وجہ تسمیہ :۔ قمری
تقویم (ہجری کیلنڈر) اسلامی سال کے ساتویں مہینہ کا نام رجب المرجب ہے اس کی وجہ
تسمیہ یہ ہے کہ رجب ترجیب سے ماخوذ ہے اور ترجیب کے معنی تعظیم کرنا ہے۔ یہ حرمت
والا مہینہ ہے اس مہینہ میں جدال و قتال نہیں ہوتے تھے اس لیے اسے "الاصم
رجب" کہتے تھے کہ اس میں ہتھیاروں کی آوازیں نہیں سنی جاتیں۔ اس مہینہ کو
"اصب" بھی کہا جاتا ہے کیوں کہ اس میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر رحمت و
بخشش کے خصوصی انعام فرماتا ہے۔ اس ماہ میں عبادات اور دعائیں مستجاب ہوتی ہیں۔
دور جہالت میں مظلوم، ظالم کے لئے رجب میں بددعا کرتا تھا۔ (عجائب المخلوقات)
ماہ رجب کی فضیلت
رجب ان چار
مہینوں میں سے ایک ہے جن کو قرآن کریم نے ذکر فرمایا ہے : اِنَّ عِدَّۃَ الشُّہُوْرِ عِنْدَ اللّٰہِ
اِثْنَا عَشَرَ شَھْرًا فِیْ کِتٰبِ اللّٰہِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ
الْاَرْضِ مِنْھَا اَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ ط ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ فَلَا
تُظْلِمُوْا فِیْھِنَّ اَنْفُسِکُمْ (پارہ ١٠، سورہ توبہ، آیت ٣٦)
ترجمہ :۔"بے
شک مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک بارہ مہینے ہیں اللہ کی کتاب میں جب سے اس نے
آسمان اور زمین بنائے ان میں چار حرمت والے ہیں یہ سیدھا دین ہے تو ان مہینوں میں
اپنی جان پر ظلم نہ کرو"۔ (کنز الایمان
)
ماہ رجب کی نسبت
اللہ پاک کی طرف ہے جیساکہ حضور اکرم
(ﷺ) نے ارشاد فرمایا:’’رجب شھر اللہ وشعبان شھری و رمضان شھر امتی
‘‘۔"رجب اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے اور شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان میری امت
کا مہینہ ہے۔"(جامع الاحادیث،جلد:۴،ص:۴۰۹/ ماثبت من السنۃ ص
١٧٠)
حضور اکرم ﷺ نے فرمایا
کہ ’’فضل شهر رجب على الشهور كفضل القرآن على سائر الكلام‘‘۔’’رجب کی فضیلت باقی مہینوں
پر ایسی ہے جیسی قرآن پاک کی فضیلت باقی تمام کلاموں(صحیفوں) پر ہے‘‘۔(مقاصد الحسنہ،ص:۳۰۶)
ایک اور جگہ نبی
کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و الہ و صحبہ وسلم نے یوں ارشاد فرمایا :۔ رجب کی فضیلت
تمام مہینوں پر ایسی ہے جیسے قرآن کی فضیلت تمام ذکروں (صحیفوں) کتابوں پر ہے اور
تمام مہینوں پر شعبان کی فضیلت ایسی ہے جیسی محمد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ و
الہ و صحبہ وسلم کی فضیلت باقی تمام انبیائے کرام پر ہے اور تمام مہینوں پر رمضان
کی فضیلت ایسی ہے جیسے اللہ تعالیٰ
کی فضیلت تمام (مخلوق) بندوں پر ہے۔(ما ثبت من السنہ ، ص ١٧٣)
رجب میں شب بیداری اور قیام
ماہ رجب کی پہلی،
پندرہویں اور ستائیسویں شب میں بیدار ہونا اور عبادات میں مشغول ہونا چاہئے۔ نیز
رجب کی پہلی جمعرات (نوچندی) کا روزہ رکھیں اور پہلی شب جمعہ میں قیام کریں۔ حضور
اکرم نور مجسم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا، پہلی شب جمعہ کو فرشتے
"لیلۃ الرغائب" (مقاصد کی رات) کہتے ہیں، جب اس رات کی اول تہائی گزر
جاتی ہے تو تمام آسمانوں اور زمینوں میں کوئی فرشتہ ایسا باقی نہیں رہتا جو کعبہ
یا اطراف کعبہ میں جمع نہ ہو جائے، اس وقت اللہ تعالیٰ تمام ملائکہ کو اپنے دیدار
سے نوازتا ہے اور فرماتا ہے مجھ سے مانگو جو چاہو، فرشتے عرض کرتے ہیں اے رب! عرض
یہ ہے کہ تو رجب کے روزہ داروں کو بخش دے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں انھیں بخش
دیا۔ (غنیۃ الطالبین صفحہ ٣٦٢)
اِلٰھِیْ تَعَرَّضَ لَکَ فِیْ ھٰذِہِ الَّیْلَۃَ
الْمُتَعَرِّضُوْنَ وَ قَصْدَکَ الْقَاصِدُوْنَ وَاَھْلُ فَضْلِکَ وَ مَعْرُوْفِکَ
الطَّالِبُوْنَ وَلَکَ فِیْ ھٰذِہِ الَّیْلَۃِ نَفَحَاتُ وَ جَوَائِزُ وَ عَطَایَا
وَ مَوَاھِبَ تَمُنُّ بِھَا عَلٰی مَنْ تَشَائُ مِنْ عِبَادِکَ وَتَمْنَعُھَا
مِمَّنْ لَّمْ تَسْبِقُ لَہ، الْعِنَایَۃُ مِنْکَ وَھَا اَنَا عَبْدُکَ
الْفَقِیْرِ اِلَیْکَ الْمُوَمِّلُ فَضْلُ وَ مَعْرُوْفِکَ فَاِنَّ کُنْتَ یَا
مَوْلَایَ تَفْضَلْتَ فِیْ ھٰذِہِ الَّیْلَۃِ عَلٰی اَحَدٍ مِّنْ خَلْقِکَ
وَجَدْتُ عَلَیْہِ بِعَائِدَۃٍ مِّنْ عَطْفِکَ فَصَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ
وَجُدْ عَلَیَّ بِفَضْلِکَ وَ مَعْرُوْفِکَ یَا رَبَّ الْعَالَمِیْنَ۔
یا الٰہی! اس رات
میں بڑھنے والے تیرے حضور میں بڑھے اور تیری طرف قصد کرنے والوں نے قصد کیا، اور
طالبوں نے تیری بخشش اور تیرے احسان کی امید رکھی، اس رات میں تیری طرف سے
مہربانیاں، عطیے اور بخششیں ہیں تو ہی ان پر احسان کرتا ہے جن کو چاہتا ہے اور جن
پر تیری عنایت نہ ہوگی ان سے روک لے گا( میں تیرا محتاج بندہ ہوں، تیرے فضل و کرم
کا امیدوار ہوں، میرے مولا! اس رات اگر تو کسی مخلوق پر فضل کرے اور اپنی عنایت سے
کسی کو نوازے تو سب سے پہلے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی آل پر رحمت
نازل فرما اور اپنے فضل و احسان سے مجھ پر نوازش فرما! یا رب العالمین) روایت ہے
کہ حضرت علی حیدر کرار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دستور تھا کہ آپ سال میں چار راتیں
ہر کام سے خالی کر کے عبادت کے لئے مخصوص فرمایا کرتے تھے۔ رجب کی پہلی رات،
عیدالفطر کی رات، عیدالاضحی کی رات اور شعبان کی پندرہویں شب۔ پھر ان راتوں میں یہ
دعا پڑھتے تھے۔
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ
مَصَابِیْحَ الْحِکْمَۃِ وَمَوَالِیَ النِّعْمَۃِ وَ مَعَادِنِ الْعِصْمَۃِ
وَاعْصِمْنِیْ بِھِمْ مِّنْ کُلِّ سُوْئٍ وَّلَا تَاْخُذْنِیْ عَلٰی غَرَّۃٍ
وَّلَا عَلٰی غَفْلَۃٍ وَّلَا تَجْعَدْ عَوَاقِبَ اَمْرِیْ حَسْرَۃً وَّ نَدَامَۃً
وَّارْضَ عَنِّیْ فَاِنَّ مَغْفِرَتِکَ لِلظَّالِمِیْنَ وَاَنَا مِنَ
الظَّالِمِیْنَ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ مَالَا یَضُرُّکَ واَعْطِنِیْ مَالَا
یَنْفَعْنِیْ فَاِنَّکَ الْوَسِیْعَۃُ رَحْمَۃَ الْبَدِیْعَۃُ حِکْمَۃُ
فَاعْطِنِیْ السَّعَۃَ وَالدَّعَۃَ وَالْاَمِنُ وَالصِّحَۃُ وَالشُّکْرُ وَالْمُعَافَاۃِ
وَالتَّقْوٰی وَالصَّبْرَ وَ الصِّدْقَ وَعَلَیْکَ وَعَلٰی اَوْلِیَائِکَ
اَعْطِنِیْ الْیُسْرَ مَعَ الْعُسْرِ وَالْاَمْنَ بِذَالِکَ اَھْلِیْ وَوَلَدِیْ
وَاِخْوَانِیْ فِیْکَ وَمِنْ وِّالْدَانِ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ
وَالْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ (ترجمہ) یا اللہ!
محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی آل پر درود اور رحمت بھیج، یہ لوگ حکمت و
دانائی کے چراغ ہیں، نعمتوں کے مالک ہیں، عصمت و پاکی کی کانیں ہیں، مجھے بھی ان
کے ساتھ ہر بدی سے محفوظ رکھ، غرور اور تکبر کے سبب مجھے نہ پکڑ، میرے انجام کو
حسرت و ندامت والا نہ بنا۔ تو مجھ سے راضی ہوجا، بے شک تیری مغفرت ظالموں کے لئے
ہے اور میں ظالموں میں سے ہوں۔ الہٰی مجھے وہ چیز عطا فرما جو تجھے ایذا نہیں
دیتی، اور مجھے وہ چیز بخش دے جو مجھے فائدہ دینے والی ہے، تیری رحمت وسیع ہے،
تیری حکمت نادر ہے اور عجیب ہے، مجھے راحت اور کشادگی عطا فرما، امن و تندرستی دے،
نعمت پر شکر کی توفیق دے، عافیت اور پرہیز گاری اور صبر عطا فرما ، اپنے اور اپنے
دوستوں کے نزدیک مجھے راست اور لطف و عنایت فرما، سختی کے بعد آسانی دے، میرے اہل
میرے فرزندوں اور میرے بھائیوں پر جو تیری راہ پر چلنے والے ہیں اور مسلمانوں کے
بیٹوں اور بیٹیوں پر مسلمان مرد اور عورتوں پر اپنی رحمت عام فرما دے اور سب کو
اپنی رحمت میں شامل فرما۔ آمین
رجب کے نفلی روزے اور جنت کے آٹھوں دروازے
حضرت نوح علی
نبینا علیہ الصلوۃ والسلام نے جب اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کفر و طاغوتی طاقتوں
کی تباہی کے لئے دعا کی اور اللہ تعالیٰ کا عذاب بصورت طوفان نازل ہونا شروع ہوا
اور اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کو کشتی میں اہل ایمان کے ساتھ سوار ہونے کا
حکم فرمایا تو وہ رجب کا مہینہ تھا
جب حضرت نوح علیہ السلام کشتی پر سوار ہوئے تو آپ نے روزہ رکھا ہوا تھا اور آپ کی ہدایت پر آپ کے ساتھیوں نے بھی روزہ رکھا تھا اس کی برکت سے کشتی چھ ماہ چلتی رہی اور دس محرم (یوم عاشورہ) کو " جودی پہاڑ" پر ٹھہری۔ اور جب کشتی سے اترے تو آپ اور آپ کے رفقائ نے اللہ کا شکر ادا کیا اور شکرانہ کا روزہ یوم عاشورا رکھا۔(ماثبت من السنۃ صفحہ ١٧٣)
سرکار غوث اعظم
رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کردہ طویل
حدیث نقل کرتے ہیں، کہ رجب کے روزوں
کا ثواب اس طرح ہوگا۔
ایک روزے کا
ثواب: اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور فردوس اعلیٰ۔
دو روزوں کا
ثواب: دو گنا اجر۔ ہر اجر کا وزن دنیا کے پہاڑوں کے برابر۔
تین روزوں کا
ثواب: گہری خندق کے ذریعے جہنم ایک سال مسافت جتنی دور ہوگی۔
چار روزوں کا
ثواب: امراض جذام، برص اور جنون سے محفوظ اور فتنہ دجال سے محفوظ۔
پانچ روزوں کا
ثواب: عذاب قبر سے محفوظ۔
چھ روزوں کا
ثواب: حشر میں چہرہ چودھویں کے چاند کی مانند۔
سات روزوں کا
ثواب: دوزخ کے سات دروازے بند۔
آٹھ روزوں کا
ثواب: جنت کے آٹھوں دروازے کھلیں گے۔
نو روزوں کا
ثواب: کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے قبر سے اٹھنا اور منہ جنت کی طرف۔
دس روزوں کا ثواب:
پل صراط کے ہر میل پر آرام دہ بستر فراہم ہوگا۔
گیارہ روزوں کا
ثواب: حشر کے دن عام لوگوں میں سب سے افضل ہوگا۔
بارہ روزوں کا
ثواب: اللہ تعالیٰ روز حشر دو جوڑے پہنائے گا جس کا ایک جوڑا ہی کل متاع دنیا سے
افضل اور قیمتی ہوگا۔
تیرہ روزوں کا
ثواب: روز حشر سایہ عرش میں خوان نعمت (انواع و اقسام) تناول کرے گا۔
چودہ روزوں کا
ثواب: روز حشر اللہ تعالیٰ کی خاص عطا، جو بصارت، سماعت، وہم و خیال سے ورائ ہوگی۔
پندرہ روزوں کا
ثواب: روز حشر موقف امان میں، مقرب فرشتے یا نبی یارسول مبارک باد دیں گے۔
سولہ روزوں کا
ثواب: دیدار الہٰی اور ہمکلام ہونے والوں کی پہلی صف میں شمولیت
سترہ روزوں کا
ثواب: اللہ تعالیٰ پل صراط کے ہر میل پر آرامگاہ فراہم فرمائے گا۔
اٹھارہ رزوں کا
ثواب: حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قبہ میں قیام نصیب ہوگا۔
انیس روزوں کا
ثواب: حضرت آدم اور حضرت ابراہیم علیہما السلام کے محلات کے روبرو ایسے محل میں
قیام،جہاں اس کے سلام نیاز و عقیدت کا جواب دونوں نبی علیہما السلام دیں گے۔
بیس روزوں کا
ثواب: آسمان سے ند،ا مغفرت کا مژدہ۔ ان شاء اللہ تعالیٰ و ان شاء الرسول صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم (غنیۃ الطالبین صفحہ ٣٥٢)
٭حضرت عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انھوں نے فرمایا
"جس نے اپنے مسلمان بھائی سے رجب کے مہینے میں (جو اللہ کا ماہ
"اصم" ہے)غم دور کیا تو اللہ اس کو فردوس میں نگاہ کی رسائی کے بقدر (حد
نظر تک) وسیع محل مرحمت فرمائے گا، خوب سن لو! تم ماہ رجب کی عزت کرو گے اللہ تعالیٰ
تمہیں ہزار درجہ بزرگی عطا فرمائے گا۔" (غنیۃ الطالبین صفحہ ٣٥٥)
٭حضرت عقبہ رحمۃ اللہ علیہ بن سلامہ بن قیس نے مرفوعا روایت کی ہے
کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے ماہ رجب میں صدقہ دیا تو
اللہ تعالیٰ اس کو جہنم سے اتنا دور کر دے گا جتنا کوا ہوا میں پرواز کر کے اپنے
آشیانہ سے اس قدر دور ہو جائے کہ اڑتے اڑتے بوڑھا ہو کر مر جائے۔بیان کیا جاتا ہے
کہ کوے کی عمر پانچ سو سال ہوتی ہے) غنیۃ الطالبین
صفحہ ٣٥٥)
حضرت سلمان فارسی
رضی اللہ عنہ نے کہا حضور علیہ الصلوۃ والسلام ارشاد فرماتے ہیں، جس نے رجب میں
کچھ بھی خیرات کی اس نے گویا ہزار دینار خیرات کئے اللہ تعالیٰ اس کے بدن کے ہر
بال کے برابر نیکی لکھے گا اور ہزار درجہ بلند فرما کر ہزار گناہ مٹا دے گا۔ (غنیۃ
الطالبین صفحہ ٣٥٧)
روزہ افطار کرنے کے بعد یہ دعا پڑھیں:۔
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ
بِرَحْمَتِکَ الَّتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْئٍ اَنْ تَغْفِرَلِیْ
الہٰی میں تجھ سے
تیری رحمت کے صدقے میں جو تمام چیزوں پر محیط ہے، تجھ سے مغفرت کا طلب گار ہوں۔
حضرت خواجہ حسن
بصری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے ایک مرسل روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ
علیہ و الہ و صحبہ وسلم نے فرمایا
" بے شک رجب عظمت
کا مہینہ ہے اس میں نیکیاں دگنی کی جاتی ہیں
جس نے اس کے ایک
دن کا روزہ رکھا وہ سال بھر کے روزے کے برابر ہے" ۔(جامع الاصول)
امام بیہقی علیہ
الرحمہ نے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کیا اور
کہا کہ اس کا مرفوع ہونا منکر ہے۔"
رجب بڑا مہینہ ہے
اللہ تعالیٰ اس میں نیکیاں دوچند کر دیتا ہے پس جس نے رجب میں ایک دن کا روزہ رکھا
گویا اس نے سال بھر روزہ رکھا اور جس نے اس میں سات دن روزے رکھے تو اس سے جہنم کے
ساتوں دروازے بند کر دیئے جائیں گے اور جس نے اس کے آٹھ دن روزے رکھے تو اس کے لیے
جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیئے جائیں گے اور جس نے اس کے دس دن روزے رکھے تو وہ
اللہ تعالیٰ سے جو مانگے گا ضرور عطا فرمائے گا اور جس نے اس کے پندرہ دن کے روزے
رکھے تو آسمان سے منادی پکارے گا تیرے گذشتہ تمام گناہ بخش دیئے گئے اب ازسر نو
عمل کر،جس نے زیادہ عمل کیے اسے زیادہ ثواب دیا جائے گا۔ (ما ثبت من السنۃ
، ص ١٧١۔١٧٠)
حدیث شریف کے
مطابق "رجب المرجب" اللہ کا مہینہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جل
مجدہ نے اپنے محبوب سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی حسن الوہیت و
ربوبیت کی جلوہ گاہوں میں ستائیس (٢٧) رجب کی شب بلوا کر "معراج شریف"
سے مشرف فرمایا۔ ستائیسویں شب میں آقائے دو جہاں علیہ الصلوۃ والسلام حضرت ام ہانی
رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے مکان (واقع بیت اللہ شریف کی دیواروں موسوم مستجار اور
مستجاب کے کارنر رکن یمانی کے سامنے) میں تشریف فرما تھے اور یہیں حضرت جبرئیل
امین علیہ السلام ستر یا اسی ہزار ملائکہ کی رفاقت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے، اس موقع پر حضرت جبرئیل علیہ السلام اور
حضرت میکائیل علیہ السلام کے ذمہ اللہ تعالیٰ نے یہ کام سونپے کہ میرے محبوب کو
براق پر سوار کرانے کے لئے اے جبرئیل تمہارے ذمہ رکاب تھامنا اور اے میکائیل
تمہارے ذمہ لگام تھامنا ہے۔
سند المفسرین
امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے"
حضرت جبرئیل علیہ
السلام کا براق کی رکاب تھامنے کا عمل، فرشتوں کے سجدہ کرنے سے بھی افضل ہے۔"(تفسیر
کبیر جلد دوم صفحہ نمبر ٣٠١ مطبوعہ مصر)
مکتبہ حقانیہ پشاور کی بددیانتی:۔ امام رازی
رحمۃ اللہ علیہ کی متذکرہ تفسیر کبیر کا حوالہ مصری نسخہ سے پیش کیا گیا ہے،جب کہ
مکتبہ حقانیہ پشاور جسے علمائے دیوبند کی سرپرستی حاصل ہے نے تفسیر کبیر
شائع کی ہے۔ اس کی جلد دوم صفحہ ٤٤٥ میں عبارت میں تحریف کر کے یوں چھاپا ہے۔"ان جبرئیل علیہ
السلام اخذ برکاب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حتی ارکبہ علی البراق لیلۃ المعراج
و ھذا یدل علی ان محمدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم افضل منہ"
پہلی عبارت میں
حضرت جبرئیل علیہ السلام کی خدمت کو "سجود ملائکہ سے افضل" قرار دیا ہے،
جب کہ تحریف و بددیانتی کے بعد، "حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو
حضرت جبرئیل سے افضل" قرار دیا گیا ہے۔ حالانکہ یہ تو حقیقت ہے اس لئے کہ حضور
علیہ الصلوۃ والسلام "سید المرسلین" ہے لہذا"سید الملائکہ"
بھی ہیں حضرت جبرئیل سے افضل ہیں۔ اس میں کوئی کلام ہے ہی نہیں۔
اسلامی بھائیوں
اور بہنوں! جس طرح ہم ماہ ربیع الاول شریف میں جشن عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کا انعقاد کرتے ہیں ایسے ہی رجب شریف میں جشن معراج النبی صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کا انعقاد کریں مساجد و مدارس ہی نہیں بلکہ اپنے گھروں میں بھی چراغاں
کریں ، اجتماعات منعقد کریں، علمائے اہلسنّت کے مواعظ حسنہ (تقاریر) سننے کا
اہتمام کریں، اپنے گھر میں اہل خانہ خصوصاً بچوں کو لے کر ادب کے ساتھ بیٹھ کر
محفل منعقد کریں ، بچوں کو بتائیں کہ آج کی شب آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم لا مکاں کی اس منزل تک پہنچے جہاں مخلوق میں سے کسی کی رسائی نہیں اور بلا
حجاب اللہ تعالیٰ کا دیدار عطا ہوا، اللہ تعالیٰ کی بے شمار نشانیوں کو ملاحظہ
فرمایا، اللہ تعالیٰ جل شانہ کے اسمائ صفات کی تجلیات کے ظہور کے مقامات و طبقات
سے گذر کر ان ہی صفات سے متصف ہو کر اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کے مظہر ہوئے، جنت
و دوزخ کو ملاحظہ فرمایا، بعد از قیامت اور بعد از جزا سزا جو کچھ ہوگا آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا اور یہ کمال اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہمیشہ کے لیے عطا
فرمایا، یعنی اللہ سبحانہ و تعالیٰ عزوجل نے ماضی و مستقبل (جو کچھ ہو چکا اور جو
ہونے والا ہے ) کا علم عطا فرمایا جسے شرعی اصطلاح میں علم ما کان و ما یکون کہتے
ہیں ۔ امت کے لیے شفاعت کا حق حاصل کیا، شب معراج میں انبیائ و مرسلین علیہم
الصلوٰۃ و السلام اجمعین سے نہ صرف ملاقا ت کی بلکہ ان سب پر آپ اکی فضیلت واضح
کرنے کے لیے امامت عظمیٰ و کبریٰ کا منصب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کو عطا
ہوا۔ نماز کی فرضیت کا حکم اللہ تعالیٰ عزاسمہ نے خاص اپنی حسن الوہیت و ربوبیت کی
جلوہ گاہوں میں عطا کیا، اول پچاس نمازیں فرض ہوئیں پھر بتدریج کم ہوتے ہوتے پانچ
باقی رہیں۔ نماز کی فرضیت و اہمیت سے بچوں کو آگاہ کریں۔ خود بھی تلاوت قرآن کریں اور بچوں کو بھی ترجمہ
اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کنز الایمان کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت کا عادی بنائیں۔
معراج شریف سے متعلق مضامین والی آیات مقدسہ، سورئہ الاسرائ (بنی اسرائیل) اور
سورئہ النجم کی تلاوت ضرور کریں۔
واقعہ معراج شریف
سے متعلق بچوں کو بتائیں کہ یہ عقلوں کو دنگ کرنے والا سفر ایک لمحے میں ہوا۔
چلے جب عرش کی
جانب محمد تو ساکت ہوگئی تھی زندگی تک
نہ تھی دریا کی
موجوں میں روانی تھا ساکت ہر سمندر ہر ندی تک
زمیں نے چھوڑ دی
تھی اپنی گردش خلا میں انتظار روشنی تک
رہا کس طرح بستر
گرم ان کا محقق محو حیرت ہیں ابھی تک
عناصر زندگی کے
منجمد تھے شب اسریٰ میں ان کی واپسی تک
نہیں سائنس میں
ایسی مثالیں ازل کے روز سے پندرہ صدی تک
لیلۃ الرغائب کی
فضیلت :۔ شیخ عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے جامع الاصول کے حوالہ سے یہ حدیث
نقل کی ہے"حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ
تعالیٰ علیہ و الہ و صحبہ وسلم نے "لیلۃ الرغائب" کا تذکرہ فرمایا وہ
رجب کے پہلے جمعہ کی رات ہےیعنی جمعرات کا دن گزرنےکے بعد۔
اس رات میں مغرب
کے بعد بارہ رکعات نفل چھ سلام سے ادا کی جاتی ہے۔
ہر رکعت میں
سورئہ فاتحہ کے بعد سورئہ القدر تین دفعہ اور سورئہ اخلاص بارہ بارہ دفعہ پڑھے۔
نماز سے فارغ
ہونے کے بعد یہ درود شریف ستر (٧٠) مرتبہ پڑھے۔
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدِ نِ
النَّبِیِّ الْاُ مِّیِّ وَعَلٰی اٰلِہ وَاَصْحَابِہ وَسَلِّمْ ترجمہ:۔ اے اللہ!
رحمت فرما حضرت محمد بنی امی پر اور ان کی آل و اصحاب پر اور بھی اور سلامتی کا
نزول فرما۔
٭ پھر سجدہ میں جا کر ستر (٧٠) مرتبہ یہ پڑھے: سُبُّوْحٌ قُدُّوْسٌ رَبُّنَا وَ رَبُّ
الْمَلٰئِکَۃِ وَالرُّوْحِ ( پاک و مقدس ہے
ہمارا رب اور فرشتوں اور حضرت جبرئیل کا رب)
٭پھر سجدے سے سر اٹھا کر ستر بار یہ پڑھے:۔ رَبِّ اغْفِرْ وَ ارْحَمْ وَ تَجَاوَزْ
عَمَّا تَعْلَمُ فَاِنَّکَ اَنْتَ الْاَعَزُّ الْاَکْرَمْ(اے اللہ! بخش دے
اور رحم فرما اور تجاوز فرما اس بات سے جسے تو جانتا ہے بے شک تو بلند و برتر اور
عظیم ہے)
٭ پھر دوسرا سجدہ کرے اور اس میں وہی دعا پڑھے اور پھر سجدے میں جو
دعا مانگے گا قبول ہوگی۔ (ما ثبت من السنۃ ، ص ١٨١)
حضرت سلطان
المشائخ سے منقول ہے کہ جو شخص لیلۃ الرغائب کی نماز ادا کرے اس سال اسے موت نہ
آئے گی۔ (لطائف اشرفی/جامع ملفوظ: حضرت نظام یمنی علیہ الرحمہ جلد دوم ص
٣٤٣)
حافظ عراقی علیہ
الرحمہ اپنی تالیف" امالی" میں بحوالہ حافظ ابو الفضل محمد بن ناصر
سلامی علیہ الرحمہ سے ناقل ہیں
حضرت انس رضی
اللہ عنہ سے مرفوعاً یہ حدیث مروی ہے کہ "جس نے
رجب کی پہلی رات بعد مغرب بیس رکعات پڑھیں تو وہ " پل صراط" سے بجلی کی
مانند بغیر حساب و عذاب کے گزر جائے گا"۔(ما ثبت من السنۃ ص ١٨٣)
محبوب یزدانی
حضرت مخدوم سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس السرہ النورانی لکھتے ہیں
: "ماہ رجب کی پہلی شب میں نماز مغرب کے بعد بیس رکعت نماز ادا
کریں۔
اس کے ہر رکعت
میں سورہ فاتحہ کے بعد سورہ اخلاص پڑھیں۔ بیس رکعات مکمل ہونے کے بعد یہ کلمہ شریف
پڑھیں لاَ اِلٰہَ
اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہ، لَاشَرِیْکَ لَہ، مُحَمَّدٌ الرَّسُوْلُ اللّٰہِ اس کی بہت
فضیلت ہے۔(لطائف اشرفی جلد
دوم ،ص ٣٤٢)
رجب کی پندرہ
تاریخ میں مدد چاہنے کے لئے، اشراق کے بعددو دو رکعت سے (پچیس دفعہ میں) پچاس
رکعات نماز ادا کریں۔
اس کی ہر رکعت
میں فاتحہ کے بعد، سورۃ الاخلاص اورمعوذ تین پڑھیں اور پھر دعا کریں۔
یہ نماز ١٥ رجب
کے علاوہ ١٥ رمضان میں بھی ادا کی جاتی ہے۔ )لطائف اشرفی جلد
دوم صفحہ ٣٤٤(
رجب کی پندرہ
تاریخ میں مشائخ کا معمول رہا ہے کہ دس رکعات نماز ادا کیجئے۔ ہر رکعت میں فاتحہ
کے بعد تین بار اور دوسرے قول کے مطابق دس مرتبہ سورہ اخلاص پڑھیئے، جب نماز سے
فارغ ہوں تو سو (١٠٠) مرتبہ یہ تسبیح پڑھیں:
سبحان اللہ
والحمد للہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر (اللہ پاک ہے اور
تعریف اسی کے لئے ہے اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور اللہ ہی سب سے بڑا ہے)
تیرہ، چودہ اور
پندرہ (یعنی ایام بیض) رجب کی راتوں میں بیدار ہوں اور ان تینوں راتوں
میں ہر شب سو سو رکعات نماز ادا کریں (یعنی تینوں راتوں میں مجموعی طور پر تین سو (٣٠٠) رکعات ادا کریں)
ہر رکعت میں سورہ
فاتحہ ایک مرتبہ اور سورہ اخلاص دس مرتبہ پڑھیں
جب نماز سے فارغ
ہوں تو ایک ہزار مرتبہ استغفار پڑھیں۔
انشاء اللہ
تعالیٰ عزوجل زمانے کی جملہ بلاؤں اور آسمان کی آفتوں سے محفوظ رہیں گے
فلکی شر اور
زمینی خرابیوں سے سلامت رہیں گے
اگر ان راتوں میں
موت واقع ہو جائے تو شہید کا درجہ پائیں گے۔ (لطائف اشرفی جلد دوم صفحہ ٣٤٤)
٢٧
ویں شب کی خصوصی عبادات
سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ
الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِیَهٗ مِنْ اٰیٰتِنَاؕ-اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ﴿۱﴾ ترجمہ
:پاکی ہے اسے (منزّہ ہے اس کی ذات ہر عیب و نقص سے) جو اپنے بندے کو راتوں رات (محبوب محمد مصطفٰے ﷺ)
لے گیا (شبِ معراج)مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک(جس کا فاصلہ چالیس منزل یعنی سوا مہینہ
سے زیادہ کی راہ ہے)جس کے گرداگرد ہم نے برکت رکھی کہ ہم اسے اپنی عظیم نشانیاں دکھائیں
بیشک وہ سنتا دیکھتا ہے۔
حافظ
ابن حجر مکی علیہ الرحمہ کہتے ہیں ہمیں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً حدیث پہنچی
کہ " رجب میں ایک رات ہے جس میں عمل کرنے والے کے لیے سو برس کی نیکیاں لکھی جاتی
ہیں اور یہ رجب کی ٢٧ویں شب ہے اس میں بارہ رکعات دو دو کر کے ادا کریں پھر آخر میں
سُبْحَانَ اللّٰہِ وَ الْحَمْدُ
لِلّٰہِ وَ لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اللّٰہُ اَکْبَرُ سو
مرتبہ ، پھر استغفار سو مرتبہ ، پھر درود شریف سو مرتبہ پڑھ کر اپنے امور کی دعا مانگے
اور صبح کو روزہ رکھے تو اللہ تعالیٰ اس کی تمام دعائیں قبول فرمائے گا دوسری روایت
میں ہے کہ" اللہ تعالیٰ ساٹھ سال کے گناہ مٹا دے گا۔ اس روایت کو امام بیہقی علیہ
الرحمہ نے بھی ’’شعب الایمان‘‘ میں ابان سے اور انہوں نے حضرت سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا۔‘‘ "(ما ثبت من السنۃ ص ١٨٤/
شعب الإیمان، باب ۳ / ۳۷۴، حدیث:۳۸۱۲/فضائل الاوقات
للبیہقی،باب فی فضل شہر رجب،حدیث نمبر:12۔شعب الایمان للبیہقی،باب فی الصیام،تخصیص
شہر رجب بالذکر،حدیث نمبر:3651۔کنز العمال ، فضائل الازمنۃ والشہور ،حدیث
نمبر:35170-ماثبت بالسنۃ ،ص 70 ٬ جامع الأحادیث للسیوطی، حرف الفاء ، حدیث نمبر:
14812۔الجامع الکبیر للسیوطی، حرف الفاء ، حدیث نمبر :171۔تفسیر در منثور،زیر آیت
سورۂ توبہ ،36)
ستائیسویں رجب کی عبادات
٢٦
رجب کا روزہ
رکھیں مغرب سے قبل غسل کریں، اذان مغرب پر افطار کریں مغرب کی نماز ادا کریں پھر
ستائیسویں شب میں بیداررہیں۔ عشاء کے بعد دو رکعت نماز نفل ادا کریں اور ہر رکعت
میں الحمد شریف یعنی سورہ فاتحہ کے بعد سورہئ اخلاص اکیس مرتبہ پڑھیں۔
نماز سے فارغ ہو
کر مدینۃ المنورہ کی جانب رخ کر کے گیارہ مرتبہ درود شریف پڑھیں، پھر اس کے بعد یہ
دعا پڑھیں۔اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ
بِمُشَاھِدَۃِ اَسْرَارِ الْمُحِبِّیْنَ وَبِالْخِلْوَۃِ الَّتِیْ خَصَّصْتَ بِھَا
سَیِّدُ الْمُرْسَلِیْنَ حِیْنَ اَسْرَیْتَ بِہ لَیْلَۃِ السَّابِعِ
وَالْعِشْرِیْنَ اَنْ تَرْحَمَ قَلْبِیْ الْحَزِیْنَ وَ تُجِیْبُ دَعْوَتِیْ یَا
اَکْرَمَ الْاَکْرَمِیْنَ
تو اللہ تعالیٰ
شب معراج کے وسیلہ سے دعا قبول فرمائے گا، اورجب دوسروں کے دل مردہ ہو جائیں گے تو
ان کا دل زندہ رکھے گا جو یہ دعا پڑھیں گے۔(نزہۃ المجالس جلد اول صفحہ ١٣٠ فضائل
الایام والشہور، صفحہ ٤٠٣)
حضرت سیدنا سلمان
فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے حضور اکرم ﷺ
نے فرمایا کہ :’’رجب میں ایک دن اور رات ہے جو اُس دن روزہ رکھے اور رات کو قِیام
(عبادت )کرے تو گویا اس نے سو سال کے روزے رکھے ، سو برس کی شب بیداری کی اور یہ رجب کی ستائیس(27) تاریخ ہے۔‘‘(شعب الایمان جلد۳صفحہ
۳۷۴حدیث ۳۸۱۱)
سو سال کا روزے کا
ثواب
سیدنا سلمان فارسی
رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،آپ نے فرمایا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم
نے ارشاد فرمایا: رجب میں ایک ایسادن اور ایک ایسی رات ہے کہ جس نے اس دن روزہ رکھا
اور اس رات قیام کیا گویا اس نے سو 100 سال روزہ رکھا اور سو100 سال شب بیداری کی اور
وہ رجب کی ستائیسویں شب ہے۔(فضائل الاوقات للبیہقی ،حدیث نمبر11،کنز العمال ،حدیث نمبر:35169،
الجامع الکبیر للسیوطی، حرف الفاء ، حدیث نمبر: 172۔کنز العمال، حدیث نمبر: 35169۔
تفسیر در منثور،زیر آیت سورۂ توبہ :36)
رجب شریف کے روزے
رجب المرجب کے مہینے
میں روزے رکھنا بہت بڑا ثواب ہے، جیسا کہ اس بارے میں فرمانِ نبوی علیہ السلام ہےکہ’’رجب
اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے جس نے رجب کا ایک روزہ رکھا اس نے اپنے لیے اللہ تعالیٰ کی
رضا کو واجب کر لیا۔(مکاشفۃ القلوب،ص:۶۰۳)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتےہیں کہ حضور اکرم ﷺنے ارشاد فرمایاکہ:’’من صام يوم سبع
وعشرين من رجب كتب الله له صيام ستين شهرا‘‘۔’’جو شخص رجب کی ستائیسویں
(۲۷)تاریخ کو روزہ رکھے
گا اللہ تعالیٰ اسے ساٹھ (۶۰)مہینوں کے روزوں کا
ثواب عطا فرمائےگا ‘‘۔(احیاء علوم الدین،ج :۱ ،ص:۵۰۹)
حضرت عقبہ رحمۃ اللہ
علیہ بن سلامہ بن قیس نے مرفوعا روایت کی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جس نے ماہ
رجب میں صدقہ دیا تو اللہ تعالیٰ اس کو جہنم سے اتنا دور کر دے گا جتنا کوا ہوا میں
پرواز کر کے اپنے آشیانہ سے اس قدر دور ہو جائے کہ اڑتے اڑتے بوڑھا ہو کر مر جائے۔بیان
کیا جاتا ہے کہ کوے کی عمر پانچ سو سال ہوتی ہے۔(غنیۃ الطالبین صفحہ ٣٥٥)
حضرت سلمان فارسی
رضی اللہ عنہ نے کہا حضور علیہ الصلوۃ والسلام ارشاد فرماتے ہیں، جس نے رجب میں کچھ
بھی خیرات کی اس نے گویا ہزار دینار خیرات کئے اللہ تعالیٰ اس کے بدن کے ہر بال کے
برابر نیکی لکھے گا اور ہزار درجہ بلند فرما کر ہزار گناہ مٹا دے گا۔(غنیۃ الطالبین
صفحہ ٣٥٧)
ستائیس رجب
المرجب کے روزہ رکھنے کی فضیلت احادیث مبارکہ میں وارد ہے چنانچہ امام بیہقی سیدنا
سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں ،” فی رجب یو م و لیلۃ من صام
ذالک الیوم و قام تلک اللیلۃ کان کمن صام من الدھر مائۃ سنۃ و قام مائۃ سنۃ وھو
لثلاث بقین من رجب و فیہ بعث اللہ محمدا ” یعنی ،” رجب میں ایک رات اور دن ہے جو
اس دن روزہ رکھے اوروہ رات نوافل میں گزارے سو برس کے روزوں اور سو برس کی شب
بیداری کے برابر ہو او ر وہ ستائیس رجب ہے اسی تاریخ اللہ عزوجل نے محمد ؐ کو
مبعوث فرمایا” یہ روایت امام جلال الدین سیوطی شافعی علیہ الرحمۃ نے اپنی تفسیر ،
درمنثور ج٤ ص ١٨٦ اور امام اہلسنت اعلیٰحضرت احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن نے
فتاوی رضویہ ج٤ ص ٦٥٧ پر نقل فرمائی ۔ ایک اور روایت جسے جزء ابی معاذ مروزی میں
بطریق شہر ابن حوشب ابو ھریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے موقوفا روایت کیا کہ ”من صام
یوم سبع و عشرین من رجب کتب اللہ لہ صیام ستین شھرا وھو الیوم الذی ھبط فیہ جبریل
علی محمد ؐ بالرسالۃ” یعنی جو رجب کی ستائیسویں کا روزہ رکھے اللہ تعالیٰ اس کے
لئے ساٹھ مہنیے کے روزوں کا ثواب لکھے اور یہ وہ دن ہے جس میں جبرئیل علیہ الصلوٰۃ
والسلام محمد ؐ کے لئے پیغمبری لیکر نازل ہوئے ” ( فتاوی رضویہ ج٤ ص ٦٥٨)
60 مہینوں کا ثواب
حضرت سیدنا ابوہریرہ
رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ستائیسویں رجب کا
جو کوئی روزہ رکھے، اللہ تعالی ٰ اُس کیلئے ساٹھ مہینے کے روزوں کا ثواب لکھے۔ (فضائل
شہر رجب : للخلال صفحہ ۱۰)
صلو ۃ تسبیح کی
فضیلت اور طریقہ
چونکہ معراج میں صلوٰۃ التسبیح بھی پڑھی جاتی ہے
اسی لئے یہاں صلوٰۃ التسبیح کی فضیلت اور اس کا طریقہ بیان کیا جاتاہے ۔صلوٰۃ
التسبیح کا طریقہ یہ ہے کہ صلوٰۃ التسبیح کی نیت سے چاررکعت اس طرح اداکریں کہ
تکبیر تحریمہ اور ثناء کے بعد پندرہ مرتبہ یہ تسبیح پڑھے: سُبْحَانَ
اللَّہِ وَالْحَمْدُ لِلَّہِ وَلاَ إِلَہَ إِلاَّ اللّٰہُ وَاللّٰہُ أَکْبَر پھر
تعوذ،تسمیہ،سورہ فاتحہ اورختم سورہ کے بعد دس مرتبہ یہی تسبیح پڑھے‘ پھر رکوع کرلے
اور سبحان ربی العظیم کے بعد دس مرتبہ تسبیح پڑھے‘ رکوع سے سراٹھاکر تسمیع وتحمید
کے بعد قومہ میں دس بار تسبیح پڑھے‘ پھر پہلے سجدے میں سبحان ربی الاعلی کے بعد دس
مرتبہ تسبیح پڑھے اور دونوں سجدوں کے درمیان کے جلسہ میں دس مرتبہ تسبیح پڑھے‘ اور
دوسرے سجدہ میں بھی سبحان ربی الاعلی کے بعددس مرتبہ تسبیح پڑھے‘ اور دوسرے سجدے
سے کھڑے ہوکر سورہ فاتحہ پڑھنے سے پہلے پندرہ مرتبہ تسبیح پڑھے۔ تمام ارکان میں اس
طرح تسبیح پڑھنے سے ہر رکعت میں پچھتر اور چار رکعتوں میں تین سو تسبیحات ہوتے
ہیں۔اسی طرح چار رکعتیں مکمل کرکے سلام پھیر دے۔رات و دن میں ایک مرتبہ پڑھے یا ہفتہ
بھر میں ایک مرتبہ یا مہینہ میں ایک مرتبہ یا عمر بھر میں ایک مرتبہ پڑھے،ونیز
متبرک راتوں ،شب معراج،شب براء ت اور شب قدر میں بھی صلوۃ التسبیح کا اہتمام باعث
برکت وفضیلت ہے۔سنن ابوداؤدشریف میں حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادمبارک ہے
:فإنک لو کنت أعظم أہل الأرض ذنباً غفر لک بذلک.ترجمہ: اگرتمہارے
گناہ رؤے زمین کے باشندوں کے گناہوں سے بھی زیادہ ہوں گے تب بھی اللہ تعالی اس
نماز کی بدولت تمہارے گناہ بخش دے گا۔ (زجاجۃ المصابیح،ج 1، صلوٰۃ التسبیح،ص 371)
بغیر درود شریف
کے دعاء معلق رہتی ہے
دعاء میں اول وآخر درود شریف پڑھنا قبولیت کی
نشانی ہے‘ جامع ترمذی شریف میں سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، آپ نے
فرمایا :بیشک دعاء آسمان وزمین کے درمیان معلق رہتی ہے،اوپر نہیں جاتی جب تک کہ تم
اپنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت اقدس میں درودشریف نہ پڑھو۔عَنْ عُمَرَ بْنِ
الْخَطَّابِ قَالَ إِنَّ الدُّعَاءَ مَوْقُوفٌ بَیْنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ لاَ
یَصْعَدُ مِنْہُ شَیْء ٌ حَتَّی تُصَلِّیَ عَلَی نَبِیِّک صلی اللہ علیہ وسلم۔(جامع
ترمذی،ابواب الصلاۃ، باب ما جاء فی فضل الصلاۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم، حدیث
نمبر:488)
شبِ معراج میں
حسب ذیل ماثور دعائیں پڑھیں:
اللَّہُمَّ إِنَّکَ عَفُوٌّ کَرِیمٌ تُحِبُّ
الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّی۔ ترجمہ :ائے
اللہ! تو بہت معاف فرمانے والاہے، اور معافی کوپسند کرتاہے‘ پس مجھے معاف
فرمادے۔(جامع ترمذی،ابواب الدعوات،باب ای الدعاء افضل، حدیث نمبر:3855)
اللّٰہُمَّ
أَصْلِحْ لِی دِینِیَ الَّذِی ھُوَ عِصْمَۃُ أَمْرِی وَأَصْلِحْ لِی دُنْیَایَ الَّتِی
فِیہَا مَعَاشِی وَأَصْلِحْ لِی آخِرَتِی الَّتِی فِیہَا مَعَادِی وَاجْعَلِ
الْحَیَاۃَ زِیَادَۃً لِی فِی کُلِّ خَیْرٍ وَاجْعَلِ الْمَوْتَ رَاحَۃً لِی مِنْ
کُلِّ شَرٍّ- ترجمہ: اے
اللہ! میرے دینی امور کو درست فرمادے جو میرے معاملہ کی حفاظت کا ذریعہ ہیں اور
میری دنیا درست فرمادے جس میں میری معیشت ہے ‘میری آخرت درست فرمادے جہاں مجھے
لوٹنا ہے‘ میری زندگی کو میرے لئے ہر بھلائی میں زیادتی کا ذریعہ بنا ‘اور میری
موت کو میرے لئے ہر مصیبت سے راحت کا سبب بنا۔ (صحیح مسلم،کتاب الذکر والدعاء
والتوبۃ، باب التعوذ من شر ما عمل ومن شر ما لم یعمل،حدیث (نمبر:7078)
اَللّٰہُمَّ
إِنِّی أَسْأَلُکَ الْہُدَی وَالتُّقَی وَالْعَفَافَ وَالْغِنَی
ترجمہ:
اے اللہ! میں تجھ سے ہدایت تقویٰ پاکدامنی اورخوشحالی مانگتا ہوں۔ ( صحیح
مسلم،کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ، باب التعوذ من شر ما عمل ومن شر ما لم یعمل،حدیث
نمبر:7079)
رَبَّنَا آتِنَا
فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً ، وَفِی الآخِرَۃِ حَسَنَۃً ، وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ
ترجمہ: اے ہمارے
رب! ہمیں دنیا میں بھلائی عطافرما اور آخرت میں بھلائی عطافرما اور ہمیں (جہنم کی)
آگ سے محفوظ رکھ۔ (البقرۃ:201)
اللَّہُمَّ
اغْفِرْ لِی وَارْحَمْنِی وَاھدِنِی وَعَافِنِی وَارْزُقْنِی
ترجمہ: ائے اللہ! مجھے بخش دے مجھ پر رحم فرما،
مجھے ہدایت عطافرما‘مجھے عافیت سے نواز دے‘اورمجھے روزی عطافرما۔(صحیح مسلم،کتاب
الذکر والدعاء والتوبۃ،حدیث نمبر:7025)
سید الاستغفار
اللَّهُمَّ أَنْتَ رَبِّى، لاَ إِلَهَ إِلاَّ أَنْتَ، خَلَقْتَنِى وَأَنَا عَبْدُكَ ، وَأَنَا عَلَى عَهْدِكَ وَوَعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ ، أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ ، أَبُوءُ لَكَ بِنِعْمَتِكَ عَلَىَّ وَأَبُوءُ بِذَنْبِى، فاغْفِرْ لِى ،
فَإِنَّهُ لاَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلاَّ أَنْتَ
حدیث شریف: -قَالَ وَمَنْ
قَالَہَا مِنْ النَّہَارِ مُوقِنًا بِہَا فَمَاتَ مِنْ یَوْمِہِ قَبْلَ أَنْ
یُمْسِیَ فَہُوَ مِنْ أَہْلِ الْجَنَّۃِ وَمَنْ قَالَہَا مِنْ اللَّیْلِ وَہُوَ
مُوقِنٌ بِہَا فَمَاتَ قَبْلَ أَنْ یُصْبِحَ فَہُوَ مِنْ أَہْلِ الْجَنَّۃِ-(صحیح
بخاری، کتاب الدعوات، باب أفضل الاستغفار، حدیث نمبر:5831)حضور اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو شخص کامل یقین کے ساتھ اس استغفار کو دن میں
پڑھے اور اگررات ہونے سے قبل اسی دن انتقال کرجائے تو وہ اہل جنت میں سے ہوگا،اور
جو رات میں پڑھے اور صبح ہونے سے قبل انتقال کرجائے تو وہ اہل جنت میں سے ہوگا۔
حضرت عبداللہ بن
عباس رضی اللہ عنہ کا معمول تھاکہ رجب کی
ستائیسویں کو اعتکاف کی حالت میں صبح کرتے تھے اور ظہر کے وقت تک نماز پڑھتے رہتے
تھے اور ظہر پڑھنے کے بعد تھوڑی دیر تک نفل پڑھا کرتے تھے اس کے بعد چار رکعت نماز
پڑھتے اور ہر ایک رکعت میں ایک دفعہ الحمد شریف اور ایک دفعہ موذتین، تین دفعہ
سورۃ القدر اور پچاس مرتبہ سورۃ الاخلاص پڑھتے تھے اورکہا کرتے تھے کہ سرور کونین
علیہ السلام کا یہی معمول تھا۔ (الغنیۃ
الطالبی طریق الحق جلد 1 صفحہ 182)
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ یَا عَالِمُ
الْخَفِیَّۃِ وَ یَا مَنِ السَّمَائُ بِقُدْرَتِہ مَبْنِیَّۃٌ وَّیَا مَنِ
الْاَرْضُ بِعِزَّتِہ مَدْحِیُّۃٌ وَّ یَا مَنِ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِنُوْرِ
جَلَالَہ، مُشْرِقَۃٌ مُّضِیَّۃٌ وَ یَا مُقْبِلًا عَلٰی عُلِّ نَفْسٍ مُّؤْمِنَۃٍ
ذَکِیَّۃٍ وَّ یَا مَسْکَنُ رُعْبَ اَخَائِفِیْنَ وَاَھْلُ التَّقِیَّۃٌ وَّ
یَامَنْ حَوَائِجُ الْخَلْقِ عِنْدَہ، مَقْضِیَّۃٌ وَّ یَامَنْ نَجٰی یُوْسَفَ
مِنْ رِّقَ الْعُبُوْدِیَّۃٍ وَّ یَامَنْ لَّیْسَ لَہ، بَوَّابٌ یُّنَادِیْ وَلَا
صَاحِبٌ یَّغْشٰی وَلَا وَزِیْرٌ یُّغْطٰی
وَلَا غَیْرَہ، رَبٌ یُّدْعٰی وَلَا یَزَادَ عَلٰی کَثْرَۃِ الْحَوَائِجِ اِلَّا
کَرَمًا وَّجُوْدًا وَّصَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ اَعْطِنِیْ سُوْئَ الِیْ
اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ (ترجمہ) اے اللہ!
میں تجھ سے سوال کرتا ہوںّ اے پوشیدہ چیزوں کے جاننے والے، اے وہ ذات! جس نے اپنی
قدرت سے آسمان بنائے، اے وہ ذات! جس کی قدرت سے زمین بچھائی گئی۔ اے وہ ذات! جس کے
نور جلال سے سورج اور چاند روشن اور پرنور ہیں، اے وہ ذات! جس کی توجہ ہر پاک نفس
کی طرف ہوتی ہے، اے وہ ذات جو ،ہراساں اور ترساں لوگوں کو خوف سے تسکین دینے والی
ہے، اے وہ ذات! جس کے یہاں مخلوق کی حاجتیں پوری ہوتی ہیں اے وہ ذات! جس نے نجات
بخشی یوسف (علیہ السلام) کو غلامی کی ذلت سے، اے وہ ذات! جس کا کوئی دربان نہیں جس
کو پکارا جائے اور نہ کوئی مصاحب ہے جس کے پاس حاضری دی جائے اور نہ کوئی وزیر ہے
کہ جس کو نذر پیش کی جائے اور نہ اس کے علاوہ کوئی رب ہے کہ اس سے دعا کی جائے،
اے! وہ کہ جس کا کرم اور جود، حاجتوں کی کثرت کے باوجود بڑھتا ہی جاتا ہے، میں تجھ
سے درخواست کرتا ہوں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی آل پر رحمت نازل
فرما اور مجھے میری مراد عطا کر، بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔ (غنیۃ الطالبین
صفحہ ٣٦٩)