حضرت شیخ جلال الدین تبریزی سہروردی علیہ الرحمہ

 

نام مبارک :

آپ سلسلہ عالیہ سہروردیہ کے ایک عظیم المرتبت بزرگ ہیں آپ کا نام سیدنا شیخ جلال الدین تبریزی سہروردی ہے۔

 کنیت: ابوالقاسم ہے اور تبریز کی نسبت سے تبریزی مشہور ہوئے۔

ولادت با سعادت:

حضرت جلال الدین تبریزی سہروردی علیہ الرحمہ 532ہجری بمطابق 1137عیسوی میں تبریز میں رونق بخش عالم ہوئے۔

والد محترم:

آپ علیہ الرحمہ کے والد گرامی کا نام اسم گرامی سیدنا شیخ محمد سہروردی ہے آپ شیخ المشائخ حضرت شیخ بدرالدین ابو سعید تبریزی سہروردی علیہ الرحمہ کے دست گرفتہ تھے آپ کے والد ماجد نہایت دیندار تقوی شعار پرہیزگار صوفی زمانہ بزرگ تھے۔

بادشاہت :

 حضرت جلال الدین تبریزی سہروردی علیہ الرحمہ تبریز کے بادشاہ تھے۔ عرصہ دراز تک شاندار عدل و انصاف کے ساتھ تبریز کی بادشاہت فرماتے رہے۔لیکن جب بادشاہت سے دل اچاٹ کھا گیا تو بادشاہی ترک کر کے اپنے بیٹے کے سپرد کی اور بہت سا مال و نقد لے کر حضور شیخ الشیوخ شیخ شہاب الدین عمر سہروردی علیہ الرحمہ کی خانقاہ میں حاضر ہوے اور وہ مال و دولت حضور شیخ الشیوخ کی بارگاہ میں پیش کیا حضرت نے وہ زر و نقد و مال قبول نہ فرمایا اور ارشاد فرمایا یہ مال و نقد خدا جل جلا لہ کی راہ میں مساکین فقراء محتاجوں کو دے دو چنانچہ حضرت جلال الدین تبریزی علیہ الرحمہ نے وہ مال محتاجوں میں بانٹ دیا اور پرانا لباس زیب تن فرمایا۔

ارادت و خلافت :

 حضرت جلال الدین تبریزی علیہ الرحمہ حضرت بدرالدین ابو سعید تبریزی سہروردی علیہ الرحمہ کے مرید تھے چونکہ قدرت خداوندی نے آپ کا نصیبہ شیخ الشیوخ حضرت شیخ شہاب الدین عمر سہروردی علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں لکھ دیا تھا لہذا آپ اپنے مرشد کے وصال کے بعد تبریز سے بغداد شریف چلے گئے اور حضور شیخ الشیوخ شہاب الدین عمر سہروردی علیہ الرحمہ سے اپنا نصیبہ حاصل کرنے میں مصروف ہو گئے سات سال تک آپ کی صحبت میں رہ کر سخت مجاہدے کیے سلوک و معارفت کی منازل طے کیں اس کے بعد مرشد گرامی نے آپ کو خرقئہ خلافت سے سرفراز فرمایا اور تبلیغ دین و خدمت خلق کا حکم دیا ۔

لقب وکنیت :

 سلطان الاولیا، شیخ المشایخ، گنج رواں، گنج بخش،ابوالقاسم

کمالات :

عالم، عارف ، تارک السلطنت ،مصنف،صاحب ولایت بنگالہ وغیرہ۔

تصانیف جلیلہ :

حضرت جلال الدین تبریزی علیہ الرحمہ تصنیف و تالیف بزرگ تھے ۔ آپ علیہ الرحمہ کی طرف دو معرکۃ الآراء رسالے منسوب ہیں :

 (۱) شرح نو دونہ نام کبیر : یہ رسالہ خدائے بزرگ و برتر کے اسماے گرامی کی توضیح وتشریح پرمشتمل ہے ۔

(۲) مرآۃ الاسرار : اس میں خدائےتعالی کے اسرار ورموز اور حقائق و دقائق کا بیان ہے جیسا کہ نام سے ظاہر ہے ۔ دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی ج ۱۸ کی درج ذیل عبارت سے آپ کے ان دونوں رسالے کی تائید بھی ہوتی ہے: ” دورسالہ شرح نو دونہ نام کبیر ومرآۃ الاسرار را بہ جلال الدین تبریزی نسبت داده اند۔ (قریشی ،ص:۱۸۴؛ ۸، قد وی ،ص:۱۱۳)حضرت جلال الدین تبریزی علیہ الرحمہ کے علم وعرفان میں بے مثال ہونے کی دلیل ان کے اقوال عارفانه وفرمان فاضلانہ بھی ہیں جو تاریخ کے اوراق میں ثبت ہیں۔

ہند میں آمد :

 آپ علیہ الرحمہ مرشد کے حکم سے برائے تبلیغ دین مبین بغداد معلا سے ہند کے دارالخلافہ دہلی تشریف لائے اور کچھ مدت یہاں قیام فرماکر لوگوں کو فیضیاب کرتے رہے پھر یہاں سے بدایوں تشریف لے گئے۔آپ کا نور برستا چہرہ تقوی و طہارت کا مرقع تھا جو بھی آپ کے نوربار چہرے کو دیکھتا بس دیکھتا ہی رہ جاتا اللہ جسے توفیق دیتا وہ آپ کے چہرے کے دہدار سے مشرف بہ اسلام ہوجاتا اور اعمال صالحہ کرنے لگتا چنانچہ فوائدالفواد میں حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء علیہ الرحمہ فرماتے ہیں ایک روز حضرت جلال الدین تبریزی علیہ الرحمہ گھر کی دہلیز پر بیٹھے ہوے تھے کہ ایک دہی فروش دہی کی مٹکی سر پر رکھے اس گھر کے سامنے سے گزرا جب اس کی نظر حضرت کے چہرے پر پڑی تو دل کی دنیا بدل گئ جب اس نے غور سے حضرت کا چہرہ دیکھا تو بولا دین محمدی ﷺ میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں اور فوراً ایمان لے آیا حضرت نے اس کا نام علی رکھا اور اس کو بدایوں کا قطب مقرر کر کے سارا علاقہ اس کے سپرد کر دیا"اس کے بعد آپ یہاں سے بنگال روانہ ہو گئے ۔

بنگال میں آمد :

 حضرت جلال الدین تبریزی سہروردی علیہ الرحمہ بدایوں سے بنگال تشریف لائے بنگال میں مسلمانوں کی حکومت کے بعد سب سے پہلے جو بزرگ یہاں تشریف لائے وہ جلال الدین تبریزی علیہ الرحمہ تھے بنگال میں سب سے پہلے آپ نے دیوتلا میں نزول اجلال فرمایا وہاں سے پنڈوہ گور یعنی لکھنوتی تشریف لائے ۔

دیو ہلاک ہو گیا :

بنگال کے دیوتلا پر آپ کا پہلا قدم پڑا تھا یہاں قدم رکھتے ہی ایک دیو کو آپ نے ہلاک کر دیا جیسا کہ فوائدالفواد میں شیخ المشائخ محبوب الہی حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء علیہ الرحمہ فرماتے ہیں "ولایت تو اسی کا نام ہے جو حضرت جلال الدین تبریزی علیہ الرحمہ کو حاصل تھی کیوں کہ جب انہوں نے ہندوستان کا ارادہ فرمایا تو ایک شہر میں آئے وہاں ایک دیو تھا وہ ہر رات ایک آدمی کو کھا جاتا تھا حضرت شیخ نے اس دیو کو پکڑ لیا اور ایک لوٹے میں قید کر دیا اس شہر کا چودھری ہندو تھا جب اس نے یہ کرامت دیکھی تو تمام لوگوں کے ساتھ مسلمان ہو گیا پھر حضرت کچھ مدت تک وہاں رہے اور حکم دیا کہ ایک خانقاہ تعمیر کریں جب خانقاہ تیار ہو گئ تو ہر روز بھکاری کو بازار سے لے آتے تھے اس کا سر تراشتے تھے اس کو بیعت کرتے تھے اور کہتے کہ میں نے تجھ کو خدا تک پہنچا دیا اسی طرح 50 بھکاری صاحب سجادہ کر دہے اور ہر ایک کو صاحب کرامات کر دیا" جب آپ نے بنگال میں پہلا قدم رکھا تھا تو یہ ملک دیوتاؤں کا گڑھ تھا لیکن اب کایا پلٹ چکی تھی سارا ملک آپ کا مرید ہو گیا اور آپ کے فیضان سرمدی سے پورا ملک بقعہ نور بن گیا تھا۔آپ علیہ الرحمہ کی تبلیغ سے بنگال و بنگلہ دیش و ہند کے علاقے توحید کی دل نواز صداوں سے گونجنے لگے۔ آپ علیہ الرحمہ نے بنگال اور ہند کے مختلف علاقوں میں نہایت خوش اسلوبی سے تبلیغ اسلام کے فرائض سر انجام دیے تھے ہزاروں لاکھوں کفار داخل اسلام ہوے انہوں نے قبول اسلام کے لیے کسی غیر مسلم کو مجبور نہیں کیا تھا بلکہ غیر مسلم آپ کے عادات و اطوار طہارت و پاکیزگی دیکھ کے خود بخود اسلام قبول کر لیتے تھےحضرت جلال الدین تبریزی سہروردی علیہ الرحمہ نے بنگال و بنگلہ دیش,پنڈوہ شریف,دیوتلا,گواہاٹی آسام,بندر دیومحل,سنارگاؤں,کامروپ کوچک پھاڑ،بلکہ پورے بنگال و بنگلہ دیش،بدایوں،یوپی وغیرہ میں جو خدمات اسلام انجام دی ہیں وہ رہتی دنیا تک یاد رکھی جائیں گی۔

علوے شان :

 حضرت جلال الدین تبریزی علیہ الرحمہ بہت عالی ہمت و بلند پایہ بزرگ تھے آپ کی قدر و منزلت اور عظمت شان کا اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سلطان الہند خواجہ غریب نواز ،حضرت غوث بہاءالدین زکریا ملتانی ، حضرت بابا فرید گنج شکر، خواجہ حسن موئے تاب حضرت علی کھیری وغیرہم علیہم الرحمہ جیسی ہستیوں نے آپ سے اکتساب فیض فرمایا۔ اور حضرت علاءالدین اصولی ( حضرت نظام الدین اولیاء کے استاذ ) قطب بدایوں حضرت شیخ علی حضرت قاضی قطب الدین جعفری حضرت برہان الدین وغیرہم علیہم الرحمہ جیسے خوش نصیب مشائخ کو آپ سے ارادت و خلافت کا شرف حاصل ہوا۔

چلہ گاہیں :

 ملک بنگال و بنگلہ دیش میں جگہ جگہ آپ کی چلہ گاہیں موجود ہیں جن میں دیوتلا کے قریب بندر دیومحل،پنڈوہ شریف شہر وغیرہ کی چلہ گاہیں زیادہ مشہور ہیں۔آپ علیہ الرحمہ نے بنگال میں جگہ جگہ مساجد و لنگر خانہ قائم کیے جن کے نشانات و اثرات آج بھی موجود ہیں۔

کرامت : اولیاءاللہ کی کرامتیں حق ہیں اور قرآن و حدیث میں بھی اولیائے کرام کی کرامتوں کا بیان ہوا ہے حضرت جلال الدین تبریزی سہروردی علیہ الرحمہ صاحب کرامات بزرگ تھے آپ سے بے شمار کرامتوں کا صدور ہوا ہیں جن مں سے چند ایک یہاں پیش کی جاتی ہیں ۔

کفرستان بنگالہ میں ورود:

حضرت جلال الدین تبریزی علیہ الرحمہ  کا ورود پنڈ وہ میں غالبا۱۱۹۷ء میں ہوا ، اس وقت آپ کی عمر پچاس سال تھی ۔ اس زمانے میں پنڈ وہ کفر وشرک اور بت پرستی کا گہوارہ تھا۔ یہاں پر تالاب کے کنارے ایک بہت بڑا مندر تھا ، جس میں سینکڑوں بت رکھے ہوۓ تھے، بہت سارے پجاری ان معبودان باطلہ کی پرستش میں مصروف تھے ۔ شب و روز ناقوس کی منحوس صدائیں ہر چہار جانب بلند ہوتی تھیں، کفر وضلالت کے گھن گرج بادل برس رہے تھے، پورا پنڈوہ اسی کے ناپاک پانی سے سیراب ہور ہا تھا ۔ اس مندر کے سبب بنگال بھر میں پنڈ وہ کو شہرت عام حاصل تھی ۔ دور دور سے اہل ہنود اس بت خانہ کی زیارت کے لیے آتے تھے ،اہل کفر وشرک کا بڑا اجتماع ہوتا تھا اور پنڈ وہ زیارت گاہ اہل ہنود و مرکز کفر وشرک بنا ہوا تھا۔ سید بذل الرحمن نے شیخ جلال الدین تبریزی کی را جالکھن سین کے ساتھ ملاقات اور پنڈوہ کی تاریخی حیثیت پر اس طرح روشنی ڈالی ہے:مشہور مورخین کے بیان کے مطابق شیخ جلال الدین تبریزی کی راجا لکھن سین کے ساتھ ملاقات کن ۱۱۹۷ء میں یا اس سے کچھ قبل یا کچھ بعد ہوئی ۔ اس زمانے میں پنڈوہ ہندو دھرم کا بڑا مرکز تھا، یہاں پر بے شمار بت تھے اور ان گنت دیوی دیوتاؤں کی پوجا ہورہی تھی اور ہر طرف گھنٹی کی آواز سنائی دے رہی تھی‘‘ ۔  شیخ جلال الدین تبریزی علیہ الرحمہ نے تن تنہا اس کفرستان میں مخلوق خدا کی دعوت وتبلیغ کے لیے قدم رکھا اور ایک درخت کے نیچے اپنا مسکن بنایا۔ کچھ دنوں کے بعد جب پجاریوں نے آپ کو درخت کے نیچے آرام کرتے ہوئے دیکھا تو حیران و ششدر رہ گئے اور آپ کی حرکات وسکنات پر گہری نظر رکھنے لگے ۔ شیخ کو جب بھوک لگتی تو درخت کے پتے کھالیتے ، کپڑے میلے ہوتے تو از خود تالاب میں دھو لیتے ۔ جب آپ کپڑے دھونے کے لیے ہندوؤں کے تالاب میں جاتے تو وہ بہت شور وغل مچاتے اور آپ کا مزاق اڑاتے لیکن آپ کچھ پرواہ کیے بغیر اپنے کاموں میں لگے رہتے ۔

گوبر سنا بن گیا :

 جب آپ پنڈوہ شریف آئے اور ایک گائے کے چرواہا کی جگہ بیٹھ گئے تو اس چرواہا نے کہا تم کون ہو کہاں جا رہے ہو ؟ یہاں تمہارے لیے کوئی جگہ نہیں حضرت نے جواب دیا میں جو ہوں سو ہوں تمہیں کیا جب بات مزید بگڑ گئ اور سارے گاؤں والے وہاں جمع ہوے تو شیخ نے گاوں والوں سے کہا مجھے چوتھائی چاہیے آج کے لیے صبر کرو اور دیکھو اس پر چرواہا نے کہا گوبر کا ڈھیر اگر سونا بن جائے تو جو تمہیں چاہیے وہ میں دونگا اس پر حضرت نے کہا کیا تمہارے پاس شیر کا چمڑا ہے مجھے اتنی سی جگہ ہی دے دو سب نے ہاں کہدیا پھر شیخ نے کہا اس گوبر کے ڈھیر پر راکھ ڈال دو اور رات میں اس میں آگ لگادو اور تم سب کل صبح آجانا اور دیکھنا اس کے بعد سب لوگ وہاں جمع ہو گئے اور دیکھا کہ گوبر کا ڈھیر اب سونا بن چکا ہے اور سب آپس میں بانٹ کر اپنے ساتھ لے گئے۔

شیر کی کھال نے پورا گاؤں گھیر لیا :

حضرت نے کہا میں ابھی بھی زمین کے اتنے حصہ کا انتظار کر رہا ہوں جتنا ایک شیر کے چمڑے سے ڈھک جائے لوگوں نے کہا جتنا چاہیے اتنا لے لیجیے حضرت اٹھے اور شیر کے چمڑے کو زمین پر بھیلا دیا اور وہ چمڑا بڑھنے لگا یہاں تک کہ اس نے سارا گاؤں گھیر لیا لوگوں کو کوئی جگہ نہ ملی جہاں وہ کھڑے رہ سکے لوگوں کو پریشانی ہونے لگی اب ہمارا کیا ہوگا شیخ نے کہا تم لوگ پریشان کیوں ہوتے ہو لوگوں نے کہا ہم نے آپ کی طاقت دیکھ لی اب بتائیں ہم کیا کریں حضرت نے کہا ڈرو مت چین سے رہو اب میں زمین کا مالک ہوں لوگوں نے حامی بھر لی پھر حضرت نے کہا اب میں اس علاقے میں اللہ تعالی کا گھر بناؤں گا ۔

بھوتنی کو جلا ڈالا :

ایک دن ایک قاصد راجا کے قدموں میں گر کر کہنے لگا نندی نام کی ایک بھوتنی کھیتوں پر قابض ہے لوگوں کو روزانہ ختم کر رہی ہے اس پر راجا خاموش رہا حضرت نے یہ دیکھتے ہوے راجا سے کہا تم کیسے خاموش رہ سکتے ہو جب اس طرح کی پریشانیاں تمہارے ملک میں ہیں چلو میرے ساتھ ایک مشیر کو ساتھ لے کر دونوں وہاں گئے حضرت نے اس بھوتنی پر غصہ سے نظر ڈالی نندی جل کر راکھ ہو گئ سارے علاقے میں امن ہو گیا راجا نے وہ زمین حضرت کو دے دی حضرت نے اس جگہ کا نندوا ( شاید پنڈوہ ) نام رکھا اس طرح اور بھی آپ کی کرامات کثیرہ ہیں جن کو یہاں بیان کرنا ممکن نہیں۔

وصال با کمال:

 حضرت جلال الدین تبریزی سہروردی علیہ الرحمہ نے 7 رجب المرجب 642ھ میں اس دار فانی سے دار بقا کی سمت وصال فرمایا۔حضرت بابا فرید گنج شکر علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ آپ وصال کے بعد مسکرا رہے تھے مرید نے پوچھا آپ تو رحلت کر چکے ہیں مسکرا کیوں رہے ہیں آپ نے فرمایا عارفوں کا یہی حال ہے ۔(راحت القلوب)

تاریخ وفات:

شیخ جلال الدین تبریزی علیہ الرحمہ کی تاریخ وفات کے سلسلے میں مورخین کی رائیں مختلف ہیں ۔ چنانچہ صاحب خزینۃ الاصفیاء مفتی غلام سرور نے سن وفات ٦٤٢ہجری تحریر کیا ہے۔

آپ کا مزار اقدس کہاں ہے؟

یہ عجیب اتفاق ہے کہ سال وفات کی طرح آپ کے مزار پر انوار کے متعلق بھی مورخین کا بڑا اختلاف ہے ۔ مولانا غوثی مانڈوی نے گلزار ابرار میں، ابوالفضل نے آئین اکبری میں ، حامد بن فضل اللہ جمالی نے سیر العارفین میں اور غلام حسین خان نے سیر المتاخرین میں لکھا ہے کہ آپ کا مزار بندردیومحل میں ہے۔ جبکہ ایک دوسری روایت یہ ہے کہ سلہٹ موجودہ بنگلہ دیش میں ہے ۔ مگر تحقیق یہ ہے کہ آپ کا مزار انوار کوہ کوچک علاقہ کا مروپ ،صوبہ آسام میں ہے، جس کی تصدیق مشہور مورخ و سیاح ابن بطولہ کے اس بیان سے ہوتی ہے:"ساتگام سے میں کامرو کے پہاڑوں کی طرف ہولیا ۔ یہ ملک ساتگام سے ایک مہینہ کے رستے پر ہے ۔ یہ بہت وسیع پہاڑی ملک ہے اور چین اور تبت سے ملحق ہے ۔اس ملک کے اکثر باشندوں نے شیخ جلال الدین تبریزی کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا ہے ۔ ان کا ایک ہمراہی مجھ سے کہتا تھا کہ انہوں نے اپنے سب دوستوں کو مرنے سے ایک دن پہلے بلایا اور وصیت کی کہ خدا سے ڈرتے رہو میں ان شاءاللہ کل تم سے رخصت ہوں گا۔ ظہر کی نماز کے بعد آخر سجدہ میں ان کا وصال ہو گیا ۔ غار کے برابر ایک کھدی ہوئی قبر نکلی ،اس پر کفن اور خوشبو موجودتھی۔انکے ہمراہیوں نے غسل دیا اور کفن پہنا کر نماز پڑھی پھر دفن کردیا. خدا ان پر رحمت کرے"(سفرنامہ ابن بطوطہ(اردو ترجمہ)علاوہ ازیں کوہ کو چک کے قرب و جوار میں رہنے والوں کا بیان آپ کے مزار پرانوار کے متعلق یہی ہے۔ شیخ محمد اکرام نے بھی دیوتالہ میں آپ کے مزار کے ہونے کی تردید کی ہے اور اپنی راۓ

 یہی ظاہر کی ہے کہ آپ کا روضہ انورکوہ کو چک پر ہے چنانچہ وہ تحریر کرتے ہیں ضلع مالدہ صوبہ مغربی بنگال سے آٹھ ، دس میل دور قصبہ تبریز آباد کے نواح میں ایک جگہ دیوتالہ یا دیوتلاو ہے لیکن یہاں پر بھی شیخ جلال الدین تبریزی کا چلہ خانہ ہے مزار نہیں ۔ بنگالہ کے سفر میں بعض اہل تحقیق نے راقم الحروف سے یہ خیال بھی ظاہر کیا ہے کہ شیخ نے اخیر عمر میں عزلت نشینی اختیار کر لی تھی اور وہ گوہاٹی صوبہ آسام سے چند میل دور ایک پہاڑی پر ایک دشوارگزاراورنسبتا غیر معروف بلکہ ہیبت ناک جنگل میں مدفون ہیں ۔‘‘

موضع مزار کی تفصیل:

گوہاٹی سے پانچ میل کی دوری پر پہاڑوں کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوتا ہے ۔ وہ پہاڑی وادی الگ الگ ناموں سے مشہور و معروف ہے ۔ اس کا بلند ترین پہاڑ کوہ کوچک ہے جو اس وقت بوندا کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ اسی کوچک پہاڑ کے اوپر ایک غار ہے جو شخ جلال الدین تبریزی علیہ الرحمہ کی ابدی آرام گاہ ہے اور مخلوق خدا کے لیے قبلہ حاجات ہے ۔حضرت کی وفات کا ایک طویل عرصہ گزرنے کے باوجود آپ کا نام لاکھوں کروڑوں انسانوں کے دلوں میں زندہ ہے اور آپ کے عشاق اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر ان پر خطر پہاڑی راستوں سے ہوتے ہوئے آپ کے مزار پر انوار پر حاضری دیتے ہیں اور آپ کے فیوض و برکات سے مالا مال ہوتے ہیں ۔ تذکرہ شیج جلال الدین تبریزی/ مفتی ذاکر حسین اشرفی جامعی، استاذ مخدوم اشرف مشن پنڈوہ شریف/حضرت جلال الدین تبریزی علیہ الرحمہ,تذکرةالواصلین,نفحات سہروردیہ / بشکریہ :سید محمد نذیر میام سہروردی حفظہ اللہ )

 


No comments:

Post a Comment