حضرت خواجہ غریب نواز (علیہ الرحمہ) کے اقوالِ زرین
حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد اسلام کی تبلیغ و اشاعت اور اس کے اصولوں سے لوگوں کو متعارف کرانا تھا ، چناں چہ آپ کی مجالس میں تزکیہ و طہارت اور معرفت و سلوک کی باتیں ہوتی رہتی تھیں۔ آپ کے ارشادات اور اقوال کو حضرت کے جانشین خواجہ قطب الدین بختیار کاکی نے ’’دلیل العارفین ‘‘ کے نام سے قلم بند کرلیا تھا ، یہ کتاب مختلف دینی مسائل کا سرچشمہ ہے ، ذیل میں اسی کتاب سے حضرت خواجہ کے چنداقوالِ زریں نقل کیے جاتے ہیں۔
٭ نماز بندوں کے لیے خدا کی امانت ہے پس بندوں کو چاہیے کہ اس کا حق ادا کریں کہ اس میں کوئی خیانت نہ پیدا ہو۔ نماز ایک راز ہے جو بندہ اپنے پروردگار سے کہتا ہے۔
٭ قیامت کے روز سب سے پہلے نماز کا حساب انبیا و اولیا اور ہر مسلمان سے ہوگا جو اس حساب سے عہدہ بر آ نہیں ہوسکے گا وہ عذابِ دوزخ کا شکار ہوگا۔
٭ جوبھوکے کو کھانا کھلاتا ہے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسکے اور جہنم کے درمیان سات پردے حائل کردیگا۔
٭ اس سے بڑھ کر کوئی گناہِ کبیرہ نہیں کہ مسلمان بھائی کو بِلا وجہ ستایا جائے اس سے خدا و رسول دونوں ناراض ہوتے ہیں۔
٭ کون سی چیز ہے جو اللہ تعالیٰ کی قدرت میں نہیں ہے مرد کو چاہیے کہ احکامِ الٰہی بجا لانے میں کمی نہ کرے پھر جو کچھ چاہے گا مِل جائے گا۔
٭ قبرستان میں جان بوجھ کر کھانا یاپانی پینا گناہِ کبیرہ ہے۔ جو ایسا کرے وہ ملعون اور منافق ہے کیوں کہ قبرستان عبرت کی جگہ ہے نہ کہ جاے حرص و ہَوا۔
٭ جس نے جھوٹی قسم کھائی گویا اس نے اپنے خاندان کو ویران کردیا اس گھر سے برکت اٹھالی جاتی ہے۔
٭ گناہ تم کو اتنا نقصان نہیں پہنچا سکتا جتنا مسلمان بھائی کو ذلیل و رسو ا کرنا۔
٭ جس نے خدا کو پہچان لیا اگر و ہ خلق سے دور نہ بھاگے تو سمجھ لو کہ اس میں کوئی نعمت نہیں۔
٭ عارف وہ شخص ہوتا ہے جوکچھ اس کے اندر ہو اسے دل سے نکال دے تاکہ اپنے دوست کی طرح یگانہ ہوجائے پھر اللہ تعالیٰ اس پر کسی چیز کو مخفی نہ رکھے گااور وہ دونوں جہاں سے بے نیاز ہوجائے گا۔
٭ جو شخص عشقِ الٰہی کی راہ میں قدم رکھتا ہے اس کا نام و نشان نہیں ملتا۔
٭ اہلِ عرفان یادِ الٰہی کے علاوہ کوئی اور بات اپنی زبان سے نہیں نکالتے اور اللہ کے خیال کے سوا دل میں کسی دوسرے کا خیال نہیں لاتے۔
٭ اگر کسی شخص میں تین خصلتیں پائی جائیں تو سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ اسے دوست رکھتا ہے (۱) سخاوت (۲) شفقت (۳) تواضع (عاجزی) ، سخاوت دریا جیسی، شفقت آفتاب کی طرح اور تواضع زمین کی مانند۔
٭ نیکوں کی صحبت نیک کام سے بہتر ہے اور بروں کی صحبت برے کام سے بری ہے۔
٭ دنیا میں تین افراد بہترین کہلانے کے مستحق ہیں (۱) عالم جو اپنے علم سے بات کہے (۲) جو لالچ نہ رکھے (۳) وہ عارف جو ہمیشہ دوست کی تعریف و توصیف کرتا رہے۔
٭ حق شناسی کی علامت لوگوں سے راہِ فرار اختیار کرنا اور معرفت میں خاموشی اختیار کرناہے۔
٭ عارف سورج کی طرح ہوتا ہے جو سارے جہان کو روشنی بخشتا ہے جس کی روشنی سے کوئی چیز خالی نہیں رہتی۔
٭ توکل یہ ہے کہ اللہ کے علاوہ کسی اور پر توکل نہ ہو اور نہ کسی چیز کی طرف توجہ کی جائے۔
٭ سچی توبہ کے لیے تین باتیں ضروری ہیں (۱) کم کھانا (۲) کم سونا(۳) کم بولنا ، پہلے سے خوفِ خدا ، دوسرے اور تیسرے سے محبتِ الٰہی پیدا ہوتی ہے۔
٭ اہلِ طریقت کے لیے دس شرطیں لازم ہیں (۱) طلبِ حق (۲) طلبِ مرشد (۳) ادب (۴) رضا (۵) محبت اور ترکِ فضول (۶) تقوا (۷) شریعت پر استقامت (۸) کم کھانا کم سونا کم بولنا (۹) خلق سے دوری اور تنہائی اختیا ر کرنا (۱۰) روزہ و نماز کی ہر حال میں پابندی۔
٭ پانچ چیزوں کو دیکھنا عبادت ہے (۱) اپنے والدین کے چہرے کو دیکھنا حدیث میں ہے ، جوفرزند اپنے والدین کا چہر ہ دیکھتا ہے اس کے نامۂ اعمال میں حج کا ثواب لکھا جاتا ہے(۲) کلامِ مجید کا دیکھنا (۳) کسی عالمِ باعمل کا چہرہ عزت و احترام سے دیکھنا (۴) خانۂ کعبہ کے
دروازے کی زیارت اور کعبہ شریف کو
دیکھنا (۵)
اپنے پیر ومرشد کے چہرے
کو دیکھنا اور ان کی خدمت کرنا۔
No comments:
Post a Comment