اسراء و معراج ایک عظیم معجزہ
اسراء اورمعراج اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں پیش
آنے والا کا ایک عظیم معجزہ ہے، اور اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے
مختلف نشانیوں کا جو مشاہدہ کرایا یہ بھی انتہائی اہم ہے. معراج کےدو حصے ہیں، ایک
حصہ کو اسراء اور دوسرے کو معراج کہا جاتا ہے۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا رات کے ایک حصہ میں مسجد
حرام سے مسجد اقصی تک کا سفراسراء کہلاتا ہے ، مسجد حرام مکہ میں ہے اور مسجد اقصی
فلسطین میں ہے، دونوں کے درمیان کی دوری چالیس دن کی تھی، چالیس دن کی یہ دوری
اللہ کے حکم سے رات کے ایک تھوڑے سے حصہ میں طے ہو گئی۔
جس میں اللہ کی عظمت کی پہچان ہے کہ اس کا کوئی بھی کامذریعے کا
پابند نہیں ہوتا اسی طرح مسجداقصی سے آپ
صلی اللہ علیہ وسلم کو ساتوں آسمان کا سیر کرایا گیا، پہلے آسمان سے ساتوں آسمان
تک گئے، ہر آسمان پر کسی نبی سے ملاقاتہوئی ، ان کو سلام کیا انہوں نے سلام کا
جواب دیا، مبارکباد دی اورآپ صلی اللہ علیہوسلم کی نبوت کا اقرار کیا۔ یہاں تک کہ
ساتویں آسمان سے سدرة المنتہی تک پہنچے تو وہیں پر آپ کے لیے بیت المعمور کو ظاہر
کیا گیا، آگے چلے تو اللہ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بیچ جب دو کمان یا اس سے
کم کی دوری رہ گئی تو اللہ پاک نے آپ سے پردے سے بات کیا اورآپ پر پچاس وقت کی
نمازیں فرض کیں ۔ وہاں سے لوٹے اورچھٹے آسمان پر موسی علیہ السلام سے گذرے تو
انہوں نے مشورہ دیا کہ آپ کی امت اس کی طاقت نہیں رکھ سکتی آپ جائیں اور اللہ سے
اِس میں کمی کرائیں ،اس طرح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کئی بار اللہ کے پاس
گئے اورآئے یہاں تک کہ پانچ وقت کی نماز کردی گئی ۔ پھر فرمایاگیا کہ دیکھو! میرے
پاس بات بدلی نہیں جاتی ۔ یہ ہے تو پانچ وقت کی نماز لیکن ثواب پچاس وقت کاہی ملے
گا ۔
سوال یہ ہے کہ
اسراءاورمعراج کا یہ واقعہ کیوں عمل میں آیا؟
آپ اگر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی کا مطالعہ کریں
تو آپ کو معلوم ہوگا کہ پہلے دن ہی جب آپ نے اسلام کا پرچارکیا مخالفت شروع
ہوگئی ۔آپ کو اورآپ کے ساتھیوں کو ٹارچر کیاگیا، پاگل اوردیوانہ کہا گیا، ایک دن
اوردو دن نہیں بلکہ لگاتار گیارہ سال تک آپ کوآپ کے ماننے والوں کو ستایا گیا۔ اسی
بیچ آپ طائف جاتے ہیں اِس امید کے ساتھ کہ آپکے پیغام کو شاید وہ قبول کرلیں، لیکن
آپ پر پتھر برسایا جاتا ہے، ہر طرف سے پریشانی ہی پریشانی ہے ،دعوت کو قبول کرنے
والے بھی محدود ہیں ۔ مکہ کی زمین بنجر بن چکی ہے۔ اِسی بیچ اللہ پاک اپنے نبی کو
اپنے پاس بلاتا ہے تاکہ یہ پیغام دے کہ اے انسانوں ! تم نے ہمارے حبیب کی قدر نہیں
کی لیکن آسمان والے اُن کا احترام کرنے کے لیے تیارہیں ۔ پھراللہ تعالی نے آپ کو
وہاں کچھ مشاہد بھی کروایا آپ نے جہنم کے داروغہ کو دیکھا ، آپ نے یتیموں کا
مال کھانے والوںکاانجام دیکھا ، آپ نے زناکاروں اور سودخوروں کا انجام دیکھا ۔
اوربھی بہت ساری چیزیں دیکھیں ۔یہ سب اس لیے تاکہ آپ کو اپنے پیغام پر عین الیقین
حاصل ہوجائے ۔
سوال یہ ہےکہ اسرا اور معراج
سے ہمیں کیا سبق ملتا ہے:
پہلا سبق: سب سے پہلے اس سفر میں مسجد حرامسے مسجد اقصی تک اللہ کے رسول صلی
اللہ علیہ وسلم کو لے جایاگیا۔ جانتے ہیں کیوں ؟یہ بتانے کے لیے کہ مسجد اقصی سے
آپ کا اورآپ کی امت کا دلی تعلق ہوگا ۔ مسجد اقصی کے وارث آپ کی امت بننے والی ہے
۔ افسوس کہ آج یہ مسجد یہودیوں کے قبضے میں ہے جو ہمیشہ اس کی توہین کرتے رہتے
ہیں. اللہ اُس کی آزادی کا سامان فراہم کرے ۔ آمین
دوسراسبق: اسرا اورمعراج سے دوسرا سبق یہ ملتاہے کہ عالمی ہیرو محمد صلی
اللہ علیہ وسلم ہی ہیں۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت میں نبیوں کا نماز پڑھنا
اس بات کا ثبوت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سارےنبیوں اور رسولوں سے افضل ہیں.
اس میں اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ ہر نبی کا دین ایک ہی تھا، اور وہ ہے اسلام جس کے
علاوہ کوئی دین اللہ کے پاس منظور نہیں. اللہ نے فرمایا:” جو اسلام کے علاوہ کوئی
اور دین طلب کرے گا تو اس کی طرف سے کچھ بھی قبول نہ کیاجائے گا. اور آخرت میں وہ
نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا“ (سورة آل عمران 85)
تیسرا سبق:اسراءاورمعراج کا سب سے اہم سبق نماز کی اہمیت ہے ۔ وہ
نماز جو ہمارے نبی کی آنکھوں کی ٹھنڈک تھی ، وہ نماز ایک مسلمان کی پہچان ہے ۔ وہ
نماز جس کے بارے میں قیامت کے دن سب سے پہلے پوچھ ہونے والی ہے۔
محمد عباس مصباحی قاہرہ مصر
very good
ReplyDelete