All India Ulama & Mashaikh Board Zaroorat Aur Ahmiyat

آل انڈیا علماء و مشائخ بورڈ ،ضرورت و اہمیت
اہلسنت والجماعت سے تعلق رکھنے والا ہر ذی شعور فرد یہ بات جانتا ہے کہ آزادئ ملک و تقسیم وطن کے بعد اہلسنت کی مذہبی و سماجی وسیاسی قیادت ہر میدان میں کمزور ہو گئی اور ہر محاذ پر مخالفین اہلسنت مضبوط قائد کی شکل میں نظر آ ئے۔
جماعت ایک سے بڑھ کر ایک ذی علم و حکمت صاحب بصیرت شخصیات سے ہمیشہ مالا مال رہی ، مومنانہ فہم وفراست ، قائدانہ صلاحیت ولیاقت رکھنے والے افراد ہمیشہ جماعت کو میسر رہے ، باوجود اس کے جماعت کے اکابر اس سمت متوجہ نہیں ہو ئے ، اس پر ہم کو ئی تبصرہ نہیں کر یں گے ۔ البتہ اتنا ضرور کہیں گے کہ اس میں ان کی متقیانہ سوچ ہی سنگ راہ رہی ہوگی ۔ اب یہ الگ بات ہے کہ مذہبی و سماجی و سیاسی میدان کی قیادت تقویٰ کے ساتھ بھی ممکن ہے ۔ آزادئ ملک سے قبل اکابرین اہلسنت ہی ہر میدان میں قائد رہے ، جبکہ ان کا تقویٰ آج تک ضر ب المثل ہے ۔
ملک کی آزادی و تقسیم کا ری کے بعد قیادت کھو جا نے کی وجہ سے جماعت کو جن نقصانات سے دو چار ہونا پڑا ہے ان کی لسٹنگ کرنے کی ضرورت نہیں ہے ، بس اس قدر کہہ دینا ہی کافی ہے کہ ’’جو سب کچھ تھے وہ صرف کچھ ہو کر رہ گئے اور جو صرف کچھ تھے وہ سب کچھ ہو گئے ‘‘ ماضی قریب کے کچھ علماء اہل سنت نے اس جانب پیش قدمی کی ہمت کی بھی تو انہیں یہ کہہ کر دبا دیا گیا کہ میاں ! دینداری سماجی وسیا سی قیادت سے الگ چیز ہے ، یہ دونوں یکجا نہیں ہو سکتے ، اس طور سے وہ بعض حضرات بھی رک گئے اور مخالفین اہلسنت ہر مقام پر ٹانگیں پھیلا ئے بیٹھے رہے اور انہیں بڑھنے ،پنپنے کا مزید موقع فراہم ہو تا رہا ، درون ملک یہی بد مذہب علماء ہی مسلمانان ہند کے رہبر و پیشوا تسلیم کئے جا تے رہے اور بیرون ملک بھی ہندوستانی مسلمانوں کا رہبر و لیڈر انہیں کو تسلیم کر لیا گیا ۔ متذکرہ تمام حالات و معاملات سے واقفیت و آگاہی کے باوجود سواد اعظم اہلسنت وجماعت کے بڑے بڑے دینی اداروں کے اساتذہ واراکین اور عظیم و قدیم خانقاہوں کے صاحبان خرقہ و مسند نشین سب کے سب مہر بہ لب رہے ، کسی نے اس عظیم خسارے سے بچنے کا کوئی راستہ نہیں نکالا ، سب اپنے آپ میں مست و مگن نظر آئے ، سال بھر میں اپنے معتقدوں کے جھرمٹ میں دس بیس جلسے جس نے کر لئے وہ یہ سمجھ بیٹھا کہ ہم نے ہر محاذ و مہم کو سرکر لیا اور پھر خوش فہمیوں کے انہیں بھول بھلیّوں میں زندگی کی صبح و شام گذرتی رہی اوراہل حق یعنی اہل سنت وجماعت نقصانات کے دہانے تک پہونچ گئے ۔ یہی حالات و معاملات تھے کہ2005 ؁ء کی ایک مسعود و مبارک ساعت میں خانقاہ اشرفیہ کچھوچھہ مقدسہ کے ایک بلند اقبال و بلند خیال ذی شعور و ذی وقار صاحب علم و حلم فہم مسلمانہ و فراست مومنانہ سے مزین قائدانہ صلاحیتوں سے بھر پور اخلاق واخلاص سے معمور ایک شہزادے نے اہلسنت کو مزید نقصانات سے بچانے اور ستر سالہ خسارے کی بھر پائی اور پھر ہر محاذ پر اہلسنت کی سربراہی وقیادت درج کرانے کی عرض سے ایک عظیم ترین انقلابی تحریک بنام ’’آل انڈیا علما ء ومشائخ بورڈ‘‘کی بنیاد رکھدی اور اس عظیم تحریک میں شرکت و شمولیت کا دعوت نامہ ہر سنی خانقاہ و درسگاہ و تنظیم کو بھیج دیا۔
اخلاص کی پاکیزگی ، اخلاق کی طہارت کی برکتوں سے ننانوے فیصد سنی خانقاہوں نے اس تحریک کو قبول کیا اور جو ق در جوق شامل ہو نے لگے اور پھر معاملہ یہ ہوا کہ
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ آتے ہی گئے اور کارواں بنتا گیا
اس عظیم ترین تحریک کا بانی ہونے کا شرف جسے حاصل ہوا وہ شہزادۂ فخر رسولاں ، لختِ دل مخدوم سمناں ، قائد ہند، اشرف ملت ، حضرت علامہ و مولانا الحاج پیر صوفی سید محمداشرفؔ الاشرفی الجیلانی مدظلہ العالی کی ذات با برکات ہے ۔
حضرت با برکت حضور اشرف ملت نے تحریک کی بنیاد رکھنے کے بعد پورے ملک کی سنی خانقاہوں و دینی درسگاہوں کا دورہ کیا اور ان کے ذمہ دار افراد سے ملاقات کی اور اپنے مقاصد و عزائم سے ان سب کو آگاہ فرمایا جسے سن کر اہل خانقاہ و مدارس کے دل خوشیوں سے جھوم اٹھے اور سب نے اس عظیم تحریک میں شامل ہونے کو اپنے لئے فخر و سعادت محسوس کی ۔ آج بحمدہٖ تعالیٰ تمام مشائخ طریقت و علمائے اہلسنت کے بے لوث تعاون کے سبب یہ تحریک ملک کی پندرہ ریاستوں میں اپنے بنیادی مقاصد کی حصولیابی کے لئے سر گرم عمل ہے ۔ نیز تین بیرون ممالک میں بھی اس کی شاخیں قائم ہو کر اس کے فلاحی خطوط پر کام کر رہی ہیں ۔
اس تحریک کے بنیادی مقاصد میں مرکزی حکومت اور ریاستی حکومتوں کی طر ف سے شروع کئے گئے ترقیاتی اور فلاحی پروگراموں ، پالیسیوں ، اور پیکجوں میں صوفی سنی مسلمانوں کو انکا جائز حصہ دلانے کے لئے اور ہندوستانی معاشرے کی سماجی واقتصادی و تعلیمی اور سیاسی زندگی میں ان کو انکا جائز مقام دلانے کے لئے کوششیں کرنا نیز تمام خانقاہوں ،درگاہوں ،مسجدوں ، مدرسوں کو محبت و رواداری ، رحم دلی اور روحانیت کے مراکز کے طور پر فروغ دینا ہے ، اس ضمن میں آ ل انڈیا علماء ومشائخ بورڈ اپنے قیام سے لے کر اب تک اپنے مقاصد و عزائم کی تکمیل کے لئے مسلسل سر گرم عمل ہے جن کے تحت یوپی ، کرناٹک ، راجستھان ، گجرات ، بہار ،مغربی بنگال ، جھارکھنڈ، چھتیس گڈھ ،جموں و کشمیر اور اسی طرح ہندوستان کی دوسری ریاستوں میں کئی اہم اجلاس کامیابی کے ساتھ منعقد ہو چکے ہیں ، نمایاں پروگراموں میں :
٭سنی کانفرنس مرادآباد ،۳؍ جنوری ۲۰۱۰ ؁ء ٭سنی کانفرنس بھاگل پور، ۱۶؍مئی ۲۰۱۰ ؁ء  ٭احتجاجی جلوس سنبھل  ، ۲؍جون ۲۰۱۱ ؁ء ٭مسلم مہا پنچایت مرادآباد،۱۶؍ اکتوبر ۲۰۱۱ ؁ء ٭مظاہرہ ،جنتر منتر دہلی ،۱۴؍ جنوری ۲۰۱۲ ؁ء ٭مسلم مہا پنچایت بیکانیرراجستھان، ۱۰؍ فروری ۲۰۱۳ ؁ء ٭سنی کانفرنس جگدیش پور امیٹھی، ۱۵؍ دسمبر ۲۰۱۴ ؁ء خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں۔
آل انڈیا علماء ومشائخ بورڈ نے مذکورہ بالا پروگراموں کے بعد ایک انقلابی قدم اٹھایا اور ملک کی راجدھانی دہلی میں ورلڈ صوفی فورم کے نام سے ایک انتہائی کامیاب پروگرام کیا جو کہ ہندوستان کی تاریخ میں قطعی محتاج مثال ہے ’’ورلڈ صوفی فورم‘‘ یہ نام ہی انٹرنیشنل پیمانے پر اپنی وسیع منصوبہ بندی کو بتانے کے لئے کافی ہے ۔متذکرہ ورلڈ صوفی فورم کے پروگرامات کی تفصیل حسبِ ذیل ہے:
افتتاحی تقریب ۱۷؍ مارچ ۲۰۱۶ ؁ء کو وگیان بھون میں منعقد ہوئی ،پھر ۱۸؍ اور ۱۹؍ مارچ ۲۰۱۶ ؁ء کو انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر میں انٹرنیشل سیمینار منعقد ہوا ۔ جبکہ آخری عوامی اجلاس بعنوان انٹرنیشنل صوفی کانفرنس دہلی کے مشہور رام لیلا میدان میں ہوا جس میں بے شمار افراد و اشخاص نے شرکت کی ۔
دانشوران قوم و ہمدرد ان اہلسنت : آپ بخوبی جانتے ہیں کہ اہلسنت وجماعت میں تحریکوں اور تنظیموں کی کمی نہیں ہے مگر ساتھ ہی ساتھ آپ تمام تحریکوں اور تنظیموں کی وسعتوں و ایجنڈوں وعزائم ومنصوبوں سے بھی واقف ہیں اور آپ کو یہ بھی معلوم ہیکہ جن عظیم مقاصد کے تحت آل انڈیا علماء ومشائخ بورڈ کام کر رہا ہے وہ بالکل محتاج مثال ہے ، اپنے عزائم اور نکاتی منصوبوں کی بنیاد پر یہ تحریک تمام تنظیموں اور تحریکوں سے قطعی جدا گانہ نوعیت کی حامل ہے ۔ اور یہ بھی سچائی ہے کہ کسی بھی تحریک کے بانی و عہدیداران آل انڈیا علماء ومشائخ بورڈ کے بانی و عہدیداران جیسی کھلی فکر کے حامل نہیں ہیں ، اس تحریک نے اب تک جو کامیابیاں حاصل کی ہیں وہ بھی بالکل منفرد المثال ہیں اور یہ بھی سچا ئی ہے کہ اس تحریک سے تمام باطل افکار و نظریات کی حامل شخصیات و تحریکات خوفزدہ ہیں ، کیونکہ اس تحریک نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ فروغ دین اسلام و اشاعت سنیت و تحفظ اقدار انسانیت ،محبت و رواداری ، دعوت امن وامان جیسے بہتر و عمدہ اوصاف کا سب سے زیادہ حصہ اگر صحیح معنوں میں کسی مسلمان کے اندر دیکھنا ہے تو اس سلسلے میں سب پر فوقیت رکھنے والے وہ افراد ہیں جن کا تعلق خانقاہیت و درگا ہیت و صوفی ازم سے ہے اور یہی حضرات صحیح منعوں میں اہلسنت وجماعت ہیں ، وفاداران اہلسنت یہ بات بھی بخوبی جانتے ہیں کہ ہندوستان پر انگریزوں کے تسلط کے بعد وہی لوگ بورڈ پر رہے جو فرنگی حکمرانوں کے چاپلوس اور پٹھو تھے ، فرنگیوں کے دور اقتدار میں جن خاندانوں کے افراد اپنی چاپلوسی کی بدولت مسلمانوں کے نام نہاد پیشوا بن گئے تھے ، بد قسمتی سے ان کا تسلسل پیشوائی اب تک باقی ہے اور یہ سارے لوگ ہر آ ئے دن اپنے نفرت کی کلہاڑی سے شجر اہلسنت کی شاخیں کاٹ کاٹ کر اشجار اہلسنت کو بے برگ کر دینے پر آمادہ ہیں ، ایسے تمام عناصر نہ تو اہلسنت کے لئے فائدہ بخش ہیں اور نہ ہی ملک کے لئے وفادار ، اسی لئے حضور اشرف ملت نے یہ انقلابی قدم اٹھا یا ہے تاکہ سوداگران ملت سے عامۃ المسلمین اور وطن عزیز کو نجا ت دلائی جا سکے ، موجودہ مذہبی و ملکی حالات تمام ہمدردان انسانیت واسلام و سنیت سے اس بات کے شدید متقاضی ہیں کہ ہر فرد اہلسنت پورے اخلاص کے ساتھ آل انڈیا علماء ومشائخ بورڈ کی کامیابیوں کا حصہ بنے اور تحریک کی ہر فلاحی آواز پر لبیک کہے ۔ کیونکہ ۱۲،۱۳؍ نومبر ۲۰۱۶ ؁ء کو اجمیر معلی کی سر زمین پر دیوبندی جماعت کی جانب سے جو اجلاس عام منعقد ہوا وہ ببانگ دہل اعلان کر رہا ہے کہ سنی دنیا کی ہر شاہراہ پر ایمان لوٹنے والے ٹھگ انتہائی عیّارانہ شکل و شباہیت میں بیٹھ چکے ہیں اور عوام اہلسنت کی ایمانی پونجی پر مکمل طریقے سے ہاتھ صاف کرنا چاہتے ہیں ، اس ضمن میں ایک انتہائی افسوسناک پہلو یہ ہیکہ ان ٹھگوں سے دو حاضر کے نام نہاد سنی رہنما بھی مل چکے ہیں جو کہ اتحا د واتفاق کے ذریعے فلاح مسلمین کے نام پر عوام اہلسنت کو وہابیت کے منہ میں جھونکنا چاہتے ہیں ، کیونکہ اجمیر شریف میں اجلاس عام کرنے والے دیوبندی ٹھگوں کے ان دلالوں کو منہ مانگی اجرت ملے گی ۔ اسی لئے اس طرح کے تمام سوداگر اس معاملے میں کامیابی کے لئے حیرت ناک طور پر سر گرم عمل ہیں ۔ راقم السطور بالکل صاف صاف لفظوں میں تمام محبان اہلسنت سے عرض کرنا چاہتا ہے کہ اب جماعت اہلسنت کے تمام علماء و دانشوران ہوش کے ناخن لیں اور سنیت کے دوستوں و دشمنوں کو پہچاننے کی کوشش کریں ، میری رائے کے مطابق اجمیر شریف میں دیوبندیوں کا اجلاس عام وابستگان اہلسنت کے لئے ایک عظیم حادثہ ہے اور اس حادثے سے آل انڈیا علماء ومشائخ بورڈ کے تمام اراکین ہر ممکن ذرائع سے تحفظ سنیت کے لئے کوشاں ہیں ۔ گفتگو کے اس موڑ پر ہمدردان اہلسنت سے یہ گذارش ضرور کروں گا کہ آپ غور سے ان نام نہاد سنی مفتیوں و اداروں کوبھی دیکھیں جن کے طبعی فتاؤں کی مار سے ہر سنی خانقاہ و تنظیم کراہ رہی ہے ۔اجمیر شریف میں ہو نے والے اس عظیم سانحے کے بعد انکا ردّ عمل کیا رہا ؟ فتویٰ باز مفتیوں کے کتنے فتاوے دیوبندیوں اور ان کے دلالوں کے خلاف منظر عام پر آ ئے؟؟
 انہوں نے ان کے خلاف کتنے جلسے اور پروگرامات منعقد کئے؟
لہٰذا اس صورت حال میں اب تمام اہلسنت آگے بڑھیں اور آل انڈیا علماء ومشائخ بورڈ کو مضبوط کریں تاکہ بزرگان دین واولیائے کاملین کے ذریعہ پھیلائے ہو ئے مذہب و مسلک اور تمام مذہبی مقامات و آثار کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے ، کیونکہ جب بھی اس قسم کے نا گفتہ بہ حالات پیدا ہو ئے ہیں تو ارباب تصوف نے ہی آگے بڑھ کر انکا مقابلہ کیا ہے اور وہی آج بھی ہو گا۔
ازقلم : مولانا محمد قیصر رضا علوی حنفی مداری
ترجمان خانقاہ مداریہ مکن پورشریف وخادم درس جامعہ عزیزیہ اہلسنت ضیاء الاسلام جھہراؤں،ضلع سدھارتھ نگریوپی







Ajmer Ka Ittihad Fasana Ya Haqiqat

اجمیر کا اتحاد: فسانہ یا حقیقت
۱۳؍نومبر۲۰۱۶ ؁ء کو اجمیر میں جمیعۃ علماء ہند کی جانب سے ہونے والے ۳۳ ویں اجلاس میں جمیعہ کے جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی اور بریلی سے مولانا توقیر رضا خان کے ہاتھوں بڑے اتحاد کا اعلان کیا گیا۔ اس سے پہلے جمیعت اپنے آپ کو وہابیت سے الگ کر کے صوفیت کے رنگ میں رنگنے کی بات کہہ چکی ہے۔ اس اجلاس سے پہلے تیاری نشستوں میں سے ایک میں، جو راجستھان میں منعقد کی گئی تھی اس میں اس بات کا اعلان کیا گیا تھا کہ وہ وہابی نہیں بلکہ صوفی ہیں۔اس کے علاوہ انہوں نے ہندوستانی صوفی بزرگ حضرت سید معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات و خدمات کا بھی اعتراف کیا گیا تھا۔ ہندوستانی مسلمانوں کے اسلام کا مرکز سرکار غریب نواز علیہ الرحمہ کا آستانہ بتایا گیا۔ اس کے ساتھ یہ بھی عہد کیا گیا کہ اس عظیم بزرگ کی خدمات کو سا ری دنیا میں نشر کرنے کی ضرورت ہے.۔
 یہ بھی اعلان ہوا تھا کہ جمیعۃ کی جانب سے پہلی بار اپنے اجلاس میں خانقاہوں کے سجادگان، درگاہوں کے ذمہ داران اور آستانوں کے متولیان کو دعوت دی جائے گی اور پہلی بار نعتیہ کلام بھی جمیعۃ کے اجلاس میں شریک کیا جائے گا۔ اجلاس سے پہلے کے یہ اعلانات شاید اہل سنّت و جماعت کے قریب آنے کی ایک کوشش کے سوا کچھ نہیں تھی۔ اس کے علاوہ تمام سیاسی جماعتوں کو بھی یہ باور کرانا ہے کہ ابھی بھی مسلمانوں میں ہماری مقبولیت ہے اور ہم ہی ان کے سودا گر ہیں۔ کیونکہ جہاں ایک طرف بریلی اور دیوبند کا اتحاد ہوا وہیں دوسری طرف دونوں ہی کے سیاسی و مذہبی آقاؤں کو خوش رکھنے کی بھی سازش کی گئی۔ یعنی دو کشتی میں پیر رکھ کر منزل تک دوگنی رفتار میں پہنچنے کا خواب دیکھا گیا۔ جس کا شرمندہ تعبیر نہ ہونا فطری ہے۔ بریلی اور دیوبند کے اس اتحاد پر بے تحاشا خوشی کا اظہار کرنے کو جی چاہتا ہے لیکن دوسری طرف یہ بھی خیال آتا ہے کہ یہ اتحاد کتنا دیر پا ہے یا کتنا مقبول ہے۔ خود پوری دنیائے وہابیت کیا اس جعلی اتحاد کو ہضم کر پائے گی؟ وہابی اکابرین کے ان افکار و نظریات کا کیا ہوگا جن کی بنیاد ہی صوفی اور تصوّف مخالف ہے. دنیائے اسلام کا پہلا وہ شخص جس نے اسلامی بنیادوں کو ذاتی مفاد، اقتدار کی ہوس، دولت و شہرت کی بھوک کے بدلے بیچ دیا. اسلام کی اس تعریف کو ہی بدل دیا جس کی بنیاد امن و محبّت، بھائی چارگی اور رواداری پر رکھی گئی۔ بنام مسلم اس پہلے دہشت گرد ابن عبد الوہاب نجدی نے ایک نئے اسلام کو متعارف کرایا جس کی بنیاد نفرت و تشدّد اور دہشت و وحشت پر رکھی گئی. اب ان دو مخالف فکروں کا اتحاد قوم مسلم پر کیا اثر ڈالے گا؟ بہ شمول ہندوستان پوری دنیا بالخصوص عرب ممالک اس اتحاد کو کس نظریے سے دیکھیں گے یہ ایک قابل غور پہلو ہوگا۔
اس اتحاد کو سیاسی ، سماجی، مذہبی یامعاشی کس اتحاد کا نام دیا جائے، تھوڑا مشکل کام ہے۔جمیعۃ علما ہند میں یقین رکھنے والے افراد و جماعت کیلئے بھی یہ ایک مشکل ترین مرحلہ ہے۔ اس فکر کو موجودہ شکل میں پیدا ہوئے ابھی ۲۰۰ سال ہی ہوئے ہونگے۔ ہندوستان میں اس کی آمد سو سے ڈیڑھ سو سال کی ہی ہے۔ اب ان برسوں میں جن مسلمانوں کو اس فکر کا شکار کیا گیا، اس کی بنیاد صوفی، تصوّف، خانقاہیں، درگاہیں اور امام بارگاہیں ہیں۔ مسلمانوں کو ان جگہوں سے دور کرنے کیلئے طرح طرح کے ہتھکنڈے اپنائے گئے۔ تحریریں اور تقریریں وجود میں آئیں. آہستہ آہستہ پوری دنیا میں اسلام ہی کے ماننے والوں کے درمیان میں خود مسلمانوں ہی کے خلاف ایک نئی فکر پیدا کردی گئی۔ جس کا نام وہابیت ہے۔ آج جب فکر وہابیت پوری دنیا میں بدنام ہو چکی ہے تو اپنے اپنے دامن کو پاک صاف کرنے کیلئے اس اتحاد کو انجام دیا گیا۔
اب بڑی مشکل ان افراد و جماعت کیلئے ہے جنہوں نے اس نئی فکر کے ہاتھوں اپنی عقیدت کا سودا کر لیا ہے۔ ان کے لئے تو آگے خندق پیچھے کھائی جیسا معاملہ ہے۔ جن عقائد و نظریات سے توبہ و استغفار کرا کر اس نئے فرقہ میں شامل کیا گیا تھا۔ اب پھر سے اسی کی جانب لوٹایا جا رہا ہے۔ یا اس فکر کے حامل اکابرین اور ذمہ دار خود اسی عقیدے میں شمولیت کی بات کر رہے ہیں۔ اگر پھر سے صوفی خانقاہ اور درگاہ ہی پناہ گاہ ہے تو پھر اس کو شرک و بدعت کہہ کر اس کی مذمّت اور برائی کرنے کا عمل کس خانے میں ہوگا؟ اب وہ لوگ کہاں جائیں گے؟ اپنے آپ کو کس سے منسوب کریں گے؟ ہمیں ہمارے ہی بھائیوں سے الگ کر دیا گیا۔ہمیں اپنے ہی آباء و اجداد کو کافر مشرک کہنے پر مجبور کیا گیا۔ وہابی فکر و خیال کو اپنانے سے پہلے کی زندگی کو کفر کی زندگی اور سارے اعمال کو بے کار بلکہ گناہ میں بتایا گیا۔ اب پھر جنہوں نے ہمیں دعوت و ہدایت دینے کا ڈھونگ رچا تھا خود بھی وہی عمل کرتے نظر آ رہے ہیں تو ایسے لوگوں کو کیا کہا جائے؟ کیا اسے دینی خدمت کہا جا سکتا ہے؟ کیایہی دعوت و تبلیغ ہے؟ کم سے کم نبوی تبلیغ تو نہیں ہے.۔وہاں کفر و گمرہی کی ظلمت و تاریکی سے نکال کر معرفت و ہدایت کی روشنی عطا کی گئی تھی لیکن یہاں تو ایمان سے کفر کا سفر کرایا گیا ہے. نیکی سے بدی کا راستہ دکھایا گیا۔ ہدایت پر تھے، گمراہ کیا گیا ہے، وہ بھی دین اسلام کی دعوت و تبلیغ کے نام پر ایسا کیا گیا.۔جمیعۃ اور تمام اکابرین دیوبند و جملہ حاملین فکر وہابیت کیا اس بات کا کوئی جواب رکھتے ہیں؟ اس اتحاد سے سب سے زیادہ ان مسلمانو ں کو خوشی ہوگی جو کم سے کم روزانہ ایک دوسرے کی فکر و نظر کے خلاف احتجاج اور مظاہرے میں کھڑے ہونے سے نجات حاصل کر پائیں گے. تو کیا اب دونوں ہی مکتب فکر کے ذمہ داران اپنی ان تحریروں، تقریروں، عقائد و نظریات سے برأت کا اظہار کریں گے؟؟؟
اہل سنّت و جماعت سے اس وہابی فکر کا اختلاف عقیدہ و ایمان پر مبنی ہے. اہل سنت کی روایتوں سے بھی اختلاف ہے. “خدا جھوٹ بول سکتا ہے”، “پیغمبر اسلام کو پیٹھ پیچھے اور دیوار کے پیچھے کا علم نہیں”. ” دوران نماز نبی کا خیال آنے سے نماز نہیں ہوگی البتہ اگر کسی جانور کا خیال آ جائے تو نماز ہو جائے گی”، “ایک بندہ عبادت میں نبی سے آگے بڑھ سکتا ہے”، “نبی مر کر مٹی میں مل گئے”، “نبی ہم جیسے بشر ہیں” (معاذ اللہ) ان عقیدوں کے حامل وہابی افراد و جماعت و افراد کا اتحاد کسی بھی مسلمان کے ساتھ کیسے ہو سکتا ہے؟ مذہبی اتحاد تو ممکن نہیں البتہ سیاسی و سماجی اتحاد تو کیا جاسکتا ہے لیکن اس سے پہلے وہ موقف طے کرنے ہونگے اور ہر مکتب فکر کو ایک ساتھ بٹھانا ہوگا.۔ہر گروپ اور گروہ کی نمائندگی ہو.۔اس کے بعد کسی بھی موقف کیلئے ایک لائحہ عمل تیار کیا جائے۔
اب اس طرح کے عقائد و نظریات کے حاملین اگر اچانک سو سال پرانے افکار و خیالات سے زبانی دست برداری کا اعلان کر دیں تو فوری یقین غیر فطری ہے۔ سب سے پہلے پرانے عقائد سے توبہ لازمی ہے. یوں تو رب کریم سب کچھ جانتا ہے. وہ و دلوں میں چھپے ہوئے راز سے با خبر ہے۔ لیکن وہابی فکر نے ہمیشہ منافقانہ راستہ اختیار کیا ہے. جب بھی گرفت میں آئے ہیں اپنا نام اور اپنی پہچان تبدیل کر لی ہے۔ ایک نئی شناخت کے ساتھ امت مسلمہ کو دھوکہ دینے آ گئے ہیں اسلئے صرف زبانی جمع خرچ سے داغ دھلنے والے نہیں ہیں.۔اگر واقعی گھر واپسی کا ارادہ ہے تو مکمّل طریقے سے گھر واپسی کی جائے۔ اہل سنت اسلام مخالف عقائد سے دلی توبہ کر کے صوفی اور تصوّف کا دامن پکڑ لیا جائے۔ ان اکا برین کا بھی کلی بائیکاٹ کیا جائے جنہوں نے دین کے نام پر مسلمانوں کو دھوکہ دیا ہے۔ ان تحریروں کو آگ لگادی جائے جس میں اسلام مخالف فکر موجود ہے۔ پوری دنیا میں اسلام کو بدنام کرنے والے دہشت گردوں کی فکروں کو بھی مل کر رد کیا جائے۔ کھلے دل سے اسلام میں یقین رکھا جائے۔
اجمیر میں ملنے والے ہاتھوں سے اگر واقعی میں اتحاد ہوتا ہے تو مجوزہ بالا تمام مشوروں پر عمل کیا جائے گا۔ تبھی اس اتحاد کا مطلب سمجھ میںآئے گا.۔ورنہ سوائے مذہبی، سیاسی و سماجی سودا گری اور ناٹک نوٹنکی کے اجلاس اور اتحاد کوئی معنی نہیں رکھتا۔
ازقلم : مولاناسیدعالمگیر اشرف اشرفی الجیلانی کچھوچھہ شریف
سرپرست: آل انڈیا علماء و مشائخ بورڈ مہاراشٹر