حضرت سیدنا خواجہ باقی باللہ نقشبندی قد س سرہ

خواجہ باقی باللہ محمد باقی سلسلہ نقشبندیہ کے مشہور صوفی اور مجدد الف ثانی کے پیرومرشد ہیں۔ والد گرامی کا نام قاضی عبد السلام خلجی سمرقندی قریشی تھا جو اپنے زمانے کے معروف عالمِ باعمل اور صاحبِ وجد و حال و فضل و کمال بزرگ تھے۔ آپ کی پیدائش 971ھ موافق 1563ء کابل میں ہوئی اور وہیں عقد ہوا۔ آپ کے نانا جان کا سلسلہ نسب شیخ عمر یاغستانی تک پہنچتا ہے جو خواجہ عبید اللہ احرار کے نانا تھے۔ آپ کی نانی سادات سے تھیں۔ بعض مؤرخین نے آپ کو صحیح النسب سید لکھا ہے جبکہ اصلاً ترک تھے۔ آپ نے آٹھ برس کی عمر میں قرآن پاک حفظ کیا۔ اُس دور کے کابل کے مشہور عالمِ دین محمد صادق حلوائی سے تلمذ اختیار کیا اور تھوڑے ہی عرصے میں علم و عمل کے آفتاب بن کر چمکنے لگے اور اپنے زمانے کے اہلِ علم میں شہرتِ دوام حاصل کر لی۔ سمرقند میں فقہ، حدیث، تفسیر اور دوسرے دینی علوم کی تکمیل کی۔ بچپن سے آثار تجرید و تفرید اور علاماتِ فقر و درویشی آپ کی پیشانی سے عیاں تھیں۔ ایک مجذوب کی نظر کرم سے کتابوں سے دل اچاٹ ہو گیا اور آپ کسی مرشد کامل کی تلاش میں نکل پڑے۔ آخر میں امیر عبد اللہ بلخی کی خدمت میں پہنچے۔ اب طبیعت کو استقامت ہوئی اور مدارج روحانی میں ترقی ہونے کے بعد پیر بابا بھائی دلی کشمیری کے حضور پہنچے اور فیض حاصل کیا۔ اس کے بعد پیر کامل کی تلاش میں دہلی وارد ہوئے اور شیخ عبد العزیز کی خانقاہ میں ان کے صاحبزادے شیخ قطب العالم کے پاس رہ کر یاد حق میں مشغول ہو گئے۔ پھر اشارہ غیبی پاکر بخارا پہنچے اورخواجہ اِمکنگی کے مرید و خلیفہ سے نقشبندی سلسلے کی تعلیم حاصل کی۔ محمد اور خواجہ بہاوالدین نقشبند بخاری کی روحانیت سے بلا واسطہ بطور اویسیت فیضیاب تھے۔ خواجہ محمد اِمکنگی نے اشارہ غیبی پاکر آپ کو ہندوستان کی طرف ہجرت کا حکم دیتے ہوئے فرمایا ” تمہارے وجود سے طریقہ نقشبندیہ ہندوستان میں رونق عظیم اور شہرت فخیم حاصل کرے گااور وہاں کے تشنگان علم وعرفاں کا جام تجھ سے سیراب ہوگا“ چنانچہ آپ کے حکم پر ترکستان سے لاہور ہوتے ہوئے ہندوستان کے مرکزی شہر دہلی تشریف لائے اور دریائے جمنا کے کنارے قلعہ فیروز آباد میں مستقل سکونت اختیار کی۔ آپ کی تشریف آوری سے پانچ چھ سال کے اندر اندر روحانی حلقوں میں انقلاب برپا ہو گیا۔ علماء و مشائخ اور عامۃ المسلمین کے علاوہ اُمراء سلطنت بھی آپ کے حلقہ بیعت میں شامل ہونے لگے ۔چنانچہ نواب مرتضی خان فرید بخاری، عبدالرحیم خان خاناں، مرزا قلیج خان اور صدر جہاں وغیرہم بھی آپ کے نیاز مندوں میں شامل ہونے لگے۔ آپ کی نظر کیمیا، توجہ اکسیر اور دعا مستجاب تھی اور آپ سے بے شمار کرامات کا ظہور ہوا۔ آپ بہت کم گو، کم خور اور کم خواب تھے۔ خواجہ محمد باقی باللہ کے دو صاحبزادے تھے۔ خواجہ عبیداللہ، خواجہ عبداللہ 1008ھ میں مجدد الف ثانی خواجہ باقی باللہ سے بیعت ہو کر خلافت و اجازت سے مشرف ہوئے جن سے بالخصوص پاک و ہند اور بالعموم پوری دنیا میں سلسلہ نقشبندیہ کی اشاعتِ عام ہوئی۔ آپ کے مشہور خلفاء کے نام درج ذیل ہیں مجدد الف ثانی، شیخ تاج الدین سنبھلی، خواجہ حسام الدین ہفتہ 25 جمادی الثانی 1012ھ بمطابق 29 نومبر 1603ء کو بعد نماز عصر ذکر اسم ذات کرتے ہوئے وفات پائی۔ 'نقشبندِ وقت' اور 'بحرِ معرفت بود' سے تاریخ وفات نکلتی ہے۔ خواجہ باقی باللہ کا مزار دہلی میں فیروز شاہ قبرستان میں صحنِ مسجد کے متصل واقع ہے۔


No comments:

Post a Comment