اجمیر
کا اتحاد: فسانہ یا حقیقت
۱۳؍نومبر۲۰۱۶ ء کو اجمیر میں جمیعۃ
علماء ہند کی جانب سے ہونے والے ۳۳ ویں اجلاس میں جمیعہ کے جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی اور بریلی
سے مولانا توقیر رضا خان کے ہاتھوں بڑے اتحاد کا اعلان کیا گیا۔ اس سے پہلے جمیعت
اپنے آپ کو وہابیت سے الگ کر کے صوفیت کے رنگ میں رنگنے کی بات کہہ چکی ہے۔ اس
اجلاس سے پہلے تیاری نشستوں میں سے ایک میں، جو راجستھان میں منعقد کی گئی تھی اس
میں اس بات کا اعلان کیا گیا تھا کہ وہ وہابی نہیں بلکہ صوفی ہیں۔اس کے علاوہ
انہوں نے ہندوستانی صوفی بزرگ حضرت سید معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی
تعلیمات و خدمات کا بھی اعتراف کیا گیا تھا۔ ہندوستانی مسلمانوں کے اسلام کا مرکز
سرکار غریب نواز علیہ الرحمہ کا آستانہ بتایا گیا۔ اس کے ساتھ یہ بھی عہد کیا گیا
کہ اس عظیم بزرگ کی خدمات کو سا ری دنیا میں نشر کرنے کی ضرورت ہے.۔
یہ بھی اعلان ہوا تھا کہ جمیعۃ کی جانب سے پہلی
بار اپنے اجلاس میں خانقاہوں کے سجادگان، درگاہوں کے ذمہ داران اور آستانوں کے
متولیان کو دعوت دی جائے گی اور پہلی بار نعتیہ کلام بھی جمیعۃ کے اجلاس میں شریک
کیا جائے گا۔ اجلاس سے پہلے کے یہ اعلانات شاید اہل سنّت و جماعت کے قریب آنے کی
ایک کوشش کے سوا کچھ نہیں تھی۔ اس کے علاوہ تمام سیاسی جماعتوں کو بھی یہ باور
کرانا ہے کہ ابھی بھی مسلمانوں میں ہماری مقبولیت ہے اور ہم ہی ان کے سودا گر ہیں۔
کیونکہ جہاں ایک طرف بریلی اور دیوبند کا اتحاد ہوا وہیں دوسری طرف دونوں ہی کے
سیاسی و مذہبی آقاؤں کو خوش رکھنے کی بھی سازش کی گئی۔ یعنی دو کشتی میں پیر رکھ
کر منزل تک دوگنی رفتار میں پہنچنے کا خواب دیکھا گیا۔ جس کا شرمندہ تعبیر نہ ہونا
فطری ہے۔ بریلی اور دیوبند کے اس اتحاد پر بے تحاشا خوشی کا اظہار کرنے کو جی
چاہتا ہے لیکن دوسری طرف یہ بھی خیال آتا ہے کہ یہ اتحاد کتنا دیر پا ہے یا کتنا
مقبول ہے۔ خود پوری دنیائے وہابیت کیا اس جعلی اتحاد کو ہضم کر پائے گی؟ وہابی
اکابرین کے ان افکار و نظریات کا کیا ہوگا جن کی بنیاد ہی صوفی اور تصوّف مخالف
ہے. دنیائے اسلام کا پہلا وہ شخص جس نے اسلامی بنیادوں کو ذاتی مفاد، اقتدار کی
ہوس، دولت و شہرت کی بھوک کے بدلے بیچ دیا. اسلام کی اس تعریف کو ہی بدل دیا جس کی
بنیاد امن و محبّت، بھائی چارگی اور رواداری پر رکھی گئی۔ بنام مسلم اس پہلے دہشت
گرد ابن عبد الوہاب نجدی نے ایک نئے اسلام کو متعارف کرایا جس کی بنیاد نفرت و
تشدّد اور دہشت و وحشت پر رکھی گئی. اب ان دو مخالف فکروں کا اتحاد قوم مسلم پر
کیا اثر ڈالے گا؟ بہ شمول ہندوستان پوری دنیا بالخصوص عرب ممالک اس اتحاد کو کس
نظریے سے دیکھیں گے یہ ایک قابل غور پہلو ہوگا۔
اس اتحاد کو سیاسی ، سماجی، مذہبی یامعاشی کس اتحاد کا نام دیا جائے، تھوڑا مشکل کام ہے۔جمیعۃ علما ہند میں یقین رکھنے والے افراد و جماعت کیلئے بھی یہ ایک مشکل ترین مرحلہ ہے۔ اس فکر کو موجودہ شکل میں پیدا ہوئے ابھی ۲۰۰ سال ہی ہوئے ہونگے۔ ہندوستان میں اس کی آمد سو سے ڈیڑھ سو سال کی ہی ہے۔ اب ان برسوں میں جن مسلمانوں کو اس فکر کا شکار کیا گیا، اس کی بنیاد صوفی، تصوّف، خانقاہیں، درگاہیں اور امام بارگاہیں ہیں۔ مسلمانوں کو ان جگہوں سے دور کرنے کیلئے طرح طرح کے ہتھکنڈے اپنائے گئے۔ تحریریں اور تقریریں وجود میں آئیں. آہستہ آہستہ پوری دنیا میں اسلام ہی کے ماننے والوں کے درمیان میں خود مسلمانوں ہی کے خلاف ایک نئی فکر پیدا کردی گئی۔ جس کا نام وہابیت ہے۔ آج جب فکر وہابیت پوری دنیا میں بدنام ہو چکی ہے تو اپنے اپنے دامن کو پاک صاف کرنے کیلئے اس اتحاد کو انجام دیا گیا۔
اب بڑی مشکل ان افراد و جماعت کیلئے ہے جنہوں نے اس نئی فکر کے ہاتھوں اپنی عقیدت کا سودا کر لیا ہے۔ ان کے لئے تو آگے خندق پیچھے کھائی جیسا معاملہ ہے۔ جن عقائد و نظریات سے توبہ و استغفار کرا کر اس نئے فرقہ میں شامل کیا گیا تھا۔ اب پھر سے اسی کی جانب لوٹایا جا رہا ہے۔ یا اس فکر کے حامل اکابرین اور ذمہ دار خود اسی عقیدے میں شمولیت کی بات کر رہے ہیں۔ اگر پھر سے صوفی خانقاہ اور درگاہ ہی پناہ گاہ ہے تو پھر اس کو شرک و بدعت کہہ کر اس کی مذمّت اور برائی کرنے کا عمل کس خانے میں ہوگا؟ اب وہ لوگ کہاں جائیں گے؟ اپنے آپ کو کس سے منسوب کریں گے؟ ہمیں ہمارے ہی بھائیوں سے الگ کر دیا گیا۔ہمیں اپنے ہی آباء و اجداد کو کافر مشرک کہنے پر مجبور کیا گیا۔ وہابی فکر و خیال کو اپنانے سے پہلے کی زندگی کو کفر کی زندگی اور سارے اعمال کو بے کار بلکہ گناہ میں بتایا گیا۔ اب پھر جنہوں نے ہمیں دعوت و ہدایت دینے کا ڈھونگ رچا تھا خود بھی وہی عمل کرتے نظر آ رہے ہیں تو ایسے لوگوں کو کیا کہا جائے؟ کیا اسے دینی خدمت کہا جا سکتا ہے؟ کیایہی دعوت و تبلیغ ہے؟ کم سے کم نبوی تبلیغ تو نہیں ہے.۔وہاں کفر و گمرہی کی ظلمت و تاریکی سے نکال کر معرفت و ہدایت کی روشنی عطا کی گئی تھی لیکن یہاں تو ایمان سے کفر کا سفر کرایا گیا ہے. نیکی سے بدی کا راستہ دکھایا گیا۔ ہدایت پر تھے، گمراہ کیا گیا ہے، وہ بھی دین اسلام کی دعوت و تبلیغ کے نام پر ایسا کیا گیا.۔جمیعۃ اور تمام اکابرین دیوبند و جملہ حاملین فکر وہابیت کیا اس بات کا کوئی جواب رکھتے ہیں؟ اس اتحاد سے سب سے زیادہ ان مسلمانو ں کو خوشی ہوگی جو کم سے کم روزانہ ایک دوسرے کی فکر و نظر کے خلاف احتجاج اور مظاہرے میں کھڑے ہونے سے نجات حاصل کر پائیں گے. تو کیا اب دونوں ہی مکتب فکر کے ذمہ داران اپنی ان تحریروں، تقریروں، عقائد و نظریات سے برأت کا اظہار کریں گے؟؟؟
اس اتحاد کو سیاسی ، سماجی، مذہبی یامعاشی کس اتحاد کا نام دیا جائے، تھوڑا مشکل کام ہے۔جمیعۃ علما ہند میں یقین رکھنے والے افراد و جماعت کیلئے بھی یہ ایک مشکل ترین مرحلہ ہے۔ اس فکر کو موجودہ شکل میں پیدا ہوئے ابھی ۲۰۰ سال ہی ہوئے ہونگے۔ ہندوستان میں اس کی آمد سو سے ڈیڑھ سو سال کی ہی ہے۔ اب ان برسوں میں جن مسلمانوں کو اس فکر کا شکار کیا گیا، اس کی بنیاد صوفی، تصوّف، خانقاہیں، درگاہیں اور امام بارگاہیں ہیں۔ مسلمانوں کو ان جگہوں سے دور کرنے کیلئے طرح طرح کے ہتھکنڈے اپنائے گئے۔ تحریریں اور تقریریں وجود میں آئیں. آہستہ آہستہ پوری دنیا میں اسلام ہی کے ماننے والوں کے درمیان میں خود مسلمانوں ہی کے خلاف ایک نئی فکر پیدا کردی گئی۔ جس کا نام وہابیت ہے۔ آج جب فکر وہابیت پوری دنیا میں بدنام ہو چکی ہے تو اپنے اپنے دامن کو پاک صاف کرنے کیلئے اس اتحاد کو انجام دیا گیا۔
اب بڑی مشکل ان افراد و جماعت کیلئے ہے جنہوں نے اس نئی فکر کے ہاتھوں اپنی عقیدت کا سودا کر لیا ہے۔ ان کے لئے تو آگے خندق پیچھے کھائی جیسا معاملہ ہے۔ جن عقائد و نظریات سے توبہ و استغفار کرا کر اس نئے فرقہ میں شامل کیا گیا تھا۔ اب پھر سے اسی کی جانب لوٹایا جا رہا ہے۔ یا اس فکر کے حامل اکابرین اور ذمہ دار خود اسی عقیدے میں شمولیت کی بات کر رہے ہیں۔ اگر پھر سے صوفی خانقاہ اور درگاہ ہی پناہ گاہ ہے تو پھر اس کو شرک و بدعت کہہ کر اس کی مذمّت اور برائی کرنے کا عمل کس خانے میں ہوگا؟ اب وہ لوگ کہاں جائیں گے؟ اپنے آپ کو کس سے منسوب کریں گے؟ ہمیں ہمارے ہی بھائیوں سے الگ کر دیا گیا۔ہمیں اپنے ہی آباء و اجداد کو کافر مشرک کہنے پر مجبور کیا گیا۔ وہابی فکر و خیال کو اپنانے سے پہلے کی زندگی کو کفر کی زندگی اور سارے اعمال کو بے کار بلکہ گناہ میں بتایا گیا۔ اب پھر جنہوں نے ہمیں دعوت و ہدایت دینے کا ڈھونگ رچا تھا خود بھی وہی عمل کرتے نظر آ رہے ہیں تو ایسے لوگوں کو کیا کہا جائے؟ کیا اسے دینی خدمت کہا جا سکتا ہے؟ کیایہی دعوت و تبلیغ ہے؟ کم سے کم نبوی تبلیغ تو نہیں ہے.۔وہاں کفر و گمرہی کی ظلمت و تاریکی سے نکال کر معرفت و ہدایت کی روشنی عطا کی گئی تھی لیکن یہاں تو ایمان سے کفر کا سفر کرایا گیا ہے. نیکی سے بدی کا راستہ دکھایا گیا۔ ہدایت پر تھے، گمراہ کیا گیا ہے، وہ بھی دین اسلام کی دعوت و تبلیغ کے نام پر ایسا کیا گیا.۔جمیعۃ اور تمام اکابرین دیوبند و جملہ حاملین فکر وہابیت کیا اس بات کا کوئی جواب رکھتے ہیں؟ اس اتحاد سے سب سے زیادہ ان مسلمانو ں کو خوشی ہوگی جو کم سے کم روزانہ ایک دوسرے کی فکر و نظر کے خلاف احتجاج اور مظاہرے میں کھڑے ہونے سے نجات حاصل کر پائیں گے. تو کیا اب دونوں ہی مکتب فکر کے ذمہ داران اپنی ان تحریروں، تقریروں، عقائد و نظریات سے برأت کا اظہار کریں گے؟؟؟
اہل سنّت و جماعت سے اس
وہابی فکر کا اختلاف عقیدہ و ایمان پر مبنی ہے. اہل سنت کی روایتوں سے بھی اختلاف
ہے. “خدا جھوٹ بول سکتا ہے”، “پیغمبر اسلام کو پیٹھ پیچھے اور دیوار کے پیچھے کا
علم نہیں”. ” دوران نماز نبی کا خیال آنے سے نماز نہیں ہوگی البتہ اگر کسی جانور
کا خیال آ جائے تو نماز ہو جائے گی”، “ایک بندہ عبادت میں نبی سے آگے بڑھ سکتا
ہے”، “نبی مر کر مٹی میں مل گئے”، “نبی ہم جیسے بشر ہیں” (معاذ اللہ) ان عقیدوں کے
حامل وہابی افراد و جماعت و افراد کا اتحاد کسی بھی مسلمان کے ساتھ کیسے ہو سکتا
ہے؟ مذہبی اتحاد تو ممکن نہیں البتہ سیاسی و سماجی اتحاد تو کیا جاسکتا ہے لیکن اس
سے پہلے وہ موقف طے کرنے ہونگے اور ہر مکتب فکر کو ایک ساتھ بٹھانا ہوگا.۔ہر گروپ
اور گروہ کی نمائندگی ہو.۔اس کے بعد کسی بھی موقف کیلئے ایک لائحہ عمل تیار کیا
جائے۔
اب اس طرح کے عقائد و
نظریات کے حاملین اگر اچانک سو سال پرانے افکار و خیالات سے زبانی دست برداری کا
اعلان کر دیں تو فوری یقین غیر فطری ہے۔ سب سے پہلے پرانے عقائد سے توبہ لازمی ہے.
یوں تو رب کریم سب کچھ جانتا ہے. وہ و دلوں میں چھپے ہوئے راز سے با خبر ہے۔ لیکن
وہابی فکر نے ہمیشہ منافقانہ راستہ اختیار کیا ہے. جب بھی گرفت میں آئے ہیں اپنا
نام اور اپنی پہچان تبدیل کر لی ہے۔ ایک نئی شناخت کے ساتھ امت مسلمہ کو دھوکہ
دینے آ گئے ہیں اسلئے صرف زبانی جمع خرچ سے داغ دھلنے والے نہیں ہیں.۔اگر واقعی
گھر واپسی کا ارادہ ہے تو مکمّل طریقے سے گھر واپسی کی جائے۔ اہل سنت اسلام مخالف
عقائد سے دلی توبہ کر کے صوفی اور تصوّف کا دامن پکڑ لیا جائے۔ ان اکا برین کا بھی
کلی بائیکاٹ کیا جائے جنہوں نے دین کے نام پر مسلمانوں کو دھوکہ دیا ہے۔ ان
تحریروں کو آگ لگادی جائے جس میں اسلام مخالف فکر موجود ہے۔ پوری دنیا میں اسلام
کو بدنام کرنے والے دہشت گردوں کی فکروں کو بھی مل کر رد کیا جائے۔ کھلے دل سے
اسلام میں یقین رکھا جائے۔
اجمیر میں ملنے والے
ہاتھوں سے اگر واقعی میں اتحاد ہوتا ہے تو مجوزہ بالا تمام مشوروں پر عمل کیا جائے
گا۔ تبھی اس اتحاد کا مطلب سمجھ میںآئے گا.۔ورنہ سوائے مذہبی، سیاسی و سماجی سودا
گری اور ناٹک نوٹنکی کے اجلاس اور اتحاد کوئی معنی نہیں رکھتا۔
ازقلم : مولاناسیدعالمگیر
اشرف اشرفی الجیلانی کچھوچھہ
شریف
سرپرست: آل انڈیا علماء
و مشائخ بورڈ مہاراشٹر
No comments:
Post a Comment