دورِحاضر کے وارثانِ
انبیاء اور درپیش ملی مسائل
ازقلم: میر سید وسیم اشرف بدایونی
شعبۂ فارسی مرکزی یونیورسٹی
جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی
اگرچہ بت ہیں
جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکم اذاں لا
الٰہ الا ﷲ
مجھے اس بات کا پیشگی علم ہے کہ میری یہ پوسٹ ایسے اکثر افراد کو ہضم
نہیں ہوسکے گی جن کا نظامِ انہضام آخرت فراموشی کے نتیجے میں فساد کا شکار ہوچکاہے
اس لئے ایسے باوقار چہرے براہِ راست نہ سہی مگر بالواسطہ اپنے پالتو شاتمان کے ذریعے
مجھ پر سب و شتم کرانے کے لئے سعئ بلیغ ضرور فرمائیں گے یا کسی نہ کسی حیلے سے دیر سویر ہی سہی مگر مجھ
پر کفر و ارتداد کا حکم ضرور لگائیں گے کیوں کہ ہماری ملت گزشتہ دوسو سالوں سے اسی
روش پر رواں و دواں ہے کہ جس کے سوالات کا
سامنا نہ کیا جاسکے تو اس کے سوالات کے اثر آفرینی کو کم کرنے کے لئے اس پر کم ازکم
گمراہی کا فتویٰ ضرور ٹھونک دیا جائے۔
مگر آج میں
ان سب خطرات سے بالاتر ہو کر عموماً عامۃ المسلمین اور خصوصاً اہلِ سنت و جماعت کے
حساس اوردرد مند افراد کے روبرو چند باتیں ضرور رکھنا چاہوں گا تاکہ انھیں وقت کے مذہبی
قائدین کے اصل چہرہ سے روشناس کرانے ساتھ ساتھ میں بھی اپنے فرضِ منصبی سے سبک دوش
ہوسکوں۔
ہم اہلِ سنت
کے یہاں کئی بڑی بڑی خانقاہیں ہیں جو بزعمِ خویش خود کو سنیت کے موروثی اجارہ داروں
میں شمار کرتی ہیں۔
مزید براں کئی
بڑے بڑے سنی ادارے بھی ہیں جو آزادانہ طور پر
اپنی اپنی مرکزیت کے دعویٰ دار ہیں جیسے: دارالعلوم منظرِ اسلام بریلی،
دارالعلوم مظہر اسلام بریلی، جامعہ نوریہ بریلی، جامعۃ الرضا بریلی، درالعلوم اشرفیہ
مصباح العلوم مبارکپور، جامع اشرف کچھوچھا شریف، دارالعلوم غریب نواز الٰہ آباد، دارالعلوم
فیض الرسول براؤن، دارلعلوم امجدیہ گھوسی، دارالعلوم علیمیہ جمداشاہی، دارالعلوم اسحاقیہ
جودھپور، جامعہ نعیمیہ مراد آباد الجامعۃ القادیہ رچھا بریلی وغیرہ وغیرہ بلاشبہ ہندوستان میں یہ اہلِ سنت و
جماعت کے مشہور ترین ، عظیم الشان اور مرکزی ادارے ہیں جو بزعمِ خود ملتِ سُنیہ کی
قیادت کا افتخار رکھتے ہیں۔
ہندوستان بھر
کے سنی عوام اپنے ان اداروں کا بر سہا برس سے مالی تعاون بھی کرتے ہیں صدقات و خیرات
کے مواقع پر علی الخصوص زکات کے ایام ، صدقاتِ فطر کے اوقات اور ہنگامِ عشر میں اپنے اعزاء و اقرباء اور ہمسایہ گان پر ان اداروں
کو فوقیت دیتے ہیں۔
ملک میں متعدد
اہلِ خیر افراد ایسے بھی ہیں جنھوں نے کئی کئی ایکڑ زرعی زمینیں مذکورہ بالا اداروں
کے نام وقف کررکھی ہیں تاکہ ان سنی قلعوں کے مصارف میں کسی قسم کی کوئی کمی نہ آنے
پائے۔
علاوہ ازیں
ملتِ سُنیہ میں چند ایسے قائدین بھی ہیں جو اپنی ذات میں خود ایک ادارہ کی حیثیت رکھتے
ہیں مثلاً: شیخ الاسلام مولانا سید محمد مدنی میاں کچھوچھوی، مولانا سید ہاشمی میاں کچھوچھوی، مولانا ضیاء المصطفےٰ
گھوسوی، مولانا قمرالزماں خاں اعظمی، مولانا یاسین اختر مصباحی، مولانا مفتی نظام الدین
مبارکپوری، مولانا سید محمد محمود اشرف سجادہ نشین خانقاہ حسینیہ اشرفیہ کچھوچھا شریف،
مولانا عبیدﷲ خان اعطظمی، مولانا مفتی محمود اختر ممبئی، مولانا عسجد رضا بریلی، پروفیسر
سید امین میاں مارہرہ شریف ، مفتی عبدالحلیم ناگپوری ، صوفی کلیم رضوی ممبئی، مولانا
سید غیاث میاں کالپوی، مفتی ایوب نعیمی مرادآباد، مفتی رضاءالحق راج محلی کچھوچھا،
مفتی سیلیم نوری بریلی، مفتی عبدالمنان کلیمی لال مسجد مراد آباد، مفتی نسیم اختر مبارکپور،
مفتی شیر محمد خان جودھپور، قاضئ ادارہ شرعیہ مہاراشٹر مفتی اشرف رضا قادری، مفتئ ادارۂ
شرعیہ پٹنہ بہار مفتی مطیع الرحمان رضوی وغیرہم
بلاشبہ یہ تمام تر علماء ، اہلِ سنت وجماعت کے سرکردہ، نامور اور مقتدر علماء ہیں جنھیں
آج بھی ملتِ سُنیہ اپنا ماویٰ ملجا تسلیم کرتی ہے اور بلااختلاف بحیثیتِ مذہبی رہنما انھیں مشکل کشاے ملتِ سنیہ
بھی تصور کیا جاتا ہے لیکن کیا کوئی مجھے یہ بتا سکتا ہے کہ جب کورٹ نے:
طلاقِ ثلاثہ پر اپنا فیصلہ سنایا تو ان میں سے کتنے حضرات
نے اس فیصلے پر عدمِ تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سپریم کورٹ آف انڈیا میں کیس دائر کرکے
اپنے وکلاء کھڑے کیے ؟
اگر نہیں تو
کیوں ؟
کیا اب ان کے
نزدیک ایک ہی مجلس میں دی گئی تین طلاقیں تین نہیں رہیں ؟
یا پھر اچانک
ان کی دسترس کسی ایسے فقہی جزئیے تک ہوگئی
جس سے ان پر متقدمین فقہاے احناف کی
لغزش روزِ روشن کی مثل واضح ہوگئی؟
یا پھر ان کے
پاس مالی وسائل کی قلت تھی؟
یا انھیں یہ
خدشہ لاحق تھا کہ اگر پولیس نے انھیں حراست میں لے لیا تو سنی عوام انھیں بیچ بھنور
میں چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوں گے ؟
اسی طرح جب
بابری مسجد کا فیصلہ آیا تو مذکور بالا بزرگوں میں سے کتنے بزرگ سپریم کورٹ پہنچے ؟
اگر نہیں تو
کیوں نہیں ؟
کیا اب ان کے
نزدیک مسجد کی جگہ قیامت تک کے لئے مسجد نہیں رہی ؟
یا پھر انھوں
نے اپنی سابقہ فقہی آراء سے رجوع کرلیا ہے ؟
اسی طرح جب
موب لنچنگ کا سلسلۂ دراز شروع ہوا تو ان میں سے کتنے علماء نے احتجاجی مظاہرے
کیے اور ارکانِ حکومت کو میمورنڈم روانہ کیے ؟
اگر نہیں تو
کیوں ؟
کیا یہ تنہا
تھے ؟
یا پھر خود
آپ ہی ان کی آواز پر لبیک کہنے اور احتجاجاً
سڑکوں پر اترنے کے تیار نہ تھے ؟
یا پھر موب
لنچنگ کے جواز پر بھی انھیں کوئی فقہی جزئیہ دستیاب ہوچکا تھا ؟
اور اب جبکہ CAA
اور NRC کا مسئلہ آیا تو ان میں
سے وہ کونسی غیور شخصیت ہے جو ایسے نازک موقع
پر قوم کے زخموں پر مرہم رکھتے ہوئے جمہوری طریقے سے قوم کے ہمراہ میدانِ عمل اتری ؟
اگر نہیں تو
کیوں ؟
کیا ایسے مواقع
پر قوم کے ساتھ میدانِ عمل میں اترنا خلافِ سنت ہے ؟
کیا جمہوری
حکومت میں جمہوری طور پر اپنے حق کے لئے لڑائی لڑنا حرام یا باعثِ عار ہے ؟
شاید آپ کو
یاد ہو کہ اس فہرست میں اکثر وہ لوگ ہیں جو اپنی ہی جماعت کےدرمیان فتویٰ بازی کے لئے انتہائی شہرت پذیر ہیں مثلاً : جب ہندوستان میں ایک عظیم الشان ، تاریخی اور اپنی نوعیت کی اولین مثالی
کانفرنس بنام" ورلڈ صوفی کانفرنس"
منعقد ہونے جارہی تھی تواس کے خلاف فتویٰ بازی کرکے قوم کو متحد ہونے سے روکنے
والی ہستیاں بیرونِ ملک سے نہیں آئی تھیں بلکہ مذکورہ بالا فہرست سے ہی منصۂ شہود پر
آئی تھیں ۔
اسی طرح حضرتِ
امیر معاویہ کے مسئلے میں اپنےہی خونی رشتوں میں شگاف ڈالنے کی غرض سے بعنوانِ "
اظہار موقف " کچھوچھا سے چل کر
بریلی اور ممبئی تک کا طویل سفر طے کرنے والی نازک مزاج ہستیاں کوئی آسمانی مخلوق نہیں تھیں بلکہ مذکورہ
بالا فہرست کے بطن سے ہی نکلی تھیں۔
موہنی بہار
میں صرف نسب اور روحانی سلسلے کے جاری یابرخاست ہونے پر مناظرہ کا بازار گرم کرنے والی
شخصیات بھی اسی فہرست میں موجود ہیں۔
ٹی وی اور ویڈیو
کے جواز وعدمِ جواز کے سلسلے میں ایک فرعی
مسئلے کو دو دھائیوں سے زائد اختلاف کی بھٹی میں تپانے والی بزرگ شخصیات بھی اسی فہرست
کی سرکردہ شخصیات میں شمار کی جاتی ہیں۔
"فیورک " نامی تنظیم میں مشروط شمولیت بھی برداشت نہ کرتے ہوئے
اپنے سگے بھتیجے کے خلاف ہندوستان کے ہر مقتدر دارالافتاء سے فتاویٰ حاصل کرکے بنام
" فتاویٰ اشرفیہ “شایع کرنے اوراسے گھر گھر پنہچانے والی برگ ترین ہستیاں بھی
اسی فہرست کا سرِ عنوان کہی جاسکتی ہیں جنھوں نے یہ وقیع کارنامہ کسی دشمنِ اسلام
کے نہیں بلکہ اپنے سگے بھتیجے کی مخالفت میں بطورِ کارِ ثواب انجام دیا تھا۔
دسیوں مشہورعلماء
کے خلاف فرضی مصنفین کے ناموں سے کتابیں لکھ کر شائع کرنے والے بزرگ خطیب بھی اسی فہرست
کی زینت ہیں جو کبھی اپنا تعارف " مولانا غلام غوث رضوی فیض آبادی " کے نام
سے خود کراچکے ہیں۔
"فراڈ " نام سے
کتاب لکھ کر ساداتِ کچھوچھا کے نسب پر حملہ کرنےوالی نقاب پوش شخصیت بھی اسی فہرست
کاحصہ ہے سنی علماء کونسل ممبئی پر صلحِ کلیت کا ٹھپہ لگانے والے رجسٹرڈ سنی
علماء بھی اسی فہرست میں جلوہ فرمائیں۔
غرض یہ کہ مذکورہ
بالا فہرست میں ہر وہ شخصیت موجودہے جو کبھی نہ کبھی اور کسی نہ کسی صورت میں ملتِ سنیت کی تقلیل و افتراق
کا کارنامہ انجام دے چکی ہے۔
اب آپ مذکورہ
بالا امور کو ان کی حق گوئی سے تعبیر کریں یا ان کا تجدیدی کارنامہ شمارکریں یا انکے منصبی فرائض میں گنیں یہ آپ کی مرضی پر منحصر ہے سرِ دست مجھے تو اس باب میں فقط اتنا عرض کرنا ہے
کہ جماعت کے اندرونی مسائل کی ہانڈی بیچ چوراہے
پر پھوڑنے والے ہمارے یہ قائدین اس وقت کہاں
روپوش ہوجاتے ہیں جب دشمنانِ قوم سے دودو ہاتھ کرنے کا موقع آتا ہے ؟ بارہا مشاہدہ
کیا گیا ہے کہ ایسے مواقع پر ان کی جگہ کالجز کے وہی طلبہ یا عوام سے وہی کم علم یا
انپڑھ لوگ نظر آتے ہیں جو ان کے فتاویٰ کی رو سے بد عمل ، جاہل ، داڑھی منڈے، فساق و فجار،
صلحِ کلی، نیم حکیم خطرہ جاں ، نیم
ملا خطرۂ ایماں اور خود رو قائد کی حیثیت رکھتے
ہیں۔
No comments:
Post a Comment