Kaundon Ki Fatiha Mamoolat e Ahle Sunnat se hai

کونڈوں کی فاتحہ معمولات اہل سنت سے ہے 
ازقلم: میر سید وسیم اشرف بدایونی غفر لہ العلی
حضور غوث اعظم کی گیارھویں اورحضرت خواجہ غریب نواز کی چھٹی شریف کی مثل کونڈوں کی فاتحہ بھی ایصالِ ثواب سے عبارت ہے جو گھیر پوری وغیرہ پر دلائی جاتی ہے حضرت ائمۂ اہلِ بیت علیہم السلام سے محبت ومودت رکھنے والے عقیدت کیش سنی غلام، ہمیشہ پابندی کے ساتھ اس فاتحہ کا  اہتمام کرتے آئے ہیں مذکورہ فاتحہ کو سر براہِ اہلِ اسلام، شہزادۂ رسول، سر خیلِ اولیاءِ دہر، سیدنا امام جعفر الصادق علیہ السلام سے نسبت خاصہ حاصل ہے اہل سنت وجماعت کے یہاں دیگر نذور کی مثل حضرت امام جعفر الصادق سلام اللہ علیہ کی نذر کو بھی حلِ مشکلات اور حاجت براری کے لئے تیر بہدف تصور کیا جاتا ہے اہلِ سنن کے یہاں ایک زمانے سے یہ معمول رہا ہے کہ جسے  بھی کوئی لاینحل مشکل درپیش آتی ہے تو وہ حضرت امام جعفر رضی اللہ عنہ کے کونڈے بھرنے کی نذر مانتا ہے اللہ عزوجل فرزندِ مشکل کشا کے توسل سے ایسا فضل فرماتا ہے کہ بڑی سے بڑی مشکل آناً فاناً حل ہوجاتی ہے اور مرادیں برآتی ہیں پھر وہ بطور شکر گذاری تاحیات کونڈے بھرنے کو اپنے معمول میں شامل کرلیتا ہے۔

 ۲۲/ رجب کےکونڈے معمولات اہل سنت سے ہیں
 حضرت سیدنا امام جعفر الصادق علیہ السلام کا یوم شہادت اگرچہ اکثر روایات کے مطابق ۱۵/ رجب المرجب ہے تاہم سادات کرام اور اہل سنت کے یہاں کونڈوں کی فاتحہ ۲۲/ رجب کو ہی دلائی جاتی ہے اگر ہم اب سے پندرہ سال پیشتر کی تاریخ کا بغائر مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں  اس فاتحہ کی تاریخ کے سلسلے میں اہل سنت یہاں کوئی اختلاف نظر نہیں آتا تمام موریخین کے یہاں کونڈوں کی فاتحہ کے لئے ۲۲/ رجب متفق علیہ تاریخ ملتی ہےچنانچہ محدث اعظم پاکستان حضرت مولانا سردار احمد لائلپوری رحمہ اللہ رقم طراز ہیں کہ : سیدنا امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کی فاتحہ کے لئے ۲۲/ رجب کو کونڈے بھی شرعاً جائزوباعث خیروبرکت ہیں۔ (کونڈوں کی فضیلت)
           نیز حضرت مفتی ابوالبرکات سید احمد قادری رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں کہ :
۲۲/رجب المرجب کو حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کی نیاز کے لئے کونڈے بھرنا بھی "معمولات اہل سنت سے ہے "۔
               علاوہ ازیں بر صغیر  کے مشہور سنی فاضل حکیم الامۃ حضرت علامہ مفتی احمد یار خاں اشرفی  بدایونی رحمہ اللہ ارقام فرماتے ہیں کہ: رجب شریف کے مہینے کی ۲۲/ تاریخ کو یوپی میں کونڈے ہوتے ہیں۔"
               سر دست ہم ان تین  حوالوں پرہی اکتفاء کرتے ہیں کیوں کہ یہ تینوں بزرگ شخصیات ملت سُنیہ میں سند کی حیثیت رکھتی ہیں ان کا اعتماد اور ثقاہت مسلم علیہ ہے مذکورہ بالا ہرسہ شخصیات کی تصریح کے مطابق کونڈوں کی فاتحہ ۲۲/ رجب کو ہی ہوتی ہے اور حضرت مفتی ابوالبرکات سید احمد قادری رحمہ اللہ نے تو ۲۲ / رجب کے کونڈوں کا اہل سنت کے معمولات سے ہونا تحریر فرما کر گویا خارجیت  کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔

۲۲/ رجب کی تخصیص کی وجہ
     جیساکہ بالائی سطور میں صراحت کی جاچکی ہے کہ ۲۲/ رجب المرجب آپ کی تاریخ ولادت  ہے نہ ہی تاریخ شہادت مگر اس کے باوجود آپ کی فاتحہ کا اہتمام ۲۲ / رجب المرجب کو ہی کیا جاتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ یہی وہ مبارک ومسعود تاریخ ہے جس میں اللہ عزشانہ نے آپ علہ السلام کو منصب غوثیت کبریٰ پر فائز فرماکراپنا انعام فرمایا تھا جس کے شکر میں آپ رضی اللہ عنہ  نے دودھ چاول (کھیر ) پر ختم دلایا تھا پس  آپ علیہ السلام کی اولاد وامجاداور محبین وعقیدت منداسی فاتحہ کو آپ علیہ السلام  کی جانب منسوب کرکے تا حال  حرزجاں بنائے ہوئے ہیں۔
  کتمان حق کی ناکام کوشش
       آخر ۲۲/ رجب کو ہی کونڈے کیوں بھرے جاتے ہیں ہم  اس کی توجیہ   اوپر بیان کرچکے ہیں مگر برا ہوخارجیت کے  ایجنٹوں کا جواصل وجہ یعنی ۲۲/ رجب کی تخیص کو پوشیدہ رکھ کر تاریخ ولادت اور تاریخ شہادت کے حوالے سے باطل پروپیگنڈہ کرنے میں مصروف ہیں دراصل  آج یہ ساراکاساراجھوٹا  واویلا کتمان حق  کے مذموم جذبہ کے تحت کیا جارہا ہے تاکہ اصل وجہ تک عوامی ذہن کی رسائی ناممکن بنائی جا سکے کیوں کی عوام پر جب یہ حقیقت واضح ہوجائے گی کہ ۲۲/ رجب کو حضرت امام جعفر صادق سلام اللہ علیہ کی فاتحہ آپ علیہ اسلام کی تاریخ ولادت  یا تاریخ شہادت کی مناسبت سے نہیں بلکہ حصول غوثیت کبریٰ کے شکر کے طور پر کی جاتی ہے تو خارجیانہ سازشوں کی ساری قلعی کھل جائےگی لہذا اصل وجہ کو مخفی رکھتے ہوئے تاریخ ولادت اور تاریخ شہادت کا بے سرا راگ الاپ کر عوام اہل سنت کو دانستہ مغالطہ میں مبتلا کرنے کوشش کی جاتی ہے۔
کونڈوں کی فاتحہ تاریخ کے آئینے میں
       مولوی یاسین اختر انصاری مصباحی نے اپنے ایک ورقی منہ کالے (مقالے) میں ۲۲/ رجب کی فاتحہ کی اہمیت کم کرنے کے لئے یہ تاثر دینے کوشش کی ہے کہ یہ کوئی قدیم فاتحہ نہیں جو اہل سنت کے یہاں زمانوں سے چلی آرہی ہو بلکہ یہ تو معاذ اللہ  ایک نوایجاد رافضی رسم ہے جس کی عمر تقریباً ڈیڑھ صدی ہے جبکہ حقیقت واقعہ یہ ہے کہ اس فاتحہ کی سند خود سربراہِ اہلِ اسلام سیدنا امام جعفر الصادق علیہ السلام تک پہنچتی ہے پہلے پہل آپ علہ السلام نے ہی حصول منصب غوثیت کبریٰ  پر بطورِ شکرِ نعمت کھیر  پر یہ فاتحہ کی تھی ازاں بعد آپ کی اولا وامجاد اور عقیدت مند اس فاتحہ کو آپ کی ذات شریف سے منسوب کرکے کراتے رہے اور آج تک حرزجاں بنائے ہوئے ہیں ۔
    مگر افسوس کہ انصاری صاحب  یہاں بھی حقائق سے آنکھیں موند کر وہابی سلفی راگ الاپنے میں لگے ہیں  کیوں کہ مولوی صاحب کے ایک  آئیڈیل سلفی مفتی نے کونڈوں کی فاتحہ کو 1904 کی ایجاد بتایا ہے ۔ملاحظہ ہو :

 رجب کے کونڈوں پر ایک نظر
                آخر انصاری صاحب کو اپنے مربیوں کے سُر میں سُر تو ملانا ہی تھا ورنہ معاشی تنگی سے دوچار ہونے کی نوبت آسکتی تھی۔

صف اہل سنت میں انتشار اور تفرقہ اندازی کی سازش
     معمولاتِ  اہلِ سنت میں نقب لگانے کے اس مذموم عمل کو  اب تو صف اہلِ سنت کے درمیان تفرقہ سازی کی سازش سے تعبیر کرنا یقیناً بے جا نہ ہوگا  کیوں کہ جو کام جمیع اہلِ سنن ابتداء ہی سے پابندی کے ساتھ ۲۲/ رجب المرجب کو ہی کرتےکراتے  چلےآئے ہیں جس کی بناء روز اول ہی سے، بغرض ایصال ثواب ،نیک نیتی کے ساتھ اہل بیت اطہار سلام اللہ علیھم اجمین کی عقیدت اور محبت پر رکھی گئی ہو، اسے بلاتامل، اہلِ تشیع اور روافض کی طرف  منسوب کردینا سنیت کی ترویج و اشاعت کے بجائے اسے تباہی وبربادی کے عمیق غار میں ڈھکیلنے والا عمل ہے اس سے سنی اتحاد کو جس قدر خسارہ ہوگا اس کا بآسانی  اندازہ بھی نہیں لگایا جاسکتا مگر یہ بات   مولوی یاسین اختر انصاری صاحب  کو کون  سمجھائے جو سنی اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کی قسم کھائے بیٹھے ہیں جو معمولات اہل سنت کے خلاف نت نئے فتنے ایجاد کرتے رہتے ہیں اوربزعم خویش  اس کار خیر  کے لئے اگر انھیں وہابی مکتبۂ فکرسے بھی کچھ یاسارا کا سارا مواد مستعار لینا پڑے تو اس سے بھی گریز نہیں کرتے۔
 یہیں دیکھ لیجئے کہ ہمارے اہلِ علم ودانش ، روشن ضمیر اور معاملہ فہم  بزرگوں پر کبھی  یہ راز  نہ کھل سکا کہ کونڈوں کی فاتحہ روافض علیھم ماعلیھم کی ایجادواختراع ہے مگر مولوی یاسین اختر انصاری جیسے قلیل العلم والعقل مجسمے پر   راتوں رات کسی چمتکاری فارمولے کی مثل یہ عقدہ  منکشف ہوگیا کہ ۲۲ /رجب کے کونڈے روافض کی ایجاد ہیں۔

سلفیت کا ایجنٹ مولوی
     محترم قارئین کرام !
یقناً آپ کے لئے یہ امر  باعثِ حیرت ہوگا کہ  مولوی یاسین اختر  انصاری صاحب کو۲۲/ رجب کے کونڈوں کے خلاف اہل سنت کی معبر کتب سے جب کوئی مستند اور قابل اعتماد دلیل نہ مل سکی تو وہ معمولاتِ اہل سنت پر شب خون مارنے کے لئے سیدھے سلفی توپ خانہ جاپہنچے اوروہاں سے مقدور بھر تلاش وتجسس کے بعد اپنے گمان کے مطابق نہایت زور دار اور مہلک بم اٹھا لائے پھر نہایت چابک دستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے   شارع عام پر رکھ کر پھوڑ مارا کہ.......
"۲۲/ رجب کے کونڈے کوئی اہل سنن کا معمول نہیں بلکہ یہ روافض کی ایجاد کردہ رسم نو ہے جو انھوں نے حضرت امیر معاویہ کی وفات کی خوشی منانے کے لئے ایجاد کی ہے۔ "
واہ رے واہ مولوی صاحب واہ !
کیا کہنے آپ کی اس فنکاری کے!
آخر یہاں آپ نے اپنے جُل دینے کے موروثی وآبائی  ہتھکنڈے دکھا ہی دیے جس کمال فن کے ساتھ آپ نے معمولِ اہلِ سنت پر شب خون مارکراسے رفض کا چولا پہنانے کا فریضہ ادا کیا ہے  وہ صرف اور صرف آپ ہی کا حصہ ہے ۔
یہاں پہنچنے کے بعد اگر میں یہ کہوں تو شاید کوئی  ناگوارخاطر  امر نہ ہوگا کہ "اہل سنت والجاعت پر مشابہتِ روافض کا بہتانِ عظیم باندھ کر مولوی یاسین اختر انصاری صاحب   واقعۃً  خوارج کی نمک  خواری کا  بارِگراں اپنے کاندھوں سے اتار کر کسی حد تک سبکدوش ہوچکے ہیں " ۔

قارئین کرام !
آئیے سردست  ہم  آپ کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ مولوی یاسین اختر انصاری جو بولی بول رہے ہیں وہ ان کی اپنی نہیں بلکہ وہابیت سے مستعار لی ہوئی ہے چانچہ  ثبوت  ملاحظہ فرمائیے
    مولانا ابوجابر عبداللہ دامانوی مفتئ جمعیت اہل حدیث لکھتے ہیں کہ : دراصل شیعوں نے معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کی خوشی میں اس دن عید منانے اور ان کی وفات پر خوشی کا اظہار کرنے لے لئے اس رسم کو ایجاد کیا "۔ (مقدمہ ،رجب کےکونڈوں پر ایک نظر)

خارجی فکر کی اشاعت بعنوان تحفظِ ناموسِ صحابہ
آج رسومِ  ماہِ محرم علم وتعزیہ داری ہو  یا حضرت علی علیہ السلام کے مولودِ کعبہ ہونے مسئلہ ہو  یا ائمۂ اہلِ بیت کے اسماء کے ساتھ علیہ السلام لگانے کا مسئلہ ہو یاحضرت علی علیہ السلام کو مولائے کائنات کہنے کی بات ہو یا ۲۲/رجب کے کونڈوں کی بحث ہو۔
             الغرض جو امور بھی ائمۂ اہل بیت سلام اللہ علیھم اجمعین  سے منسوب ہیں  خوارج کی طرف سے انھیں کسی نہ کسی صورت ناجائز وحرام یا لغووباطل ٹھہرانے کی ہر ممکن کوشش بڑے زوروشور سے کی جارہی ہے افسوس کہ ہمارے بعض عاقبت نااندیش سنی بھی  یا سنی نما خوارج بھی  ان نا محمود  مساعی کی ترویج میں دانستہ یا نادانستہ ملوث ہوکر سنیت کے مضبوط حصار میں شگاف زنی کرنے والے خوارج کا بھرپور تعاون کرتے نظر آرہے ہیں مولاکریم مسلمان عالم کی ایسے بد بخت و بد اعتققاد افراد چنگل سے حفاظت فرمائے ۔آمین
        خوارج (جو درحقیقت منافقین ہی کی  ایک نام تبدیل کردہ جماعت ہے ) ہمیشہ یہ سازش رہی ہے کہ وہ کسی نہ کسی حیلے سے مسلمانوں کی صف میں داخل  ہوکر ان کے ہاتھوں سے  مغفرت کا مضبوط ترین ذریعہ یعنی "دامن اہل بیت "  چھڑادیں اور وہ اپنی اس  منصوبہ بند سازش کو عملی جامہ پہنانے کے لئے  صفِ اہل سنت میں حبِ صحابہ نعرے کے ساتھ بے دریغ درآتے ہیں چانچہ ۲۲/ رجب کے کونڈوں کو"  بغض معاویہ" سے تعبیر کرنے کا عمل بھی اسی سازش کی ایک کڑی سمجھنا چاہئے حالاں کہ حضرت امیر معاویہ کی تاریخ  وفات  بقول ابن کثیر علماء کی ایک جماعت کے نزدیک ا۵ / رجب ہی مسلم ہے علامہ ابن جوزی اور علامہ محمد بن جریر الطبری نے بھی اس تاریخ کا ذکر فرمایا ہے محمد بن جریر الطبری نے ایک قول یکم رجب کا بھی بیان فرمایا ہے مع ہٰذا سعد بن ابراہیم اور ہشام نے بھی یکم رجب کا ہی قول اختیار فرمایا ہے  جبکہ لیث کے بقول آپ کا وصال ۴/ رجب کو ہوا ،حضر ابن عبدالبر اور حضرت ابن حجر عسقلانی رحمھا اللہ  نے آپ کی تاریخ وصال ۲۵،یا ۲۶ رجب لکھی ہے اورابن اسحاق  نے ۲۱یا ۲۲/ رجب کا قول اپنایا ہے ابن جریرالطبری نے بھی اس میں موافقت فرمائی ہے۔ (بحوالہ البدایۃ والنہایہ، الاستیعاب اور تہذیب التہذیب )
        بقول ابن کثیر جب علماء کی ایک جماعت کے نزدیک آپ کی تاریخ وصال ۱۵/ رجب ہی ہے جس میں ابن جوزی اورابن عبدالبر نے موافقت فرمائی ہے تو اب ۱۵/ رجب کو کونڈے کرنے کے بعد بھی وہی قباحت باقی رہتی ہے جس کا مولوی یاسین اختر انصاری صاحب نے اپنے یک ورقہ منہ کالے میں ذکر فرمایا ہے یعنی" وصال امیر معاویہ پر اظہار خوشی "
    یہاں پہنچنے کے بعد ہر قاری کے ذہن میں یہ خدشہ ابھرنا فطری ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ حبِ صحابہ کا  نعرہ دے کر  روافض کےیہ " نمک خوار غلام"  کسی خفیہ سازش کے تحت  الٹا اہل سنت ہی کو رافضیت کے دلدل میں ڈھکیلنے کی کوشش کررہے ہوں۔

 مولوی یاسین اختر مصباحی سے ایک سوال 
     اچھا چلیے انصاری صاحب !  آپ کے کہنے سے ایک لمحہ کے لئے یہ تسلیم کہ۲۲/رجب کے کونڈوں کی تاریخ ایک سو پچاس سے زیادہ پرانی نہیں مگر ۲۲/ رجب ہی کو آپ امام جعفر صادق علیہ السلام کی فاتحہ کے عوض جس فاتحہ کا مشورہ دے رہے ہیں اس کی تاریخ کتنی قدیم ہے  کس کس تاریخ میں اور کس کس خانقاہ میں یہ فاتحہ ہوتی ہے ؟؟؟
توقع ہے  کہ آپ تاریخی شواہد کے ساتھ جواب قلم بند فرمائیں گے ۔

🖋