قدوۃ العارفین زہدۃ السالکین رہنمائے اہل یقین پیشوائے
بزرگان دین راز ہائےسر بستہ کے امین حضرت مخدوم شیخ علاؤ الحق والدین گنج نبات
خالدی پنڈوی قدس سرہ اپنے وقت کے جلیل القدر بزرگ صاحب تقوی وروحانیت اور مقتدائے
ارباب ولایت تھے یعنی علم و فضل زہد وتقویٰ وپرہیزگاری میں اپنی مثال نہیں رکھتے
تھے ۔ آپ کے والد محترم کو عمر بن اسعد لاہوری کہتے تھے جو بادشاہ بنگال کی تمام
سلطنت کے وزیر تھے ۔طریقت میں آپ قطب ولایت حضرت شیخ سراج الدین عثمان المعروف اخی
سراج آئینہ ہند قد س سرہ کے مرید اور خلیفہ تھے اور عثمان اخی سراج الدین نظامی
چشتی علیہ الرحمہ بھی سلاطین بنگال کے امراء میں سے تھے جو لاہور سے آکر بنگال میں
ساکن ہوگئے تھے۔ (مراۃ الاسرار صفحہ 1013)
پیدائش
وجائے پیدائش:
آپ
علیہ الرحمہ کی پیدائش سن ۷۰۱ہجری
مطابق ۱۳۰۲ء
میں ہوئی۔آپ کی جائے پیدائش کی تعیین میں مؤرخین کا اختلاف ہے، بعض حضرات نے پنڈوہ
اور بعض نے لاہورلکھا ہے۔ راجح یہ ہے کہ آپ کی پیدائش لاہور میں ہوئی، مخدوم سید
اشرف جہانگیر کچھوچھوی کے اس قول سے جائے پیدائش کا تعین ہوتاہے’’دار الخلافت جنت
آباد عرف گور میں سادات عالیہ رہتے ہیں جو قطب الاولیائے محققین ولب الاصفیائے
مدققین مخدومی مولائی سندی حضرت شیخ علاء الحق قدس اللہ روحہ کے ہمراہ ولایت لاہور
وملتان سے آئے تھے۔‘‘(مکتوبات اشرفی،ترجمہ - سیدشاہ ممتاز اشرفی،سید اشرف جہانگیر
سمنانی، مکتوب ۳۲،
ص:۳۳۸،ناشر
دار العلوم اشرفیہ رضویہ اورنگی ٹاون، کراچی پاکستان، سال اشاعت ندارد)
حسب
ونسب:
مخدوم
العالم شیخ علاء الحق پنڈوی علیہ الرحمہ کا نسب صحابی رسول حضرت خالد بن ولید رضی
اللہ عنہ سے ملتاہے۔‘‘ خزینۃ الاصفیا میں ہے کہ:’’معارج الولایت کے مصنف لکھتے ہیں
کہ: ’’علاء الدین صحیح النسب قریشی تھے۔ آپ کا نسب نامہ حضرت خالد بن ولید رضی
اللہ عنہ سے ملتاہے۔‘‘(خزینۃ الاصفیا، مفتی غلام سرور لاہوری،ج:۲،ص:۲۴۶، مکتبہ نبویہ گنج بخش
روڈ، لاہور، سن اشاعت ۲۰۰۱-)آپ
کے والد کا نام اصح روایت کے مطابق اسعدتھا۔،اخبار الاخیار، خزینۃ الاصفیااور دیگر
معتبر کتابوں میں یہی نام لکھا ہے۔
طرز
زندگی اورلقب گنج نبات:
مخدوم
العالم شیخ عمرعلاء الحق پنڈوی علیہ الرحمہ بڑے شاہانہ اندازمیں رہاکرتے تھے اور
اپنے آپ کو گنج نبات (مٹھائی کا خزانہ)کہلاتے تھے، اس لقب کو اختیار کرنے کے
پیچھے کون سے عوامل کارفرماتھے؟اس سلسلے میں مؤرخین نے الگ الگ وجوہات اور روایات
لکھی ہیں: شیخ عبد الرحمن چشتی نے مرآۃ الاسرار میں، مرزا محمد اختر دہلوی نے
تذکرئہ اولیائے برصغیر میں اورشیخ وجیہ الدین اشرف لکھنوی نے بحرزخار میں لکھاہے
کہ شیخ علاء الحق پنڈوی وفور علم، کثرت اطلاع، زہد وتقوی اور اپنی جاہ ومنزلت و
احتشامِ دولت کی وجہ سے اپنے آپ کو گنج نبات کہلاتے تھے، محدث اعظم ہند سید محمد
اشرفی کچھوچھوی نے لکھاہے کہ:’’ بعضوں کے خیال میں آپ کو گنج نبات سب سے پہلے آپ
کے جلیل القدر خلیفہ حضرت مخدوم سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی نے اظہارِ عقیدت کے
طور پر کہا تھاجس کو غیبی قبولیت کا تاج عطاہوا اور آپ کا یہ لقب زبان زد ہو گیا۔
و اللہ تعالیٰ اعلم بحقیقۃ الحال!‘‘(ماہنامہ اشرفی،جلد ۲/شمارہ نمبر۸؛ محرم الحرام۱۳۴۳ ھ /اگست ۱۹۲۴ء)
شیخ
عمر علاء الحق پنڈوی علیہ الرحمہ کا سیاسی
وعلمی مقام:
مخدوم
العالم حضرت شیخ عمرعلاء الحق پنڈوی علیہ الرحمہ کا حکومتی امور میں بڑاعمل دخل
تھا۔ مؤرخین نے وزرائے حکومت میں آپ کا نام نامی اسم گرامی بھی شامل کیاہے۔آپ
کا گھرانہ شاہانِ مملکت کا نور نظر تھا۔ والد گرامی وزیر مالیات اور بیٹا وزیر
مملکت تھے۔
آپ
علم وفضل میں ایسا کمال رکھتے تھے کہ صاحبان علم وفضل اور اہل جبہ ودستار آپ کے
درکی جبہ سائی کرنا اپنی فیروزبختی سمجھتے تھے،آپ اپنے وقت کے سب سے بڑے عالم و
فاضل،مفتی و فقیہ، مفسرومحدث، نحوی وصرفی، اورخطیب وداعی تھے۔ اللہ تعالی نے آپ
کو علم ظاہری کے ساتھ علم لدنی بھی عطا فرمایا تھا۔ چنانچہ۱۰۱۴ھ میں لکھی گئی کتاب
گلزار ابرار میں لکھاہے کہ آپ کو علم لدنی حاصل تھا، چنانچہ شیخ محمد غوثی شطاری
ماندوی لکھتے ہیں کہ: ’’علاء الحق، مخدوم العالم، علاء الدین تل بنگالی آپ کا لقب
ہے، آپ دونوں جہان کے امام تھے اور درسی ولدنی دونوں علم آپ کو حاصل
تھے۔‘‘(اذکار ابرار ترجمہ گلزار ابرار،محمد غوثی شطاری ماندوی ترجمہ فضل احمد
جیوری،ص: ۴۰۱،
ناشردار النفائس کریم پارک لاہور،سن اشاعت ۷۲۴۱)
شیخ
عمرعلاء الحق پنڈوی علیہ الرحمہ کو اصولی، فقہی اور عربی علوم پر مہارت تامہ حاصل
تھی۔ مصنف نزھۃ الخواطر نے لکھاہے کہ:عالم کبیر شیخ عمر بن اسعد لاہوری معروف بہ
شیخ علاء الدین پنڈوی فقہ، اصول اور عربی ادب کے علمائے کاملین میں سے تھے، ان کے
والدشاہِ بنگال کے وزیر تھے، اس لیے امراء وسلاطین کے نزدیک ان کی بڑی وجاہت اور
قدر ومنزلت تھی، ان کی شہرت پوری دنیا میں تھی، وہ درس دیتے اور فائدہ رسانی کرتے
تھے، کثیرلوگوں نے ان سے علم حاصل کیا۔‘‘(نزھۃ الخواطر وبھجۃ المسامع و
النواظر،عبد الحی لکھنوی، ج:۲،ص:۱۸۱،ناشر دارابن حزم بیروت،
لبنان سن اشاعت۱۹۹۹/۱۴۲۰)
شیخ
عمر علاء الحق پنڈوی علیہ الرحمہ نے خوداپنے علم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مخدوم سید
اشرف جہانگیر سمنانی کچھوچھوی سے کہاکہ میں ایک پھل دار درخت ہوں جسے ہلاؤ تو
تمہیں علم وحکمت کے پھل ملیں گے،چنانچہ سید وحید اشرف کچھوچھوی لکھتے ہیں
کہ:’’آیات قرآنی کی تفسیراور فصوص الحکم اور فتوحات مکیہ کے نکات مجھ سے حاصل
کرلو، میں ایک پرُبار درخت ہوں جسے ہلاؤ تو تمھیں عجیب وغریب پھل ملیں گے۔‘‘(حیات
مخدوم اشرف سمنانی،سید وحید اشرف، ص:۵۷،
ناشرمصنف خود، سن اشاعت۱۹۷۵ء،بحوالہ
مکتوبات اشرفی ہفتاد وپنجم)
علمی دنیا میں اسوقت آپ کے خاندان کو وہی شہرت حاصل تھی جو
مسلمانوں کے آخری دور حکومت میں حضرت مولانا عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ کو
حاصل ہوئی تھی ۔ مولانا اسعد لاہوری علیہ الرحمہ کی علمی شہرت شمالی ہندوستان سے
گزرکر جب مشرقی حصہ تک پہونچی سلاطین گور نے بااصرار تمام آپ کے پورے خاندان کو
بنگال بلایا مولانا تو وزیر خزانہ بنادیئے گئے تھے اور آپ کے دیگر اور قابل اعزا
بھی اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوئے ۔ (محبوب یزدانی صفحہ 36)
مزے کی بات یہ ہے کہ سلطان سید سلطان اشرف جہانگیر
سمنانی علیہ الرحمہ کے والد محترم بادشاہ نسبِ مادری میں بادشاہ ، پیر
ومرشد بادشاہ ،خود بادشاہ اور بھائی بھی بادشاہ ۔ اللہ اللہ کیا شان ہے شاہ سمناں
کا ۔
حضرت شیخ سراج اخی قدس سرہ ( المتوفی 758ہجری) کا لقب سلطان
المشائخ حضرت نظام الدین محبوب الہی قدس سرہ (المتوفی 725 ہجری) کی زبان مبارک پر
گزرا تھا کہ "ایں آئینۂ ہندوستان است" یعنی سراج اخی ہندوستان کا آئینہ
ہے ۔ ( اخبار الاخیار ، سیرالاولیاء ، اذکارابرار، روضۃ الاقطاب)
سبحان اللہ آخر اسی طرح ہوا کہ سراج اخی سلطان المشائخ کے
دسویں خلیفہ تھے۔ حضرت سراج اخی ظاہری وباطنی کمالات سے مزین تھے ، عشق و محبت اور
ذوق سماع میں آپ کے بے نظیر و تجرید و ممتاز اورلطف و کرم میں مشہور تھے۔ تربیت
مریدین میں آپ ید طولیٰ رکھتے تھے۔
اگرچہ سلطان المشائخ کے تمام خلفاء صاحب مقامات عالی
تھے لیکن دو بزرگ ایک شیخ نصیر الدین محمود اور دوسرے اخی سراج الدین کی چاشنی اور
تھی ان دونوں حضرات سے کثیر التعداد خلقت فیضیاب ہوئی اور بہت بزرگ صاحب خلافت
وارشاد ہوئے چنانچہ آج تک ان دونوں حضرات سے تمام ہندوستان میں سلاسل جاری ہیں اور
قیامت تک جاری رہیں گے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ (مراۃ الاسرار صفحہ 888)
شیخ محقق حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے اپنی
کتاب اخبارالاخیار میں شیخ علاؤالحق پنڈوی علیہ الرحمہ کے تذکرے میں لکھا ہے وہ
فرماتے ہیں کہ"ابتدائی زمانے میں مال دار اور غنی ہونے کے وجہ سے نہات ہی شان
و شوکت سے رہا کرتے تھے مگر جب سراج اخی کےمرید ہوئے تو سب کچھ چھوڑ کر فقیرانہ
اور مستانہ وار گوشہ نشینی اختیار کرلی ۔ (اخبار الاخیار صفحہ 310)
فخرخاندان حضرت شیخ علاؤ الحق والدین گنج نبات قدس سرہ اس
خاندان کے چشم و چراغ تھے جو خود تو تاج شاہی کے سائے میں تھا لیکن اس خاندان کے
سائے میں ہزارو ں نہیں لاکھوں پلتے تھے ۔ جس راہ سے نکل جاتے تھے آنکھیں فرش راہ
ہوتی تھیں ۔ جس گلی سے گزر جاتے اقرار اطاعت کے دامن بچھ جاتے۔ آپ اپنے زمانہ کے
اکابرین علماء میں شمار کئے جاتے تھےاور ایک زمانے تک دین وتبلیغ کی خدمت کرتے
رہے۔ آپ کی محفل میں علماء و فضلاء کا جمگھٹ رہا کرتا تھا ۔
علوم معارف کے لحاظ سے بھی آپ کا مقام ارفع و اعلیٰ تھا
ڈاکٹر وحید اشرف صاحب لکھتے ہیں " علوم معارف میں آپ کا مرتبہ نہایت بلند تھا
کبھی کبھی جوش کے عالم میں سید اشرف سے فرماتے تھے کہ آیات قرآنی کی تفسیر ، فصوص
الحکم اور فتوحات مکیہ کے نکات مجھ سے حاصل کرلو میں ایک پر بار درخت ہوں جسے ہلاؤ
تو تمہیں عجیب وغریب پھل ملیں گے۔ ( حیات سید اشرف جہانگیر سمنانی صفحہ 57)
شیخ علاؤ الدین گنج نبات کے ارشاد گرامی سے پتہ چلتا ہے کہ
وہ طریقت میں علمیت و روحانیت کے کتنے بلند مقام پر فائز تھے۔ جب شیخ سراج الدین
اخی سلطان المشائخ کی خلافت سے مشرف ہوئے اور اپنے اصلی وطن بنگال جانے کا ارادہ
کیا تو سلطا المشائخ کی خدمت میں عرض کیا کہ وہاں شیخ علاؤالدین بڑا عالم و فاضل
اور صاحب جاہ و منزلت ہے ۔ میراوہاں کیسے گزارہ ہوگا۔ سلطان المشائخ نے فرمایا
فکرمت کرو وہ تمہار ا خادم ہوجائے گا۔ آخر یہی ہوا۔ (مراۃ الاسرار صفحہ 1014)
آپ نے اپنے شیخ اخی سراج آئینہ ہند قدس سرہ کی بڑی خدمت کی
دن رات سفر وحضر میں ان کے ساتھ رہے اور فیوض و برکات حاصل کئے جب شیخ اخی سفر پر
جاتے تو آپ کا سامان اپنے سر پر رکھ کر میلوں پیدل سفر کرتے اور ان کی خدمت میں
کسی قسم کی کمی نہیں آنے دیتے تھے۔
غوث العالم محبوب یزدانی سلطان سیدمخدوم اشرف جہانگیرسمنانی
قدس سرہ فرماتے ہیں کہ شیخ سراج الحق والدین قدس سرہ حضرت مخدومی قدس سرہ (شیخ
علاؤالحق گنج نبات پنڈوی) کی نسبت کمال درجہ لطف ومہربانی فرمایا کرتے تھے ۔ لیکن
ان سے خدمت اس حد تک لیتے تھے کہ اکثر اوقات حضرت سراج الحق اخی قدس سرہ پالکی میں
سوار ہوجاتے اور سیر کو نکل جاتے ۔ حضرت شیخ علاؤالحق گنج نبات پنڈوی پالکی کا
سیدھے ہاتھ کا ڈنڈا اپنے کاندھے پر رکھ کر دور تک پالکی لے جاتے تھے۔ اکثر ایسابھی
ہوتا تھا کہ شیخ سراج الحق قدس سرہ النورانی کے خدام کھانے کی گرم گرم دیگ ( دیگچی)
حضرت مخدومی کے سرپر رکھ دیا کرتے تھے ۔ آپ کے بعض خدام کوشش کرتے کہ وہ برتن آپ
سے لے کر خود اپنے سر پر رکھ لیں لیکن حضرت مخدومی کسی دوسرے کو دینے پر تیار نہیں
ہوتے تھے۔
حضرت مخدومی نے یہ گرم دیگچی اس کثرت سے اپنے سر پر اٹھائی
تھی کہ آپ کے سر کے تمام بال ( جل کر) گر گئے تھے۔ اکثر اوقات شیخ سراج الحق آئینہ
ہند قدس سرہ کی پالکی حضرت مخدومی کے سسرال والوں کے محل سے گزرتی تھی ( اس حال
میں کہ پالکی کا بازوئے راست حضرت مخدومی کے کندھے پر ہوتا تھا ) اس زمانہ میں آپ
کے سالے ( Brother
- in- law) منصب وزارت پر فائز تھے۔ انہیں حضرت مخدومی کی اس خدمت سے بہت عار آتی تھی
اورکہا کرتے تھے کہ اے بے ننگ یہ خدمت کرکے مجھے کیوں شرمندہ کررہا ہے ۔ حضرت
مخدومی جواب فرمایا کرتے تھے کہ.......
چہ می گوئی کہ زین ننگ تمام است
یہ کیا کہتے ہو ہے یہ ننگ کا کام
کہ مارا درجہاں زین ننگ نام است
جہاں میں ہے مرااس ننگ سے نام
کسی کورا بود زین خدمتش ننگ
جو کہتا ہے اسے کارِ کمینہ
زند فرداز حسرت سینہ برسنک
تو کل کوٹے گا و ہ حسرت سے سینہ
شیخ آپ کی خدمت سے بہت خوش ہوئے اور جو کچھ روحانی نعمتیں
انہیں اپنے شیخ حضرت سلطان المشائخ سید نظا م الدین محبوب الہی دہلوی بدایونی قدس
سرہ سے ملی تھیں وہ سب کی سب انہوں نے آپ کے حوالہ کرکے اپناجانشین اور روحانیت کے
عظیم منصب پر فائز فرمادیا چنانچہ شیخ کے بعد آپ مسندارشاد میں متمکن ہوئے۔
شیخ علاؤ الدین گنج نبات قدس سرہ نے اپنے علم و روحانیت کے
ذریعے بنگال میں رشدوہدایت کا سلسلہ شروع کیا اور تشنگان معرفت کو سیراب کرتے رہے
آپ کا سلسۂ نسب صحابی رسول حضرت سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے صاحب
مراۃ الاسرار نے آپ شان و عظمت بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ"آپ کے کمالات کا
اندازہ اس بات سے ہوسکتا ہے کہ میر سید اشرف جہانگیر سمنانی جیسے شاہباز اور بلند
پرواز حضرت خواجہ خضر علیہ السلام کی راہنمائی سے ملک خراسان سمنان کی بادشاہی چھوڑ
کر آپ کی خدمت میں پہونچے اور جس تربیت سے مربتہ تکمیل وارشاد پر پہونچے باوجودیکہ
بے شمار اولیاء کبار سے آپ کی راستے میں ملاقات ہوئی لیکن سب نے یہی فرمایا کہ
تمہارا مرشد بنگال میں ہے وہاں جاؤ ۔ حضرت حضرت علیہ السلام نے 70 ستر مرتبہ شیخ
علاؤالحق کو خبر دی کہ ایک باز سمنان سے اڑ چکا ہے اور بہت سے مشائخ نے جال
پھیلادیئے ہیں لیکن میں آپ کے لئے لارہاہوں۔(مراۃ الاسرار صفحہ 1014، معارج
الولایت )
شیخ علاؤ الحق کی خانقاہ غریبوں، فقیروں اور بے سہار ا
لوگوں کی امید کا مرکز تھی جہاں ہر وقت ہزاروں کی تعداد میں لوگ حاضر ہوتے اور
دامن بھرکر جاتے تھے آپ کی خانقاہ کا خرچ بادشاہ وقت کے خرچ سے بھی زیادہ تھا
بادشاہ کو اس پر حیرت ہوتی تھی ایک مرتبہ بادشاہ نے کہا کہ شاید انہوں نے بیت
المال کے افسر سے کوئی سازباز کی ہے جب ہی یہ اتنا خرچ کرتے ہیں پھر اس نے حکم دیا
کہ آپ اس شہر سے نکل جائیں اور سنار گاؤں میں رہیں آپ فوراً اپنے اپنے مریدوں کے
ہمراہ روانہ ہوئے اور سنارگاؤں میں اقامت اختیار کرلی آپ دوسال سنار گاؤں میں رہے
لیکن ظاہراً کوئی وجہ معاش نہ تھی ۔ دوباغ جو آپ کو اپنے آباؤاجدادسے ملے تھے ان
کی آمدنی آٹھ ہزار روپے تھی لیکن کسی آدمی نے ان پر قبضہ کرلیا تھا اور کچھ نہیں
دیتاتھاشیخ نے اسے بھی کچھ نہ کہا اور خلق کو بے اندازبخشش کرتے رہتے تھے آپ
فرمایا کرتے تھے کہ جس قدر میر ے شیخ اخی سراج الدین کرتے تھے ۔ میرا خرچ اسکا عشر
عشیر بھی نہیں ۔ چنانچہ آپ نے خادم سے فرمایا اب تک روزانہ جتنا خرچ کرتے تھے
اب اس سے دگنا خرچ کرو خادم نے حکم کی تعمیل کی اور آپ کی لنگر کا خرچ دگنا ہوگیا
اسی طرح مجمع لگا رہتا تھا لوگ آتے تھے اور اپنی مراد پاتے تھےحقیقت میں آپ کو دست
غیب تھا جس کی وجہ سے آپ بے اندازہ خرچ کرتے تھے اور پھر بھی کمی نہیں ہو تی تھی
آپ مخلوق کی بجائے خالق پر بھروسہ کرتے تھے یہی وجہ تھی کہ آپ کو اطمینان قلب اور
توکل کی دولت حاصل تھی آپ مقام توکل پر فائز تھے اس لئے ہمہ وقت اللہ کی طرف متوجہ
رہتے تھے ۔
حضرت شیخ علاؤ الدین مجذوب اکبر آبادی قدس سرہ جو ماضی و
مستقبل کے حالات بتاتے تھے جو سادات زیدپور میں سے تھے اوریہ سدھور کے قصبات میں
آبادہے ابھی ضلع بارہ بنکی اترپردیش ہندمیں ہے۔ لطائف اشرفی میں لکھا ہے کہ ہمارے
اکثر مشائخ ابدال ہفتگانہ تھے چنانچہ ان کے سرحلقۂ خواجہ ابواحمد چشتی ابدال قد س
سرہ تھے اور مخدوم علاؤ الحق پنڈوی قد س سرہ بھی ابدال ہیں آپ کے خوارق عادت بہت
ہیں چنانچہ مخدوم علاؤ الحق پنڈوی قد س سرہ کے فرمان کے مطابق آپ کے مریدین پہاڑوں
میں مختلف مقامات پر مشغول رہتے تھے اور ان کے درمیان بہت طویل فاصلہ ہوتا تھا جب
خلوت کے بعد سب واپس آتے تھے تو ایک دوسرے سے کہتے تھے کہ فلاں فلاں دن حضرت مخدوم
میرے پاس تشریف لائے تھے ۔ لیکن جب خانقاہ والوں سے دریافت کیا جاتا تو معلوم ہوتا
تھا کہ آپ خانقاہ سے باہر نہیں گئے تھے۔ (مراۃ الاسرار 1015)
لطائف اشرفی میں یہ بھی لکھا ہے کہ صورت تبدیل کرنا ابدال
کا خاصہ ہے بلکہ بعض مشائخ صورت بدلتے تھے اور بعض حضرات کو ہم نے دیکھا ہے کہ
انکی روحانیت متجسد اور متمل ہوجاتی ہے یعنی ان کی روح کوئی نہ کوئی صورت اختیار
کرکے ظاہر ہوتی ہے اور اسی صورت میں کام کاج کرتے تھے لوگ سمجھتے ہیں کہ کہ وہ
اپنی جسمانی صورت میں ہیں حالانکہ وہ بزرگ ان کامو ں سے بالکل متبرا ہوتے ہیں اور
ہم نے بارہا اس چیز کا مشاہدہ کیا ہے چنانچہ مخدومی شیخ علاؤالحق پنڈوی قدس سرہ کو
بعض بادشاہوں اور امیروں نے جو مرید تھے یو ں دیکھا ہے کہ جنگ کے دوران کفار سے لڑ
ائی کررہے تھے لیکن انہوں نے خانقاہ سے باہر قدم نہیں رکھا ۔ ( مراۃ الاسرار
صفحہ 1016)
ایک دن چند قنلدر حضرت شیخ علاؤ الحق پنڈوی کی خانقاہ میں
آئے ہوئے تھے ایک بلی بھی ان کے ساتھ تھے وہ بلی گم ہوگئی اورکہیں چلی گئی
قلندروں نے کہا اے شیخ! آپ کی خانقاہ میں ہماری بلی
گم ہوگئی ہے اسے کہیں سے تلاش کرکے دو۔
شیخ نے فرمایا: میں کہاں سے تلاش کرکے آپ کو دوں ؟
ایک نے کہا: شاخ آہو سےتلاش کرو مگر ہمیں لاکر دو۔
آپ نے فرمایا: سینگھ پر پاؤگے اور دوسرے نے بد تمیزی کی اور
کہنے لگا ہماری بلی تو دینی پڑیگی ہم اپنی بلی کہاں سے لائیں کیا ہم اپنے خصیوں سے
لائیں ؟
آپ نے فرمایا: ہاں تمہیں تو تمہارے خصیوں سے ہی ملے گی ۔
جب وہ لوگ باہر آئے تو جس نے سینگھ کی فرمائش کی تھی ۔ ایک
گائے آئی اور بلی اس کے سینگھ سے برآمد ہوئی ۔ جس شخص نے بدتمییزی کی تھی اس کے
خصیے اس قدر سوج گئی کہ اسی مرض میں مر گیا ۔ یہ شخص اپنی گستاخی کی سزا کو پہونچ
گئے۔ ( اخبار الاخیار)
ایک بار حضرت سلطان سید اشرف نے فرمایا کہ طبقات الصوفیہ
میں شیخ ابوالحسن قزوینی علیہ الرحمہ کا یہ قول مذکور ہے کہ مشائخ کبار میں سے
پانچ مشائخ کو میں جانتاہوں کہ جو اپنی قبروں سے تصرف فرماتے ہیں بالکل ویسا ہی
جیساکہ وہ زندگی میں تصرف کرتے تھےوہ یہ ہیں ۔
1.
حضرت شیخ معروف کرخی
2.
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی
3.
حضرت شیخ محی الدین ابن عربی
4.
حضرت شیخ عقیل منبجی
5.
حضرت شیخ حیات حرانی (قدس اللہ تعالیٰ و اسرارہم)
حضرت شیخ کبیر علیہ الرحمہ نے معروض کیا کہ یہ حضرات تو
بیرونی ممالک (دوسری ولایتوں سے) سے تعلق رکھتے ہیں یہ ارشادفرمائیں کہ
ہندوستان کے مشائخ میں وہ کون سے حضرات ہیں کہ مرنے کے بعد بھی انکے تصرفات باقی
ہیں ۔
حضرت محبوب یزدانی قد س سرہ نے فرمایا کہ مشائخ ہند کے
مابین فرق مراتب کرنا سوئے ادب ہے ۔ خصوصاً خانوادۂ چشتیہ کے مشائخ میں جو ہمارے
پیر و مرشد ہیں یہ فرق مراتب بے ادبی ہے ۔ اس خانوادۂ عالی کے اکثر وبیشتراولیاء
میں پوری پوری قوت تصرف عالم ممات میں باقی ہےخصوصاً ..............
1.
سیدی مرشدی شیخ علاؤالحق پنڈوی
2.
حضرت نظام الدین اولیاء
3.
حضرت شیخ فریدالدین گنج شکر
4.
حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی
5.
حضرت خواجہ معین الدین حسن سنجری (قدس اللہ تعالیٰ و
اسرارہم)
تبلیغ
واشاعت دین:
مخدوم
العالم شیخ علاء الحق پنڈوی علیہ الرحمہ کی ولایت پر علماء ومشائخ کا اجماع ہے۔
آپ نے اپنی پوری زندگی دین حق کی تبلیغ و اشاعت میں گزاردی۔ سلسلۂ چشتیہ کی
تعلیمات سے آپ کے ذریعہ کثیر تعداد میں لوگوں نے ہدایت پائی۔ حق سے غافل ہزاروں
نے قبول اسلام کیا۔ علماء و فضلاء کی ایک بڑی جماعت نے آپ سے اکتساب فیض کیا۔
ہزاروں نے اپنی گناہ سے ملوث زندگیوں میں تبدیلیاں پیداکیں اور نیکی و پارسائی کی
طرف راغب ہوئے۔ آپ کے عمل اور طرز تربیت سے،گنواروں کو تہذیب، ناعقلوں کو عقل،بے
علموں کو علم، گناہ گاروں کو رغبت نیکی، تاریک عملوں کو شوق عمل اور بد کرداروں
کوحسن اخلاق کی دولت نصیب ہوئی گمراہ شخص ہدایت یافتہ ہوگیا،کامل اکمل بن گئے،ادنی
اعلی ہوگئے اور اعلی بلندی کی آخری منزل کی طرف گامزن ہوئے۔
خلفائے
کرام :
o
غوث
العالم محبوب یزدانی سلطان سید اشرف
جہانگیر سمنانی علیہ الرحمہ
o
مخدوم
العالم حضرت شیخ نور الحق والدین المعروف نور قطب عالم علیہ الرحمہ
o
حضرت
مخدوم شیخ عادل الملک بن شیخ عالم الملک جونپوری علیہ الرحمہ
o
حضرت
مخدوم شیخ نصیر الدین مانک پوری علیہ الرحمہ
o
حضرت
مخدوم شا ہ حسین غریب دھکر پوش علیہ
الرحمہ
o
سلطان
حسین شاہ شرقی جونپوی علیہ الرحمہ (بانی مساجد و خانقاہ کثیرہ)
o
حضرت
مولانا مخدوم شیخ علی علائی علیہ الرحمہ
o
حضرت
مخدوم شیخ عبداللہ علیہ الرحمہ
وصال
وجانشینی:
حضرت
مخدوم شیخ علاء الحق پنڈوی علیہ الرحمہ کاوصال بمطابق قول مشہور ۸۰۰ھ/۱۳۹۸ء و بمطابق قول محقق۷۸۰ھ/۸۷۳۱ء میں ہوا۔ مزار پاک
پنڈوہ شریف ضلع مالدہ، مغربی بنگال میں زیارت گاہ عام ہے، ۲۲تا۲۴رجب المرجب عرس کے مراسم
ادا کئے جاتے ہیں۔ آپ کے وصال کے بعد آپ کے خلیفہ غوث العالم، محبوب یزدانی سید
اشرف جہانگیر سمنانی کچھوچھوی اور صاحب زادہ و جانشیں شیخ احمد نورالحق والدین
معروف بہ نورقطب عالم علیہما الرحمہ نے آپ کے مشن کو آگے بڑھایا۔
No comments:
Post a Comment