حاضری دینے سے آسیب و بلا ہیات اور جن و شیطان کے اثرات دور ہوتے ہیں ۔اس کے علاوہ روحانی، جسمانی یا کیسا بھی مرض ہو ٹھیک ہو جاتا ہے۔

چلہ:  چلہ مقصد بر آوری کے لیے کیا جاتا ہے۔ اس سے حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی علیہ الرحمہ  کی خاص توجہ ہوتی ہے۔ اس بار گاہ میں بڑے علماء کرام اور صوفیاء عظام اور عوام اہل سنت نے چلہ کیا ہے اور انہیں چلہ کرنے میں بہت سے فوائد حاصل ہوئے ہیں۔ چلہ طاق دنوں پرمشتمل ہو تا ہے ۔  ۲۱/۷/۳     دنوں کا ہو تا رہے اور بڑا چلہ چالیس دن کا ہو تا ہے۔

آداب حاضری: غوث العالم تارک السلطنت محبوب یزدانی مخدوم سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ النورانی کی بارگاہ میں حاضری کے آداب کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے کیونکہ بزرگان دین کے دربار میں حاضری دیناان سے ملاقات کے برابر ہو تا ہے ۔ فرق اتنا ہے کہ وہ ہماری مادی آنکھوں سے  اوجھل ہیں لیکن ہم ان کی آنکھوں سے دور نہیں ہیں۔ حاضری دینے کے لیے باوضو ہونا لازمی ہے۔ بڑے احتیاط اور ہو شمندی کی ضرورت ہے۔ جہاں تک ہو سکے ادب کا دامن چھوٹنے نہ دے۔ روضہ اقدس میں نہایت ہی مؤدب انداز میں داخل ہو۔ پہلے داہنا قدم رکھے بعدۂ ہدیہ سلام قبل فاتحہ پیش کر دے بعدہ چند وقفہ حضرت کا تصور کرکےدعا مانگے۔  یہ وہ بار گاہ ہے جہاں فرشتےمؤدب ہو کر جاتے ہیں ۔ حضرت وارث پاک رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں تین روز کا چلہ کیا تو ہر وقت ورود و وظائف میں مشغول رہا کرتے لیکن روضہ اقدس میں جاتے ہوئےڈرتے۔ آپ علیہ الرحمہ فرماتے یہ وہ بار گاہ ہے جہاں بزرگ بھی آپ کے جلال سے ڈرتے ہیں۔ اس لیے ایک عقیدت مند اور صاحب عقل کو چاہیے کہ وہ ہمیشہ حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رحمۃ اللہ علیہ کی نگاہ التفات کو متوجہ کرنے کے لیے آداب حاضری جس قدر ممکن ہو خیال رکھے۔

عرس شریف: ۲۵ محرم الحرام تا ۳۰ محرم الحرام عرس شریف کی تقریبات ہوتی ہے۔ چونکہ ۲۸محرم الحرام کو  غوث العالم محبوب یزدانی مخدوم  سلطان حضرت سید اشرف  جہانگیر سمنانیقد س سرہ النورانی  کا وصال ہوا تھا۔  اس لئے۲۸ محرم الحرام کو  مخدوم زادہ  قائد ملت حضرت علامہ  الشاہ سیدمحمدمحمود اشرف اشرفی الجیلانی صاحب قبلہ مدظلہ العالی والنورانی بمقام خانقاہ اشرفیہ حسنیہ سرکاں کلاں  (گراؤنڈ جامع اشرف )  درگاہ کچھوچھہ شریف  (ضلع امبیڈکر نگر اترپردیش )میں ادا  فرماتے ہیں اور اس موقع پر دور دراز سے آئے عقیدت مندوں، مریدین و متوسلین اور حاجت مندوں کے لیے دعاء خاص کی جاتی ہے۔ تاریخی اعتبار سے یہ پانچ دن حضرت غوث العالم محبوب یزدانی سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی السامانی نوربخشی   قدس سرہ النورانی  کی نگاہ التفات کو متوجہ کرنے کے لیے بہت اہم ہے مزید محفل سماع کا پروگرام  بھی ہوتارہتا ہے۔ (ابومحامدالحاج آل رسول احمد الصدیقی)

 

No comments:

Post a Comment