حضرت خواجہ شیخ علم الدین چشتی علیہ الرحمہ


 

آپ کا اسم گرامی:  علم الدین

والد محترم کا اسم گرامی :حضرت خواجہ شیخ سراج الدین چشتی علیہ الرحمہ ہے۔

والدہ ماجدہ کا اسم گرامی: حضرت  بی بی صفیہ علیہا الرحمہ  ہے۔

اجازت و خلافت : آپ علیہ الرحمہ کو  اپنے والد محترم سے  اجازت و خلافت  حاصل تھی۔

شجرہ نسب:  آپ علیہ الرحمہ کا شجرہ نسب کئی پشتوں سے ہوتا ہوا حضرت سیدنا امیر عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ سے جا ملتا ہے۔

آپ کا شجرہ نسب یوں ہے: حضرت خواجہ شیخ علم الدین فاروقی علیہ الرحمہ بنحضرت خواجہ شیخ سراج الدین فاروقی علیہ الرحمہ بن حضرت خواجہ شیخ کمال الدین فاروقی علیہ الرحمہ بن حضرت خواجہ شیخ محمد فاروقی علیہ الرحمہ بن حضرت خواجہ شیخ محمود بہ معروف شیخ ابراہیم فاروقی علیہ الرحمہ بن حضرت خواجہ شیخ عبدالرشید بہ معروف شیخ رشید الدین فاروقی علیہ الرحمہ  بن حضرت خواجہ شیخ یعقوب فاروقی علیہ الرحمہ (حضرت بابا فریدالدین مسعود گنج شکر علیہ الرحمہ کے چچا ) بن حضرت خواجہ شیخ سراج الدین بہ معروف قاضی شعیب فاروقی علیہ الرحمہ (حضرت بابا فریدالدین مسعود گنج شکر علیہ الرحمہ کے دادا حضور)بن حضرت خواجہ شیخ محمد احمد فاروقی علیہ الرحمہ بن حضرت خواجہ شیخ محمد یوسف فاروقی علیہ الرحمہ بن حضرت خواجہ شیخ شہاب الدین احمد فرخ شاہ کابلی فاروقی علیہ الرحمہ بن حضرت خواجہ شیخ نصیر الدین محمود فاروقی علیہ الرحمہ بن حضرت خواجہ شیخ سلیمان فاروقی علیہ الرحمہ بن حضرت خواجہ شیخ مسعود فاروقی علیہ الرحمہ بن حضرت خواجہ شیخ عبداللہ بہ معروف واعظ الاصغر فاروقی علیہ الرحمہ بن حضرت خواجہ شیخ ابو الفتح المعروف بہ واعظ اکبر فاروقی علیہ الرحمہ بن حضرت خواجہ شیخ اسحاق فاروقی علیہ الرحمہ بن حضرت خواجہ شیخ ابراہیم فاروقی علیہ الرحمہ  بن حضرت خواجہ شیخ ادھم فاروقی علیہ الرحمہ بن حضرت خواجہ شیخ سلیمان فاروقی علیہ الرحمہ بن حضرت خواجہ شیخ منصور فاروقی علیہ الرحمہ بن حضرت خواجہ شیخ ناصر فاروقی علیہ الرحمہ بن حضرت شیخ عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ بن حضرت امیر المومنین سیدنا عمر فاروق ابن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ۔

مخزن چشت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ کرامت عطا کر رکھی تھی کہ بڑے کافر ، فاسق اور منکرین حق آپ کی خدمت میں کچھ دیر کےلئے بیٹھ جاتے تو وہ اعمالِ بد سے توبہ کرکے آپ کے مرید بن جاتے پھر آپ کی چند روزہ تربیت سے وہی افراد بغیر کسی ریاضت اور مجاہدہ کے کامل ولی بن جاتے اور اُن کے ہاتھ پر کئی طرح کی کرامتیں ظہور پذیر ہوتیں ۔

تحیتہ الحق ، میں مذکور ہے کہ جو شخص آپ کے حلقہ مریدین میں شامل ہوتا تو سب سے پہلے ابتدائی کورس کے طور پر آپ اس کو نوافلِ اشراق ، اِستعاذہ ، استحباب ، چاشت ،بعد نماز مغرب اوابین چھ رکعت اور دو رکعت نفل حفظ الایمان پڑھنے کی تاکید فرماتے ۔ یہ تمام نوافل اس طرح ادا کرنے کا حکم دیتے جیسے کہ سلسلہ چشتیہ میں معمول چلا آ رہا ہے نیز آپ انہیں مسبعات عشرہ پڑھنے کی تلقین بھی فرماتے ۔

کتاب مخزن چشت میں ہے کہ حضرت خواجہ شیخ علم الدین چشتی علیہ الرحمہ نے فرمایاحب الہی کی دو قسمیں ہیں  ایک محبت ذات

دوسری محبت صفات ۔

محبت ذات تو صرف اللہ تعالیٰ کی دین اور عطا ہے البتہ محبت صفات کسی ہے جس کے حاصل کرنے کےلئے تخلیہ میں اللہ کا ذکر کرنا انتہائی ضروری ہے اس محبت کے حصول کےلئے چار رکاوٹوں کو عبور کرنا پڑتا ہے جو اس محبت کے راستہ میں سّدِ سکندری کی طرح کھڑی ہیں وہ چار روکاوٹیں مخلوقات ، دنیا ، نفس ، شیطان ہیں ۔

مخلوقات سے بچاؤ کا طریقہ یہ ہے کہ انسان خلوت اختیار کرلے اور دنیا سے بچاو قناعت کرکے حاصل ہو سکتا ہے اور نفس و شیطان کی رکاوٹیں تب دور ہوں گی کہ آدمی لمحہ بہ لمحہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا رہے ۔

کتاب تذکرہ خواجگان چشت سیکر شریف میں ہے کہ حضرت خواجہ شیخ علم الدین چشتی علیہ الرحمہ سے کشف و کرامات کا کافی ظہور ہوتا تھا ۔

حضرت خواجہ شیخ علم الدین چشتی علیہ الرحمہ نے ایک خلافت حضرت سید محمد گیسو دراز علیہ الرحمہ سے بھی حاصل کی آپ کے بے شمار خلفاء تھے مگر سلسلہ چشتیہ آپ کے فرزند حضرت خواجہ شیخ محمود راجن چشتی علیہ الرحمہ سے جاری ہوا۔

وصال پر ملال: آپ  علیہ الرحمہ کا وصال 26 صفر 809 ہجری  بروز بدھ کو ہوا۔ ایک اور روایت کے مطابق آپ کا وصال 901ہجری بمطابق 1495ء کو ہوا۔ آپ علیہ الرحمہ کا مزار اقدس پیران پٹن نہر والا محلہ برکات پورہ انڈیا میں آپ علیہ الرحمہ کے والد محترم حضرت خواجہ شیخ سراج الدین چشتی علیہ الرحمہ کے روضہ اقدس میں موجود ہے۔

مجدد اسلام حضرت شیخ ابوبکر شبلی علیہ الرحمہ

 

اسم گرامی:جعفر۔

کنیت: ابو بکر۔

مکمل نام:ابوبکر جعفر بن یونس۔ ’’شیخ شبلی‘‘ کےنام سے معروف ہیں۔ آپ کو شبلی اس لئے کہا جاتا ہے کہ آپ موضع ’’شبلہ یا شبیلہ‘‘ کے رہنے والے تھے۔ مگر ایک قول یہ ہے کہ آپ کی ولادت’’ سرشتہ‘‘ میں ہوئی۔(تذکرہ مشائخِ قادریہ رضویہ:202)

تاریخ ولادت:آپ کی ولادت باسعادت 247 ھ، مطابق861ء کو ’’سامراء‘‘ عراق میں ہوئی۔

تحصیل علم: آپ جامع علوم عقلیہ و نقلیہ تھے۔ آپ ارشاد فرماتے ہیں: میں نے تیس سال تک علم فقہ و حدیث کا درس لیا یہاں تک کہ علم کا دریا میرے سینے میں موجزن ہوگیا۔ پھر حاملینِ طریقت کی خدمت میں حاضر ہوا، اور ان سے عرض کیا کہ مجھے علم الہی کی تعلیم دیں۔ مگر کوئی شخص بھی نہ جانتا تھا۔ میں ان کی باتیں سن کر حیران رہ گیا (یعنی تصوف کی دوکانیں کھول رکھی تھیں، مگر وہ خالی تھیں ان میں علم و معرفت کا کوئی سودا نہیں تھا) میں نے ان سے کہا کہ الحمد للہ! تم سے تو میں صبحِ روشن میں ہوں۔ آپ آئمہ اربعہ میں سے حضرت امام مالک رضی اللّٰه عنہ کے مقلد تھے؛ اور ’’مؤطا امام مالک‘‘ آپ کو زبانی یاد تھی۔صاحب علم و حال، جامع علوم ظاہر ی و باطنی، واقفِ رموز خفی و جلی تھے۔ (ایضا: 202)

بیعت و خلافت: آپ سید الطائفہ شیخ الاولیاء حضرت جنید بغدادی علیہ الرحمہ  کے مرید و خلیفہ ہیں۔

سیرت و خصائص:مجدد اسلام، صوفیِ اسلام، عارف باللہ، عاشق رسول اللہ، حضرت سیدنا شیخ ابوبکر شبلی علیہ الرحمہ

مجددِ اسلام حضرت ابو بکر شبلی رحمۃ اللہ علیہ کا شماران کبارصوفیائے کرام میں ہوتا ہے جو عشق الہٰی میں اس طرح زمزمہ پرواز ہوئے کہ امر ہوگئے اور اپنے عمل و کردار کے ذریعے تصوف و سلوک کی حقیقی و مثالی تصویر پیش کی۔ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’ہر قو م کا ایک تاج ہو تا ہے اور ہم اہل تصوف کے تاج شبلی ہیں۔‘‘ آپ اکثریوں بھی فرمایا کرتے:’’لوگو! تم شبلی کو اس نظر سے نہ دیکھا کرو جس طرح دوسروں کو دیکھتے ہو کیونکہ وہ ’’عین من عیون اللہ‘‘ہیں۔

جب شیخ شبلی علیہ الرحمہ  حضرت سید الطائفہ جنیدبغدادی علیہ الرحمہ  کے مرید ہوئے تو انہوں نے فرمایا: ’’اے ابو بکر! تم ملک شام کے امیر الامراء (گورنر) تھے، جب تک تو بازار میں بھیک نہ مانگے گا دماغ تیرا نَخْوَت سے خالی نہ ہوگا (یعنی تیرے دماغ سے گھمنڈ و غرور نہ جائے گا) اور اپنی قدر و قیمت نہ جانے گا۔ ’’ابتداء ابتداء میں تو لوگوں نے رئیس جان کر بہت کچھ دیا آخر رفتہ رفتہ ہر روز بازار ان کا سُست ہوتا جاتا، ایک سال کے بعد یہ نوبت پہنچی کہ صبح سے شام تک پھرتے کوئی کچھ نہ دیتا، پیر سے حال عرض کی، فرمایا: قدر تیری یہ ہے کہ کوئی تجھے کوڑی کو نہیں پوچھتا‘‘۔پھر حضرت جنید نے فرمایا اے ابوبکر! اب بتاؤ تمہارے نفس کی قدر و قیمت کیا ہے؟

 عرض کیا میں اپنے نفس کو تمام جہاں سے کم تر دیکھتا ہوں، شیخ نے فرمایا: ہاں اب تمہارا ایمان درست ہوا۔ (احسن الوعاء لآداب الدعاء، 291/ تذکرہ مشائخِ قادریہ رضویہ:204)

بارگاہ ِرسالتﷺ میں آپ کا مقام:حضرت شیخ ابو بکر بن مجاہد علیہ الرحمہ  جو اپنے وقت کے عظیم محدث و فقیہ اور عارف باللہ تھے۔ ان کی مجلس میں علماء و فقہاء اور صوفیاء کا مجمع لگا رہتا۔ ایک دن حضرت شبلی علیہ الرحمہ  ان کی مجلس میں تشریف لے گئے تو وہ آپ کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوگئے اور سینے سے لگایا اور پیشانی مبارک کو بوسہ دیا، ایک ناواقف نے کہا حضرت یہ تو دیوانہ ہے، اور آپ اس قدر احترام فرما رہے ہیں؟

 تو حضرت ابو بکر بن مجاہد علیہ الرحمہ  نے ارشاد فرمایا : کہ اے لوگو! تمہیں کیا خبر ؟

 میں نے ان کے ساتھ ایسا ہی کیا جیسا کہ میں نے رسول اللہﷺ کو ان کے ساتھ سلوک کرتے ہوئے دیکھا۔ پھر فرمایا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ رسول اللہﷺ کی مجلس مبارک قائم ہے پھر جس وقت حضرت شبلی علیہ الرحمہ  اس مجلس میں تشریف لائے تو رسول اللہﷺ کھڑے ہوگئے اور ان کی پیشانی کو بوسہ دیا۔ میں نے عرض کیا کہ یارسول اللہﷺ! شبلی پر اتنی شفقت و مہربانی کس وجہ سے ہے؟

تو رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: کہ یہ ہر روز نماز کے بعد ’’لَقَدْ جَاءَکُمْ رَسُوْلٌ تا العظیم‘‘ پڑھتا ہے اور اس کے بعد تین مرتبہ یہ درود شریف’’صَلَّی اللہ عَلَیْکَ یَارَسُوْل اللہ‘‘ پڑھتا ہے۔(جلاء الافہام، باب رابع، ص241)

حضرت ابو بکر شبلی ابتدائی دور میں شدید گریہ و رازی کیا کرتے،رات کے وقت تہہ خانے میں جا کر عبادت کرتے اگر ذرا غفلت کا شکار ہوتے تو لکڑی سے خود کو زد و کوب کرتے، اگر لکڑیاں نہ ہوتیں تو دیوار سے اپنا جسم ٹکراتے، دوران عبادت نیند کا غلبہ ہوتا تو آنکھوں میں نمک ڈالتے، لوگوں نے کہا: نمک سے پرہیز کریں کہ بینائی جا سکتی  ہے۔

 فرمایا: ’’ میرا قلب جس شئے کا خواہشمند ہے وہ چشمِ ظاہر سے پوشیدہ ہے۔

فرمایا کرتے تھے کہ’’ میری پوری زندگی اسی آزرو میں گزر گئی کہ کاش مجھے خدا تعالیٰ سے ایسی خلوت نصیب ہوجاتی کہ میرا وجود باقی نہ رہتا۔‘‘

 آپ ہمہ وقت اللہ کا نام لیتے اور اگر کسی اور کے منہ سے یہ نام سنتے تو اس کا منہ شکر سے بھر دیتے۔

ایک مجلس میں آپ نے بار بار اللہ اللہ کہا، تو درویش نے پوچھا: آپ لاالہ الااللہ کیوں نہیں کہتے؟

فرمایا: مجھے ڈر ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میں لا (نفی) کہوں اور  جملہ مکمل کرنے سے قبل مجھے موت آجائے۔

حضرت شیخ ابو بکر شبلی بغدادی رحمۃاللہ علیہ نے ایک دنیا میں پھنسے (یعنی دنیا دار)آدمی کو دیکھا تو سجدے میں گر گئے اور یہ دعا پڑھی:” اَلْحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ عَافَانِیْ مِمَّا ابْتَلَاكَ به ٖوَ فَضَّلَنِيْ عَلٰی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقَ تَفْضِیْلًا ۔ترجمہ: اللہ پاک کا شکر ہے جس نے مجھے اس مصیبت سے عافیت دی جس میں تجھے مُبْتَلا کیا اور مجھے اپنی بہت سی مخلوق پرفضیلت دی۔ (مراٰۃ المناجیح ، 2/389)

 حضرت علامہ علی قاری رحمۃاللہ علیہ لکھتے ہیں: حضرت ابو بکر شبلی رحمۃ اللہ علیہ جب کسی دنیا دار کو دیکھتے تو( مال دنیا کے وبال سے بچنے کے لیے ) پڑھتے:” اَللّٰهُمَّ اِنِّيْ اَسْاَلُكَ الْعَفْوَ وَ الْعَافِيَةَ فِي الدُّنْيَا وَ الْعُقْبٰى یعنی اے اللہ پاک! میں تجھ سے دنیا اور آخرت میں درگزر اور عافیت کا سوال کرتا ہوں ۔ ( مرقاۃ المفاتیح ، 9 / 95)

احسان کا بدلہ: حضرت شیخ ابوبکر شبلی رحمۃ اللہ علیہ ایک دن اپنے چالیس مریدوں کے قافلے کے ہمراہ شہرِ بغداد سے باہر تشریف لے گئے،ایک مقام پرپہنچ کر آپ نے فرمایا:اے لوگو ! اللہ پاک اپنے بندوں کے رزق کی کفالت کرنےوالا ہے، پھر آپ نے پارہ 28 سورۃُ الطَّلاق کی دوسری اورتیسری آیت کریمہ کا یہ حصہ تلاوت فرمایا: وَ مَنْ یَّتَّقِ اللّٰهَ یَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًاۙ(۲) وَّ یَرْزُقْهُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُؕ-وَ مَنْ یَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٗؕ- (پ 28، الطلاق:3،2) ترجَمۂ کنزُ الْاِیمان :اور جو اللہ سے ڈرے، اللہ اس کے لئے نجات کی راہ نکال دے گا اور اسے وہاں سے روزی دےگا جہاں اس کا گمان نہ ہو اور جو اللہ پر بھروسہ کرے تو وہ اسے کافی ہے۔ یہ فرمانے کے بعد مریدوں کو وہیں چھوڑ کر آپ کہیں تشریف لے گئے۔تمام مریدین تین روز تک وہیں بھوکے پڑے رہے ۔چوتھے دن حضرت شیخ ابوبکر شبلی رحمۃ اللہ علیہ واپس تشریف لائے اور فرمایا:اے لوگو!اللہ پاک نے بندوں کے لئے رزق تلاش کرنے کی اجازت دی ہے۔ (چُنانچِہ پارہ 29 سورۃُ الْمُلک کی آ یت نمبر 15 میں) ارشاد ہوتا ہے: ( هُوَ الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ ذَلُوْلًا فَامْشُوْا فِیْ مَنَاكِبِهَا وَ كُلُوْا مِنْ رِّزْقِه ترجمہ کنزالایمان : ”وہی ہے جس نے تمہارے لئے زمین  رام (یعنی تابع)کر دی تو اس کے رستوں میں چلو اور اللہ کی روزی میں سے کھاؤ۔اس لئے تم اپنے میں سے کسی کو بھیج دو، امید ہے کہ وہ کچھ نہ کچھ کھانا لے کر آئے گا ۔مریدوں نے ایک غریب شخص کو بغداد بھیجا ،وہ گلی گلی پھرتا رہا، مگر روزی ملنے کی کوئی راہ پیدا نہ ہوئی، تھک ہار کر ایک جگہ بیٹھ گیا،قریب ہی ایک غیر مسلم طبیب کا مطب (دوا خانہ) تھا، وہ طبیب بڑا ماہر نباض تھا،صرف نبض دیکھ کر مریض کا حال خود ہی بتا دیتا تھا ۔ سب چلے گئے تو اس نے اس اللہ والے کو بھی مریض سمجھ کر بلایا اور نبض دیکھی پھر روٹیاں سالن اور حلوہ منگوایا اور پیش کرتے ہوئے کہا:تمہارے مرض کی یہی دوا ہے۔درویش نے طبیب سے کہا: اسی طرح کے 40 مریض اور بھی ہیں ۔ طبیب نے غلاموں کے ذریعہ چالیس افراد کے لئے ایسا ہی کھانا منگوا کر اللہ والے کے ساتھ روانہ کر دیا اور خود بھی چھپ کر پیچھے پیچھے چل دیا ۔

 جب شیخ ابو بکر شبلی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں کھانا حاضر کیا گیا تو آپ نے کھانے کو ہاتھ نہیں لگایا اور فرمایا:اے اللہ کے نیک بندو! اس کھانے میں تو عجیب راز چھپا ہوا ہے، کھانا لانے والےنے سارا واقعہ سنایا۔

شیخ نے فرمایا:ایک غیرمسلم نے ہمارے ساتھ اس قدر اچھا سلوک کیا ہے،کیا ہم اس کا بدلہ دیئے بغیریوں ہی کھانا کھا لیں؟

مریدوں نے عرض کی:عالیجاہ! ہم غریب لوگ اسے کیا دے سکتے ہیں؟

حضرت نے فرمایا: کھانے سے پہلے اس کے حق میں دعا تو کر سکتے ہیں، چنانچِہ دعا کی گئی، ہاتھوں ہاتھ دعا کی برکت یوں ظاہر ہوئی کہ وہ غیرمسلم طبیب جو ساری باتیں چُھپ کر سن رہا تھا اُس کے دل میں انقلاب برپا ہو گیا، اس نے فوراً اپنے آپ کو شیخ شبلی رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں پیش کر دیا ، توبہ کر کے کلمۂ شہادت پڑھ کر مسلمان ہو گیا اور شیخ کے مریدوں میں شامل ہو کر بلندمقام پر پہنچ گیا۔(روض الریاحین، ص 157)

حضرت شیخ شبلی رحمۃُ اللہ علیہ جب حج کیلئے میدان عرفات شریف پہنچے تو بالکل چپ رہے، سورج غروب ہونے تک کوئی لفظ منہ سے نہ نکا لا،جب دوران سعی ،مِیْلَیْن اَخضَرَین سے آگے بڑھے تو آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ، روتے ہوئے انہوں نے عربی میں اشعار پڑھے جن کا ترجمہ یہ ہے:

1.     میں چل رہا ہوں اس حال میں کہ میں نے اپنے دل پر تیری محبت  کی مُہر لگا رکھی ہے تاکہ اس دل پر تیرے سوا کسی کا گزر نہ ہو ۔

2.     اے کاش!مجھ میں یہ استقامت ہوتی کہ میں اپنی آنکھوں کو بند رکھتا اور اس وقت تک کسی کو نہ دیکھتا جب تک تجھے نہ دیکھ لیتا۔

3.     جب آنکھوں سے آنسو نکل کر رخساروں پر بہنے لگتے ہیں تو ظاہر ہوجاتا ہے کہ کون واقعی رو رہا ہے اور کس کا رونا بناوٹی ہے۔ (روض الریاحین، صفحہ  100)

حضرت شیخ ابوبکر شبلی علیہ الرحمہ نے چار سو علمائے کرام کی خدمت میں رہ کر علم ِدین حاصل کیا۔آپ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:میں نے چار ہزار احادیث ِمبارکہ پڑھیں ،پھر میں نے ان میں سے ایک حدیث پاک کو منتخب کیا اور اس پر عمل کیا کیونکہ میں نے اس حدیث ِپاک میں خوب غور و فکر کیا تو عذاب الٰہی سے چھٹکارا اور اپنی نجات و کامیابی اسی میں پائی۔وہ حدیثِ مبارکہ یہ ہے: حضور اکرم ﷺنے بعض صحابہ کرام علیہم الرضوان سے ارشاد فرمایا: جتنا دنیا میں رہنا ہے، اتنا دنیا کے لیے اور جتنا عرصہ قبر و آخرت میں رہنا ہے اتنی قبر و آخرت کی تیاری میں مشغول ہو جاؤ اور اﷲ پاک کیلئے اتنا عمل کرو جتنے تم اس کے محتاج ہو اور جہنم کی آگ کے لیے اتنا عمل کرو جتنی تم میں برداشت کرنے کی طاقت ہے ۔ (ایہاالولد، ص 17)

حضرت جعفر بن محمد بن نصیر بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت شیخ ابوبکر شبلی علیہ الرحمہ کے خادم بکران دینوری سے پو چھا:”وفات شریف کے وقت حضرت شیخ شبلی علیہ الرحمہ  کی کیا کیفیت تھی؟

 “جواب دیا: ”آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ایک شخص کا درہم میرے ذمے ہے جو ظلم کی راہ سے میرے پاس آگیا تھا حالانکہ میں اس کے مالک کی طرف سے ہزاروں درہم  صدقہ کر چکا ہوں مگر مجھے سب سے زیادہ اسی کی فکر کھائے جارہی ہے۔ “پھر ارشاد فرمایا:”مجھے نماز کے لئے وضو کروا دو۔“

میں نے وضو کروادیا لیکن داڑھی میں خلال کروانا بھول گیا اور چونکہ اس وقت آپ بول نہیں پارہے تھے اس لئے میرا ہاتھ پکڑ کر اپنی داڑھی میں داخل کردیا پھر آپ انتقال فرما گئے۔یہ سن کر حضرت جعفر رحمۃ اللہ علیہ رونے لگے اور فرمانے لگے:” تم ایسے شخص کے بارے میں کیا کہو گے جس سے عمر کے آخری لمحے بھی شریعت کا کوئی ادب فوت نہ ہوا۔“(احیاء العلوم، 5/233)

وصال پر ملال: بروز ہفتہ،27؍ ذوالحجۃ الحرام 334ھ، مطابق 29؍جولائی 946ء کو واصل باللہ ہوئے۔ آپ کا مزار مبارک ’’سامرہ‘‘ عراق میں مرجعِ خلائق ہے۔ (القول البدیع/ تذکرۃ الاولیاء/ روض الریاحین اور دیگرمضامین سے مآخوذ اور بشکریہ کریم پاشاہ سہروردی قادری حفظہ اللہ )

مناظر اہل سنت حضرت علامہ مفتی محمد طفیل احمد رضوی نوری کٹیہاری علیہ الرحمہ

 

تاریخِ ولادت واسم گرامی : آپ کی ولادت ٢١/صفرالمظفر ؁۱۳۸۰ھ مطابق ١٤ اگست ؁۱۹٦۰ء کو بروز یکشنبہ ضلع کٹیہار (موضع آباد پور) پرمانک ٹولہ میں ہوئی ۔ اور والدین نے آپ کا نام (ایک صحابی رسول حضرت طفیل رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی نام) کے نسبت سے محمد طفیل احمد رکھا ۔

 والدین کریمین: آپ کے والد ماجد (جناب عین الدین مرحوم) شرافت، دیانت، پاکبازی اور مہمان نوازی میں مشہور تھے، دین دار اور صوم وصلاة کے سخت پابند تھے، نیز آپ کی والدہ ماجدہ بھی نہایت نیک، پاک سیرت عفیفہ، صوم و صلاة کی پابند تھیں اور قدوة العارفین خواجہ وحید اصغر لطیفی قدس سرہ (تکیہ شریف رحمٰن پور) سے آپ کے والدین بیعت تھے۔

 آغاز تعلیم اور اس کے مراحل: آپ کی ابتدائی تعلیم مدرسہ رب البخش (آبادپور) میں مولوی نور عالم دیوبندی سے ہوئی۔یہاں کچھ دن تعلیم حاصل کیا پھر آپ نے اعلیٰ تعلیم کیلئے اہل خانہ سے درخواست کی لیکِن اہل خانہ نے منع کر دیا اسی طرح معاملہ چلتا رہا ایک دن اتفاقاً ایک سنی عالم حضرت مولانا عبدالقادر رضوی شاگرد صدر العلماء غلام جیلانی میرٹھی علیہما الرحمہ (عرف حاسرو مقام تسلیا آبادپور) سے ملاقات ہوئی دوران گفتگو وہ سنی عالم یہ مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ آپکا چہرہ تو عالموں جیسا ہے، آپکو باہر تعلیم حاصل کرنا چاہیے۔چنانچہ یہ مشورہ آپ کے دل میں تیر کے مانند چبھ گیا پھر کیا ہوا یہی کہ اہل خانہ کو بتائےبغیر اس غربت کے عالم میں حصول علم کے لیے نکل پڑے اور مدرسہ یتیم خانہ سیوان جا پہنچے۔

تکمیل تعلیم: کچھ عرصہ (مدرسہ یتیم خانہ سیوان) رہ کر مدرسہ فیض الرسول براؤں شریف (جو ایک عظیم درس گاہ ہیں) تشریف لے گئے وہاں اُس وقت حضرت فقیہ ملت مفتی جلال الدین احمد امجدی رحمۃ اللہ القوی کی ذات جلوہ گر تھیں  وہاں تقریبا دو سال علمی فیضان سے پر ہو کر جامعہ اشرفیہ مبارکپور میں داخلہ لیے اور حضرت شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی و بحر العلوم مفتی عبد المنان اعظمی علیہما الرحمہ جیسی شخصیات سے شرفِ تلمذ حاصل کیابعد عالمیت وہاں سے بریلی شریف کی جانب رخ کیے (١٨جمادی الاول ؁١٤٠٢ھ بمطابق ١٤ مارچ ؁١٩٨٢ء بروز یکشنبہ 22 سال کی قلیل عمر میں) آپنے وہاں فضیلت کی تعلیم اعلی نمبروں سے کامیابی حاصل کی۔

تدریسی زندگی :بعد فراغت درس تدریس کا آغاز آپنے مدرسہ انوارالعلوم جین پور (اعظم گڑھ اتر پردیش) سے کی نیز اپنے کرم فرما استاذ امام علم و فن حضرتِ خواجہ مظفر حسین رضوی پورنوی رحمۃ اللہ علیہ کے ایماء پر وہاں سے اپنے علاقے میں حُضور مفتی اعظم ہند نوراللہ مرقدہ کا قائم کردہ ادارہ (الجامعۃ النظامیہ فیض العلوم ملکپور دلکولہ: جو آبادپور سے تقریباً دو گھنٹے کا راستہ ہے) کی جانب رخت سفر باندھے اور یہاں کچھ عرصہ تک تدریس فرمائے

بعد ازاں مغربی بنگال (اشاپور و علی پور کلیاچک) میں تشریف لے گئے اور وہاں تقریباً سات برس تک مسلسل دینی خدمات انجام دیں اسی طرح آپ کا قائم کردہ (دارالعلوم جہانگیریہ منظر اسلام بچباری) میں تقریباً پچیس برس تک تدریس فرماتے رہے۔

مناظرہ وجامع خطاب :مناظر اہل سنت ایک جامع الصفات شخصیت کے حامل تھے، بالخصوص آپ نے مناظرہ و جامع خطاب کے ذریعے بہت سے لوگ (جو دین وسنیت سے دیوبندیت کی طرف مائل ہو گیے تھے) آپ نے انھیں دین سے قریب کیا اور حکمت عملی، فہم و فراست کے بل بوتے سواد اعظم مسلک اہل سنت (مسلک اعلیٰ حضرت) کی سچی ترجمانی کی۔

تبلیغی دورے :صوبہ بنگال وبہار اور جھاڑ کھنڈ، کے اکثر اضلاع جسمیں۔۔(شہر کلکتہ، سلی گڑی ، راج محل، مرشد آباد، بیربھوم، کشن گنج، کلیاچک، مالدہ، کٹیہار، رائے گنج، بنگلہ دیش بوڈر آتے ہیں) اور مختلف علاقوں کے چھوٹے بڑے دیہاتوں میں آپ نے تبلیغی دورے کیے۔

اخلاق و کردار :آپ جہاں ایک باصلاحیت مدرس، مفتی، مناظر، مبلغ وخطیب تھے، وہیں آپ اخلاق کے دھنی بھی تھے، آپ کے حسن کردار کی وجہ سے آج بھی لوگ آپکو یاد کرتے رہتے ہیں، حتی کہ آپکے بعض متعلقین تو آپکی محبت میں باضابطہ روتے ہیں، نیز غیر مسلم بھی آپ کے اخلاق وکردار سے متأثر تھے، گویا آپ اخلاق نبوی ﷺ کے مظہر اتم تھے۔

تصلب فی الدین :تصلب فی الدین یہ وہ عظیم وصف ہے جو مرد مومن کو بہت سے درجات و مناصب جلیلہ سے معراج کمال اللہ ورسول ﷺ کی محبوبیت تک پہنچا دیتاہے، چناں چہ مناظر اہل سنت کی زندگی کا جب ہم نے جائزہ لیا تو آپ‘ اس عظیم وصف کے سچے مصداق تھے۔

دارالعلوم جہانگیریہ منظر اسلام کا قیام :یہ ادارہ آبادپور تھانہ کے قریب واقع ٢/کیلومیٹر کے فاصلے پر مقام بچباری میں قائم ہے، ادارے کی زمین کا کچھ حصّے بہار اور کچھ حصہ بنگال میں ہے۔۔نیز ادارے کو قائم کرنے کا سبب یہ بنا، کہ آبادپور کے گردونواح، بستیوں میں اس وقت باضابطہ طور پر اہل سنت والجماعت کا کوئی معیاری تعلیمی ادارہ نہ تھا جس کی بنا پر مناظراہل سنت نے اس ضرورت حال کو محسوس کیں اور آپ کی مسلسل جد وجہد نے ادارہ ھذا (سن ۱۹۸۹ء کو) قیام عمل میں لایا۔۔۔المختصر یہ کہ ادارے کی تعلیمی، تعمیری وترقی کیلئے آپ رحمۃ اللہ علیہ نے پوری زندگی وقف کر دی۔

تصنیف وتالیف :مناظر اہل سنت علیہ الرحمۃ کا زیادہ تر وقت تدریس وخطابت، بحث ومناظرہ اور دعوت وتبلیغ میں گزرا، لہذا آپ علیہ الرحمۃ کو تحریر و تصنیف کے لیے بہت کم اوقات میسر آیا اس کے باوجود آپ نے کئی یادگار تصنیفیں بھی چھوڑی لیکن افسوس! کہ کسی نے اس کو سرقہ بازی کر کے اہم درسی کتب کے (شرح و نوٹس) ضائع کر دیا، اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت نصیب فرمائے (آمین)

اجازت وخلافت :چوں کہ آپ علیہ الرحمۃ کا دینی خدمات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو چکی تھی (خواہ درس وتدریس کی خدمات ہو، مساجد ومدارس کا قیام ہو، نیز قریہ قریہ، گاؤں گاؤں جا کر دین وسنیت کی تبلیغ کے حوالے سے ہو وغیرہ) لہذا آپ کو انعام‘ تو ملنا ہی تھا چناں چہ اسی دینی خدمات کے جذبے کو دیکھ کر تین بزروگوں نے آپ علیہ الرحمۃ کو اجازت وخلافت سے نوازا:وہ تین عظیم بزرگ یہ ہیں (۱) بقیة السلف حجۃ الخلف خلیفہ حُضور مفتی اعظم پیر طریقت حضرت علامہ مفتی عبدالخالق نوری پورنوی (سابق شیخ الحدیث منظر اسلام بریلی شریف) دامت برکارتہم العالیہ (۲) نبیرہ اعلیٰ حضرت جگر گوشہ ریحان ملت، پیر طریقت تاج السنہ حضرت علامہ الشاہ محمد توصیف رضا خاں قادری بریلوی دامت برکاتہم الاقدس (۳) اور مناظر اعظم ہند فقیہ النفس خلیفہ حضور مفتی اعظم حضرت علامہ مفتی مطیع الرحمن رضوی پورنوی دام ظلہ علینا

شرفِ بیعت :آپ علیہ الرحمۃ ایسے ہستی سے بیعت ہیں جنہیں دنیا (مرجع العلماء والمشائخ، امام العارفین، مجدد ابن مجدد شیخ الاسلام والمسلمین وغیرہ) القابات سے یاد کرتی ہے میری مراد حُضور مفتی اعظم ہند امام مصطفی رضا خان قادری نوری قدس سرہ القوی کی ذات ہے چنانچہ مناظر اہل سنت کو حضرت مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ الرضوان نے (۱۹۷۸ء میں) سلسلہ قادریہ، برکاتیہ رضویہ، نوریہ میں(دوران درس) داخل فرمایا۔

وصال شریف :یہ تقویٰ و طہارت کا پیکر ، حسنِ اخلاق کا مظہر ، عشق و وفا کا چمکتا آئینہ، دین وسنیت كا رہنما ہمیشہ کیلیے ۲۲ ذی الحجہ(ولادتِ حُضور مفتی اعظم ہند) ؁١٤٣٧ھ بمطابق ٢٣ ستمبر ؁٢٠١٦ء بروز شبِ جمعہ ٣ بج کر ٢٥ منٹ پر بحالت علالت ذکرِ الٰہی کرتے ہوۓ اس دارِ فانی سے دارِ بقا کی جانب رحلت فرمائی۔ انالله وانا الیہ رٰجعون۔

جنازہ وآخری آرام گاہ :اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کو ہمہ گیر مقبولیت و شہرت عطا فرمائی چناں چہ آپ کا جنازہ بین ثبوت ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔نیز آپکی نمازِ جنازہ (مناظر اعظم حضرت علامہ مفتی مطیع الرحمن رضوی پورنوی دام ظلہ علینا) نے پڑھائی اور مدرسہ دارالعلوم جہانگیریہ منظراسلام بچباری (چانچل مالدہ بنگال) کے احاطے میں آپ ابدی آرام فرما ہیں۔(بشکریہ :محمد توصیف رضا قادری علیمی حفظہ اللہ بانی الغزالی اکیڈمی و اعلیٰ حضرت مشن، آبادپور تھانہ (پرمانک ٹولہ) ضلع کٹیہار بہار، الہند)


حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی اشرفی علیہ الرحمہ


اسم گرامی:مفتی احمد یارخان۔

لقب:حکیم الامت۔

تخلص:سالک۔
سلسلۂ نسب : حضرت مولانا مفتی احمد یار خان بن مولانا محمد یار خان بد ایونی بن مولانا منور خان علیہم الرحمۃ۔
تاریخ ولادت: 4؍جمادی الاول،1324ھ،بمطابق جون 1906ء بروز جمعرات بوقت فجر’’قصبہ اوجھیانی‘‘ ضلع بدایوں (انڈیا)کے ایک دین دار گھرانے میں پیدا ہوئے۔

تحصیل علم: آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد سے حاصل کی، پھر مدرسۂ شمس العلوم(بدایوں) میں داخل ہو کر تین سال تک (1916ء تا 1919ء) مولانا قدیر بخش بد ایونی اور دیگر اساتذہ سے اکتساب فیض کیا۔ اسی عرصے میں بریلی شریف جاکر مجدداسلام حضرت مولانا شاہ احمد رضا خاں علیہ الرحمۃ کی زیارت سے مشرف ہوئے ۔ پھر مدرسہ اسلامیہ ، میڈھو (ضلع علی گڑھ)میں داخل ہوئے اور کچھ عرصہ پڑھا ، چوں کہ اس مدرسے کا تعلق دار العلوم دیو بند سے تھا اس لئے وہاں سے تعلیم ترک کر کے مراد آباد چلے گئے ۔جامعہ نعیمیہ مراد آبادمیں داخل ہوئے ، خسرو درباد اشرفی حضر ت صدرالافاضل مولانا سید محمد نعیم الدین اشرفی  مراد آبادی  علیہ الرحمہ کی مردم شناس نگاہوں نے جوہر قابل کو پہچان لیا اور خود پڑھا نا شروع کیا ۔ پھر بے پناہ مصروفیا ت کی بنا پر  خلیفہ حضور اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی حضرت علامہ مشتاق احمد اشرفی کانپوری علیہ الرحمہ  کو مراد آباد بلا کر مفتی صاحب کی تعلیم ان کے سپر دکر دی۔ 1344ھ/1925 ء میں درس نظامی سے فراغت حاصل کرلی ، اس وقت آپ کی عمر بیس سال تھی۔سندِ فراغت حاصل کرنے کے بعداستاد محترم علامہ صدر الافاضل سیدمحمدنعیم الدین مراد آبادی کی  ہدایت پر جامعہ نعىمىہ (مراد آباد، ہند)، جامعہ مسکینیہ (دھوراجی، کاٹھیاواڑ، ہند)،جامع اشرف کچھوچھہ شریف اور بھکھی شریف (تحصیل پھالیہ، ضلع منڈی بہاؤ الدین، پنجاب، پاکستان)میں تدریس فرمائی۔ پھر آپ ضلع گجرات (پنجاب، پاکستان)تشریف لے آئے اورزندگی کے بقیہ زندگی  یہیں گزارے۔بارہ تیرہ سال دار العلوم خدام الصوفیہ (گجرات) اور دس برس انجمن خدام الرسول میں فرائض تدریس انجام دیتے رہے

بیعت وخلافت:  محبوب ربانی ہم شبیہ غوث الاعظم  اعلیٰ حضرت سید شاہ علی حسین اشرفی کچھوچھوی رحمۃ اللہ علیہ کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے۔

سیرت وخصائص: مفسر قرآن،مفکراسلام،شارح مشکوٰۃ،صاحب تصنیفات کثیرہ،محسن اہل سنت،حکیم الامت، عارف بدایوں،سالک راہ حق،حضرت علامہ مولانامفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ ۔آپ ان شہسواران اسلام میں سے ہیں جن پر قوم مسلم کو ہمیشہ فخر رہا ہے۔آپ کا تعلق ان نفوس قدسیہ سے ہے جنہوں نے مشکل وقت میں ملت کی نگہبانی کافریضہ سرانجام دیا۔آپ عقل عرفانی،علم ایمانی اورمعرفت روحانی کے امام تھے۔آپ نے ساری زندگی اپنے قلم وزبان، فکرو تدبر سے دین اسلام کی ایسی خدمت فرمائی کہ رہتی دنیا تک عام وخاص ان شآء اللہ آپ کے فیض سے مستفید ہوتے رہیں گے۔ شرف ملت حضرت علامہ عبدالحکیم شرف قادری علیہ الرحمہ آپ کے بارے میں فرماتے ہیں: حضرت مفتی صاحب علیہ الرحمہ نہایت خوش اخلاق اور خندہ رو شخصیت تھے، سلام میں ہمیشہ پہل کرتے ، معمولات اور وقت کے اتنے پابند تھے کہ جب آپ جمعہ کے روز مبنر پر بیٹھتے تو لوگ اپنی گھڑیوں کا ٹائم ٹھیک کر لیتے تھے، پانچ دفعہ حج و زیارت سے مشرف ہوئے، ہر وقت درود شریف پڑھتے رہتے تھے۔ حضرت مفتی صاحب نے تقریباً 46سال کا عرصہ خدمت دین میں صرف کیا۔ سیکڑوں علما کو فیض یاب فرمانےکےساتھ ساتھ تصانیف کا معتدبہ حصہ یاد گار چھوڑ ا جس سے مسلک اہل سنت و جماعت کو نہایت تقویت ملی۔اسی طرح تحریک پاکستان میں آپ کا بہت بڑا کردار ہے۔تحریک پاکستان کے سلسلے میں صدر الافاضل مولانا سید محمد نعیم الدین مرادآبادی علیہ الرحمہ نے قرار داد پاکستان کی تائید کے لیے جو کوششیں کیں ،مفتی صاحب ان میں شریک رہے۔ مفتی صاحب محض مسلم لیگ کوووٹ ڈالنے کے لیے گجرات (پنجاب)سے سفر کرکے اوجھیانی (بدایوں)پہنچے تھے، چناں چہ بصورت جلوس آپ کو گھر لایا گیا،اور اس علاقے میں آپ کی کوششوں سے مسلم لیگ کو کامیابی حاصل ہوئی۔(تذکرہ اکابراہل سنت،صفحہ 55)

تصانیف : حصولِ علم سے فارغ ہوکر مفتی احمد یار خان نعیمی اشرفی علیہ الرحمہ  جب سنہ 1359ہجری بمطابق  1939عیسوی کے لگ بھگ گجرات (پنجاب، پاکستان) میں منتقل ہو گئے تو وہاں تدریس و تبلیغ کے ساتھ تصنیف کا کام بھی شروع کر دیا جیسا کہ آپ کی تدریس کے ضمن میں بیان کیا گیا کہ ایک طرف دار العلوم میں قابل طلبہ کی ایک جماعت تیار ہونے لگی، دوسری طرف مفتی احمد یار خان نعیمی اشرفی علیہ الرحمہ  نے خطابتِ جمعہ اور روزانہ درسِ قرآن کا سلسلہ شروع کیا اور تیسری طرف تصنیف و تالیف کے عظیم کام کا آغاز کر دیا اور دار الافتاء کی خدمات اس پر مستزاد تھیں۔ ان کی پہلی تالیف قانونِ وراثت پر علم المیراث کے نام سے منظرِ عام پر آئی اور سوائے اس علم المیراث کے آپ نے اپنی تمام تصانیف  گجرات میں قیام  کے زمانے میں ہی تحریر فرمائیں۔ آپ علیہ الرحمہ  نے 1377ہجری  1957عیسوی میں حاشیہ قرآن مجید نور العرفان لکھ کر حکیم الامت کا لقب پایا۔

گجرات کے دور قیام میں مفتی احمد یار خان نعیمی نے اپنی مشہور و معروف تفسیر نعیمی شریف کی تالیف شروع کی ۔جس میں ہر آیت مبارکہ کے تحت 11 چیزیں بیان کیں کی پہلی جلد 1363ھ/ [1944ء میں لکھی اور پھر گیارہویں جلد کی مندرجہ ذیل آیت مبارکہ تک تفسیر لکھی تھی کہ 28 سال کی محنتِ شاقہ کے بَعد 1391ھ/1971ء میں آپ کا وصال ہو گیا۔علم المیراث، نور العرفان اور تفسیر نعیمی کے علاوہ، آپ علیہ الرحمہ  نے متعدد دیگر کتب تالیف فرمائیں، جن کی کل تعداد پانچ سو (500) ہے جن میں سے کئی ہندوستان کی تقسیم کے موقع پر ضائع ہو گئیں اور کئی شائع ہو چکی ہیں اور کئی ہنوز غیر مطبوع ہیں۔ شائع شدہ میں میں مواعظِ نعیمیہ، شانِ حبیب الرحمٰن، اسرار الاحکام، سلطنتِ مصطفے اور اسلامی زندگی کے نام بہت نمایاں ہیں۔آپ کی چند مشہور تصانیف سے مندرجہ ذیل ہے۔

1.   علم القرآن لترجمۃ الفرقان

2.    نور العرفان فی حاشیہ قرآن

3.   شان حبیب الرحمن من آیات القرآن

4.    درس قرآن

5.   نعیم الباری فی انشراح بخاری (صحیح بخاری کی عربی شرح)

6.    مرات المناجیح مشکوۃ المصابیح کی اردوشرح (8 جلدیں)

7.    سلطنت مصطفے در مملکت کبریاء

8.   الکلام المقبول فی شرافۃ نسب الرسول

9.    رسالہ نور

10.       اجمال ترجمہ اکمال

11.      جاء الحق وزہق الباطل (دو حصے)

12.       امیر معاویہ پر ایک نظر

13.      علم المیراث

14.       اسلامی زندگی

15.      اسلام کی چار اصولی اصطلاحیں

16.       فتاویٰ نعیمیہ

17.       مواعظ نعمیہ

18.      معلم تقریر

19.       رحمت خدا بوسیلہ اولیاء اللہ

20.       دیوان سالک

وصال: آپ کا وصال،3؍ رمضان المبارک 1391ھ/ 24؍ اکتوبر1971ء )بروز اتوار77سال کی عمر میں ہوا ۔آپ کی آخری آرام گاہ گجرات (پنجاب،پاکستان) میں زیارت گاہ خاص وعام ہے۔ (حیات حکیم الامت /مقالہ نگار حضرت مولانا مفتی  عبدالحمید نعیمی و دیگر مضامین سے مآخوذ)