آل
انڈیا علماء ومشائخ بورڈ اہل سنت والجماعت کی آواز ہے ۔ جس کی وابستگی خانقاہوں ،
درگاہوں، اور سجادہ نشینوں سے ہےا ور اس کو چلانے والوں میں علماء، مشائخ، مفتی
اور مدارس اسلامیہ کے اساتذہ ، ڈاکٹرز، انجینئرز، وکلاء اور قوم کے تمام دانشوران
شامل ہیں۔
آل
انڈیا علماء ومشائخ بورڈ کا مقصد اہلسنت والجماعت کو اس کا حق دلانا ہے اور اس کی
ہر لحاظ سے مدد کرنا ہے اور سچائی بھی یہی ہے کہ یہ تمام امور لوگوں کو آپس میں
جوڑتے ہیں اور اسلام کی پیغام عام کرتے ہیں لیکن اس تمام کارکردگی ا س وقت تک ناکافی
ہے جب تک تمام لوگ اپنے اپنے اعتبار سے ا س کی کارکردگی میں شامل نہ ہوں اور ہم اس
وقت تک قوم کی فلاح و بہبود کے لئے کچھ نہیں کرسکتے جب تک ہم اجتماعی طور پر اپنا
طریقۂ کار نہ بدل لیں یہ ہمارے لئے اور ہماری جماعت کے لئے نہایت ضروری ہے۔ اسی
نیک مقصد کی غرض سے آل انڈیا علماء ومشائخ بورڈ کی تشکیل ہوئی ہے ۔
ہماری
تاریخی سچائی اور موجودہ وقت کی ضرورت: ہماری تاریخ گواہ ہے کہ جس وقت ہندوستان
انگریزوں کے تسلط میں تھا اور آزادی کی پہلی جنگ (غدر) جو 1857 ء میں واقع
ہوئی اس میں جس علامہ کے فتوے سے پوری
جماعت نے منظم ہوکر انگریزوں کے خلاف علم بغاوت بلند کیا ، جس کے نتیجے ہم کو
آزادی حاصل ہوئی وہ علامہ اکابر اہل سنت میں سے تھے اور پوری سنی جماعت جو
خانقاہوں سے وابستگی رکھتی تھی اس نے اپنی حب الوطنی کا اظہار کرتے ہوئے اس جنگ
میں حصہ لیا لیکن آزادی کے بعد ہماری
جماعت کے مشائخ اوراکابرین نے اپنی روش کو اسی راہ میں گامزن رکھا جس پر ہمارے
اسلاف تھے یعنی دین کی نشر واشاعت
اورلوگوں کو روحانی اور جسمانی فیوضات سے مستفیض کرنا یقینا ً یہ انہی کا کام تھا
جو انہوں نے بخوبی انجام دیا لیکن جماعت کے دوسرے افراد بتقاضۂ وقت قوم کی سیاسی
حالات پر نگاہ نہ رکھ پائے جس کی وجہ سے ہم سیاسی معاملات سے بہت دور ہوگئے ہمارے
اکابرین نے ملک کی آزادی میں بڑی عظیم قربانیاں دی تھیں لیکن اس کے بعد حکومتی
معاملات میں ہمارا دخل نہ کے برابر ہوگیا ۔ اس کی وجہ ایک یہ بھی تھی کہ آزادی کے
بعد ہمارے سامنے مذہبی اور معاشی اور کئی طرح کے مسائل تھے جس کی وجہ سے ہم حکومتی معاملات میں اپنی حصہ
داری نہ رکھ پائے اور ہم بچھڑتے گئے ۔ آخری پچاس سالوں میں ہماری جماعت کے کچھ ہی
لوگ دیوان عام اور دیوان خاص تک پہونچے ہیں جو ہماری جماعت کے لئے ناکافی ہے حقیقت
یہ ہے کہ حکومتی معاملات سے آج بھی یہ جماعت نہایت دور ہے اور آج بھی ہم سینٹرل
وقف بورڈ، وقف بورڈ، حج کمیٹی، عربی ،
فارسی ، اردو کے بورڈ اقلیت بورڈ سے بہت دور ہیں اور سیاسی اعتبار سے آج بھی جب ہم
کسی چھوٹی یا بڑی سیاسی جماعت پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ہماری جماعت کی حصہ داری اس
میں نہ کے برابر ہوتی ہے ۔ حکومتی معاملات یا دیگر تمام معاملات میں ہماری تعداد
نہ کے برابر ہے جبکہ یہ بات یقینی ہے کہ ہندوستان میں اہل سنت والجماعت یعنی
درگاہوں سے وابستگی رکھنے والے حضرات کی تعداد 75 فیصد ہے ۔
اب
وقت کا سب سے بڑا تقاضا یہی ہے کہ سنی علماء، مشائخ، ڈاکٹرز، انجینئرز، وکلاء اور
قوم کے تمام دانش واران حضرات ایک منظم شکل اختیار کریں اور پوری جماعت میں ایک ہی
پیغام نشرکریں اور شہر یا صوبائی سطح پر سنی کانفرنس کی جائیں اور اپنی تعداد اور
طاقت کا مظاہرہ کیا جائے۔ یہ کام اتنا آسان تو نہیں ہوگا لیکن یہ ناممکن بھی نہیں
ہے ۔ اگر ہم نے یہ کام کرلیاتو حکومتی معاملات میں ہماری حصہ داری بڑھ جائے گی اور
معاشرتی لحاظ سے ہم مظبوط ہو جائیں گے۔ ان شاء اللہ
لہذا
تمام اہلسنت وجماعت کا اخلاقی فریضہ ہے کہ اولین فرصت میں اس کے ممبر بنیں اور
اہلسنت و جماعت کو مظبوط سے مظبوط بنائیں۔
شائع
کنندہ: آل انڈیا علماء ومشائخ بورڈ لکھنؤ
ٹائپنگ
: آلِ رسول احمد الاشرفی القادری
No comments:
Post a Comment