یہ مسلمات سے ہے کہ
حضرات آئمہ اہلبیت اطہار علیہم السلام کا علم لدنی ہوا کرتا تھا ۔ وہ دینا میں
تحصیل علم کے محتاج نہیں ہوا کرتے تھے ، یہی وجہ ہے کہ وہ بچپن میں ہی ایسے مسائل
علمیہ سے واقف ہوتے تھے جن سے دنیا کے عام علماء اپنی زندگی کے آخری عمر تک بے
بہرہ رہتےہیں ۔
آپ علیہ السلام
کا علم و فضل براہ راست نبوت و رسالت کا فیضان تھا لہذا آپ کے علم و فضل کی
کوئی انتہا نہ تھی ۔ ابن سعد (متوفی 230ہجری)، بلاذری (متوفی 279 ہجری) اور ابن عساکر (متوفی
571 ہجری) نقل کرتے ہیں کہ امام حسن بن علی علیہ السلام صبح کی نماز مسجد نبوی میں پڑھتے تھے جس کے بعد سورج نکلنے تک عبادت
میں مشغول رہتے تھے اس کے بعد مسجد میں حاضر بزرگان آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر بحث
و گفتگو کرتے تھے۔ ظہر کی نماز کے بعد بھی آپ کی یہی معمول ہوتی تھی۔ (تاریخ مدینہ و دمشق/ ابن عساکر 13/241، الطبقات الکبرى/ ابن سعد 10/297،أنساب
الأشراف/ بلاذری ، 3/21)
" امام حسن بن
علی علیہ السلام مسجد نبوی میں تشریف رکھتے تھے اور لوگ آپ کے اردگرد حلقہ بنا کر
مختلف موضوعات پر آپ سے سوال کرتے تھے جس کا آپ جواب دیتے تھے۔ (الفصول المہمۃ /ابن صباغ مالکی علیہ الرحمہ 2/702)
چنانچہ علامہ ابن طلحہ شافعی بحوالہ تفسیر واحدی لکھتے ہیں کہ ایک شخص نے
ابن عباس اورابن عمر رضی اللہ عنہما سے ایک آیت سے متعلق ”شاہد و مشہود“ کے معنی
دریافت کئے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے
شاہد سے یوم جمعہ اور مشہود سے یوم عرفہ بتایا اور ابن عمرنے یوم جمعہ اور یوم
النحر کہا اس کے بعد وہ شخص امام حسن علیہ السلام کے پاس پہنچا، آپ
نے شاہدسے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم اور مشہود سے یوم قیامت فرمایا اور دلیل
میں آیت پڑھی’’ یاایہاالنبی
اناارسلناک شاہدا ومبشرا ونذیرا‘‘’’اے نبی(
صلی اللہ علیہ وسلم) ہم نے تم کوشاہد و
مبشر اورنذیربناکربھیجاہے ذالک یوم مجموع لہ الناس وذالک یوم مشہود‘‘،’’ قیامت کاوہ دن ہوگا جس میں تمام لوگ ایک
مقام پرجمع کردیے جائیں گے، اوریہی یوم مشہود ہے ‘‘سائل نے سب کاجواب سننے کے
بعدکہا ”فکان قول
الحسن احسن“ ،’’
حضرت امام حسن علیہ السلام کا جواب دونوں
سے کہیں بہترہے ‘‘۔ (مطالب السوال صفحہ 235)
تابعی بزرگ حضرت سیدنا ابوالحواری علیہ الرحمہ فرماتے
ہیں: میں نے حضرت سیدنا امام حسن علیہ السلام سے پوچھا:آپ کو حضور اکرم صلی اللہ
علیہ وسلم سے سنی ہوئی کوئی حدیث یاد ہے؟
فرمایا: یہ حدیث یاد
ہے کہ ( بچپن میں) ایک مرتبہ میں نے صدقے (یعنی زکوٰۃ) کی کھجوروں میں سے ایک
کھجور اٹھا کر مُنہ میں ڈال لی تو نانا جان، حضور اکرم ﷺ میرے مُنہ سے وہ کھجور
نکالی اور صدقے کی کھجوروں میں واپس رکھ دی۔
عرض کی گئی: صلی اللہ علیہ وسلم! اگر ایک کھجورانہوں نے اُٹھالی تو اس میں
کیا حرج ہے؟
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اِنَّااٰلُ مُحَمَّدٍ لَا تَحِلُّ لَنَا
الصَّدَقَۃُ ہم آلِ
محمد کیلئے صدقے کا مال حلال نہیں ہے۔ (اسد
الغابۃ 2/16)
ابن سعدیہ روایت کرتے
ہیں کہ آپ کی شیریں کلامی کا یہ عالم تھا کہ جب آپ کسی سے تکلم فرماتے توجی چاہتا
کہ بس آپ اسی طرح سلسلہ کلام جاری رکھیں اور خاموش نہ ہومیں نے آپ کی زبان سے کبھی
کوئی فحش بات نہیں سنی ۔ (تاریخ
الخلفاء صفحہ 395)
No comments:
Post a Comment