حضرت سیدنا امام محمد بن ادریس شافعی علیہ الرحمہ

 

امام محمد بن ادریس شافعی علیہ الرحمہ جو کہ  امام شافعی علیہ الرحمہ کے لقب سے معروف ہیں، سنی فقہی مذہب شافعی کے بانی ہیں۔ ان کے فقہی پیروکاروں کو شافعی (جمع شوافع) کہتے ہیں۔  امام شافعی علیہ الرحمہ کا عرصہ حیات مسلم دنیا کے عروج کا دور یعنی اسلامی عہد زریں ہے۔ خلافت عباسیہ کے زمانہ عروج میں بغداد میں مسلک شافعی کا بول بالا اور بعد ازاں مصر سے عام ہوا۔ مذہب شافعی کے پیروکار زیادہ تر مشرقی مصر، صومالیہ، ارتریا، ایتھوپیا، جبوتی، سواحلی ساحل، یمن، مشرق وسطیٰ کےکردعلاقوں میں، داغستان، فلسطین، لبنان، چیچنیا، قفقاز، انڈونیشیا، ملائیشیا، سری لنکا کے کچھ ساحلی علاقوں میں، مالدیپ، سنگاپور، بھارت کے مسلم علاقوں، میانمار، تھائی لینڈ، برونائی اور فلپائن میں پائے جاتے ہیں۔ 150ہجری میں جس دن حضرت سیدنا امامِ اعظم رضی اللہ عنہ کا وصال ہوا اسی دن غزہ (فلسطین)میں آپ کی ولادت ہوئی۔ 

نام و لقب :

آپ علیہ الرحمہ کا نام محمد ہے، کنیت ابو عبد اللہ ہے۔ مورخین اور محدثین کے نزدیک " امام محمد بن ادریس الشافعی " کے نام سے مشہور و معروف ہیں۔ آپ کے نسب میں ایک صحابی حضرت شافع بن سائب رضی اللہ عنہ ہوئے ہیں جن سے آپ کو شافعی کہا جاتا ہے۔(المنتظم ،ج10،ص134،سیر اعلام النبلاء،ج8،ص378 ملخصاً) 

والدین کریمین:

 امام شافعی علیہ الرحمہ علیہ الرحمہ کے والد ادریس بن عباس بن عثمان بن شافع بن سائب بن عبید بن عبد یزید بن ہاشم بن مطلب بن عبد مناف قرشی مطلبی ہاشمی ہیں۔ امام شافعی علیہ الرحمہ کے نسب میں سائب صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ سائب بن عبید غزوہ بدر میں گرفتار ہونے کے بعد اسلام لائے بنی ہاشم کا علم اِن کے ہاتھ میں تھا۔ فدیہ اداء کرکے مسلمان ہو گئے اور لوگوں نے اِس پر تعجب کیا تو کہنے لگے : میں نے مسلمانوں کو اُن کے حق سے محروم کرنا پسند نہیں کیا۔

 امام شافعی علیہ الرحمہ کی والدہ فاطمہ بنت عبد اللہ بن حسن بن حسن بن علی بن ابی طالب تھیں۔  امام شافعی علیہ الرحمہ کی والدہ ہاشمیہ تھیں مگر خطیب بغدادی اور قاضی عیاض مالکی نے انھیں قبیلہ بنو الازد سے بتایا ہے۔

 امام شافعی علیہ الرحمہ کی والدہ فاطمہ بیان کرتی ہیں جس زمانہ میں شافعی مادرِ شکم میں ہی تھے تو میں نے خواب دیکھا کہ سیارہ مشتری میرے جسم سے نکلا اور مصر میں جا گرا اور اُس کی روشنی وہاں سے ہر شہر میں پہنچی۔ معبروں نے بتایا کہ تم سے ایک عالم پیدا ہوگا جس کا علم مصر سے تمام شہروں میں عام ہو جائے گا۔

تعلیم و تربیت:

کم عمری میں ہی آپ یتیم ہو گئے تھے اس لئے آپ کی پرورش اور تربیت آپ کی والدہ نے فرمائی۔(سیر اعلام النبلاء،ج8،ص377)  امام شافعی علیہ الرحمہ خود بیان کرتے ہیں کہ بچپن میں میری ساری توجہ دو باتوں کی طرف ہی تھیتیر اندازی اور تحصیل علم۔ تیراندازی میں مجھے اِتنی مہارت ہو گئی تھی کہ دس میں دس نشانے صحیح بیٹھتے تھے۔(تاریخ بغداد،ج2،ص57) اِسی زمانہ میں مجھے گھوڑے کی سواری کا شوق بھی ہو گیا تھا۔ تیراندازی اور شہ سواری کے موضوعات پر کتاب السبق دالرمی لکھی جو اپنے موضوع میں عربی ادب کی پہلی کتاب تھی۔تحصیل علم میں آپ مکملاً منہمک رہتے اور بحالت یتیمی و غریبی کے باوجود شب و روز پڑھنے میں مشغول رہا کرتے تھے۔

 امام شافعی علیہ الرحمہ اپنے زمانہ طالب علمی کے متعلق خود بیان کرتے ہیں کہ:میں یتیم تھا، والدہ میری کفالت کیا کرتی تھیں۔ میرے پاس معلم کی خدمت کے لیے رقم نہیں تھی، مگر ایسی صورت پیدا ہو گئی کہ معلم اُس کے بغیر پڑھانے پر راضی ہو گیا، وہ بچوں کو جو سبق دیتا تھا میں زبانی یاد کرلیتا تھا اور اُس کی عدم موجودگی میں بچوں کو پڑھا دیا کرتا تھا، میری اِس بات پر معلم بہت خوش ہوا اور مجھے مفت تعلیم دینے پر راضی ہو گیا۔ مکتب کی تعلیم کے بعد میں قبیلہ بنو ہذیل میں چلا گیا جو فصاحت و بلاغت میں عرب میں مشہور تھا اور سترہ سال تک اِس طرح اُن کے ساتھ رہا کہ سفر و حضر میں اُن کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ مکہ مکرمہ میں واپس آ کر اُن کے اشعار سنانے لگا۔ اِس زمانے میں عربی زبان کا ادب اور شعر و شاعری کا میرے ذوق پر بہت غلبہ تھا۔ اِسی دوران میں اپنے چچا (محمد بن شافع) اور مسلم بن خالد الزنجی وغیرہ سے حدیث کی روایت کرتا تھا۔ میں علما کی مجلس درس میں احادیث اور مسائل سن کر یاد کرلیتا تھا چونکہ میری والدہ کے پاس اتنی رقم نہیں رہتی تھی کہ کاغذ خرید سکوں اِس لیے اِدھر اُدھر سے ہڈیاں، ٹھیکرے اور کھجور کے پتے چن کر اُن ہی پر لکھ لیا کرتا تھا۔ سات سال کی عمر میں قرآن اِس طرح حفظ کر لیا تھا کہ اُس کے معانی و مطالب مجھ پر عیاں ہو گئے تھے البتہ دو مقام سمجھ میں نہ آ سکے اُن میں سے ایک " دساہاً " ہے۔ دس سال کی عمر میں موطاء امام مالک یاد کرلی تھی۔مکہ مکرمہ میں  امام شافعی علیہ الرحمہ نے قرات قرآن مجید کی تعلیم مقری اسماعیل بن قسطنطین سے حاصل کی بعد ازاں عبد اللہ ابن کثیر سے قرآت قرآن مجید کی تعلیم حاصل کرتے رہے۔  امام شافعی علیہ الرحمہ خود فرماتے ہیں کہ : میں لوگوں میں نماز کے لیے قرآن کی قرات تیرہ سال کی عمر میں کرنے لگا تھا اور موطاء امام مالک بالغ ہونے سے قبل حفظ کرچکا تھا۔

فتویٰ دینے کی اجازت:

ربیع بن سلیمان مرادی کہتے ہیں کہ  امام شافعی علیہ الرحمہ کو 15 سال کی عمر میں فتویٰ دینے کی باقاعدہ اجازت مل چکی تھی۔ جبکہ وہ ابھی مکہ مکرمہ میں ہی مقیم تھے۔ یہ اجازت انہیں مسلم بن خالد الزنجی نے دی تھی۔

امام مالک کی مجلس درس میں:

 امام شافعی علیہ الرحمہ کے بیان سے واضح ہو چکا کہ انھوں نے ابتدائی تعلیم کی تحصیل مکہ مکرمہ میں کی تھی اور بعد ازاں حدیث و فقہ کی تعلیم بھی وہیں کے فقہا و محد ثین سے حاصل کی۔ اِس کے بعد وہ شعر و ادب سے وابستہ ہوئے اور ایام عرب میں انتہائے کمال حاصل کر لیا، اِنہی دنوں میں آپ بنو ہذیل کے اشعار سنایا کرتے تھے۔ مگر یہاں ایک دم سے زندگی نے رخ بدلا اور ایک بزرگ کی نصیحت سے مدینہ منورہ جاکر امام مالک کی شاگردی اختیار کرلی۔

بچپن میں آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو تحصیل علم اور تیر اندازی کابے حد شوق تھا، تیر اندازی میں مہارت کا یہ عالم تھا کہ آپ کے دس میں سے دس نشانے درست لگتے تھے۔

حصول علم میں مشقتیں معاشی اعتبارسے آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ابتدائی حالات نہایت دشوار گزار تھے، آپ کی والدہ کے پاس استاد صاحب کی خدمت میں پیش کرنے کے لئے کچھ نہیں ہوتا تھااور کاغذ نہ ہونے کی وجہ سےکبھی ہڈیوں پراور کبھی صفحات مانگ کر ان پر احادیث مبارکہ لکھا کرتے۔ (سیراعلام النبلاء،ج8،ص379 مفہوماً) شدید تنگ دستی کے باعث تین بار آپ کو اپنا تمام مال حصولِ علم کے لئے فروخت کرنا پڑا۔(تاریخ دمشق، ج51،ص397 ملخصاً) اتنے سخت حالات کے باجود آپ طلب علم میں لگے رہے،حصول علم کےلئےعرب کےدیہاتوں میں آپ نے 20 سال گزارے اور وہاں کی زبانوں اور اشعار پر عبور حاصل کیا۔ (سیراعلام النبلاء،ج8،ص379 ماخوذاً) زبردست قوتِ حافظہ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ بہت ذہین تھے،7 سال کی عمر میں کلام مجید اور10سال کی عمر میں حدیث شریف کی کتاب”مؤطا امام مالک“ صرف 9 راتوں میں حفظ کر لی تھی۔ (تاریخ بغداد،ج2،ص60، الدیباج المذہب،ج2،ص157) 15 سال کی عمر میں آپ کو فتویٰ دینے کی اجازت مل گئی(المنتظم،ج10،ص136) لیکن احتیاط کے پیش نظر آپ نےاس وقت تک فتویٰ دینا شروع نہ کیا جب تک دس ہزار حدیثیں یاد نہ کر لیں۔ (المنتظم،ج10،ص135)

 اساتذہ  کرام:

 آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنے دور کے عظیم المرتبت علمائے کرام و بزرگان دین سے علم حاصل کیا،ان میں حضرت سیدنا امام مالک ، حضرت سیدنا مسلم بن خالد، حضرت سیدنا سفیان بن عیینہ اورحضرت سیدنا فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ تعالٰی علیہم کے اسمائے گرامی قابلِ ذکر ہیں۔(الدیباج المذہب،ج2،ص157)

اِن اساتذہ کے علاوہ مشہور اساتذہ یہ ہیں:ابراہیم بن سعد، سعید بن سالم القراح، عبد الوہاب بن عبد المجید الثقفی، اسماعیل بن عُلَیہ، ابو ضمرہ، حاتم بن اسماعیل، ابراہیم بن محمد بن ابو یحییٰ، محمد بن خالد الجندی، اسماعیل بن جعفر، عمر بن محمد بن علی بن شافع، عطاف بن خالد المخزومی، ہشام بن یوسف الصنعانی، عبد العزیز بن ابوسلمہ، ماجشونی، یحییٰ بن حسان، مروان بن معاویہ، محمد بن اسماعیل، ابن ابی فدیک، ابن ابی سلمہ، امام قعنبی، فضیل بن عیاض، امام داود بن عبد الرحمٰن، عبد العزیز بن محمد دَواوری، عبد الرحمٰن بن ابوبکر ملیکی، عبد اللہ بن مومل المخزومی، ابراہیم بن عبد العزیز بن ابو محذورہ، عبد المجید بن عبد العزیز بن ابورداد، محمد بن عثمان بن صفوان الجُمحی، اسماعیل بن جعفر، مطرف بن مازن، ہشام بن یوسف، یحییٰ بن ابوحسان تینسی وغیرہ ۔(علیہم الرحمہ )

آپ علیہ الرحمہ کی جلالت علمی کو دیکھتے ہوئے آپ کو یمن میں نجران کا قاضی مقرر کیاگیا۔ (البدایہ والنہایہ،ج7،ص255) دیگر اَکابرین کے علاوہ آپ نے حضرت سیدنا امام اعظم رضی اللہ عنہ کے جلیل القدر شاگرد حضرت سیدنا امام محمد رضی اللہ عنہ سے بھی اکتساب فیض کیا۔ (البدایہ والنہایہ،ج7،ص255ماخوذاً) علوم مروجہ کی تکمیل کے دوران عراق ہی سے آپ نے اپنی فقہ (یعنی فقہ شافعی) کی ترویج و تدوین کا آغاز فرمایا۔ (ترتیب المدارک،ج3،ص179ملخصاً) آپ نے ہی سب سے پہلے اصول فقہ کے موضوع پر کتاب تصنیف فرمائی نیز ابواب فقہ اور اس کے مسائل کی درجہ بندی فرمائی۔(مرآۃ الجنان،ج2،ص14 ملخصاً)

 تصانیف جلیلہ : 

حضرت سیدنا  امام شافعی علیہ الرحمہ نے درس و تدریس اور تصانیف کے ذریعے علم دین کی خوب اشاعت فرمائی جس کا فیضان آج تک جاری ہے، آپ کی تصانیف میں کتاب ”الام“، ”اَلرسالۃ“، ”اخْتلاف الْحدیث“، ”ادب الْقاضی“ اور ”السبق و الرمْی“ وغیرہ زیادہ مشہور ہیں۔ (اعلام للزرکلی، ج6، ص26) عبادات اور زہد وقناعت مجتہد وقت ہونے کے ساتھ ساتھ آپ رضی اللہ عنہ نہایت عبادت گزار اور قراٰن پاک کی کثرت سے تلاوت کرنے والے تھے، آپ روزانہ ایک قراٰن پاک اور رمضان المبارک میں ساٹھ قراٰن مجید کا ختم فرماتے۔ آپ رضی اللہ عنہ نہایت خوش آواز قاری قراٰن تھے، آپ رضی اللہ عنہ کی تلاوت سن کر لوگوں پر رقت طاری ہو جاتی تھی۔ (المنتظم،ج10،ص135ماخوذاً) زہد و قناعت میں بھی آپ کا اعلیٰ مقام تھا،چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نےسولہ سال سےکبھی سیر ہو کرکھانا نہیں کھایا۔ (لباب الاحیاء، ص32 ) بزرگوں کا آپ کی عظمت کا اعتراف آپ کی شرافت و عظمت کا شہرہ زبانِ زدِ عام تھا یہاں تک کہ اس دور کے صاحِبانِ کمال نے بھی آپ کے فضائل و مناقب بیان فرمائے، چنانچہ حضرت سیدنا سفیان بن عیینہ ر  حمۃ اللہ علیہ فرماتےہیں:  امام شافعی علیہ الرحمہ اپنے زمانے کے افراد میں سب سے اَفضل ہیں۔ (الانتقاء، ص120) حضرت سیدنا امام احمد بن حنبل علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:  امام شافعی علیہ الرحمہ دنیا کے لئے سورج اور لوگوں کے لئےخیر و عافیت کی طرح ہیں جس طرح ان دونوں کا کوئی متبادل نہیں اسی طرح ا ن کا بھی کوئی متبادل نہیں۔ (الانتقاء، ص125ماخوذاً) 

بوقت وفات تلامذہ کے متعلق پیشگوئی:

ربیع بن سلیمان مرادی کہتے ہیں کہ  امام شافعی علیہ الرحمہ کے وقتِ نزاع کے دوران میں حاضر تھا، اُن کے پاس دوسرے شاگرد بویطی، مزنی اور ابن عبد الحکم بھی موجود تھے۔  امام شافعی علیہ الرحمہ نے ہماری طرف دیکھ کر کہا: اے ابو یعقوب (بویطی)! تم لوہے کی زنجیر اور بیڑی میں انتقال کروگے اور اے مزنی! تمہارے لیے مصر میں چہ میگوئیاں ہوں گی۔ مگر آگے چل کر تم اپنے زمانہ کے سب سے بڑے فقہی قیاس کرنے والے ہوگے۔ اور تم اے محمد (ابن عبد الحکم)! تم امام مالک کے مذہب کو اختیار کرو گے اور مجھ سے کہا اے ربیع! تم میری کتابوں کی نشر و اشاعت میں میرے حق میں نافع و مفید ہوگے۔ اے ابو یعقوب! اُٹھو اور میرا حلقہ درس سنبھال لو۔ ربیع بن سلیمان مرادی کہتے ہیں کہ  امام شافعی علیہ الرحمہ کی وفات کے بعد ہم میں سے ہر ایک وہی ہوا جو انھوں نے فرمایا تھا۔ جیسے کہ وہ باریک پردے کے پیچھے غیب کو دیکھ رہے تھے۔ امام شافعی علیہ الرحمہ کی یہ پیشگوئی آئندہ سالوں میں پوری ہو گئی کہ بویطی 231ھ میں بغداد کے قید خانہ میں فوت ہوئے اور وہ مسئلہ فتنہ خلق قرآن میں قید کر لیے گئے تھے، مزنی آپ کے علم کے داعی بنے اور مصر میں اُن کا چرچا عام ہوا۔ محمد ابن عبد الحکم نے مذہب مالکیہ اختیار کر لیا۔ ربیع بن سلیمان مرادی  امام شافعی علیہ الرحمہ کی کتب کے ناشر بنے اور  امام شافعی علیہ الرحمہ سے روایت کردہ کتاب المبسوط اِنہی کے توسط سے علمائے اسلام تک پہنچی۔

اولادو امجاد:

 امام شافعی علیہ الرحمہ کی اولاد کے متعلق ابن حزم نے لکھا ہے کہ آپ کے 2 صاحبزادے تھے، ایک ابو الحسن محمد جو علاقہ قنسرین اور عواصم میں قاضی تھے، انھوں نے کوئی اولاد نہیں چھوڑی اور دوسرے عثمان تھے جو احمد بن حنبل کے شاگرد ہوئے، اِن سے بھی اولاد کا سلسلہ منقطع رہا۔امام تاج الدین سبکی نے طبقات الشافعیۃ الکبریٰ میں لکھا ہے کہ  امام شافعی علیہ الرحمہ کے 2 صاحبزادے تھے : ایک قاضی ابو عثمان محمد اور دوسرے ابو الحسن محمد، ابو عثمان بڑے تھے اور  امام شافعی علیہ الرحمہ کے اِنتقال کے وقت مکہ میں تھے، یہ اپنے والد امام شافعی، امام سفیان بن عینیہ، امام عبد الرزاق صاحب المصنف اور احمد بن حنبل سے روایت کیا کرتے تھے۔ حلب میں بھی عہدہ قضا پر فائز رہے، اِن کی تین اولادیں ہوئیں: عباس، ابو الحسن اور ایک بیٹی فاطمہ۔ عباس اور ابو الحسن تو بچپن میں ہی فوت ہو گئے تھے اور بیٹی فاطمہ سے اولاد کا سلسلہ منقطع رہا۔ ابوعثمان محمد کا اِنتقال 240ھ مطابق 854ء میں الجزیرہ کے مقام پر ہوا۔ دوسرے صاحبزادے ابو الحسن محمد تھے جن کی والدہ دنانیر کنیر تھیں۔ یہ بچپن میں ہی اپنے والد  امام شافعی علیہ الرحمہ کے ہمراہ مصر آ گئے تھے اور یہیں مصر میں ماہ شعبان 231ھ مطابق ماہ اپریل 846ء کو فوت ہوئے۔ابو الحسن محمد کی ایک صاحبزادی زینب تھیں جس سے ابو محمد احمد بن محمد بن عبد اللہ بن عباس بن عثمان بن شافع پیدا ہوئے۔ یہ اپنے والد کے ذریعہ سے اپنے نانا  امام شافعی علیہ الرحمہ سے روایت کیا کرتے تھے۔ آل شافع یعنی خاندان  امام شافعی علیہ الرحمہ میں اِن کے مثل کوئی عالم پیدا نہیں ہوا، اِن کو اپنے نانا  امام شافعی علیہ الرحمہ کی برکت حاصل تھی۔

تلامذہ کرام:

 امام شافعی علیہ الرحمہ سے خلق کثیر نے روایت کیا ہے مگر آپ کے مشہور تلامذہ میں سے چند یہ ہیں جن کے اسمائے گرامی مورخ اسلام الحافظ ذہبی نے نقل کیے ہیں:الحُمَیدی، ابو عبید القاسم بن سلام، احمد بن حنبل، سلیمان بن داود الہاشمی، ابو یعقوب یوسف البُوَیطی، ابو ثور ابراہیم بن خالد الکلبی، حرملہ بن یحیی، موسیٰ بن ابی الجارود المکی، عبد العزیز المکی صاحب الحیدہ، حسین بن علی الکرابیسی، ابراہیم بن المنذر الحزامی، الحسن بن محمد الزعفرانی، احمد بن محمد الاذرقی، احمد بن سعید الہمدانی، احمد بن ابی شُریح الرازی، احمد بن یحیی بن وزیر المصری، احمد بن عبد الرحمٰن الوہبی، ابراہیم بن محمد الشافعی، اسحاق بن راہویہ، اسحاق بن بُہلُول، ابو عبد الرحمٰن احمد بن یحیی الشافعی المتکلم، الحارث بن سُریج النقال، حامد بن یحیی البلخی، سلیمان بن داود المھری، عبد العزیز بن عمران بن مقلاص، علی بن معبد الرقی، علی بن سلمہ اللبیقی، عمرو بن سواد، ابو حنیفہ قحزم بن عبد اللہ الاسوانی، محمد بن یحیی العدنی، مسعود ابن سہل المصری، ہارون بن سعید الایلی، احمد بن سنان القطان، ابوالطاہر احمد بن عمرو بن السرح، یونس بن عبد الاعلیٰ، الربیع ابن سلیمان المرادی، الربیع بن سلیمان الجِیزی، محمد بن عبد اللہ بن عبد الحکم المصری، بحر بن نصر الخولانی۔

وصال پر ملال:

یہ چمکتا سورج 30رجب المرجب 204ہجری جمعرات کی رات کو مصر میں غروب ہوا۔ (الدیباج المذہب،ج2،ص160،الانتقاء،ص160)

 مزار مبارک:

 جبل مقطم کے قریب قرافہ صغریٰ (قاہرہ مصر)میں مرجع عوام وخواص ہے ۔


حضرت خواجہ سید محمد قطب الدین بختیارکاکی علیہ الرحمہ


سرخیل سادات اولیاء، عظیم المرتبت، فنا فی اللہ، سلطان المشائخ، زہد و استغنا کے پیکر، استقامت کے پہاڑ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کی ذات گرامی ہندوستان میں سلسلہ چشتیہ کے ان عظیم ترین اشخاص میں سے ہیں، جن کے توسط سے، جن کی نگاہ ناز سے، جن کے علوم و معارف سے، جن کے باطنی اسرار و حکم سے سلسلہ چشتیہ کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا، اور لا تعداد گم گشتہ راہ لوگوں کو ہدایت نصیب ہوئی ہے۔

اسم گرامی:

آپ کا نام سید بختیار، لقب قطب الدین اور قطب الاقطاب اور کاکی عرفیت ہے۔ آپ قصبہ اوش ترکستان میں پیدا ہوئے۔ حسینی سادات میں سے تھے۔

ولادت با سعادت:

آپ کی تاریخ پیدائش میں قدرے اختلاف ہے، لیکن راجح قول کے مطابق آپ کی ولادت با سعادت 582 ہجری کو ماوراء النہر کے مشہور علاقہ قصبہ اوش میں ہوئی تھی۔ تاریخی روایات کے مطابق آپ کی پیدائش اگرچہ رات کے نصف حصہ میں ہوئی تھی، لیکن انوار و برکات کی تجلی نے روشنی کا ایسا سماں باندھ دیا تھا جس سے دیکھنے والوں کو صبح کا گمان ہورہا تھا۔ آپ کا سلسلہ نسب چند واسطوں سے ہوکرحضرت جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ سے ملتا ہے۔ جب آپ کی عمر محض ڈیڑھ سال تھی، آپ کے والد محترم سید کمال الدین احمد بن موسیٰ اس دار فانی سے رخصت ہوگئے۔ آپ والدہ کی زیر تربیت رہے۔

نسب نامہ:

سید بختیاراوشی بن سید کمال الدین بن سید موسیٰ بن سید احمد اوشی بن سید اسحاق حسن بن سید معروف حسن بن سید احمد حسن بن سید رضی الدین بن سید حسام الدین بن سید رشید الدین بن سید جعفر بن سید امام محمد تقی بن سیدامام علی موسیٰ رضا بن سید امام موسیٰ کاظم بن سید امام جعفر صادق بن سید امام باقر بن سید امام زین العابدین بن سید الشہداء سیدنا امام حسین بن امیر المؤمنین حضرت مولیٰ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہم

تعلیم و تربیت:

جب آپ علیہ الرحمہ کی عمر پانچ برس کی ہوئی تو والدہ نے ہمسائی عورت کے ہمراہ تختی وغیرہ لیکر معلم کے پاس روانہ کیا۔ درمیان راستہ میں ایک بزرگ نے بچے کو شیخ ابو حفص اوشی کے درسگاہ میں پہنچا دیا، اور شیخ سے ارشاد فرمایا کہ احکم الحاکمین کا حکم ہے کہ اس بچہ پر خصوصی توجہ دی جائے۔ کچھ دنوں تک ان کے زیرِ سایہ ظاہری علوم کی تحصیل میں مشغول رہے، بعد ازاں قاضی حمید الدین ناگوری کی خدمت میں علوم ظاہریہ کی تکمیل فرمائی۔ تاریخی روایت کے مطابق آپ نے بچپن میں ہی اپنی والدہ سے قرآن مجید کے پندرہ پارے پڑھ لئے تھے۔

بیعت و سلوک:

بلوغ کے ابتدائی زمانہ میں ہی باطنی علوم کی تحصیل کا شوق پیدا ہوا اور یہ شوق انہیں اس ولی کامل، خضر طریقت کے دربار میں پہنچا دیا جن کی رہبری و راہنمائی میں کمال و تکمیل کے مدارج تک پہنچنا مقدر تھا۔ سترہ سال کی عمر میں آپ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کے دست مبارک پر بیعت ہوئے اور محض بیس سال کی عمر میں فقیہ ابو اللیث سمر قندی رحمۃ اللہ علیہ کی مشہور مسجد میں ممتاز، جلیل القدر، یکتائے روزگار مشائخ عظام کی موجودگی میں خلعت خلافت سے سرفراز کئے گئے۔ آپ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کے پہلے خلیفہ ہیں اور بعد کے زمانے میں شیخ کے دامن ادارت سے اس طرح منسلک ہوئے کہ زندگی بھر کیلئے اپنے شیخ کے ہوکر رہ گئے۔

ہندوستان آمد:

خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی منشا پر آپ ہندوستان تشریف لائے، کچھ عرصہ خواجہ صاحب کی خدمت میں رہے، پھر انہی کے حکم پر دہلی کو اپنا مسکن بنالیا۔ دہلی کا یہ وہ زمانہ تھا جب تاتاریوں کی تباہی و بربادی نے عالم اسلام کو ناقابلِ تلافی نقصان سے دو چار کر رکھا تھا۔ اکناف عالم کے مشائخ و جلیل القدر علماء کرام دہلی میں جمع ہورہے تھے۔ دہلی اہل اللہ اور علوم و معارف کے خزینے کا مسکن بن چکا تھا۔ علماء و مشائخ اور شرعی علوم کے ان نیر تاباں کے درمیان آپ کی حیثیت آفتاب کامل کی تھی۔ جس کی ضیا پاش روشنی سے ہر کوئی مستفید ہورہا تھا۔ شہر کی آبادی سے دور غیاث پور کے علاقہ میں آپ قیام پذیر تھے۔ عوام الناس کی عقیدت کی وجہ سے آنے والوں کا تانتا بندھا رہتا لیکن آپ حالت استغراق اور وجد کی بناء پر فوری توجہ نہیں دے پاتے۔ امراء و سلاطین کی جانب سے پیش کردہ ہدایا و تحائف سے اجتناب فرماتے۔ سلطان شمس الدین التمش نے آپ کی شایان شان آپ کی پذیرائی کی۔ سلطان شمس الدین التمش کا معمول تھا کہ ہفتہ میں دوبار شیخ سے ملاقات کیلئے تشریف لاتے۔ لیکن خدائی شان کہ جس کے در پر شاہوں کا جم غفیر ہوا کرتا تھا وہ خود کبھی شاہی دربار میں نہیں پہنچا۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے اکابرین نے شاہوں کے دربار سے ہمیشہ خود کو الگ تھلگ رکھا ہے، اگر میں دربار شاہی میں حاضری دینے لگوں، تو ان نفوسِ قدسیہ کو کیا جواب دوں گا۔

ایک دفعہ آپ کے مرشد و مربی خواجہ معین الدین چشتی اجمیری دہلی تشریف لائے۔ خواجہ صاحب کے ایک پرانے شناسا نے قطب الدین بختیار کاکی کے متعلق کچھ باتیں کہہ دی۔ خواجہ صاحب نے فرمایا، بابا بختیار اتنی قلیل مدت میں اتنی شہرت ہوگئی کہ اب تمہارے خلاف باتیں بھی ہونے لگی ہے۔ ہمارے ساتھ اجمیر چلو، یہاں تمہارا کوئی قدر دان نہیں ہے۔ وہاں ہم تمہیں مخدوم بنا کر رکھیں گے۔ یہ سن کر مطیع و فرمانبردار مرید نے ارشاد فرمایا کہ، میری تو یہ مجال نہیں کہ آپ کے سامنے کھڑا رہوں، چہ جائیکہ بات بیٹھنے کی ہو۔ اسی وقت آپ خواجہ صاحب کے ہمراہ اجمیر کیلئے روانہ ہوگئے۔ دہلی والوں پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر آپ کے پیچھے ہولیا۔ عوام تو عوام خود دہلی کے سلطان شمس الدین التمش بھی اسی بھیڑ کا حصہ تھے۔ دہلی والوں کیلئے آپ کی مفارقت قابلِ برداشت نہیں تھی۔ جب خواجہ صاحب نے عوام کی یہ وارفتگی اور لگاؤ دیکھا تو یہ کہہ کر راستہ سے واپس کردیا کہ یہ شہرت و مقبولیت منجانب اللہ ہے، اب جاؤ دہلی کو تمہیں ہی سنبھالنا ہے۔
آپ ہمیشہ عبادت و ریاضت میں مشغول رہا کرتے تھے۔ ہر دن سو رکعت نفل نماز کا معمول تھا، نیز رات کو تین ہزار درود شریف پڑھا کرتے تھے۔ شادی کے بعد تین چار دنوں تک مصروفیت کی وجہ سے یہ اہتمام باقی نہیں رہا۔ آپ کے خادم انیس احمد نے خواب دیکھا کہ ایک عالیشان محل ہے۔ باہر مشائخ عظام کا بڑا مجمع ہے۔ دروازے پر عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ لوگوں کا پیغام اندر پہنچا رہے ہیں۔ میں نے بھی ملاقات کا پیغام بھجوایا۔ جواب آیا کہ ابھی تم اس کے اہل نہیں ہو، البتہ قطب الدین بختیار کاکی سے عرض کرنا کہ تین دنوں سے ہمارا تحفہ نہیں آیا ہے۔

کاکی کی وجہ تسمیہ:

شیخ الحدیث مولانا زکریا رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب (تاریخ مشائخ چشت) میں بیان فرمایا کہ، دہلی میں قیام کے زمانے میں آپ کبھی کسی سے کچھ نہیں لیتے تھے۔ ہدایا و تحائف پیش کئے جاتے لیکن شان بے نیازی نے کبھی ان چیزوں کی جانب توجہ نہیں دی۔ جس کے نتیجہ میں بسا اوقات کئی وقتوں میں فاقہ ہوجایا کرتا تھا۔ آپ کی اہلیہ محترمہ ہمسائی عورت سے کچھ قرض لے لیا کرتی تھی۔ ایک مرتبہ ہمسائی عورت نے اہلیہ محترمہ سے کہہ دیا کہ اگر ہم قرض نہ دیں تو تم بھوکے مرجاؤ۔ یہ بات اہلیہ محترمہ کے دل کو لگ گئی۔ موقع دیکھ کر شیخ سے تذکرہ کردیا۔ شیخ نے گھر کے ایک طاق کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جب کبھی ضرورت پیش آئے وہاں سے کاک ( روٹی) لے لیا کرو۔

تصانیف جلیلہ:

 آپ علیہ الرحمہ کے تصانیف میں دیوان، دلیل العارفین اور فوائد الساکین کے نام ملتے ہیں۔

وفات پرملال:

آپ علیہ الرحمہ  کو سماع سے رغبت تھی۔ دہلی میں محفل سماع کے دوران شیخ احمد جام کا یہ شعر قوال گارہا تھا کہ کُشتگانِ خنجرِ تسلیم را ہر زماں از غیب جانِ دیگر اَست سن کر وجد طاری ہوا۔ کہا جاتا ہےکہ تین روز اسی وجد میں رہے، آخر 27 نومبر 1235ء مطابق 14 ربیع الاول 633ہجری بروز دو شنبہ کو انتقال فرماگئے۔ آپ کا مزار دہلی کے علاقہ مہرولی میں واقع ہے۔

جب حضرت قطب الدین بختیار کاکی علیہ الرحمہ  کی وفات ہوئی تو  ہندوستان بھرمیں کہرام مچ گیا۔جنازہ تیار ہوا  اور اسے ایک بڑے میدان میں نمازِ جنازہ پڑھنے کے لیے لایا گیا۔ مخلوق مورومگس کی طرح جنازہ پڑھنے کے لیے نکل پڑی تھی۔ انسانوں کا ایک سمندر تھا جو حدِ نگاہ تک نظر آتا تھا۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ ایک بپھرے ہوئے دریا کی مانند یہ مجمع ہے۔ جب نمازِ جنازہ پڑھانے کا وقت قریب آیا تو آچانک مجمع میں سے ایک آدمی آگے بڑھا اور مجمع کی طرف رخ کرکے کہنے لگا کہ “میں حضرت قطب الدین بختیار کاکی علیہ الرحمہ  کا وصی ہوں۔ مجھے حضرت   علیہ الرحمہ  نے ایک وصیت کی تھی لہذا میں اس مجمع تک حضرت مرحوم کی وہ وصیت پہنچانا چاہتا ہوں۔ مجمع سننے کے لئے خاموش ہوگیا۔ وصیت کیا تھی؟

سنیئے! وصی نے کہا کہ  خواجہ قطب الدین بختیار کاکی  علیہ الرحمہ  نے  مجھے یہ وصیت کی تھی کہ میرا نمازِ جنازہ وہ شخص پڑھائے جس کے اندر چار خوبیاں موجود ہوں۔ 

پہلی خوبیتمام زندگی میں اس کی تکبیر اولیٰ کبھی بھی قضا نہ ہوئی ہو ۔

دوسری خوبیاس کی تہجد کی نماز کبھی بھی قضا نہ ہوئی ہو۔

تیسری خوبیاس نے زندگی میں غیر محرم عورت پر کبھی بھی بری نظر نہ ڈالی ہو۔

چوتھی خوبیوہ اتنا عبادت گزار ہو حتیٰ کہ اس نے عصر کی سنتیں بھی کبھی نہ چھوڑی ہوں۔ لہذا جس شخص میں یہ چاروں خوبیاں موجود ہوں وہ میرا نمازِ جنازہ پڑھائے، 

جب آپ علیہ الرحمہ  کی یہ وصیت مجمع کو سنائی گئی تو مجمع پر سناٹا چھا گیا مجمع ایسے ساکت ھو گیا جیسے اسے سانپ سونگھ گیا ہو ۔  لوگوں کے سر جھک گئے۔ کون ہے جو قدم آگے بڑھائے، کافی وقت گزر گیا وصیت کا اعلان بار بار کیا جاتا رھا  لیکن کوئی بھی شخص نمازِ جنازہ پڑھانے کے لئے تیار نہ ہوا  لوگ آپس میں چہ میگوئیاں کرنے لگے کہ  حضرت علیہ الرحمہ  کی ان شرائط کے ساتھ کوئی بھی حضرت علیہ الرحمہ  کا جنازہ نہیں پڑھا سکے گا  دن اپنے اختتام کی طرف بڑھنے لگا تو ایک شخص روتا ہوا آگے بڑھا۔ حضرت قطب الدین بختیار کاکی علیہ الرحمہ  کے جنازے کے قریب آیا۔ جنازے سے چادر ہٹائی اور کہا  حضرت ! آپ خود تو فوت ہو گئے لیکن میرا راز افشا کر گئے۔اس کے بعد بھرے مجمع کے سامنے اللہ کو حاضر و ناظر جان کر قسم اٹھائی کہ الحمد للہ میرے اندر یہ چاروں خوبیاں موجود ہیں لوگوں نے حیرانگی سے دیکھا یہ وقت کے بادشاہ وقت حضرت  شمس الدین التمش علیہ الرحمہ  تھے ۔ 

آپ علیہ الرحمہ  کا حلقہ ادارت بہت وسیع تھا، آپ کے خلفاء کی تعداد بھی بہت زیادہ تھی۔ لیکن آپ کے تین خلفاء کا سلسلہ پورے برصغیر میں جاری رہا، آپ کے سب سے مشہور خلیفہ شیخ فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ بعد کے زمانے میں خلق خدا نے ان خلفاء کے ذریعہ شیخ کے کمالات سے دینی و روحانی تسکین حاصل کی ہے۔ آج بھی پورے برصغیر میں سلسلہ چشتیہ کے اکابرین کی سند شیخ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ سے جاکر ملتی ہے۔

 

سلطان العارفین حضرت سیدنا بایزید بسطامی علیہ الرحمہ


 

اسم گرامی:

طیفور۔

کنیت :

بایزید۔

لقب:

سلطان العارفین۔

سلسلہ نسب اسطرح ہے: طیفور بن عیسیٰ بن شروسان بسطامی علیہم الرحمہ۔

آپ  علیہ الرحمہ جو شيخ ابو يزيد اورطیفورابویزیدبسطامی کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں، اصل نام ابو يزيد طيفور بن عيسى بن شروسان البسطامی علیہ الرحمہ اور کنیت ابو یزید ہے ۔ فارس(ایران )کے صوبے بسطام میں پیداہوئے۔بسطامی علیہ الرحمہ آپ کے نام کے ساتھ اسی نسبت سے لگایاجاتاہے۔آپ علیہ الرحمہ کے آباؤ اجدادمجوسی تھے جوکہ بعد میں اسلام کی طرف راغب ہوگئے۔ بسطام ایک بڑا قریہ ہے جو نیشاپور کے راستے میں واقع ہے آپ علیہ الرحمہ کے داداکے تین بیٹے تھے،آدم علیہ الرحمہ ،طیفور علیہ الرحمہ (بایزیدکے والد)اورعلی علیہ الرحمہ یہ سارے بڑے ہی زاہد اور عبادت گزار تھے وفات 261 ہجری میں ہوئی۔معروف ترین مسلم صوفیائے کرام میں سے ایک تصوف میں ابو یزید علیہ الرحمہ کےاستاد ابوعلی السندی نامی ایک صوفی تھے جوعربی نہیں جانتے تھے۔ بعد ازاں دنیا ترک کر دی اور بارہ سال تک جنگلوں میں ریاضت کی۔ تصوف میں آپ علیہ الرحمہ کا مرتبہ بہت بلند ہے۔ آپ علیہ الرحمہ کو علم باطن میں امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ  کی روحانیت سے تربیت ہے جبکہ آپ علیہ الرحمہ  کی پیدائش امام کی وفات کے بعد کی ہے۔ان کے معتقدین کو طیفوریہ اور بسطامیہ کہا جاتا ہے۔

سیرت و خصائص

آپ مادر زاد ولی اللہ تھے۔ آپ علیہ الرحمہ  کی والدہ محترمہ فرماتی ہیں:کہ جب آپ علیہ الرحمہ میرے پیٹ میں تھے، تو جب کبھی میں مشتبہ لقمہ کھا بیٹھتی، تو آپ علیہ الرحمہ میرے پیٹ میں تڑپنا شروع کر دیتے۔ جب تک قے نہ کرتی اور وہ لقمہ دور نہ ہوجاتا آپ علیہ الرحمہ آرام نہ کرتے۔ 

تحصیلِ علم:

آپ علیہ الرحمہ نے ابتدائی تعلیم اپنے گھر کے قریبی مکتب میں حاصل کی ،بچپن ہی سے آپ کا قلبی لگاؤ تصوف کی طرف ہوگیا تھا۔ اس وقت مساجد میں تمام علوم کی مجالس منعقد ہوا کرتی تھیں ۔

آپ علیہ الرحمہ مکتب میں داخل ہوئے اور آپ نے سورہ لقمان کی یہ آیت پڑھی کہ’’اَنِ اشْکُرْلِيْ وَلِوَالِدَیْک‘‘(لقمان، 31: 14)کہ تو میرا (بھی) شکر ادا کر اور اپنے والدین کا بھی۔اس وقت اپنی والدہ سے آکر فرمایا کہ ’’مجھ سے دو ہستیوں کا شکر بیک وقت ادا نہیں ہوسکتا، لہٰذا آپ مجھے خدا سے طلب کر لیں تاکہ میں آپ کا شکر ادا کرتا رہوں، یا پھر خدا کے سپرد کر دیں تاکہ اس کے شکر میں مشغول ہو جاؤں‘‘ والدہ نے فرمایا کہ میں اپنے حقوق سے دستبردار ہو کر تجھے خدا کے سپرد کرتی ہوں۔ چنانچہ اس کے بعد آپ شام کی جانب نکل گئے اور وہیں ذکر و شغل کو جزوِ حیات بنا لیا اور مکمل تین سال شام کے میدانوں اور صحراؤں میں زندگی گزار دی، اور اس عرصہ میں یادِ الٰہی کی وجہ سے کھانا پینا سب ترک کر دیا، بلکہ ایک سو سترہ مشائخ سے نیاز حاصل کرکے ان کے فیوض سے سیراب ہوئے، انہی مشائخ میں حضرت امام جعفر الصادق علیہ الرحمۃ بھی شامل ہیں۔

 ایک مرتبہ آپ حضرت امام جعفر صادق علیہ الرحمۃ کی خدمت میں تھے تو انہوں نے فرمایا کہ اے بایزید فلاں طاق میں جو کتاب رکھی ہے وہ اٹھا لاؤ، آپ علیہ الرحمہ نے دریافت کیا وہ طاق کس جگہ ہے؟

 امام جعفر الصادق نے فرمایا کہ اتنا عرصہ رہنے کے بعد بھی تم نے طاق نہیں دیکھا آپ نے عرض کیا کہ طاق تو کجا، میں نے تو آپ کے روبرو کبھی سر بھی نہیں اٹھایا، اس وقت امام جعفر صادق علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ اب تم مکمل ہوچکے ہو لہٰذا بسطام واپس چلے جاؤ۔

ایک مقام پر آپ کسی بزرگ سے نیاز حاصل کرنے پہنچے تو جس وقت آپ ان کے نزدیک ہوگئے تو دیکھا کہ انہوں نے قبلہ کی جانب تھوک دیا، یہ دیکھ کر آپ ملاقات کئے بغیر واپس آگئے اور فرمایا کہ اگر وہ بزرگ طریقت کے درجوں کو جانتا تو شریعت کے منافی کام نہ کرتا۔ آپ کے ادب کا یہ عالم تھا کہ مسجد جاتے وقت راستے میں بھی نہ تھوکتے سفر حج میں چند قدموں کے بعد آپ نماز ادا کرتے ہوئے فرماتے کہ بیت اللہ دنیاوی بادشاہوں کا دربار نہیں جہاں ایک دم پہنچ جائے اس طرح آپ پورے بارہ سال میں مکہ معظمہ پہنچے۔ آپ نے مختلف شہروں میں کئی شیوخ سے علمی استفادہ کیا، اور جملہ علوم میں کمال حاصل کیا۔

بیعت و خلافت:

آپ علیہ الرحمہ کی روحانی تربیت باطنی طور پر حضرت سیدنا امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ سے ہے۔

سلطان العارفین ،حضرت سیدنا بایزید بسطامی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :سردیوں کی ایک سخت رات میں میری والدہ نے مجھ سے پانی مانگا،میں آبخورہ(یعنی گلاس) بھرکرآیاتوانہیں نیندآگئی تھی،میں نے جگانا مناسب نہ سمجھا،پانی کا آبخورہ(یعنی گلاس)لئےاس انتظار میں ماں کے قریب کھڑا رہا کہ بیدار ہوں تو پانی پیش کروں ، کھڑے کھڑے کافی دیر ہوچکی تھی اور آبخورے سے کچھ پانی گر کر میری انگلی پر جم کر برف بن گیا تھا ۔بہر حال جب والدۂ محترمہ بیدار ہوئیں تو میں نے آبخورہ پیش کیا، برف کی وجہ سے چپکی ہوئی انگلی جوں ہی آبخورے(یعنی پانی کے گلاس)سے جدا ہوئی اس کی کھال اُدھڑ گئی اور خون بہنے لگا۔ماں نے دیکھ کر پوچھایہ کیا؟ میں نے سارا ماجرا(واقعہ)عرض کیا تو انہوں نے ہاتھ اٹھا کر دُعا کی:اے اللہمیں اس سے راضی ہوں تو بھی اس سے راضی رہنا۔ دنیا نے دیکھا کہ واقعی عظیم بیٹے کے حق میں ماں کی دعا قبول ہوئی اور اللہ پاک نے آپ علیہ الرحمہ کوولایت کے مرتبہ سے سرفراز فرمایا ۔

حضرت شیخ بایزید علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ میں ایک سفر میں خلوت سے لذت حاصل کر رہا تھا اور فکر میں مستغرق تھا اور ذکر سے انس حاصل کر رہا تھا کہ میرے دل میں ندا سنائی دی، اے بایزید دیر سمعان کی طرف چل اور عیسائیوں کے ساتھ ان کی عید اور قربانی میں حاضر ہو۔ اس میں ایک شاندار واقعہ ہوگا۔ میں نے اعوذ باللہ پڑھا اور کہا کہ پھر اس وسوسہ دوبارہ نہیں آنے دوں گا۔ جب رات ہوئی تو خواب میں ہاتف کی وہی آواز سنی۔ جب بیدار ہوا تو بدن میں لرزہ تھا۔ پھر سوچنے لگا کہ اس بارے میں فرمانبرداری کروں یا نہ تو پھر میرے باطن سے ندا آئی کہ ڈرو مت، تم ہمارے نزدیک اولیا ءاخیار میں سے ہو اور ابرار کے دفتر میں لکھے ہوئے ہو۔ راہبوں کا لباس پہن لو اور ہماری رضا کیلئے زنار باندھ لو۔ آپ پر کوئی گناہ یا انکار نہ ہوگا۔

حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ صبح سویرے میں نے عیسائیوں کا لباس پہنا، زنار کو باندھا اور دیر سمعان پہنچ گیا۔ وہ ان کی عید کا دن تھا۔ مختلف علاقوں کے راہب دیر سمعان کے بڑے راہب سے فیض حاصل کرنے اور ارشادات سننے کیلئے حاضر ہو رہے تھے۔ میں بھی راہب کے لباس میں ان کی مجلس میں جا بیٹھا۔ جب بڑا راہب آ کر منبر پر بیٹھا تو سب خاموش ہو گئے۔ بڑے راہب نے جب بولنے کا ارادہ کیا تو اس کا منبر لرزنے لگا اور کچھ بول نہ سکا گویا اس کا منہ کسی نے لگام سے بند کر رکھا ہے تو سب راہب اور علما کہنے لگے اے مرشدِ ربانی! کون سی چیز آپ کو گفتگو سے مانع ہے؟

 ہم آپ کے ارشادات سے ہدایت پاتے ہیں اور آپ کے علم کی قدر کرتے ہیں۔

 بڑے راہب نے کہا کہ میرے بولنے میں یہ امر مانع ہے کہ تم میں ایک محمدی شخص آ بیٹھا ہے۔ وہ تمہارے دین میں آزمائش کیلئے آیا ہے لیکن یہ اس کی زیادتی ہے۔

 سب نے کہا ہمیں وہ شخص دکھا دو ہم فوراً اس کو قتل کر ڈالیں گے۔

اس نے کہا بغیر دلیل اور حجت کے اس کو قتل نہ کرو، میں امتحاناً اس سے علم الادیان کے چند مسائل پوچھتا ہوں۔

 اگر اس نے سب کے صحیح جواب دئیے تو ہم اس کو چھوڑ دیں گے ورنہ قتل کر دیں گے کیونکہ امتحان میں مرد کی عزت ہوتی ہے یا رسوائی و ذلت۔ سب نے کہا آپ جس طرح چاہیں کریں۔ وہ بڑا راہب منبر پر کھڑا ہو کر پکارنے لگا۔

اے محمدی ! تجھے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قسم کھڑا ہو جا تاکہ سب لوگ تجھے دیکھ سکیں تو بایزید علیہ الرحمہ کھڑے ہو گئے۔

 اس وقت آپ علیہ الرحمہ کی زبان پر رب تعالیٰ کی تقدیس اور تمجید کے کلمات جاری تھے۔

اس بڑے پادری نے کہا اے محمدی! میں تجھ سے چند مسائل پوچھتا ہوں۔ اگر تو نے پوری وضاحت سے ان سب سوالوں کا جواب دیا تو ہم تیری اتباع کریں گے ورنہ تجھے قتل کر دیں گے۔

 حضرت بایزید نے فرمایا کہ تو معقول یا منقول جو چیز پوچھنا چاہتا ہے پوچھ، اللہ تمہارے اور ہمارے درمیان گواہ ہے۔

(1) مجھے اُس ایک کے متعلق بتاؤ جس کا دوسرا نہیں ؟

(2) ان دو کے متعلق بتاؤ جن کا تیسرا نہیں ؟

(3) ان تین کے متعلق بتاؤ جن کا چوتھا نہیں ؟

(4) ان چار کے متعلق بتاؤ جن کا پانچواں نہیں ؟

 (5) ان پانچ کے متعلق بتاؤ جن کا چھٹا نہیں ؟

(6) ان چھ کے متعلق بتاؤ جن کا ساتواں نہیں ؟

(7) ان سات کے متعلق بتاؤ جن کا آٹھواں نہیں ؟

(8) ان آٹھ کے متعلق بتاؤ جن کا نواں نہیں ؟

 (9) ان نو کے متعلق بتاؤ جن کادسواں نہیں ؟

 (10) مکمل دس دن سے مراد کون سے دن ہیں؟

(11) ان گیارہ کے متعلق بتاؤ جن کابارہواں نہیں ؟

 (12) ان بارہ کے متعلق بتاؤ جن کا تیرہواں نہیں ؟

(13) ان تیرہ کے متعلق بتاؤ جن کا چودہواں نہیں ؟

(14) ایسی قوم کے متعلق بتاؤ جنہوں نے جھوٹ بولا پھر بھی جنت میں داخل کر دیئے گئے ؟

 (15) اس قوم کے متعلق بتاؤ جنہوں نے سچ بولا مگر آگ میں داخل کر دیئے گئے ؟

(16) تمہارے جسم میں تمہارے نام کا ٹھکانہ کہاں ہے؟

(17) وَ الذّٰرِیٰتِ ذَرْوًا

(18) فَالْحٰمِلٰتِ وِقْرًا 

(19) فَالْجٰرِیٰتِ یُسْرًا اور

(20) فَالْمُقَسِّمٰتِ اَمْرًا (سورۃ الذاریت ۔ 4-1) سے کیا مراد ہے؟

(21) کون سی شے بغیر روح کے سانس لیتی ہے؟

(22) ان چودہ کے متعلق بتاؤ جنہوں نے ربّ العلمین جل جلالہٗ سے کلام کیا؟

(23) کون سی قبر صاحبِ قبر کو لے کر چلی؟

(24) وہ کون سا پانی ہے جو آسمان سے اترانہ زمین سے نکلا؟

(25) ان چار کے نام بتاؤ جو باپ کی پشت سے پیدا ہوئے نہ ماں کے بطن سے؟

(26) زمین پر سب سے پہلا خون کس کا بہایا گیا؟

(27) اس شے کے متعلق بتاؤ جسے اللہ عزوجل نے پیدا کیا اور پھر خود ہی خرید لیا؟

(28) ایسی شے کے متعلق بتاؤ جس کو اللہ عزوجل نے پیدا کیا اور خود ہی ناپسند فرمایا؟

(29) اس چیز کے متعلق بتاؤ جس کو اللہ عزو حل نے پیدا کیا اور عظمت بھی بخشی؟

(30) اس چیز کے متعلق بتاؤ جس کو اللہ عزو حل نے پیدا کیا اور پھر خود ہی اس کے متعلق سوال کیا؟

(31) سب سے افضل عورتیں کون ہیں؟

(32)سب سے افضل دریا کون سے ہیں؟

(33) افضل ترین پہاڑ کون سا ہے؟

(34) سب سے افضل چوپایہ کون سا ہے؟

(35) افضل ترین مہینہ کون سا ہے؟

(36) سب سے افضل رات کون سی ہے؟

(37) العامۃ سے کیا مراد ہے؟

(38) وہ کون سا درخت ہے جس کی بارہ شاخیں ہیں، ہر شاخ پر تیس پتے ہیں اور ہر پتے میں پانچ رنگ ہیں، دو سورج کی روشنی میں اور تین سائے میں؟

(39) وہ کون سی چیز ہے جس نے بیت الحرام کا حج کیا اور طواف کیا حالانکہ اس میں روح نہیں اور نہ ہی اس پر حج فرض تھا؟

(40) اللہ عزوجل نے کتنے نبی پیدا فرمائے؟

(41) ان میں سے کتنے مرُسل اور کتنے غیر مرسل ہیں؟

(42) وہ کون سی چار چیزیں ہیں جن کا رنگ اور ذائقہ مختلف ہے مگر اصل ایک ہے؟

(43) نَقِیْر کیا ہے؟

(44) قِطْمِیر کیا ہے؟

(45) قبیل کیا ہے؟

(46) السَّبَد کیا ہے؟

(47) اللَّبَد کیا ہے؟

(48) الظلم کیا ہے؟

(49) اکرم کیا ہے؟

(50) کتا بھونکنے میں کیا کہتا ہے؟

(51) گدھا رینکنے میں کیا کہتا ہے؟

(52) بیل ڈکرانے میں کیا کہتا ہے؟

(53) گھوڑا ہنہنانے میں کیا کہتا ہے؟

(54) اونٹ بلبلانے میں کیا کہتا ہے؟

(55) مور اپنی چیخ و پکار میں کیا کہتا ہے؟

(56) تیتر اپنی سیٹی میں کیا کہتا ہے؟

(57) بلبل اپنے نغموں میں کیا کہتا ہے؟

(58) مینڈک اپنی تسبیح میں کیا کہتا ہے؟

(59) ناقوس (نصاریٰ کا گھنٹہ ہے جسے وہ اپنی عبادت کے وقت بجاتے ہیں) اپنی آواز میں کیا کہتا ہے؟

(60) ایسی مخلوق کے متعلق بتاؤ جنہیں اللہ عزو جل نے الہام فرمایا وہ جنوں میں سے ہے، نہ انسانوں میں سے اور نہ ہی فرشتوں میں سے؟

(61) جب دن نکلتا ہے تو رات کہاں چلی جاتی ہے؟

(62) اورجب رات چھا جاتی ہے تودن کہاں چلا جاتا ہے؟

سلطان العارفین حضرت سید نا ابو یزید بسطامی علیہ الرحمہ نے پوچھا’’کیا ان کے علاوہ بھی کوئی سوال ہے؟‘‘

 تو سب پادریوں نے کہا: نہیں۔

آپ علیہ الرحمہ نے ارشاد فرمایا ’’اگر میں نے ان کے جوابات صحیح طور پر دے دیئے تو کیا تم اللہ عزو جل اوراس کے پیارے رسول حضرت محمد ﷺ پر ایمان لے آؤ گے؟‘‘

سب نے کہا: جی ہاں۔ آپ علیہ الرحمہ نے بارگاہِ الٰہی میں عرض کی’’ یا اللہ عزو جل! تو ان کی باتوں پر گواہ ہے۔‘‘ پھر فرمایا ’’اب اپنے سوالات کے جوابات سنتے جاؤ‘‘:

(1)وہ ایک جس کا دوسرا نہیں تو وہ اللہ واحد قہار ہے۔

(2)وہ دو جن کا تیسرا نہیں تو وہ دن اور رات ہیں جیسا کہ اللہ عزو جل کا فرمانِ عالیشان ہےوَجَعَلْنَا الَّیْلَ وَالنَّہَارَ اٰیَتَیْنِ (سورۃ بنی اسرائیل ۔12) ترجمہ : اور ہم نے رات اور دن کو(اپنی قدرت کی) دو نشانیاں بنایا۔

(3) وہ تین جن کا چوتھا نہیں تو وہ عرش، کرسی اور قلم ہیں۔

(4) وہ چار جن کا پانچواں نہیں تو وہ آسمانی کتابیں تورات، انجیل، زبور اور قرآنِ پاک ہیں۔

(5) وہ پانچ جن کا چھٹا نہیں تو وہ پانچ نمازیں ہیں جو ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہیں۔

(6) وہ چھ جن کا ساتواں نہیں تو وہ چھ دن ہیں۔ اللہ عز و جل ان کا ذکر قرآن پاک میں فرماتا ہےوَلَقَدْ خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَا فِیْ سِتَّۃِ أَیَّامٍ (سورۃ ق۔ 38) ترجمہ: ا ور بے شک ہم نے آسمانوں اور زمین کواور جو کچھ ان کے درمیان ہے چھ دن میں بنایا۔

(7) وہ سات جن کا آٹھواں نہیں تو وہ سات آسمان ہیں۔ چنانچہ اللہ عزوجل کا فرمانِ عالیشان ہےسَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا (سو رۃ الملک۔3) ترجمہ: سات آسمان ایک کے اوپر دوسرا۔

(8) وہ آٹھ جن کا نواں نہیں تو وہ عرش اٹھانے والے آٹھ فرشتے ہیں۔ جیسا کہ قرآن پاک میں ہے: وَیَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّکَ فَوْقَہُمْ یَوْمَئِذٍ ثَمٰنِیَۃٌ (سورۃ الحاقہ۔ 17) ترجمہ: اور اس دن تمہارے ربّ کا عرش اپنے اوپر آٹھ فرشتے اٹھائیں گے۔

(9) وہ نوجن کا دسواں نہیں تو وہ نو افراد کی جماعت تھی جو فساد برپا کرنے والے تھے۔ چنانچہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: وَکَانَ فِی الْمَدِیْنَۃِ تِسْعَۃُ رَھْطٍ یُّفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ وَلَا یُصْلِحُونَ (سورۃ النمل۔48) ترجمہ: اور (قومِ ثمود کے) شہر میں نو شخص تھے کہ زمین میں فساد کرتے اوراصلاح نہیں کرتے تھے۔

(10) مکمل دس دن سے مراد وہ دس دن ہیں جن میں حجِ تمتع کرنے والا ہدی کا جانور نہ پانے کی صورت میں روزے رکھتا ہے۔ چنانچہ ربّ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: فَصِیَامُ ثَلٰثَۃِ أَیَّامٍ فِی الْحَجِّ وَسَبْعَۃٍ إِذَا رَجَعْتُمْ ط تِلْکَ عَشَرَۃٌ کَامِلَۃٌ (سورۃ البقرہ۔ 196) ترجمہ: تو تین روزے حج کے دنوں میں رکھے اور سات جب اپنے گھر پلٹ کر جاؤ یہ پورے دس ہوئے۔

(11) وہ گیارہ جن کا بارہواں نہیں تو وہ حضرت سید نا یوسف علیہ السلام کے بھائی ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ حضرت یوسف علیہ السلام کا قول حکایت کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: إِنِّیْ رَأَیْتُ أَحَدَ عَشَرَ کَوْکَبًا (سورۃ یوسف۔4) ترجمہ: میں نے (خواب میں) گیارہ ستارے دیکھے۔

(12) وہ بارہ جن کا تیرہواں نہیں تو وہ مہینوں کی تعداد ہے۔ چنانچہ ربّ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: إِنَّ عِدَّۃَ الشُّہُوْرِ عِنْدَ اللّٰہِ اثْنَا عَشَرَ شَہْرًا فِیْ کِتٰبِ اللّٰہِ )سورۃ التوبۃ۔36) ترجمہ: بے شک مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک بارہ مہینے ہے اللہ کی کتاب میں ۔

(13) وہ تیرہ جن کا چودہواں نہیں تو وہ حضرت سید نا یوسف علیہ السلام کا خواب ہے۔ جیسا کہ ربّ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: إِنِّیْ رَأَیْتُ أَحَدَ عَشَرَ کَوْکَبًا وَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَأَیْتُہُمْ لِیْ سَاجِدِیْنَ (سورۃ یوسف۔4) ترجمہ: میں نے (خواب میں) گیارہ ستارے اور سورج اور چاند دیکھے انہیں اپنے لئے سجدہ کرتے دیکھا۔

(14) وہ قوم جنہوں نے جھوٹ بولا پھر بھی جنت میں داخل کر دیئے گئے تو وہ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی ہیں۔ جیسا کہ ربّ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: قَالُوْا یٰٓاَبَانَآ إِنَّا ذَھَبْنَا نَسْتَبِقُ وَتَرَکْنَا یُوْسُفَ عِنْدَ مَتَاعِنَا فَأَکَلَہُ الذِّئْبُ (سورۃیوسف۔17) ترجمہ: بولے اے ہمارے باپ! ہم لوگ دوڑ میں مقابلہ کرنے چلے گئے اور ہم نے یوسف کو اپنے اسباب کے پاس چھوڑا تو اسے بھیڑیا کھا گیا۔‘‘ انہوں نے جھوٹ بولا پھر بھی جنت میں داخل کر دیئے گئے۔

(15) وہ قوم جنہوں نے سچ بولا لیکن جہنم میں داخل کر دیئے گئے تو وہ یہود و نصاری ہیں۔ اور وہ ان کا یہ قول ہے: وَقَالَتِ الْیَھُوْدُ لَیْسَتِ النَّصٰرٰی عَلٰی شَیْئٍ ص وَّقَالَتِ النَّصٰرٰی لَیْسَتِ الْیَھُوْدُ عَلٰی شَیْئٍ (سورۃ البقرۃ۔113) ترجمہ: اور یہودی بولے نصرانی کچھ نہیں اور نصرانی بولے یہودی کچھ نہیں۔ انہوں نے سچ کہا لیکن جہنم میں داخل کر دیئے گئے۔

 (16) تمہارے جسم میں تمہارے نام کا ٹھکانہ کان ہیں (یعنی جب کوئی نام بولا جاتا ہے تو کان ہی سنتے ہیں) ۔

(17) وَالذّٰرِیٰتِ ذَرْوًا (یعنی اُڑاکر بکھیردینے والی ہواؤں کی قسم) سے مراد چار ہوائیں ہیں۔

(18) فَالْحٰمِلٰتِ وِقْرًا (یعنی بارِ گراں اٹھانے والی بدلیوں کی قسم) سے مراد بادل ہیں۔ جیسا کہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَیْنَ السَّمَآئِ وَالْأَرْضِ (سورۃ البقرۃ۔ 164) ترجمہ: اور وہ بادل کہ آسمان وزمین کے بیچ میں حکم کا پابندہے۔

(19) فَالْجٰرِیٰتِ یُسْرًا (یعنی نرم چلنے والیاں) سے مراد دریا میں چلنے والی کشتیاں ہیں۔

(20) فَالْمُقَسِّمٰتِ اَمْرًا (پھر کام کو تقسیم کرنے والے) سے مراد ملائکہ ہیں جو لوگوں کا رزق پندرہ شعبان سے دوسرے سال پندرہ شعبان تک تقسیم کرتے ہیں۔

(21) جن چودہ نے ربّ العلمین سے کلام کیا تو وہ سات آسمان اور سات زمینیں ہیں۔ چنانچہ ربّ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہےفَقَالَ لَھَا وَلِلْأَرْضِ ائْتِیَا طَوْعًا أَوْ کَرْھًا قَالَتَآ أَتَیْنَا طَآئِعِیْنَ (سورۃ حم السجدہ۔11) ترجمہ: تو اس (آسمان) سے اور زمین سے فرمایا کہ دونوں حاضر ہو خوشی سے چاہے ناخوشی سے، دونوں نے عرض کی کہ ہم رغبت کے ساتھ حاضر ہوئے۔

 (22) وہ قبر جو صاحبِ قبر کو ساتھ لے کر چلی تو وہ حضرت یونس علیہ السلام کی مچھلی ہے۔

(23) جو چیز بلا روح ہے مگر سانس لیتی ہے تو وہ صبح ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: وَالصُّبْحِ إِذَا تَنَفَّسَ (سورۃا لتکویر۔18) ترجمہ: اور صبح کی قسم جب دم لے۔

 (24) وہ پانی جو آسمان سے اُترا نہ زمین سے نکلا تو وہ گھوڑوں کا پسینہ ہے جس کو شیشے کی بوتل میں بھر کر ملکہ بلقیس نے حضرت سلیمان بن داؤد علیہ السلام کو بھیجا تھا۔

(25) وہ چار نفوس جو باپ کی پشت سے پیدا ہوئے نہ ماں کے بطن سے تو وہ حضرت آدم علیہ السلام، حضرت حواؑ، حضرت اسماعیل علیہ السلام کا مینڈھا اور حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی ہیں۔

(26) زمین پر سب سے پہلا خون ہابیل کا بہایا گیا جب قابیل نے اسے قتل کیا۔

(27) ایسی چیز جس کو اللہ عزو جل نے پیدا کیا پھر خرید لیا تو وہ مومن کی جان ہے۔ جیسا کہ وہ خودارشاد فرماتا ہے: اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ أَنْفُسَہُمْ وَأَمْوَالَہُمْ بِأَنَّ لَہُمُ الْجَنَّۃَط (سورۃالتوبۃ۔111) ترجمہ: بے شک اللہ نے اہلِ ایمان سے ان کے مال اور جان خرید لئے ہیں اس بدلے پر کہ ان کے لئے جنت ہے۔

(28) ایسی شے جسے اللہ عزو جل نے پیدا کیا اور نا پسند کیا تو وہ گدھے کی آواز ہے۔ جیسا کہ وہ خود ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ اَنْکَرَ الْأَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِیْرِ (سورۃ لقمان۔19) ترجمہ: بے شک سب آوازوں میں بری گدھے کی آوازہے۔

 (29) ایسی چیز جسے اللہ عزو جل نے پیدا کیا اور اسے بڑا کہا تو وہ عورتوں کا مکر ہے۔ چنانچہ ارشاد فرمایاإِنَّ کَیْدَکُنَّ عَظِیمٌ (سورۃ یوسف۔28) ترجمہ: بے شک تم عورتوں کافریب بڑا (خطرناک) ہوتا ہے۔

(30) وہ چیز جسے اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا پھر اس کے متعلق سوال کیا تو وہ حضرت سید ناموسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام کا عصا ہے۔ جیسا کہ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہےوَمَا تِلْکَ بِیَمِیْنِکَ یٰمُوْسٰی ۔ قَالَ ہِیَ عَصَایَ ج اَتَوَکَّؤُا عَلَیْہَا وَ اَہُشُّ بِہَا عَلٰی غَنَمِیْ (سورۃ طٰہٰ۔18-17) ترجمہ: اور یہ تیرے داہنے ہاتھ میں کیا ہے اے موسیٰ! انہوں نے کہا: یہ میرا اعصا ہے، میں اس پر تکیہ لگاتا ہوں اور اس سے اپنی بکریوں کے لیے پتے جھاڑتا ہوں۔

(31) سب سے افضل عورتیں اُمّ البشر حضرت اماں حواعلیہا السلام، حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا، حضرت آسیہ علیہا السلام اور حضرت مریم بنتِ عمران علیہا السلام ہیں۔

(32) سب سے افضل دریا سیون پیچون، دجلہ، فرات اور مصر کا دریائے نیل ہیں۔

(33) سب سے افضل پہاڑ طور ہے۔

(34) سب سے افضل چوپایہ گھوڑا ہے۔

(35) سب سے افضل مہینہ رمضان المبارک ہے جیسا کہ اللہ عزو جل ارشاد فرماتا ہے: شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ (سورۃالبقرۃ۔185) ترجمہ: رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اترا۔

 (36) سب سے افضل رات شبِ قدر ہے چنانچہ اللہ عزو جل ارشاد فرماتا ہے: لَیْلَۃُ الْقَدْرِ ۵لا خَیْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَہْرٍ (سورۃ القدر ۔3) ترجمہ: شبِ قدر ہزار مہینوں سے بہترہے۔

 (37)’’الطامۃ‘‘سے مراد قیامت ہے۔

(38) وہ درخت جس کی بارہ (12) شاخیں ہیں، ہر شاخ میں تیس (30) پتے، ہر پتے میں پانچ رنگ، دو سورج کی روشنی میں اور تین سائے میں، تو وہ درخت سال ہے، بارہ مہینے اس کی بارہ شاخیں ہیں، تیس پتے تیس دن ہیں اور پانچ رنگ پانچ نمازیں ہیں، تین سائے میں یعنی مغرب، عشاء اور فجر، دو روشنی میں یعنی ظہر اور عصر۔

(39) ایسی چیز جس میں روح نہیں اور نہ ہی اس پر حج واجب تھا پھر بھی اس نے کعبہ مبارکہ کا طواف کیا تو وہ حضرت سیدّنانوح علیہ السلام کی کشتی ہے۔

 (40) اللہ تعالیٰ نے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار (124,000) انبیا پیدا فرمائے۔

(41) ان میں سے تین سو تیرہ (313) رسول ہیں۔

 (42) چار اشیا جن کا ذائقہ اور رنگ مختلف ہے مگر اصل ایک ہے تو وہ آنکھ، ناک، منہ اور کان ہے۔ آنکھ کا پانی نمکین، منہ کا پانی میٹھا، ناک کا پانی ترش اور کان کا پانی کڑوا ہوتا ہے۔

(43) نقیر ایک جھلی ہے جو گٹھلی کے اوپر ہوتی ہے۔

(44) قِطْمِیْر انڈے کے چھلکے کو کہتے ہیں۔

(45) قبیل سے مراد گٹھلی کے اندر کاگودا ہے۔

(46) السَّبَد اور

 (47) اَللَّبد بھیڑ اور بکری کے بالوں کو کہتے ہیں۔

(48) القلم اور

(49) الکریم ہمارے باپ حضرت سیدنا آدم صفی اللہ علیٰ نبینا وعلیہ السلام سے پہلے کی جنات قومیں ہیں

(50) گدھا جب شیطان کو دیکھتا ہے تو کہتا ہے: اللہ عزوجل نا جائزٹیکس لینے والے پر لعنت فرمائے۔

(51) کتا اپنے بھونکنے میں کہتا ہے، وَیْلٌ لَاَہْلِ النَّارِ مِنْ غَضَبِ الْجَبَّارِ یعنی دوزخیوں کے لئے ہلاکت ہے کہ اللہ کے غضب میں ہیں۔

(52) بیل اپنے ڈکرانے میں کہتا ہے: سُبْحٰنَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ 

(53) گھوڑا اپنے ہنہنانے میں کہتا ہے ’’پاک ہے میری حفاظت فرمانے والا جب جنگجو لڑتے ہیں اور مردانِ کارلڑائی میں مصروف ہوتے ہیں۔‘‘

(54) اونٹ اپنے بلبلانے میں کہتا ہے: حَسْبِیَ اللّٰہُ وَکَفٰی بِہٖ وَکِیْلًا یعنی میرے لئے اللہ عزو جل ہی کافی اور وہی میرا کار ساز ہے۔

(55) مور اپنی چیخ و پکار میں کہتا ہے: اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی (سورۃ طٰہٰ۔5) ترجمہ: وہ بڑی رحمت والا اس نے عرش پر استویٰ فرمایا جیسا اس کی شان کے لائق ہے۔

(56) تیتر اپنی سیٹی میں کہتا ہے بِالشُّکُرِ تَدُوْمُ النِّعَمُ تَعَالٰی یعنی اللہ عزوجل کا شکر ادا کرنے سے نعمتیں ہمیشہ رہتی ہیں۔
(57)
 بلبل اپنے نغموں میں یوں گویا ہوتا ہے فَسُبْحٰنَ اللّٰہِ حِیْنَ تُمْسُوْنَ وَحِیْنَ تُصْبِحُوْنَ (سورۃ الروم۔ 17) ترجمہ: تو اللہ کی پاکی بولو جب تم شام کرو اور جب تم صبح کرو۔

(58) مینڈک اپنی تسبیح میں کہتا ہےسُبْحَانَ الْمَعْبُوْدِ فِی الْبَرَارِی وَالْقِفَارِ سُبْحَانَ الْمَلِکِ الْجَبَّارِ یعنی پاک ہے جنگلوں اور چٹیل میدانوں میں عظیم معبود، پاک ہے خدائے جبار۔

(59) ناقوس اپنی آواز میں کہتا ہے: اللہ عزو جل پاک ہے، وہ حق ہے، اے ابن ِآدم! اس دنیا کے مشرق و مغرب میں دیکھ! کسی کو ہمیشہ باقی رہنے والا نہ پائے گا۔

(60) ایسی مخلوق جسے اللہ عز و جل نے الہام فرمایا، وہ جنوں میں سے ہے نہ انسانوں میں سے اور نہ ہی ملائکہ میں سے تو وہ شہد کی مکھی ہے۔ چنانچہ اللہ عزو جل ارشاد فرماتا ہےوَاَوْحٰی رَبُّکَ اِلَی النَّحْلِ اَنِ اتَّخِذِیْ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتًا وَّمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا یَعْرِشُوْنَ (سورۃالنحل آیت 68) ترجمہ: اور تمہارے ربّ نے شہد کی مکھی کو الہام کیا کہ پہاڑوں میں گھر بنا اور درختوں اور چھتوں میں۔

 (61) جب دن آتا ہے تو رات کہاں جاتی ہے؟

(62) جب رات چھا جاتی ہے تو دن کہاں چلا جاتا ہے؟ یہ تو اللہ عزو جل کے پوشیدہ علم میں ہے، کسی نبی یا مقرب فرشتے پر بھی ظاہر نہیں۔

مذکورہ تمام جوابات دینے کے بعد حضرت سیدّنا ابو یزید بسطامی نے پوچھا ’’کیا تمہارا کوئی سوال باقی ہے؟‘‘ انہوں نے کہا ’’نہیں۔‘‘

 تو آپ علیہ الرحمہ نے بڑے پادری سے فرمایا’’ بتاؤ آسمانوں اور جنت کی چابی کیا ہے؟‘‘ 

ان کا بڑا پادری خاموش رہا تو سب نے اسے کہا: آپ نے اتنے سوالات پوچھے اور انہوں نے سب کے جوابات دیئے، اب انہوں نے ایک ہی سوال کیا اور آپ جواب دینے سے عاجز آگئے۔

 پادری نے کہا’’میں عاجز نہیں آیا لیکن مجھے ڈر ہے کہ میں جواب دوں گا تو تم تسلیم نہیں کرو گے۔‘‘ 

انہوں نے کہا’’ کیوں نہیں، ہم مانیں گے، کیونکہ آپ ہمارے بزرگ ہیں، آپ جو بھی فرمائیں گے ہم سر تسلیم خم کریں گے۔‘‘ 

تو بڑے پادری نے کہا ’’آسمانوں اور جنت کی چابی کلمہ طیب لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ ﷺ ‘‘ ہے۔ جب دیگر پادریوں اور راہبوں نے سنا تو وہ سب کے سب مسلمان ہو گئے۔ انہوں نے گرجا گھر توڑ کر اسے مسجد میں تبدیل کر دیا ور اپنے اپنے زنار بھی توڑ دیئے۔ حضرت سیدنا ابویزید بسطامی علیہ الرحمہ کو غیب سے آواز آئی ’’اے ابو یزید! تو نے ہمارے لئے ایک زنار باندھا تو ہم نے تیری خاطر پانچ سوز نارتو ڑ دیئے۔‘‘ 

حضرت سیدنا بایزیدبسطامی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ ایک شب فلک اول کے ملائکہ جمع ہو کر میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ ہم آپ علیہ الرحمہ کے ہمراہ عبادت کرنا چاہتے ہیں؟

 میں نے اُن سے کہا کہ میری زبان میں طاقت نہیں جس سے میں ذکرِ الہی کر سکوں لیکن اس کے باوجود رفتہ رفتہ ساتوں آسمان کے ملائکہ میرے پاس جمع ہوگئے۔اور سب سے وہی خواہش ظاہر کی جو فلک اول کے فرشتوں نے کی تھی۔اور میں نے سب کو پہلے ہی جیسا جواب دیا۔ اور جب پوچھا کہ ذکرِ الہی کی طاقت آپ میں کب تک پیدا ہو گی تو میں نے کہا کہ قیامت میں جب سزا و جزا ختم ہو جائیں گے اور طواف عرش کرتا ہوا اللہ اللہ کہہ رہا ہوں گا۔

ایک دفعہ آپ حج کے لیے روانہ ہوئے اور بارہ سال میں کعبہ میں پہنچے۔ راستے میں چند قدم چلتے اور جائے نماز بچھا کر دو رکعت نماز پڑھتے، فرما تے کہ یہ دنیا کے بادشاہوں کا دربار نہیں کہ یکبارگی وہاں پہنچ سکیں۔ اس دفعہ آپ حج سے فارغ ہوکر واپس آگئے اور مدینہ منورہ میں حاضر نہ ہوئے۔ فرمایا کہ زیارتِ روضہ منورہ کو حج کے تابع بنانا خلاف ادب ہے۔ اس لیے آیندہ سال آپ نے روضہ منورہ کی زیارت کے لیے علیحدہ احرام باندھا۔شیخ ابوسعید ابوالخیر علیہ الرحمہ آپ کی زیارت کیلئے آئے تو فرمانے لگے: یہ وہ جگہ ہے کہ دنیا میں جس شخص کی کوئی چیز گم ہوئی ہو وہ یہاں ڈھونڈے۔

ریاضت و مجاہدہ:

 آپ علیہ الرحمہ بسطام سے نکلے اور تیس سال تک بادیۂ شام میں ریاضت و مجاہدہ کرتے رہے۔ کسی نے آپ علیہ الرحمہ سے دریافت کیا کہ سخت سے سخت مجاہدہ کون سا ہے؟

جو آپ علیہ الرحمہ نے راہِ خدا میں کیا ہے، فرمایا کہ اس کا بیان ممکن نہیں، اس نے عرض کیا کہ آسان سے آسان تکلیف تو بتا دیجیے جو آپ علیہ الرحمہ کے نفس نے اٹھائی ہے، فرمایا ہاں یہ تو سن لو، ایک دفعہ میں نے اپنے نفس کو کسی طاعت کی طرف بلایا اس نے میرا کہا نہ مانا، اس پر میں نے اسے ایک سال پیاسا رکھا۔(اسی طرح حضرت غوث الاعظم و خواجہ غریب نواز و دیگر مشائخ علیہم الرحمہ طویل مشقتیں اور مجاہدے فرمایا کرتے تھے)۔اس کے با وجود وہ ولایت کے دعوے نہیں کرتے تھے، اللہ تعالیٰ کے فضل سے سارے زمانے میں ان کی ولایت کی دھوم مچی ہوئی ہے۔ لیکن فی زمانہ حالات اس کے برعکس ہیں۔ مجاہدے تو دور احکامِ اسلام اور شرعِ محمدی ﷺ کی پاسداری بھی نہیں ہے۔ اگر القاب کی طرف نظر کریں !تو غوث اور قطب کے مرتبے سے کم کسی مرتبے پر راضی نہیں ہیں۔

حضرت بایزید بسطامی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:ترجمہ: اگر تم کسی شخص میں کرامات دیکھو یہاں تک کہ وہ ہوا میں اڑتا ہو۔ تو اس سے دھوکہ مت کھاؤ ۔ جب تک یہ نہ دیکھ لو کہ وہ امر و نہی۔ حفظ ِحدود اور آداب ِ شریعت میں کیسا ہے۔

ایک مرتبہ آپ علیہ الرحمہ کی بستی میں ایک بدکار طوائف آگئی۔ وہ بستی کے جوانوں کو غلط راہ پر ڈالنے لگی ۔حضرت بایزید بسطامی علیہ الرحمہ تک خبر پہنچی تو اپنا جائے نماز اٹھا کر اس بدکار خاتون کے دروازے کے سامنے بچھا دیا اور عبادت میں مصروف ہوگئے۔سارا دن گذر گیا۔ شام ہوگئی ۔ شہر کے لوگ بدکارخاتون کے دروازے پر آتے اور وہاں حضرت بایزید بسطامی علیہ الرحمہ کو عبادت کرتا دیکھ کر شرم سے واپس چلے جاتے۔ جب شام ڈھل گئی اور خاتون حیران ہوئی کہ آج کوئی گاہک نہیں آیا تو اس نے دروازہ کھولا۔ باہر حضرت بایزید بسطامی علیہ الرحمہ بیٹھے تھے۔ خاتون نے غصے سے کہا کہ بابا میرا دھندہ خراب کررہے ہو۔ جاؤ اپنا کام کرو۔
حضرت بایزید بسطامی علیہ الرحمہ نے پوچھا کہ تیرا کیا دھندہ ہے ؟

 عورت بولی گاہک مجھے قیمت دیتا ہے ۔ پھر اسکی جو مرضی ہو میں وہ کرتی ہوں ۔

حضرت بایزید بسطامی علیہ الرحمہ نے تصدیقی انداز میں پوچھا " کیا میں بھی تمہیں قیمت دے دوں تو جو میں کہوں گا وہ کرو گی ؟

 عورت نے ہاں کر دی۔

آپ علیہ الرحمہ  نے قیمت پوچھی، قیمت ادا کی اور مصلے اٹھا کر خاتون کے گھر میں چلے گئے۔

بولے " چلو ۔ اب غسل کرکے پاک صاف کپڑے پہن کر آؤ " عورت نے حکم کی تعمیل کی۔

آپ علیہ الرحمہ  نے مصلیٰ بچھایا اور فرمایا ۔ اب اللہ کے حضور عبادت کے لیے کھڑی ہوجاؤ۔

جب خاتون کھڑی ہوگئی ۔ تو آپ علیہ الرحمہ نے سجدے میں گرکر اللہ سے عرض کی۔ "اللہ کریم۔ اسے یہاں تک لانا میرا کام تھا۔ اب اس کا دل بدلنا تیرا کام ہے" .

آپ علیہ الرحمہ کی سوانح میں درج ہے کہ وہ عورت توبہ کے بعد اپنے دور کی انتہائی نیک و پارسا خاتون بن گئی۔

حضرت داتا گنج بخش نے ”کشف المحجوب“ میں ذکر کیا ہے کہ حضرت بایزید بسطامی علیہ الرحمہ جب سفر حجاز سے واپس تشریف لائے تو ان کے آنے کی منادی کی گئی۔ لوگوں میں مشہور ہوا کہ حضرت بایزید بسطامی علیہ الرحمہ تشریف لائے ہیں۔ شہر کے لوگ جمع ہوئے اور آپ کے استقبال کیلئے شہر سے باہر آئے تاکہ اعزاز و اکرام کے ساتھ شہر میں لائیں۔

حضرت بایزید لوگوں کی آمدورفت کو دیکھ کر جب ان کی طرف مشغول ہوگئے تو محسوس فرمایا کہ اب ان کا دل بھی تقرب الٰہی سے دور ہو رہا ہے تو پریشان ہوگئے لوگوں کو اپنے سے دور کرنے کیلئے آپ نے یہ حیلہ کیا کہ جب وسط شہر میں تشریف لائے تو روٹی کا ایک ٹکڑا نکال کر سرعام چبانا شروع کر دیا۔

 ماہ رمضان میں آپ کے اس عمل پر عوام میں منافرت پیدا ہوگئی اور لوگ حضرت بایزید کو تنہا چھوڑ کر چل دئیے۔ کیونکہ یہ واقعہ رمضان شریف میں ہوا تھا اس لئے لوگوں نے آپ کے سر عام کھانے کے عمل پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا۔

حضرت بایزید بسطامی علیہ الرحمہ کے ہمراہ ایک مرید تھا۔ آپ نے اس مرید سے فرمایا ”دیکھا تونے شریعت مطہرہ کے ایک مسئلہ پر میں نے عمل کیا تو لوگوں نے مجھے چھوڑ دیا۔ آپ کا اشارہ مسئلہ شرعی کی طرف تھا کہ مسافر اگر بحالت مسافرت روزہ نہ رکھے تو اس پر گناہ نہیں۔ وہ اس روزے کی قضا دوسرے ایام میں کر سکتا ہے۔

حضرت داتا گنج بخش  علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ ایسی حالت میں حصول ملامت کیلئے ایک برا فعل بہتر تھا۔ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی دو رکعت نفل لمبے کر کے پڑھے یا اپنے دین کو مضبوطی سے تھام لے توآج کل کی عوام اس کے متعلق ریاکاری یا منافقت کا فتویٰ دے دیتی ہے۔

 داتا گنج بخش علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی خلاف شریعت عمل کرے اور خود کو ملامتی ظاہر کرے تو یہ سراسر گمراہی‘ آفت اور ہوس کاذب ہے۔ اس وضاحت کے بعد حضرت داتا گنج بخش نے ریاکار ملامتی فرقہ کے متعلق کافی طویل بیان لکھا ہے۔ حضرت بایزید بسطامی علیہ الرحمہ اسی طرح اپنے نفس کا علاج کیا کرتے تھے اور اس کیلئے کبھی نفس پر عتاب فرماتے اور کبھی تکبر کے احساس کا تدارک کرتے۔

مولانا عطار ”تذکرة الاولیاء“ میں لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ جب آپ کو شہر بسطام سے نکال دیا گیا تو آپ نے وجہ دریافت کی۔ لوگوں نے جواب دیا کہ تم اچھے آدمی نہیں اس لئے تم کو شہر سے نکالا گیا۔ آپ نے فرمایا کہ کتنا اچھا ہے وہ شہر جس کا برا آدمی میں ہوں۔

سید الطائفہ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : بایزید ہماری جماعت (جماعت صوفیاء) میں ایسے ہیں جیسے حضرت جبرائیل علیہ السلام فرشتوں میں، دیگر سالکین کے مقام کی نہایت بایزید کے مقام کی بدایت ہے۔ 

امام مناوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ "بایزید بسطامی علیہ الرحمہ عارفین کے اماموں کے بھی امام تھے اور محققین صوفیہ کرام کے مشائخ کے شیخ تھے۔ آپ انہیں سلطان العارفین کہا کرتے تھے اور ابن عربی انھیں ابو یزید اکبر کہا کرتے تھے اور انہوں نے ذکر کیا کہ آپ اپنے زمانہ کے قطب تھے"۔شیخ ابو سعید علیہ الرحمہ کا قول ہے کہ "میں پورے عالم کو آپ کے اوصاف پر دیکھتا ہوں لیکن اس کے باوجود بھی آپ کے مراتب کو کوئی نہیں جانتا"۔

جب آپ  علیہ الرحمہ نماز پڑھتے تو اللہ کی ہیبت اور شریعت کی تعلیم کی وجہ سے، ان کے سینے سے آواز نکلتی تھی جس کو لوگ سن لیتے تھے۔ بایزید نے موت کے وقت فرمایا؛الہی ما ذکرتک الا عن غفلۃ؛ وما خدمتک الا عن فترۃ خدایا میں نے آپ کو یاد نہ کیا سوائے غفلت کے اور میں نے تیری خدمت نہیں کی سوائے نقصان کے۔

وصال پر ملال :

 آپ علیہ الرحمہ  نے 15شعبان 261ہجری  بمطابق 874عیسوی میں انتقال فرمایا۔