حضرت خواجہ سید محمد قطب الدین بختیارکاکی علیہ الرحمہ


سرخیل سادات اولیاء، عظیم المرتبت، فنا فی اللہ، سلطان المشائخ، زہد و استغنا کے پیکر، استقامت کے پہاڑ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کی ذات گرامی ہندوستان میں سلسلہ چشتیہ کے ان عظیم ترین اشخاص میں سے ہیں، جن کے توسط سے، جن کی نگاہ ناز سے، جن کے علوم و معارف سے، جن کے باطنی اسرار و حکم سے سلسلہ چشتیہ کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا، اور لا تعداد گم گشتہ راہ لوگوں کو ہدایت نصیب ہوئی ہے۔

اسم گرامی:

آپ کا نام سید بختیار، لقب قطب الدین اور قطب الاقطاب اور کاکی عرفیت ہے۔ آپ قصبہ اوش ترکستان میں پیدا ہوئے۔ حسینی سادات میں سے تھے۔

ولادت با سعادت:

آپ کی تاریخ پیدائش میں قدرے اختلاف ہے، لیکن راجح قول کے مطابق آپ کی ولادت با سعادت 582 ہجری کو ماوراء النہر کے مشہور علاقہ قصبہ اوش میں ہوئی تھی۔ تاریخی روایات کے مطابق آپ کی پیدائش اگرچہ رات کے نصف حصہ میں ہوئی تھی، لیکن انوار و برکات کی تجلی نے روشنی کا ایسا سماں باندھ دیا تھا جس سے دیکھنے والوں کو صبح کا گمان ہورہا تھا۔ آپ کا سلسلہ نسب چند واسطوں سے ہوکرحضرت جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ سے ملتا ہے۔ جب آپ کی عمر محض ڈیڑھ سال تھی، آپ کے والد محترم سید کمال الدین احمد بن موسیٰ اس دار فانی سے رخصت ہوگئے۔ آپ والدہ کی زیر تربیت رہے۔

نسب نامہ:

سید بختیاراوشی بن سید کمال الدین بن سید موسیٰ بن سید احمد اوشی بن سید اسحاق حسن بن سید معروف حسن بن سید احمد حسن بن سید رضی الدین بن سید حسام الدین بن سید رشید الدین بن سید جعفر بن سید امام محمد تقی بن سیدامام علی موسیٰ رضا بن سید امام موسیٰ کاظم بن سید امام جعفر صادق بن سید امام باقر بن سید امام زین العابدین بن سید الشہداء سیدنا امام حسین بن امیر المؤمنین حضرت مولیٰ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہم

تعلیم و تربیت:

جب آپ علیہ الرحمہ کی عمر پانچ برس کی ہوئی تو والدہ نے ہمسائی عورت کے ہمراہ تختی وغیرہ لیکر معلم کے پاس روانہ کیا۔ درمیان راستہ میں ایک بزرگ نے بچے کو شیخ ابو حفص اوشی کے درسگاہ میں پہنچا دیا، اور شیخ سے ارشاد فرمایا کہ احکم الحاکمین کا حکم ہے کہ اس بچہ پر خصوصی توجہ دی جائے۔ کچھ دنوں تک ان کے زیرِ سایہ ظاہری علوم کی تحصیل میں مشغول رہے، بعد ازاں قاضی حمید الدین ناگوری کی خدمت میں علوم ظاہریہ کی تکمیل فرمائی۔ تاریخی روایت کے مطابق آپ نے بچپن میں ہی اپنی والدہ سے قرآن مجید کے پندرہ پارے پڑھ لئے تھے۔

بیعت و سلوک:

بلوغ کے ابتدائی زمانہ میں ہی باطنی علوم کی تحصیل کا شوق پیدا ہوا اور یہ شوق انہیں اس ولی کامل، خضر طریقت کے دربار میں پہنچا دیا جن کی رہبری و راہنمائی میں کمال و تکمیل کے مدارج تک پہنچنا مقدر تھا۔ سترہ سال کی عمر میں آپ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کے دست مبارک پر بیعت ہوئے اور محض بیس سال کی عمر میں فقیہ ابو اللیث سمر قندی رحمۃ اللہ علیہ کی مشہور مسجد میں ممتاز، جلیل القدر، یکتائے روزگار مشائخ عظام کی موجودگی میں خلعت خلافت سے سرفراز کئے گئے۔ آپ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کے پہلے خلیفہ ہیں اور بعد کے زمانے میں شیخ کے دامن ادارت سے اس طرح منسلک ہوئے کہ زندگی بھر کیلئے اپنے شیخ کے ہوکر رہ گئے۔

ہندوستان آمد:

خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی منشا پر آپ ہندوستان تشریف لائے، کچھ عرصہ خواجہ صاحب کی خدمت میں رہے، پھر انہی کے حکم پر دہلی کو اپنا مسکن بنالیا۔ دہلی کا یہ وہ زمانہ تھا جب تاتاریوں کی تباہی و بربادی نے عالم اسلام کو ناقابلِ تلافی نقصان سے دو چار کر رکھا تھا۔ اکناف عالم کے مشائخ و جلیل القدر علماء کرام دہلی میں جمع ہورہے تھے۔ دہلی اہل اللہ اور علوم و معارف کے خزینے کا مسکن بن چکا تھا۔ علماء و مشائخ اور شرعی علوم کے ان نیر تاباں کے درمیان آپ کی حیثیت آفتاب کامل کی تھی۔ جس کی ضیا پاش روشنی سے ہر کوئی مستفید ہورہا تھا۔ شہر کی آبادی سے دور غیاث پور کے علاقہ میں آپ قیام پذیر تھے۔ عوام الناس کی عقیدت کی وجہ سے آنے والوں کا تانتا بندھا رہتا لیکن آپ حالت استغراق اور وجد کی بناء پر فوری توجہ نہیں دے پاتے۔ امراء و سلاطین کی جانب سے پیش کردہ ہدایا و تحائف سے اجتناب فرماتے۔ سلطان شمس الدین التمش نے آپ کی شایان شان آپ کی پذیرائی کی۔ سلطان شمس الدین التمش کا معمول تھا کہ ہفتہ میں دوبار شیخ سے ملاقات کیلئے تشریف لاتے۔ لیکن خدائی شان کہ جس کے در پر شاہوں کا جم غفیر ہوا کرتا تھا وہ خود کبھی شاہی دربار میں نہیں پہنچا۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے اکابرین نے شاہوں کے دربار سے ہمیشہ خود کو الگ تھلگ رکھا ہے، اگر میں دربار شاہی میں حاضری دینے لگوں، تو ان نفوسِ قدسیہ کو کیا جواب دوں گا۔

ایک دفعہ آپ کے مرشد و مربی خواجہ معین الدین چشتی اجمیری دہلی تشریف لائے۔ خواجہ صاحب کے ایک پرانے شناسا نے قطب الدین بختیار کاکی کے متعلق کچھ باتیں کہہ دی۔ خواجہ صاحب نے فرمایا، بابا بختیار اتنی قلیل مدت میں اتنی شہرت ہوگئی کہ اب تمہارے خلاف باتیں بھی ہونے لگی ہے۔ ہمارے ساتھ اجمیر چلو، یہاں تمہارا کوئی قدر دان نہیں ہے۔ وہاں ہم تمہیں مخدوم بنا کر رکھیں گے۔ یہ سن کر مطیع و فرمانبردار مرید نے ارشاد فرمایا کہ، میری تو یہ مجال نہیں کہ آپ کے سامنے کھڑا رہوں، چہ جائیکہ بات بیٹھنے کی ہو۔ اسی وقت آپ خواجہ صاحب کے ہمراہ اجمیر کیلئے روانہ ہوگئے۔ دہلی والوں پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر آپ کے پیچھے ہولیا۔ عوام تو عوام خود دہلی کے سلطان شمس الدین التمش بھی اسی بھیڑ کا حصہ تھے۔ دہلی والوں کیلئے آپ کی مفارقت قابلِ برداشت نہیں تھی۔ جب خواجہ صاحب نے عوام کی یہ وارفتگی اور لگاؤ دیکھا تو یہ کہہ کر راستہ سے واپس کردیا کہ یہ شہرت و مقبولیت منجانب اللہ ہے، اب جاؤ دہلی کو تمہیں ہی سنبھالنا ہے۔
آپ ہمیشہ عبادت و ریاضت میں مشغول رہا کرتے تھے۔ ہر دن سو رکعت نفل نماز کا معمول تھا، نیز رات کو تین ہزار درود شریف پڑھا کرتے تھے۔ شادی کے بعد تین چار دنوں تک مصروفیت کی وجہ سے یہ اہتمام باقی نہیں رہا۔ آپ کے خادم انیس احمد نے خواب دیکھا کہ ایک عالیشان محل ہے۔ باہر مشائخ عظام کا بڑا مجمع ہے۔ دروازے پر عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ لوگوں کا پیغام اندر پہنچا رہے ہیں۔ میں نے بھی ملاقات کا پیغام بھجوایا۔ جواب آیا کہ ابھی تم اس کے اہل نہیں ہو، البتہ قطب الدین بختیار کاکی سے عرض کرنا کہ تین دنوں سے ہمارا تحفہ نہیں آیا ہے۔

کاکی کی وجہ تسمیہ:

شیخ الحدیث مولانا زکریا رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب (تاریخ مشائخ چشت) میں بیان فرمایا کہ، دہلی میں قیام کے زمانے میں آپ کبھی کسی سے کچھ نہیں لیتے تھے۔ ہدایا و تحائف پیش کئے جاتے لیکن شان بے نیازی نے کبھی ان چیزوں کی جانب توجہ نہیں دی۔ جس کے نتیجہ میں بسا اوقات کئی وقتوں میں فاقہ ہوجایا کرتا تھا۔ آپ کی اہلیہ محترمہ ہمسائی عورت سے کچھ قرض لے لیا کرتی تھی۔ ایک مرتبہ ہمسائی عورت نے اہلیہ محترمہ سے کہہ دیا کہ اگر ہم قرض نہ دیں تو تم بھوکے مرجاؤ۔ یہ بات اہلیہ محترمہ کے دل کو لگ گئی۔ موقع دیکھ کر شیخ سے تذکرہ کردیا۔ شیخ نے گھر کے ایک طاق کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جب کبھی ضرورت پیش آئے وہاں سے کاک ( روٹی) لے لیا کرو۔

تصانیف جلیلہ:

 آپ علیہ الرحمہ کے تصانیف میں دیوان، دلیل العارفین اور فوائد الساکین کے نام ملتے ہیں۔

وفات پرملال:

آپ علیہ الرحمہ  کو سماع سے رغبت تھی۔ دہلی میں محفل سماع کے دوران شیخ احمد جام کا یہ شعر قوال گارہا تھا کہ کُشتگانِ خنجرِ تسلیم را ہر زماں از غیب جانِ دیگر اَست سن کر وجد طاری ہوا۔ کہا جاتا ہےکہ تین روز اسی وجد میں رہے، آخر 27 نومبر 1235ء مطابق 14 ربیع الاول 633ہجری بروز دو شنبہ کو انتقال فرماگئے۔ آپ کا مزار دہلی کے علاقہ مہرولی میں واقع ہے۔

جب حضرت قطب الدین بختیار کاکی علیہ الرحمہ  کی وفات ہوئی تو  ہندوستان بھرمیں کہرام مچ گیا۔جنازہ تیار ہوا  اور اسے ایک بڑے میدان میں نمازِ جنازہ پڑھنے کے لیے لایا گیا۔ مخلوق مورومگس کی طرح جنازہ پڑھنے کے لیے نکل پڑی تھی۔ انسانوں کا ایک سمندر تھا جو حدِ نگاہ تک نظر آتا تھا۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ ایک بپھرے ہوئے دریا کی مانند یہ مجمع ہے۔ جب نمازِ جنازہ پڑھانے کا وقت قریب آیا تو آچانک مجمع میں سے ایک آدمی آگے بڑھا اور مجمع کی طرف رخ کرکے کہنے لگا کہ “میں حضرت قطب الدین بختیار کاکی علیہ الرحمہ  کا وصی ہوں۔ مجھے حضرت   علیہ الرحمہ  نے ایک وصیت کی تھی لہذا میں اس مجمع تک حضرت مرحوم کی وہ وصیت پہنچانا چاہتا ہوں۔ مجمع سننے کے لئے خاموش ہوگیا۔ وصیت کیا تھی؟

سنیئے! وصی نے کہا کہ  خواجہ قطب الدین بختیار کاکی  علیہ الرحمہ  نے  مجھے یہ وصیت کی تھی کہ میرا نمازِ جنازہ وہ شخص پڑھائے جس کے اندر چار خوبیاں موجود ہوں۔ 

پہلی خوبیتمام زندگی میں اس کی تکبیر اولیٰ کبھی بھی قضا نہ ہوئی ہو ۔

دوسری خوبیاس کی تہجد کی نماز کبھی بھی قضا نہ ہوئی ہو۔

تیسری خوبیاس نے زندگی میں غیر محرم عورت پر کبھی بھی بری نظر نہ ڈالی ہو۔

چوتھی خوبیوہ اتنا عبادت گزار ہو حتیٰ کہ اس نے عصر کی سنتیں بھی کبھی نہ چھوڑی ہوں۔ لہذا جس شخص میں یہ چاروں خوبیاں موجود ہوں وہ میرا نمازِ جنازہ پڑھائے، 

جب آپ علیہ الرحمہ  کی یہ وصیت مجمع کو سنائی گئی تو مجمع پر سناٹا چھا گیا مجمع ایسے ساکت ھو گیا جیسے اسے سانپ سونگھ گیا ہو ۔  لوگوں کے سر جھک گئے۔ کون ہے جو قدم آگے بڑھائے، کافی وقت گزر گیا وصیت کا اعلان بار بار کیا جاتا رھا  لیکن کوئی بھی شخص نمازِ جنازہ پڑھانے کے لئے تیار نہ ہوا  لوگ آپس میں چہ میگوئیاں کرنے لگے کہ  حضرت علیہ الرحمہ  کی ان شرائط کے ساتھ کوئی بھی حضرت علیہ الرحمہ  کا جنازہ نہیں پڑھا سکے گا  دن اپنے اختتام کی طرف بڑھنے لگا تو ایک شخص روتا ہوا آگے بڑھا۔ حضرت قطب الدین بختیار کاکی علیہ الرحمہ  کے جنازے کے قریب آیا۔ جنازے سے چادر ہٹائی اور کہا  حضرت ! آپ خود تو فوت ہو گئے لیکن میرا راز افشا کر گئے۔اس کے بعد بھرے مجمع کے سامنے اللہ کو حاضر و ناظر جان کر قسم اٹھائی کہ الحمد للہ میرے اندر یہ چاروں خوبیاں موجود ہیں لوگوں نے حیرانگی سے دیکھا یہ وقت کے بادشاہ وقت حضرت  شمس الدین التمش علیہ الرحمہ  تھے ۔ 

آپ علیہ الرحمہ  کا حلقہ ادارت بہت وسیع تھا، آپ کے خلفاء کی تعداد بھی بہت زیادہ تھی۔ لیکن آپ کے تین خلفاء کا سلسلہ پورے برصغیر میں جاری رہا، آپ کے سب سے مشہور خلیفہ شیخ فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ بعد کے زمانے میں خلق خدا نے ان خلفاء کے ذریعہ شیخ کے کمالات سے دینی و روحانی تسکین حاصل کی ہے۔ آج بھی پورے برصغیر میں سلسلہ چشتیہ کے اکابرین کی سند شیخ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ سے جاکر ملتی ہے۔

 

No comments:

Post a Comment