آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ
کا نام جعفر، کنیت ابو عبداللہ اور لقب صادق تھا۔ آپ امام محمد
باقررضی اللہ عنہ کے بیٹےامام زین
العابدین رضی اللہ عنہ کے پوتے اور شہید کربلاسید
الشہداء حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کے پڑپوتے تھے۔
آپ کی والدہ ام فروہ محمد ابن ابو بکر کی پوتی تھیں جن کے
والد قاسم ابن محمدمدینہ کے سات فقہاء میں سے تھے۔ آپ خود
فرمایا کرتے ولدنی ابوبکر مرتین یعنی میں حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ سے دو مرتبہ پیدا ہوا ۔
حضر ت سیدنا مجدد الف
ثانی فرماتے ہیں کہ آپ کا نسب صوری اور نسب معنوی صدیق اکبر سے اس واسطے آپ نے
فرمایا ہے کہ علم باطن میں آپ کا انتساب اپنے نانا قاسم بن محمد بن ابوبکر سے ہے۔ (تذکرہ مشائخ نقشبندیہ)
امام علی زین العابدین
آپ کے دادا ہیں۔ نیز آپ کو تبع تابعین میں سے ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔ اکابرین
امت اما اعظم ابوحنیفہ ، امام مالک، حضرت
سفیان ثوری، سفیان بن عینیہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیھم نے آپ سے احادیث روایت کی
ہیں۔
آپ کی والدہ محترمہ
سیدہ ام فروہ خلیفہ اول حضرت سیدنا
ابوبکرصدیق کی پڑپوتی بھی تھیں اور
پڑنواسی بھی۔اس لیے آپ فرمایا کرتے تھے ”ولدنی ابوبکر مرتین“ کہ مجھے ابوبکر سے
دوہری ولادت ہونے کا شرف حاصل ہے۔ آپ نے فرمایا ہے کہ نیکی تین اوصاف کے بغیر کامل
نہیں ہوسکتی:
تو اپنی ہر نیکی کو معمولی سمجھے۔
تو اپنی ہر نیکی کو معمولی سمجھے۔
اس کو چھپائے۔
اس میں جلدی کرے
ولادت
با سعادت
18ربیع الاول 82ہجری کو آپ کی ولادت مدینہ منورہ میں ہوئی اور وفات 15
رجب المرجب 149ہجری مدینہ منورہ میں ہوئی۔ اس وقت آپ کے
دادا امام زین العابدین بھی زندہ تھے۔ آپ کے
والد امام محمد باقر کی عمر اس وقت
چھبیس
برس تھی۔
علامہ ابن خلکان کاکہناہے کہ صدق مقال کی وجہ سے آپ کے نام نامی کاجزو”صادق“ قرارپایاہے
(وفیات
الاعیان جلد ۱ ص ۱۰۵) ۔
جعفرکے متعلق علماء کابیان ہے کہ جنت میں جعفرنامی ایک شیریں نہرہے اسی کی مناسبت
سے آپ کایہ لقب رکھاگیاہے چونکہ آپ کافیض عام نہرجاری کی طرح تھا اسی لیے اس
لقب سے ملقب ہوئے۔ (بحوالہ تذکرة الخواص )
علامہ ابن حجر مکی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ اعیان آئمہ میں سے ایک جماعت مثل یحی بن
سعیدبن جریح، امام مالک، امام سفیان ثوری بن عینیہ، امام ابوحنیفہ، ایوب سجستانی
نے آپ سے حدیث اخذکی ہے۔
ابوحاتم
کاقول ہے کہ امام جعفر صادق ایسے ثقہ میں لایسئل عنہ مثلہ کہ آپ ایسے شخصوں
کی نسبت کچھ تحقیق اور استفساروتفحص کی ضرورت ہی نہیں ،آپ ریاست کی طلب سے بے
نیازتھے اورہمیشہ عبادت گزاری میں بسرکرتے رہے،۔
عمرابن مقدام کاکہناہے کہ جب میں امام جعفر صادق
علیہ السلام کودیکھتاہوں تومجھے معاخیال ہوتاہے کہ یہ جوہررسالت کی اصل و بنیادہیں
(صواعق
محرقہ ص ۱۲۰)
آپ
کی ولادت 82 ھ میں ہوئی ہے اس وقت عبدالملک بن مروان بادشاہ
وقت تھا پھرولید، سلیمان، عمربن عبدالعزیز، یزیدبن عبدالملک، ہشام بن عبدالملک،
ولیدبن یزیدبن عبدالملک، یزیدالناقص، ابراہیم ابن ولید، اور مروان الحمار، علی
الترتیب خلیفہ مقرر ہوئے مروان الحمارکے بعد سلطنت بنی امیہ کاچراغ گل ہوگیا اوربن
عباس نے حکومت پرقبضہ کرلیا، بنی عباس کا پہلا بادشاہ ابوالعباس، سفاح اوردوسرا
منصور دوانقی ہواہے ۔ملاحظہ ہو(اعلام الوری،تاریخ ابن الوردی، تاریخ ائمہ ص ۴۳۶) ۔
اسی منصورنے اپنی حکومت کے دوسال گزرنے کے بعدامام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کوزہرسے
شہیدکردیا(صواعق محرقہ ص ۱۲۱، ۴۵۰)۔
آپ
کا ایک مناظرہ
حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ نے بے شمارعلمی مناظرے فرمائے ہیں آپ نے دہریوں،
قدریوں، کافروں اور یہودیوں و نصاری کو ہمیشہ شکست فاش دی ہے کسی ایک مناظرہ میں
بھی آپ پرکوئی غلبہ حاصل نہیں کرسکا، عہدعبدالملک بن مروان کاذکرہے کہ ایک قدریہ
مذہب کامناظراس کے دربارمیں آکرعلماء سے مناظرہ کاخو ہشمندہوا، بادشاہ نے حسب عادت
اپنے علماء کوطلب کیااوران سے کہاکہ اس قدریہ مناظرسے مناظرہ کروعلماء نے اس سے
کافی زورآزمائی کی مگروہ میدان مناظرہ کاکھلاڑی ان سے نہ ہارسکا، اورتمام علماء
عاجزآگئے اسلام کی شکست ہوتے ہوئے دیکھ کر عبدالملک بن مروان نے فوراایک خط حضرت
امام محمد باقر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں مدینہ روانہ کیااوراس میں تاکید کی کہ آپ
ضرور تشریف لائیں حضرت امام محمد باقرکی خدمت میں جب اس کاخط پہنچاتوآپ نے اپنے فرزند
حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ سے فرمایاکہ بیٹامیں ضعیف ہوچکاہوں تم مناظرہ کے
لیے شام چلے جاؤ حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ اپنے پدربزرگوارکے حسب الحکم
مدینہ سے روانہ ہوکرشام پہنچ گئے۔
عبدالملک بن مروان نے جب امام محمدباقر رضی اللہ عنہ کے بجائے امام جعفر صادق رضی
اللہ عنہ کودیکھاتوکہنے لگاکہ آپ ابھی کم سن ہیں اوروہ بڑاپرانامناظر ہے، ہوسکتاہے
کہ آپ بھی اورعلماء کی طرح شکست کھاجائیں، اس لیے مناسب نہیں کہ مجلس مناظرہ
منعقدکی جائے حضرت نے ارشادفرمایا، بادشاہ توگھبرا نہیں، اگرخدانے چاہاتومیں صرف چندمنٹ
میں مناظرہ ختم کردوں گاآپ کے ارشادکی تائیددرباریوں نے بھی کی اورموقعہ مناظرہ
پرفریقین آگئے۔
چونکہ قدریوں کااعتقادہے کہ بندہ ہی سب کچھ ہے، خداکوبندوں کے معاملہ میں کوئی دخل
نہیں، اورنہ خداکچھ کرسکتاہے یعنی خداکے حکم اورقضاوقدروارادہ کوبندوں کے کسی
امرمیں دخل نہیں لہذا حضرت نے اس کی پہل کرنے کی خواہش پرفرمایاکہ میں تم سے صرف
ایک بات کہنی چاہتاہوں اوروہ یہ ہے کہ تم ”سورہ حمد“پڑھو،اس نے پڑھناشروع کیا جب
وہ ”ایاک نعبدوایاک نستعین“ پرپہنچاجس کاترجمہ یہ ہے کہ میں صرف تیری عبادت
کرتاہوں اوربس تجھی سے مدد چاہتاہوں توآپ نے فرمایا،ٹہرجاؤاورمجھے اس کاجواب دوکہ
جب خدا کوتمہارے اعتقاد کے مطابق تمہارے کسی معاملہ میں دخل دینے کاحق نہیں
توپھرتم اس سے مدد کیوں مانگتے ہو، یہ سن کروہ خاموش ہوگیا اورکوئی جواب نہ دے
سکا، بالآخر مجلس مناظرہ برخواست ہوگئی اوربادشاہ نے بے حدخوش ہوا(تفسیر برہان جلد ۱ ص ۳۳) ۔
علامہ ابن حجرمکی لکھتے ہیں کہ آپ نے ۱۱۳ ھ میں حج کیااوروہاں
خداسے دعاکی،خدانے بلافصل انگوراوردوبہترین ردائیں بھیجیں آپ نے انگورخودبھی
کھایااور لوگوں کوبھی کھلایا اورردائیں ایک سائل کودیدیں۔
اس وقعہ کی مختصرتفصیل یہ ہے کہ بعث بن سعدسنہ مذکورہ میں حج کے لیے گئے وہ
نمازعصرپڑھ کرایک دن کوہ ابوقبیس پرگئے وہاں پہنچ کردیکھاکہ ایک نہایت مقدس شخص
مشغول نمازہے، پھرنمازکے بعدوہ سجدہ میں گیا اور یارب یارب کہہ کرخاموش
ہوگیا،پھریاحی یاحی کہااورچپ ہوگیا،پھریارحیم یارحیم کہااورخاموش ہوگیا پھریاارحم
الراحمین کہہ کرچپ ہوگیا پھربولاخدایامجھے انگورچاہئے اورمیری ردابوسیدہ ہوگئی ہے
دوردائیں درکارہیں ۔
راوی حدیث بعث کہتاہے کہ یہ الفاظ ابھی تمام نہ ہوئے تھے کہ ایک تازہ انگوروں سے
بھری ہوئی زنبیل آموجوہوئی دراس پردوبہترین چادریں رکھی ہوئی تھیں اس عابدنے جب
انگورکھاناچاہاتومیں نے عرض کی حضورمیں امین کہہ رہاتھا مجھے بھی کھلائیے ،انہوں
نے حکم دیامیں نے کھاناشروع کیا،خداکی قسم ایسے انگور ساری عمرخواب میں بھی نہ
نظرآئے تھے پھرآپ نے ایک چادرمجھے دی میں نے کہامجھے ضرورت نہیں ہے اس کے بعدآپ نے
ایک چادرپہن لی اورایک اوڑھ لی پھرپہاڑسے اترکرمقام سعی کی طرف گئے میں ان کے
ہمراہ تھاراستے میں ایک سائل نے کہا،مولامجھے چادردیجئے خداآپ کوجنت لباس سے
آراستہ کرے گاآپ نے فورادونوں چادریں اس کے حوالے کردیں میں نے اس سائل سے پوچھایہ
کون ہیں؟ اس نے کہاامام زمانہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام یہ سن کرمیں ان کے
پیچھے دوڑاکہ ان سے مل کرکچھ استفادہ کروں لیکن پھروہ مجھے نہ مل سکے (صواعق محرقہ ص ۱۲۱ ) ۔
ایک دن حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے
ایک غلام کوکسی کام سے بازاربھیجاجب اس کی واپسی میں بہت دیرہوئی توآپ اس کوتلاش
کرنے کے لیے نکل پڑے،دیکھاایک جگہ لیٹاہواسورہاہے آپ اسے جگانے کے بجائے اس کے
سرہانے بیٹھ گئے اورپنکھاجھلنے لگے جب وہ بیدار ہواتوآپ نے فرمایایہ طریقہ
اچھانہیں ہے رات سونے کے لیے اوردن کام کاج کرنے کے لیے ہے آئندہ ایسانہ
کرنا(مناقب جلد ۵ ص ۵۲) ۔
ایک مرتبہ ایک حاجی مدینہ میں واردہوااورمسجدرسول میں سوگیا، آنکھ کھلی تواسے شبہ
ہواکہ اس کی ایک ہزارکی تھیلی موجودنہیں ہے اس نے ادھرادھردیکھا، کسی کونہ پایاایک
گوشہ مسجدمیں امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ نمازپڑھ رہے تھے وہ آپ کوبالکل نہ پہنچانتاتھا
آپ کے پاس آکرکہنے لگا کہ میری تھیلی تم نے لی ہے حضرت نے پوچھااس میں کیاتھا اس
نے کہا ایک ہزاردینار،حضرت نے فرمایا،میرے ساتھ میرے مکان تک آؤ، وہ آپ کے ساتھ
ہوگیابیت الشرف میں تشریف لاکر ایک ہزاردیناراس کے حوالے کردئیے ،وہ مسجدمیں واپس
آگیااوراپنااسباب اٹھانے لگا،توخود اس کی دیناروں کی تھیلی اسباب میں نظرآئی ،یہ
دیکھ کربہت شرمندہ ہوااوردوڑتا ہواامام کی خدمت میں آیااورعذرخواہی کرتے ہوئے وہ
ہزاردیناواپس کرناچاہا، حضرت نے فرمایا ہم جوکچھ دیدیتے ہیں وہ پھرواپس نہیں لیتے۔
آپ کاقاعدہ تھاکہ آپ مالداروں سے زیادہ غریبوں کی عزت کرتے تھے مزدوروں کی بڑی
قدرفرماتے تھے خودبھی تجارت فرماتے تھے اوراکثراپنے باغوں میں بہ نفس نفیس محنت
بھی کرتے تھے ایک مرتبہ آپ بیلچہ ہاتھ میں لیے باغ میں کام کررہے تھے اورپسینہ سے
تمام جسم ترہوگیاتھا، کسی نے کہا، یہ بیلچہ مجھے عنایت فرمائیے کہ میں یہ خدمت
انجام دوں حضرت نے فرمایا،طلب معاش میں دھوپ اورگرمی کی تکلیف سہناعیب کی بات
نہیں، غلاموں اورکنیزوں پروہی مہربانی رہتی تھی جواس گھرانے کی امتیازی صفت تھی ۔
کے فلک وقار شاگرد
حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کے شاگردوں کاشمارمشکل ہے بہت ممکن ہے مگر کچھ
شاگردوں کا تذکر حصول برکت کے لئے کئے دیتا ہوں عام مورخین نے بعض ناموں کو خصوصی طور پرپیش
کرکے آپ کی شاگردی کی سلک میں پروکرانہیں معزز بتایاہے ۔
مطالب السؤل، صواعق محرقہ، نورالابصار و غیرہ میں ہے کہ امام ابوحنیفہ، یحی بن
سعیدانصاری،ابن جریح، امام مالک ابن انس، امام سفیان ثوری، سفیان بن عینیہ، ایوب
سجستانی و غیرہ کاآپ کے شاگردوں میں خاص طور پرذکرہے(تاریخ ابن خلکان جلد ۱ ص ۱۳۰، خیرالدین زرکلی کی
الاعلام ص ۱۸۳، طبع مصر محمد فرید
وجدی کی ادارہ معارف القرآن کی جلد ۳ ص ۱۰۹/
طبع
مصر میں ہے و کان تلمیذہ ابوموسی جابربن حیان الصوفی الطرسوسی آپ کے
شاگردوں میں جابربن حیان صوفی طرسوسی بھی ہیں۔
آپ کے بعض شاگردوں کی جلالت قدراوران کی تصانیف اورعلمی خدمات پرروشنی ڈالنی توبے
انتہادشوارہے اس لیے اس مقام پرصرف جابربن حیان طرسوسی جوکہ انتہائی باکمال ہونے
کے با وجود شاگرد امام کی حیثیت سے عوام کی نظروں سے پوشیدہ ہیں کا ذکر کیاجاتاہے۔
آپ کاپورا نام ابوموسی جابربن حیان بن عبدالصمد الصوفی الطرسوسی الکوفی ہے
آپ ۷۴۲ ءء میں پیداہوئے اور ۸۰۳ ءء میں انتقال فرماگئے
بعض محققین نے آپ کی وفات ۸۱۳ ءء بتائی ہے لیکن ابن
ندیم نے ۷۷۷ ءء لکھاہے
انسائیکلوپیڈیا آف اسلامک ہسٹری میں ہے کہ استاداعظم جابربن حیان بن عبداللہ،
عبدالصمد کوفہ میں پیداہوئے وہ طوسی النسل تھے اور آزاد نامی قبیلہ سے تعلق رکھتے
تھے خیالات میں صوف تھا اوریمن کارہنے والاتھا، اوئل عمرمیں علم طبیعیات کی تعلیم
اچھی طرح حاصل کرلی اور امام جعفر صادق ابن امام محمد باقر کی فیض صحبت سے امام
الفن ہوگیا۔
تاریخ کے دیکھنے سے معلوم ہوتاہے کہ جابربن حیان نے امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کی
عظمت کااعتراف کرتے ہوئے کہاہے کہ ساری کائنات میں کوئی ایسا نہیں جو امام کی طرح
سارے علوم پربول سکے ۔
تاریخ آئمہ میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی تصنیفات کاذکرکرتے ہوئے لکھاہے
کہ حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ نے ایک کتاب کیمیا جفر رمل پرلکھی تھی حضرت
کے شاگرد و مشہور و معروف کیمیاگر جابربن حیان جو یورپ میں جبرکے نام سے مشہورہیں
جابرصوفی کالقب دیاگیاتھا اور ذوالنون مصری کی طرح وہ بھی علم باطن سے ذوق رکھتے
تھے، ان جابرابن حیان نے ہزاروں ورق کی ایک کتاب تالیف کی تھی جس میں حضرت امام
جعفر صادق کے پانچ سو رسالوں کوجمع کیاتھا، علامہ ابن خلکان کتاب وفیات الاعیان
جلد ۱ ص ۱۳۰ طبع مصر میں حضرت امام
جعفر صادق علیہ السلام کاذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :
حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کے مقالات علم کیمیا اورعلم جفر و فال میں
موجودہیں اورجابربن حیان طرسوسی آپ کے شاگردتھے، جنہوں نے ایک ہزار ورق کی کتاب
تالیف کی تھی، جس میں امام جعفر صادق علیہ السلام کے پانچ سورسالوں کوجمع کیاتھا،
علامہ خیرالدین زرکلی نے بھی الاعلام جلد ۱ ص ۱۸۲ طبع مصرمیں یہی کچھ
لکھاہے، اس کے بعد تحریر کیاہے کہ ان کی بے شمار تصانیف ہیں جن کاذکرابن ندیم نے
اپنی فہرست میں کیاہے علامہ محمدفریدوجدی نے دائرئہ معارف القرآن الرابع عشر کی ج ۳ ص ۹۰۱ طبع مصرمیں بھی لکھاہے
کہ جابربن حیان نے امام جعفر صادق کے پانچ سو رسائل کوجمع کرکے ایک کتاب ہزارصفحے
کی تالیف کی تھی، علامہ ابن خلدون نے بھی مقدمہ ابن خلدون مطبوعہ مصرص ۳۸۵ میں علم کیمیا میں علم
کیمیا کا ذکر کرتے ہوئے جابربن حیان کا ذکر کیاہے اور فاضل ہنسوی نے اپنی ضخیم
کتاب اورکتاب خانہ غیرمطبوعہ میں بحوالہ مقدمہ ابن خلدون ص ۵۷۹ طبع مصرمیں لکھاہے کہ
جابربن حیان علم کیمیاکے مدون کرنے والوں کاامام ہے، بلکہ اس علم کے ماہرین نے اس
کو جابرسے اتنامخصوص کردیاہے کہ اس علم کانام ہی ”علم جابر“ رکھ دیاہے
(الجوادشمارہ ۱۱ جلد ۱ ص ۹)
۔
مورخ ابن القطفی لکھتے ہیں کہ جابربن حیان کوعلم طبیعات اور کیمیا میں تقدم حاصل
ہے ان علوم میں اس نے شہرۂ افاق کتابیں تالیف کی ہیں ان کے علاوہ علوم فلسفہ وغیرہ
میں شرف کمال پرفائزتھے اوریہ تمام کمالات سے بھرپورہونا علم باطن کی پیروی
کانتیجہ تھا ملاحظہ ہو (طبقات الامم ص ۹۵
واخبارالحکماص ۱۱۱ طبع مصر)۔
پیام اسلام جلد ۷ ص ۱۵ میں ہے کہ یہ وہی خوش
قسمت مسلمان ہے جسے حضرت امام جعفر رضی اللہ عنہ کی شاگردی کاشرف حاصل تھا،اس کے
متعلق جنوری ۲۵ ء میں سائنس پروگریس نوشتہ جے ہولم یارڈایم ائے
ایف آئی سی آفیسر اعلی شعبئہ سائنس کفٹن کالج برسٹل نے لکھاہے کہ علم کیمیا کے
متعلق زمانہ وسطی کی اکثرتصانیف ملتی ہیں جن میں گیبرکاذکرآتاہے اورعام
طورپرگیبرابن حین اوربعض دفعہ گیبرکی بجائے جیبربھی دیکھاگیاہے اورگیبریاجیبردراصل
جابرہے، چنانچہ جہاں کہیں بھی لاطینی کتب میں گیبرکاذکرآتاہے وہاں مرادعربی
ماہرکیمیاجابربن حیان ہی ہے جسے() کے بجائے() کاآناجانا آسانی سے سمجھ میں آجاتاہے
لاطینی میں جے کے مترادف کوئی آواز اور بعض علاقوں مثلا مصر وغیرہ میں جے کواب بھی
بطور(جی) یعنی (گ) استعمال کیاجاتا ہے اس کے علاوہ خلیفہ ہارون رشیدکے زمانے میں
سائنس کیمسٹری وغیرہ کاچرچہ بہت ہوچکاہے اوراس علم کے جاننے والے دنیاکے گوشہ گوشہ
سے کھینچ کر دربارخلافت سے منسلک ہورہے تھے جابربن حیان کازمانہ بھی کم وبیش اس ہی
دورمیں پھیلاتھا پچھلے بیس پچیس سال میں انگلستان اورجرمنی میں جابرکے متعلق بہت
سی تحقیقات ہوئی ہیں لاطینی زبان میں علم کیمیاکے متعلق چندکتب سینکڑوں سال سے اس
مفکرکے نام سے منسوب ہیں جس میں مخصوص
۱ ۔ سما
۲ ۔ برفیکشن
۳ ۔ ڈی انویسٹی پرفیکشن
۴ ۔ڈی انویسٹی گیشن
ورٹیلس
۵ ۔ ٹٹیابہن لیکن ان
کتابوں کے متعلق اب تک ایک طولانی بحث ہے اوراس وقت مفکرین یورپ انہیں اپنے یہاں
کی پیداواربتاتے ہیں اس لیے انہیں اس کی ضرورت محسوس ہوتی ہے جابرکوحرف (جی)(گ) سے
پکاریں اور بجائے عربی النسل کے اسے یورپین ثابت کریں۔
حالانکہ سماکے کئی طبع شدہ ایڈیشنوں میں گیبرکوعربی ہی کہاگیاہے رسل کے انگریزی
ترجمہ میں اسے ایک مشہور عربی شہزادہ اور منطقی کہاگیاہے ۱۵۴۱ ء میں کی نورن برگ کے
ایڈیشن میں وہ صرف عرب ہے اسی طرح اوربہت سے قلمی نسخے ایسے مل جاتے ہیں جن میں
کہیں اسے ایرانیوں کے بادشاہ سے یادکیاگیاہے کسی جگہ اسے شاہ بندکہاگیاہے ان
اختلافات سے سمجھ میں آتاہے کہ جابربراعظم ایشیاسے نہ تھا بلکہ اسلامی عرب کاایک
درخشندہ ستارہ تھا۔
انسائکلوپیڈیاآف اسلامک کیمسٹری کے مطابق جعفربرمکی کے ذریعہ سے جابربن حیان
کاخلیفہ ہارون الرشیدکے دربارمیں آناجاناشروع ہوگیاچنانچہ انہوں نے خلیفہ کے نام
سے علم کیمیامیں ایک کتاب لکھی جس کانام ”شگوفہ“ رکھااس کتاب میں اس نے علم
کیمیاکے جلی وخفی پہلوؤں کے متعلق نہایت مختصرطریقے نہایت ستھراطریق عمل اورعجیب
وغریب تجربات بیان کئے جابرکی وجہ ہی سے قسطنطنیہ سے دوسری دفعہ یونانی کتب بڑی
تعدادمیں لائی گئیں ۔
منطق میں علامہ دہرمشہورہوگیا اورنوے سال سے کچھ زائدعمرمیں اس نے تین ہزارکتابیں
لکھیں اوران کتابوں میں سے وہ بعض پرنازکرتاتھا اپنی کسی تصنیف کے بارے میں اس نے
لکھا ہے کہ ”روئے زمین پرہماری اس کتاب کے مثل ایک کتاب بھی نہیں ہے نہ آج تک ایسی
کتاب لکھی گئی ہے اورنہ قیامت تک لکھی جائے گی (سرفراز ۲/
دسمبر
۱۹۵۲ ء)۔
فاضل ہنسوی اپنی کتاب”وکتاب خانہ“ میں لکھتے ہیں کہ جابرکے انتقال کے بعد دوبرس
بعدعزالدودولہ ابن معزالدولہ کے عہدمیں کوفہ کے شارع باب الشام کے قریب جابرکی
تجربہ گاہ کاانکشاف ہواچکاتھا جس کوکھودنے کے بعدبعض کیمیاوی چیزیں اورآلات بھی
دستیاب ہوئے ہیں
(فہرست ابن الندیم ۴۹۹) ۔
جابرکے بعض قدیمی مخطوطات برٹش میوزیم میں اب تک موجودہیں جن میں سے کتاب الخواص
قابل ذکرہے اسی طرح قرون وسطی میں بعض کتابوں کاترجمہ لاطینی میں کیاگیامنجملہ ”ان
تراجم کے کتاب“ سبعین بھی ہے جوناقص و ناتمام ہے اسی طرح ”البحث عن الکمال“
کاترجمہ بھی لاطینی میں کیاجاچکاہے یہ کتاب لاطینی زبان میں کیمیاپریورپ کی زبان
میں سب سے پہلی کتاب ہے اسی طرح اوردوسری کتابیں بھی مترجم ہوئیں جابرنے کیمیاکے
علاوہ طبیعیات،ہیئت،علم رویا،منطق،طب اوردوسرے علوم پربھی کتابیں لکھیں اس کی ایک
کتاب سمیات پربھی ہے ۔
یوسف الیاس سرکس صاحب معجم المطبوعات بتلاتے ہیں کہ جابربن حیان کی ایک نفیس کتاب
سمیات بربھی ہے جوکتب خانہ تیموریہ قاہرہ مصرمیں بہ ضمن مخطوطات ہے ان میں چندایسے
مقالات کوجوبہت مفیدتھے بعدکرئہ حروف نے رسالہ مقتطف جلد ۵۸،۵۹ میں شائع کیاہے ملاحظہ
ہو(معجم
ا لمطبوعات العربیہ المعربہ جلد ۳ حرف جیم ص ۶۶۵) ۔
جابر بحیثیت ایک طبیب کے کام کرتاتھا لیکن اس کی طبی تصانیف ہم تک نہ پہنچ سکیں،
حالانکہ اس مقالہ کا لکھنے والا یعنی ڈاکٹر ماکس می یرہاف نے جابرکی کتاب کوجوسموم
پرہے حال ہی میں معلوم کرلیاہے۔
جابرکی ایک کتاب جس کومع متن عربی اور ترجمہ فرانسیسی پول کراؤ متشرق نے ۱۹۳۵ ء میں شائع کیاہے ایسی
بھی ہے جس میں اس نے تاریخ انتشارآراوعقائد وافکارہندی، یونانی اوران تغیرات
کاذکرکیاہے جومسلمانوں نے کئے ہیں اس کتاب کانام ”اخراج مافی القوة الی الفعل “ ہے
(الجوادج
۹،۱۰ ص ۱۰ طبع بنارس)۔
کے علمی فیوض و برکات
حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ جنہیں راسخین فی العلم میں ہونے کاشرف حاصل ہے
اورجوعلم اولین وآخرین سے آگاہ اوردنیاکی تمام زبانوں سے واقف ہیں جیساکہ مورخین
نے لکھاہے میں ان کے تمام علمی فیوض وبرکات پرتھوڑے اوراق میں کیاروشنی ڈال
سکتاہوں میں نے آپ کے حالات کی چھان بین کی ہے اوریقین رکھتاہوں کہ اگرمجھے فرصت
ملے،توتقریبا چھ ماہ میں آپ کے علوم اورفضائل وکمالات کاکافی ذخیرہ جمع
کیاجاسکتاہے آپ کے متعلق امام مالک بن انس لکھتے ہیں میری آنکھوں نے علم وفضل وروع
وتقوی میں امام جعفر صادق سے بہتردیکھاہی نہیں جیساکہ اوپرگذراوہ بہت بڑے لوگوں
میں سے تھے اوربہت بڑے زاہدتھے خداسے بے پناہ ڈرتے تھے ،بے انتہاحدیث بیان کرتے
تھے ،بڑی پاک مجلس والے اورکثیرالفوائد تھے، آپ سے مل کر بے انتہاء فائدہ
اٹھایاجاتاتھا۔
یوں توہمارے تمام آئمہ اہلبیت علمی فیوض وبرکات سے بھرپورتھے اورعلم اولین وآخرین
کے مالک،لیکن دنیاوالوں نے ان سے فائدہ اٹھانے کے بجائے انہیں قیدوبندمیں رکھ
کرعلوم وفنون کے خزانے پرہتھکڑیوں اوربیڑیوں کے ناگ بٹھادئیے تھے اس لئے ان حضرات
کے علمی کمالات کماحقہ، منظرعام پرنہ آسکے ورنہ آج دنیاکسی علم میں خاندان رسالت
مآب کے علاوہ کسی کی محتاج نہ ہوتی۔
کے اصحاب کی تعداد اوران کی تصانیف
علمائے کرام لکھتے ہیں کتب رجال میں جن اصحاب آئمہ کے حالات
وتراجم مذکورہیں ،ان کی مجموعی تعدادچار ہزارپانچ سواصحاب ہیں جن میں سے صرف
چارہزاراصحاب حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کے ہیں سب کاتذکرہ ابوالعباس
احمدبن محمدبن سعیدبن عقدہ نے اپنی کتاب رجال میں کیاہے اورشیخ الطائفہ ابوجعفرالطوسی
نے بھی ان سب کااحصاء اپنی کتاب رجال میں کیاہے ۔
فضل بن شاذان نے ایک سواسی کتابیں تالیف کی ہیں،ابن دول نے سوکتابیں لکھیں ہیں اسی
طرح برقی نے بھی تقریبا سوکتابیں لکھیں ،ابن عمیرنے نوے کتابیں لکھیں اوراکثراصحاب
آئمہ ایسے تھے جنہوں نے تیس یاچالیس سے زیادہ کتابیں تالیف کی ہیں غرضیکہ ایک
ہزارتین سومصنفین اصحاب آئمہ نے تقریبا پانچ ہزارتصانیف کیں،مجمع البحرین میں لفظ
جبرکے ماتحت ہے کہ صرف ایک جابرالجعفی،امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کے سترہزاراحادیث کے حافظ تھے۔
تاریخ اسلام جلد ۵ ص ۳ میں ہے کہ ابان بن
تغلب بن رباح (ابوسعید) کوفی صرف امام جعفر صادق علیہ السلام کی تیس ہزاراحادیث کے
حافظ تھے ان کی تصانیف میں تفسیرغریب القرآن کتاب المفرد، کتاب الفضائل، کتاب
الصفین قابل ذکرہیں، یہ قاری فقیہ لغوی محدث تھے، انہیں حضرت امام زین العابدین
اورحضرت امام محمدباقر،حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کے صحابی ہونے کاشرف حاصل تھا ۱۴۱ ھ میں انتقال کیا۔
اور علم طب
علمائے کرام فرماتے ہیں کہ ہندوستان کاایک مشہورطبیب منصوردوانقی کے
دربارمیں طلب کیاگیا،بادشاہ نے حضرت سے اس کی ملاقات کرائی، امام جعفر صادق علیہ
السلام نے علم تشریح الاجسام اورافعال الاعضاء کے متعلق اس سے انیس سوالات کئے وہ
اگرچہ اپنے فن میں پوراکمال رکھتاتھا لیکن جواب نہ دے سکابالاخرکلمہ پڑھ کرمسلمان
ہوگیا،مزید لکھتے ہیں کہ اس طبیب سے حضرت نے بیس سوالات کئے تھے اوراس انداز سے
پرازمعلومات تقریرفرمائی کہ وہ بول اٹھا ”من این لک ہذا العلم“اے حضرت یہ بے پناہ
علم آپ نے کہاں سے حاصل فرمایا؟
آپ نے
کہاکہ میں نے اپنے باپ داداسے ،انہوں نے محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے ،انہوں
نے جبرئیل علیہ السلام سے ،انہوں نے خداوند عالم عزوجل سے اسے حاصل کیاہے ،جس نے اجسام وارواح
کوپیداکیاہے ”فقال الھندی صدقت-“ اس نے کہابے شک آپ نے سچ فرمایا،اس کے بعد اس نے
کلمہ پڑھ کراسلام قبول کرلیااورکہا ”انک اعلم اہل زمانہ“ میں گواہی دیتاہوں کہ آپ
عہدحاضرکے سب سے بڑے عالم ہیں ۔
مختصریہ کہ آپ کے علمی فیوض و برکات پرمفصل روشنی ڈالنی تودشوارہے جیساکہ میں نے
پہلے عرض کیاہے ،البتہ صرف یہ عرض کردیناچاہتاہوں کہ علم القرآن کے بارے میں دمعہ
ساکبہ ص ۴۸۷ پرآپ کاقول موجودہے وہ
فرماتے ہیں خداکی قسم میں قرآن مجیدکواول سے آخرتک اس طرح جانتاہوں گویامیرے ہاتھ
میں آسمان وزمین کی خبریں ہیں،اوروہ خبریں بھی ہیں جوہوچکی ہیں،اورہورہی ہیں
اورجوہونے والی ہیں اورکیوں نہ ہوجبکہ قرآن مجیدمیں ہے کہ اس پرہرچیزعیاں ہے ایک
مقام پرآپ نے فرمایاہے کہ ہم انبیاء اوررسل کے علوم کے وارث ہیں (دمعہ ساکبہ ص ۴۸۸) ۔
علم النجوم کے بارے میں اگرآپ کے کمالات دیکھناہوں توکتب طوال کامطالعہ کرنا چاہئے
آپ نے نہایت جلیل علماء علم النجوم سے مباحثہ اورمناظرہ کرکے انہیں انگشت بدندان
کردیاہے ،بحارالانوار ،دمعہ ساکبہ ،وغیرہ میں آپ کے مناظرے موجود ہیں۔علماء
کافیصلہ ہے کہ علم نجوم حق ہے لیکن اس کاصحیح علم آئمہ اہلبیت کے علاوہ کسی کونصیب
نہیں ،یہ دوسری بات ہے کہ حلقہ گوشان مودت نورہدایت سے کسب ضیا کرلیں۔
حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ دیگر آئمہ کی طرح منطق الطیر سے بھی باقاعدہ
واقف تھے، جوپرندہ یاکوئی جانورآپس میں بات چیت کرتاتھااسے آپ سمجھ لیاکرتے تھے
اوربوقت ضرورت اس کی زبان میں تکلم فرمایاکرتے تھے ۔
اور علم الاجسام
بحارالانوارجلد ۱۴ میں ہے کہ ایک عیسائی نے حضرت امام جعفر صادق حضرت
امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ سے علم طب کے متعلق سوالات کرتے ہوئے جسم انسان کی
تفصیل پوچھی آپ نے ارشادفرمایاکہ خداوندعالم نے انسان کے جسم میں ۱۲ وصل دوسواڑتالیس ہڈیاں
اورتین سوساٹھ رگیں خلق فرمائی ہیں، رگیں تمام جسم کوسیراب کرتی ہیں ،ہڈیاں جسم
کو،گوشت ہڈیوں کواوراعصاب گوشت کوروکے رہتے ہیں۔
ایک
طبیب ہندی سے تبادلہ خیالات
ایک بار حضرت امام جعفر صادق
علیہ السلام منصور دوانقی کے دربارمیں تشریف فرماتھے، وہاں ایک طبیب ہندی کی باتیں
بیان کررہاتھا اورحضرت خاموش بیٹھے سن رہے تھے جب وہ کہہ چکاتو حضرت سے مخاطب
ہوکرکہنے لگا اگرکچھ پوچناچاہیں توشوق سے پوچھیں، آپ نے فرمایا، میں
کیاپوچھوں،مجھے تجھ سے زیادہ معلوم ہے (طبیب اگریہ بات ہے تومیں بھی کچھ سنوں ۔
امام : جب کسی
مرض کاغلبہ ہوتواس کاعلاج ضدسے کرناچاہئے یعنی حارگرم کاعلاج سردسے ترکاخشک سے
،خشک کاترسے اورہرحالت میں اپنے خداپربھروسہ رکھے یادرکھ معدہ تمام بیماریوں
کاگھرہے اورپرہیزسودواؤں کی ایک دواہے جس چیزکاانسان عادی ہوجاتاہے اس کے مزاج کے
موافق اورا سکی صحت کاسبب بن جاتی ہے ۔
طبیب: بے شک آپ نے جوبیان فرمایاہے
اصلی طب ہے۔
امام : اچھامیں چندسوال
کرتاہوں،ان کاجواب دے : آنسووں اوررطوبتوں کی جگہ سرمیں کیوں ہے؟
سرپربال کیوں ہے؟
پیشانی بالوں سے خالی کیوں ہے؟
پیشانی
پرخط اورشکن کیوں ہے؟
دونوں پلکیں آنکھوں کے اوپرکیوں ہیں؟
ناک
کاسوراخ نیچے کی طرف کیوں ہے؟
منہ
پردوہونٹ کیوں بنائے گئے ہیں؟
سامنے
کے دانت تیزاورڈاڈھ چوڑی کیوں ہے؟
اوران
دونوں کے درمیان میں لمبے دانت کیوں ہیں؟
دونوں ہتھیلیاں بالوں سے خالی کیوں ہیں؟
ردوں کے ڈاڈھی کیوں ہوتی ہے؟
ناخن
اوربالوں میں جان کیوں نہیں؟
دل
صنبوری شکل کاکیوں ہوتاہے؟
پھیپڑے کے دوٹکڑے کیوں ہوتے ہیں،اوروہ اپنی جگہ
حرکت کیوں کرتاہے؟
جگرکی
شکل محدب کیوں ہے، گردے کی شکل لوبئے کے دانے کی طرح کیوں ہوتی ہے گھٹنے آگے
کوجھکتے ہیں پیچھے کوکیوں نہیں جھکتے؟
دونوں
پاوں کے تلوے بیچ سے خالی کیوں ہیں؟
طبیب: میں ان باتوں کاجواب
نہیں دے سکتا۔
امام : بفضل خدا میں ان سب باتوں کاجواب
جانتاہوں ۔
طبیب بیان فرمائیے۔
حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ:
¶ سراگرآنسوؤں اوررطبوتوں کامرکزنہ ہوتاتوخشکی کی وجہ سے ٹکڑے ٹکڑے
ہوجاتا۔
¶ بال اس لیے سرپرہیں کہ ان کی جڑوں سے تیل وغیرہ دماغ تک پہنچتارہے
اوربہت سے دماغی انجرے نکلتے رہیں دماغ گرمی اورزیادہ سردی سے محفوظ رہے۔
¶ پیشانی اس لیے بالوں سے خالی ہے کہ اس جگہ سے آنکھوں میں نور
پہنچتاہے۔
¶ پیشانی میں خطوط اورشکن اس لیے ہیں کہ سرسے جوپشینہ گرے وہ آنکھوں
میں نہ پڑجائے ،جب شکنوں میں پسینہ جمع ہوتوانسان اسے پونچھ کرپھینک دے جس طرح
زمین پرپانی جاری ہوتاہے توگڑھوں میں جمع ہوجاتاہے۔
¶ پلکیں اس لیے آنکھوں پرقراردی گئی ہیں کہ آفتاب کی روشنی اسی قدران
پر پڑے جتنی کہ ضرورت ہے اوربوقت ضرورت بندہوکرمردمک چشم کی حفاظت کرسکیں نیزسونے
میں مدد دے سکیں، تم نے دیکھاہوگاکہ جب انسان زیادہ روشنی میں بلندی کی طرف کسی
طرف کسی چیزکودیکھناچاہتاہے توہاتھ کوآنکھوں کے اوپررکھ کرسایہ کرلیتاہے۔
¶ ناک دونوں آنکھوں کے بیچ میں اس لیے قراردیاہے کہ مجمع نورسے روشنی
تقسیم ہوکربرابردونوں آنکھوں کوپہنچے۔
¶ آنکھوں کوبادامی شکل کااس لیے بنایاہے کہ بوقت ضرورت سلائی کے
ذریعہ سے دوا (سرمہ وغیرہ) اس میں آسانی سے پہنچ جائے،اگرآنکھ چوکور یاگول ہوتی
توسلائی کااس میں پھرنامشکل ہوتادوااس میں بخوبی نہ پہنچ سکتی اوربیماری دفع نہ
ہوتی۔
¶ ناک کاسوراخ نیچے کواس لیے بنایاکہ دماغی رطوبتیں آسانی سے نکل
سکیں، اگراوپرکوہوتاتویہ بات نہ ہوتی اوردماغ تک کسی چیزکی بوبھی جلدی نہ پہنچ
سکتی
¶ ہونٹ اس لیے منہ پرلگائے گئے کہ جورطوبتیں دماغ سے منہ میں آئیں وہ
رکی رہیں اورکھانابھی انسان کے اختیارمیں رہے جب چاہے پھینک اورتھوک دے۔
¶ داڑھی مردوں کواس لیے دی کہ مرداورعورت میں تمیزہوجائے ۔
¶ اگلے دانت اس لیے تیزہیں کہ کسی چیزکاکاٹنایاکھٹکھٹاسہل ہو،
اورڈاڈھ کوچوڑا اس لیے بنایاکہ غذا پیسنا اورچبانا آسان ہو، ان دونوں کے درمیان
لمبے دانت اس لیے بنائے کہ ان دونوں کے استحکام کے باعث ہوں، جس طرح مکان کی
مضبوطی کے لیے ستون (کھمبے) ہوتے ہیں۔
¶ ہتھیلوں پربال اس لیے نہیں کہ کسی چیزکوچھونے سے اس کی نرمی سختی،
گرمی، سردی وغیرہ آسانی سے معلوم ہوجائے، بالوں کی صورت میں یہ بات حاصل نہ ہوتی۔
¶ بال اورناخن میں جان اس لیے نہیں ہے کہ ان چیزوں کابڑھنابرامعلوم
ہوتاہے اورنقصان رساں ہے،اگران میں جان ہوتی توکاٹنے میں تکلیف ہوتی
¶ دل صنوبری شکل یعنی سرپتلااوردم چوڑی (نچلاحصہ) اس لیے ہے کہ
بآسانی پھیپڑے میں داخل ہوسکے اوراس کی ہواسے ٹھنڈک پاتارہے تاکہ اس کے بخارات
دماغ کی طرف چڑھ کربیماریاں پیدانہ کرے۔
¶ پھیپڑے کے دوٹکڑے اس لیے ہوے کہ دل ان کے درمیان ہے اوروہ اس
کوہوادیں۔
¶ جگرمحدب اس لیے ہواہے کہ اچھی طرح معدے کے اوپرجگہ پکڑے اوراپنی
گرانی اورگرمی سے غذا کوہضم کرے۔
¶ کردہ لوبئے کے دانہ کی شکل کااس لیے ہواکہ (منی) یعنی نطفہ انسانی
پشت کی جانب سے اس میں آتاہے اوراس کے پھیلنے اورسکڑنے کی وجہ سے آہستہ آہستہ
نکلتاہے جوسبب لذت ہے۔
¶ گھٹنے پیچھے کی طرف اس لیے نہیں جھکتے کہ چلنے میں آسانی میں
ہواگرایسانہ ہوتاتوآدمی چلتے وقت گرگرپڑتا، آگے چلنا آسان نہ ہوتا۔
¶ دونوں پیروں کے تلوے بیچ میں سے اس لیے خالی ہیں کہ دونوں کناروں
پربوجھ پڑنے سے باسانی پیراٹھ سکیں اگرایسانہ ہوتااورپورے بدن کابوجھ پیروں
پرپڑتاتوسارے بدن کابوجھ اٹھانا دشوارہوتا۔
یہ جوابات سن کرہندوستانی طبیب حیران رہ گیااورکہنے لگاکہ آپ نے یہ علم کس سے
سیکھاہے فرمایااپنے داداسے انہوں نے رسول خداسے حاصل کیاتھا اورانہوں نے خداسے
سیکھاہے اس نے کہا ”اشہدان لاالہ الااللہ وان محمدارسول اللہ وعبدہ“ میں گواہی
دیتاہوں کہ خداایک ہے اورمحمداس کے رسول اورعبد خاص ہیں ،”وانک اعلم اہل زمانہ“
اورآپ اپنے زمانہ میں سب سے بڑے عالم ہیں (مناقب جلد ۵ ص ۴۶ )۔
بال
بچوں سمیت جلادینے کامنصوبہ
طبیب ہندی سے گفتگوکے بعد حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کاعام شہرہ
ہوگیااورلوگوں کے قلوب پہلے سے زیادہ آپ کی طرف مائل ہوگئے، دوست اوردشمن آپ کے
علمی کمالات کاذکرکرنے لگے یہ دیکھ کرمنصورکے دل میں آگ لگ گئی ،اوروہ اپنی شرارت
کے تقاضوں سے مجبورہوکریہ منصوبہ بنانے لگاکہ اب جلدسے جلدانہیں ہلاک
کردیناچاہئے،چنانچہ
علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ علیہ فرماتے
ہیں کہ
مات مسموما ایام المنصور، منصورکے زمانہ میں آپ
زہرسے شہیدہوئے ہیں (صواعق محرقہ ص ۱۲۱، ۴۵۰)
No comments:
Post a Comment