بیرِمَعونہ‘‘ کی
ایک مشہور لڑائی ہے جس میں سَتَّر(70) صحابہ کرام علیہم الرضوان کی ایک بڑی جماعت
پوری کی پوری شہید ہوئی، جن کو ’’قُرَّاء‘‘ کہتے ہیں؛ اِس لیے کہ سب حضرات قرآن
مجید کے حافظ تھے، اور سِوائے چند مُہاجِرین کے اکثر انصار تھے، حضورﷺ کواُن کے
ساتھ بڑی محبت تھی؛ کیوں کہ یہ حضرات رات کا اکثر حصہ ذکروتلاوت میں گزارتے تھے،
اور دن کوحضورﷺ کی بیویوں کے گھروں کی ضروریات: لکڑی،پانی، وغیرہ پہنچایاکرتے تھے،
اِس مقبول جماعت کو ’’نَجد‘‘ کا رہنے والا قومِ بنی عامر کا ایک شخص جس کانام عامربن مالک اورکنیت
ابوبَراء تھی اپنے ساتھ اپنی پناہ میں تبلیغ اوروعظ کے نام سے لے گیا تھا،
حضورِاقدس ﷺنے ارشادبھی فرمایا کہ: ’’مجھے اندیشہ ہے
کہ میرے اَصحاب کو مَضَرَّت نہ پہنچے‘‘؛ مگر اُس شخص نے بہت زیادہ اطمینان
دلایا، آپ ﷺ نے اِن ستّرَصحابہ کو ہمراہ کر دیا، اور ایک والانامہ عامربن طُفیل کے
نام -جو بنی عامرکارَئیس تھا، تحریر فرمایا، جس میں اسلام کی دعوت تھی، یہ حضرات
مدینہ سے رخصت ہوکر ’’بِیرِمَعونہ‘‘ پہنچے تو ٹھہر گئے، اور دو ساتھی: ایک حضرت عمر بن
اُمَیہ رضی اللہ عنہ ، دوسرے حضرت مُنذِر بن عَمرو رضی اللہ عنہ سب کے اونٹوں کو
لے کر چَرانے کے لیے تشریف لے گئے، اورحضرت حَرام بن ملحان رضی اللہ عنہ اپنے ساتھ
دو حضرات کوساتھیوں میں سے لے کرعامر بن طفیل کے پاس حضورﷺ کاوالانامہ دینے کے لیے
تشریف لے گئے، قریب پہنچ کر حضرت حرام رضی اللہ عنہ نے اپنے دونوں ساتھیوں سے
فرمایا کہ: تم یہیں ٹھہرجاؤ، مَیں آگے جاتا ہوں، اگر میرے ساتھ کوئی دَغا نہ کی گئی تو تم بھی چلے آنا؛ ورنہ یہیں سے واپس
ہوجانا، کہ تین کے مارے جانے سے ایک کامارا جانا بہتر ہے، عامر بن طفیل اِس عامر
بن مالک کابھتیجہ تھا جواِن صحابہ رضی اللہ عنھم کو اپنے ساتھ لایا تھا، اُس
کواسلام سے اور مسلمانوں سے خاص عَداوَت تھی، حضرت حرام رضی اللہ عنہ نے والا نامہ
دیا تو اُس نے غصے میں پڑھابھی نہیں؛ بلکہ حضرت حرام رضی اللہ عنہ کو ایک ایسا
نیزہ مارا جو پار نکل گیا، حضرت حرام ؓ ’’فُزْتُ وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ‘‘ (ربِّ کعبہ
کی قَسم! مَیں توکامیاب ہوگیا)کہہ کر شہید ہوگے، اُس نے نہ اِس کی پرواہ کی کہ
قاصِد کومارنا کسی قوم کے نزدیک بھی جائز نہیں، اور نہ اِس کالحاظ کیا کہ میرا چچا
اِن حضرات کواپنی پناہ میں لایا ہے۔ اُن کوشہید کرنے کے بعداُس نے اپنی قوم کوجمع
کیا، اور اِس پرآمادہ کیا کہ اِن مسلمانوں میں سے ایک کو بھی زندہ نہ چھوڑو؛ لیکن
اُن لوگوں نے ابوبراء کی پناہ کی وجہ سے تردُّد کیا، تو اُس نے آس پاس کے اَور
لوگوں کوجمع کیا، اور بہت بڑی جماعت کے ساتھ اِن ستَّرصحابہ کرام علیہم الرضوان کامقابلہ
کیا، یہ حضرات آخر کہاں تک مقابلہ کرتے؟
چاروں طرف سے کُفَّار میں گھِرے ہوئے تھے، بجُز
ایک کعب بن زید رضی اللہ عنہ کے، جن میں کچھ زندگی کی رَمَق باقی تھی اور کُفَّار
اُن کو مُردہ سمجھ کرچھوڑگئے تھے۔ باقی سب شہید ہوگئے، حضرت مُنذِر رضی اللہ عنہ اور
عمر رضی اللہ عنہ جو اونٹ چَرانے گئے ہوئے تھے، اُنھوں نے آسمان کی طرف دیکھا تو
مُردار خور جانور اُڑ رہے تھے، دونوں حضرات یہ کہہ کرلوٹے کہ: ضرور کوئی حادِثہ
پیش آیا، یہاں آکر دیکھا تو اپنے ساتھیوں کوشہید پایا اور سواروں کو خون کی بھری
ہوئی تلواریں لیے ہوئے اُن کے گِرد چَکَّر لگاتے دیکھا، یہ حالت دیکھ کر دونوں
حضرات ٹھِٹکے اورباہم مشورہ کیاکہ: کیا کرناچاہیے؟
حضرت عُمر بن اُمَیہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ:
چلو،واپس چل کر حضورﷺ کو اطلاع دیں؛ مگر حضرت مُنذِر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ:
خبر تو ہو ہی جائے گی، میراتودل نہیں مانتاکہ شہادت کو چھوڑوں، اور اُس جگہ سے
چلاجاؤں جہاں ہمارے دوست پڑے سورہے ہیں، آگے بڑھو اور ساتھیوں سے جاملو، چناں چہ
دونوں آگے بڑھے اورمیدان میں کُودگئے، حضرت منذر رضی اللہ عنہ شہید ہوئے اور حضرت
عمربن اُمیہ رضی اللہ عنہ گرفتار ہوئے؛ مگرچوں کہ عامر کی ماں کے ذِمے کسی مَنت کے
سلسلے میں ایک غلام کاآزاد کرنا تھا؛ اِس لیے عامر نے اِن کواُس منت میں آزادکیا۔ (اَشہرِ مشاہیرِاسلام)
اِن حضرات میں حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے غلام حضرت عامر بن فُہیرہ رضی
اللہ عنہ بھی تھے، اُن کے قاتل: جَبَّار بن سُلْمیٰ کہتے ہیں کہ: مَیں نے جب اُن کے
بَرچھا مارا اور وہ شہید ہوئے، تو اُنھوں نے کہا: ’’فُزْتُ وَاللہِ‘‘: خداکی قَسم!
مَیں کامیاب ہوا، اِس کے بعد مَیں نے دیکھا کہ اُن کی نعش آسمان کو اُڑی چلی گئی،
مَیں بہت مُتحیَّرہوا ،اور مَیں نے بعد میں لوگوں سے پوچھا کہ: مَیں نے خود بَرچھا
مارا، وہ مَرے؛ لیکن پھر بھی وہ کہتے ہیں کہ: مَیں کامیاب ہوگیا، تووہ کامیابی
کیاتھی؟
لوگوں نے بتایا کہ: وہ کامیابی جنت کی تھی، اِس
پرمَیں مسلمان ہوگیا۔