امام طالب علم
نادان نہیں، ناچار ہے
آج کل
سوشل میڈیا پر ایک تحریر بہت وائرل ہو رہی ہے، اس تحریر کا نہ تو عنوان مذکور ہے اور
نہ ہی اس کے اندر صاحب تحریر کا نام مذبور ہے۔ بہر حال اس نا معلوم مضمون نگار نے اس
تحریر کے اندر لکھا ہے کہ آج کل نادان طالب علم امامت کے چکر میں اپنا قیمتی وقت برباد
کر رہے ہیں، اس مہنگائی کے زمانے میں بھی ماہانہ پانچ ہزار روپے تنخواہ پر امامت کر
لیتے ہیں، اس سے نہ تو اہل خانہ کی پرورش ہوگی، اور نہ ہی کوئی خوش حال زندگی بسر ہوگی،
دنیا داری میں مرنے والوں کو پندرہ سے بیس ہزار اور امامت جیسے عظیم کار خیر کے لیے
محض پانچ ہزار ملتے ہیں، لہذا اگر عقل میں قوت ہے تو عبادت کے ساتھ بہترین معاش تلاش
کرو، علم سیکھنا مومن کے لیے فرض ہے نہ کہ امامت کرنا فرض ہے، جب عوام کو اپنے پیشواؤں
کی فکر نہیں تو تم کیوں مفلسی کا رونا رو رہے ہو، جب نصیحت سے کام نہ چلے تو انگلی
ٹیڑھی کرنی چاہیے، جب سارے امام امامتی سے ہڑتال کریں گے تب عوام کو فکر ہوگی اور وہ
سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ کس بنا پر امام لاپتہ ہوئے۔۔۔ اس سے ملتی جلتی کچھ اور بات
اس نے اپنی تحریر میں لکھی ہے۔ وہ تمام طالب علم جو اس لاک ڈاؤن کے زمانے میں امامت
کر رہے ہیں، انھیں نادان نہ کہیں، وہ نادان نہیں ہیں بلکہ مجبور ہیں الا ماشاء اللہ،
البتہ آپ کو ان کی مجبوری کی خبر نہیں ہے۔ ٢٠١٦ء کے ایک سروے کی تحقیق کے مطابق صرف
چار فی صد مسلم بچے مدرسوں میں پڑھتے ہیں، ان چار بچوں میں تین بچے غریب ہوتے ہیں،
جن کے والدین، بڑے بھائی یا دیگر سرپرست حضرات بڑی محنت و مشقت اور جانفشانی کے بعد
کچھ پیسے حاصل کر کے ان کی پڑھائی کے لیے ضروری چیزوں کا انتظام کرتے ہیں، صرف ایک
بچے کا تعلق متوسط یا اعلیٰ طبقے سے ہوتا ہے۔ یہ خبر روزنامہ انقلاب میں چھپی تھی۔
اگر یہ خبر صد فی صد درست نہیں تو اسّی فی صد ضرور صحیح و درست ہے۔
٢٠٢٠ء کے شروع ہی میں لاک ڈاؤن لگ گیا تھا، اس کے بعد سے وہ معاشی تنگی
آگئ کہ جس سے اللہ کی پناہ۔ مزدوروں کے حالات سے قطع نظر بہت سے سرکاری ملازمین بھی
قرض لے کر اپنی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوگئے تھے، معاشی تنگی کی وجہ سے کئی ایک لوگوں
نے خود کشی بھی کر لی۔ اب وہ طالب علم جس کے والد یا سرپرست کی آمدنی کے قریباً سارے
ذرائع بند ہوچکے ہوں، نا موافق حالات نے اس کی کمر توڑ ڈالی ہو، ایسے عالم میں وہ کیا
کرے گا، اس کی غیرت کو یہ گوارا نہیں ہوتا کہ لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرے، اس
کا ضمیر اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ لوگوں سے کھل کر اپنے دکھ درد کا اظہار کرے،
اب اگر وہ امامت نہ کرے، یا کسی مکتب میں بچوں کو تعلیم نہ دے، اگرچہ ماہانہ پانچ یا
سات ہزار ہی اجرت ملے، تو اس کی اور اس کے والدین کی زندگی کیسے گزرے گی؟ کیا کوئی
ہوا کھا کر اور پانی پی کر اپنی ساری زندگی گزار سکتا ہے؟ آخر آئندہ کی زندگی گزارنے
کے لیے اسے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی پڑے گا، اس کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں ہیں کہ کوئی
کاروبار کر لے، کوئی تجارت شروع کردے، اس کی غیرت کو گوارا نہیں کہ لوگوں کے سامنے
ہاتھ پھیلانا شروع کردے، اگر ہاتھ پھیلائے بھی تو اسے یہ کہہ کر واپس کر دیا جائے گا
کہ اتنا ہٹا کٹا اور تندرست ہو کر ہاتھ پھیلائے پھر رہا ہے۔ بالآخر وہ کرے تو کیا کرے۔
اگر وہ کچھ نہیں کرتا ہے، تو اس کی اور اس کے والدین وغیرہ کی زندگی تباہ ہوجائے گی،
وہ بھوکوں مرنے پر مجبور ہو جائیں گے، اور انھیں زندگی سے ہاتھ دھونا پڑجائے گا، اور
اگر کچھ کرتا ہے تو اس کے پاس بجز امامت یا متعلقات تدریس کوئی اور صورت بھی نہیں،
اب وہ اپنی اور اپنے والدین کی زندگی دیکھے یا لاک ڈاؤن کے زمانے میں اپنی ناقص تعلیم
دیکھے؟ تو وہ طالب جو تحصیل علم کو چھوڑ کر امامت کر رہے ہیں، وہ نادان نہیں ہیں، ناچار
ہیں، حالات زمانہ نے انھیں ان کے قیمیتی اوقات
یعنی ایام طالب علمی میں امامت کرنے پر مجبور کردیا ہے، انھوں نے جوش امامت میں اپنی
تعلیم موقوف نہیں کی ہے بلکہ خوف ہلاکت میں اپنا تعلیمی سلسلہ بند کیا ہے۔ رہی بات
مہنگائی کے زمانے میں ماہانہ پانچ سات ہزار روپے اجرت کی، تو اتنا ضرور ہے کہ اس سے
وہ طالب علم اور اس کے والدین فاقہ کشی پر مجبور نہیں ہوں گے، جب کہ پہلی والی صورت
میں ان کی زندگی کے لالے پڑ گئے تھے۔ اس پر کچھ تفصیل نیچے آئے گی۔ ان شاء اللہ
قلم اٹھا کر طالب علم کو نادان اور قیمتی وقت ضائع کرنے والا لکھ دینا
بہت آسان ہے، مگر اس کی حالت زار پر ترس کھا کر اس کے دکھ درد میں شریک ہونا، اس کی
مشکل سفر زندگی میں شریک ہونا، اس کے رنج و غم بانٹنا اور ہمہ وقت تمام حالات میں اس
کا حال پوچھنا، اس کی بھلائی کے لیے سرمایہ داروں سے مل کر کچھ انتظام کرنا، اپنی فضول
خرچی سے کچھ بچا کر اس کی زندگی کے نظم و نسق کو بہتر بنانا یہ بہت مشکل اور سخت دشوار
ہے۔ اتر پردیش سے تعلق رکھنے والا ایک طالب علم ہے، جس کے معاشی حالات تھوڑے بھی بہتر
نہیں تھے، ابھی جو ماہ رمضان گزرا ہے، اس سے کچھ پہلے اس کی آنکھ کا آپریشن ہونا تھا،
٢٦ ہزار روپے کی ضرورت تھی، مگر اس کا ہاتھ بالکل خالی تھا، وہ کافی پریشان تھا، اس
طالب علم نے اپنے ایک طالب علم دوست یعنی راقم آثم کے پاس میسج کیا کہ گلاب بھائی ایسی
ایسی بات ہے، میں نے لبیک کہا اور خود بھی تعاون کیا اور اپنے کئی ایک احباب سے بھی
جو میسر ہوا، اس کا تعاون کرایا، انھوں نے خود بھی انتظام کیا اور پھر اس کی آنکھ کا
کامیاب آپریشن ہوا۔ اب بتائیے کہ جس طالب علم کی ایسی حالت ہو، کیا وہ امامت نہیں کرے
گا؟ اور اگر وہ امامت کرے تو اسے نادان کہا جائے گا یا ناچار؟ ایک طالب علم ہے، جس
کے بہن کی شادی آج سے ٹھیک ایک ماہ پچیس دن بعد ہے، وہ کافی پریشان ہے، پریشان اس وجہ
سے ہے کہ اس کا ہاتھ بالکل خالی ہے، اور سامنے ایک عظیم مسئلے کو حل کرنا ہے، جو بغیر
پیسے کے حل نہیں ہو سکتا، وہ طالب علم اکیلا بھائی ہے، اس نے اپنی ماں سے کہا ہے کہ
یہ جو گھر کی زمین ہے، اس میں سے آدھا بیچ کر شادی کا انتظام کرلیں پھر جب وہ کمائے
گا تو زمین خرید لے گا۔ پھر انھوں نے مجھ راقم آثم سے اپنی روداد سنائی، میں نے کہا
کہ زمین بیچنے کی ضرورت نہیں ہے، اپنے چچا وغیرہ سے کہیں کہ وہ کچھ انتظام کردیں، انھوں
نے کہا کہ ان سے کہا ہوں تو پہلے تو کہا کہ دس بیس ہزار روپے کا انتظام کردیں گے مگر
اب جب کہ شادی قریب ہے، تو وہ بھی مفلسی کا رونا رو رہے ہیں، پھر میں نے کہا کہ آپ
اور آپ کے اہل خانہ سے جو میسر ہو وہ انتظام کریں، باقی انتظام ان شاء اللہ میں بہر
حال کر دوں گا، آپ بالکل نہ گھبرائیں اور نہ ہی گھر کی زمین بیچنے کے لیے سوچیں، اب
بتائیے کہ وہ طالب علم جس کی ایسی حالت ہو، کیا وہ امامت نہیں کرے گا؟ اگرچہ اسے ماہانہ
پانچ یا سات ہزار ملے۔ اور اگر کرے گا تو اسے نادان کہا جائے گا یا ناچار؟ فیصلہ آپ
کے ہاتھوں میں ہے۔ رواں سال یعنی ١٠ ستمبر ٢٠٢١ء کا جامعہ۔۔۔ کا اعلان ملاحظہ کریں،
پندرہ ایسے طالب علموں کے نام امتحانی فہرست سے قلم زد کردیے گئے، جنھوں نے تجدید داخلہ
فیس(800 روپے) دفتر تعلیمات میں جمع نہیں کیے۔ اب بتائیے کہ وہ طالب علم جس کی ایسی
حالت ہو، کیا وہ امامت نہیں کرے گا؟ اگرچہ اسے ماہانہ پانچ یا سات ہزار ملے۔ اور اگر
کرے گا تو اسے نادان کہا جائے گا یا ناچار؟
فیصلہ آپ کے
ہاتھوں میں ہے۔ بات آگئی ہے تو تحدیث نعمت کے طور پر سن لیجیے۔ صرف قلم چلانا مسئلے
کا حل نہیں ہے، عملاً بھی کچھ کرنا پڑتا ہے۔ میں اس کا اظہار نہیں کرنا چاہتا مگر بات
آگئی ہے، تو بطور تحدیث نعمت اور ترغیب ملت ذکر کیے دیتا ہوں۔ میں جامعہ اشرفیہ میں
٢٠١٢ء سے ٢٠٢٠ء تک تھا، میں طالب ہو کر ٢٠١٣ء سے بوقت تحریر پانچ چھ طالب علموں کو
ہم نے نہ صرف ضرورت بھر پیسے دیے بلکہ بسا اوقات اپنے پسندیدہ کپڑے، چادر اور کمبل
وغیرہ بھی دیے۔ (میرے ایک دو ساتھی کو اس کا تفصیلی علم بھی ہے۔) و اللہ علی ما نقول
وکیل۔ میں تیس ایسے طالب علم کا نام شمار کر سکتا ہوں جنھوں نے ناموافق حالات اور ناسازگار
اوقات کے سبب اپنا تعلیمی سفر منقطع کر کے امامت وغیرہ کا رخ کیا ہے۔ اور جامعہ اشرفیہ کے اندر قریباً دسیوں ایسے مخلص
اساتذہ آج بھی موجود ہیں، جو نادار طلبہ کی کفالت کرتے ہیں، اللہ تعالی ان سب کو جزاے
خیر سے نوازے آمین تو آج بے روزگاری نے بہت سے طلبہ کو امامت کرنے پر مجبور کر دیا
ہے، جس کی وجہ سے انھیں نادان نہیں کہا جاسکتا۔ آپ لاک ڈاؤن سے پہلے کا زمانہ بھی تو
دیکھیں۔ ایک طالب علم جب کہ وہ جماعت رابعہ میں تھا، اس کے والد کا انتقال ہوگیا، وہ
گھر میں سب سے بڑا تھا مگر اللہ تعالی نے کسی کو اس کا سہارا بنا دیا، اس نے پڑھائی
موقوف نہیں کی، اور ہزار پریشانیوں کا سامنے کر کے اس نے افتا تک کا کورس مکمل کر لیا
ہے، ایک طالب علم تھا، جس کو اس کا بھائی کھانا خرچا دیتا تھا، مگر جب وہ جماعت سادسہ
میں پہنچا تو اس کا بھائی کسی بات کو لے کر ناراض ہوگیا اور اس نے پیسے دینا بالکل
بند کردیا، مگر چوں کہ وہ گھر سے آزاد تھا، اس لیے اس نے اپنے دوستوں کا سہارا لے کر
اپنا تعلیمی سفر جاری رکھا، یہاں تک کہ اس نے تحقیق بھی کر لیا۔ اس طرح کی سینکڑوں
مثالیں موجود ہیں۔ اگر لاک ڈاؤن سے پہلے بھی کچھ طلبہ نے پڑھائی سے رخ موڑ لیا ہے،
تو ان میں اکثریت ان طلبہ کی ہے، جن کے معاشی حالات اچھے نہیں تھے اور ان کے سر پر
بہت سی ذمداریاں بھی تھیں جن سے نبرد آزما ہونے کے لیے تعلیمی سفر منقطع کر کے اسباب
تعمیرات کی طرف قدم بڑھانا ضروری تھا۔ رہی بات پانچ سات ہزار روپے ماہانہ اجرت کی تو
وہ امام طلبہ مجبور ہیں اور مرتا کیا نہ کرتا۔ منتظمین و متولیان مسجد اتنے بے حس ہوچکے
ہیں کہ اب امام کو غلام سمجھ رہے ہیں الا ما شاء اللہ۔ اللہ خیر فرمائے۔ منتظمین مساجد
نہ تو طلبہ کی فضیلت جانتے ہیں اور نہ ہی ان کی اہمیت سمجھتے، اس لیے ان سے خیر کثیر
کی توقع نہیں، اور اضافۂ اجرت کے لیے جملہ ائمہ و پیشوا کا ہڑتال کرنا یا انگلی ٹیڑھی
کرنا یہ تو بالکل نامناسب طریقہ ہے، اس سے عوام کی اصلاح نہیں ہوگی، اس سے وہ اجرت
امام میں اضافہ نہیں کر دیں گے، بلکہ عوام میں سے بعض تو سرکش ہوجائیں گے، وہ بدعقیدوں
سے سمجھوتہ کرتے ہوئے ان کو اپنا امام بنا لیں گے، انھیں اپنی مجلس میں بلانا شروع
کردیں گے اور انھیں اپنا پیشوا بنا لیں گے۔ ایک سال پہلے کی بات ہے کہ میرے محلے میں
ایک آدمی نے قربانی کا جانور ذبح کرنے کے لیے مجھے بلایا، میں گیا اور تمام شرکا کے
نام پوچھا تو ایک شخص بدعقیدہ اور گستاخ رسول نکلا جو دوسرے گاؤں سے تعلق رکھتا تھا،
میں نے کہا کہ یہ قربانی میں نہیں کروں گا، ان لوگوں نے کہا کہ حضرت کر دیجیے کیا ہوگا،
صرف وہی نہ بدعقیدہ ہے، بقیہ سب تو اہل سنت ہیں، میں نے کہا کہ بھائی میں عقیدے میں
سمجھوتہ نہیں کر سکتا، ایک ہو یا چار ہو، میں ایسی قربانی نہیں کروں گا۔ پھر ان لوگوں
نے کہا کہ اب ہم کیا کریں؟ میں نے کہا اس کا نام خارج کیجیے، اس کی جگہ کسی اور باعقیدہ شخص کا نام ڈال دیجیے اور اس کا جتنا
پیسا اس میں شامل ہے اسے واپس کر دیجیے۔ انھوں نے کہا اچھا ٹھیک ہے۔ ہم مشورہ کر لیتے
ہیں، میں چلا آیا۔ بعد میں پتا چلا کہ انھوں نے اس بدعقیدے کا نام اور اس کی شرکت ہٹائے
بغیر خود سے اس جانور کی قربانی کر ڈالی۔ اسی طرح کا ایک واقعہ نکاح پڑھانے کے متعلق
ہے مگر تفصیل کا وقت نہیں۔ تو ہڑتالی یا انگلی ٹیڑھی کرنے سے عوام اور منتظمین مساجد
کی اصلاح نہیں ہوگی، بلکہ انھیں احسن طریقے پر سمجھانے سے مسئلے کا کچھ حل نکلے گا،
باضابطہ تنظیم و تحریک قائم کی جائے، اور وہ جم کر کام کرے تو امام کی اجرت بڑھے گے،
بڑے بڑے مقرر اور بڑے بڑے پیر اس پر مسلسل اپنے بیانات اور ہدایات جاری کریں، عملاً
اپنے ماتحتوں سے اس کی مثالیں پیش کریں، تب جا کر مسئلہ حل ہوگا۔ اسی طرح طلبہ کی جانب
ہم سب توجہ دیں، ہر سرمایہ دار کم سے کم ایک دو طالب علم کے تعلیمی اخراجات اپنے ذمہ
لے تاکہ معاشی تنگی کی وجہ سے وہ اپنا تعلیمی سلسلہ موقوف نہ کریں، ہمیں اور آپ کو
ہر حال میں طالب علموں کا خیال رکھنا چاہیے، یہی قوم کے مستقبل ہیں، یہی قوم کے دینی
سرمایے ہیں، یہی مستقبل قریب میں ائمہ، علما، فقہا اور پیشوا بنیں گے، یہی اذان بھی
دیں گے، یہی نکاح بھی پڑھائیں اور یہی نماز
جنازہ بھی پڑھائیں گے۔ اگرچہ یہ معاشی تنگی کے شکار ہیں، مگر اللہ و رسول عز و جل و
علیہ الصلاة و السلام کے یہاں ان کی بڑی عزت اور ان کا بڑا مقام و مرتبہ ہے اور یہ
ان کو کافی ہے۔ پھر یہ کہ ان کے آج کی تنگدستی اور پریشانی ان شاء اللہ کل ان کے لیے
عظیم خوشحالی اور بڑی آسانی لائے گی۔ رب قدیر تمام طلبۂ مدارس اسلامیہ کو اپنے حفظ
و امان میں رکھے اور جملہ عوام خصوصاً منتظمین مساجد کو آئمہ کی قدر و قیمت اور اہمیت
سمجھنے کی توفیق دے۔ آمین بجاہ النبی الکریم علیہ افضل الصلاة و اکرم التسلیم۔
کانٹا
مرے جگر سے غم روزگار کا
یوں کھینچ
لیجیے کہ جگر کو خبر نہ ہو
رشحات قلم: محمد امثل حسین گلاب مصباحی
فیض پور سیتامڑھی ١٥ ستمبر ٢٠٢١ء(
No comments:
Post a Comment