Mazar Sharif: Hazrat Makhdoom Shah e Meena AlahirRahmah (Lucknow) |
نویں صدی ہجری کی عظیم بزرگ
قطب العالم حضرت مخدوم شیخ
مینا علیہ الرحمہ
شیخ
الاعظم ،قطب العالم حضرت شاہ مینا لکھنوی رحمۃ اللہ علیہ کا نام مبارک شیخ محمد
تھا۔ آپ علیہ
الرحمہ پیدائشی ولی تھے ۔آپ کی
ولادت رمضان میں ہوئی اور آپ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے نسب میں آتے ہیں،
آپ کے والد کا نام قطب الدین بن عثمان صدیقی علیہ
الرحمہ تھا جو حضرت شیخ قوام
الدین چشتی علیہ الرحمہ کے بہت چہیتے مرید تھے ۔حضرت قوام الدین صاحب کو حضرت نصیر
الدین چراغ دہلوی صاحب سے بیت و خلافت حاصل تھی اور اس کے علاوه مخدوم جہانیاں
جہان گشت بخاری رحمۃ اللہ علیہ سے بھی خلافت و اشغال و
ازکار کی اجازت تھے ۔
✨ولادت کا واقعہ : حضرت قوام الدین چشتی علیہ
الرحمہ کے بیٹے نظام الدین محمد مینا نے جوانی کے دور میں سلطان محمد شاہ بن فیروز
شاہ کے زیرِ نگرانی نوکری کرکے سلطنت میں اعلیٰ درجہ حاصل کر لیا اور نفسیاتی
خواہشوں میں زندگی بسر کرنے لگا۔حضرت شیخ قوام الدین علیہ الرحمہ درویش صفت تھے تو
اپنے بیٹے کی اس دنیاوی چاہت کو دیکھ کر نا خوش ہوئے ۔آپ کے بیٹے نظام الدین مینا
نے بہت طریقوں سے آپ کو راضی کرنے کی کوشش کی لیکن آپ نہیں مانے ۔ایک دفعہ شیخ
نظام الدین گھوڑے پر سوار ہوکر خانقاہ میں گھس آئے تو اپنے بیٹے کی یہ حرکت دیکھ
کر آپ حضرت قوام الدین چشتی علیہ الرحمہ جلال میں آئے اور کہا ،"فقیر کے گھر
میں بیباکی سے گھستا ہے، تجھ کو شرم نہیں آئی "..یہ کہتے ہی آپ نے گھوڑے کی
باغ پھیر دی اور گھوڑے کے قدم بگڑ گئے اور اس اس پر سوار شیخ قوام الدین صاحب نے
اپنے خاص مرید و خلیفہ حضرت قطب الدین علیہ الرحمہ سے فرمایا، "میں چاہتا ہوں
کہ خدا تجھ کو ایسا فرزند دیں جو تمام اولاد کا نعم البدل ہو "..اور پھر خدا
نے یہ بھی حاجت سن لی اور مخدوم شیخ محمد مینا علیہ الرحمہ کی ولادت ہوئی۔ منقول
ہے کہ جب آپ علیہ الرحمہ پیدا ہوئے اور
حضرت حاجی الحرمین شیخ قوام الدین کو اس بات کی خبر ہوئی تو ہندی زبان میں فرمایا
:’’آؤ مورے مینا ‘‘اسی وجہ سے آپ کا عرف ’’شیخ مینا/ شاہ مینا‘‘ ہوا۔
مشہور ہے کہ جب آپ کی ولادت حمل سے تھی
اور آپ ان کے شکم میں تھے تو شکم سے ذکر و ازکار اور تلاوت قرآن کی آوازیں
آیا کرتی تھی اور لوگ کان لگاکر سنتے اور تعجب کرتے تھے ۔
بچپن کے معاملات :- آپ بچپن میں رمضان کے
مہینے میں دودھ نہیں پیتے تھے اور جب آپ کی والدہ آپ کو سلا دیتی اور رات کو اُٹھ
کر دیکھتی تو آپ چارپائی کے نیچے سجدہ کی حالت میں ملتے تھے ۔۲ سال کی عمر میں آپ نے
اپنے والد سے کہا کہ، "یہ کو چڑیاں اُڑ رہی ہے مجھ کو پکڑ کر دو"..آپ کے
والد نے چڑیوں کی طرف دیکھ کر کہا، "تم کو شیخ مینا بلا رہے
ہے "..اتنا
کہنا تھا کہ چڑیوں کا گروہ اپ کے پاس آ کر بیٹھ گیا اور تب تک بیٹھا رہا جب تک آپ
نے جانے کا حکم نہیں دیا ۔
تعلیم و تربیت :- حضرت شاہ مینا
صاحب کو جب ۴ سال ۴ ماہ ہو گئے تو آپ کو
مکتب بھیجا گیا تو استاد نے کہا، "کہو الف" ۔تو آپ نے بولا،
"الف".پھر استاد نے کہا کہ، "کہو بے"..تو آپ نے فرمایا،
"میں نے الف پڑھ لیا، اب بے کی حاجت نہیں ،میری محبت صرف الف یعنی الٰہی سے
ہے " ۔اور پھر آپ نے الف کے ساتھ دیگر حروف کے اتنے مطلب اور رموز بتائے کہ
لوگوں نے دانتوں تلے انگلی دبا لیا اور سب کو یقین ہو گیا کہ آپ مادرزاد ولی اللہ
ہے ۔پھر آپ حضرت قوام الدین چشتی صاحب کی خدمت میں ۷ سال رہے اور تعلیم و
تربیت حاصل کرکے اس قدر درجہ کمال کو پہونچے کہ بڑے بڑے علمائے کرام آپ سے دینی
مسائل کے بارے میں تحقیق کراتے تھے ۔
حضرت بدیع الدین شاہ
مدار قد س سرہ کی بشارت :- حضرت مخدوم شیخ مینا علیہ الرحمہ صاحب ۱۲ سال کی عمر میں مقام
قطبیت پر فائز ہو گئے اور آپ کی قطبیت کا اعلان حضرت مدار شاہ کے واسطہ سے
ہوا۔حضرت شاہ مدارقد س سرہ کے مرید حضرت
شہاب الدین آتش پرکالہ صاحب ایک مرتبہ اپنے پیر شاہ مدار صاحب سے ملنے جا رہے تھے
کہ راستہ میں لکھنؤ آیا تو وہاں کے لوگ اپنی حاجات لیکر آپ کے پاس حاضر ہوئے تو آپ
نے کہا کہ، "میں اپنے پیر سے ملنے جا رہا ہوں اور تم سب کی ایک ایک حاجت لکھ
لے رہا ہوں اور جب پیر کی بارگاہ میں حاضر ہوکر یہ حاجتیں پیش کروں گا تو ان کی
طرف سے جو بھی جواب ہو اس پر عمل کرنا ہوگا"
یہ کہکر جب قاضی شہاب
الدین صاحب مدار شاہ کی خدمت میں ساری
لکھی ہوئی حاجتیں پیش کرنے لگے تو مدار پاک نے فرمایا، "قاضی صاحب! تم
کو معلوم نہیں کہ لکھنؤ کی ولایت شیخ مینا کے حوالے ہیں؟
ان لوگوں سے کہو کہ شیخ مینا سے رجوع
کریں"..یہ بات سنکر قاضی شہاب الدین صاحب نے پونچھا کہ، "یہ شیخ مینا
کون ہے؟
"..تو مدار شاہ قد
س سرہ نے جواب دیا کہ، "تمہاری آنکھوں پر بھی مرغ کی چربی چڑھ گئی ہے
"(ایسا اس لئے کہا کیونکہ نظر اور فتوح پر لوگ حضرت شہاب الدین آتش پرکالہ کو
مرغ پیش کرتے تھے)۔
پھر حضرت شاہ مدار قد س سرہ نے فرمایا کہ، "وہ بچہ ۱۲ سال کا ہے اور قطبیت کے
مقام پر ہے " اور پھر آپ نے حلیہ بھی بتایا اور کہا کہ، "جاؤ!
وہاں کے لوگوں سے کہہ دو کہ اپنی اپنی حاجتیں شاہ مینا علیہ الرحمہ کے سامنے پیش
کریں کیونکہ ولایت ان کے حوالے ہیں لیکن وہاں کے لوگوں کو ان کے بارے ميں معلوم
نہیں ہے اور ہاں! تم بھی ان سے ملاقات کرو اور میرا دعا سلام کہنا اور
میری طرف سے یہ مصلی ان کو پیش کر دینا "۔
جب آپ قاضی صاحب لکھنؤ
گئے تو حاجت مندوں کا مجمع ٹوٹ پڑا اور پھر آپ نے کہا کہ، "تم سب شاہ مینا علیہ
الرحمہ کی خدمت میں جاکر اپنی حاجتیں پیش کرو کیونکہ وہ قطب ہے "۔
سارے لوگ آپ کے ساتھ جب
شاہ مینا صاحب کی خدمت میں گئے تو آپ کو قاضی شہاب علیہ الرحمہ نے دعا سلام عرض
کیا اور حاجت مندوں کے لئے سفارت کرکے ادب کے ساتھ بیٹھ گئے، پھر مخدوم شاہ مینا
صاحب دوات اور قلم اُٹھا کر دعا تعویذ وغیرہ لکھ کر دینے لگے ۔
بیت و خلافت :- ۱۵ سال کی عمر میں آپ
مخدوم قوام الدین چشتی صاحب کے مرید اور مخدوم سید راجو قتال علیہ الرحمہ کے
خلیفہ، "حضرت شیخ سارنگ علیہ الرحمہ " سے مرید ہوکر خلافت حاصل کئے ۔آپ
شیخ کی صحبت میں کمال درجہ کو پہونچ گئے اور آپ ہمیشہ تنگ جگہوں پر عبادت کرتے تھے
تاکہ شیطان کا حملہ نہ ہو اور آپ ہمیشہ روزہ رکھتے تھے ۔آپ دنیاوی معاملات سے بلکل
دور تھے اور تارک الدنیا تھے اسی لئے آپ نے نکاح بھی نہیں کیا ۔
عین الولایت میں مرقوم
ہے کہ ایک بار شیخ سارنگ رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کو کسی شہر میں بھیجا ۔ جب آپ اس
شہر سے ہو کر دوبارہ شیخ سارنگ رحمۃ اللہ کی خدمت میں پہنچے تو حضرت شیخ سارنگ
رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اس شہر میں ایک اور درویش ہیں تم نے ان سے ملا قات کی
کہ نہیں ۔آپ نے فرمایا کہ مجھ کو آپ ہی کہ محبت کافی ہے ۔ حضرت شیخ سارنگ رحمۃ
اللہ علیہ نے حضرت شاہ مینا رحمۃ اللہ علیہ کی اس بات سے خوش ہو کر انہیں خرقہ
خلافت عطا فرمایا ۔
مجاہدات :- آپ شیخ مینا اپنے پیر
اور دادا پیر سے کی مزار شریف پر لکھنؤ سے ۴۰ میل دور ننگے پاؤں پیدل
جاتے تھے اور کبھی کبھی لکڑی کی کھڑاؤ پہن کر جاتے تھے اور جس راستے سے جاتے تھے
وہ بہت ہی زیادہ خراب تھا۔جب آپ راہِ سلوک طے کر رہے تھے تو ریاضت کا یہ عالم تھا
کہ آپ دیور پر بیٹھ کر عبادت کرتے تھے تاکہ اگر نیند کا غلبہ آ جائیں تو دیوار سے
نیچے گر کر واپس جائیں اور عبادت میں مشغول ہو جائے اور کبھی کبھی اپنے چاروں طرف
کانٹیں بچھا دیتے تھے تاکہ نیند آنے پر جب آرام کریں تو کانٹوں کی چبھن سے واپس
اُٹھ کر عبادت کر سکے اور اکسر سردیوں میں اگر آگ کی حرمت سے نفس کو آرام آتا تو
فوراً اُٹھ کر اپنے کپڑوں اور ٹوپی کو گیلا کر لیتے ۔
خدمت خلق ومہمان نوازی:
مہمان
نوازی کی صفت آپ علیہ الرحمہ میں بدرجۂ اتم پائی جاتی تھی۔ بسا اوقات ایسا ہوتا
کہ مہمان آجاتے اور کھانا تھوڑا ہوتا، پھر بھی آپ کھانا سامنے لے آتے اور چراغ
درست کرنے کے بہانے چراغ بجھادیا کرتے اور مہمان کے ساتھ بیٹھ کر کھانے کی طرف
ہاتھ بڑھاتے، مگر کھانے سے احتراز کرتے، تاکہ مہمان سیر ہوکر کھاسکے۔
کرامت :- حضرت شاہ مینا رحمۃ
اللہ علیہ ایک صاحب کشف ولی تھے ایک بار شمس خاں نامی ایک شخص آپ کے پاس اس ارادے
سے آیا کہ اگر آپ کو ایک انار اس کو دیں اور چاروں طرف سے پھٹا ہوا اور اس کے سب
دانے سرخ ہوں تو وہ جانے کہ آپ ولی ہیں ۔ آپ نے اس کے حسبِ منشاء انار اس کو دیا
اور پھر فر مایا ! “ فقیروں کا امتحان لینا اچھا نہیں ہوتا ۔انار کی فصل نہیں ہے
اگر نہ ہوتا تو کیا دیتا “۔
حضرت شیخ مینا کے مشہور
خلیفہ اور مخدوم شاہ صفی صفی پوری علیہ الرحمہ کے مرشد شیخ سعد الدین خیرآبادی
رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ، "ایک دفعہ میں اپنے والدین سے ملنے اناؤ جا
رہا تھا کہ اتنی زیادہ برسات ہوئی کہ چاروں طرف جل تھل بھرا ہوا تھا کہ ہر طرف
گہرا پانی تھا ۔میں نے گھوڑے پر سوار ہوکر آگے بڑھنے کی کوشش کی تو گھوڑے نے ٹھوکر
لی اور میں آگے پانی میں گر کر غرق ہونے لگا۔میں نے شیخ مینا کو یاد کیا اور الله
سے دعا کی تو دیکھا کہ شیخ مینا میرے قریب آئے اور مجھے اُٹھاکر پانی کے کنارے آگے
کی طرف پھینک دیا ۔پھر میرے دوست جو تیرنا جانتے تھے انہوں نے مجھے گھسیٹ کر باہر
نکالا ۔
ایک دفعہ شیخ سعد الدین
خیرآبادی صاحب کو ماہ رمضان میں فاقوں کی وجہ سے شدت کا بخار آیا اور اس قدر آیا
کہ حالت بیچین ہو گئی اور ایک رات بہت ہی زیادہ طبیعت خراب ہو گئی کہ نہ زمین پر
آرام نہ ہی آسمان تلے چین ۔آپ نے کسی کو مخدوم شاہ مینا صاحب کی خدمت میں بھیجا
اور دعا کی درخواست لگوائی ۔اُس وقت شاہ مینا صاحب حضرت نصیر الدین چراغ دہلوی
صاحب کے عرس میں لنگر کے انتظام میں مصروف تھے ۔حضرت نے اس شخص کو ایک روٹی روغن
اور شکر میں تر کرکے دے دیا اور کہا کہ، "شیخ سعد سے کہہ دینا کہ پوری روٹی
کھا جائے، ایک زرّہ بھی نہ باقی رہے "۔حضرت شیخ سعد الدین خیرآبادی صاحب نے
پیر کے حکم کے مطابق پوری روٹی کھا لی اور پھر نیند کا غلبہ ایسا آیا کہ میں نے
دیکھا کہ محفلِ سماع ہو رہی ہے اور میرا بخار چلا گیا، پھر میں نے اُٹھ کر وضوء
کیا اور سماع میں شریک ہو گیا ۔صوفیہ سماع سن رہے تھے اور میں کھڑا تھا ۔جب میں
بیٹھ گیا تو مرشد نے مجھے اُٹھایا اور اپنے کمرے میں لے گئے اور اپنی سیاہ دستار
اُتار کر مجھ کو انایت فرمائی (تحفۃ
الساداء، تزکرۃ اولیاء پاک و ہند، اخبار الاخیار(
✨سیدہ کائنات فاطمۃ
الزہراء علیہ السلام اور مخدوم شیخ مینا سے ملاقات: - ایک دفعہ حضرت مولانا
شاہ فضل رحمٰں گنج مرادابادی علیہ الرحمہ "سنڈیلہ" میں
اپنے کسی خاص مرید کے یہاں تشریف لائے اور فوراً لکھنؤ جانے کی تیاری کرنے لگے، اس
بات پر آپ کے مریدوں نے کہا کہ ابھی ابھی تو آپ سفر کرکے آئے ہیں اور اچانک اتنی
جلدی کہاں جا رہے ہیں؟ ابھی تو تھکانِ سفر بھی دور نہیں ہوئی، زرا آرام کرکے جائے
اور سواریاں بھی موجود ہیں، جب حکم کریں گے حاضر ہو جائگی، اس بات پر مولانا بابا
نے جواب دیا کہ، "ہم کو اتنا ضروری کام ہے کہ ہم سواری آنے تک کا بھی انتظار
نہیں کر سکتے " یہ کہکر آپ پیدل ہی روانہ ہو گئے اور راہ میں ایک ٹٹو ملا جس
پر آپ سوار ہوکر روانہ ہو جاتے ہیں اور کچھ وقت کے بعد واپسی آ جاتے ہیں ۔موقع
پاکر آپ کے ایک مرید نے آپ سے پوچھا کہ ایسا کیا کام تھا جو آپ نے اتنی جلدی
میں زحمت سفر اٹھائی "آپ حضرت مولانا شاہ فضل رحمٰں گنج علیہ الرحمہ نے بہت ہی راز درانہ طور
پر فرمایا کہ، "ہم کو حضرت مخدوم شاہ مینا شاہ علیہ الرحمہ نے اس وجہ
سے بلایا تھا کہ حضرت بی بی فاطمہ زہرا علیہ السلام میرے وہاں تشریف لا رہی ہیں،
تم بھی ملاقات کر لو" اسی واستے ہم جلدی گئے -جب شاہ مینا شاہ کے پاس
پہنچے تو وہ ہم کو اپنے ساتھ اس خیمے میں لے گئے جو صرف نور کا بنا ہوا تھا، پھر ہم
سے کہا، "تم خیمے میں چلے جاؤ " جب ہم اندر داخل ہوئے تو عدب کے ساتھ سر
جھکائے کھڑے رہے تو سیدہ فاطمہ زہرا علیہ السلام نے اٹھ کر ہم کو اپنے سینہ مبارک
سے لگا لیا اور ہمارے سر پر اپنا دست شفقت پھیرکر رخصت کر دیا، خیمے سے باہر نکلے
تو حضرت مخدوم شاہ مینا شاہ علیہ الرحمہ نے بھی رخصت کر دیا تو اب عہان ٹھہرنے کی کیا
ضرورت تھی "پھر آپ حضرت مولانا شاہ فضل رحمٰں گنج مرادابادی علیہ الرحمہ نے یہ بھی فرمایا کہ
حضرت فاطمہ زہرا علیہ السلام خواب میں بھی تشریف لاکر اپنے سینے مبارک سے ہم کو
لگا لیتی ہیں اور نیز بی بی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بھی اسی طرح پیار فرماتی
ہیں ۔
{سیدہ کائنات حضرت بی بی
فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور مخدوم شاہ مینا صاحب سے حضرت فضلِ رحمٰن صاحب کی
یہ ملاقات روحانی طور پر ظاہری طرح سے ہوئی تھی) رحمت و نعمت صفہ ۳۴۹-۳۵۰(
وصال پرملال:آپ کی وفات ۲۳؍ صفر المظفرمطابق
۸۸۴ہجری کو ہوئی ۔ آپ کا مزار مبارک شہر لکھنؤ میں زیارت گاہِ خاص وعام ہے ۔تاریخ
وصال کا شعر یہ ہے ۔
شیخ مینا بہ ارم رحلت کرد
آہ
زاند وہ چنیں شیخ اجل
آپ علیہ الرحمہ کا مزار شاہ مینا روڈ متصل میڈیکل کالج لکھنؤ ہے
اور زیارت گاہ خلائق ہے ۔
(طالب دعا: الحاج ابومحامدآل
رسول احمد)
MashaAllah... Meri likhe hue post ko aapne blog pr dala. ..bht khushi hui.. Mazeed buzurgo ki post k lie rabte me rahe
ReplyDelete