عقیقہ
اورختنہ کی مروّجہ رسمیں
عام طور پر عقیقہ اور ختنہ کے موقع پر یہ
رسمیں ہوتی ہیں، بہت ساری جگہ عقیقہ کرتے ہی نہیں بلکہ چھَٹی کرتے ہیں، وہ یہ کہ
بچّہ کی پیدائش کے چھٹے دن رات کے وقت عورتیں جمع ہوکر مل کر گاتی بجاتی ہیں پھر
زچہ کو کوٹھڑی سے باہر لاکر تارے دکھاکر گاتی ہیں پھر میٹھے چاول تقسیم کئے جاتے
ہیں۔ گیت نہایت بیہودہ گائے جاتے ہیں یہ رسم خالص ہندوانی ہے اور جو لوگ عقیقہ
کرتے بھی ہیں تو وہ اپنی برادری کے لحاظ سے جانور ذبح کرتے ہیں میں نے دیکھا ہے کہ
بڑی برادری والے لوگ چھ سات جانور ذبح کرکے تمام گوشت برادری میں تقسیم کردیتے ہیں
یا پُر تکلف کھانا پکاکر عام دعوت کرتے ہیں اور یہ بھی مشہور ہے کہ دلہن کا پہلا
بچّہ میکے میں پیدا ہو اور عقیقہ وغیرہ کا سار اخرچہ دلہن کے ماں باپ کریں اگر وہ
ایسا نہ کریں تو سخت بدنامی ہوتی ہے۔ جب ختنہ کا وقت آتا ہے تو ایسی رسمیں ہوتی
ہیں خدا کی پناہ۔ ختنہ سے پہلی رات جگ راتا ہوتا ہے، جسے خدائی رات کہتے ہیں جس
میں سب عورتیں جمع ہوکر رات بھر گانا گاتی ہیں اور گھر والے گلگلے پکاتے ہیں پھر
فجر کے وقت جوان لڑکیاں اور عورتیں گاتی ہوئی مسجِد کو جاتی ہیں وہاں جاکر ان
گلگلوں سے طاق بھرتی ہیں، یعنی گھی کا چراغ اور یہ گلگلے کچھ پیسے طاق میں رکھ کر
گاتی ہوئی واپس آتی ہیں یہ رسم بعض جگہ شادی پر بھی ہوتی ہے اور یہ رسم یوپی کی
بعض قوموں میں زِیادہ ہے مگر ختنہ کے وقت اس کا ہونا ضَروری ہے جب ختنہ کا وقت آیا
تو قرابت دار جمع ہوتے ہیں جن کی موجودگی میں ختنہ ہوتا ہے نائی ختنہ کرکے اپنی کٹوری رکھ دیتا ہے جس میں ہر
شخص ایک ایک، دودو یا چار آنہ، آٹھ آنے ڈالتا ہے۔ سب مل کر غرباء کے یہاں تو پندرہ
بیس روپیہ ہوجاتے ہیں مگر امیروں کے گھر سو، دوسو، ڈھائی سو روپیہ بنتا ہے پھر بچہ
کے والِد کی طرف سے برادری کی روٹی ہوتی ہے اور بچّہ کے والد اپنی بہنوں بہنوئی و
دیگر اہلِ قرابت کو کپڑوں کے جوڑے دیتا ہے، ادھر بچے کے نانا، ماموں کی طرف سے
نقدی، روپیہ کپڑوں کے جوڑے لانا ضَروری ہوتا ہے۔ا ہلِ قرابت جو نائی کی کٹوری میں
پیسے روپے ڈالتے ہیں وہ ''نیوتا''کہلاتا ہے، یہ در حقیقت بچّے کے والد پر قرض کی طرح
ہوتا ہے کہ جب ان لوگوں کے گھر ختنہ ہوتو یہ بھی اس کے گھر نقدی دے۔
ان رسموں کی خرابیاں :
چھَٹی کرنا خالِص ہندوؤں کی رسم ہے جو انہوں نے عقیقہ کے مقابلے
میں ایجاد کی ہے۔ پہلے عرض کرچکے ہیں کہ عورتوں کا گانا بجانا حرام ہے اسی طرح زچہ
کو تارے دکھانا محض لغویات ہے پھر گانے والیوں کو میٹھے چاول کھلاناحرام کام کا
بدلہ ہے لہٰذا یہ چھٹی کی رسم بالکل بندکردینا ضَروری ہے عقیقہ اور ختنہ میں اس
قدر خرچہ کرانے کا یہ اثر پڑے گا کہ لوگ خرچ کے خوف سے یہ سنّت ہی چھوڑدیں گے،
عقیقہ اور ختنہ کرنا سنّت ہے اور سنّت عبادت ہے، عبادت کو اسی طرح(کیا جائے جس طرح
) نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم سے ثابت ہے۔ اپنی طرف سے اس میں
رسمیں داخِل کرنا لغو(یعنی بے کار) ہے۔نماز پڑھنا، زکوٰۃ دینا، حج کرنا عبادت ہے
اب اگر کوئی شخص نماز کو گاتا بجاتا ہوا جائے اور زکوٰۃ دیتے وقت برادری کی روٹی
کو ضروری سمجھے تو یہ محض بیہودہ بات ہے۔ میں نے ایک جوان شخص کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ میرا ختنہ
نہیں ہوا۔میں نے پوچھا کیوں ؟اس نے جواب دیا کہ میرے ماں باپ کے پاس برادری کی
روٹی کرنے کے لئے روپیہ نہ تھا، اس لئے میرا ختنہ نہ ہوا۔ دیکھا !ان رسموں کی
پابندیوں میں یہ خرابی ہے۔ بچے کا خرچہ باپ کے ذمّہ ہے، اس کا عقیقہ اور ختنہ باپ
کرے۔ یہ پابندی لگادینا کہ پہلے بچے کا ختنہ نانا،ماموں کریں اسلامی قاعدے کے خلاف
ہے اسی طرح برادری کی روٹی اور نائی کو اس قدر چندہ کرکے دینا سخت بری رسم ہے اس
کو بند کردینا چاہے۔ نیوتا بھی بہت بری رسم ہے جو غالباً دوسری قوموں سے ہم نے
سیکھی ہے اس میں خرابی یہ ہے کہ یہ جھگڑے اورلڑائی کی جڑ ہے وہ اس طرح کہ فرض کرو
کہ ہم نے کسی کے گھر چار موقعوں پر دو دو روپے دیئے ہیں تو ہم بھی حساب لگاتے رہتے
ہیں اور وہ بھی جس کو یہ روپیہ پہنچا۔ اب ہمارے گھر کوئی خو شی کا موقع آیا ہم نے
اس کو بلایا تو ہماری پوری نیّت یہ ہوتی ہے کہ وہ شخص کم ازکم دس روپے ہمارے گھر
دے تاکہ آٹھ روپے ادا ہوجائیں اور دو روپے ہم پر چڑھ جائیں ادھر اس کو بھی یہ ہی
خیال ہے کہ اگر میرے پاس اتنی رقم ہو تو میں وہاں دعوت کھانے جاؤں ورنہ نہ جاؤں،
اب اگر اس کے پاس اس وقت روپیہ نہیں تو وہ شرمندگی کی وجہ سے آتا ہی نہیں اور اگر
آیا تو دو چار روپے دے گیا۔ بہرحال ادھر سے شکایت پیدا ہوئی، طعنے بازیاں ہوئیں،
دل بگڑے۔ بعض لوگ تو قرض لے کر نیوتا ادا کرتے ہیں۔ بولو!یہ خوشی ہے یا اعلانِ جنگ
؟لوگ کہتے ہیں کہ نیوتا سے ایک شخص کی وقتیہ مدد ہوجاتی ہے۔ اس لئے یہ رسم اچھّی
ہے مگر دوستو! مدد تو ہوجاتی ہے لیکن دل کیسے برے ہوتے ہیں۔ اور روپیہ کس طرح پھنس
جاتا ہے نہ معلوم یہ رسم کب سے شروع ہوئی،باہمی امدا د کرنا اور بات ہے۔ لیکن یہ باہمی امدا د نہیں، اگر
باہمی امدا د ہوتی تو پھر بدلہ کا تقاضا کیسا؟لہٰذا یہ نیوتا کی رسم بالکل بند
ہونی چاہے۔ ہاں اگر قرابت دار کو بطورِ مدد کچھ دیا جائے اور ا س کے بدلہ کی توقع
نہ رکھی جائے تو واقعی مدد ہے اس میں کوئی مضائقہ نہیں، ہدیّہ سے محبَّت بڑھتی ہے
او ر قرض سے محبّت ٹوٹتی ہے۔اب نیوتا بیہودہ قرض ہوگیا ہے۔
نوٹ ضروری:عقیقہ، ختنہ،
شادی، موت ہر وقت ہی نیوتا کی رسم جاری ہے یہ بالکل بند ہونی چاہے۔
عقیقہ اور ختنہ کے اسلامی
طریقے:
طریقہ سنّت یہ ہے کہ بچّہ کی پیدائش کے ساتویں رو ز عقیقہ ہو اور
اگر نہ ہوسکے تو پندرھویں دن یا اکیسویں روز یعنی پیدائش کے دن سے ایک دن پیشتر
اگر جمعہ کو بچّہ پیدا ہوا تو جب بھی عقیقہ ہو جمعرات کو ہو، عقیقہ کا حکم یہ ہے
کہ لڑکے کی طرف سے دو بکریاں ایک سال کی اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ایک سال کی
ذبح کردی جائے۔ عقیقہ کے جانور کی سری نائی کو اور ران دائی کو دی جائے، اگر یہ
دونوں مسلمان ہوں۔(بہار شریعت، حصہ، ۵، ص۱۵۴، ۱۵۵
ملخصاً)
گوشت کے تین حصّے کردیئے جائیں۔ ایک حصّہ فقراء کو خیرات کردیا
جائے، دوسرا حصّہ اہلِ قرابت میں تقسیم ہو اور تیسرا حصّہ اپنے گھر میں کھا یا
جائے۔ بہتر یہ ہے کہ عقیقہ کے جانور کی ہڈِّیاں توڑی نہ جائیں بلکہ جوڑوں سے
علیٰحدہ کردی جائیں اور گوشت وغیرہ کھاکر ہڈِّیاں دفن کردی جائیں۔ ساتویں رو زہی
بچّہ کا نام بھی رکھا جائے۔ سب سے بہتر نام ہے ''محمد ''۔مگر جس کا نام ''محمد ''
ہو اس کو بگاڑ کر نہ پکاراجائے۔ عبد اللہ، عبدالرحمن اور انبیائے کرام علیہم
السلام اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے نام پر نام رکھنا بھی
اچھّا ہے۔ عیسیٰ، موسیٰ، ابراہیم، اسمٰعیل، عباس، عمر وغیرہ۔ اور بے معنیٰ نام نہ
رکھے جائیں جیسے بدھو، جمعراتی، خیراتی وغیرہ۔ اسی طرح جن ناموں میں فخر ظاہر ہوتا
ہو نہ رکھے جائیں جیسے شاہجہان، نواب، راجہ، بادشاہ وغیرہ۔ لڑکیوں کے نام قمر
النساء، جہاں آراء بیگم وغیرہ نہ رکھو بلکہ ان کے نام فاطمہ،آمنہ، عائشہ، مریم،
زینت، کلثوم وغیرہ رکھو۔ عقیقہ کے وقت جب جانور ذبح ہو تب بچّہ کے بال منڈوادیئے
جائیں اوربالوں کو چاندی سے وزن کرکے خیرات کردی جائے اور سر پر زعفران بھگوکر مل
دیا جائے یہ جو مشہور ہے کہ بچّہ کے ماں باپ عقیقہ کا گوشت نہ کھائیں محض غلط ہے۔
عقیقہ والے کو اختیار ہے کہ خواہ کچّا گوشت تقسیم کردے یا پکاکر دعوت کردے مگر
خیال رہے کہ نام و نمود کو اس میں دخل نہ ہو، فقط سنت کی نیت سے ہو، نائی اور
قصائی کی اجرت پہلے سے مقررہو جو عقیقہ کے بعد دے دی جائے، اگر نائی اپنا قدیمی
(یعنی پرانا)خدمت گزار ہے تو اس کو زِیادہ اجرت دو، جس سے اس کا حق ادا ہوجائے اور
اگر نہیں تو واجبی اُجرت دے دو۔ یہ بھی جائز ہے کہ ایک گائے خرید کر چند بچّوں کا
عقیقہ ایک ہی گائے میں کردیا جائے، یعنی لڑکے کے لئے گائے کے دو ساتویں حصّے اور
لڑکی کے لئے ایک حصّہ۔ یہ بھی جائز ہے کہ اگر قربانی کی گائے میں عقیقہ کا حصّہ
ڈال دیا جائے کہ لڑکے کے لئے دو حصّے اور لڑکی کے لئے ایک حصّہ۔
نوٹ ضروری:
عقیقہ
فرض یا واجب نہیں ہے صرف سنّتِ مستحبَّہ ہے، غریب آدمی کو ہر گز جائز نہیں کہ سودی
قرضہ لے کر عقیقہ کرے۔ قرضہ لے کر تو زکوٰۃ بھی دینا جائز نہیں اور عقیقہ زکوٰۃ سے
بڑھ کر نہیں ہے۔ میں نے بعض غریب مسلمانوں کو دیکھا ہے
کہ قرض لیکر عقیقہ کرتے ہیں اگر عقیقہ نہ کریں تو بے چاروں کی ناک
کٹ جائے، وہ بغیر ناک کے رہ جائیں۔ غرضیکہ سنّت کا خیال نہیں اپنی ناک کا خیال ہے
ایسی ناک خدا کرے کٹ ہی جائے۔
ختنہ:
ختنہ کا سنّت طریقہ یہ ہے ساتویں برس بچہ کا ختنہ کرادیا جائے،
ختنہ کی عمر سات سال سے بارہ برس تک ہے، یعنی بارہ برس سے زِیادہ دیر لگا نا منع
ہے۔ (الفتا وی الھندیۃ،
کتاب الکراھیۃ، الباب التا سع عشر، ج ۵، ص ۳۵۷) اور اگر سات سال سے پہلے ختنہ کردیا گیا جب بھی حرج نہیں۔ بعض لوگ
عقیقہ کے ساتھ ہی ختنہ کرتے ہیں، یہ آسانی اور آرام(سے) ہوجاتا ہے کیوں کہ اس وقت
بچّہ چلنے پھرنے کے قابل تو ہے نہیں،تا کہ زخم بڑھالے۔ اگر ماں کا دودھ اس پر ڈالا
جاتا رہے تو بہت جلد زخم بھرجاتا ہے۔ ختنہ کرنے سے پہلے نائی کی اُجرت طے ہونا
ضروری ہے جو اس کو ختنہ کے بعد دے دی جائے۔ علاج میں خاص کر نگرانی رکھی
جائے،تجربہ کار نائی سے ختنہ کرایا جائے اور تجربہ کار آدمی اس کا خیال رکھے، ختنہ
صرف اس کام کا نام ہے، باقی برادری کی روٹی،بہن بہنوئیوں کے پچاس پچاس جوڑے اور
گانے والی عورتوں اور میراثیوں کے اخراجات یہ سب مسلمانو ں کی کمزور ناک نے پیدا
کردیئے ہیں یہ سب چیزیں بالکل بندکر دی جا ئیں۔
No comments:
Post a Comment