اسم
گرامی:جعفر۔
کنیت: ابو بکر۔
مکمل
نام:ابوبکر جعفر بن یونس۔
’’شیخ شبلی‘‘ کےنام سے معروف ہیں۔ آپ کو شبلی اس لئے کہا جاتا ہے کہ آپ موضع
’’شبلہ یا شبیلہ‘‘ کے رہنے والے تھے۔ مگر ایک قول یہ ہے کہ آپ کی ولادت’’ سرشتہ‘‘
میں ہوئی۔(تذکرہ مشائخِ قادریہ رضویہ:202)
تاریخ
ولادت:آپ کی ولادت باسعادت
247 ھ، مطابق861ء کو ’’سامراء‘‘ عراق میں ہوئی۔
تحصیل علم: آپ
جامع علوم عقلیہ و نقلیہ تھے۔ آپ ارشاد فرماتے ہیں: میں نے تیس سال تک علم فقہ و
حدیث کا درس لیا یہاں تک کہ علم کا دریا میرے سینے میں موجزن ہوگیا۔ پھر حاملینِ
طریقت کی خدمت میں حاضر ہوا، اور ان سے عرض کیا کہ مجھے علم الہی کی تعلیم دیں۔
مگر کوئی شخص بھی نہ جانتا تھا۔ میں ان کی باتیں سن کر حیران رہ گیا (یعنی تصوف کی
دوکانیں کھول رکھی تھیں، مگر وہ خالی تھیں ان میں علم و معرفت کا کوئی سودا نہیں
تھا) میں نے ان سے کہا کہ الحمد للہ! تم سے تو میں صبحِ روشن میں ہوں۔ آپ آئمہ
اربعہ میں سے حضرت امام مالک رضی اللّٰه عنہ کے مقلد تھے؛ اور ’’مؤطا امام مالک‘‘
آپ کو زبانی یاد تھی۔صاحب علم و حال، جامع علوم ظاہر ی و باطنی، واقفِ رموز خفی و
جلی تھے۔ (ایضا: 202)
بیعت
و خلافت: آپ سید الطائفہ شیخ
الاولیاء حضرت جنید بغدادی علیہ الرحمہ کے
مرید و خلیفہ ہیں۔
سیرت
و خصائص:مجدد اسلام، صوفیِ
اسلام، عارف باللہ، عاشق رسول اللہ، حضرت سیدنا شیخ ابوبکر شبلی علیہ الرحمہ
مجددِ اسلام حضرت ابو بکر شبلی رحمۃ اللہ علیہ کا شماران
کبارصوفیائے کرام میں ہوتا ہے جو عشق الہٰی میں اس طرح زمزمہ پرواز ہوئے کہ امر
ہوگئے اور اپنے عمل و کردار کے ذریعے تصوف و سلوک کی حقیقی و مثالی تصویر پیش کی۔
حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’ہر قو م کا ایک تاج ہو تا ہے اور ہم
اہل تصوف کے تاج شبلی ہیں۔‘‘ آپ اکثریوں بھی فرمایا کرتے:’’لوگو! تم شبلی کو اس
نظر سے نہ دیکھا کرو جس طرح دوسروں کو دیکھتے ہو کیونکہ وہ ’’عین من عیون
اللہ‘‘ہیں۔
جب شیخ شبلی علیہ الرحمہ حضرت سید الطائفہ جنیدبغدادی علیہ الرحمہ کے مرید ہوئے تو انہوں نے فرمایا: ’’اے ابو بکر!
تم ملک شام کے امیر الامراء (گورنر) تھے، جب تک تو بازار میں بھیک نہ مانگے گا دماغ
تیرا نَخْوَت سے خالی نہ ہوگا (یعنی تیرے دماغ سے گھمنڈ و غرور نہ جائے گا) اور
اپنی قدر و قیمت نہ جانے گا۔ ’’ابتداء ابتداء میں تو لوگوں نے رئیس جان کر بہت کچھ
دیا آخر رفتہ رفتہ ہر روز بازار ان کا سُست ہوتا جاتا، ایک سال کے بعد یہ نوبت
پہنچی کہ صبح سے شام تک پھرتے کوئی کچھ نہ دیتا، پیر سے حال عرض کی، فرمایا: قدر
تیری یہ ہے کہ کوئی تجھے کوڑی کو نہیں پوچھتا‘‘۔پھر حضرت جنید نے فرمایا اے
ابوبکر! اب بتاؤ تمہارے نفس کی قدر و قیمت کیا ہے؟
عرض کیا میں اپنے
نفس کو تمام جہاں سے کم تر دیکھتا ہوں، شیخ نے فرمایا: ہاں اب تمہارا ایمان درست
ہوا۔ (احسن الوعاء لآداب الدعاء، 291/ تذکرہ مشائخِ قادریہ رضویہ:204)
بارگاہ ِرسالتﷺ میں آپ کا مقام:حضرت شیخ ابو بکر بن مجاہد علیہ
الرحمہ جو اپنے وقت کے عظیم محدث و فقیہ
اور عارف باللہ تھے۔ ان کی مجلس میں علماء و فقہاء اور صوفیاء کا مجمع لگا رہتا۔
ایک دن حضرت شبلی علیہ الرحمہ ان کی مجلس
میں تشریف لے گئے تو وہ آپ کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوگئے اور سینے سے لگایا اور
پیشانی مبارک کو بوسہ دیا، ایک ناواقف نے کہا حضرت یہ تو دیوانہ ہے، اور آپ اس
قدر احترام فرما رہے ہیں؟
تو حضرت ابو بکر بن
مجاہد علیہ الرحمہ نے ارشاد فرمایا : کہ
اے لوگو! تمہیں کیا خبر ؟
میں نے ان کے ساتھ
ایسا ہی کیا جیسا کہ میں نے رسول اللہﷺ کو ان کے ساتھ سلوک کرتے ہوئے دیکھا۔ پھر
فرمایا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ رسول اللہﷺ کی مجلس مبارک قائم ہے پھر جس وقت
حضرت شبلی علیہ الرحمہ اس مجلس میں تشریف
لائے تو رسول اللہﷺ کھڑے ہوگئے اور ان کی پیشانی کو بوسہ دیا۔ میں نے عرض کیا کہ
یارسول اللہﷺ! شبلی پر اتنی شفقت و مہربانی کس وجہ سے ہے؟
تو رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: کہ یہ ہر روز نماز کے بعد
’’لَقَدْ جَاءَکُمْ رَسُوْلٌ تا العظیم‘‘ پڑھتا ہے اور اس کے بعد تین مرتبہ یہ
درود شریف’’صَلَّی اللہ عَلَیْکَ یَارَسُوْل اللہ‘‘ پڑھتا ہے۔(جلاء الافہام، باب
رابع، ص241)
حضرت ابو بکر شبلی ابتدائی دور میں شدید گریہ و رازی کیا
کرتے،رات کے وقت تہہ خانے میں جا کر عبادت کرتے اگر ذرا غفلت کا شکار ہوتے تو لکڑی
سے خود کو زد و کوب کرتے، اگر لکڑیاں نہ ہوتیں تو دیوار سے اپنا جسم ٹکراتے، دوران
عبادت نیند کا غلبہ ہوتا تو آنکھوں میں نمک ڈالتے، لوگوں نے کہا: نمک سے پرہیز
کریں کہ بینائی جا سکتی ہے۔
فرمایا: ’’ میرا
قلب جس شئے کا خواہشمند ہے وہ چشمِ ظاہر سے پوشیدہ ہے۔
فرمایا کرتے تھے کہ’’ میری پوری زندگی اسی آزرو میں گزر
گئی کہ کاش مجھے خدا تعالیٰ سے ایسی خلوت نصیب ہوجاتی کہ میرا وجود باقی نہ
رہتا۔‘‘
آپ ہمہ وقت اللہ
کا نام لیتے اور اگر کسی اور کے منہ سے یہ نام سنتے تو اس کا منہ شکر سے بھر دیتے۔
ایک مجلس میں آپ نے بار بار اللہ اللہ کہا، تو درویش نے
پوچھا: آپ لاالہ الااللہ کیوں نہیں کہتے؟
فرمایا: مجھے ڈر ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میں لا (نفی)
کہوں اور جملہ مکمل کرنے سے قبل مجھے موت آجائے۔
حضرت شیخ ابو بکر شبلی بغدادی رحمۃاللہ علیہ نے ایک دنیا
میں پھنسے (یعنی دنیا دار)آدمی کو دیکھا تو سجدے میں گر گئے اور یہ دعا پڑھی:” اَلْحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ عَافَانِیْ مِمَّا ابْتَلَاكَ به ٖوَ فَضَّلَنِيْ
عَلٰی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقَ تَفْضِیْلًا ۔“ ترجمہ: اللہ پاک کا شکر ہے جس نے مجھے اس مصیبت سے عافیت دی جس میں تجھے مُبْتَلا کیا
اور مجھے اپنی بہت سی مخلوق پرفضیلت دی۔ (مراٰۃ المناجیح ، 2/389)
حضرت
علامہ علی قاری رحمۃاللہ علیہ لکھتے ہیں: حضرت ابو بکر شبلی رحمۃ اللہ علیہ جب کسی
دنیا دار کو دیکھتے تو( مال دنیا کے وبال سے بچنے کے لیے ) پڑھتے:” اَللّٰهُمَّ اِنِّيْ اَسْاَلُكَ الْعَفْوَ وَ الْعَافِيَةَ فِي الدُّنْيَا وَ
الْعُقْبٰى یعنی اے اللہ پاک! میں تجھ سے دنیا اور آخرت میں درگزر اور عافیت کا سوال کرتا
ہوں ۔ ( مرقاۃ المفاتیح ، 9 / 95)
احسان کا بدلہ: حضرت شیخ ابوبکر شبلی رحمۃ اللہ علیہ ایک دن اپنے چالیس مریدوں کے قافلے کے ہمراہ
شہرِ بغداد سے باہر تشریف لے گئے،ایک مقام پرپہنچ کر آپ نے فرمایا:اے لوگو ! اللہ پاک اپنے بندوں کے رزق کی کفالت کرنےوالا ہے، پھر آپ نے پارہ 28 سورۃُ
الطَّلاق کی دوسری اورتیسری آیت کریمہ کا یہ حصہ تلاوت فرمایا: وَ مَنْ یَّتَّقِ اللّٰهَ یَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًاۙ(۲) وَّ یَرْزُقْهُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُؕ-وَ مَنْ یَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٗؕ- (پ 28، الطلاق:3،2) ترجَمۂ کنزُ الْاِیمان :اور جو اللہ سے ڈرے،
اللہ اس کے لئے نجات کی راہ نکال دے گا اور اسے وہاں سے روزی دےگا جہاں اس کا گمان
نہ ہو اور جو اللہ پر بھروسہ کرے تو وہ اسے کافی ہے۔ یہ فرمانے کے بعد مریدوں کو وہیں
چھوڑ کر آپ کہیں تشریف لے گئے۔تمام مریدین تین روز تک وہیں بھوکے پڑے رہے ۔چوتھے
دن حضرت شیخ ابوبکر شبلی رحمۃ اللہ علیہ واپس تشریف لائے اور فرمایا:اے لوگو!اللہ پاک نے بندوں کے لئے رزق تلاش کرنے کی اجازت دی ہے۔ (چُنانچِہ پارہ 29
سورۃُ الْمُلک کی آ یت نمبر 15 میں) ارشاد ہوتا ہے: ( هُوَ الَّذِیْ
جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ ذَلُوْلًا فَامْشُوْا فِیْ مَنَاكِبِهَا وَ كُلُوْا مِنْ
رِّزْقِه ترجمہ کنزالایمان : ”وہی ہے جس نے تمہارے لئے زمین رام (یعنی تابع)کر دی تو اس کے رستوں میں چلو
اور اللہ کی روزی میں سے کھاؤ۔“ اس لئے تم اپنے میں سے کسی کو بھیج دو، امید ہے کہ وہ کچھ
نہ کچھ کھانا لے کر آئے گا ۔مریدوں نے ایک غریب شخص کو بغداد بھیجا ،وہ گلی گلی
پھرتا رہا، مگر روزی ملنے کی کوئی راہ پیدا نہ ہوئی، تھک ہار کر ایک جگہ بیٹھ
گیا،قریب ہی ایک غیر مسلم طبیب کا مطب (دوا خانہ) تھا، وہ طبیب بڑا ماہر نباض
تھا،صرف نبض دیکھ کر مریض کا حال خود ہی بتا دیتا تھا ۔ سب چلے گئے تو اس نے اس
اللہ والے کو بھی مریض سمجھ کر بلایا اور نبض دیکھی پھر روٹیاں سالن اور حلوہ
منگوایا اور پیش کرتے ہوئے کہا:تمہارے مرض کی یہی دوا ہے۔درویش نے طبیب سے کہا: اسی
طرح کے 40 مریض اور بھی ہیں ۔ طبیب نے غلاموں کے ذریعہ چالیس افراد کے لئے ایسا ہی
کھانا منگوا کر اللہ والے کے ساتھ روانہ کر دیا اور خود بھی چھپ کر پیچھے پیچھے چل
دیا ۔
جب شیخ ابو بکر شبلی
رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں کھانا حاضر کیا گیا تو آپ نے کھانے کو ہاتھ نہیں لگایا
اور فرمایا:اے اللہ کے نیک بندو! اس کھانے میں تو عجیب راز چھپا ہوا ہے، کھانا
لانے والےنے سارا واقعہ سنایا۔
شیخ نے فرمایا:ایک غیرمسلم نے ہمارے ساتھ اس قدر اچھا سلوک
کیا ہے،کیا ہم اس کا بدلہ دیئے بغیریوں ہی کھانا کھا لیں؟
مریدوں نے عرض کی:عالیجاہ! ہم غریب لوگ اسے کیا دے سکتے
ہیں؟
حضرت نے فرمایا: کھانے سے پہلے اس کے حق میں دعا تو کر سکتے
ہیں، چنانچِہ دعا کی گئی، ہاتھوں ہاتھ دعا کی برکت یوں ظاہر ہوئی کہ وہ غیرمسلم
طبیب جو ساری باتیں چُھپ کر سن رہا تھا اُس کے دل میں انقلاب برپا ہو گیا، اس نے
فوراً اپنے آپ کو شیخ شبلی رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں پیش کر دیا ، توبہ کر کے
کلمۂ شہادت پڑھ کر مسلمان ہو گیا اور شیخ کے مریدوں میں شامل ہو کر بلندمقام پر
پہنچ گیا۔(روض الریاحین، ص 157)
حضرت شیخ شبلی رحمۃُ اللہ علیہ جب حج کیلئے میدان عرفات
شریف پہنچے تو بالکل چپ رہے، سورج غروب ہونے تک کوئی لفظ منہ سے نہ نکا لا،جب
دوران سعی ،مِیْلَیْن اَخضَرَین سے آگے بڑھے تو آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ، روتے
ہوئے انہوں نے عربی میں اشعار پڑھے جن کا ترجمہ یہ ہے:
1. میں چل رہا
ہوں اس حال میں کہ میں نے اپنے دل پر تیری محبت کی مُہر لگا رکھی ہے تاکہ اس دل پر تیرے سوا
کسی کا گزر نہ ہو ۔
2. اے کاش!مجھ میں یہ
استقامت ہوتی کہ میں اپنی آنکھوں کو بند رکھتا اور اس وقت تک کسی کو نہ دیکھتا جب
تک تجھے نہ دیکھ لیتا۔
3. جب آنکھوں سے
آنسو نکل کر رخساروں پر بہنے لگتے ہیں تو ظاہر ہوجاتا ہے کہ
کون واقعی رو رہا ہے اور کس
کا رونا بناوٹی ہے۔ (روض الریاحین، صفحہ 100)
حضرت شیخ ابوبکر شبلی علیہ الرحمہ نے چار سو علمائے کرام کی
خدمت میں رہ کر علم ِدین حاصل کیا۔آپ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:میں نے چار ہزار احادیث
ِمبارکہ پڑھیں ،پھر میں نے ان میں سے ایک حدیث پاک کو منتخب کیا اور اس پر عمل کیا
کیونکہ میں نے اس حدیث ِپاک میں خوب غور و فکر کیا تو عذاب الٰہی سے چھٹکارا اور
اپنی نجات و کامیابی اسی میں پائی۔وہ حدیثِ مبارکہ یہ ہے: حضور اکرم ﷺنے بعض صحابہ
کرام علیہم الرضوان سے ارشاد فرمایا: جتنا دنیا میں رہنا ہے، اتنا دنیا کے لیے اور
جتنا عرصہ قبر و آخرت میں رہنا ہے اتنی قبر و آخرت کی تیاری میں مشغول ہو جاؤ اور
اﷲ پاک کیلئے اتنا عمل کرو جتنے تم اس کے محتاج ہو اور جہنم کی آگ کے لیے اتنا
عمل کرو جتنی تم میں برداشت کرنے کی طاقت ہے ۔ (ایہاالولد، ص 17)
حضرت جعفر بن محمد بن نصیر بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت
شیخ ابوبکر شبلی علیہ الرحمہ کے خادم بکران دینوری سے پو چھا:”وفات شریف کے وقت
حضرت شیخ شبلی علیہ الرحمہ کی کیا کیفیت
تھی؟
“جواب دیا: ”آپ
رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ایک شخص کا درہم میرے ذمے ہے جو ظلم کی راہ سے میرے
پاس آگیا تھا حالانکہ میں اس کے مالک کی طرف سے ہزاروں درہم صدقہ کر چکا ہوں مگر مجھے سب سے زیادہ اسی کی
فکر کھائے جارہی ہے۔ “پھر ارشاد فرمایا:”مجھے نماز کے لئے وضو کروا دو۔“
میں نے وضو کروادیا لیکن داڑھی میں خلال کروانا بھول گیا
اور چونکہ اس وقت آپ بول نہیں پارہے تھے اس لئے میرا ہاتھ پکڑ کر اپنی داڑھی میں
داخل کردیا پھر آپ انتقال فرما گئے۔یہ سن کر حضرت جعفر رحمۃ اللہ علیہ رونے لگے
اور فرمانے لگے:” تم ایسے شخص کے بارے میں کیا کہو گے جس سے عمر کے آخری لمحے بھی
شریعت کا کوئی ادب فوت نہ ہوا۔“(احیاء العلوم، 5/233)
وصال پر ملال: بروز ہفتہ،27؍ ذوالحجۃ الحرام 334ھ، مطابق 29؍جولائی 946ء کو واصل باللہ
ہوئے۔ آپ کا مزار مبارک ’’سامرہ‘‘ عراق میں مرجعِ خلائق ہے۔ (القول البدیع/ تذکرۃ الاولیاء/ روض الریاحین اور
دیگرمضامین سے مآخوذ اور بشکریہ کریم پاشاہ سہروردی قادری حفظہ اللہ )