بابا رتن ھندی رضی اللہ عنہ سے ملاقات
غوثیت
کے اعلیٰ ترین مرتبے پر فائز ہونے کے علاوہ حضرت سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی
قدس سرہ نے حضرت سیدنا ابوالرضا حاجی رتن ابن ہندی رضی اللہ عنہ کے دیدار و ملاقات
کا شرف بھی حاصل فرمایا ۔ آپ رضی اللہ عنہ
کے متعلق کہا جاتا ہے کہ آپ حضور نبی کریم ﷺ کے صحابی ہیں اور آپ نے براہ راست
بارگاہ رسالت سے فیض حاصل کیا اور پھر اسے آگے پھیلایا جلیل القدر علماء صوفیا ء
نے آپ سے کسب فیض کیا ۔" حضرت ابوالرضا المعروف رتن بابا رضی اللہ عنہ ریاست
پٹیالہ کے شہر بتھنڈا ضلع فیروزآباد ( ہند وستان ) میں رہتے تھے آپ رسول ﷺ کے
زمانے میں پیدا ہوئے اور ہندوستان سے عرب جاکر رسول خدا کی زیارت سے مشرف ہوئے اور
آنحضرت ﷺ کی دعا کی برکت سے تقریباً آٹھ سو سال عمر پائی"۔ (مراۃ الاسرار صفحہ 656)
تاریخ
میں ہے خطہ ہند سے چاند کو دوٹکڑے ہوتے دیکھا گیا لیکن اس وقت بھی اس خطہ میں اس
معجزہ کی تصدیق اسے نصیب ہوئی جس کا ازل سے ستارہ سفید تھا ان میں ایک بابا رتن
ہندی بھی تھے ۔آپ پہلے ہندوستانی ہیں
جنہوں نے پیغمبر اسلام خاتم النبین حضرت محمد ﷺ کی زیارت سے مشرف ہوکر دین اسلام
قبول کیا جس کے لئے بعد میں تاجدارعرب
و عجم ﷺ نے طویل عمر کی دعا کی جو چھ سو بتیس سال تک زندہ رہے ۔
آپ کی
عمر شریف میں اختلاف ہے مختلف مؤرخین نے تقریباً
آٹھ سوسال اور چھ سو بتیس سال لکھے ہیں
جیساکہ صاحب قاموس اور دیگر مؤرخین اسلام نے کتب و تواریخ میں اس کا ذکر
کیا ہے اور علامہ ابن حجر عسقلانی نے جلد اول "کتاب الاصابۃ فی معرفۃ الصحابہ
" میں بابا رتن ہندی کے حالات زیادہ تفصیل سے لکھے ہیں جس سے معلوم ہوتاہے کہ
بابا رتن ہندی نے چھ سو بتیس سال کی عمر
میں انتقال فرما یا ۔
675
ہجری میں محمود بن بابا رتن ہندی نے خود اپنے والد کی تفصیلی حالات اور ان کا
" معجزۂ شق القمر " کا مشاہدہ کرنا ، ہندوستان سے بلادعرب جانا اور مشرف
اسلام ہونا بیان کیا ہے ۔
فاضل
ادیب صلاح الدین صفوی نے انپے تذکرہ میں لکھا ہے اور امام العلامہ شمس الدین بن
عبدالرحمن صانع الحنفی نے نقل کیا ہے کہ
انہوں نے قاضی معین عبد المحسن بن قاسم قاضی
جلال الدین بن ہشام سے 737 ہجری میں سنا
کہ قاضی نورالدین بیان کرتے ہیں کہ میر ے جد بزگوار حسن بن محمد نے ذکر کیا ہے کہ
مجھ کو سترھواں برس تھا جب میں اپنے چچا اور باپ کے ساتھ بسلسلہ تجارت خراسان سے
ہندوستان گیا اور ایک مقام پر ٹھہرا جہاں ایک عمارت تھی دفعتہً قافلہ میں شور و غل
پیدا ہوا دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ وہ عمارت بابا رتن کی ہے وہاں ایک بہت بڑا
درخت تھا جس کے سائے میں بکثرت لوگ آرام پاسکتے تھے جب ہم اس درخت کے نیچے گئے تو
دیکھا کہ بہت سے لوگ اس درخت کے نیچے جمع ہیں ۔ہم بھی اسی غول میں داخل ہوئے ہم کو
دیکھ لوگوں نے جگہ دی جب ہم درخت کے نیچے بیٹھ گئے ایک بڑی سی زنبیل درخت کی شاخوں
میں لٹکی ہوئی دیکھی دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ اس میں بابا رتن ہیں جنہوں نے
رسالت مآب ﷺ کی زیارت کی ہے۔ حضور ﷺ نے ان کے لئے چھ مرتبہ طویل عمر کی دعاکی ۔ یہ
سن کر ہم نے ان سے کہاکہ زنبیل اتاروتاکہ ہم اس شخص کی زبان سے کچھ حالات سنیں۔
تب ایک
مرد بزرگ نے اس زنبیل کو اتارا زنبیل میں بہت سی روئی بھری ہوئی تھی جب اس زنبیل
کا منہ کھولا کیا تو بابا رتن نمودار ہوئے جس طرح مرغ یاطائر کا بچہ روئی کے پہل
سے نکلتاہے پھر اس شخص نے بابا رتن کے
چہرہ کو کھولا اور ان کے کان سے اپنا منہ لگاکر کہا کہ جد بزرگوار یہ لوگ خراسان
سے آئے ہیں ان میں اکثر شرفاء اوراولاد پیغمبر ہیں ان کی خواہش ہے کہ آپ ان سے
مفصل بیان کریں کہ آپ نے کیونکررسول خداﷺ کو دیکھا اور حضور ﷺ نے آپ سے کیا فرمایا
تھا ۔ یہ سن کر بابا رتن ہندی نے ٹھنڈی سانس بھری اور اس طرح زبان فارسی میں تکلم
کیا جیسے شہد کی مکھی بھنبھناتی ہے۔
بابا رتن ہندی رضی اللہ عنہ کا بیان: میں
اپنے باپ کے ساتھ کچھ مالِ تجارت حجاز لے کر گیا اس وقت میں جوان تھا جب مکہ کے
قریب پہونچابعض پہاڑوں کے دامن میں دیکھا کہ کثرت بارش سے پانی بہ رہا ہے وہیں ایک
صاحبزادے کو دیکھاکہ جن کانہایت غمگین تھا رنگ کسی قدر گندم گوں تھا اور دامن کو ہ
میں اونٹوں کو چرارہاتھا۔
بارش کا
پانی جو ان کے اونٹوں کے درمیاں زور سے بہہ رہا تھا ۔ اس سے صاحبزادے کو خوف تھا
کہ نکل کراونٹوں تک کیسے پہنچوں۔ یہ حال دیکھ کر مجھےملال ہوا اور بغیر اس خیال کے
میں ان صاحبزادے کو جانتا پہچانتا اپنی پیٹھ پر سوار کرکے اور سیلاب کو طے کرکے ان
کے اونٹوں تک پہنچادیا جب میں اونٹوں کے
نزدیک پہنچ گیا تو میری طرف بنظر شفقت دیکھا اور تین مرتبہ فرمایا :
بارک
اللہ فی عمرک اللہ جل جلالہ آپ کی عمر میں برکت دے۔
بارک اللہ فی عمرک اللہ
جل جلالہ آپ کی عمر میں برکت دے۔
بارک اللہ فی عمرک اللہ
جل جلالہ آپ کی عمر میں برکت دے۔
میں وہیں ان صاحبزادہ کو چھوڑ کر چلاگیااور مال
تجارت فروخت کرکے اپنے وطن واپس آگیا۔
ظہور معجزئہ شق القمر: وطن واپس آنے کے بعداپنے کاروبار میں مگن
ہوگیا اس پر کچھ زمانہ گزرگیا کہ حجاز کا خیال ہی نہ رہا۔ ایک شب میں اپنے صحن میں
بیٹھا ہوا تھا کہ چودہویں رات کا چاند آسمان پر چمک رہاتھا دفعتہً کیا دیکھتا ہوں
کہ چاند کے دوٹکڑے ہوگئے ایک ٹکڑا مشرق میں غروب ہوگیا اور ایک مغرب میں ۔ ایک
ساعت تک تیرہ تاریک رہی رات اندھیری معلوم ہوتی تھی ۔ وہ ٹکڑا جو مشرق میں غروب
ہوا تھا اور وہ ٹکڑا جو مغرب میں غروب ہوا تھا اور وہ مغرب سے نکلا تھا آسمان پر
آکر مل گئے چاند اصلی حالت میں ماہ کامل بن گیا ۔ میں اس واقعہ سے بڑا حیران تھا
اور کوئی سبب اس عقل میں نہیں آتاتھا یہاں تک کہ قافلہ ملک عرب سے آیااس نے بیان
کیا کہ مکہ میں ایک شخص ہاشمی نے ظہور کیا ہے او ردعویٰ کیا ہے کہ میں تمام عالم
کے واسطے خداکی طرف سے پیغمبر مقرر ہوں اہل مکہ نے دعویٰ کی تصدیق میں مثل دے دیگر
معجزات انبیاء کے معجزہ طلب کیاکہ چاند کو حکم دے کہ آسمان پر دو ٹکڑے ہوجائے ایک مشرق میں غروب ہو اور ایک
مغرب میں اور بھر دونوں اپنے اپنے مقام سے آکر آسمان پر ایک ہوجائے جیساکہ تھا اس
شخص نے بقدرت خدا ایسا کرکے دکھایا ۔ جب مجھ کو یہ کیفیت معلوم ہوئی تو میں نہایت
مشتاق زیارت ہو اکہ خود جاکر اس شخص کی زیارت کروں چنانچہ میں سفر کا سامان درست
کیا اور کچھ مال تجارت ہمراہ لے کر روانہ ہوا اور مکہ میں پہنچ کر اس شخص کا پتہ
دریافت کیا لوگوں نے مکان اور دولت کدہ کا نشان بتایا ۔ میں دروازے پر پہونچا اور
اجازت طلب کرکے داخل حضوری ہو اتو میں نے دیکھا کہ وہ شخص وسط خانہ میں بیٹھا ہوا ہے۔ چہرہ نورانی چمک رہا ہے اور ریش مبارک
سے نورسامع ہے ۔ پہلے سفر میں میں نے جب دیکھا تھا اور اس سفر میں جو میں نے دیکھا
مطلق نہیں پہچانا کہ یہ وہی صاحبزادے ہیں جن کو میں نےاٹھاکر سیلاب سے باہر نکالا
تھا ۔ جب میں نے آگے بڑھ کر سلام کیا تو میری طرف دیکھ کر تبسم فرمایا اور مجھے
پہچان لیا اور فرمایا وعلیک السلام ادن منی اس وقت ان کے پاس
ایک طبق پرازرطب رکھا تھا اور ایک جماعت اصحاب کی گرد بیٹھی ہوئی تھی اور
نہایت تعظیم کے ساتھ ان کا احترام کررہی
تھی ۔ یہ دیکھ کر میرے دل پر ایسی ہیبت طاری ہوئی کہ میں آگے نہ بڑھ سکا۔ میری یہ
حالت دیکھ کر انہوں نے فرمایا " میرے قریب آ۔ پھر انہوں نے فرمایا کھانے میں
موافقت کرنا متقضیات مروت ہے اور باہم نفاق کا پیدا کرنا ہے ۔ بے دینی و زندقہ
ہے۔یہ سن کر میں آگے بڑھا اور ان کے ساتھ بیٹھ گیا اور کھانے میں رطب کا شریک ہوا
۔وہ اپنے دست مبارک سے رطب اٹھا کر اٹھا کر مجھے عنایت فرماتے تھے علاوہ اس کے جو
میں نے اپنے ہاتھ سے چن چن کر کھائے چھ رطب انہوں نے عنایت فرمائے پھر میری طرف
دیکھ کر بہ تبسم اشارہ فرمایا کہ تونے مجھے نہیں پہچانا میں نے عرض کیا کہ مجھے
مطلق یادنہیں شاید کہ میں نہ ہوں ۔ انہوں نے فرمایا کہ تونے اپنی پیٹھ پر سوار
کرکے مجھے سیل رواں سے پار نہیں اتارا تھااور اونٹوں کی چراگاہ تک نہیں پہونچایا
تھا۔ یہ سن کر میں نے عرض کیا کہ اے نوجوان خوش رو بے شک صحیح ہے ۔ پھر ارشاد
فرمایا داہنا ہاتھ بڑھامیں نے اپنا داہنا ہاتھ بڑھایا انہوں نے بھی اپنا ہاٹھ
بڑھایا اور مصافحہ کرکے ارشاد فرمایا اشھد ان لا الہ الااللہ و اشھد ان محمد رسول اللہ (ﷺ) میں نے اس کو ادا کیا ۔ حضورﷺ بہت مسرور
ہوئے جب میں رخصت ہونے لگا تو حضور ﷺ نے تین مرتبہ فرمایا بارک اللہ فی عمرک میں آپ سے رخصت ہو امیرادل
بسبب ملاقات اور بسبب حصول شرفِ اسلام بہت مسرور تھا ۔ حضرت محمد ﷺ کی دعا کو حق
تعالیٰ نے مسجاب فرمایا اس وقت عمر شریف چھ سو برس سے کچھ زیادہ ہے اس بستی میں جتنے
لوگ ہیں وہ میری اولاد اور اولاد کی اولاد ہیں۔ (ہندوپاک نگاہ نبوت میں صفحہ 23 تا 26)
حضرت
سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ
عنہ ارشادفرماتے ہیں:"وقتی کہ ایں بملازمت حضرت ابوالرضا رتن رسید داز انواع
لطائف ایشاں بہر مند شد ہ یک نسبت خرقہ ایں فقیر بحضرت رتن میر سد وادرابحضرت رسول
اللہ ﷺ۔ ( لطائف اشرفی فارسی 1/378 مکتبہ سمنانی کراچی)
اس لحاظ سے آپ تابعی ہوئے اور اس امتیازی وصف
نے حضرت مخدوم قدس سرہ کی ذات گرامی کو جملہ مشائخ کے درمیان منفرد اور بے مثال
بنادیا ۔ حضرت حاجی رتن رضی اللہ
عنہ کے تفصیلی حالات کے لئے ملاحظہ ہو : (الاصابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جلد اول صفحہ 225 تا 232 )
حضرت
شیخ ابولرضا بابا رتن ہندی رضی اللہ عنہ کی صحابیت کا کچھ لوگوں نے انکار کیا ہے
اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ ہجرت
نبوی سے تین سو بیس سال بعد پیدا ہوئے صاحب مراۃ الاسرار نے ان انکار کرنے
والوں میں میر جمال الدین محدث کا نام ذکر کیا ہے لیکن ہمارے نزدیک دومستند ہستیاں
اس بات پر شاہد ہیں ایک حضرت شیخ علاؤ الدولہ سمنانی اور دوسرے غوث العالم محبوب
یزدانی سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ النورانی مکتوبات اشرفی میں سید اشرف
جہانگیر سمنانی السامانی نے 28 ویں مکتوب میں ان کا ذکر ہے۔
بہرحال
حضرت بابا رتن ہندی رضی اللہ عنہ کی صحابیت مسلم ہے اس کے دلائل ملاحظہ ہوں۔
1.
بابا رتن ہندی رضی اللہ عنہ کا قصہ جو 600
ہجری میں ظاہر ہوااور دعویٰ لقائے نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کیا۔ نفحات الانس صفحہ میں مذکور ہے۔
(نفحات
الانس صفحہ 656 از حضرت مولانا نورالدین عبدالرحمن جامی نقشبندی رحمۃ
اللہ علیہ)
2.
حضرت
علامہ مجدد الدین شیرازی صاحب قاموس نے ان کو صحابہ میں شمار کرتے ہیں۔
3.
حضرت سید بدیع الدین احمد قطب المداررضی اللہ عنہ
اجمیر
سے چل کر بھٹنڈا میں قیام پزیر ہوئے یہاں ان کی ملاقات ابوالرضا رتن ہندی رضی اللہ عنہ سے ہوئی۔ حضور ﷺ کی عطا کردہ کنگھی کی زیارت
کی بوسہ دیا اور آنکھوں سےلگایا ۔ عبداللہ اورمحمود جو بابا رتن ہندی کے صاحبزادے
ہیں ان سے بھی ملاقات کی ۔ ان دونوں حضرات نے بتایا کہ میرے بابا نے تمرہندی ہدیۂ حضور کی تھیں
اور سرکاردوعالم ﷺ نے پیٹھ پر ہاتھ
پھیر کر طویل عمر کی دعادی تھی ۔ (مداراعظم صفحہ 44)
4.
حضرت
شیخ علاؤ الدولہ سمنانی قدس سرہ النورانی
اور غوث العالم محبوب یزدانی سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ النورانی کا
ان سے ملاقات کرنے اور اس پر فخر کرنے اور نسبت اخذ خرقہ کا ان سے ثابت کرنے قصص
لطائف اشرفی میں مذکور ہیں۔
(بحوالہ
: طویل العمر لوگ صفحہ 19 ۔ ہندوپاک نگاہ نبوت میں صفحہ 23 تا 26)
5.
حضرت محبوب یزدانی قدس سرہ کی حضرت شیخ
علاؤالدولہ سمنانی قدس سرہ جو سابق میں آپ کےوالد ابوالسلاطین سلطان سید ابراہیم قد س سرہ کے وزیر تھے ۔ ایک جنگ میں آپ پر جذبۂ
سلوک پیدا ہوا ۔ اوئل عمر میں ترک وزارت کرکے فقراختیار کیا ۔ آپ کو حضرت شیخ
نورالدین شیخ ابراہیم اسفرائی قد س سرہ سے
بیعت و ارشاد حاصل ہوئی ان کو حضرت شیخ
احمد خرقانی قدس سرہ سے اور ا ن کو حضرت شیخ علی لالا قد س سرہ سے اور ان کو حضرت شیخ ابوالرضا رتن
ہندی رضی اللہ عنہ سے حاصل ہوئی
اور حضرت شیخ لالا قد س سرہ سے ایک سو چودہ مشائخ سے خرقۂ خلافت وارشاد
حاصل کیا تھا ۔ آپ کے انتقال کے بعد ایک سو تیرہ مشائخ کے خرقہ نکلے اور چودہواں
تبرک ایک کاغذ میں لپٹا ہوا ملا جس کے اوپر لکھا تھا:
ھذا مشط من امشاط رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم و صل الی ھذا الضعیف من صاحب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وھذا
لخرقۃ وصل من ابی رضا رتن الی ھذہ الفقیر ۔ ترجمہ : یہ سرکار ﷺ کے کنگھوں میں سے ایک کنگھا ہے جو
اس ضعیف کو صحابی رسول کے ذریعہ سے پہونچاہے اور یہ خرقہ ابوالرضا رتن کی جانب سے
اس قفیر تک پہونچا۔
جس وقت امیرتیمورگرگانی نے حضرت محبوب یزدانی کی خدمت میں حاضر ہوکر
شرف ملازمت حاصل کیا اس وقت نسبت درازی عمر حضرت حاجی رتن رضی اللہ عنہ دریافت
کیا تو حضرت نے فرمایا کہ بے شک وہ صحابی
رسول ﷺ تھے میں نے ان سے ارشاد حاصل کیا اور انہوں نے مجھ کو اپنا خرقہ
مرحمت فرمایا اور فقیر نے ان سے تصحیح حدیث بھی کی ہے۔
المختصر جب ایک
ایسا ولی اللہ ، قطب الاقطاب ، غوث العالم ، وارث ولایت محمدیہ اور تمام روئے زمین
کے اولیاء اللہ کا سردار ہو اور وہ ان کی صحابیت اور درازی عمر کی تصدیق فرمائیں
تو اب علماء ظواہر کو ان کی درازی عمر کی نسبت کلام کرنا مناسب نہیں۔
6.
حضرت شیخ عبدالرحمٰن چشتی صابری عباسی
العلوی علیہ الرحمہ (المتوفی 1094 ہجری)
فرماتے ہیں کہ لیکن ہمارے لئے دوعارف کامل گواہ کافی ہیں ایک حضرت رکن الدین
علاؤالدولہ سمنانی جنہوں نے اس روایت کی تصدیق کی ہے اور دوسرے حضرت میرسید اشرف
جہانگیر سمنانی رحمۃ اللہ علیہ ۔ مزید آپ فرماتےہیں کہ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں
کیونکہ حضرت خضر اور حضرت الیاس علیہ
السلام نے بھی حیات جاودان پائی ہے۔ ( مراۃ الاسرار صفحہ 657)
الاصابۃ
فی معرفۃ الصحابہ میں حضرت علامہ ابن
حجر عسقلانی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں
کہ حضور کے زمانہ میں اور آپ کے اصحاب میں ایسے ایسے لوگ تھے جنکی عمر
زیادہ تھیں چنانچہ ذیل میں ان حضرت کا مختصر ذکر کیا جاتاہے ۔
حضرت ربیع
بن صبع بن وہب بن بغیض بن
مالک بن سعد بن عدی بن فرازۃ الفرازی انکی
عمریں تین سو (300) سال کی ہوئی ساٹھ سال
اسلام میں رہے۔ (الاصابہ
1/372)
حارثہ بن عبیدالکلبی
ان کی عمر پانچسو(500) سال کی ہوئی۔
حبدہ بن
معاویہ بن القشیر بن کعب بن ربیعہ بن عامر بن صعصہ العامری یہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی
ہیں ۔ ہشام کہتے ہیں کہ میرے والد کہتے کہ میں نے خراسان میں حبدہ کو دیکھا تھا ۔
یہ بہترین حکیم الفقؔیہ کے دادا ہیں یہ زمانہ جاہلیت میں تھے اور بشر جو حاکم عراق
تھے ولید بن عبدالملک کے زمانہ 96 ہجری میں وفات پائی انہوں نے زمانہ جاہلیت میں
جب یہ عمرہ کرنے مکہ معظمہ گئے ہیں تو دیکھا کہ ایک بوڑھے شخص طواف کررہے تھے اور
یہ فرمارہے تھے کہ اے پروردگار میرے سوا ر محمد کو واپس کردے ۔ اے رب اس کو لوٹا
لا اور میرے اوپر احسان کر ۔ میں نے کہا کہ یہ کون شخص ہیں لوگوں نے کہا یہ سادات بنی ہاشم کےسردار عبدالمطلب ہیں ۔ میں نے کہا یہ محمد کون ہیں لوگوں نے کہا
محمد (ﷺ) ان کے پوتےہیں اور وہ ان کے محبوب ہیں ۔ تھوڑی ہی دیر
میں نے دیکھا کہ وہ صاحبزادے یعنی حضور سرورکائنات علیہ التحیۃ والثنا تشریف
لے آئے ۔ ابوحاتم سجستانی کہتے ہیں کہ حبدہ ایک ہزار مردعورت کے علم
تھے اس حساب سے اس کی عمر کا اندازہ لگالینا چاہیئے کہ جناب عبدالمطلب کا زمانہ
اورولید بن عبدالملک کا زمانہ کتنا فاصلہ رکھتاہے۔ بعض روایتوں میں ہےکہ ہشام بن عبدالملک
کی خلافت میں انتقال ہوجبکہ اسد بن عبداللہ قشری کی حکومت
خراسان پر تھی۔ (الا صابہ 1/46)
آمد بن
ابد حضری کی تین سو سال کی عمر تھی جب ان کو حضرت امیر معاویہ
رضی اللہ عنہ نے بلایا اور ان سے دریافت کیا کہ تم نے ہاشم بن عبدمناف
امیہ بن عبدالشمس کو دیکھا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ ہاں ۔ حضرت امیر معاویہ
رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ یہ کیا کام کرتے تھے ۔ انہوں نے جواب
دیا کہ تجارت کرتے تھے۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نےکہا کہ تمہاری کچھ خواہش ہےکہ میں اس کو پورا کروں ۔ انہوں نے کہا کہ
میری جوانی لوٹا دیجئے۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ میرے اختیار میں نہیں ہے ،۔حضرت
آمد نے کہا تو مجھ کو جنت دلوادیجئے ۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا یہ بھی میرے اختیار میں نہیں ہیں ۔
اسوقت حضرت آمد بولے کہ تمہارے اختیار میں نہ دینا ہے نہ آخرت پھر تم سے سوال کرنا
فضول ہے آپ مجھ کو میرے گھر پہونچا دیجئے۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا ہاں یہ ہوسکتا ہے اور انکو ان کے مکان
پر پہونچادیا گیا۔ ( الا صابہ 1/112)
ابن رباح
بن حارث بن مخاشن
بن معاویہ بن شریف بن جردۃ بن رسید بن عمرو بن تمیم الحکیم المشہور بہ حنظلہ بن ربیع بن الصیفی کے چچا تھے ۔ ابو حاتم کہتے ہیں ان
کی عمر تین سو سال کی ہوئی۔ اور ان کے والد صیفی کے دوسو ستر سال کی ہوئی بعض
کہتےہیں کہ اکثم کی عمر ایک سو نوے سال کی ہوئی مگریہ قول ضعیف کرکے لکھا ہے جب حضور سرور کائنات مبعوث ہوئے ہیں تو اکثم نے
چاہا کہ حاضری دربار نبوی ہو مگر ان کی قوم نے منع کیا آخر انہوں نے دوشخصوں
کو حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی
خدمت میں بھیجا یہ دونوں جب حاضر ہوئے تو عرض کیا کہ ہم اکثم بن صیفی کے قاصد ہیں
وہ آپ سے دریافت کرتے ہیں کہ آپ کون ہیں اور آپ کا کیا دعویٰ ہے اور کس لئے آپ آئے
ہیں ۔حضور ﷺ نے یہ سنکر فرمایا کہ میں محمد بن عبداللہ ہاشمی ہوں اور میں خدا کا
بندہ اور اسکا رسول ہوں اس کے بعد حضور ﷺ نے یہ آیت پرھی ۔ ان اللہ یا مر بالعدل
والاحسان یہ سن کران دونوں نے آکر سب حال اکثم کو سنایا اکثم نے اپنی قوم سے
مخاطب ہوکر کہا یہ صاحب اچھی باتوں کو تعلیم دیتے ہیں تم لوگ جاؤ اور اسلام قبول
کرکے سردار بن جاؤ۔ پیچھے نہ رہ جانا اس کے بعد ہی ان کا انتقال ہوگیا مرتے وقت یہ
نصیحت کی کہ تم لوگوں کو خدا سے ڈرنے کی وصیت کرتاہوں اور صلہ رحمہ کی ہدایت
کرتاہوں۔ ( الا صابہ 1/62)
حضرت ابو عبداللہ سلمان فارسی کی عمر تین سو پچاس (350) سال کی ہوئی دوپچاس سال میں تو کسی کو شک
نہیں ہے امام ذہبی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سلمان فارسی کی عمر کے متعلق بہت سے
اقوال دیکھے ہیں سب سے معلوم ہوتا ہے کہ دوسو پچاس سال سے زائد عمر ہوئی باقی
اختلاف جو ہے وہ اس زیادتی میں ہے ۔ چنانچہ میری تحقیق یہ ہے کہ اسی سال اور زندہ
رہے اس حساب تین سو تینتیس سال کی عمر ہوتی ہے۔
حضرت
سید بدیع الدین احمد قطب المدار مکنپور یرضی اللہ عنہ کی عمربااختلاف روایات پانچ سو چھیانوے (596) سال
تھی ۔ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ اگرحضرت
بابا رتن ہندی کی عمر چھ سو
بتیس سال ہوئی تو کیا تعجب ہے۔
No comments:
Post a Comment