اہل سنت کا حدیثِ عمار بن یاسر کے تحت اجماعی عقیدہ

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمار بن یاسر کو فرمایا ۔ وقال ويح عمار ‏‏تقتله الفئة الباغية عمار يدعوهم إلى الله ويدعونه إلى النار: اے عمار تمہیں ایک باغی گروہ شہید کریگا عمار تم انہیں جنت کی طرف بلاؤ گے اور وہ تمھیں جہنم کی طرف بلاتے ہونگے۔(بخاری الصحیح، كتاب الجهاد والسير ١٠٣٥:٣/مسلم الصحیح،  باب: مسجد نبوی کی تعمیر:حدیث ١١٥/ترمذی، باب المساجد حدیث نمبر ٦٧٥٣/ابن حبان في الصحيح، الرقم :٦٧٣٦/والطبراني في المعجم الكبير ، ٣٦٣:٢٣/مصنفِ ابنِ ابی شیبہ،  حدیث نمبر ٣٩٠٣٠/والہيشمي في مجمع الزوائد، ٢٩٧:٩/أخرجه البيهقي في الإعتقاد: ٣٧٤)

 

امامِ اہلسنت امام محمد بن عبدالبر حدیثِ عمار بن یاسر کے متعلق فرماتے ہیں وَقَالَ أَبُوْ عُمَرَ بْنُ عَبْدِ الْبَرِّ فِي كِتَابِ الْاِسْتِيْعَابِ لَهُ فِي تَرْجَمَةِ عَمَّارٍ رضی اللہ عنہ: وَتَوَاتَرَتِ الْآثَارُ عَنِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أَنَّهُ قَالَ: «ويح عمار ‏‏تقتله الفئة الباغية عمار يدعوهم إلى الله ويدعونه إلى النار» وَهُوَ مِنْ أَصَحِّ الْأَحَادِيْثِ.

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ حدیث متواتر روایات میں وارد ہوئی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: عمار کو باغی گروہ قتل کرے گا عمار تم انہیں جنت کی طرف بلاؤ گے جبکہ وہ تمھیں جہنم کی طرف بلاتے ہوں گے یہ حدیث صحیح ترین حدیث ہے۔(ابن عبد البر في الاستيعاب، 3:1140)

 

امام اہل سنت امام محمد بن عبدالبر کے علاؤہ اہل سنت کے ایک ہزار سے زائد آئمہ نے حدیثِ عمار بن یاسر کو حدیث متواتر و صحیح حدیث قرار دے دیا ہے ۔آئیے اب آتے ہیں حدیثِ عمار بن یاسر رض کے تحت اہل سنت کے اماموں نے جو فیصلہ کیا وہ درج ذیل ہے

امام اہلسنت امام عبدالقادر الجرجانی اپنی کتاب الإمامة‘‘ میں فرماتے ہیں

وَقَالَ الْإِمَامُ عَبْدُ الْقَاهِرِ الْجُرْجَانِيُّ فِي ‹‹كِتَابِ الإْمَامَةِ››: أَجْمَعَ فُقَهَاءُ الْحِجَازِ وَالْعِرَاقِ مِنْ فَرِيْقَيِ الْحَدِيْثِ وَالرَّاْيِ مِنْهُمْ: مَالِكٌ وَالشَّافِعِيُّ وَأَبُوْ حَنِيْفَةَ وَالْأَوْزَاعِيُّ وَالْجَمْهُوْرُ الأَعْظَمُ مِنَ الْمُتَكَلِّمِيْنَ وَالْمُسْلِمِيْنَ أَنَّ عَلِيًّا مُصِيْبٌ فِي قِتَالِهِ لِأَهْلِ صِفِّيْنَ كَمَا هُوَ مُصِيْبٌ فِي أَهْلِ الْجَمَلِ، وَأَنَّ الَّذِيْنَ قَاتَلُوْهُ بُغَاةٌ ظَالِمُوْنَ لَهُ لَكِنْ لَا يُكَفَّرُوْنَ بِبَغْيِهِمْ، وَقَالُوْا أَيْضًا: بِأَنَّ الَّذِيْنَ قَاتَلُوْهُ بُغَاةٌ ظَالِمُونَ لَهُ لَـكِنْ لَا يَجُوْزُ تَكْفِيْرُهُمْ بِبَغْيِهِمْ.

فقہائے اسلام نے فرمایا ہے ملک حجاز اور عراق کے محدثین اور فقہاء کرام کی دونوں طرف کی جماعتیں جن میں امام مالک، امام شافعی، امام ابو حنیفہ، امام اوزاعی اور متکلمین رضی اللہ عنہم اور جمیع مسلمین کے جمہورِ اعظم کا اجماع ہے کہ سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اہلِ صفین کے خلاف جنگ میں حق پر تھے، جیسا کہ آپ رضی اللہ عنہ اہلِ جَمل کے ساتھ قتال میں حق پر تھے جنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف جنگ کی وہ باغی اور ظالم تھے، لیکن اُن کے خروج و بغاوت کی وجہ سے اُنہیں کافر قرار دینا جائز نہیں ہے۔(القرطبي في التذكرة، 2:626،والمناوي في فيض القدير، 6:366)

مندرجہ بالا اجماعِ اہلسنت کی تشریح امام اہلسنت امام العقیدہ امام ابو منصور اپنی کتاب "في أصول الدين:315" میں کچھ یوں کرتے ہیں کہ وَقَالَ أَبُوْ مَنْصُوْرٍ الْبَغْدَادِيُّ فِي كِتَابِهِ ‹‹أُصُوْلِ الدِّيْنِ›› مَا نَصُّهُ: أَجْمَعَ أَصْحَابُنَا عَلَى أَنَّ عَلِيًّا رضی اللہ عنہ كَانَ مُصِيْبًا فِي قِتَالِ أَصْحَابِ الْجَمَلِ، وَفِي قِتَالِ أَصْحَابِ مُعَاوِيَةَ بِصِفِّيْنَ، وَقَالُوْا فِي الَّذِيْنَ قَاتَلُوْهُ بِالْبَصْرَةِ: إِنَّهُمْ كَانُوْا عَلَى الْخَطَأِ، وَقَالُوْا فِي عَائِشَةَ رضی اللہ عنہا وَفِي طَلْحَةَ وَالزُّبَيْرِ رضی اللہ عنہما: إِنَّهُمْ أَخَطَؤُوْا وَلَمْ يَفْسُقُوْا، لِأَنَّ عَائِشَةَ رضی اللہ عنہا قَصَدَتِ الْإِصْلَاحَ بَيْنَ الْفَرِيْقَيْنِ فَغَلَبَهَا بَنُوْ ضَبَّةَ وَبَنُو الأَزْدِ عَلَى رَأْيِهَا، فَقَاتَلُوْا عَلِيًّا فَهُمُ الَّذِيْنَ فَسَقُوْا دُوْنَهَا. وَأَمَّا الزُّبَيْرُ رضی اللہ عنہ فَإِنَّهُ لَمَّا كَلَّمَهُ عَلِيٌّ رضی اللہ عنہ يَوْمَ الْجَمَلِ عَرَفَ أَنَّهُ عَلَى الْحَقِّ فَتَرَكَ قِتَالَهُ وَهَرَبَ مِنَ الْمَعْرِكَةِ رَاجِعًا إِلَى مَكَّةَ، فَأَدْرَكَهُ عَمْرُو بْنُ جَرْمُوْزٍ بِوَادِي السِّبَاعِ فَقَتَلَهُ، وَحَمَلَ رَأْسَهُ إِلَى عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ، فَبَشَّرَهُ عَلِيٌّ رضی اللہ عنہ بِالنَّارِ. وَأَمَّا طَلْحَةُ رضی اللہ عنہ فَإِنَّهُ لَمَّا رَأَى الْقِتَالَ بَيْنَ الْفَرِيْقَيْنِ هَمَّ بِالرُّجُوْعِ إِلَى مَكَّةَ، فَرَمَاهُ مَرْوَانُ بْنُ الْحَكَمِ بِسَهْمٍ فَقَتَلَهُ، فَهَؤُلَاءِ الثَّلَاثَةُ بَرِيْئُوْنَ مِنَ الْفِسْقِ، وَالْبَاقُوْنَ مِنْ أَتْبَاعِهِمُ الَّذِيْنَ قَاتَلُوْا عَلِيًّا فَسَقَةٌ،

وَأَمَّا أَصْحَابُ مُعَاوِيَةَ فَإِنَّهُمْ بَغَوْا، وَسَمَّاهُمُ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بُغَاةً فِي قَوْلِهِ لِعَمَّارٍ: «تَقْتُلُكَ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ يَدْعُوْهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ وَيَدْعُوْنَهُ إِلَى النَّارِ » وَلَمْ يَكْفُرُوْا بِهَذَا الْبَغْيِ أَجْمَعُوْا أَنَّ عَلِيًّا مُصِيْبٌ فِي قِتَالِهِ أَهْلَ صِفِّيْنَ مُعَاوِيَةَ وَعَسْكَرَهُ بِأَنَّ الَّذِيْنَ قَاتَلُوْهُ بُغَاةٌ ظَالِمُوْنَ لَهُ وَلَـكِنْ لَّا يَجُوْزُ تَكْفِيْرُهُمْ ِببَغْيِهِمْ.

 امام ابو منصور البغدادی اپنی کتاب ’’أصول الدین‘‘ میں صراحت فرماتے ہیں کہ ہمارے تمام ائمہ کرام کا اس بات پر اجماع ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اصحابِ جَمل کے ساتھ قتال میں اور صفّین میں معاویہ کے ساتھ قتال میں حق بجانب تھے۔ علماء کرام نے اُن لوگوں کے بارے میں جنہوں نے بصرہ میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ قتال کیا، کہا ہے کہ وہ خطا پر تھے، اور اُنہوں نے سیدہ عائشہ اور حضرت طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما کے بارے میں بھی کہا ہے کہ وہ خطا وار تھے مگر وہ فاسق نہیں تھے، کیونکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فریقین کے مابین اصلاح کا قصد کیا تھا لیکن اُن کی رائے پر قبیلہ بنو ضبّہ اور بنو اَزد غالب آگئے، اور اُنہوں نے فتنہ انگیزی کے طور پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ اچانک جنگ چھیڑ دی تھی، وہ سیدہ کو چھوڑ کر سب فاسق ہو گئے رہے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ تو اُن کے ساتھ جمل کے روز سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بات چیت کی، اُن پر عیاں ہو گیا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ حق پر ہیں، وہ اسی وقت ارادہ جنگ سے باز آگئے اور انہوں نے میدان چھوڑ کر مکہ مکرمہ کا رُخ کر لیا، لیکن عمر بن جرموز نے اُنہیں وادئ سباع میں جا لیا اور قتل کر دیا، پھر اُن کا سر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس لے آیا، جس پر آپ نے اُس کو دوزخ کی وعید سنائی باقی رہے حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ تو اُنہوں نے بھی جب فریقین کے درمیان جنگ کو دیکھا تو مکہ مکرمہ کی طرف پلٹنے کا ارادہ کیا لیکن مروان بن الحکم نے اُنہیں تیر مار کر شہید کر دیا۔ لہٰذا یہ تینوں حضرات (سیدہ عائشہ طلحہ اور زبیر) فسق سے بری ہیں اور ان کے باقی پیروکار جنہوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ جنگ کی وہ سب فاسق ہوگئے۔

رہے اصحابِ معاویہ تو وہ باغی تھے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو فرمایا «اے عمار تمھیں ایک باغی گروہ شہید کرے گا تم اس کو جنت کی طرف بلاؤ گے جبکہ وہ تمھیں جہنم کی طرف بلاتے ہوں گے» رسول اللہ نے خود اُنہیں باغی قرار دے دیا تھا امیر معاویہ اور اُن کے لشکر کے ساتھ جنگ صفین میں بھی حضرت علی ہی حق پر تھے جنہوں نے سیدنا علی کے ساتھ جنگ کی وہ سب نا انصاف و ظالم اور باغی تھے لیکن ان کی حد درجہ مخالفت کے باوجود ان کو کافر کہنا جائز نہیں ۔(في أصول الدين:315/المناوي في فيض القدير، 6:366)

امام اعظم ابو حنیفہ کا مولا علی اور امیر معاویہ کے متعلق اپنا عقیدہ یوں بیان کرتے ہیں قال أبو حنيفة لتلاميذه : " أتدرون لم يبغضنا أهل الشام؟ ". قالوا: " لا ". قال: " لأنا نعتقد أن لو حضرنا عسكر علي بن أبي طالب كرم الله وجهه، لكنا نعين عليا على معاوية، ونقاتل معاوية لأجل علي بن أبي طالب كرم الله وجهه ، فلذلك لا يحبوننا "

قال أبو حنيفة و علي بن ابي طالب رضي الله عنه كان مصيبا في حربه و من قاتله كان على الخطأ "

وروي عن أمام يوسف أنه قال سمعت أبا حنيفة يقول: علي بن ابي طالب كرم الله وجهه حجتنا عند الله يوم القيامة ولولا علي ما علمنا كيف قتال أهل البغي أو كيف نقاتل أهل قبلة

 "امام اعظم ابو حنیفہ رض نے اپنے شاگردوں سے فرمایا : کیا تم جانتے ہو کہ ملک شام والے ہم سے کیوں نفرت کرتے ہیں۔؟ انہوں نے کہا نہیں پتہ ۔ فرمایا کیونکہ ہم یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اگر ہم اُس زمانہ میں ہوتے تو حضرت علی کے لشکر میں شامل ہوتے اور ہم امیر معاویہ کے خلاف حضرت علی کی مدد کرتے اور حضرت علی کے ساتھ مل کر امیر معاویہ سے جنگیں کرتے اس لیے وہ ہمیں پسند نہیں کرتے۔"

حضرت علی جنگ کرنے میں حق پر تھے جس نے ان سے جنگیں کیں وہ خطا پر تھا "اور سیدنا علی قیامت کے دن اللہ کی بارگاہ میں ہماری دلیل ہیں اور اگر سیدنا علی نہ ہوتے تو ہمیں معلوم ہی نہ ہو پاتا کہ اہل قبلہ باغیوں جنگ کیسے کی جاتی ہے۔

 حوالاجات:

(1) امام صاعر بن محمد بن احمد نیشاپوری في كتاب الاعتقاد ص ١٩١

(2) امام سید محمد بن عقیل العلوی في النصائح الكافية ص ٣٦ "

(3) امام أبو محمد الحارثي في كتاب الكشف ص ٤٧٨

(4) امام الموفق بن احمد المكى في مناقب المكي ص ٢٥٩

(5) امام بدرالدین العینی في عقد الجمان ٢:٥٩٥

(6) والكردري في مناقب أبي حنيفة ص  ٣٤٢

(7) امام كمال الدين احمد في أصول المنيفة ص ١٤١

(8) امام ابی یوسف بن علی الجرجانی في كتاب خزانة الأكمل في فروع الفقه الحنفي ٢:٤١

امام اہلسنت امام ابو عبد اللہ قرطبی اپنی کتاب ’’التذکرۃ‘‘ میں لکھتے ہیں: قَالَ الإْمَامُ أَبُوْ عَبْدِ اللهِ الْقُرْطَبِيُّ فِي ‹‹التَّذْكِرَةِ››: وَالإْجْمَاعُ مُنْعَقِدُ عَلَى أَنَّ طَائِفَةَ الإْمَامِ طَائِفَةُ عَدْلٍ وَالْأُخْرَى طَائِفَةُ بَغْيٍ، وَمَعْلُوْمٌ أَنَّ عَلِيًّا رضی اللہ عنہ كَانَ الإْمَامَ. وَرَوَى مُسْلِمٌ فِي صَحِيْحِهِ: أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَالَ لِعَمَّارٍ: «تَقْتُلُكَ فِئْةٌ بَاغِيَةٌ» وَلَهٌ طُرُقٌ غَيْرُ هَذَا فِي صَحِيْح مُسْلِمٍ

  اس بات پر اجماع منعقد ہو چکا ہے کہ امام علی رضی اللہ عنہ والا گروہ ہی انصاف والا گروہ تھا اور دوسرا گروہ باغی تھا۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ امامِ برحق تھے۔ امام مسلم نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمار رضی اللہ عنہ سے فرمایا: تجھے باغی گروہ قتل کرے گا۔ اس حدیث کے صحیح مسلم میں اس کے علاوہ بھی طرق ہیں۔ (القرطبي في التذكرة:615)

 

امام اہلسنت امام حافظ ابن کثیر في البداية والنهاية،  ٥٧٥:٤ پر یوں لکھتے ہیں :

وهذا مقتل عمار بن ياسر رضي الله عنه مع أمير المؤمنين علي بن أبي طالب رضي الله عنه قتله اهل شام (معاوية) وبأن وظهر بذلك سر ما أخبر به الرسول من أنه تقتله الفئة الباغية وبأن بذلك أن عليا محق و أن معاوية باغ وما في ذلك من دلائل النبوة:

اور یہ عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کی قتل گاہ ہے جو امیر المومنین علی بن علی طالب رضی اللہ عنہ کے لشکر میں تھے انہیں اہل شام (گروہ معاویہ) نے قتل کیا اور اس سے حضور نبی اکرم کی اس حدیث کا راز ظاہر ہو گیا جو آپ نے فرمایا تھا کہ عمار کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا اور اس سے یہ حقیقت بھی کھل گئی کہ سیدنا علی حق پر تھے اور معاویہ باغی تھے:

 

امام اہلسنت امام بیہقی اپنی معروف کتاب الإعتقاد:374   لکھتے ہیں:

وَأَمَّا خُرُوجُ مَنْ خَرَجَ عَلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ رضی اللہ عنہ مَعَ أَهْلِ الشَّامِ فِي طَلَبِ دَمِ عُثْمَانَ ثُمَّ مُنَازَعَتُهُ إِيَّاهُ فِي الْإِمَارَةِ فَإِنَّهُ غَيْرُ مُصِيبٍ فِيْمَا فَعَلَ، وَاسْتَدْلَلْنَا بِبَرَاءَةِ عَلِيٍّ مِنْ قَتْلِ عُثْمَانَ بِمَا جَرَى لَهُ مِنَ الْبَيْعَةِ، لِمَا كَانَتْ لَهُ مِنَ السَّابِقَةِ فِي الْإِسْلَامِ وَالْهِجْرَةِ وَالْجِهَادِ فِي سَبِيْلِ اللهِ وَالْفَضَائِلِ الْكَثِيرَةِ وَالْمَنَاقِبِ الْجَمَّةِ الَّتِي هِيَ مَعْلُومَةٌ عِنْدَ أَهْلِ الْمَعْرِفَةِ إِنَّ الَّذِي خَرَجَ عَلَيْهِ وَنَازَعَهُ كَانَ بَاغِيًا عَلَيْهِ وَكَانَ رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَدْ أَخْبَرَ عَمَّارَ بْنَ يَاسِرٍ رضی اللہ عنہ بِأَنَّ الْفِئَةَ الْبَاغِيَةَ تَقْتُلُهُ، فَقَتَلَهُ هَؤُلَاءِ الَّذِينَ خَرَجُوا عَلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ فِي حَرْبِ صِفِّيْنَ.

 جس شخص (معاویہ) نے اہل شام کے ساتھ قصاصِ عثمان رضی اللہ عنہ کی طلب کا بہانہ بنا کر امیر المومنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے خلاف خروج کیا، پھر اُن کے ساتھ خلافت میں تنازع کیا وہ اپنے عمل میں درست نہیں تھا۔ قتلِ عثمان سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے مبراء ہونے کے ہمارے پاس جو دلائل ہیں اُن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اُن کی بیعتِ خلافت پر اتفاق ہوا، پھر اُن کی اسلام میں سبقت، ہجرت، جہاد فی سبیل اللہ میں پیش پیش ہونا اور اُن کے دیگر فضائل کثیرہ اور مناقبِ جمیلہ جو اہل علم کے ہاں معروف ہیں، سب اُن کی براء ت کے بیّن دلائل ہیں۔ یقینا جس شخص نے اُن کے خلاف خروج کیا اور جھگڑا کیا وہ باغی تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کو آگاہ فرمایا تھا کہ: ’’اُنہیں باغی گروہ قتل کرے گا‘‘، سو اُنہیں اُس گروہ نے قتل کیا تھا جس نے جنگِ صفین میں امیر المومنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے خلاف خروج کیا تھا۔

 

امامِ اہلسنت امام مناویؓ اپنی کتاب " فيض القدير شرح الجامع الصغير ٣٦٥:٦ پر حدیث عمار کی شرح میں یوں فتوی دیتے ہیں:قال القاضي في شرح المصابيح يريد به معاوية و قومة و هذا صريح في بغي طائفة معاوية الذين قتلوا عمار ا في وقعة صفين وأن الحق مع علي وهو من الاخبار بالمغيبات يدعوهم أي عمار يدعو الفئة وهم اصحاب الذين قتلوه لو قعة صفين في الزمان المستقبل إلى الجنة اى إلى سببها وهو طاعة الإمام الحق و يدعونه إلى سبب النار وهو عصيانه و مقاتلتهقالو وقد وقع ذلك في يوم صفين دعاهم فيه إلى الإمام الحق وقتلوه فهو معجزة للمصطفى وعلم من أعلام نبوته:

الفئة الباغية سے معاویہ اور انکا گروہ مراد ہے اور یہ حدیث معاویہ اور ان کے گروہ کے باغی ہونے پر صریح ہے اس میں کسی تاویل کی کوئی گنجائش نہیں کیوں کہ انہوں نے ہی جنگ صفین میں حضرت عمار کو شہید کیا تھا اس سے ثابت ہوا حق سیدنا علیؑ کی طرف تھا، عمارؓ اس گروہ کو جنت کی طرف بلائیں گے اور اس سے مراد امام حق کی طرف بلانا ہے، اور وہ لوگ (گروہِ معاویہ) انہیں (عمار کو) جہنم کی طرف بلاتے ہوں گے جہنم کی طرف بلانا اس لیے ہے کیونکہ انہوں نے خلیفہ راشد کی نافرمانی کی اور خلیفہ سے جنگ کی، آئمہ نے بیان کیا ہے کہ یہ سب کچھ جنگ صفین میں ہوا حضرت عمار نے ان کو امام حق کی طرف بلایا تھا اور باغیوں نے ان کو شہید کر دیا پس یہ سیدنا محمد مصطفی کا معجزہ اور آپکی نبوت کے دلائل میں سےہے۔

 

امام اہلسنت امام محمد بزدوی حنفیؓ اپنی کتاب "" أصول الدين ص ٢٠٢ پر لکھتے ہیں:

 قال اهلسنة والجماعة إن معاوية حال حياة علي بن ابي طالب رضي الله عنه لم يكن إماما بل كان الإمام والخليفة وكان على على الحق و معاوية على الباطل ... والدليل على معاوية كان محق قوله عليه اسلام العمار بن ياسر رضي الله عنه تقتلك افئة الباغية وقتله قوم معاوية و قالت الكرامية إن معاوية كان إمام الحق وكذالك علي رضي الله عنه وهو خلاف قول النبي عليه اسلام حيث جعلهم بغاة وخلاف إجماع الصحابة:

اہلسنت والجماعت کہتے ہیں کہ معاویہ حضرت علیؓ کے زندگی میں امام نہیں تھے بلکہ حضرت علی امام و خلیفہ تھے  اور حضرت علی حق پر جبکہ معاویہ باطل پر تھے اسکی دلیل رسول اللہ کا وہ فرمان ہے جس میں رسول اللہ نے حضرت عمار کو فرمایا : اے عمار تمھیں ایک باغی گروہ شہید کرے گا , اور انکو معاویہ کے گروہ نے شہید کیا, ایک (گمراہ) فرقہ کرامیہ کا عقیدہ ہے کہ علیؓ اور معاویہ دونوں ہی حق پر تھے انکا یہ عقیدہ ارشادِ نبویؐ اور اجماع صحابہ کے خلاف ہے کیونکہ رسول اللہ نے خود انکو (گروہ معاویہ) کو باغی قرار دے دیا:

 

امام اہلسنت امام شہاب الدین ابن حمادؓ اپنی کتاب "شذرات الذهب في اخبار من ذهب ٧٢" پر حدیثِ عمارؓ کے تحت لکھتے ہیں: والإجماع منعقد على إمامته و بغى الطائفة الأخرى و استدل أهل السنة و الجماعة على ترجيح جانب على بدلائل أظهرها وأثبتها قوله عليه السلام لعمار بن ياسر رضي الله عنه تقتلك افئة الباغية و هو حديث ثابت وهو إلزام لا جواب عنه حجة لا اعتراض عليها وكان شبهة معاوية ومن معه الطلب بدم عثمان وكان الواجب عليهم شرعا الدخول في البيعة ثم الطلب وجوهه الشرعية وولى الدم في حقيقة أولاد عثمان :

 حضرت علیؓ کی امامت پر اور فریقِ مخالف (لشکرِ معاویہ) کے باغی ہونے پر اہلسنت کا اجماع منعقد ہو چکا ہے اہلسنت دلائل کے ساتھ حضرت علیؓ کے ساتھ ہیں اور انہی کو ترجیع دیتے ہیں اس بات کی دلیل بخاری اور مسلم میں رسول اللہ کا وہ فرمان ہے جس میں رسول اللہ نے حضرت عمار بن یاسرؓ کو فرمایا اے عمارؓ تمھیں ایک باغی جماعت شہید کرے گی. اور یہ حدیث ثابت شدہ ہے, یہاں ایک الزام کا جواب دے دوں کیونکہ وہ (ناصبی) اعتراض کر کے شک و شبہ ڈالتے ہیں اور کہتے ہیں کہ معاویہ تو خونِ عثمان کو طلب کر رہے تھے تو میں کہتا ہوں کہ اُن (معاویہ) پر تو شرعاً واجب تھا وہ انکی (مولا علیؓ) بیعت میں داخل ہوتے جبکہ شریعت کی رو سے قصاص طلب کرتے کے حقیقی وارث تو حضرت عثمان کی اولاد تھے:

 

امام اہلسنت امام بدر الدین عینی الحنفی عمدة القاري، ١٩٢:٢٤ ، الرقم: ٧٠٨٣ پر لکھتے ہیں:

قلت: كيف يقال : كان معاوية مخطئا في اجتهاده، فما كان الدليل في اجتهاده؟ وقد بلغه الحديث الذين قالا: ويح ابن سميه تقتله الفئة الباغية ، وابن سمية هو عمار بن ياسر ، وقد قتله فئة معاوية أفلا يرضى معاوية سواء بسواء حتى يكون له أجر واحد:

میں کہتا ہوں کہ یہ کیسے کہہ دیا جاتا ہے کہ معاویہ نے اپنے اجتہاد میں خطا کی، کیا دلیل ہے انکے اجتہاد پر؟ حالانکہ انہیں وہ حدیث پہنچ چکی تھی جس میں رسول کریم نے فرمایا: ابن سمیہ(عمار) پر رحمت ہو اس کو باغی گروہ قتل کرے گا، ابن سمیہ عمار بن یاسر ہیں اور انہیں معاویہ کے گروہ نے شہید کیا، معاویہ کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ برابر بچ جائیں ناکہ ان کو ایک اجر کی امید رکھیں ۔

 

امام اہلسنت ابن حبان اپنی ’’الصحیح‘‘ میں بیان کرتے ہیں :

 وَرَوَى ابْنُ حِبَّانَ فِي صَحِيْحِهِ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ رضی اللہ عنہا قَالَتْ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: «تَقْتُلُ عَمَّارًا الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ». وَفِيْهِ أَيْضًا عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: «وَيْحَ ابْنِ سُمَيَّةَ تَقْتُلُهُ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ يَدْعُوْهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ وَيَدْعُوْنَهُ إِلَى النَّارِ». فَالْحَدِيْثُ بِرِوَايَتَيْهِ مِنْ أَصَحِّ الصَّحِيْحِ، فَعَمَّارُ الَّذِي كَانَ فِي جَيْشِ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ دَاعٍ إِلَى الْجَنَّةِ بِقِتَالِهِ مَعَ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ، فَعَلِيٌّ دَاعٍ إِلَى الْجَنَّةِ بِطَرِيْقِ الْأَوْلَى. وَفِي رِوَايَةِ الطَّبَرَانِيِّ زِيَادَةٌ وَهِيَ: «وَيْحَ عَمَّارٍ تَقْتُلُهُ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ النَّاكِبَةُ عَنِ الْحَقِّ». وَعَمَّارٌ مَا نَالَ هَذَا الْفَضْلَ إِلَّا بِكَوْنِهِ مَعَ عَلِيٍّ، فَهُوَ وَجَيْشُهُ دُعَاةٌ إِلَى الْجَنَّةِ وَمُقَاتِلُوْهُمْ دُعَاةٌ إِلَى النَّارِ.

  سیدہ اُم سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’عمار کو باغی گروہ قتل کرے گا۔‘‘ نیزاِس میں سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’عمار پر رحمت ہو اُسے ایک باغی گروہ قتل کرے گا، یہ اُنہیں جنت کی طرف بلائے گا اور وہ اُسے جہنم کی طرف بلائیں گے۔‘‘ یہ حدیث دونوں روایتوں کے ساتھ صحیح ترین حدیث ہے۔ حضرت عمار رضی اللہ عنہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں تھے، جو معیتِ علی میں داعی إلی الجنۃ تھے، لہٰذا سیدنا علی رضی اللہ عنہ بطریقِ اَولیٰ داعی إلی الجنة تھے، طبرانی کی ایک روایت میں ان الفاظ کا اضافہ ہے: ’’عمار پر رحمت ہو اُسے وہ باغی گروہ قتل کرے گا جو حق سے ہٹ چکاہوگا۔‘‘ حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ اس فضیلت کے حامل فقط سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی معیت کی بدولت ہوئے، لہٰذا وہ اور اُن کا لشکر داعی إلی الجنة تھے اور اُن کے ساتھ جنگ کرنے والے داعی إلی النار تھے۔(أخرجه ابن حبان في الصحيح، 15:131، الرقم:6736، وأيضًا في 15:553، الرقم:7078، والطبراني في المعجم الكبير، 23:363، الرقم:852، وذكره الهيثمي في مجمع الزوائد، 9: 297، والمناوي في فيض القدير، 4:359)

 

امام اہلسنت امام ملا علی قاری "حدیث عمار" کی شرح میں فرماتے ہیں :

وَقَالَ الْمُلَّا عَلِيٌّ الْقَارِيُ فِي الْمِرْقَاةِ: «تَقْتُلُكَ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ»: قَالَ الطِّيْبِيُّ: تَرَحَّمَ عَلَيْهِ بِسَبَبِ الشِّدَّةِ الَّتِي يَقَعُ فِيْهَا عَمَّارٌ مِنْ قِبَلِ الْفِئَةِ الْبَاغِيَةِ، يُرِيْدُ بِهِ مُعَاوِيَةَ وَقَوْمَهُ، فَإِنَّهُ قُتِلَ يَوْمَ صِفِّيْنَ، وَقَالَ ابْنُ الْمَلِكِ: اِعْلَمْ أَنَّ عَمَّارًا قَتَلَهُ مُعَاوِيَةُ وَفِئَتُهُ، فَكَانُوْا طَاغِيْنَ بَاغِيْنَ بِهَذَا الْحَدِيْثِ، لِأَنَّ عَمَّارًا كَانَ فِي عَسْكَرِ عَلِيٍّ، وَهُوَ الْمُسْتَحِقُّ لِلْإِمَامَةِ فَامْتَنَعُوْا عَنْ بَيْعَتِهِ.....

قلت : فإذا كان الواجب عليه أن يرجع عن بغيه بتاعته الخليفة ويترك المخالفة وطلب الخلا فة المنيفة فتبين بهذا انه كان في الباطن باغيه وفي الظاهر متسترا بدم عثمان مراعيا مرائيا هذا الحديث عليه ناعيا و عن عمله ناهيا:

 مرقاة المفاتيح‘‘ میں ’’تقتلك الفئة الباغية‘‘ کی شرح میں لکھتے ہیں: امام طیبی فرماتے ہیں: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدنا عمار رضی اللہ عنہ پر رحم فرماتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا، کیونکہ وہ باغی گروہ کی جانب سے بہت زیادہ اذیت میں مبتلا ہونے والے تھے، اس سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور اُن کی جماعت مراد لی ہے، کیونکہ حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ صفین کی جنگ میں شہید کیے گئے تھے۔ محدث ابن الملک کہتے ہیں: جان لیجئے کہ حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور اُن کے گروہ نے شہید کیا تھا، لہٰذا اس حدیث کی روسے وہ باغی اور طاغی قرارپائے، کیونکہ حضرت عمار رضی اللہ عنہ لشکر مرتضوی میں تھے اور وہی خلافت کے حق دار تھے، اُن لوگوں نے اُن کی بیعت سے رو گردانی کی تھی......میں کہتا ہوں اس کے بعد (شہادت عمار کے بعد) تو امیر معاویہ پر واجب تھا کہ وہ بغاوت چھوڑتے ہوئے خلیفہ بر حق کی کی اطاعت کی طرف رجوع کرتے اور مخالفت ترک کر دیتے اور خلافت کی طلب سے باز آ جاتے اس سے ظاہر ہوا کہ وہ باطن میں باغی تھے اور ظاہر میں قصاص عثمان کی آڑ لے کر دکھاوا کرنے والے تھے پس یہ حدیث(حدیث عمار) ان پر طعن کرنے والی ہے اور انکی اتباع سے روکنے والی ہے:

 

امام اہلسنت امام کاسانی بیان کرتے ہیں:

وَقَالَ الْإِمَامُ الْكَاسَانِيُّ: وَلَنَا مَا رُوِيَ عَنْ عَمَّارٍ، أَنَّهُ لَمَّا اسْتُشْهِدَ بِصِفِّيْنَ تَحْتَ رَايَةِ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ فَقَالَ: لَا تَغْسِلُوْا عَنِّيْ دَمًا، وَلَا تَنْزِعُوْا عَنِّيْ ثَوْبًا، فَإِنِّيْ أَلْتَقِيْ وَمُعَاوِيَةُ بِالْجَادَةِ، وَكَانَ قَتِيْلَ أَهْلِ الْبَغْيِ، عَلَى مَا قَالَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: «تَقْتُلُكَ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ».

  سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کی روایت ہی ہماری دلیل ہے کہ جب وہ جنگ صفین میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پرچم تلے (باغیوں کے خلاف لڑتے ہوئے) شہید ہونے لگے تو انہوں نے فرمایا:میرے بدن سے خون دھونا اورنہ میرا لباس اتارنا،کیونکہ میں اور معاویہ میدانِ محشر میں اِسی حال میں ملیں گے۔ حضرت عمار رضی اللہ عنہ باغیوں کے ہاتھوں قتل ہوئے تھے، کیوں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے(ان کے قاتلوں کی نشاند ہی کرتے ہوئے ) ارشاد فرمایا تھا: ’’(اے عمار!) تجھے باغی گروہ قتل کرے گا‘‘۔(الكاساني في بدائع الصنائع، 1:323)

 

امام العقیدہ امام اہلسنت امام ابو الحسن العشری فرماتے ہیں:

ولا أقول في عائشة وطلحة والزبير رضي الله عنهم إلا أنهم رجعوا عن الخطأ إن طلحة والزبير من العشرة المبشرين بالجنة وأقول في معاوية وعمرو بن العاص انهما بغيا على الإمام الحق علي بن أبي طالب فقاتلهما مقاتلة أهل البغي:

 اور میں عائشہ ، طلحہ اور الزبیر کے بارے میں سوا اِس کے کچھ نہیں کہتا کہ انہوں نے اپنی خطا سے توبہ کر لی طلحہ اور الزبیر ان دس لوگوں میں شامل ہیں جن سے جنت کا وعدہ کیا گیا تھا اور میں معاویہ اور عمرو بن العاص کے بارے میں کہتا ہوں کہ وہ باغی تھے اور علی بن ابی طالب امامِ حق تھے چنانچہ انہوں نے ان باغیوں سے جنگ کی۔ (الخطط الاثار ج ٤ ص ٣٦٠ )

 

امام اہلسنت امام ابوبکر الجصاص الرازی حنفی اپنی کتاب "احکام القرآن ج٦ ص٢٨٠ " میں لکھتے ہیں:

قال الجصاص باب قتال أهل البغي ما نصه: " وأيضا قاتل علي بن أبي طالب رضي الله عنه الفئة الباغية بالسيف ومعه من كبار الصحابة و أهل بدر من قد علم مكانهم, وكان محقا في قتاله لهم لم يخالف فيه أحد إلا الفئة الباغية التي قابلته و أتباعها, وقال صلى الله عليه و سلم لعمار: " تقتلك الفئة الباغية. وهذا خبر مقبول من طريق التواتر حتی ان معاویہ  لم یقدر علی جحدہ لماقال لہ عبداللہ بن عمر  فقال : انما قتلہ من جاء بہ فطرحہ بین اسنتنا ، رواہ اھل الکوفہ واھل البصرہ واھل الحجاز واھل الشام  وھو علم من اعلام النبوت ، لانہ خبر عن غیب لا یعلم الا من جھت علام الغیوب:

 ”امام ابوبکر الجصاص باغیوں سے قتال کے باب میں لکھتے ہیں کہ حضرت علیؓ نے ہتھیاروں کے ساتھ باغیوں کے خلاف جنگ کی تھی آپ کے ساتھ جلیل القدر صحابہ کرامؓ تھے جن میں بدری صحابہ بھی تھے۔ حضرت علیؓ ان باغیوں کے خلاف جنگ کرنے میں برحق تھے کسی نے آپ کی مخالفت نہیں کی سوائے اس باغی گروہ اور اس کے ہمنوا جن کا آپ نے مقابلہ کیا تھا اس معاملے میں وہ آپ کے مخالف تھے۔ جبکہ حضورﷺ نے حضرت عمارؓ سے فرمایا(تقتلک الفںٔة الباغية، تمھیں باغی گروہ قتل کرے گا)۔ یہ حدیث تواتر کی بنا پر خبر مقبول کا درجہ رکھتی ہے حتیٰ کہ معاویہ کو بھی اس کے انکار کی ہمت نہیں ہوئی۔ جب حضرت عبداللہؓ بن عمرو نے ان سے اسے بیان کیا اس موقع پر معاویہ نے صرف اتنا ہی کہا کہ ”عمارؓ کو دراصل اُس نے قتل کیا جو اُنھیں اپنے ساتھ لے کر آیا تھا(اشارہ حضرت علیؓ کی طرف ہے)اور پھر انھیں ہمارے نیزوں کے درمیان پھینک دیا “ :اس حدیث کو اہلِ کوفہ ،اہل بصرہ ،اہل حجاز اور اہل شام نے روایت کیا ہے یہ حدیث حضورﷺ کی نبوت کی نشانیوں میں سے ایک بڑی نشانی ہے کیونکہ یہ آئندہ رونما ہونے والے واقعہ کے متعلق اطلاع ہے جس کا علم صرف علام الغیوب کی طرف سے اُس کے نبیﷺ کو دیا گیا تھا۔“

 

امام اہلسنت امام کمال الدین حنفی لکھتے ہیں:

 قَالَ كَمَالُ الدِّيْنِ بْنُ الْهُمَامِ الْحَنَفِيُّ فِي شَرْحِ فَتْحِ الْقَدِيْرِ: (قَوْلُهُ: وَالْحَقُّ كَانَ بِيَدِ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ فِي نَوْبَتِهِ) هَذَا تَصْرِيحٌ بِجَوْرِ مُعَاوِيَةَ، وَالْمُرَادُ فِي خُرُوْجِهِ لَا فِي أَقْضِيَتِهِ،۔ ۔۔۔۔۔ وَاسْتَقْضَى مُعَاوِيَةُ أَبَا الدَّرْدَاءِ بِالشَّامِ وَبِهَا مَاتَ.... وَإِنَّمَا كَانَ الْحَقُّ مَعَهُ فِي تِلْكَ النَّوْبَةِ لِصِحَّةِ بَيْعَتِهِ وَانْعِقَادِهَا فَكَانَ عَلَى الْحَقِّ فِي قِتَالِ مُعَاوِيَةَ بِصِفِّينَ. وَقَوْلُهُ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ لِعَمَّارٍ: سَتَقْتُلُكَ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ. وَقَدْ قَتَلَهُ أَصْحَابُ مُعَاوِيَةَ يُصَرِّحُ بِأَنَّهُمْ بُغَاةٌ.

 امام کمال الدین الحنفی اپنی کتاب ’’شرح فتح القدیر‘‘ میں لکھتے ہیں: صاحبِِ ھدایہ کا یہ کہنا کہ [حق خلافت کے معاملے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا] یہ معاویہ کے ظالم حکمران ہونے پر تصریح ہے۔ یہاں ظلم سے مراد ان کا خلیفہ راشد (سیدنا علی رضی اللہ عنہ ) کے خلاف خروج کرنا ہے نہ کہ ان کا تمام فیصلوں میں راہِ عدل سے منحرف ہونا۔۔ ۔۔ امیر معاویہ نے حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے شام کا منصبِ قضاء (یعنی چیف جسٹس) کا عہدہ سنبھالنے کی درخواست کی تھی۔ (وہ ایک عادل قاضی تھے، ساری عمر منصبِ قضا پر فائز رہے) اور ان کا وصال ملک شام میں ہی ہوا۔۔ ۔۔ سیدنا علی علیہ السلام کا حق پر ہونے کا معنی یہ ہے کہ خلافت کی (چوتھی) مدت میں سیدنا علی علیہ السلام کی بیعت درست ہونے کے اعتبار سے اِستحقاقِ خلافت سیدنا علی علیہ السلام ہی کا تھا۔ لہٰذا حضرت علی المرتضیٰ علیہ السلام معاویہ کے مقابلے میں صفین کے معرکہ میں حق پر تھے۔ نیز حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو فرمانا - ’اے عمار! تمہیں باغی گروہ شہید کرے گا‘ - اس معرکے میں حق و باطل کے تعین میں واضح دلیل ہے۔ کیوں کہ انہیں معاویہ کے ساتھیوں نے ہی شہید کیا تھا۔ یہ فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس بات کی تصریح کرتا ہے کہ وہ لوگ باغی تھے۔

 

امام اہلسنت امام ابن ماجہ حنفی فرماتے ہیں:

 وَقَالَ ابْنُ مَازَةَ الْحَنَفِيُّ: وَكَذَلِكَ مَنْ قُتِلَ فِيْ قِتَالِ أَهْلِ الْبَغْيِ، لَأَنَّهُ إِنَّمَا حَارَبَ لإِعْزَازِ دِيْنِ اللهِ تَعَالَى، فَصَارَ كَالْمُحَارِبِ مَعَ أَهْلِ الْحَرْبِ، وَقَدْ صَحَّ أَنَّ عَمَّارَ بْنَ يَاسِرٍ رضی اللہ عنہ قُتِلَ بِصِفِّيْنَ، فَقَالَ: لَا تَنْزِعُوْا عَنِّيْ ثَوْبًا، وَلَا تَغْسِلُوْا عَنِّيْ دَمًا، وَارْمَسُوْنِيْ فِي التُّرَابِ رَمْسًا، فَإِنِّيْ رَجُلٌ مُحَاجٌّ أُحَاجُّ مُعَاوِيَةَ رضی اللہ عنہ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَزَيْدُ بْنُ صَوْحَانَ رضی اللہ عنہ قُتِلَ يَوْمَ الْجَمَلِ فَقَالَ: لَا تَنْزِعُوْا عَنِّيْ ثَوْبًا، وَلَا تَغْسِلُوْا عَنِّيْ دَمًا، فَإِنِّيْ مُخَاصِمُهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَة، وَعَنْ صَخْرِ بْنِ عَدِيٍّ أَنَّهُ قَتَلَهُ مُعَاوِيَةُ، وَكَانَ مُقَيَّدًا فَقَالَ: لَا تَنْزِعُوْا عَنِّيْ ثَوْبًا، وَلَا تَغْسِلُوْا عَنِّيْ دَمًا، فَإِنِّيْ وَمُعَاوِيَةُ مُلْتَقِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى الْجَادَّةِ.

جو شخص باغیوں کے ساتھ لڑتے ہوئے شہید کر دیا گیا تو اس کا بھی یہی حکم ہے (کہ اسے غسل نہیں دیا جائے گا)۔ چونکہ اُس نے فقط دینِ الٰہی(اسلام)کے غلبہ کی خاطر جنگ کی ہے، سو وہ اہل حرب کے ساتھ لڑنے والوں کی طرح ہو گیا، اور حدیث صحیح میں ہے کہ حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ جنگِ صفین میں شہید کر دیئے گئے، لہٰذا انہوں نے(شہادت پانے سے قبل) فرمایا: مجھ سے میرا لباس جدا کرنا اور نہ ہی میرے بدن سے خون دھونا اور مجھے اسی حالت میں مٹی میں دفن کر دینا، کیونکہ میں قیامت کے دن معاویہ کے ساتھ جھگڑا کروں گا، اسی طرح حضرت زید بن صوحان رضی اللہ عنہ جب جنگ جمل میں قتل کیے گئے تو اُنہوں نے فرمایا: مجھ سے میرا لباس جدا کرنا اور نہ ہی میرے بدن سے خون دھونا، میں قیامت کے دن اُن کے ساتھ جھگڑوں گا، اسی طرح حضرت حجر بن عدی رضی اللہ عنہ کے متعلق منقول ہے کہ امیر معاویہ نے انہیں شہید کیا اس حال میں کہ وہ پابند سلاسل تھے۔(شہادت سے قبل) اُنہوں نے بھی فرمایا: مجھ سے میرا لباس جدا کرنا اور نہ ہی میرے بدن سے خون دھونا، کہ میں اور معاویہ میدان حشر میں ملاقات کریں گے۔(ابن مازة في المحيط البرهاني في فقه النعماني، 2:161)

 

امام الزرکشی فرماتے ہیں:

قال الزركشي وهذا الحديث احتج به الرافعي لإطلاق العلماء بأن معاوية ومن معه كانوا باغين ولا خلاف أن عمار كان مع علي رضي الله عنه وقتله أصحاب معاوية.(توضیح الافکار لمعانی تنقیح الانظار جلد 2 ص257 تحت مسالۃ 63 معرفہ الصحابہ)

ترجمہ: اس حدیث (حدیثِ عمار) کا اطلاق علماء نے اس پر کیا ہے کہ جناب معاویہ اور جو ان کے ساتھ تھے سب باغی تھے اور عمار رضی اللہ عنہ حصرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے اور معاویہ کے گروہ نے ان کو شہید کیا۔

شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ اپنی معروف کتاب "تکمیلِ ایمان ص ١٧٧" پر فرماتے ہیں :"علمای اهل سنت معتقدند همه ادله امیر معاویه را باید به قیام و هجرت علیه خلیفه برحق حضرت علی نسبت داد، عمار به دست گروه شورشی کشته شد، عمار آنها را به سوی خدا می خواند و آنها را به سوی خدا می خواند. آتش جهنم

ای عمار، تو را گروهی شورشی به شهادت میرسانند، عمار، آنها را به بهشت ​​میخوانی و آنها تو را به جهنم میخوانند.

 علمائے اہل سنت کا مسلک ہے امیر معاویہ کے تمام مجادلات خلیفہ بر حق حضرت علی کے خلاف بغاوت و خروج پر محمول کیے جائیں اس بات کی دلیل حدیثِ عمار بن یاسر ہے جو تواتر کے ساتھ شہرت رکھتی ہے جس میں رسول اللہ نے فرمایا ""وقال ويح ‏عمار ‏‏تقتله الفئة‏ ‏الباغية ‏عمار‏ ‏يدعوهم إلى الله ويدعونه إلى النار"" اے عمار تمہیں ایک باغی گروہ شہید کریگا عمار تم انہیں جنت کی طرف بلاؤ گے اور وہ تمھیں جہنم کی طرف بلاتے ہونگے:

 

امام صفی الرحمان مبارکپوری فرماتے ہیں:

 الْمُرَادُ بِالْفِئَةِ أَصْحَابُ مُعَاوِيَةَ وَالْفِئَةُ الْجَمَاعَةُ وَالْبَاغِيَةُ هُمُ الَّذِينَ خَالَفُوا الْإِمَامَ وَخَرَجُوا عَنْ طَاعَتِهِ بِتَأْوِيلٍ بَاطِلٍ وَأَصْلُ الْبَغْيِ مُجَاوَزَةُ الْحَد(تحفہ الاحوذی تحت رقم 3800)

ترجمہ: جماعت باغیہ سے مراد معاویہ اور معاویہ کے ساتھیوں کی جماعت ہے جنہوں نے امامِ وقت کے خلاف خروج کیا اور وہ بھی باطل تاویل کی بنا پر اور دراصل یہ بغاوت تھی جو اپنی حدود سے تجاوز تھا ۔

حضرت امام ابن عابدین شامی رقطراز ہیں:

لولا علي رضي الله عنه ما دربنا القتال مع أهل القبلة،وكأن علي و من ثبعه من اهل العدل وخصمه من اهل البغي:

اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ نا ہوتے تو ہم جان نا پاتے کہ اہل قبلہ باغیوں سے جنگ کس طرح کی جاتی ہے حضرت علی اور آپ ساتھی اہل عدل تھے جب کہ آپ کے تمام مخالفین باغی تھے۔(حاشیہ ابن عابدین شامی، کتاب الجھاد، ص 614)

 

امام آلوسی فرماتے ہیں:

الفئة الباغية كما أمرني الله تعالى- يعني بها معاوية ومن معه الباغي(تفسیر روح المعانی تحت آیت 5 سورہ الحجرات) ترجمہ: معاویہ اور ان کے ساتھ باغی گروہ تھا۔

 

 

Ahlus Sunnah wa’l Jamaah

 

The Ahlus Sunnah wa’l Jamaah believe that it is indeed permissible to call the Prophet (may Allah bless him and grant him peace) as ‘Noor of Allah’. The Qur’an has itself applied this description to the Prophet (may Allah bless him and grant him peace) and so have overwhelming ahadith.

However, it is often at this point that those who oppose this view believe from some erroneous conviction that we deem the Prophet (may Allah bless him and grant him peace) as a non-human. This is indeed a strange and gross accusation. For those who claim that he was not a human, have clearly ventured out of the bounds of Islam, and have entered into kufr. The belief of Ahlus Sunnah wa’l Jamaah is that our Noble Prophet Muhammad (may Allah bless him and grant him peace) is Noor and Human

No doubt, Prophet [salehalawaalihi wasalam] Was a human being , No one rejects that Prophet [salehalawaalihi wasalam] was not a human being, but Prophet [salehalawaalihi wasalam] was also Noor and Allah created it before He created Adam. The Noor of Prophet [salehalawaalihi wasalam] is not part of Allah [naoozbila] but a seperate creation which Allah created ,, This is belief of Sunnis
Muslims don’t take Him as God ,,

If being Noor means God than see how many become God according to Quran/hadiths ,

Noor of Muhammad (
صلى الله عليه وآله وسلم)
Indeed, there has come to you from Allâh a noor (Prophet Muhammad (
صلى الله عليه وآله وسلم)) and a plain Book (this Qur’ân). (5:15)
Noor of Muslims


Quran 39:22.
 Is he whose breast Allâh has opened to Islâm, so that he is in noor from His Lord

Quran 24:40 And he for whom Allâh has not appointed noor, for him there is no noor
Quran 57:13.
On the Day when the hypocrites men and women will say to the believers: “Wait for us! Let us get something from your noor…….!”


Noor of Sun, Star, Moon

quran 10:5. It is He Who made the sun a shining thing and the moon as a noor….
Quran 25: 61.
 Blessed be He Who has placed in the heaven big stars, and has placed therein a great lamp (sun), and a moon giving noor.
Quran 71:16
. And has made the moon a noor therein, and made the sun a lamp?

Noor of angels (malaikah)

Sahih Muslim Book 42 Hadith 7134
‘A’isha reported that Allah’s Messenger (may peace be upon him) said: 
The Angels were born out of light,
These All noors are different from one another. And cannot be compared, Are creations created by Allah, They are also physical and literal ,,So its what Quran and hadiths say, therre is no exaggeration

Objection 1 : Is Noor e Muhammad (saw) Noor of God or God  ???

Reply: Noor from Allah doesnt means literal part of Allah (swt), his son or relatives, naoozbila, this is shirk to think,

Aqeeda of ahle sunnah on this issue,

NOOR E MUHAMMAD (صلى الله عليه وآله وسلم) was not created from Zaat of Allah (naoozbila) , This is shirk to think that it was created from Zaat of Allah,

Quran says, 6:73 It is He Who has created the heavens and the earth in truth, and on the Day (i.e. the Day of Resurrection) He will say: “Be!”, – and it shall become.,
Hence Allah willed and created Noor e Muhammad (saleh ala waalihi wasalam) as a creation( not from his own zaat) 
, and from that HE created the rest of universe as explained in proof 43 and many others from this creation , Noor e Muhammad (saw) is a creation of Allah and Allah is highest and creator, nothing is close to Allah in status ,, Allah says about Adam (aleh islam ) He was Ruh Allah  ,Then when
I had formed him and have breathed into him of My special esteemed spirit, then fall down for him prostrate.( Quran al hijr V29) ,

Here Roh Allah means Ruh was created by order of Allah and breathed into Adam ,same is case with Noor e Muhammad (Peace Be Upon Him)

__________________

In Light of Quran

1.   The Prophet (صلى الله عليه وسلم) is the Light of Allah, something a believer can say because the Qur’an affirms it in the verse. يَا أَهْلَ الْكِتَابِ قَدْ جَاءَكُمْ رَسُولُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ كَثِيرًا مِّمَّا كُنْتُمْ تُخْفُونَ مِنَ الْكِتَابِ وَيَعْفُواْ عَن كَثِيرٍ قَدْ جَاءَكُم مِّنَ اللّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُّبِينٌ
“O people of the Book! There hath come to you our Messenger, revealing to you much that ye used to hide in the Book, and passing over much (that is now unnecessary). 
There hath come to you from Allah a (new) light and a perspicuous Book (Qur’an 5:15).


The great Mufasir of Quran Allama Alusi (rah) writes under this ayah:

عظيم وهو نور الأنوار والنبـي المختار صلى الله عليه وسلم
Translation: He is the great
 Light upon Lights (Noor al Anwaar) and Nabi al-Mukhtar (i.e. given power by Allah to make Laws) [Al-Alusi in Ruh al Ma’ni under 5:15]

There is a notable explanation among Ahl al-Sunna which ascribes the meaning of the Prophet to both the Light and the Book. al-Sayyid al-Alusi said  in Ruh al-ma`ani: “I do not consider it far-fetched that what is meant by both the Light and the Manifest Book is the Prophet, the conjunction being in the same way as what was said by al-Jubba’i [in that that both the Light and the Book were the Qur'an]. There is no doubt that all can be said to refer to the Prophet. Perhaps you will be reluctant to accept this from the viewpoint of expression (`ibara); then let it be from the viewpoint of subtle allusion (ishara).” [Tafsir Ruh al-Ma`ani, Volume 006, Page No. 97-8] Imam al-Sayyid Mahmud Alusi, Tafsir Ruh al-Ma`ani, Publish Dar al Ihya al-Turath al-Arabi, Beirut, Lebanon Volume 006, Page No. 97-8

Allama Alusi (rah) also said:وكونه صلى الله عليه وسلم رحمة للجميع باعتبار أنه عليه الصلاة والسلام واسطة الفيض الإلهي على الممكنات على حسب القوابل، ولذا كان نوره صلى الله عليه وسلم أول المخلوقات، ففي الخبر ” أول ما خلق الله تعالى نور نبيك يا جابر ” وجاء ” الله تعالى المعطي وأنا القاسم ” وللصوفية قدست أسرارهم في هذا الفصل كلام فوق ذلك، 
Translation: “The Prophet being a mercy to all is linked to the fact that he is the intermediary of the divine outpouring over all contingencies [i.e. all created things without exception], from the very beginnings (wasitat al-fayd al-ilahi `ala al-mumkinat `ala hasab al-qawabil), 
and that is why his light was the first of all things created, as stated in the report that “The first thing Allah created was the light of your Prophet, O Jabir,” and also cited is: “Allah is the Giver and I am the Distributor.” The Sufis — may Allah sanctify their secrets — have more to say on that chapter.” [Tafsir Ruh al-Ma`ani, Volume 017, Page No. 105]


Imam Alusi Imam al-Sayyid Mahmud Alusi, Tafsir Ruh al-Ma`ani, Publish Dar al Ihya al-Turath al-Arabi, Beirut, Lebanon Volume 017, Page No. 105

 قَدْ جاءَكُمْ مِنَ الله نُورٌ وكِتابٌ مُبِـينٌ
 
In which the word Light has been explained by a number of other classic Scholars as follows: Imam Jalal al-Din al-Suyuti on This Verse:
هو النبي صلى الله عليه وسلم

Translation: It is the Prophet (Allah bless him and give him peace)” (Tafsir al-Jalalayn, 139).

Imam Ibn al-Jawzi on this Verse:
يعني بالنور: النبي محمداً صلى الله عليه وسلم
Translation: 
The meaning of Noor is: The Prophet Muhammad (Peace upon him) [Z'ad al Maseer fil Ilm at-Tafseer Under the verse 5:15]

(Imam Qurtubi) and Mawardi (al-Nukat wa al-‘uyun, 2.22) mention that interpreting Noor as “Muhammad” (Allah bless him and give him peace) was also the position by [the Imam of Arabic grammar Ibrahim ibn Muhammad] al-Zajjaj (d. 311/923). [Ahkam al-Qur’an, 6.118]
(Fakhr al-Razi “There are various positions about it, the first being that the Light is Muhammad, and the Book is the Qur’an ” (al-Tafsir al-kabir, 11:194).
Among the scholars who said : “What is meant by a Light is: Muhammad, Blessings and peace upon him.” are

►Suyuti in Tafsir al-Jalalayn,
►Fayruzabadi in the Tafsir Ibn `Abbas entitled Tanwir al-miqbas (Page 72)

►Shaykh al-Islam, Imam Fakhr al-Din al-Razi, the Mujaddid of the sixth century, in his Tafsir al-kabir (11:189)
►Imam al-Shirbini in his Tafsir entitled al-Siraj al-munir (p. 360), the author of Tafsir Abi Sa`ud (4:36)
►Thana’ullah Pani Patti in his Tafsir al-mazhari, (3:67)

Nabuwat was Wajib upon Nabi Sallallahu alihi wa sallam before existence of Adam (A.S) حدثنا ‏ ‏أبو همام الوليد بن شجاع بن الوليد البغدادي ‏ ‏حدثنا ‏ ‏الوليد بن مسلم ‏ ‏عن ‏ ‏الأوزاعي ‏ ‏عن ‏ ‏يحيى بن أبي كثير عن ‏ ‏أبي سلمة ‏ ‏عن ‏ ‏أبي هريرة ‏ ‏قال ‏قالوا يا رسول الله متى وجبت لك النبوة قال ‏ ‏وآدم ‏ ‏ بين الروح والجسد  قال ‏ ‏أبو عيسى ‏ ‏هذا ‏ ‏حديث حسن صحيح غريب

Narrated Abu Hurraira (ra) that he asked the Prophet (saw): When did Nabuwah become Wajib upon you? (The Prophet) said: When Adam was between Spirit and body
► Sunnan Tirimdhi Volume 2 Page 201, Chapter of Merits Hadith No. 3688 – Imam Tirimdhi declared it Hassan Sahih Gharib. Scanned Page

https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEixKHjWxCjh75iOuw2b1rTzT9tzNuWLgdCPrHDz19wUi8q2xGUiFUM_oINgVxx-ISbFQRb8eUFg8BApIDS3N0yJ2Xw_WNfVcW0jPDE9He69AMLjcIBiXsdubZ-QY8LplsNBxUaXXBXXFg8/w507-h640/image.png

Volume 2 Page 201, Chapter of Merits Hadith No. 3688

https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiraHIuKrNaMjLDDscvhJ0WhILGvdmTZvQ61z-zHSga2f9vG4nHUS1R6UK25NdbNkuvgatLLR3U2Inz2CCkvXslaxXHbMW_r0t2PDVKz8cH-vfDejE5FYlRsUKpMcRsE-bUAzE0LhgC1w8/w515-h317/image.png



2. The Parable of Allah’s Noor is Noor of Muhammad (Allah bless him and give him peace)
Quran states:

اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ  دُرِّيٌّ يُوقَدُ مِن شَجَرَةٍ مُّبَارَكَةٍ زَيْتُونَةٍ لَّا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةٍ يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِيءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ نُّورٌ عَلَى نُورٍ يَهْدِي اللَّهُ لِنُورِهِ مَن يَشَاءُ وَيَضْرِبُ اللَّهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ

Allah is the Light of the heavens and the earth. The “Parable” of His Light is as if there were a Niche and within it a Lamp: the Lamp enclosed in Glass: the glass as it were a brilliant star: Lit from a blessed Tree, an Olive, neither of the east nor of the west, whose oil is well-nigh luminous, though fire scarce touched it: Light upon Light! Allah doth guide whom He will to His Light: Allah doth set forth Parables for men: and Allah doth know all things. (Quran 24:35)
Qadhi Iyad (Rahimuhullah) explains 
“Parable” of Allah’s Noor in detail in his maginificent work of Seerah called Ash-Shifa.


و قال الله تعالى : الله نور السماوات والأرض مثل نوره كمشكاة فيها مصباح المصباح في زجاجة الزجاجة كأنها كوكب دري يوقد من شجرة مباركة زيتونة لا شرقية ولا غربية يكاد زيتها يضيء ولو لم تمسسه نار نور على نور يهدي الله لنوره من يشاء ويضرب الله الأمثال للناس والله بكل شيء عليم [ سورة النور / 24 : الأية 35 ] .
قال كعب ، و ابن جبير : المراد بالنور الثاني هنا محمد عليه السلام و قوله تعالى مثل نوره أي نور محمد صلى الله عليه و سلم .
و قال سهل بن عبد الله : المعنى : الله هادي أهل السموات و الأرض ، ثم قال : مثل نور محمد إذ كان مستودعاً في الأصلاب كمشكاة صفتها كذا ، و أراد بالمصباح قلبه ، و بالزجاجة صدره ، أي كأنه كوكب دري لما فيه من الإيمان و الحكمة يوقد من شجرة مباركة أي من نور إبراهيم . و ضرب المثل بالشجرة المباركة و قوله : يكاد زيتها يضيء أي تكاد نبوة محمد صلى الله عليه و سلم تبين للناس قبل كلامه كهذا الزيت
و قيل في هذه الآية غير هذا . و الله أعلم
و قد سماه الله تعالى في القرآن في غير هذا الموضع نوراً و سراجاً منيراً ، فقال تعالى : قد جاءكم من الله نور وكتاب مبين [ سورة المائدة / 5 : الآية 15]
و قال تعالى : إنا أرسلناك شاهدا ومبشرا ونذيرا * وداعيا إلى الله بإذنه وسراجا منيرا [ سورة الأحزاب / 33 : الأية 45 ـ 46 ]
Translation: Allah says: Allah is the light of the heavens and the earth;  a likeness of His light is as a niche in which is a lamp, the lamp is in a glass, (and) the glass is as it were a brightly shining star, lit from a blessed olive-tree, neither eastern nor western, the oil whereof almost gives light though fire touch it not– light upon light– Allah guides to His light whom He pleases, and Allah sets forth parables for men, and Allah is Cognizant of all things.(Surah Noor, 24. Ayah 35)Ka’b al-Ahbar (ra) and Ibn Jubayr (ra) said: By the second light He means Muhammad (Peace be upon him).Allah said “The Likness of his light” this refers to the Noor of Muhammad (Peace Be Upon Him)

Sahl bin Abdullah (ra) said that it means that Allah is the “guide” of creation in heavens and the earth, he then said:Like the Light of Muhammad (Peace be upon him) when it is lodged in the loins (of his forefathers) like a niche. By the Lamp he means his heart. The glass is his breast. It is as if it were a glittering star because of the belief and wisdom it contains, kindled from a blessed tree, i.e. from the light of Ibrahim (a.s). He makes a comparison with the blessed tree and He says: “Its oil would nearly shine” i.e. Muhammad (salallaho alaihi wasalam)’s prophecy is evident to the people even before he speaks just like the oil.

A lot more is said about this ayat, and Allah knows the best about it, elsewhere in the Quran Allah calls his Prophet (salallaho alaihi wasalam) a Light and a LIGHT GIVING LAMP. He says: “A Light and a clear book have come to you from Allah (5:15), Allah also says: “We sent you as a witness, a barrier or glad tidings and a warner, one who calls to Allah with his permission and a Light-giving Lamp (33:46)
►Ash-Shifa bi Tarif al Haquq al Mustafa, Page No. 6)

Imam Ibn Kathir (Rahimuhullah) says under this ayah
وقال شمر بن عطية: جاء ابن عباس إلى كعب الأحبار فقال: حدثني عن قول الله تعالى: { يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِىۤءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ } قال: يكاد محمد صلى الله عليه وسلم يبين للناس، ولو لم يتكلم أنه نبي؛ كما يكاد ذلك الزيت أن يضيء
Translation: Ibn Abbas (ra) went to Ka’b al-Ahbar (ra) and asked him to explain the Allah’s saying: {whose oil is well-nigh luminous}, Ka’b (ra) said: 
It is an (example of) Muhammad (صلى الله عليه وسلمi.e. He is evident to people as Prophet even if he had not declared his Nabuwah, just like the olive oil glows even without being lit.  ►Tafsir Ibn Kathir, Volume No.3, Page No. 490, under 24:35

Imam al-Baghwi (Rahimuhullah) explains:
فقال بعضهم: وقع هذا التمثل لنور محمد صلى الله عليه وسلم، قال ابن عباس لكعب الأحبار: أخبرني عن قوله تعالى: { مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ } فقال كعب: هذا مثل ضربه الله لنبيه صلى الله عليه وسلم، فالمشكاة صدره، والزجاجة قلبه، والمصباح فيه النبوة، توقد من شجرة مباركة هي شجرة النبوة، يكاد نور محمد وأمره يتبين للناس ولو لم يتكلم أنه نبي كما يكاد ذلك الزيت يضيء ولو لم تمسسه نار.
Translation: Some (scholars) said: 
This similitude refers to Noor of Muhammad (salallaho alaihi wasalam), Ibn Abbas (ra) asked Kab al-Ahbar (ra) to explain Similitude of Noor, at which he replied: Allah has mentioned his Prophet (Peace be upon him) as a parable in this ayah, Mishkat refers to the chest of Prophet (saw), Glass refers to his heart, and Misbah refers to his Nabuwah and the wording “whose oil is well-nigh luminous” means that even if Prophet (صلى الله عليه وسلم) had not declared himself a Prophet still his Noor would have glowed proving to people that he is a Nabi  ►Ma’lim at Tanzil by Imam Baghawi, Under 24:35)