Gunahon se Aalooda MuAashra Tangdasti Ka Sabab

گناہوں سے آلودہ معاشرہ سبب تنگدستی ہے: عالمہ الفت جہاں امجدی






The First Translator of the Holy Quran From Arabic to Persian By Sultan Syed Makhdoom Ashraf Jahangir Simnani Kichhauchha Sharif

بزبان فارسی مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی قرآن پاک کے مترجم اول ہیں۔ آل رسول احمد 
لکھنؤ 17/ اکتوبر(پریس رلیز(
آل انڈیا علماء و مشائخ بورڈ و غوث العالم ایجوکیشن میموریل سوسائٹی کے تحت عرس مخدوم کچھوچھہ بمقام درگاہ امیر علی شاہ میں منعقد کیا گیا۔ پروگرام کا آغاز تلاوت کلام الہی سے کیا گیا بعدہ حمد ونعت و مناقب بھی پیش کئے گئے، پروگرام کو خطاب کرتے ہوئے آل رسول احمد (AIUMBلکھنؤ)  نے کہا کہ علوم قرآنیہ ہردور میں علمائے محققین کی توجہ کا مرکز رہے ہیں اور تفسیر قرآن کی شکل میں پوری دنیا کے اندر عظیم الشان علمی وادبی ذخیرہ موجود ہے مگر ترجمہ قرآن کے حوالے سے اب تک کہ تحقیق کے مطابق اس کی اولیت کا سہرا فارسی زبان میں سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی قد س سرہ کے سر بندھتا ہے۔واضح رہے کہ یہ ترجمۂ قرآن کریم سید اشرف جہانگیر سمنانی نے اپنے دور سلطنت۷۲۲  ہجری میں بدست خود تحریر فرمایا۔ترجمہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کی بڑی گہری نظرتھی کیونکہ بہت سے مقامات پر آپ نے اس انداز سے ترجمہ کیا ہے کہ قاری کے ذہن کے تمام شکوک و شبہات دور ہوجائے۔اکثر دیکھا گیا ہے کہ مترجمین اس طرف توجہ نہیں دیتے اور ایسا ترجمہ کرتے ہیں کہ جس کو پڑھ کر ذہن الجھ جاتا ہے اور انسانی عقل و حواس اس بات کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا لیکن سید اشرف جہانگیر سمنانی کا یہ ترجمہ ان تمام چیزوں سے باہر ہے اور اس ترجمہ کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس میں کوئی ایسا لفظ استعمال نہیں کیا گیا جس سے بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں ادنیٰ سی گستاخی کا شائبہ پیدا ہو بلکہ ادب ملحوظ رکھتے ہوئے نہایت احتیاط سے ترجمہ کیا گیا اور آپ نے نہایت سلیس فارسی زبان میں ترجمہ کیا ہے اور اب تک جتنے ترجمے ہوئے ہیں ان سب تراجم میں یہ ترجمہ قرآن منفرد نظر آتا ہے۔
مزید انہوں نے کہاکہ عام طورپریہ خیال کیاجاتاہے کہ فارسی زبان میں سے سب سے پہلے ترجمہ قرآن شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (متوفی۱۱۷۶؍ہجری) کا ہے جبکہ حقیقت حال یہ ہے کہ سید اشرف جہانگیر سمنانی (متوفی۸۰۸؍ ہجری) کا ترجمہ قرآن آپ سے بھی پہلے کاہے۔یہ ترجمہ ایک عظیم علمی شاہکار ہے کیونکہ اس زمانے میں فارسی بولی اور سمجھی جاتی تھی اس لئے آپ نے فارسی میں ترجمہ کیا اس کا اصل نسخہ مختار اشرف لائبریری خانقاہ اشرفیہ حسنیہ سرکارکلاں کچھوچھہ شریف میں موجود ہے۔پروگرام میں کثیر تعداد کے لوگ موجود تھے اور اختتام صلوۃ وسلام و ملک وملت کی خوشحالی کی دعا پر ہوا ۔












Sufi Seminar Lucknow Articles



















خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق اعظم رحماء بینھم کی عملی تصویر تھے : آل رسول احمد


خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق اعظم رحماء بینھم کی عملی تصویر تھے : آل رسول احمد

خلیفہ دوم حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالی عنہ کے یوم شہادت کے موقع پر آل انڈیا علماء و مشائخ بورڈ کے صوبائی دفتر لکھنؤ کے آفس نگراں مولانا آل رسول احمد (AIUMB لکھنؤ) نے نماز جمعہ سے قبل سامعین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ اسلام لانے کے بعد سات برس تک مکہ میں قیام کے دوران اسلام کی ترویج و اشاعت اور مسلمانوں کی مدافعت میں قریش سے نبردآزما رہے،مصائب و مشکلات کو خندہ پیشانی،عزم و ہمت سے برداشت کرتے رہے،رسول اللہ ﷺ کی صحبت کا اثر تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طبیعت کی شدت شریعت اسلام کے تابع ہو چکی تھی،یہی وجہ تھی کہ جب آپ کے سامنے غضب الہی سے متعلق آیات تلاوت کی جاتیں تو آپ پر گریہ طاری ہو جاتا تھا،آپ کی شخصیت بیک وقت سخت گیری اور رقت و نرمی کا مظہر تھی، آپ قرآنی حکم اشداء علی الکفارورحماء بینھم کی عملی تصویر تھے،آپ رضی اللہ عنہ جب اپنی رائے کو صحیح و درست سمجھ لیتے تو کمال جرات سے اسے پیش کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ حدیث رسول کے حوالے سے کہا کہ’’عمر کی زبان پر اللہ نے حق کو جاری کردیا تھا۔یہی وجہ سے کہ شراب کی حرمت،مسلمان عورت کے لیے پردے کا حکم،غزوہ بدر کے اسیروں کے حوالے سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے کی تائید،رئیس المنافقین عبداللہ ابن سلول کے نماز جنازہ نہ پڑھے کے حوالے سےآپ کی رائے کے موافق وحی الہٰی کانازل ہونا، برات اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا اور مقام ابراہیم کو مصلٰی بنانے سمیت کئی معاملات میں27 آیات کو اللہ کریم نے آپ کی رائے کے موافق نازل فرمائیں۔
انہوں نے کہاکہ آپ رضی اللہ کے دور میں مفتوحہ علاقے کا رقبہ ۲۲۵۱۰۳۰؍مربع میل تھا،جن میں شام،مصر،جزیرہ، خوزستان،عراق، عجم،آرمینیہ، آذر بائیجان،فارس،کرمان،خراسان، بلوچستان اوربیت القدس (فلسطین) سمیت کئی اہم علاقے شامل تھے۔دور فاروقی میں نظام حکومت کو چلانے اور فیصلہ سازی کے حوالے سے حضرت عثمان،حضرت علی،حضرت عبدالرحمن بن عوف،حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنھم اور انصار کے نمائندوں پر مشتمل مجلس شورٰی کا قیام عمل میں لایا گیا تھا،جب کہ تمام مقبوضہ ممالک کو ۸؍ صوبوں مکہ،مدینہ،شام، جزیرہ،بصرہ،کوفہ،مصر اور فلسطین میں تقسیم کرکے گورنروں کی تقرری کے علاوہ میر منشی،کلکٹر،پولیس افسر،صاحب بیت المال اور منصف (قاضی) کو بھی متعین کیا گیا،اسی طرح عوام کے مسائل کے بروقت حل کے لیے اضلاع اور تحصیلوں میں بھی مزید تقسیم عمل میں لائی گئی تھی،آپ اپنے دور خلافت میں سوائے پہلے سال کے ہر سال امارت حج خود فرمایا کرتے تھے، ان ایام حج میں تمام عمال مکہ میں حاضر ہوتے تھے،اس موقع پر امیرالمومنین کھلی کچہری لگاتے اور عوام کی شکایات کو سن کر اس کے ازالہ کے فرامین جاری فرماتے تھے۔خراج کے نظم و نسق کے حوالے سے صیغہ خراج،محکمہ قضاء،محکمہ افتاء،پولیس،صیغہ فوج،جیل خانہ جات،بیت المال،صیغہ تعلیم،صیغہ امور دینیہ جس کے ذریعے مکاتب کاقیام،علماء و فقہاء کا تقرر اور ان کی تنخواہوں سمیت دیگر ضروریات کا انتظام،ائمہ کاتقرر اور درس و تدریس کا انتظام کیا جاتا تھا، محکمہ برائے مفاد عامہ کے قیام کے ساتھ نئے شہر بصرہ،کوفہ،فسطاط،موصل اور جیزہ کی آباد کاری بھی ہوئی، آپ نے تقویم اسلامی کی ابتداء ہجرت مدینہ کی بنیاد پر یکم محرم الحرام سے کروائی،جب کہ مفتوحہ علاقوں میں۹۰۰؍ جامع مساجد اور ۴۰۰۰؍ عام مساجد تعمیر کروا کر اس میں تعلیم و تدریس کا انتظام کروایا جب کہ حرمین شریفین کی توسیع بھی آپ کے دور خلافت میں ہوئی۔تاریخ کی سب سے پہلی مردم شماری،کرنسی سکہ کا اجراء،مہمان خانوں(سرائے) کی تعمیر،لاوارث بچوں کی خوراک،تعلیم و تربیت کا انتظام اور وطائف کا اجراء دور فاروقی میں کیا گیا۔اسی طرح عہد فاروقی میں ذمی اقلیتوں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل تھی،مفتوحہ قوموں کو جان،مال،مذہب کی امان دی جاتی تھی،ان کی عزت وآبرو مسلمان کی عزت و آبرو کی طرح محفوظ تھی۔
انہوں نے کہا کہ آج کے عہد کی جمہوری، اشتراکی، شورائی اور سرمایہ دارانہ حکومتوں کی اصلاحات، قواعد و ضوابط، طرز ہائے زندگی، ہر ہر شعبے اور ہر ہر سوسائٹی کا موازنہ حضرت عمرفاروق اعظم کے دور سے کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ محمدی شریعت کو چند ہی سالوں میں انسانوں کی فلاح کا سب سے آسان اور سہل ترین ذریعہ قرار دینے والے اس خلیفہ نے جو کام ۱۴۰۰؍سال قبل کیا تھا، سارے طریقے آزمانے کے بعد بھی رعایا پروری کے ان اصولوں تک جدید حکومتیں نہیں پہنچ سکی ہیں آخر میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ آپ کی شہادت ۲۶؍ ذی الحجہ۲۳ہجری کو جب آپ سجدے کی حالت میں تھے کہ حملہ آورنے خنجروں کے وارکرکے آپ کو بری طرح سے زخمی کردیا اوریکم محرم الحرام کوفاروق اعظم اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔

Al Jamiatul Ashrafia Mubarkpur Ka Bani Kaun Hain ???


الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور
 کا
 اصل بانی کون ہیں ؟؟؟
مجمع البحرینحاجی الحرمین الشریفین اعلیٰ حضرت قدسی منزلت مخدوم الاولیاء  مرشدالعالم محبوب ربانی ہم شبیہ غوث الاعظم حضرت سید شاہ ابواحمد المدعومحمد علی حسین اشرف اشرؔفی میاں الحسنی والحسینی قدس سرہ النورانی مدرسہ اشرفیہ مصباح العلوم (الجامعۃ الاشرفیہ) مبارکپور کے محرک اور بانیوں میں سے ہیں۔
دارالعلوم اشرفیہ مصباح العلوم مبارکپور کا قیام
جب مبارکپور میں آمد و رفت کی کوئی سہولت نہیں تھی  اس وقت شیخ المشائخ مولانا سید شاہ ابو احمد محمد علی حسین اعلیٰ حضرت  اشرفی میاں  کچھوچھوی( میاں بابا) قدس سرہ ا لنورانی  اونٹنی پر سوار ہوکر کچھوچھہ مقدسہ سے مبارک پور آئے تھے ، انہوں نے رشدوہدایت کا سلسلہ شروع کیا ، رفتہ رفتہ ان کے گرد مبارک پور کے سنی مسلمان اکھٹے ہوگئے حضرت میاں بابا (اعلی حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی ) نے لوگوں پر زور دیا کہ  " دین کی ترویج واشاعت کے لئے ایک درسگاہ ضروری ہے"
حضرت میاں بابا کی تحریک پر مبارک پور کے سنی مسلمانوں نے لبیک کہا اور میاں شیخ عبدالوہاب شیخ حاجی عبدالرحمٰن و شیخ حافظ عبدالاحد پسران شیخ علیم اللہ شاہ مرحوم ساکنان مبارک پور ضلع اعظم گڑھ نے 1922 عیسوی میں ایک مکان واقع محلہ پرانی بستی وقف کیا ، جس میں تعلیم وتعلم کا دور شروع ہوا۔
چونکہ مبارکپور میں باقاعد ہ دینی درسگاہ کے مؤجد محرک اور بانی حضرت میاں بابا  (اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی ) علیہ الرحمہ حضرت محبوب یزدانی  سلطان سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی  قدس سرہ النورانی کے خاندان ذی شان سے متعلق تھے ۔اس لئے اس درسگاہ کا نام مدرسہ اشرفیہ مصباح العلوم  رکھا گیا اور مدرسہ کے دیکھ بھال کے لئے جاں نثاران اشرفیہ کی خواہشات کے مطابق بانئ ادارہ حضرت میاں بابا رحمۃ اللہ علیہ(اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی علیہ الرحمہ) کو مدرسہ کا سرپرست  بھی مقرر فرمایا ۔
1922 عیسوی تا 1924 عیسوی استاذالعلماء مولانا مفتی عبدالحفیظ حقانی قدس سرہ مسند صدارت پر رونق افروز رہے ۔ الفقیہ امرتسر 14/اکتوبر  1931 عیسوی کے شمارہ میں جناب ولی جان قصبہ کوٹلہ بازار ضلع اعظم گڑھ کا مضمون شائع ہوا تھا اس میں انہوں نے لکھا تھا:
"میں  بغرض تجارت قریب آٹھ سال سے مبارک پورآتا ہوں چونکہ مجھ کو مدرسہ سے دلچشپی ہے جب بھی آیا مدرسہ ضرور آیا ، یہ مدرسہ تخمیناً تیس سال سے جاری ہے اس کی عمارت تنگ و خام و بوسیدہ ہے ، یہ مدرسہ اعلیٰ حضرت قبلہ سلطان الصوفیہ شاہ ابواحمد المدعو علی حسین صاحب قبلہ اشرفی جیلانی کچھوچھوی کے دست مبارک کا قائم کیا ہوا ہے ۔
خداوندِ عالم ۔ کو کچھ اور ہی منظور تھا کہ کارکنان مدرسہ کی سعی بلیغ کے باوجود مگر مدرسہ کا انجم عروج پر نہ پہونچا۔ مدرسہ کی طرف سے سالانہ جلسہ (1931 عیسوی) میں منعقد ہوا تھا جس میں اعلیٰ حضرت قبلہ وکعبہ شاہ سید محمد صاحب محدث اعظم ہند اشرفی جیلانی کچھوچھوی بھی تشریف فرما ہوئے بعد اختتام امتحان جناب محدث اعظم ہندصاحب قبلہ نے سالانہ میٹنگ طلب کی ازسرنو ارکان کا انتخاب عمل میں آیا جناب محمد امین صاحب رئیس قصبہ صدر۔ جناب عظیم اللہ صاحب ناظم ۔سیٹھ حاجی احمداللہ صاحب خازن، جناب فقیراللہ صاحب مہتمم، حکیم محمد عمر صاحب نائب ناظم ، جناب مقیم اللہ صاحب ، و خیراللہ صاحب دلال عمال، قاری شفیع صاحب  مولوی نورمحمد صاحب سفیر مقرر کئے گئے۔، مدرسہ نے کروٹ لی اور چند ماہ کے بعد 9/شوال 1352ہجری مطابق 14 جنوری 1932 عیسوی جناب مولانا عبد العزیز صاحب فاضل مرادآبادی کو بلایا اور بیرونی جات سے طلبہ کی آمد شروع ہوگئی اور دومولوی صاحبان مقرر کئے گئے"۔  (بحوالہ: الفقیہ امرتسر 14/اکتوبر 1931)
 اس سے پتہ چلا کہ 9/شوال 1352 ہجری بمطابق 14 جنوری 1932 عیسوی میں جلالۃ العلم حضور حافظ ملت حضرت علامہ مولانا الشاہ عبد العزیز صاحب محدث مرادآبادی علیہ الرحمہ تشریف لائے۔
جس وقت آپ علیہ الرحمہ اعظم گڑھ ضلع کے قصبہ مبارکپور تشریف لائے اس وقت یہاں ایک مدرسہ 'جامعہ اشرفیہ مصباح العلوم '' کے نام سے قائم تھا ۔ حضرت حافظ ملت علیہ الرحمۃ کی انتھک محنت کے باعث اللہ عزوجل نے اسی چھوٹے سے مدرسے میں برکت عطا فرمائی اور بالآخر یہ مدرسہ ایک عظیم الشان پھل دار درخت کی حیثیت سے جامعہ اشرفیہ  مصباح العلوم کے نام سے بہت مشہور ومعروف  ہوا ۔ چنانچہ جامعہ اشرفیہ کے فاضلین آج بھی اس جامعہ کے نام کی طرف نسبت کرتے ہوئے دنیابھر میں "مصباحی" معروف ہیں ۔       
صاحب "مخدوم الاولیا محبوب ربانی" فرماتے ہیں :
شوال المکرم 1353 ہجری کا وہ مبارک وقت بھی آیا جبکہ شیخ امین صاحب صدرمدرسہ کی جدوجہد سے نئی عمارت کا سنگ بنیاد رکھنا قرار پایا اور سالانہ جلسہ کے موقع پر حضور پرنور اعلیٰ حضرت مخدوم الاولیاء مرشدالعالم  محبوب ربانی اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی  قدس سرہ مبارک پور تشریف فرما ہوئے اور جمعہ کے بعد اپنے مقدس ہاتھوں سے مدرسہ کی جدید عمارت کا سنگ بنیاد رکھااور دعاء فرمائی اور اسی موقع پر فرمایا:
"مدرسہ بہت ترقی کرے گا فتنہ بھی اٹھے گا مگراللہ تعالیٰ اس کا محافظ ہے"۔
حضور پر نور کی مخصوص دعاؤں اور آپ کے نواسہ حضرت محدث اعظم کی جانبدارسرپرستی اور ارکان عمائد دارالعلوم غلامانِ سلسلہ اشرفیہ کی غیر معمولی جدوجہد اور ایثار اور اخلاص نے غیر معمولی رفتار سے ترقی کی منازل طے کرنا شروع کردیے اور اساتذہ وقت ، غیر معمولی سوچ رکھنے والے مستعد علماء حضرت مولانا سلیمان صاحب اشرفی بھاگلپوری ،  حضرت مولانا غلام جیلانی اعظمی ، حضرت مولانا عبدالمصطفی ازہری، حضرت مولانا عبدالمصطفی اعظمی نے دارالعلوم کے تعلیمی معیار کی دھاک جمادی اور اشرف فیضان اور اشرفی نسبت نے  اپنا اثر دکھایا۔ اکابر کچھوچھہ مقدسہ کے دل میں اہل مبارک پور کی عقیدت مندی ، ایثار پسندی نے کچھ اس طرح مستحکم جگہ بنائی کہ اکابر کچھوچھامقدسہ نے جامعہ اشرفیہ کچھوچھہ مقدسہ کا بدل دارالعلوم اشرفیہ کو قرار دیا اعلیٰ حضرت مخدوم الاولیا محبوب ربانی قدس سرہ النورانی کے محالات وجودعالی مرتبت مرجع خاص عام مرشد انام ذات گرامی نےدارالعلوم اشرفیہ مبارکپور کے لئے جھولی پھیلائی اور چندہ کی اپیل فرمائی۔
1960 عیسوی  تک حضور محدث صاحب کی مظبوط و مستحکم سرپرستی میں دارالعلوم اشرفیہ مبارکپور نشیب و فراز کے بھنور سے نکلتا رہا۔ آپ کے وصال کے بعد غوث وقت مخدوم المشائخ تاجداراہلسنت حضرت مولانا سید شاہ مختار اشرف علیہ الرحمہ نے سرپرستی کے منصب کو رونق دی۔   (بحوالہ: مخدوم الاولیاء محبوب ربانی صفحہ 347)
دوسری جگہ آپ فرماتے ہیں کہ............
"جامعہ اشرفیہ کے قیام وبنا کا ذکر خیر اعلیٰ حضرت وعظیم البرکت مخدوم الاولیاء سید علی حسین اشرفی میاں کچھوچھوی علیہ الرحمہ نے اس یاد "فرمان " میں بھی فرمایا ہے۔
حضرت مخدوم المشائخ قدس سرہ کی ولی عہدی اور سجادہ نشین کے متعلق اپنی حیات بافیض کے آخری ایک ماہ قبل جمادی الاول  1355 ہجری میں تحریر فرمایا تھا۔
"اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ان کی اب دستاربندی ہوچلی ہے اور تمام علوم ومعقول تفسیر و حدیث وفقہ ومعانی وتصوف کو بکمال جانفشانی
جامعہ اشرفیہ
جو اس فقیر کا بنایا ہوا دارالعلوم ہے سے حاصل کیا"
جامعہ اشرفیہ (مبارکپور) کا انتظام انصرام حضرت عالم ربانی محبوب حقانی  سلطان الواعظین حضرت سید احمد اشرف اشرفی الجیلانی صاحب قبلہ قدس سرہ جیسے روشن دل و دماغ بزرگ فرماتے تھے، حضرت فرماتے تھے :
 "اگر میری زندگانی نے وفا کی تو جامعہ اشرفیہ کو ہندوستان کا جامع ازہر بنادوں گا "۔                                              (بحوالہ: مخدوم الاولیا محبوب ربانی  صفحہ 334)
صاحب"سید اشرف جہانگیر سمنانی کی علمی ، دینی اور روحانی خدمات کا تحقیقی جائزہ "  کے موضوع "جامعہ اشرفیہ کا قیام" میں فرماتے ہیں : اشرفی میاں (کچھوچھوی) نے مبارکپور میں ایک عظیم الشان دارالعلوم قائم کیا اور اس کا نام " جامعہ اشرفیہ " رکھا اس میں درس نظامیہ کا مکمل اہتمام کیا آپ نے ہندوستان کے جید علماء کو اس دارالعلوم میں تدریس کے لئے راغب کیا آپ کے حکم پر علماء نے رضامندی ظاہر کی اورپڑھائی کا آغاز ہوگیا اور بہت تھورے عرصہ میں یہ دارالعلوم ہندوستان کے بڑے مدارس میں شامل ہوگیا یہاں سے ہرسال کافی تعداد میں علماء فارغ التحصیل ہوتے تھے۔اشرفی میاں خود اس کی کفالت فرماتے تھے ، جب سالانہ جلسہ ہوتا تو آپ بنفس نفیس مبارکپور تشریف لے جاتے جلسے کی صدارت فرماتے اور آخر میں اپنے دست مبارک سے فارغ التحصیل طلباء کی دستاربندی فرماتے۔ یہ دارالعلوم آج بھی مبارکپور میں موجود ہے اور اب تک بے شمار تشنگان علم یہاں آکر پیاس بجھا چکے ہیں یہ  اعلی حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی علیہ الرحمہ  کا ایساکارنامہ ہے جو ان شاء اللہ رہتی دنیا تک قائم رہے گا۔        (بحوالہ: سید اشرف جہانگیر سمنانی کی علمی ، دینی اور روحانی خدمات کا تحقیقی جائزہ صفحہ224)
   یہ جامعہ برسہابرس سے  کتاب و سنت کی ترویج واشاعت کرتا رہا اسی جامعہ کے شیخ الحدیث محدث اعظم ہند کچھوچھوی ، حضرت   مولانا عمادالدین سنبھلی، مفسر شہیرحکیم الامت  مولانا مفتی احمد یار خاں  اشرفی صاحب ، علامہ مفتی عبدالرشید خاں اشرفی ناگپوری صاحب ،غوث الوقت سرکارکلاں علامہ سید محمد مختار اشرف کچھوچھوی، جلالۃ العلم حضور حافظ ملت حضرت علامہ مولانا الشاہ عبد العزیز صاحب محدث مرادآبادی، محی الملۃ والدین علامہ سید محی الدین اشرف اشرفی ( اور ان کے خلف ارشد حضرت مولانا سید شاہ معین الدین اشرف) رحمۃ اللہ تعالی علیہم اجمعین نیز دیگر اکابر علماء مختلف عہدوں میں ہوتے رہے اور یہاں کے فارغین طلبہ آج اکابر ملت اسلامیہ میں شمار کئے جاتے ہیں ۔
ایک شبہ کا ازالہ
اس ادارہ کو مدرسہ اشرفیہ سے دارالعلوم اشرفیہ میں تبدیل ہونے میں اس کی مساعی جمیلہ کا سب سے اہم رول ہے ۔ مبارکپور کی اکثر وبیشتر آبادی آپ کے دامن کرم سے وابستہ رہی ۔ اس ادارہ کی ترقی اور اس کے باغ کو سینچنے اور سنوارنے میں "اشرفی نسبت" رکھنے والوں کا خون جگر شامل ہے۔
پھرذہن نشین کرتا چلوں کہ حضور اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی قد س سرہ النورانی اشرفیہ کے تاحیات سرپرست رہے۔ اس کے بعد حضور سید محدث اعظم ہند اشرفی الجیلانی کچھوچھوی علیہ الرحمہ نے اس ادارہ کی سرپرستی کی ۔ ان کے وصال کے بعد غیر متبدل دستوری ضمانت کے مطابق سجادہ نشین سرکارکلاں حضرت سید مختار اشرف اشرفی الجیلانی علیہ الرحمہ کی طرف سرپرستی منتقل ہوئی۔ غالباً 1969 عیسوی میں دستور پر شبخون مارا گیا اس اسے موت کے گھات اتارکر غیر دستوری طور پر ایک نیا دستور بنا لیا گیا اور اس وقت کے اشرفیہ کے شیخ الحدیث و صدرالمدرسین حافظ ملت حضرت مولانا عبدالعزیز صاحب مرادآبادی علیہ الرحمہ اشرفیہ کے "سب کچھ " بنا دئے گئے۔ پھر اسی پر اکتفانہیں کیا گیا ، لوگوں کو شخصیت پرستی کا ایسا نشہ سوار ہوا کہ جو مدرس یا صدر مدرس کی حیثیت سے بلایا گیا تھا جو مدرسہ اشرفیہ ، دارالعلوم اشرفیہ اور خود جامعہ اشرفیہ کا صدر مدرس تھا بانی کی رحلت کے بعد اچانک انہیں "بانی " بنا دیا گیا ۔ اس تاریخی بددیانتی کی مثال دنیا پیش کرنے سے قاصر ہے ۔ 
واضح رہے کہ جس جامعہ کا بانی حافظ ملت کو کہا جارہا ہے اور جس جگہ یہ واقع ہے اس اراضی کا ایک بڑا حصہ اسی "درجہ شہادت سے سرفراز دستوری کمیٹی " نے خریدا جس کے سرپرست سجادہ نشین حضور سرکارکلاں سید مختار اشرف اشرفی الجیلانی علیہ الرحمہ تھے۔ اسلئے حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کو جامعہ اشرفیہ کا "تنہامعمار" نہیں کہا جاسکتا ۔ چہ جائیکہ بانی کہا جائے۔ میں پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کی روح ان "مطرین" کے احمقانہ بلکہ ظالمانہ رویہ پر ماتم کناں ہوگی۔
اگر حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ الجامعۃ الاشرفیہ کے بانی ہیں تو 1972 عیسوی میں قائم شدہ یہ ایک نیا ادارہ ہوا اور اس کا تعلق اس کے پہلے کے اشرفیہ سے عقل ومنطق کی رو سے نہیں ہوسکتا۔ جس "نادرمنظق" کی بنیاد پر حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ بانئ جامعہ اشرفیہ ہیں اس کو صحیح مان لیا جائے تو سرسید احمد خاں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی نہیں رہ جاتےہیں کیونکہ ان زمانے تک علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ایک معمولی کالج ہی کی شکل میں تھا ۔ (اینگلو اینڈین کالج) 1920 عیسوی میں اسے یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا ۔  (ماہنامہ غوث العالم فروری2007 صفحہ 12)
طالب دعا
آل رسول احمد الاشرفی القادری
Email: aalerasoolahmad@gmail.com