سلطان الشہداء سیدناسالار مسعود غازی قد
س سرہ النورانی
سلطان الشہداء سیدناسالار مسعود غازی قد س
سرہ النورانی ہندوستان کے ان اولیاء کرام،
شہداء عظام ومشائخ میں سے ہیں جنھوں نے اس کفر وشرک کی سرزمین پر اسلام کاپرچم
بلند فرمایا۔آپ کی ولادت باسعادت 21رجب المرجب 405ہجری مطابق 15 فروری 1015عیسوی بروز اتوار بوقت صبح
صادق اجمیر شریف میں ہوئی یہ سلطان الہندحضرت
سیدنا خواجہ غریب نواز رضی اللہ عنہ کی آمد سے ایک سو اکیاسی برس پہلے کازمانہ تھا
آپ کاسلسلہ نسب بارہویں پشت میں شیر خداحضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے ملتاہے۔
سلطان محمود غزنوی کا ایک وزیر خواجہ حسن
میمندی تھا جسے مسعود غازی کی بلند اقبالی کی بناء پر عداوت وحسد تھا سلطان
اس حسد سے واقف تھے مگر عجلت میں کوئی اقدام کرنے کے بجائے آپ کوہندوستان والدین
کے پاس بھیجنے کا اردہ کیا جب سلطان نے اپنے بھانجے مسعود غازی سے اس ارادہ
کااظہار کیا تو مسعود غازی نے فرمایا کہ میری خواہش ہے کہ آپ مجھےہندوستان میں
اشاعت اسلام کی اجازت مرحمت فرمائیں تاکہ اس کفر وشرک کی سرزمین پر اللہ کانام
بلند ہوسکے ۔۔سلطان نے کلیجے سے لگاکر آپ کو رخصت کیا۔اور گیارہ ہزار جانثاروں
کاقافلہ بھی آپ کے ہمرکاب ہوا۔ چند ہی ماہ بعد 30ربیع الاول 430ہجری کو سلطان
محمود غزنوی علیہ الرحمہ کاوصال پرملال ہوگیا۔
ادھر مسعودغازی علیہ الرحمہ نہایت ہی شان
وشوکت کے ساتھ دریائے سندھ کے راستے اجودھن ( پاک پٹن ) پہونچے جہاں کے راجاؤں
کوشکشت دیکر دہلی روانہ ہوئے اس وقت دہلی کاراجہ مہ پال رائے تھا جس کے سامنے
مسعود غازی علیہ الرحمہ نے دعوت اسلام پیش کی بالآخر جنگ کی نوبت آگئ جنگ جاری ہوئ
جس میں دشمنوں کی طاقت وقوت بہت زیادہ تھی اس کے باوجود آپ نے اور آپ کے رفقاء نے
جم کر مقابلہ کیابالآخر دشمنوں کوشکشت ہوئ اور بہت سے راجاؤں نے اطاعت قبول کی ۔میرٹھ
اور قنوج ہوتے ہوئے ضلع بارہ بنکی کے قصبہ سترکھ پہونچے جہاں کے راجاؤں سے مقابلہ
کے بعد آپ بہرائچ روانہ ہوئے۔شعبان 423ہجری میں آپ بہرائچ پہونچے۔
مؤرخین کابیان ہے کہ موجودہ درگاہ شریف کے
پاس ایک مہوہ کادرخت تھا جس کے نیچے آپ اکثر قیام فرمایاکرتے تھے۔ آپ فرماتے کہ ہندوستان
آنے کے بعد مجھے کہیں سکون نہیں ملا اس درخت کے نیچے سکون محسوس کرتاہوں۔ یہ آپ کی
شھادت کی جانب اشارہ تھا۔آپ کے بہرائچ آمد کے بعد ہر طرف مخالفت کی ہوائیں چلنے
لگیں انہی دنوں آپ کے والد سالار ساہو کابھی وصال ہوگیا۔ والد کے وصال کے بعد بھی
آپ کے عزم وحوصلہ میں کوئ کمی نہیں آئ بلکہ تبلیغ دین کے لئے جانفشانی کے ساتھ لگے
رہے ۔ بہرائچ وقرب وجوار کے راجاؤں کو آپ کی اقامت سے ناگواری ہوئ۔ انھوں نے آپ کو
بھگانا چاہا اور کہاکہ اگر یہاں سےنہیں گئے تو لڑائ سے معاملہ طے ہوگا۔ آپ نے فرمایا
کہ چند روزبعد چلاجاؤں گاپھر بھی وہ نہ مانے یہاں تک کہ جنگ کی نوبت آگئ ۔مخالفین
نے دریائے بھکلہ پر پڑاؤ ڈالا جہاں دونوں فوجوں کے مابین جم کر مقابلہ ہوا اسلام
کے شیروں نے اس قدر جواں مردی کامظاھرہ فرمایا کہ دشمنوں کے پاؤں اکھڑ گئے وہ بھاگ
کھڑے ہوئے اور ان کے کئ سردار گرفتار ہوئے ۔
اس شکشت سے تمام راجاؤں میں بے چینی
پیداہوگئی راجاسہر دیو نے مشورہ دیا کہ اس بار میدان جنگ میں لوہے کی زھر آلود
کیلیں بچھادی جائیں چنانچہ ایسا ہی کیاگیا اور دونوں فوجیں ایک بار پھر آمنے سامنے
ہوئیں اس بار بھی دشمنوں کو شکشت کامنھ دیکھناپڑا۔ اس جنگ میں سرکار غازی کے
دوتہائ احباب نے جام شہادت نوش فرمایا ۔دوبارہ شکشت کے بعدہندؤوں نے دھرم رکشا کے
نام پر لوگوں کو ابھارنا شروع کیا سورج دیوتا کے نام پورے شمالی ہندوستان میں
لوگوں کو جنگ کے لئے آمادہ کیاگیا۔ ہمالیہ کے دامن سے لیکر گھاگھراندی تک دشمنوں
کاٹڈی دل لشکر مقابلے کے تیارہوگیا۔ادھر مسعود غازی علیہ الرحمہ بھی اپنے چند جاں
نثاروں کے ساتھ میدان میں جلوہ بار ہوئے۔ جنگ کانقارہ بجا جنگ جاری کئ روز تک آپ
دشمنوں سے مقابلہ کرتے رہے مگراتنی کثیرفوج سے کب تک مقابلہ کرتے باقی ماندہ اکثر
جاں نثار بھی شہید ہوگئے ۔۔دشمنوں نے آپ پر تیروں کی بارش شروع کردی۔ آپ
اپنی محبوب سواری اسپ نیلی پرخون میں شرابور سوار تھے اس کے باوجود جدھر رخ
فرماتے دشمن لرزہ براندام ہوجاتے ۔ بالآخر 14رجب المرجب 424 ہجری مطابق 10 جولائی
1033عیسوی کو دشمنوں کے سردار سہردیو نے ٹیلوں کے آڑ سے ایسا تیر مارا جو آپ کے
گلوئے مبارک میں پیوست ہوگیا۔ تیر لگتے ہی آپ کاتوازن سواری پر قائم نہ رہ سکا،
غشی طاری ہوئ قریب تھاکہ آپ گھوڑے سے نیچے آجاتے مگر آپ کے سچے عاشق
سکندردیوانہ نے آپ کو سنبھالا اور سور ج کھنڈ کے نیچے مہوہ کے درخت کے نیچےلٹایا
آپ کی زبان پر کلمہ طیبہ جاری تھا، عصر ومغرب کے درمیانی وقت آپ نے اس دار فانی کو
خیر آبادکہا ۔
ابررحمت ان کی مرقد پر گہر باری کرے
حشر تک شان کریمی ناز بردار کرے
فنا کے بعد بھی باقی ہے شان رہبری تیر ی
خدا کی رحمتیں ہوں اے امیر
کارواں تجھ پر
آپ کامزار پرانوار اترپردیش کے ضلع بہرائچ
شریف میں زیارت گاہ خاص وعام ہے ۔۔ہرسال 14 رجب المرجب کو آپ کاعرس مقدس نہایت ہی
تزک واحتشام کے ساتھ منعقد ہوتاہے۔خدا ہمیں ان کے فیوض وبرکات سے مستفید فرمائے۔
آمین
ازقلم: نفیس احمد رضوی مصباحی
دارالعلوم مخدومیہ ردولی شریف فیض آباد
بہت خوب
ReplyDeleteماشاء اللہ بہت عمدہ
ReplyDeleteماشاء اللہ حضور
ReplyDeleteکیا بات ہے آپکا نام دیکھ کر پڑھنا شروع کیا. اللہ سلامت رکھے آپکو