Imam Ahmad Raza Aek Mazloom Shakhsiyat

امام احمد رضا خان القادری
 ایک  مظلوم شخصیت
مجدد دین و ملت امام احمد رضا خان قدس سرہ کی شخصیت محتاج تعارف نہیں ہے بر صغیر کے صوفی سنی  جماعت کے لوگ "مجدد دین و ملت " کے نام سے یاد کرتے ہیں تو دوسری طرف غیر صوفی  جماعت کے لوگ" بانی بریلوی جماعت" کے نام سے جانتے ہیں اور عرب ممالک بلخصوص خلیجی ممالک میں اسی نام سے تعارف کروایا گیا ہے اور کچھ لوگوں نے اور آگے بڑھتے ہوئے "قادیانی، شیعہ اور قبر پرستوں کا امام قرار دے دیا  اور کافی اس کا پرچار بهی کیا  گیا اور برصغیر میں کچھ مزارات پر شیعوں کا قبضہ اور آخر میں"  رضا " لکهنے اور اہل بیت سے محبت کی وجہ سے شیعہ قرار دے دیا گیا اور فاضل بریلوی کے استاد "مرزا غلام قادر بیگ مرحوم" کو مرتد مرزا غلام احمد قادیانی کا نام دے کر  قادیانی قرار دے دیا گیا ، اور مزارات پر خلاف شرع خرافات و بدعات کو ان کی طرف منسوب کر کے بدعات و خرافات کا بانی اور مجدد کا نام دیا گیا اور یہ سب چیزیں موقع اور محل کے مطابق استعمال کی گئیں مثلاً عرب صوفی مشائخ کے سامنے ان کو "شیعی اور قادیانی" اور غیر صوفی مسلمانوں کے سامنے بدعتی کا نام دیا گیا اور اس پر درجنوں عربی اور انگریزی زبانوں میں کتابیں لکھوائی گئیں ....... اور کافی مشہور کیا گیا اور اب ان الزامات کے کے تعلق سے تصویر کا دوسرا رخ دیکهیں کہ یہی امام احمد رضا خان  قادیانی ، شیعی اور بدعتی  اپنی ہی جماعت کے خلاف ہنگامہ کرتے ہوئے نظر آ رہا ہے:
قادیانیت کے خلاف کچھ کتابیں ملاحظہ کریں:
1-السوء و العقاب علی المسیح الکذاب
2- قهر الديان على مرتد بقاديان
3- الجراز الدياني علي المرتد القادياني
4 -الصوارم الهندية  وغیرہ
احمد رضا خان صاحب قادیانی ہیں پھر بھی قادیانیت اور احمدیت کے خلاف کتابیں لکھ کر ہیں! !!! !
شیعہ کے خلاف کچھ کتابیں ملاحظہ کریں:
1-الزلال الانقي من بحر سبقة الاتقي  (في أفضلية الصديق)
2- رد الرافضة ..
3- المستند المعتمد بناء الأبد
4- فتاوی الحرمين لرجف ندوة المين
5- المقالة المسفرة في أحكام البدعة
6-إعلام الأعلام بأن هندوستان دارالاسلام
7-تمهيد الإيمان
8- الأدلة الطاعنة في آذان الملاعنة
9- اعالي الإفادة في تعزية الهند و بيان الشهادة
10- بدر الأنوار في آداب الآثار .....
فاضل بریلوی شیعہ تهے پهر بهی شیعہ کے خلاف دسیوں کتابیں لکھ رہے ہیں اور زور دار طریقے سے رد رافضیت کے حوالے سے دھماکہ کر رہے ہیں! !!

قبر پستوں کے امام اور پیشوا تهے اور بدعات و خرافات کے بانی تھے  اور خود  اپنے گھر کو منہدم کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں:
1- مقال عرفاء باعزاز شرع و علماء.
2- الیاقوتة الوسطة قلب عقد الرابطة
3- الوظيفة الكريمة او الوظيفة القادرية
4- الزبدة ا الزكية لتحريم السجود التحية
5- نقابة السلاقة في أحكام البيعة والخلافة
فاضل بریلوی بدعات و خرافات اور قبر پرستوں کے امام و پیشوا تهے پهر بهی مزارات اور تصوف میں خرافات و بدعات اور خلاف شرع کاموں کے خلاف کتابیں لکهتے ہوئے نظر آ رہے ہیں !!!!
تعجب بالائے تعجب ہے کہ جو خود بانی اور معمار ہوں پهر اس کے خلاف کتابیں لکھ رہے ہیں یہ عقل میں آنے والی بات نہیں ہے .. ضرور کچھ ہے جس کی پردہ داری ہے. .صرف انہیں کی بات نہیں ہے بلکہ بہت سے اللہ تعالیٰ کے نیک بندے گزرے ہیں اور کچھ ہیں جن پر بے بنیاد الزامات لگائے گئے ہیں تاکہ شخصیت مشکوک ہو جائے کچھ اپنوں نے کچھ غیروں نے دونوں نے مل کر گل کهلایا ہے رہی بات فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ کی تو  وہ ناشر اہل سنت و جماعت تهے نہ وہ قادیانی تهے نہ وہ شیعی تهے بلکہ سنی صحیح العقیدہ قادری نوری برکاتی صوفی عالم و مفتی پابند شرع تهے  جو باتیں صحیح تهیں لکهتے تهے کسی سے ڈرتے نہیں تهے۔
اس لئے جس بهی مسلک اور فرقے کے خلاف کتابیں لکھی گئیں ہیں ان کو دیانتداری کے ساتھ پڑهیں اور فوری طور پر تسلیم نہ کر لیں بلکہ صحیح طریقے سے جانچ پڑتال کرکے یقین کریں. .... کیونکہ اس دنیا میں سب کچھ ہونے لگا ہے! !!!!
ان شاءالله بندہ ناچیز کی ایک عربی زبان میں دو سو صفحات پر مشتمل "الامام احمد رضا خان القادری و الفرق الضالة" کے نام سےجلدی منظر عام پر آ رہی ہے. ... . جس میں مندرجہ ذیل مباحث ہیں:
1-حياة الإمام أحمد رضا خان القادري.
2- الامام احمد رضا خان القادری و دوره في الرد على القاديانية. .
3- الامام احمد رضا خان القادری و دوره في الرد علي الشيعة ..
4- موقف الإمام أحمد رضا القادری من التصوف
5- الخاتمة و النتائج. ...
محمد عباس مصباحی / ازہر شریف قاہرہ مصر

Imam Ahmad Raza Aur Ulama Karam (Urdu)

اما م احمدرضامحدث بریلوی
کے بارے میں  تاثرات و جذبات
🔸امام احمد رضا خاں محدث بریلوی 10 شوال المکرم 1272 ھ /14جون 1856ء کو بریلی میں پیدا ہوئے۔آپ عہدِ جدید کے عظیم عبقری تھے، جس پر ان کی علمی تحقیقات و تصنیفات شاہد اور زمانہ خود گواہ ہے۔ زمانے نے ان کو جانچا،پرکھا اور پھر آفتاب،ماہتاب بنا دیا۔ ان کی روشنی دور دور تک پھیلی۔ ان کی آواز دور دور پہنچی۔🔸علمائے عرب نے ان کے فضل وکمال کی کھلے دل سے داد دی اور خوب خوب سراہا۔چنانچہ
شیخ عبدالرحمٰن دھان مکی  فرماتے ہیں:-
"وہ جس کے متعلق مکہ معظمہ کے علماے کرام گواہی دے رہے ہیں کہ وہ سرداروں میں یکتا ویگانہ ہے"۔
شیخ عبداللّٰہ نابلسی مدنی فرماتے ہیں:-
"وہ نادر روزگار،اس وقت اور اس زمانے کا نور۔ معزز مشائخ اور فضلا کا سردار، بلا تامل وہ زمانے کا گوہر یکتا"۔
شیخ محمد عارف بن محی الدین ابن احمد فرماتے ہیں:-
" ان کا کلام ان کے کمال علم پر دلالت کرتا ہے"۔
📎اور دمشق ہی کےعلامہ شیخ محمد القاسمی تحریر فرماتے ہیں:-
"فضائل و کمالات کے ایسے جامع ہیں جن کے سامنے بڑے سے بڑا ہیچ ہے،وہ فضل کے باپ اور بیٹے ہیں. ان کی فضیلت کا یقین دشمن و دوست دونوں کو ہے،ان کا علمی مقام بہت بلند ہے،ان کی مثال لوگوں میں بہت کم ہے"۔پاک و ہند کے فضلا و محققین میں ان کی دھوم ہے.چنانچہ
پروفیسر ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خاں صاحب (سندھ یونیورسٹی) فرماتے ہیں:-
"اعلٰی حضرت مولانا احمد رضا خاں علیہ الرحمہ اپنے دور کے بے مثل علما میں شمار ہوتے ہیں،ان کے فضل وکمال،ذہانت و فطانت،طبّاعی و درّاکی کے سامنے بڑے بڑے علما، فضلا، یونی ورسٹیوں کے اساتذہ، محققین اور مستشرقین نظروں میں نہیں جچتے"۔
امام احمد رضاکے فضل وکمال کے ساتھ ساتھ ان کی وسعت علم کے بھی فضلا و دانش ور قائل نظر آتے ہیں۔چنانچہ
پروفیسر غیاث الدین قریشی (نیو کاسل یونیورسٹی،انگلینڈ) لکھتے ہیں:-
"انہوں نے اپنے وسیع اور عمیق علم کے طفیل اپنی ذات میں ایک اسلامی یونی ورسٹی کی بلندیاں جمع کر لی ہیں"۔
📎عہدِ جدید کے مشہور مصنف مولانا ابوالاعلیٰ مودودی لکھتے ہیں:-
"مولانا احمد رضاخاں صاحب کے علم وفضل کا میرے دل میں بڑا احترام ہے.فی الواقع وہ علومِ دینی پر بڑی وسیع نظر رکھتے تھے اور ان کی اس فضیلت کا اعتراف ان لوگوں کو بھی ہے جو ان سے اختلاف رکھتے ہیں"۔
مولانا ابوالحسن علی ندوی (ندوۃ العلماء لکھنو) امام احمد رضا کے ہم خیال نہ ہوتے ہوئے بھی یہ اظہار خیال فرماتے ہیں:-
"جزئیات فقہ پر جو ان کو عبور حاصل تھا،ان کے زمانے میں اس کی نظیر نہیں ملتی"۔
📎اور جسٹس پیر محمد کرم شاہ ازہری (جج سپریم کورٹ آف پاکستان،شریعت بینچ) فرماتے ہیں:-
"علومِ دینیہ،فقہ،حدیث،تفسیر وغیرہ میں آپ کو جو عدیم النظیر مہارت حاصل تھی اس میں تو کسی کو کلام نہیں"۔
📎ہندوستان کا مشہور عالم شہرت یافتہ مجلّہ "معارف" (اعظم گڑھ) فتاویٰ رضویہ اور امام احمد رضا پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے:-
"دینی علوم خصوصاً فقہ و حدیث پر ان کی نظر وسیع اور گہری تھی.مولانا جس دقتِ نظر اور تحقیق کے ساتھ علما کے استفسارات کے جواب تحریر فرماتے ہیں اس سے ان کی جامعیت،علمی بصیرت، فقہی جز رسی ، استحضار، ذہانت،طبّاعی کا پورا پورا اندازا ہوتا ہے...ان کے عالمانہ اور محققانہ فتاویٰ مخالف و موافق ہر طبقے کے مطالعہ کے لائق ہیں"۔
شیخ ابوالفتاح ابوغدہ (پروفیسر کلیۃالشریعہ محمد بن سعود یونیورسٹی) نے فتاویٰ رضویہ کا صرف ایک عربی فتویٰ مطالعہ کیا تو وہ حیران رہ گئے،خود فرماتے ہیں:-
"عبارت کی روانی اور کتاب و سنت واحوال سلف سے دلائل کے انبار دیکھ کر میں حیران ہوگیا اور شش در رہ گیا اور اس ایک فتوے کے مطالعہ کے بعد میں نے یہ رائے قائم کر لی کہ یہ شخص کوئی عالم اور اپنے وقت کا زبردست فقیہ ہے"۔
مشہور محقق و قلم کار اور امام احمد رضا کے معاصر مولانا وحید احمد بدایونی نے بڑی دل لگتی بات فرمائی ہے، وہ لکھتے ہیں:-
"حضرت مولانا بریلوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کا علم نافع ان کی فقاہت پر منتہی تھا...اسی سے انھیں مقبولیت حاصل ہوئی اور اسی سے ان کا نام زندہ ہے"۔
یہ وہ فضلا ہیں جو دل کی آواز پر لبیک کہتے ہیں...نفس کے اشاروں پر نہیں چلتے...جو روزِ روشن میں آنکھیں بند نہیں رکھتے....وہی کہتے ہیں،جو ان کا دل کہتا ہے۔
سراج الفقہا مولانا سراج احمد(مفتی سراج العلوم،خان پور) امام احمد رضا کے معاصرین میں تھے،ان کے اساتذہ نے ان کو باور کرایا تھا کہ امام احمد رضا کو علم و تحقیق سے کوئی علاقہ نہیں،ان کی کتابیں پڑھنا بے سود ہے لیکن جب سراج الفقہا منصب افتا پر فائز ہوئے اور میراث کے ایک مسئلے میں ان کو الجھن پیش آئی تو مجبوراً انھوں نے امام احمد رضا سے رجوع کیا،امام احمد رضا نے ایسا تشفی بخش جواب عنایت فرمایا کہ سراج الفقہا حیران رہ گئے اور امام احمد رضا کی علمی عظمت کا نقش ان کے دل پر مرتسم ہو گیا...
انھیں ایام میں ان کی ملاقات 📎ایک غیر مقلد عالم مولانا نظام الدین (احمد پور) سے ہو گئی جو ان کے مخلصین میں تھے۔ سراج الفقہا نے امام احمد رضا کا رسالہ "الفضل الموہبی" ان کو دکھایا،تو وہ حیران رہ گئے اور عالم حیرت میں فرمایا:-
🔸"یہ سب منازل فہم حدیث مولانا کو حاصل تھے؟... افسوس کہ میں ان کے زمانے میں رہ کر بے خبر و بے فیض رہا...علامہ شامی اور صاحب فتح القدیر،مولانا کے شاگرد ہیں...یہ تو امام اعظم ثانی معلوم ہوتے ہیں"۔
📎برکلے یونیورسٹی (امریکہ) کے شعبئہ تاریخ کی فاضلہ ڈاکٹر باربرا-ڈی-مٹکاف اپنی کتاب (ہندوستان میں مسلم علماء کی مذہبی قیادت) میں لکھتی ہیں:-
احمد رضا کی نگارشات کا انداز مدلل تھا جس میں بے شمار حوالوں کے ڈھیر ہوتے تھے جس سے ان کی علمی اور عقلی فضیلت کا اندازا ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کے مخالفین کی کوتاہیوں کا علم بھی ہوتا ہے"۔
ڈاکٹر محی الدین الوائی (پروفیسر مدینہ یونی ورسٹی) جو مسلکاً اہل حدیث ہیں لیکن حق گو ہیں.وہ امام احمد رضا کی خدمات کو سراہتے ہوئے لکھتے ہیں:-
"جن علماے ہند نے مروجہ علوم عربیہ و دینیہ کی خدمت میں اعلٰی قسم کا حصہ لیا ہے ان میں مولانا احمد رضا خان صاحب کا نام سر فہرست نظر آتا ہے....علوم عربیہ اسلامیہ کو آراستہ کرنے میں اپ کا بہترین ریکارڈ ہے"۔
حوالہ جات:-
 رئیس الفقہاء امام احمد رضا محدث بریلوی از:-پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد  نقشبندی
یاد گار رضا 2012-2013
رضا اکیڈمی-ممبئی
شوال  جشن یوم رضا مبارک
اخذ کردہ:- محمد سبطین رضا

Ahle Sunnat wa Jama'at Koun ?


اہلنست و جماعت کون؟؟؟
ایک پاکستانی صحافی کے قلم سے
جنوبی ایشیا میں عقیدے کے لحاظ سے ابتدائی اہل سنت وجماعت سنی مسلمانوں کو جدید دور میں بریلوی کہا جاتا ہے۔ انگریزی وکیپیڈیا کے مطابق ان کی 200 ملین سے زائد ہے۔ انگریزی وکیپیڈیا کے جمع کردہ اعداد و شمار کے مطابق انڈیا ٹائم کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ بھارت میں مسلمانوں کی اکثریت بریلوی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتی ہےاسی طرح ہیریٹیج فاؤنڈیشن ، ٹائم اور واشنگٹن پوسٹ کے اندازے کے مطابق اسی طرح کی اکثریت پاکستان میں ہے۔سیاسیات کے ماہر روہن بیدی کےتخمینہ کے مطابق پاکستان کے مسلمانوں میں سے 60 فیصد بریلوی ہیں جبکہ معروف کالم نگار جناب اوریا مقبول جان کے نزدیک پاکستان کے 80 تا90 فی صد مسلمان بریلوی ہیں، برطانیہ میں پاکستانی اور کشمیری تارکین وطن )مسلمانوں(  کی اکثریت بریلوی ہے، جو دیہات سے آئے ہیں۔ لفظ بریلوی اہل سنت و جماعت کے راسخ العقیدہ مسلمانوں کے لیے ایک اصطلاح (پہچان) ہے۔ اس کی وجہ 1856ء مطابق 1272 ہجری میں پیدا ہونے والے ایک عالم دین کا علمی کام ہے ان کا نام مولانا احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ تھا وہ بھارت  (ہند) کے شمالی علاقہ جات میں واقع ایک شہر بریلی کے رہنے والے تھے1921ء مطابق 1340 ہجری میں ان کا نتقال ہوابریلی ان کا آبائی شہر تھا۔ انہیں امامِ اہل سنت اور اعلیٰ حضرت کے القابات سے یاد کیا جاتا ہے۔ دنیا بھر کے اکثریتی مسلم علماء کی نظر میں وہ چودھویں صدی کے ابتدائی دور کے مجدد تھے انہیں مجدد دین و ملت کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ آج کے دور میں میڈیا اور تعلیمی ادارے مسلمانوں کی بین الاقوامی اکثریت اہل سنت وجماعت کو بریلوی کے عنوان سے جانتے ہیں۔ یہ وہی جماعت ہے جو پرانے اسلامی عقائد پر سختی سے قائم ہے اور مغربی مستشرقین کے بنائے ہوئے جدید شرپسند اورفتنہ پرور فرقوں کے خلاف پرسرِ پیکار رہتی ہےاہل سنت بریلوی جماعت پرانے دور کے بزرگ صوفیاء اور اولیاء کے طور طریقے اپنائے ہوئے ہے اور جنوبی ایشیا میں صدیوں پہلے سے موجود سنی اکثریت کی نمائندہ ہے البتہ پچھلے چند برسوں سے چند جدید فرقوں کے پروپیگنڈے سے اہل سنت و جماعت کو بریلوی جماعت یا بریلوی مسلک کہا جاتا ہے حالانکہ اپنے عقائد اور طرز عمل میں یہ قدیم اہل سنت و جماعت کی نمائندہ ہے۔ ان کے عقائد قرآن مجید اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے واضح (ثابت) ہیں۔ ان کے عقائد کی بنیاد توحید باری تعالیٰ اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کی نبوت پر کامل ایمان، تمام نبیوں اور رسولوں پر یقین، فرشتوں پر،عالَم برزخ پر،آخرت پر، جنت اور دوزخ پر، حیات بعد از موت پر، تقدیر من جانب اللہ پراور عالَم امر اور عالَم خلق پر ہے۔ وہ ان تمام ضروریات دین اور بنیادی عقائد پر ایمان رکھتے ہیں جن پر شروع سے اہل اسلام، اہل سنت و جماعت کا اجماع چلا آرہا ہے۔ فقہی لحاظ سے وہ چاروں اماموں کے ماننے والوں کو اہل سنت وجماعت ہی سمجھتے ہیں۔ وہ ائمہ اربعہ امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمۃ اللہ علیہ، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے باہمی علمی تحقیقی اجتہادی اختلاف کو باعث برکت اور رحمت سمجھتے ہیں اور چاروں مذاہب حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی کے ماننے والے راسخ العقیدہ لوگوں کو اہل سنت وجماعت سمجھتے ہیں چاہے ان میں سے کوئی اشعری ہو یا ماتریدی مسلک کا قائل ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ تصوف کے چاروں سلسلوں کے تمام بزرگوں کا احترام کرتے ہیں اور ان کے معتقد ہیں۔ صدیوں سےاہل سنت وجماعت لوگ قادری ، چشتی ، سہروردی یا نقشبندی سلسلوں سے وابستہ رہے ہیں اور ان سلسلوں میں اپنے پیروں کے ہاتھ پر بیعت کرتے رہے ہیں اب بیسویں صدی کے اختتام سے منہ زور میڈیا کے بل بوتے پر ان سب سلاسل کو بریلوی مکتبہ فکر کی شاخیں بتایا جا رہا ہے۔ شاید مغربی میڈیا اور اس کے پروردہ لوگ ہندو پاک سے باہر دنیائے اسلام کو کوئی غلط تاثر دینا چاہتے ہیں اور اہلسنت والجماعت کے نام پر چھوٹی چھوٹی فرقہ ورانہ دہشت گرد جماعتیں بنا کر فتنہ پھیلانا چاہتے ہیں افریقہ کے مسلم ممالک بھی اس قسم کی سازشوں کی زد میں ہیں جیسا کہ صومالیہ وغیرہ۔مسلمان ہمیشہ سے اپنے نبی پاک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم سے بے پناہ محبت کرتے آئے ہیں اور آج اکیسویں صدی کی دوسری دہائی تک یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے، سن 2012 ء میں جب عالم مغرب خصوصاً امریکی انتظامیہ کی درپردہ حمایت میں ایک گستاخانہ فلم منظر عام پر آئی تو ملک مصر سے شروع ہونے والا احتجاج پوری دنیا میں پھیل گیا خصوصاً مسلم ممالک نے اس کا شدت سے رد کیا۔ پاکستان چالیس سے زائد اہل سنت وجماعت بریلوی تحریکوں کے ایک اتحاد نے ایک ہی وقت میں فلم کے خلاف احتجاج کیا اور اس فلم کی شدید مذمت کی۔ اسی جذبہ حب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تحت اہل سنت بریلوی کثرت سے درود پاک پڑھتے ہیں، ان کی ایک پہچان الصلوٰۃ والسلام علیک یارسول اللہ وعلیٰ آلک واصحابک یا حبیب اللہ پڑھنا ہے اپنے محبوب نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں وہ کسی قسم کے نازیبا الفاظ سننے یا کہنے کے قائل نہیں ہیں اس معاملے میں وہ انتہائی حساس پائے گئے ہیں ان کے عقیدہ کے مطابق اللہ عزوجل نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے پہلے اپنے نور سے پیدا فرمایا اس کے لیے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی ایک مستند حدیث کا علمی حوالہ بھی دیتے ہیں۔ وہ اپنے نبی پاک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر لحاظ سے آخری نبی اور آخری رسول مانتے ہیں وہ عیسیٰ علیہ السلام کے ایک امتی کے طور پر لوٹ آنے پر ایمان رکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک انبیاء کرام علیھم السلام کی ارواح ظاہری موت کے بعد پہلے سے برتر مقام پر ہیں اور وہ ان کوعام لوگوں سے افضل مانتے ہوئے زندہ سمجھتے ہیں ان کے نزدیک ان مقدس ہستیوں کو اللہ تعالیٰ نے غیب کا علم عطا فرمایا ہوا ہے اور وہ نزدیک و دور سے دیکھنے کی طاقت رکھتے ہیں اہل سنت وجماعت بریلوی کے نزدیک اللہ عزوجل نے انبیاء کرام علیھم السلام کو بہت سے اختیارات دے رکھے ہیں جیسے عیسیٰ علیہ السلام کا مردوں کو زندہ کر دینا وغیرہ۔اہل سنت وجماعت بریلوی اپنے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کی سالگرہ بارہ ربیع الاول کے دن کو عید میلاد النبی کے عوامی جشن کے طور پر مناتے ہیں۔ وہ اللہ کے نیک بندوں کی تعظیم کرتے ہیں اولیاء اللہ کے مزارات پر حاضری دیتے ہیں ان کے لیے ایصال ثواب کرنے کو جائز سمجھتے ہیں اور ان کے اعلیٰ مرتبے کے قائل ہیں ان کے نزدیک اللہ عزو جل جسے اپنا محبوب بنالے اسے دین اسلام کا خادم بنا دیتا ہے۔ وہ لوگ اللہ کی عبادت کرتے ہیں اللہ کے لیے قربانی کرتے ہیں اللہ کے لیے جیتے ہیں اور اللہ کے لیے ہی مرتے ہیں ایسے لوگ جب یہ کہہ دیتے ہیں کہ ہمارا رب اللہ ہے تو پھر اس پر قائم بھی رہ رہے ہیں ان پر اللہ کی طرف سے فرشتے اترتے ہیں ان کے لیے نہ دنیا میں کوئی ڈر ہے اور نہ آخرت میں وہ غمگین ہوگے۔ اور ان کے لیے اللہ کے ہاں ایک بہترین مقام جنت ہے جس کا ان کے لیے وعدہ ہے۔ اس دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں اللہ عز وجل ان کا دوست ہے۔ اور ان کے لیے آخرت میں جو مانگیں اس کا ان کے رب کی طرف سے وعدہ ہے۔ چونکہ وہ اللہ کے دوست اور اللہ ان کا دوست ہے لہذا ان کے نیک کاموں کا صلہ انہیں ظاہری زندگی ختم ہو جانے کے بعد ملتا ہے۔ کیونکہ اللہ نے ان کے ساتھ اپنی دوستی کا وعدہ دونوں جہانوں میں فرمایا ہے۔ انہیں انبیاء کرام علیھم السلام، صدیقین، شہیدوں اور صالحین کا ساتھ ملے گا جن پر اللہ نے فضل کیا اور یہ اللہ کا فضل ہی تو ہے کہ نیک لوگ دنیا و آخرت دونوں میں کامیاب اور کامران ہیں۔ جب ایسے لوگوں کے لیے اللہ کے انعامات اس قدر ہیں تو وہ بخشش و مغفرت کے بھی ضرور حق دار ہیں۔ اہل سنت وجماعت ان بزرگوں سے دعا کرانے کے قائل ہیں اور ظاہری زندگی ختم ہو جانے کے بعد ان کی عظمت کے قائل ہیں اور ان کے توسل سے اللہ تعالیٰ سے مانگنے کو جائز سمجھتے ہیں بلکہ ان کے نزدیک اگر اللہ چاہے تو یہ مقدس ہستیاں مدد بھی فرما سکتی ہیں ان کے نزدیک اپنے آقا کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، آپ کے اصحاب، اہل بیت کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین اور نیک مسلمانوں کےمزارات پر حاضری دینا کتاب و سنت کی تعلیمات کےعین مطابق ہے۔ لیکن وہ ان میں سے کسی بھی مزار، دربار یا قبر کی عبادت کفرسمجھتے ہیں اور ان کو تعظیمی سجدہ کرنا حرام جانتے ہیں۔ اہل سنت بریلوی جماعت کے نزدیک مرد حضرات کا ایک مٹھی تک داڑھی رکھنا ضروری ہے اس کا تارک گنہگار ہے۔ امام اہل سنت مولانا احمد رضا خان قادری محدث بریلوی علیہ الرحمۃ الرحمان نے 1904 میں جامعہ منظر اسلام بریلی شریف قائم کیاان کے علمی کام کا پاکستان میں بہت چرچا ہے۔ ان کی تحریک پاکستان کے قیام عمل میں آنے سے قبل کام کررہی تھی بنیادی طور پر یہ تحریک جنوبی ایشیا میں مسلمانوں کے بنیادی عقائد کے دفاع کے لئے قائم کی گئی تھی عقائد کے دفاع کے لئےاہل سنت بریلوی جماعت نے مختلف باطل مکاتب فکر اور تحریکوں کا تعاقب کیا اور ان کے ڈھول کا پول کھول دیا۔ دیگر تحریکوں کے برعکس خطے میں سب سے زیادہ اہل سنت بریلوی جماعت نے گاندھی کاساتھ نہ دیا اور اس ہندو لیڈر کی سربراہی میں تحریک خلافت، تحریک ترک موالات اور تحریک ہجرت کا مقاطعہ (بائیکاٹ) کیا وہ تمام ہر قسم کے کافرو مشرک کو مسلمانوں کا دشمن سمجھتے رہے۔ اہل سنت بریلوی جماعت تحریک آزادي کے بنیادی حامی تھے اس کے قیام کے لیے انہوں نے بہت جدوجہد کی۔

Gems of Wisdom By Ala Hazrat

Gems of Wisdom by Aala Hazrat Imam Raza
RadiAllahu Anh
  That person who affords the creation of Allah SubHanuhu wa Ta'ala their dues then he would also afford his dues to Almighty Allah SubHanuhu wa Ta'ala.
  The person who listens to backbiting is an accomplice to backbiting and the one who does evil deeds, he definitely is negligent.
  If only the people of this World had complete knowledge then today’s business and its present condition would be deranged.
  Sometimes everything goes so well and sometimes even with all the assistance the job still remains incomplete.
  Sometimes grave damage is caused by good news and sometimes good comes out of a bad venture.
  O! World –whoever is not aware of your treachery and is not disgusted with your acquaintance then though he many be alive yet he is dead and should be mourned.
  The extreme of modesty is when a person is modest of himself also.
  How can anybody bring a person back on the correct track when that person chooses to remain on the wrong track.
  An idiot’s wisdom is behind while an intelligent persons tongue is behind his wisdom.
  The beauty of a gift is this that whatever has to be given should be given quickly and it should not be kept waiting in anticipation.
  Women, Intelligent and lesson seeking people can be lectured to, but the immature would gain no benefit from it.
  That person who does contrary to the truth, then Almighty Allah SubHanuhu wa Ta'ala himself opposes and confronts him.
  That person who resides close to his enemy, then his body wastes away would sorrow and he becomes lean and thin.
  That person who always remains unhappy, then that which makes him happy or gives him pleasure would never be known.
  That person, who is not in the habit of being civil, is set right by maltreatment.
  That person damages his faculty of reason, who finds pleasure in everything he does.
  That person who adopts certain principles in any big venture than those principles become established in his life.
  Whosoever is ruled by his tongue, then he should be made aware of his destruction and his decision of death is made by it.
  That person who does not have high hopes, his actions are true.
  That person who when praised is thankful to those that praise him, in reality that is not thankfulness but a joke.
  That person, who quickly answers a question with no consideration, is generally blinded to the consequences his actions would lead to.
  That person who is careless though he has the knowledge of becoming wealthy, soon realises he can never attain that wealth.
  That person, who cannot keep his own secret, would certainly not be able to keep the secret of others.
  That person, who has ill thoughts, would always look suspiciously at others.
  That person who does not respect himself, then he should not expect to be respected by others.
  That person who cannot make peace with himself can never bring about peace between others.
  That person, who does not benefit from his own alertness, cannot benefit from the vigilance of his protectors.
  That person who is not grateful to the assistance of someone, then he should not expect to receive assistance form that source again.
  That person who cannot see the damage caused by evil soon finds himself caught in that same evil.
  That person who does not see the advantages of being a good Samaritan, then he will not possess the strength to do a person a good favour.
  It is a great misfortune upon the virtuous and honourable people that they have to, for the sake of hospitality and courtesy behave towards the evil and wicked people.
  To do good towards the creation of Almighty Allah SubHanuhu wa Ta'ala in that manner that really portrays one as really grateful to the Supreme Creator SubHanuhu wa Ta'ala. One cannot find a better method.
  That person who is free from sin becomes valiant and courageous, and that person who has any defect becomes a very big coward.
  That person who regards tomorrow as the day he would die, experiences no troubles when death really approaches him.
  That work or action that is not permissible in public, most likely is not permissible in private.
  To follow the commands of Allah SubHanuhu wa Ta'ala cannot be obtained except by compulsion.
  The essence of knowledge is to know while the essence of doing a person a favour is based on not reminding that person of that favour.
  That person whose knowledge exceeds his common sense becomes a nuisance to him.
  The friendship of a fickle person becomes distant over a small and distant word.
  That difficulty that possesses the hope of reward is better than that gift for which one is ungrateful.
  To distance yourself from that Salaah (prayer) with total confidence is better than to complete the Salaah under suspicion.
  Keep your distance from mischievous women and also be wary of gentlemen.
  To give advice in front of people is one form of censure.
  The friendship of the ignorant is inconsistent and changeable.
  That poor relative that meets his fellow relatives is better than that wealthy person who severs all ties with his relatives.
  The soundness of religion lies in the destruction of material values.
  Until you are totally aware of a person’s nature do not put your trust in his nobility.
  Do not look down upon anyone until you have spoken to him.
  Though one finds no joy in it, one should continue doing good deeds.
  Do not think ill of that which you have no knowledge of. It may be possible that their is still information outstanding which had not reached you. If you cannot find a deserving person worthy of friendship do not befriend an unworthy person.
  A person of knowledge, though he may be in a despicable condition, does not think of him in a disgraceful manner. Though a fool may be in bad company do no think bad of him.
  Do not show pleasure in somebody’s downfall, for you have no knowledge of what the future holds in store for you.
  Do not be trustworthy of enemies’ good manners, for no matter how much one may use fire to heat water, yet it is enough to douse it.
  There is no generosity surrounding the circumstances of poverty, likewise there is no relationship of greed with good health.
  Difficulties are confronted with patience, and the protection of Allah ’s SubHanuhu wa Ta'ala gifts is being grateful.
  There is no greater truth than death and there is no greater lie than to raise ones hopes.
  There are very few that have not caused harm to themselves by rush and hasty decisions, likewise it is a strange occurrence when a patient person is not successful.
  Little knowledge is the consequence of animosity in good deeds and sound knowledge is dependent on sound knowledge.
  When one takes what rightfully belongs to him, he should not be enraged although he should safeguard himself from misappropriating somebody else’s rights or belonging.
  When a road is open towards peace from freedom then it is foolish to stay in fear and bondage.
  Just as it is unpleasant to say something ignorant, likewise there is no benefit in staying silent knowing the truth.
  An honest man though the generosity of truth reaches such a status that can never be attained by a lying untruthful deceitful and cunning person.
  A person’s intelligence is ascertained by the charm of eloquence of his speech while his respectability is ascertained by the resolve of his actions.
  Seek refuge in Allah SubHanuhu wa Ta'ala from the mischief of wealth and opulence for it is such a long mischief, that it becomes too late when one realises it.
  Safeguard yourself from the company of immorality and sin for vices very quickly become habits.
  The people have turned their attention away from obtaining ilm (knowledge – in this case religious knowledge) because they see an Alim (religious leader – priest) who does not practise on his education.
  To bestow gifts timorously, without delaying is the habit of the honourable, while to seek vengeance hastily is not amongst the characteristics of the respectable.
  Even if the Almighty creator Allah SubHanuhu wa Ta'ala had not made unlawful things unlawful, the wise and intelligent would still refrain from the unlawful.
  Though the World may be in the possession of a person yet he never attains it.
  Speech presents itself with a few evils. The speaker requires time and opportunity.
  There is offering of Alms (sadqa) for every facet in life, and the charity of reasoning, Intelligent and wisdom is to exercise tolerance and forbearance towards the ignorant and foolish.
  That person has caused you a great harm, who had praised you and shown you respect through you are deserving of it.
  Whosoever has shown you dishonour and contempt and if you are wise then verily that person had done you a great favour.
  It is better to follow in a good deed that to lead in a bad deed.
  Your nafs will do that which you have befriended it to.
  That person for whom you painstakingly go out of your way to be hospitable and entertaining cannot really be your brother.
  One can never know and understand the feeling of good fortune until he tastes misfortune.
  Do not exceed the boundaries of bravery nor entirely surrender yourself by giving up hope.
  There is no fault or shame in journey. The sinful thing is that a man is subjected to obligation in his own native country.
  The person who exceeds the boundaries of politeness towards you has in actuality done you a grave wrong.
  Make your peace with your creator so that the hereafter becomes peaceful for you, and live harmoniously with one another so that you do not destroy the World.
  Tolerance and placidity is not that, when one is need and overpowered the he remains silent and when he becomes powerful then he seeks vengeance.
  The sign that a servant is showing pleasure towards his creator is when he shows pleasure in whatever fate decrees to him.
  For the seeing there is a lesson in every glance and an experience in every advise.
  The best deed that shows gratefulness to Almighty Allah SubHanuhu wa Ta'ala gifts is to share it with others.
  A sin committed deliberately is not deserving of forgiveness.
  To lessen gratefulness disinclines a benefactor to assist.
  If one does not know the answer to a question it is better to be honest and say you do not know, for by saying so one actually has half the knowledge to the question, but do not think great of the fact that you do not know.
  Kill the desires of the heart with education and knowledge and kill your anger with tolerance and forbearance.
  How can a person be happy with his age when every second added to it shortens it? Also how can a person be proud of the wellbeing of his body when it is a lifelong sign of wretchedness?
  Very few wishes are fulfilled and misfortunes are sometimes turned to fortunes.
  Sometimes you travel weapon less and sometimes dreams come true.
  If the fear of death is close to your heart then the pride of false hopes will never come near or overpower it.
  To agree on every word is a sign of a hypocrite while to disagree on every word is open signs of hostility and animosity.
  Silence is an adornment of beauty for an 'Alim and a veil against ignorance for the ignorant.
  Save yourself from the betrayal of a friend and the overpowering of an enemy.
  Do not put your trust in fake promises for it is an investment of the foolish.
  Disobedience and debauchery are the reasons that bring down punishment and the wrath of Allah SubHanuhu wa Ta'ala, so steer clear of it.
  Shorten that speech which you seem to draw pleasure from, for this is better on your behalf and is a sign of excellence and marvel.
  Do not be ensnared by any talk of a mischievous person and do not isolate yourself from an honourable person because of his sternness or a minor fault.
  It is hard to fathom why we require that which is always in the hands of a vile person.
  The person who has the power to do the best deeds is that person who has complete control over his temper.
  The greatest lecture is when a person looks at a graveyard and gains a lesson from it.
  The greatest sin is that sin which looks minor in the eyes of the sinful.
  The rights exercised by mercy rightfully belong to three people: a) An 'Alim on whom the ignorant rule. b) The honourable and respectable person who is ruled by a vile and wicked ruler. c) That pious person who is subdued by an evil person.
  The rarities of the World are truth and trustworthiness while falsehood and untrustworthiness is in abundance.
  The best speech is that speech that is backed by sincere action.
  The greatest difficulties are on that person whose expectations are extremely high, benevolence high and abilities low.
  The most foolish person is he who thinks ill of the meanness of another yet finds no qualms in emulating that person.
  We are very thankful to the gifts bestowed by Allah SubHanuhu wa Ta'ala such that to commit an act of sin arduous to the people.
  Very the dead are in the earth’s stomach and the sick are on its back (i.e. The dead are buried while the living are embraced with difficulties)
  Verily poverty is demeaning to the soul, proper for the mind, and increases sorrow and anxiety.
  Verily big ideas cross the mind from time to time yet sound wisdom keeps it in check.
  Verily the best example in explaining the difference between this World and the hereafter is likened to a man with 2 wives, when he pleases one the other gets upset.
  Verily this World is a house full of difficulties. Whoever indulges quickly in it, and then difficulties afflict his life. Whoever is granted a little respite then he thinks of securing a livelihood or he is caught up in the separation of friends and relatives, close and dear.
  When wisdom is complete then speech becomes less.
  When you go away very far with great expectations then remind yourself with the sudden arrival of death.
  When speech becomes less, then man usually speaks the truth.
  When fear of Allah SubHanuhu wa Ta'ala enters your heart then hurry towards him and seek repentance, and if the fear of any creation enters your heart then run away from him.
  Everything of note gradually becomes less and every happiness becomes insignificant one day.
  Whenever Almighty Allah SubHanuhu wa Ta'ala loves a certain servant of his then he bestows upon him that guidance to take a lesson from the periods most dangerous and admonitory events.
  A respectable 'Alim adopts humility, but when a wicked person adopts knowledge then he commits bad deeds.
  When a person has a good character his speech becomes delicate and exquisite.
  If you cannot repay a favour, then at least show gratitude by thanking the person.
  When an ascetic (Zahid) runs away from the people then seek him out, but when an ascetic seeks the company of people then stay away from him.
  When you cannot fathom the wisdom of Almighty Allah SubHanuhu wa Ta'ala in certain things then do not add your fancy notions to it.
  When you cannot give the weak and oppressed anything then at least show mercy and kindness towards them.
  When you fear a command then enroll yourself into its obedience for the longer you fear the command the more difficult it becomes to execute or obey.
  When you identify certain good character traits that are common between you and another person then expect to find those qualities presenting itself.
  Those obligations which are compulsory upon you to fulfill, the onus to fulfill its obligations rests solely on you, and its obligations should not be shifted to others.
  The rewards bestowed upon a good deed are measured by the amount of effort that was put into it.
  That person who has not shown gratitude and thankfulness towards his fellow man, then he cannot be a person who would also show thankfulness to Almighty Allah SubHanuhu wa Ta'ala.
  The advice of the old is better than the strength and power of the young.
  The beauty of a persons face is truly an excellent gift of Almighty Allah SubHanuhu wa Ta'ala upon us.
  To become totally hopeless in attaining something is better than facing dishonour and disgrace in obtaining it.
  Flattering the praise is amongst the greater performances of the Devil.
  The best speech and conversation is that, which does not cause grief and burden upon the listener.
  Speak to a person according to his intellect.
  The wealth of the wicked is a burden upon all creation.
  The many conditions surrounding the kindness shown to ones siblings are such that it is imperative that you should never break those ties.
  Ilm (education) is that treasure whose treasury remains always stocked and overflowing and its necessitude of fortune does not cause it any damage.
  Wisdom is that tree that is planted in the heart, grows in the mind and bears fruit on the tongue.
  The clear and apparent road is the road of truth and charity.
  If one overcomes his enemy then forgiving him is a way of showing gratitude to Almighty Allah SubHanuhu wa Ta'ala.
  Those who have supported falsehood then it is as if they have oppressed the truth.
  To outwardly put on a character of niceties and inwardly hold malice is bad for a person.
  The fire of conflict withers away the saplings of justice.
  Those who don’t protect freedom are soon imprisoned by slavery.
  The protectors of injustices against freedom become imprisoned with slavery.
  When wisdom becomes complete then speech is reduced.
  The counsel of the elderly is more extensive than the show of strength of the young.
  People leave out certain foodstuff for the fear of ill health but they never think of abstaining from sin for the fear of Allah SubHanuhu wa Ta'ala.
  Contentment is the biggest wealth.
  The person who does not learn a lesson from his experiences soon discovers his faculty of thought vanishes.
  The tolerance shown on the talks of the ignorant is its Zakah.
  The greatest wealth is intelligence and the greatest poverty is stupidity in the World.
  The greatest breach of trust in the World is treachery against a nation.
  There is no greater honour and dignity than absistence.
  Impatience does not change the decisions of Almighty Allah SubHanuhu wa Ta'ala, but the reward for patience is however forfeited.
  'Alim is that person who acts upon what he preaches.
  Religion (Islam) is a treasure and 'Ilm (knowledge) is the route to it.
Knowledge is greater than wealth, because you take care and protect your wealth, while knowledge takes care and protects you. Knowledge is governing while wealth is governed. By dispersing it, wealth is lessened while knowledge is increased.