Aala Hazrat Imam Ahmad Raza Khan (Alaihir Rahmah)


وِلاد ت باسعادت
اعلٰی حضرت ، اِمامِ اَہلسنّت ، ولی نِعمت ، عظیمُ البَرَکت، عَظِیمُ المَرْتَبت، پروانہِ شمعِ رِسالت ، مُجَدِّدِ دِین ومِلَّت، حامیِ سُنّت، ماحِی بِدعت، عَالِمِ شَرِیْعَت، پیرِ طریقت، باعثِ خَیْروبَرَکت، حضرتِ علامہ مولٰینا الحاج الحافظ القاری شاہ امام احمد رَضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن کی ولادت باسعادت بریلی شریف کے مَحَلّہ جَسولی میں ۱۰ شَوَّالُ الْمُکَرَّم ۱۲۷۲ھ بروز ہفتہ بوقتِ ظہر مطابِق ۱۴ جون ۱۸۵۶ کو ہوئی۔ سِنِ پیدائش کے اِعتبار سے آپ کا تاریخی نام اَلْمُختار (۱۲۷۲ھ) ہے ۔
(حیاتِ اعلٰی حضرت ، ج۱، ص۵۸، مکتبۃ المدینہ بابُ المدینہ کراچی)
آپ کا نامِ مبارَک محمد ہے، اور آپ کے دادا نے احمد رضا کہہ کر پکارا اور اسی نام سے مشہور ہوئے۔

آ پ ایک صحابی کی اولاد ہیں

آپ کا نسبی سلسلہ افغانستان کے مشہور و معروف قبیلہ بڑہیچ سے ہے جو افغانوں کے جدِا مجد قیس عبد الرشید( جنہیں سرکار دو عالم ،نور ِ مجسم ، شاہِ بنی آدم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمتِ عالیہ میں حاضری دی کر دینِ اسلام قبول کرنے کی سعادت حاصل ہوئی) کے پوتے ’’شرجنون‘‘الملقب بہ شرف الدین کے پانچ بیٹوں میں سے چوتھے بیٹے بڑہیچ سے جا ملتا ہے۔(گویا آپ ایک صحابی ء رسو ل صلی اللہ علیہ والہ ٖ وسلم کی اولاد سے ہیں)(شاہ احمد رضا خان بڑیچ افغانی از قلم محمد اکبر اعوان مطبوعہ کراچی ص 35)

مولانا شاہ نقی علی خان صاحب

مولانا شاہ نقی علی خان اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے والدِ گرامی ہیں ۔آپ زبر دست عالمِ دین ،کثیر التصانیف بزرگ اور بڑے پائے کے عاشقِ رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم تھے۔

پیدائش:

رئیس الاتقیا ءحضرت مولاناشاہ نقی علی خان بریلی شریف میں یکم رجب 1246ھ بمطابق 1830 ء میں مولانارضاعلی خان صاحب کے ہاں پیداہوئے ۔

تعلیم و تربیت :

اپنے والدِ ماجد سے تعلیم وتربیت پائی اور ان ہی سے درسی علوم سے فراغت حاصل کی ۔ حق تعالیٰ نے اُن کو اپنے ہمعصر وں میں معاش ومعاد میں ممتاز فرمایا تھا۔ فطری شجاعت کے علاوہ سخاوت،تواضع اور استغناء کی صفات سے متصف تھے ۔ اپنی عمر عزیز کو سنت کی اشاعت اوربدعت کے رد میں صر ف کیا۔ (تذکرہ علمائے ہند ص449مطبوعہ کراچی)

اخلاق و عادات:

اعلیٰ حضرت اپنے والد ِ گرامی کے تذکر ے میں تحریر فرماتے ہیں :
فراستِ صادقہ کی یہ حالت تھی کہ جس معاملے میں جو کچھ فرمایا وہی ظہور میں آیا،عقلِ معاش ومعاد دونوں کا بروجہِ کمال اجتماع بہت کم سنا،یہاں آنکھوں سے دیکھا۔علاوہ بریں سخاوت،شجاعت ،علو ّ ِہمت ،کرم و مروت ،صدقاتِ خفیہ ،میراث ِ جلیہ ، بلندی ء اقبال ، دبدبہ و جلال،موالاتِ فقرائ، حکام سے عزلت ،رزقِ موروث پر قناعت وغیرہ ذالک ۔
فضائل ِ جلیلہ و خصائل ِ جمیلہ کا حال وہی جانتا ہے جس نے اُس جناب کی برکت ِ صحبت سے شرف پایا ہے ۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت از مولانا ظفر الدین بہاری مطبوعہ مکتبہ نبویہ لاہور ص65)

عشقِ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم :

ٓآپ کو حضورِ اکرم رحمت ِ دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ ٖوسلم سے کمال درجہ کا عشق تھا ۔ایک بار بیما ر ہوگئے جس کی وجہ سے نقاہت بہت ہو گئی، محبو بِ کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ ٖوسلم نے اپنے فدائی کے جذبہء محبت کی لاج رکھی،اور خواب ہی میں ایک پیالے میں دوا عنایت فرمائی، جس کے پینے سے افاقہ ہوا اور آپ جلد ہی رُو بصحت ہوگئے ۔ (مولانا نقی علی خان از شہاب الدین رضوی ،مطبوعہ لاہورص37)

القابات

سید ی اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے بیشمار القابات ہیں ،جن میں سے آپ کا مشہور ترین لقب ’’اعلیٰ حضرت‘‘ہے ۔مولانا بدر الدین احمد قادری صاحب’’سوانح امام احمد ر ضا‘‘ میں’’اعلیٰ حضرت‘‘کے اس لقب کی وجہِ تسمیہ کچھ یوں بیان کرتے ہیں ۔

اعلیٰ حضرت:

خاندان کے لوگ امتیاز و تعارف کے طور پر اپنی بول چال میں اُنھیں ’’اعلیٰ حضر ت ‘‘کہتے تھے۔ معارف و کمالات اور فضائل و مکارم میں اپنے معاصرین کے درمیان برتری کے لحاظ سے یہ لفظ اپنے ممدوح کی شخصیت پر اس طرح منطبق ہو گیا کہ آج ملک کے عوام و خواص ہی نہیں بلکہ ساری دُنیا کی زبانوں پر چڑھ گیا۔ اور اب قبول عام کی نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ کیا موافق کیا مخالف ،کسی حلقے میں بھی ، اعلیٰ حضرت کہے بغیر شخصیت کی تعبیر ہی مکمل نہیں ہوتی ۔(سوانح امام احمد رضا از علامہ بدر الدین قادری مطبوعہ سکھر ص8)

دیگر القابات:

مز ید علمائے اہلِ سنت آپ کو بے شمار القابات سے یاد کرتے ہیں مثلاً۔۔۔
اعلیٰ حضرت ۔عظیم البرکت۔عظیم المرتبت۔امامِ اہلسنت۔ مجدّدِ دین و ملت۔ پروانہءشمع ِرسالت ۔عالَمِ شریعت ۔واقفِ اَسرارِ حقیقت ۔پیرِ طریقت۔رہبرِ شریعت۔ مخزنِ علم وحکمت ۔پیکرِ رُشد و ہدایت۔عارفِ شریعت وطریقت ۔غواصِ بحرِحقیقت ومعرفت۔تاجدارِ ولایت ۔شیخ الا سلام والمسلمین ۔حُجۃ اللہ فی الارضین۔تاج الفحول الکاملین۔ضیاء الملۃ ِوالدِّین ۔وارثُ الانبیا ء والمرسلین۔سراج ُالفقہا و المحدِّثین ۔زبدۃ العارفین والسالکین۔آیتُٗ من آیت اللہ ربّ العالمین۔معجزۃُٗ من معجزات رحمتہ للعالمین۔ تاج المحققین۔سراج المدققین۔حامی السنن۔۔ماحی الفتن۔بقیۃ السلف۔حجۃ الخلف ۔مجددِ اعظم۔ وغیرہ من ذالک۔

علمائے حجا ز کی طرف سے القابات:

علمائے حجاز نے آپ کو ان القابات سے یاد فرمایا ہے:
معرفت کاآفتاب۔فضائل کاسَمندر۔بلندستارہ۔دریاے ذخار۔بحرنا پیدکنا ر۔یکتائے زمانہ، دین ِاسلام کی سعادت ۔دائرہ ء علوم کا مرکز۔ سحبان ِفصیح اللسان ۔یکتائے روز گار۔ وغیرہ او ر علامہ اسمعیل خلیل المکی نے تو یہاں تک فرمادیا:
’’اگر اس کے حق میں یہ کہا جائے کہ وہ اس صدی کا مجد دہے تو بلا شبہ حق و صحیح ہے‘‘
(فاضلِ بریلوی اور ترکِ موالات از پروفیسر مسعود احمد صاحب مطبوعہ لاہور ص 15)

حلیہ مبارک

حضرت علامہ مولانا محمد منشا ء تابش قصوری صاحب مد ظلہ العالی کی فرمائش پر مولانا حسنین رضا خان رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ نے آ پ کو اعلٰی حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حلیہءمبار کہ اپنے مکتوب میں تحریر فرماکر بھیجا جو کہ مندرجہ ذیل ہے :
·         ابتدائی عمر میں آپ کا رنگ چمکد ار گند می تھا۔
·         چہر ہء مبار ک پر ہر چیز نہایت موزوں و مناسب تھی۔
·         بلند پیشانی ،بینی مبارک نہایت ستواں تھی۔
·         ہر دو آنکھیں بہت موزوں اور خوبصورت تھیں ۔
·         نگاہ میں قدرے تیزی تھی جو پٹھان قوم کی خاص علامت ہے۔
·         ہر دو ابر و کمان ابرو کے پورے مصداق تھے۔
·         لاغری کے سبب سے چہر ہ میں گدازی نہ رہی تھی مگران میں ملاحت اس قد رعطا ہوئی تھی کہ دیکھنے والے کو اس لاغری کا احسا س بھی نہ ہوتا تھا۔
·         کنپٹیا ں اپنی جگہ بہت مناسب تھیں ۔
·         داڑھی بڑی خوبصورت گردار تھی۔
·         سر مبارک پرپٹے(زلفیں) تھے جو کان کی لو تک تھے۔
·         سرمبارک پر ہمیشہ عمامہ بند ھا رہتا تھا جس کے نیچے دو پلی ٹوپی ضر ور اوڑھتے تھے۔
·         آپ کا سینہ باوجود اس لا غری کے خوب چوڑا محسوس ہوتا تھا۔
·         گرد ن صراحی دار تھی اور بلند تھی جو سرداری کی علامت ہوتی ہے۔
·         آپ کا قد میانہ تھا۔
·         ہر موسم میں سوائے موسمی لباس کے آپ سپید(سفید) ہی کپڑ ے زیب ِ تن فرماتے ۔
·         موسم سرما میں رضائی بھی اوڑھا کرتے تھے۔
·         مگر سبز کا ہی اونی چادر بہت پسند فرماتے تھے اور وہ آپ کے تن ِمبارک پر سجتی بھی خوب تھی۔
·         آپ بچپن ہی میں کچھ روز گداز رہے پھر تو سب نے آپ کو چھریرا اور لاغر ہی دیکھا ۔
·         آپ کی آواز نہایت پر درد تھی اور کسی قدر بلند بھی تھی۔
·         آپ جب اذان دیتے تو سننے والے ہمہ تن گوش ہو جاتے۔
·         آپ بخاری طرز پر قرآن ِپا ک پڑھتے تھے۔
·         آپ کا طرز اداعام حفاظ سے جدا تھا۔
·         آپ نے ہمیشہ ہندوستانی جوتا پہنا جسے سلیم شاہی جوتا کہتے ہیں ۔
·         آپ کی رفتا ایسی نرم کہ برابر کے آدمی کو بھی چلتا محسوس نہ ہوتا تھا۔
(مجدد اسلام از علامہ نسیم بستوی مطبوعہ لاہور ص 33,32)

بچپن میں تقویٰ و پرہیز گاری

محافظتِ نماز

مولانا حسنین رضا خان صاحب لکھتے ہیں کہ اُن کے ہم عمروں سے اور بعض بڑوں کے بیان سے معلوم ہواہے کہ وہ بدوِ(ابتدائے) شعورہی سے نمازِ باجماعت کے سخت پابند رہے ،گویا قبلِ بلوغ ہی و ہ اصحابِ ترتیب کے ذیل میں داخل ہو چکے تھے اور وقت ِ وفات تک صاحب ِترتیب ہی رہے۔ (سیرتِ اعلیٰ حضرت از مولانا حسنین رضا خان مطبوعہ کراچی ص48)

محافظتِ روزہ:

جب بچپن میں آپ نے پہلا روزہ رکھا تو روزہ کشائی کی تقریب بڑی دھوم دھام سے ہوئی،
اس کا نقشہ مولا نا حسنین رضا خان رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ یوں کھینچتے ہیں:
سارے خاندان اور حلقہء احباب کو مدعو کیا گیا ، کھانے دانے پکے، رمضان المبارک گرمی میں تھا اور اعلیٰ حضرت خوردسال تھے مگر آپ نے بڑی خوشی سے پہلا روزہ رکھا تھا ۔ ٹھیک دوپہر میں چہرہ ء مبارک پر ہوائیاں اُڑنے لگیں ،آپ کے والدِ ماجد نے دیکھا تو انہیں کمرے میں لے گئے اور اندر سے کواڑ بند کرکے اعلیٰ حضرت کو فیرنی کا ایک ٹھنڈا پیالہ اٹھا کر دیا اور فرمایا کہ کھالو! آپ نے فرمایا میرا تو روزہ ہے ۔ اُنھوں نے فرمایا کہ بچوں کے روزے یوں ہی ہوا کرتے ہیں کمرہ بند ہے نہ کوئی آسکتا ہے نہ دیکھ سکتا ہے ۔ تو اعلیٰ حضرت نے عرض کی کہ’’جس کا روزہ رکھا ہے وہ تو دیکھ رہا ہے‘‘اس پر باپ آبدیدہ ہو گئے ۔ اور خدا کا شکر ادا کیا کہ خداکے عہد کو یہ بچہ کبھی فراموش نہ کرے گا ۔ جس کو بھوک پیاس کی شدت، کمزوری اور کم سنی میں بھی ہر فرض کی فرضیت سے پہلے وفائے عہد کی فرضیت کا اتنا لحاظ وپا س ہے ۔(سیرتِ اعلیٰ حضرت از مولانا حسنین رضا خان مطبوعہ کراچی ص87)

محافظتِ نگاہ :

آپ کی بچپن ہی سے یہ عادت رہی کہ اجنبی عورتیں اگر نظر آجاتیں توکرتے کے دامن سے اپنا منہ چھپا لیتے ۔آپ کی عمر شریف جب کہ محض چار سال کی تھی ایک دن صرف بڑ ا سا کرتہ زیب ِ تن کئے ہوئے دولت کدہ سے باہر تشریف لائے تو آپ کے سامنے سے چند بازاری طوائفیں گزریں ،جنہیں دیکھتے ہی آ پ نے کرتہ کا دامن چہرہ پر ڈال لیا ،یہ حالت دیکھ کر ان میں سے ایک عورت بولی’’واہ میاں صاحبزادے! آنکھیں ڈھک لیں اور ستر کھول دیا‘‘ آپ نے اِسی عالم میں بغیر اُن کی طرف نگاہ ڈالے ہوئے برجستہ جوا ب دیا’’جب آنکھ بہکتی ہے تو دل بہکتا ہے او ر جب دل بہکتا ہے تو ستر بہکتا ہے‘‘۔
آپ کے اس عارفانہ جواب سے وہ سکتہ میں آگئیں ۔ آ پ کے اِس مبارک عمل اور حیرت انگیز جواب کے پیشِ نظر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب آپ ننھی سی عمر میں اس قدر فکر و شعور رکھتے تھے تو پھر دامن کی بجائے اپنے ہاتھوں ہی سے کیوں نہ آنکھیں چھپالیں کہ اس صورت میں اپنا سِتر بے پردہ نہ ہوتا اور مقصد بھی حاصل رہتا ،لیکن تھوڑی سی توجہ کے بعد یہ امرواضح ہو جاتا ہے کہ اگر آپ ہاتھوں ہی سے آنکھیں چھپالیتے تو اس طوائف کا مسخرہ آمیز سوال نہ ہوتا اور نہ اُس کو وہ نصیحت آموز جواب ملتا جو آپ نے دیا اورنہ گزرنے والے دوسرے سامعین کو وہ سبق ملتا جو بصیر ت افروز ہے ۔ پھر آپ نے بالقصد و ہ طریقہ اختیار نہ فرمایا بلکہ من جانبِ اللہ غیر ارادی طور پر آپ نے دامن سے آنکھیں چھپائیں کہ بچپنے کی ادا یوں ہی ہوا کرتی ہے یہ اور بات ہے کہ اس ننھی ادا میں علم النفس کے حقائق پوشیدہ تھے ذٰلِکَ فَضْلُ اللہِ یُؤْتِیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ(سوانح امام احمد رضا از علامہ بدر الدین قادری مطبوعہ سکھر ص117)

بچپن کی ایک حکایت

حضرتِ جناب سَیِّد ایوب علی شاہ صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ بچپن میں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو گھرپر ایک مولوی صاحب قراٰنِ مجید پڑھانے آیا کرتے تھے۔ ایک روز کا ذِکْر ہے کہ مولوی صاحِب کسی آیتِ کریمہ میں بار بار ایک لفظ آپ کوبتاتے تھے۔ مگر آپ کی زبان مبارک سے نہیں نکلتا تھا۔ وہ “زَبَر” بتاتے تھے آپ “زَیر” پڑھتے تھے یہ کیفیت آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے دادا جان حضرت مولانا رضا علی خان صاحب رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ نے دیکھی حضور کواپنے پاس بلایا اور کلام پاک منگوا کر دیکھا تو اس میں کاتب نے غلطی سے زَیر کی جگہ زَبَر لکھ دیا تھا، یعنی جو اعلیٰ حضر ت رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ کی زبان سے نکلتا تھا وہ صحیح تھا۔ آپ کے دادا نے پوچھا کہ بیٹے جس طرح مولوی صاحب پڑھاتے تھے تم اُسی طرح کیوں نہیں پڑھتے تھے۔ عرض کی میں ارادہ کرتا تھا مگر زبان پر قابو نہ پاتا تھا ۔اِس قسم کے واقعات مولوی صاحب کو بار ہا پیش آئے تو ایک مرتبہ تنہائی میں مولوی صاحب نے پوچھا ،صاحبزادے ! سچ سچ بتا دو میں کسی سے کہوں گا نہیں، تم انسان ہو یا جن ؟ آپ نے فرمایا کہ اﷲ کا شکر ہے میں انسان ہی ہوں، ہاں اﷲ کا فضل و کرم شامل حال ہے۔(حیات اعلٰی حضرت،ج ۱، ص۶۸، مکتبۃ المدینہ، بابُ المدینہ کراچی)بچپن ہی سے نہایت نیک طبیعت واقع ہوئے تھے۔

چھ سال کی عمر میں پہلی تقریر

چھ سال کی عمر شریف میں ربیع الاول کے مبار ک مہینہ میں منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور ایک بہت بڑے مجمع کے سامنے آ پ نے پہلی تقریر فرمائی، جس میں کم وبیش دو گھنٹے علم و عرفا ن کے دریا بہائے اور سرور ِعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کے ذکر ِولاد ت کے بیان کی خوشبو سے اپنی زبان کو معطر فرمایا، سامعین آپ کے علوم ومعارف سے لبریز بیان کو سن کر وجد میں آگئے اور تصویر ِحیرت بن گئے کہ ُان کے سامنے ایک کمسن بچے نے مذہبی دانشمندی کی وہ گراں مایہ باتیں بیان کیں جو بڑے بڑے صاحبانِ عقل و ہوش کے لیے باعثِ صد رشک ہیں، حقیقت یہ ہے کہ رَبُّ العالمین اپنے جس بندے کو اپنی معرفت کی دولت سے سرفراز کرنا چاہتا ہے اس کی حیاتِ پاک کی ایک ایک گھڑی اور ہر ہر ساعت میں ظہور پذیر ہونے والے واقعات عام انسانوں کے فہم اور ادراک سے باہر ہوتے ہیں، لیکن جن کو خداوندِ قدوس نے بصارت و بصیر ت دونوں ہی کی روشنی عطافرمائی ہے وہ خوب سمجھتے ہیں کہ خاصانِ خدا کے سینے علوم ومعرفت کے لیے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں اور ان کے لیے بچپن،جوانی،بڑھاپاکوئی دور کوئی زمانہ رکاوٹ نہیں بن سکتا ۔ (مجد دِ اسلام از مولانا نسیم بستوی مطبوعہ لاہور ص41)
اساتذہ کرام
اعلیٰ حضرت کے اساتذ ہ کی فہرست بہت مختصر ہے:
·         حضر تِ والدِ ماجد مولانا شاہ نقی علی خان (اور ان کے علاوہ صر ف درجہ ذیل پانچ نفوسِ قدسیہ ہیں جن سے آپ کو نسبتِ تلمذ ہے)
·         اعلیٰ حضرت کے وہ استاذ جن سے ابتدائی کتابیں پڑھیں
·         جناب مرزا غلام قادر بیگ صاحب(جن سے آپ نے میزانِ منشعب تک کی تعلیم حاصل کی)
·         حضرت مولانا عبدا لعلی صاحب رامپوری (ان سے اعلیٰ حضرت نے شرح چغمینی کے چند اسباق پڑھے)
·         آپ کے پیر ومرشد حضرت شاہ آلِ رسول مارہروی رضی اللہ تعالیٰ عنہ (آپ سے تصوف و طریقت اور افکا رکی تعلیم حاصل کی )
·         حضر ت سالارِ خاندان برکاتیہ سید شاہ ابوالحسین احمدنوری (ان سے علمِ جفر ،تکسیر اور علمِ تصوف حاصل کئے)
جب آپ زیارتِ حرمین شریفین کے لیے مکتہ المکرمہ حاضر ہوئے تو مندرجہ ذیل تین شیوخ سے بھی سند حدیث و فقہ حاصل فرمائی ۔
·         شیخ احمد بن زین دحلان مکی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ
·         شیخ عبد الرحمن سراجِ مکی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ
·         شیخ حسین بن صالح مکی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ

پونے چودہ سال کی عمر میں پہلا فتویٰ

اعلٰی حضرت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے تیرہ سال دس ماہ چاردن کی عمرمیں رضاعت کے ایک مسئلے کا جواب لکھ کر والدِ ماجد صاحب قبلہ کی خدمت ِ عالی میں پیش کیا ،جواب بالکل دُرست تھا آپ کے والد ماجدنے آپ کے جواب سے آپ کی ذہانت و فراست کا اندازہ کرلیا اور اسی دن سے فتویٰ نویسی کا کام آپ کے سُپر دکر دیا چنانچہ عرصہء دراز کے بعد ایک بار ایک سائل نے آپ سے سوال کیا کہ’’اگر بچے کی ناک میں دودھ چڑھ کر حلق میں اتر جائے تو رضا عت ثابت ہو گی یا نہیں‘‘۔؟
آپ نے جواب دیا’’منہ یا ناک سے عورت کا دودھ بچے کے جوف میں پہنچے گا حر مت ِ رضاعت لائے گا‘‘۔ اور یہ فرمایا یہ وہی فتویٰ ہے جو چودہ شعبان 1286ھ 1869ء میں اس فقیر نے لکھا اور اسی چودہ شعبان میں منصب ِ افتاء عطا ہوا اور اسی تاریخ سے بحمد اللہ تعالیٰ نماز فرض ہوئی اور ولادت 10شوال المکرم 1272ھ بروزشنبہ(ہفتہ) وقتِ ظہر مطابق 14جون 11جیٹھ سد ی 1913ء سمبت بکرمی تو منصب ِ افتاء ملنے کے وقت فقیر کی عمر 13برس 10مہینے 4دن کی تھی جب سے اب تک برابر یہی خد متِ دین جاری ہے والحمد للہ ۔(تذکرہء مشائخ ِ قادریہ رضویہ از مولانا عبد المجتبی رضوی مطبوعہ لاہور ص 395)
مولانا ظفر الدین بہار ی صاحب کے نام ایک مکتوب(محررہ 7شعبان 1336ھ بمطابق 1918) میں اعلیٰ حضرت تحریر فرماتے ہیں:
بحمد للہ تعالیٰ فقیر نے 14شعبان 1286کو 13برس 10مہینے 4دن کی عمر میں پہلا فتویٰ لکھا،اگر سات دن اور زندگی بالخیر ہے تو اس شعبان 1336ھ کو اس فقیر کو فتاویٰ لکھتے ہوئے بفضلہ تعالیٰ پور ے 50سال ہوں گے ، اس نعمت کا شکر فقیر کیا ادا کرسکتا ہے؟ (حیاتِ مولانا احمد رضا خان بریلوی از پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد مطبوعہ کراچی ص50)

مستقل فتویٰ نویسی :

پروفیسر مسعو داحمد صاحب تحر یر فرماتے ہیں:۔
مولانا احمد رضاخان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے تیر ہ سال دس مہینے اور چاردن کی عمر میں 14شعبان 1286ھ کو اپنے والد مولانا نقی علی خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی نگرانی میں فتویٰ نویسی کا آغا ز کیا ، سات برس بعد تقریباً 1293ھ میں فتویٰ نویسی کی مستقل اجازت مل گئی۔پھر جب 1297میں مولانا نقی علی خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا انتقال ہوا تو کلی طور پر مولانا بریلوی فتویٰ نویسی کے فرائض انجام دینے لگے ۔ (حیاتِ مولانا احمد رضا خان بریلوی از پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد مطبوعہ کراچی ص50)

شادی

تعلیم مکمل ہوجانے کے بعد اعلیٰ حضرت قبلہ کی شادی کا نمبر آیا ۔آپ کا نکاح سن 1291ھ میں جناب ِ شیخ فضل حسین صاحب (رامپور) کی صاحبزادی’’ارشاد بیگم‘‘سے ہوا ،یہ شادی مسلمانوں کے لیے ایک شرعی نمونہ تھی ،مکان تو مکان آپ نے لڑکی والے کے یہاں بھی خبر بھجوا دی تھی کہ کوئی بات شریعتِ مطہرہ کے خلاف نہ ہو ،چنانچہ اُن حضرات نے غلط رسم ورواج سے اتنا لحاظ کیا کہ لوگ ان کی دین داری اور پاسِ شرع کے قائل ہو گئے اور بڑی تعریف کی۔(مجد د اسلام از علامہ نسیم بستوی مطبوعہ لاھور ص45)

اہلیہء محترمہ ارشادبیگم :

مولانا حسنین رضا خان صاحب’’سیر تِ اعلیٰ حضرت‘‘میں لکھتے ہیں :
یہ ہماری محترمہ اماں جان رشتہ میں اعلیٰ حضرت کی پھوپھی زادی تھیں ۔ صوم و صلوٰۃ کی سختی سے پابند تھیں ۔ نہایت خوش اخلاق،بڑی سیر چشم، انتہائی مہمان نواز،نہایت متین و سنجیدہ بی بی تھیں۔ اعلیٰ حضرت کے یہاں مہمانوں کی بڑی آمد ورفت تھی ،ایسا بھی ہوا ہے کہ عین کھانے کے وقت ریل سے مہمان اترآئے اور جو کچھ کھاناپکنا تھا وہ سب پک چکا تھا اب پکانے والیوں نے ناک بھوں سمیٹی آپ نے فوراً مہمانوں کے لیے کھانا اُتار کر باہر بھیج دیا اور سارے گھر کے لیے دال چاول یا کھچڑی پکنے کو رکھوا دی گئی کہ اس کا پکنا کوئی دشوار کام نہ تھا۔ جب تک مہمانوں نے باہر کھانا کھایا گھروالوں کے لئے بھی کھانا تیار ہوگیا۔ کسی کو کانوں کان خبر بھی نہ ہوئی کہ کیا ہوا۔ اعلیٰ حضرت کی ضروری خدمات وہ اپنے ہاتھ سے انجام دیتی تھیں ۔ خصوصاً اعلیٰ حضرت کے سر میں تیل ملنا یہ اُن کا روز مرہ کا کام تھا،جس میں کم وبیش آدھا گھنٹہ کھڑا رہنا پڑتا تھا اور اس شان سے تیل جذب کیا جاتا تھا کہ اُن کے لکھنے میں اصلاً فرق نہ پڑے ،یہ عمل اُن کا روزانہ مسلسل تاحیاتِ اعلیٰ حضرت برابر جاری رہا۔سارے گھر کا نظم اور مہمان نوازی کا عظیم بار بڑی خاموشی اور صبر و استقلا ل سے برداشت کر گئیں ۔ اعلیٰ حضرت قبلہ کے وصال کے بعد بھی کئی سال زندہ رہیں ،مگر اب بجز یاد ِالٰہی کے انھیں اور کوئی کام نہ رہاتھا۔
اعلیٰ حضرت کے گھر کے لیے اُن کا انتخاب بڑا کامیاب تھا،رب العزت نے اعلیٰ حضرت قبلہ کی دینی خدمات کے لیے جو آسانیاں عطا فرمائی تھیں اُن آسانیوں میں ایک بڑی چیز اماں جان کی ذات گرامی تھی۔ قرآنِ پاک میں رب العزت نے اپنے بندوں کو دعائیں اور مناجاتیں بھی عطا فرمائی ہیں ۔تاکہ بندوں کو اپنے رب سے مانگنے کا سلیقہ آجائے ان میں سے ایک دُعا یہ بھی ہے:
ربَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الۡاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ
ترجمہ کنزالایمان:۔اے ربّ ہمارے ہمیں دنیا میں بھلائی دے اور ہمیں آخرت میں بھلائی دے اور ہمیں عذاب دوزخ سے بچا۔ (سورۃ بقرہ آیت 201)
تو دُنیا کی بھلائی سے بعض مفسرین نے ایک پاکدامن، ہمدرد اور شوہر کی جاں نثار بی بی مراد لی ہے ۔ ہماری اماں جان عمر بھر اس دُعا کا پورا اثر معلوم ہوتی رہیں، اپنے دیوروں اور نندوں کی اولاد سے بھی اپنے بچوں جیسی محبت فرماتی تھیں گھرانے کے اکثربچے انھیں اماں جان ہی کہتے تھے۔ اب کہاں ایسی پاک ہستیاں۔رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہا (سیرتِ اعلیٰ حضرت از مولانا حسنین رضا خان برکاتی پبلیشرز ص53)
اولاد ِامجاد
اعلیٰ حضرت رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کو اللہ عزوجل نے سات اولادیں عطا فرمائیں ،دو صاحبزادے اور پانچ صاحبزادیاں۔
صاحبزادوں کے نام یہ ہیں:
·         حجۃ الاسلام مولانا محمد حامد رضا خان رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ
·         مفتیٔ اعظم ِہند مولانا محمد مصطفی رضا خان رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ
اور صاحبزادیوں کے نام یہ ہیں۔
·         مصطفائی بیگم
·         کنیزِ حسن
·         کنیزِ حسین
·         کنیزِ حسنین
·         مرتضائی بیگم
فتویٰ اور تقویٰ
·         جس فقیہ کے پاس فتوے اتنی کثرت سے آتے ہوں کہ اُس کے اوقات جوابِ مسائل میں مصروف ہوں،اُس سے جماعت جو واجب ہے اور سنن ِ موکدہ جو قریب بواجب ہیں معاف ہوجاتی ہیں، لیکن اس کثرت ِ فتویٰ کے باوجود ہمیشہ آپ نے جماعت کی پابندی فرمائی اورکبھی بھی سنن ِ موکدہ نہ چھوڑیں۔
·         جو شخص بیماری میں اتنا لاغر ہو کہ مسجد نہیں پہنچ سکتا ،یا جا سکتا ہے لیکن مرض بڑھ جائے گا ،اُس کے لیے جماعت چھوڑنا جائز ہے مگر اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آخری بیماری جس میں وصال فرمایا، حال یہ تھا کہ مسجد تک از خود نہیں جا سکتے تھے پھر بھی فوتِ جماعت گوارا نہ فرمائی ۔اِن ہی دنو ں میں’’فتاویٰ رضویہ شریف‘‘ میں ایک سائل کو جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:’’آپ کی رجسٹری 15ربیع الآخر شریف کو آئی ۔میں 12ربیع الاول شریف کی مجلس پڑھ کر ایسا علیل ہوا کہ کبھی نہ ہواتھا۔ میں نے وصیت نامہ بھی لکھوا دیا تھا ۔ آج تک یہ حالت ہے کہ دروازہ سے ‘‘متصل مسجد ہے ،چارآدمی کرسی پربٹھا کر مسجد لے جاتے اور لاتے ہیں ۔
·         شیخ ِفانی جو روزہ سے عاجزہو اُس کے لیے جائز ہے کہ روزہ نہ رکھے اورفدیہ ادا کرے۔ یا جو سخت بیمار ہے کہ طاقتِ روزہ نہیں، اس کے لیے قضاء جائز ہے ۔زندگی کے آخری سالوں میں اعلیٰ حضرت کا یہی حال تھا کہ بریلی میں روزہ نہیں رکھ سکتے تھے ۔لیکن اُنہوں نے اپنے لیے یہ فتویٰ صادر فرمایا کہ مجھ پر روزہ فرض ہے کیونکہ نینی تال (ایک پہاڑی علاقہ) میں ٹھنڈ ک کے باعث روزہ رکھا جا سکتاہے اور میں وہاں جا کر قیام کرنے پر قادر ہوں لہٰذا مجھ پر روزہ فرض ہے ۔
·         باقاعدہ ٹوپی کرتا ،پاجامہ،یا تہبند پہن کر نماز بلاشبہ جائز ہے۔تنزیہی کراہت بھی نہیں، ہاں عمامہ بھی ہو تو یقینا مستحب ہے ۔ اعلیٰ حضرت باوجودیکہ بہت حار(گرم) مزاج تھے۔ مگر کیسی ہی گرمی کیوں نہ ہو، ہمیشہ دستار اور انگرکھے کے ساتھ نماز پڑھا کرتے تھے۔ خصوصاً فرض تو کبھی صرف ٹوپی اور کُرتے کے ساتھ ادا نہ کیے۔
(امام احمد رضا اور ردبدعات ومنکرات از علامہ یسین اختر مصباحی مطبوعہ لاہور ص62)

مسجد کا ادب و احترام

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے معمولات میں سے یہ بھی ہے کہ
 آپ مساجد کا بہت ادب و احترام فرمایا کرتے ،جس کی چند جھلکیاں درجہ ذیل سطور میں پیش کی جاتی ہیں :

درمیانی دروازے سے داخل ہوتے

جب بھی مسجد میں تشریف لاتے ہمیشہ وسطی در سے داخل ہوا کرتے ،اگرچہ آس پاس کے درواز وں سے داخل ہونے میں سہولت ہی کیوں نہ ہو،بعض اوقات اورادو وظائف مسجد شریف ہی میں بحالتِ خرام (چلتے ہوئے)شمالاً جنوباً پڑھا کرتے مگر منتہائے فرشِ مسجد سے واپسی ہمیشہ قبلہ رو ہو کر ہی ہوتی،کبھی پشت کرتے ہوئے کسی نے نہ دیکھا ۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت از مولانا ظفر الدین بہاری مطبوعہ لاہور ص,261)

ہر قدم دایاں

جناب سید ایوب علی صاحب کا بیان ہے کہ ایک روز فریضہء فجر ادا کرنے کے لیے خلاف ِمعمول کسی قدر حضور(اعلیٰ حضرت) کو دیر ہو گئی ، نمازیوں کی نگاہیں بار بار کاشانہء اقدس کی طرف اٹھ رہی تھیں کہ عین انتظار میں جلدی جلدی تشریف لائے، اُس وقت برادرم قناعت علی نے اپنا یہ خیال مجھ سے کہا کہ اس تنگ وقت میں دیکھنا یہ ہے کہ حضور دایاں قدم مسجد میں پہلے رکھتے ہیں یا بایاں ۔ مگرقربان اُس ذاتِ کریم کے کہ دروازہ ء مسجد کے زینے پر جس وقت قدمِ مبارک پہنچتا ہے تو سیدھا، توسیعی فرشِ مسجد پر قدم پہنچتا ہے تو سیدھا، قدیمی فرش ِمسجد پر قدم پہنچتا ہے تو سیدھا ، آگے صحن مسجد میں ایک صف بچھی تھی اس پر قدم پہنچتا ہے تو سیدھا، اور اسی پر بس نہیں ہر صف پر تقدیم سیدھے ہی قدم سے فرمائی یہاں تک کہ محراب میں مصلیٰ پر قدمِ پاک سیدھا ہی پہنچتا ہے۔

مسجد میں پورا قدم نہ رکھتے

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرشِ مسجد پر ایڑھی اور انگوٹھے کے بل چلا کرتے تھے اوردوسروں کو بھی نصیحت فرمایا کرتے کہ مسجد کے فرش پر چلتے ہوئے آواز پیدا نہیں ہونی چاہیے ۔ (حیات ِ اعلیٰ حضرت از مولانا ظفر الدین بہاری مکتبہ نبویہ لاہور ص862)

حیرت انگیز قُوتِ حافظہ

حضرت ابو حامِد سیِّد محمد محدِّث کچھوچھوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہتکمیلِ جواب کے لیے جُزئِیّاتِ فِقْہ کی تلاشی میں جو لوگ تھک جاتے وہ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت میں عَرض کرتے اور حوالہ جات طلب کرتے تو اُسی وقت آپ فرمادیتے کہ “رَدُّالمُحْتَار”جلد فُلاں کے فُلاں صَفَحہ پر فُلاں سَطر میں اِن الفاظ کے ساتھ جُزئِیّہ موجود ہے۔”دُرِّ مُخْتَار” کے فُلاں صَفَحے پر فُلاں سَطر میں عبارت یہ ہے۔ “عالمگیری”میں بقید جلد و صَفَحہ وَسَطر یہ الفاظ موجود ہیں۔ ہِندیہ میں خَیریہ میں “مَبْسُوط” میں ایک ایک کتاب فِقہ کی اصل عبارت مع صَفَحہ وسَطر بتادیتے اور جب کتابوں میں دیکھا جاتا تو وُہی صَفَحہ وسَطر و عبارت پاتے جو زَبانِ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا تھا۔ اِس کو ہم زِیادہ سے زِیادہ یہی کہہ سکتے ہیں کہ خُداداد قوّتِ حافِظہ سے چودہ سو سال کی کتابیں حِفظ تھیں۔ (حیاتِ اعلٰی حضرت ، ج ۱، ص ۲۱۰ ،مکتبۃ المدینہ ، بابُ المدینہ کراچی)

صرف ایک ماہ میں حِفْظِ قراٰن

حضرتِ جناب سیِّد ایوب علی صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا بیان ہے کہ ایک روز اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ بعض ناواقِف حضرات میرے نام کے آگے حافِظ لکھ دیا کرتے ہیں، حالانکہ میں اِس لقب کا اَہل نہیں ہوں۔ سَیِّدایّوب علی صاحِب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اسی روز سے دَور شُروع کردیا جس کا وَقْت غالِباً عشاء کا وُضو فرمانے کے بعد سے جماعت قائم ہونے تک مخصوص تھا۔ روزانہ ایک پارہ یاد فرمالیا کرتے تھے، یہاں تک کہ تیسویں روزتیسواں پارہ یاد فرمالیا۔ایک موقعہ پر فرمایا کہ میں نے کلامِ پاک بالتَّرتیب بکوشِش یاد کرلیا اور یہ اِس لیے کہ ان بندگانِ خُداکا (جو میرے نام کے آگے حافِظ لکھ دیا کرتے ہیں) کہنا غلط ثابت نہ ہو۔ (حیاتِ اعلٰی حضرت، ج۱، ص ۲۰۸، مکتبۃ المدینہ بابُ المدینہ کراچی)

عِشقِ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہٖ و سلّم

آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سراپا عشقِ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہٖ و سلّم کا نُمُونہ تھے، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا نعتیہ کلام (حدائقِ بخشش شریف) اس اَمرکا شاہد ہے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی نوکِ قلم بلکہ گہرائی قَلب سے نِکلا ہوا ہر مِصرَعَہ آپ کی سروَرِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہٖ و سلّم سے بے پایاں عقیدت و مَحَبَّت کی شہادت دیتا ہے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کبھی کسی دُنیوی تاجدار کی خوشامد کے لیے قصیدہ نہیں لکھا، اس لیے کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے حضور تاجدارِ رسالت صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہٖ و سلّم کی اِطاعت و غلامی کو دل وجان سے قبول کرلیا تھا۔ اس کا اظہار آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے ایک شعر میں اس طرح فرمایا:
انہیں جانا انہیں مانا نہ رکھا غیر سے کام
لِلّٰہِ الْحَمْد میں دنیا سے مسلمان گیا
(تذکرہٗ امام احمد رضا ص۹ مطبوعہ مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی)

سونے کا مُنْفَرِد انداز

سوتے وَقت ہاتھ کے اَنگوٹھے کو شہادت کی اُنگلی پر رکھ لیتے تاکہ اُنگلیوں سے لفظ “اﷲ”بن جائے ۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ پیر پھیلا کر کبھی نہ سوتے، بلکہ دا ہنی کروٹ لیٹ کر دونوں ہاتھوں کو ملا کر سر کے نیچے رکھ لیتے اورپاؤں مبارَک سمیٹ لیتے۔ اس طرح جسم سے لفظ”محمّد” بن جاتا۔ (حیات اعلٰی حضرت ، ج ۱ ،ص ۹۹، مکتبۃ المدینہ بابُ المدینہ کراچی)
یہ ہیں اﷲ کے چاہنے والوں اور رسولِ پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہٖ و سلّم کے سچے عاشِقوں کی ادائیں۔
نامِ خدا ہے ہاتھ میں نامِ نبی ہے ذات میں
مُہرِ غلامی ہے پڑی، لکھے ہوئے ہیں نام دو
آداب ِ حدیث پاک
ہم جس طرح اسلافِ صالحین سے آدابِ حدیث شریف کے متعلق پڑھتے سنتے آرہے ہیں اعلیٰ حضرت اس کی عملی تفسیرتھے،حدیثِ پاک کے ادب کے حوالے سے چند نمونے ملاحظہ ہوں:
·         آپ درسِ حدیث بحالت قعود(دو زانوں بیٹھ کر) دیا کرتے ۔
·         احادیث کریمہ بغیر وضونہ چھوتے اور نہ پڑھایا کرتے ۔
·         کتب ِ احادیث پر کوئی دوسری کتا ب نہ رکھتے۔
·         حدیث کی ترجمانی فرماتے ہوئے کوئی شخص درمیانِ حدیث اگر بات کاٹنے کی کوشش کرتا تو آپ سخت ناراض ہو جاتے،
یہاں تک کہ جوش سے چہرہء مبارک سرخ ہو جاتا۔
·         حدیث پڑھاتے وقت دوسرے پاؤں کو زانوپر رکھ کر بیٹھنے کو ناپسند فرماتے  ۔
(امام احمد رضا اور درسِ ادب از مفتی فیض احمد اُویسی مطبوعہ مکتبہ اہلِ سنت فیصل آباد ص 16

مدینہءپاک کی چڑیوں کا ادب

مولانا فیض احمد اویسی صاحب اعلیٰ حضرت کے عشق و ادب پر کچھ یوں تبصرہ کرتے ہیں:
پارہ ء دل بھی نہ نکلا تم سے تحفے میں رضا
اُن سگانِ کو سے اِتنی جان پیاری واہ واہ
دیارِ حبیب صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کے کتوں کو دل کا نذرانہ پیش کرنے کے علاوہ امام احمد رضا شہر ِحبیب صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کی چڑیوں کو دعوتِ شوق پیش کرتے ہیں کہ:
صحرائے مدینہ کی چڑیو! آؤ میں تمہاری بلائیں لوں ۔تمہارے لئے اپنے جسم کا پنجرہ بناؤں ۔اس میں تمہارے بیٹھنے کے لئے اپنے دونینوں کی جگہ بناؤں۔تمہارے کھانے کے لیے اپنے کلیجے کا چوگا بنا کر حاضر کروں۔اگر پانی مانگو تو آنسوؤں سے اپنی ہتھیلیاں بھرکر پیش کر وں۔اوراگر تمہیں دھوپ کی شدت سے اذیت ہو تو تم پر اپنے بالوں کا سایہ کردوں ۔سبحان اللہ بزبان ہندی شہر حبیب صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کی چڑیوں کی دعوت کا منظر ملاحظہ ہو:
میں بھارو چھنے من کا پنجر ابناؤں
نینن کی رکھ دیوں د ورکریّاں
میں اپنے کر کر جوا کا چوگا بناؤں
جو جل مانگو روروبھر دیوں تلیّاں
واہوماں تمکا جوگھا مے ستاوے
کیسن کی کردیوں تم پر چھیّاں
عاشق اور پھر عشق حبیب خداصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کی شان کیا ہے ۔ امام احمد رضا کو قدرت نے کتنی فیاضی کے ساتھ یہ دولتِ عشق عطا فرمائی ہے۔ (امام احمد رضا اور درسِ ادب از مفتی فیض احمد اُویسی مطبوعہ مکتبہ اہلِ سنت فیصل آباد ص 24)

تعظیمِ ساداتِ کرام

اعلیٰ حضرت نےسید صاحب کے ہاتھ چوم لئے

جناب سید ایوب علی صاحب کا بیان ہے کہ:
فقیر اور برادرم سید قناعت علی کے بیعت ہونے پر بموقع ِعید الفطر بعد ِنماز دست بوسی کے لیے عوام نے ہجوم کیا، مگر جس وقت سید قناعت علی دست بوس ہوئے سید ی اعلیٰ حضرت نے اُن کے ہاتھ چوم لئے ،یہ خائف ہوئے اور دیگر مقربان ِ خاص سے تذکرہ کیا تو معلوم ہوا کہ آپ کا یہی معمول ہے کہ بموقع عیدین دوران ِمصافحہ سب سے پہلے جو سید صاحب مصافحہ کرتے ہیں ۔ آپ اس کی دست بوسی فرمایا کرتے ہیں۔ غالباً آپ موجود سادات کرام میں سب سے پہلے دست بوس ہوئے ہوں گے ۔
(حیاتِ اعلیٰ حضرت از مولانا ظفرالدین بہاری مطبوعہ مکتبہ نبویہ لاہور ص 286)

سادات کودوگناحصّہ عطا فرماتے

جناب سید ایوب علی صاحب اعلیٰ حضر ت کی محبتِ سادات کا ایک اورواقعہ یوں بیان کرتے ہیں:
اعلیٰ حضر ت کے یہاں مجلس ِ میلاد مبارک میں سادات کرام کو بہ نسبت
اور لوگوں کے دوگنا حصہ بروقت تقسیم شیرینی ملا کرتا تھا اور اسی کا اتباع اہلِ خاندا ن بھی کرتے ہیں ۔
ایک سال بموقع بارہویں شریف ماہ ربیع الاول ہجو م میں سید محمود جان صاحب کو خلاف ِمعمول اکہر ا(ایک) حصہ یعنی دو تشتریاں شیر ینی کی بلا قصد پہنچ گئیں ۔موصوف خاموشی کے ساتھ حصہ لے کر سیدھے حضورِ اعلیٰ حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ حضور کے یہاں سے آج مجھے عام حصہ ملا ۔ فرمایا: سید صاحب تشریف رکھئے !اور تقسیم کرنے والے کی فوراً طلبی ہوئی اور سخت اظہار ناراضی فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا :ابھی ایک سینی(بڑی پلیٹ) میں جس قدر حصے آسکیں بھر کر لاؤ چنانچہ فوراً تعمیل ہوئی ۔ سید صاحب نے عرض بھی کیا کہ حضور میرا یہ مقصد نہ تھا ،ہاں دل کو ضرور تکلیف ہوئی جسے برداشت نہ کر سکا۔ فرمایا سید صاحب!یہ شیرینی تو آپ کو قبول کرنا ہوگی ورنہ مجھے سخت تکلیف رہے گی۔ اور شیر ینی تقسیم کرنے والے سے کہا کہ ایک آدمی کو سید صاحب کے ساتھ کر دو جو اس خوان کو ان کے مکان پر پہنچا آئے انہوں نے فوراً تعمیل کی۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت از مولانا ظفرالدین بہاری مطبوعہ مکتبہ نبویہ لاہور ص 288)

سید صاحب کے گھر جا کر بچے کو دم کیا

قاری احمد صاحب پیلی بھیتی بیان کرتے ہیں کہ:
اعلیٰ حضرت’’مدرسۃ الحدیث پیلی بھیت‘‘میں قیام فرما ہیں،سید شوکت علی صاحب خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرتے ہیں کہ حضرت! میرا لڑکا سخت بیمار ہے ،تمام حکیموں نے جواب دے دیا ہے ، یہی ایک بچہ ہے صبح سے نزع کی حالت طاری ہے ،سخت تکلیف ہے ،میں بڑی اُمید کے ساتھ آپ کی خدمت میں آیا ہوں ۔
اعلیٰ حضرت سید صاحب کی پریشانی سے بہت متاثر ہوئے اور خود اُن کے ہمراہ مریض کو دیکھنے کے لیے گئے ، مریض کو ملاحظہ فرمایا پھر سر سے پیر تک ہاتھ پھیر پھیر کر کچھ دُعائیں پڑھتے رہے ، سید صاحب فرماتے ہیں کہ حضرت کے ہاتھ رکھتے ہی مریض کو صحت ہونا شروع ہو گئی اور صبح تک وہ مرتا ہوا بچہ اعلیٰ حضرت کی دعا کی برکت سے بالکل تندرست ہو گیا۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت از مولانا ظفر الدین بہاری مکتبہ نبویہ لاہور ص978)

اعلٰی حضرت اور کنز الا یمان

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی تفسیر ی مہارت کا ایک شاہکار آپ کا ترجمہ قرآن ’’کنزالایمان ‘‘ بھی ہے جس کے بارے میں محدثِ اعظم ہند سید محمد محدث کچھوچھوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں :
’’علم ِقرآن کا اندازہ صر ف اعلیٰ حضرت کے اس اردو ترجمہ سے کیجئے جو اکثر گھروں میں موجود ہے اور جس کی مثال ِسابق نہ عربی میں ہے، نہ فارسی میں ہے ، نہ اردو زبان میں ہے ، اور جس کا ایک ایک لفظ اپنے مقام پر ایسا ہے کہ دوسرا لفظ اُس جگہ لایا نہیں جا سکتا جو بظاہر محض ترجمہ ہے مگر در حقیقت وہ قرآن کی صحیح تفسیر اور اردو زبان میں قرآن(کی روح)ہے 
(جامع الاحادیث جلد 8از مولانا حنیف خان رضوی مطبوعہ مکتبہ شبیر برادرز لاہور ص 101)
پھر یہ ترجمہ کس طرح معرض ِ وجو د میں آیا، ایسے نہیں جس طرح دیگر مترجمین عام طور سے گوشہ تنہائی میں بیٹھ کر متعلقہ کتابوں کا انبار لگا کر اور ترجمہ تفسیر کی کتابیں دیکھ دیکھ کر معانی کا تعین کرتے ہیں بلکہ اعلیٰ حضرت کی مصروف ترین زندگی عام مترجمین کی طرح ان تمام تیاریوں اور کامل اہتمامات کی متحمل کہا ں تھی ۔
’’سوانح امام احمد رضا ‘‘ میں مولانا بد ر الدین قادری صاحب تحریر فرماتے ہیں :
’’صدر الشریعہ‘‘ حضرت علامہ مولانا محمد امجد علی اعظمی نے قرآن مجید کے صحیح ترجمہ کی ضرورت پیش کرتے ہوئے امام احمد رضا سے ترجمہ کر دینے کی گزارش کی ۔ آپ نے وعدہ فرمالیا لیکن دوسرے مشاغل ِ د ینیہ کثیرہ کے ہجوم کے باعث تاخیر ہوتی رہی ،جب حضرت ’’صدر الشریعہ‘‘کی جانب سے اصرار بڑھا تو اعلیٰ حضرت نے فرمایا: چونکہ ترجمہ کے لیے میرے پاس مستقل وقت نہیں ہے اس لئے آپ رات میں سوتے وقت یا دن میں قیلولہ کے وقت آجایا کریں ۔چنانچہ حضرتِ ’’صدر الشریعہ‘‘ ایک دن کاغذ قلم اور دوات لے کر اعلیٰ حضرت کی خدمت میں حاضر ہوگئے اور یہ دینی کام بھی شروع ہو گیا
آپ ربانی طور پر آیات کا ترجمہ بولتے اور صدر الشریعہ لکھتے رہتے:
ترجمہ کا طریقہ یہ تھا کہ اعلیٰ حضرت زبانی طور پر آیات ِکریمہ کا ترجمہ بولتے جاتے اور’’ صدر الشریعہ‘‘ اس کو لکھتے رہتے ،لیکن یہ ترجمہ اس طرح پر نہیں تھا کہ آپ پہلے کتب ِتفسیر و لغت کو ملاحظہ فرماتے ،بعدہٗ آیت کے معنی کو سوچتے پھر ترجمہ بیان کرتے، بلکہ آپ قرآن مجید کا فی البدیہہ برجستہ ترجمہ زبانی طور پر اس طرح بولتے جاتے جیسے کوئی پختہ یادداشت کا حافظ اپنی قوتِ حافظہ پر بغیر زور ڈالے قرآن شریف روانگی سے پڑھتا جاتا ہے، پھر جب حضرتِ’’ صدر الشریعہ‘‘ اور دیگر علمائے حاضر ین اعلیٰ حضرت کے ترجمے کا کتب ِتفاسیر سے تقابل کرتے تو یہ دیکھ کر حیران رہ جاتے کہ آ پ کا یہ برجستہ فی البدیہہ ترجمہ تفاسیر ِمعتبرہ کے بالکل مطابق ہے۔
الغرض اِسی قلیل وقت میں ترجمہ کا کام ہوتا رہاپھر وہ مبارک ساعت بھی آگئی کہ حضرتِ ’’صدر الشریعہ‘‘ نے اعلیٰ حضرت سے قرآن مجید کا مکمل ترجمہ کر والیا اور آپ کی کوششِ بلیغ کی بدولت دنیائے سنیت کو’’ کنز الایمان ‘‘کی دولت ِعظمیٰ نصیب ہوئی ۔ (انوارِ رضا مطبوعہ ضیاء القرآن لاہور ص 81-82)
کاش وہ تفسیر لکھی جاتی
’’صدر الشریعہ‘‘ مولانا محمد امجد علی اعظمی صاحب فرماتے ہیں : 
ترجمہ کے بعد میں نے چاہا تھا کہ اعلیٰ حضرت اس پر نظر ثانی فرمالیں اور جا بجا فوائد تحریر کر دیں۔ چنانچہ بہت اصر ار کے بعد یہ کام شروع کیا گیا، دو تین روز تک کچھ لکھا گیا، مگر جس انداز سے لکھوانا شرو ع کیا اس سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ یہ قرآن پاک کی بہت بڑی تفسیر ہو گی ۔کم از کم دس بارہ جلد وں میں پوری ہو گی۔
اس وقت خیال پیدا ہو اکہ اتنی مبسوط تحریر کی کیا حاجت ؟ ہر صفحہ میں کچھ تھوڑی تھوڑی باتیں ہونی چاہئیں جو حاشیہ پر درج کر دی جائیں لہٰذا یہ تحریر جو ہو رہی تھی بند کر دی گئی اور دوسری(تحریر) کی نوبت نہ آئی ۔ کاش وہ مبسوط تحریر جو اعلیٰ حضرت لکھوا رہے تھے اگر پوری نہیں تو دو ایک پارے تک ہی ہوتی،جب بھی شائقین ِعلم کے لیے وہ جواہر پارے بہت مفید اور کار آمد ہوتے ۔ (سیر ت صدر الشریعہ از مولانا عطا ء الرحمن قادری مطبوعہ مکتبہ اعلیٰ حضرت لاہور ص 175)
مولانا محمدحنیف خان رضوی صاحب نے اعلیٰ حضرت کی کتب میں سے انتخاب کر کے چھ سو آیات پر مشتمل تفسیر ی مباحث جمع کر کے شائع کر دئیے ہیں جو کہ بڑے سائز کی تین جلدوں(جامع الاحادیث جلد 8-9-10) پر محیط ہیں،جن کو پڑھ کر منصف مزاج حضرات اس بات کا ضرور اعتراف کریں گے کہ جو شخصیت ان آیات کی اس طرح محققانہ انداز میں تفسیر کرسکتی ہے وہ بلاشبہ پور ے قرآن کی تفسیر پر قادرتھی اور تمام مضامینِ قرآن اُس کے پیش نظر تھے ۔

مستقل فتویٰ نویسی

مولانا احمد رضاخان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے تیرہ سال دس مہینے اور چاردن کی عمر میں 14شعبان 1286ھ کو اپنے والد مولانا نقی علی خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی نگرانی میں فتویٰ نویسی کا آغاز کیا،سات برس بعد تقریباً 1293ھ میں فتویٰ نویسی کی مستقل اجازت مل گئی۔پھر جب 1297میں مولانا نقی علی خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا انتقال ہوا تو کلی طور پر مولانا بریلوی فتویٰ نویسی کے فرائض انجام دینے لگے۔ (حیاتِ مولانا احمد رضا خان بریلوی از پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد مطبوعہ کراچی ص50)

ایک سو پانچ علوم پر مہارت

سید ریاست علی قادری صاحب نے تو اپنے مقالہ ’’امام احمد رضا کی جدید علوم وفنون پر دسترس‘‘ میں جدید تحقیق و مطالعہ کی روشنی میں ثابت کیا ہے کہ:
’’اعلیٰ حضر ت کو ایک سو پانچ علوم وفنون پر دسترس و مہارت ِ تامہ و کاملہ حاصل تھی ۔ ‘‘
وہ لکھتے ہیں :امام احمد رضا نے ایک ہزار کے لگ بھگ کتب و رسائل تصنیف کئے ،جن میں 105سے زائد علوم کا احاطہ کیا گیاہے۔ اس کے علاوہ فقہ کی سینکڑوں کتابوں پر حواشی لکھے جو ہزاروں صفحات پر پھیلے ہوئے ہیں۔ کثرت تصانیف اور متنوع علوم پر انہیں جو فوقیت حاصل تھی اس کی نظیر نہیں ملتی۔
راقم الحروف(سید ریاست علی قادری) ’’کَنزُالعِلم ‘‘ کے نام سے ایک کتاب شائع کرنا چاہتا ہے، جس میں 105علوم و فنون پر تبصرہ و تعارف پیش کیا جائے گا جس کی تفصیل یہ ہے :
(1)علم القرآن(2)قرأت(3)تجوید(4)تفسیر(5)علم حدیث (6)تخریج(7)فقہ (8)علم الکلام(9)علم العقائد(10)علم البیان (11)علم المعانی (12)علم المناظرہ (13)فتویٰ نویسی (14)سیرت نگاری(15)فلسفہ (16)منطق(17)تنقیدات(18)فضائل و مناقب (19)ادب (20)شاعری(21)نثر نگاری (22)حاشیہ نگاری(23)اسماء الرجال(24)علم الاخلاق (25)روحانیت (26)تصوف (27)سلوک(28)تاریخ و سیر(29)جدول (30)صرف و نحو (31)بدیع (32)علم الانساب (33)علم الفرائض (34)ردات (35)پندو نصائح (36) مکتوبات(37)ملفوظات (38)خطبات (39)جغرافیہ (40)تجارت (41)شماریات (42)صوتیات (43)مالیات (44)اقتصادیات (45)معاشرت (46)طبعیات (47)معاشیات (48)ہیئت (49)کیمیا (50)معدنیات (51)فلکیات (52)نجوم (53)جفر (54)ارضیات (55)تعلیم و تعلم (56)علم الحساب (57)زیجات (58)زائر چہ (59)تعویذات (60)طب (61)ادویات (62)لسانیات (63)رسم الخط (64)جر ح و تعدیل (65)ورد و اذکار (66)ایمانیات (67)تکسیر (68)توقیت (69)اوفاق (70)علم ریاضی (71)بنکاری (72)زراعت(73)تاریخ گوئی (74)سیاسیات (75)علم الاوقات (76)ردِّموسیقی (77)قانون (78)تشریحات (79)تحقیقات (80)علم الادیان (81)ماحولیات (82)علم الایام (83)تعبیر (84)عروض و قوانی (85)علم البر والبحر (86)علم الاوزان (87)حکمت (88)نقد ونظر (89)تعلیقات (90)موسمیات (91)شہریات (92)علم المناظر (93)نفسیات (94)صحافت (95)علم الاموال (96)عملیات (97)علم الاحکام (98)علم النور(99)ما بعد الطبعیات (100)عمرانیات (101)علم ِ رمل (102)لغت (103)استعارہ (104)حیاتیات (105)نباتات اور بے شما ر دوسرے علوم ممکن ہے کہ بعض اہل نقد و نظر کو فاضل مقالہ نگار کی مذکور ہ کی گئی تحقیق مبالغہ آمیز یا معتقدانہ معلوم ہو مگر حقیقت یہ ہے کہ فاضل مقالہ نگار کی تحقیق میں ذرا بھی مبالغہ یا اعتقادی عنصر کا دخل نہیں اس لئے کہ اگر فاضل بریلوی کے تبحر علمی اور علوم پر ان کی مہارت و دسترس کے بارے میں تحقیق سے کام لیا جائے تو مذکورہ تعداد میں اور اضافہ کیا جاسکتا ہے،بلکہ فاضل بریلوی کی علوم پر دسترس و گرفت کا موضوع خود اتناوسیع ہے کہ جو مستقل طورسےتحقیق طلب ہے ۔
(امام احمد رضا کی نعتیہ شاعری از ڈاکٹر سراج احمد بستوی مطبوعہ فرید بک سٹال لاہورص59تا64)

چھ گھنٹے سورہء والضُّحیٰ پر بیان

سید اظہر علی صاحب (ساکن محلہ ذخیر ہ )کا بیان ہے کہ:
ایک مرتبہ اعلیٰ حضرت حضر ت محب الرسول مولانا شاہ عبد القادر صاحب کے عرس شریف میں بدایون تشریف لے گئے ،وہاں 9بجے صبح سے 3بجے دن تک کامل چھ گھنٹے سورہء والضحیٰ پر حضور کا بیان ہوا۔
(دوران ِ بیان اعلیٰ حضرت نے)فرمایاکہ:’’اسی سورۃء مبارکہ کی کچھ آیاتِ کریمہ کی تفسیر میں 80جز (تقریباً چھ سو صفحات )رقم فرما کر چھوڑ دیا کہ اتنا وقت کہاں سے لاؤں کہ پورے کلام پاک کی تفسیر لکھ سکوں ‘‘۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت از مولانا ظفر الدین بہاری مکتبہ نبویہ لاہور ص177)

علمُ الحدیث

اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ جس طرح علم التفسیر میں مہارت ِ تامہ رکھتے تھے اسی طرح علم الحدیث میں بھی درجہء امامت پرفائز تھے ۔ مولانا محمد احمدمصباحی صاحب تحریر فرماتے ہیں:
امام احمد رضا بلند پایہ محدث تھے،علمِ حدیث پر ان کو بڑا تبحر حاصل تھا اور ان کا مطالعہ بہت وسیع تھا چنانچہ جب آپ سے پوچھا گیا کہ حدیث کی کتابوں میں کون کون سی کتابیں پڑھی یا پڑھائی ہیں توآپ نے یہ جواب دیا:
پچاس سے زائد کتبِ حدیث میرے درس و تدریس و مطالعہ میں رہیں :
’’مسند امام اعظم، مؤطا امام محمد، کتا ب الآثار، امام طحاوی، مؤطاامام مالک، مسند ِامام شافعی، مسندِ امام محمد وسننِ دارمی، بخاری و مسلم، ابوداؤد وترمذی ونسائی و ابنِ ماجہ وخصائص نسائی، ملتقی ابن الجا رود و ذوعلل متناہیہ و مشکوٰۃ و جامع کبیر و جامع صغیر وملتقی ابن تیمیہ وبلوغ المرام، عمل الیوم واللیلہ ابن السنی وکتاب الترغیب وخصائص ِکبریٰ وکتاب الفرج بعد الشدَّۃ وکتاب الاسماء و الصفات و غیرہ پچاس سے زائد کتبِ حدیث میرے درس و تدریس و مطالعہ میں رہیں‘‘۔
امام احمد رضا کے وسعت ِمطالعہ کی شان یہ ہے کہ ’’شرح ِعقائد نسفی‘‘ کے مطالعہ کے وقت ستر شروح سامنے رہیں، ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:
شرح عقائد میری دیکھی ہوئی ہے اور شرح عقائد نسفی کے ساتھ 70شروح و حواشی میں نے دیکھے۔ (امام احمد رضا کی فقہی بصیرت از محمد احمد مصباحی مطبوعہ مکتبہ رضا دارالاشاعت لاہور ص16)
مولانا محمد حنیف خان رضوی صاحب اپنی کتاب ’’جامع الاحادیث ‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں:
علمِ حدیث اپنے تنوّع کے اعتبار سے نہایت وسیع علم ہے، امام سیوطی قدس سرہ نے ’’تدریب الراوی ‘‘میں تقریباً سو علوم شمار کرائے ہیں جن سے علم ِحدیث میں واسطہ ضروری ہے ۔ لہٰذا ان تمام علوم میں مہارت کے بعد ہی علمِ حدیث کا جامع اور اس علم میں درجہء کمال کو پہنچا جاسکتاہے ۔

اگر انہیں امام بخاری و مسلم دیکھتے تو ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوتیں

جب ہم اعلیٰ حضرت کی ہمہ جہت شخصیت اور ان کی تصانیفِ عالیہ کو دیکھتے ہیں تو فنِ حدیث،طرقِ حدیث، علل ِحدیث اور اسماء الرجال وغیر ہ میں بھی وہ انتہائی منزلِ کمال پر دکھائی دیتے ہیں اور یہی وہ وصف ہے جس میں کمال وانفرادیت ایک مجدد کے تجدیدی کارناموں کا رکنِ اعظم ہے ۔ فنِ حدیث میں اُ ن کی جو خدمات ہیں اِن سے اُن کی علمِ حدیث میں بصیرت و وسعت کا اندازہ ہوتا ہے ۔ حدیث کی معرفت اور اِ سکی صحت وعدم ِصحت، ضعف وسقم، حسن وغیر جملہ علومِ حدیث میں جو مہارتِ تامہ اُن کو حاصل تھی وہ بہت دور تک نظر نہیں آتی ہے اور یہ چیزیں ان کی کتب و رسائل میں مختلف انداز پر ہیں،کہیں تفصیل کے ساتھ مستقلاً ذکر ہے اورکہیں اختصار کے ساتھ ضمناً اور کہیں کہیں حدیث و معرفت ِحدیث اور مبادیات ِحدیث پر ایسی نفیس اور شاندار بحثیں ہیں کہ اگر انہیں امام بخاری و مسلم بھی دیکھتے تو اُن کی آنکھیں ٹھنڈی ہوتیں۔ (امام احمد رضا اور علم حدیث از محمد عیسی رضوی صاحب مطبوعہ مکتبہ شبیر برادرز لاہور ص16)

اعلٰی حضرت کی شاعری

مُلکِ سخن کی شاہی تم کو رضا مُسلَّم:

اعلیٰ حضرت کے منجھلے بھائی استاذِ زمن حضرتِ علامہ حسن رضا خا ن صاحب ’’حسن ‘‘بریلوی فنِّ شاعری میں حضرت ِداغ دہلوی کے شاگر د تھے،استاذِ زمن کی جب چند نعتیں جمع ہو جاتی تھیں تو اپنے صاحبزاد ے حضرت مولانا حسنین رضا خان کے بدست اپنے استاد حضرت ِداغ دہلوی کے پاس اصلاح کے لیے روانہ فرماتے تھے۔
ایک بار کا واقعہ ہے کہ استاذ ِزمن کا کچھ کلام لیکر مولانا حسنین رضا خان صاحب دہلی جارہے تھے، اعلیٰ حضرت نے دریافت فرمایا کہ کہاں جانا ہو رہا ہے مولانا حسنین رضا خان نے عرض کیا والد صاحب کا کلام لیکر استاد داغ دہلوی کے پاس جا رہا ہوں ۔ اعلیٰ حضرت اُس وقت وہ نعتِ پا ک قلمبند فرما رہے تھے جس کا مطلع ہے:
اُن کی مہک نے دل کے غنچے کھلائے دیئے ہیں
جس راہ چل دئے ہیں کوچے بسادئیے ہیں
ابھی مقطع نہیں لکھا تھا، فرمایا لیجئے! چند اشعار ہو گئے ہیں،ابھی مقطع نہیں لکھا ہے ،اس کو بھی دکھا لیجئے گا۔
چنانچہ مولانا حسنین رضاخان صاحب دہلی پہنچے اور استاذ الشعر اء حضرتِ داغ دہلوی سے ملاقات کی، اپنے والد ِماجد استاذِ زمن کا کلام پیش کیا۔حضرتِ داغ دہلوی نے اِس کی اصلاح کی، جب اصلاح فرماچکے تو مولانا حسنین میاں صاحب نے اعلیٰ حضرت کا وہ کلام بھی پیش کیااورکہا یہ کلام چچا جان اعلیٰ حضرت نے چلتے وقت دیاتھا اور فرمایا تھا کہ یہ بھی دکھاتے لائیے گا۔
حضرتِ داغ نے اس کو ملاحظہ فرمایا،مولانا حسنین میاں صاحب فرماتے ہیں:حضرت ِداغ اُس وقت نعت ِپاک کو گنگنار ہے تھے اور جھوم رہے تھے اور آنکھوں سے آنسو ٹپک رہے تھے، پڑھنے کے بعد حضرت ِداغ دہلوی نے فرمایا اِس نعتِ پاک میں تو کوئی ایسا حرف بھی مجھے نظر نہیں آتا جس میں کچھ قلم لگا سکوں، اور یہ کلام تو خود لکھا ہوا معلوم ہی نہیں ہوتا بلکہ یہ کلام تو لکھوایا گیا ہے ،میں اس کلام کی فن کے اعتبار سے کیا کیا خوبیاں بیان کروں بس میری زبان پر تو یہ آرہا ہے کہ:
ملک سخن کی شاہی تم کو رضا مسلم
جس سمت آگئے ہو سکے بٹھا دئے ہیں
اور فرمایا اس میں مقطع تھا بھی نہیں ،لیجئے مقطع بھی ہو گیا ،نیز اعلیٰ حضرت کو ایک خط لکھا کہ اس نعت ِپاک کو اپنے دیوان میں اس مقطع کے ساتھ شامل کر یں اس مقطع کو علیحدہ نہ کریں نہ دوسرا مقطع کہیں ۔(تجلیات امام احمد رضا از مولانا امانت رسول قادری مطبوعہ مکتبہ برکاتی پبلیشرز کراچی ص90)

اعلٰی حضرت کی رِیاضی دانی

اﷲ تعالیٰ نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو بے اندازہ عُلُومِ جَلِیلہ سے نوازا تھا۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کم و بیش پچاس عُلُوم میں قلم اُٹھایا اور قابلِ قدر کُتُب تصنیف فرمائیں۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو ہر فن میں کافی دسترس حاصل تھی۔ علمِ توقیت، (عِلمِ۔ تَو۔ قِیْ ۔ ت ) میں اِس قَدر کمال حاصل تھا کہ دن کو سورج اور رات کو ستارے دیکھ کر گھڑی مِلالیتے۔ وَقْت بِالکل صحیح ہوتا اور کبھی ایک مِنَٹ کا بھی فرق نہ ہوا۔ علمِ رِیاضی میں آپ یگانہ رُوزگار تھے۔ چُنانچِہ علی گڑھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر ضِیاء الدین جو کہ رِیاضی میں غیر ملکی ڈگریاں اور تَمغہ جات حاصل کیے ہوئے تھے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت میں ریاضی کا ایک مسئلہ پوچھنے آئے۔ ارشاد ہوا، فرمائیے! اُنہوں نے کہا ، وہ ایسا مسئلہ نہیں جسے اتنی آسانی سے عَرض کروں۔ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا، کچھ تو فرمائیے۔ وائس چانسلر صاحب نے سوال پیش کیا تو اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اُسی وقت اس کا تَشَفّی بخش جواب دے دیا۔ اُنہوں نے انتہائی حیرت سے کہا کہ میں اِس مسئلہ کے لیے جرمن جانا چاہتا تھا اِتّفاقاً ہمارے دینیات کے پروفیسر مولانا سَیِّد سُلَیمان اشرف صاحِب نے میری راہنمائی فرمائی اور میں یہاں حاضر ہوگیا۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ آپ اِسی مسئلہ کو کتاب میں دیکھ رہے تھے۔ ڈاکٹر صاحِب بصد فرحت و مُسرّت واپس تشریف لے گئے اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی شخضیت سے اِس قدر مُتَأَثِّرہوئے کہ داڑھی رکھ لی اور صوم و صلوٰۃ کے پابند ہوگئے۔ (حیاتِ اعلٰی حضرت، ج ۱، ص ۲۲۳، ۲۲۸، مکتبۃ المدینہ بابُ المدینہ کراچی) عِلاوہ ازیں اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ علمِ تکسِیر، علمِ ہَیئَت ، علمِ جَفَروغیرہ میں بھی کافی مَہارت رکھتے تھے۔

علمِ تکسیر میں مہارت

اعلیٰ حضرت جن علوم میں مہارت رکھتے تھے ان میں ایک علمِ تکسیر بھی ہے۔

علم ِ تکسیر کیا ہے؟

اعداد کو تقسیم کر کے تعویذ کے خانوں میں اس طرح لکھنا کہ ہر طرف کا مجموعہ برابر ہو
’’حیاتِ اعلیٰ حضرت‘‘ میں مولانا ظفرالدین بہاری صاحب تحریر فرماتے ہیں:
علمِ تکسیر بھی اِس زمانہ میں اُنہیں علوم میں سے ہے جس کے جاننے والے ہر صوبے میں ایک یا دو شخص ہوں گے، عوام کو اس سے کیا دلچسپی،علماء کو اس سے کیا غرض، مشائخِ کرام جن کے یہاں کی اور جن کے کام کی چیز ہے سو میں سے اَسّی ایسے ملیں گے جو اپنے مشائخ کے مجموعہء اعمال ’’یا مجربات ِدیربی یانافع الخلائق ‘‘سے نقوش اُلٹے سیدھے باقاعدہ یا بے قاعدہ لکھ دینا کافی سمجھتے ہیں ۔ کتنے فی صد ی نقشِ مثلث یا مربع قاعدہء مشہورہ سے بھرلینا جانتے ہیں ؟اور پوری چال سے نقوش بھرنا تو شاید چار پانچ سو میں سے دو ایک ہی کا حصہ ہو گا۔

اعلیٰ حضرت کتنے طریقوں سے بھرتے ہیں ؟

مولانا ظفرالدین بہاری صاحب مزید تحریر فرماتے ہیں:
عرصے کی بات کہ ایک شاہ صاحب ’’مدرسہ ء اسلامیہ شمس الہدٰی پٹنہ ‘‘(مصنفِ’’حیاتِ اعلیٰ حضرت‘‘مولانا ظفرالدین بہاری صاحب یہاں پڑھاتے تھے)میں تشریف لائے اور محب ِمحترم حامیء دین، واقفِ علوم عقلیہ و نقلیہ، مولانا مولوی مقبول احمد خان صاحب دربھنگی مدرسِ مدرسہ ھٰذا کے مہمان ہوئے اور اپنی عزت بنانے، وقار جمانے کو ادھر ادھر کی بات کرتے ہوئے فنِّ تکسیر کی واقفیت کا ذکر کیا۔
مولوی صاحب بہت ظریف طبیعت ہیں ،یہ سن کر ایسا انداز برتا جس ے اُن شاہ صاحب نے سمجھا کہ میرے فن دانی کے قائل اور معتقد ہو گئے،چنانچہ مہینہ دو مہینہ میں ایک پھیرا اِدھر ُان کا ہونے لگا اور مولانا کے یہاں ایک دو وقت قیام ضرور کرتے، یہ بھی مہمان نوازی فرماتے، جب اُن کی ڈینگ بہت بڑھی تو ایک دن بہت ہلکی زبان سے فرمایا کہ میرے مدرسے میں بھی ایک مدرس مولانا ظفر الدین بہاری ہیں وہ بھی فنِّ تکسیر جانتے ہیں ۔بہت حیرت ہوئی وہ تو سمجھ رہے تھے کہ مولانا مقبول احمد خان صاحب کے علم میں دنیا میں میں ہی ایک تکسیر جاننے والا ہوں اور اِسی وجہ سے ایسے زبردست معقولی ہونے پر بھی میری عزت کرتے ہیں ۔ جب اُنہیں معلوم ہوا کہ ِاسی پٹنہ میں مولانا کے دوستوں میں اِسی مدرسے کے مدرِّسوں میں ایک شخص فنِّ تکسیر جاننے والے ہیں تو حیرت کی حد نہ رہی، بولے کہ اُن سے میری ملاقات کرا دیجئے گا۔ انہوں نے کہا وہ تو روازنہ مدرسہ کے وقت 10بجے مدرسے تشریف لاتے ہیں اور 4بجے ’’دریاپور‘‘ واپس چلے جاتے ہیں ۔
چنانچہ ایک دن مولوی صاحب شاہ صاحب کو لے کر میرے پاس تشریف لائے اوران کا تعارف کرواتے ہوئے،بہت سی خوبیاں بیان کیں ساتھ ہی اپنے خاص انداز سے فرمایا کہ : سب سے بڑا کمال آپ کا یہ ہے کہ آپ فن تکسیر جانتے ہیں ، میں سمجھ گیا ،میں نے کہا کہ اس سے بڑھ کر اورکیا کمال ہو گا کہ آپ وہ فن جانتے ہیں جس کے جاننے والے روئے زمیں سے معدوم و مفقو د نہیں تو قلیل الوجود ضرور ہیں ۔ اس پر شاہ صاحب نے فرمایا کہ: مجھے معلوم ہواہے کہ جناب کو بھی فنِّ تکسیر کا علم ہے میں نے کہا یہ مخلصوں کا محض حسنِ ظن ہے،کسی فن کے چند قواعد کا جان لینا فن کی واقفیت نہیں کہلاتی ہے ،ہاں اس فن سے ایک گونہ دلچسپی ضرور ہے ۔
اِس کے بعد میں نے اُن شاہ صاحب سے پوچھا کہ جناب ’’مربع‘‘ کتنے طریقے سے بھرتے ہیں؟بہت فخریہ فرمایا سولہ طریقے سے، میں نے کہا بس ! اِس پر فرمایا اور آپ !میں نے کہا کہ گیارہ سو باون (1152)طریقے سے ۔ بولے سچ! میں نے کہا کہ جھوٹ کہنا ہوتا تو کیا لاکھ دو لاکھ کا عدد مجھے معلوم نہ تھا گیارہ سو باون کی کیا خصوصیت تھی ۔ کہا: میرے سامنے بھر سکتے ہیں، میں نےکہا کہ ضرور، بلکہ میں نے بھر کر رکھے ہوئے ہیں، آج 4بجے میرے ساتھ’’دریا پور‘‘تشریف لے چلیں،مولانا مقبول احمد خاں صاحب کو بھی میں دعوت دیتا ہوںوہیں چائے ہوگی ،وہ کتاب میں حاضر کر دوں گا ، ایک ہی نقش ہے جو اتنے طریقوں سے بھرا ہوا ہے جس میں کوئی ایک دوسرے سے ملتا ہوانہیں پوچھا آپ نے کن سے سیکھا ؟میں نے اعلیٰ حضرت کا نام لیا ،یہ بھی اعلیٰ حضرت کے معتقد تھے ۔ نام سن کر اُن کو یقین ہو گیا ۔

میں نے بتایا تئیس سو تین طریقے سے:

مگر پوچھنے لگے کہ اعلیٰ حضرت کتنے طریقوں سے بھرتے ہیں ؟ میں نے کہا تئیس سو تین (2303)طریقے سے کہا کہ ’’آپ نے کیوں نہیں سیکھا ‘‘ میں نے کہا وہ تو علم کے دریا نہیں سمندر ہیں، جس فن کا ذکر آیا ایسی گفتگو فرماتے کہ معلوم ہوتا کہ عمر بھر اِسی علم کو دیکھا اوراِسی کی کتب بینی فرمائی ہے، اُن کے علوم کو میں کہاں تک حاصل کر سکتا ہوں۔
آخر 4بجے وہ میرے ساتھ دریا پور تشریف لائے اور وہ کاغذجس پر میں نے وہ نقوش لکھے تھے، ملاحظہ فرمایا ، بہت تعجب سے دیکھتے رہے اور اعلیٰ حضرت کی زیارت کے مشتاق ہو کر بعد ِمغرب واپس ہوئے ۔ پھر نہ معلوم کہ بریلی شریف حاضر ہوئے یا نہیں ۔
خیر بہر کیف جملہ علوم وفنون کی طرح فنّ تکسیر سے اعلیٰ حضر ت کو نہ صرف واقفیت ہی تھی بلکہ اس فن میں کمال اور مہارت رکھتے تھے بلکہ اگر مجتہد کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت از مولانا ظفر الدین بہاری مکتبہ نبویہ لاہور ص249)

تاریخ گوئی میں مہارت

تاریخ گوئی کیا ہے؟

کسی واقعہ کو ایسے اعداد میں ظاہر کرنا جس کے الفاظ بحسابِ ابجد جوڑنے سے زمانہء وقوع ظاہر ہو،مثلاً اعلیٰ حضرت کی ایک کتاب ہے’’تَجَلِّیُ الیَقِین بِاَنَّ نَبِیِنَا سَیِّدَِ المُرسَلِین‘‘ اگر اس کے عدد جمع کیے جائیں تو اس کا سنِ تصنیف نکل آتا ہے جو کہ 1305ھ ہے۔

تاریخ گوئی میں مَلَکَہ:

مولانا ظفرالدین صاحب تحریر فرماتے ہیں:
عالمُ الغیبِ والشہادۃجلَّ جلالہٗ نے اپنی قدرتِ کاملہ سے اعلیٰ حضرت کو جملہ کمالاتِ انسانی کہ جو ایک ولی اللہ یکتائے زمانہ میں ہونے چاہئیں،بروجہ ِکمال جمع فرما دیا تھا، جس وصف ِکمال کو دیکھئے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اعلیٰ حضرت نے اِسی میں تمام عمر صرف فرماکر اس کو حاصل فرمایا ہے اور اس میں کمال پیدا کیا ہے،حالانکہ تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ محض موہبتِ عظمیٰ ونعمت کبریٰ ہے ،ایک ادنی توجہ سے زیادہ اِس کی طرف کبھی توجہ صرف نہیں فرمائی، انہی علوم میں تاریخ گوئی بھی ہے، اس میں وہ کمال اور ملکہ تھا کہ انسان جتنی دیر میں کوئی مفہوم لفظوں میں ادا کرتا ہے اعلیٰ حضرت اتنی دیر میں بے تکلف تاریخی مادے اور جملے ارشاد فرما دیا کرتے تھے ۔

ہر کتاب کا نام تاریخی:

جس کا بہت بڑا ثبوت حضور کی کتابوں میں اکثر و بیشتر کا تاریخی نام ہے اور وہ بھی ایسا چسپاں کہ بالکل مضمونِ کتاب کی توضیح و تفصیل کرنے والاہے۔
(حیات ِ اعلیٰ حضرت از مولانا ظفرالدین بہاری مطبوعہ مکتبہ نبویہ لاہور ص227)

علم ھئیت میں مہارت

مولانا ظفرالدین بہاری صاحب تحریر فرماتے ہیں:
اعلیٰ حضر ت کا علم کسبی و تحصیلی نہ تھا بلکہ محض وہبی و لدنی ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں اور یہ صرف میرا خیال نہیں بلکہ اعلیٰ حضرت کا بھی میرے گمان میں یہ عقیدہ تھا ۔ اِسی لئے حضور نے اپنے فتاویٰ شریف کا نام العطایا النبویہ فی الفتاوی الرضویہ(سرکار صلی للہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی عطاسے )رکھاتھا۔ اسی لئے نہ صرف فقہ اور دینیات بلکہ جس فن کی طرف توجہ فرمائی اپنے اس شعر کو سچ کر دکھایا اور حقائق و دقائق کے دریا بہا دیئے:
ملک سخن کی شاہی تم کو رضا مسلم
جس سمت آگئے ہو سکے بٹھا دیئے ہیں
علمِ ہیئت میں اعلیٰ حضرت نے شرح چغمینی حضرت مولانا عبدالعلی صاحب رامپوری سے پڑھی لیکن اس فن میں ایسا کمال پیدا فرمایا کہ ’’تصریح ِشرح چغمینی‘‘ پر حاشیہ لکھا ۔ اس کے مشکل مقامات کو حل فرمایا، پھر اعلیٰ حضرت کا کسی کتاب پر حاشیہ لکھنا علمائے معاصرین کی طرح نہ تھا کہ کچھ اِدھراُدھر سے نقل کیا اور کسی کتاب پر چسپا ں کر دیا بلکہ وہ جو کچھ تحریر فرماتے اپنے علم اور فیضانِ الہٰی سے بیان کرتے تھے۔ (حیات ِ اعلیٰ حضرت از مولانا ظفرالدین بہاری مطبوعہ مکتبہ نبویہ لاہور ص244)

علمِ توقیت میں مہارت

مولانا ظفرالدین بہاری صاحب تحریر فرماتے ہیں:
ہیئت و نجوم میں کمال کے ساتھ علمِ توقیت(اوقات کا علم) میں کمال تو حدِّا یجاد کے درجہ پر تھا یعنی اگر اِس فن کا موجد کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا ۔ علماء نے جستہ جستہ اس کو مختلف مقامات پر لکھا ہے لیکن میرے علم میں کوئی مستقل کتاب اس فن میں نہ تھی۔

سورج اور ستارے دیکھ کر وقت بتا دیتے :

مولوی برکات احمد صاحب صدیقی پیلی بھیتی کا بیان ہے کہ:
اعلیٰ حضرت کو ستارہ شناسی میں اس قدر کمال تھا کہ آفتاب کو دیکھ کر گھڑی ملا لیا کرتے تھے۔ فقیرنے بوقتِ شب ستاروں کو ملاحظہ فرماکر وقت بتانے اور گھڑی ملانے کے واقعا ت بھی سنے اور دیکھے ہیں اور بلکل صحیح وقت ہوتا،ایک منٹ کا بھی فرق نہ پڑتا ۔

آفتاب نکلنے میں ابھی دو منٹ اڑتالیس سیکنڈ باقی ہیں:

مولوی برکات احمد صاحب مزید فرماتے ہیں:
ایک مرتبہ اعلیٰ حضرت بدایون تشریف لے گئے، حضرتِ محب الرسول مولانا شاہ عبدالقادر صاحب بدایونی کے یہاں مہمان تھے، ’’مدرسہ قادریہ‘‘کی مسجد میں خود حضرت مولانا شاہ عبدالقادر صاحب بدایونی امامت فرماتے ۔
ایک مرتبہ اعلیٰ حضرت بھی وہاں جلوہ گر تھے ،جب فجر کی تکبیر شروع ہوئی تو حضرت مولانا عبدالقادر صاحب نے اعلیٰ حضرت کو امامت کے لیے آگے بڑھا دیا ۔اعلیٰ حضرت نے نماز ِفجر کی امامت کی اور قراء ت اتنی طویل فرمائی کہ مولانا عبد القادر کو بعد ِسلام شک ہوا کہ کہیں آفتاب طلوع تو نہیں ہو گیا،مسجد سے نکل نکل کر لوگ آفتاب کی جانب دیکھنے لگے، یہ حال دیکھ کر اعلیٰ حضرت نے فرمایا کہ ’’ آفتاب نکلنے میں ابھی2 منٹ 48سیکنڈ باقی ہیں‘‘ یہ سن کر لوگوں کی تسلی ہو گئی ۔
(حیات ِ اعلیٰ حضرت از مولانا ظفر الدین بہاری مکتبہ نبویہ لاہور ص 248)

تصانیف

آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے مختلف عُنوانات پر کم وبیش ایک ہزار کتابیں لکھی ہیں۔یوں توآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ۱۲۸۶ھ سے ۱۳۴۰ھ تک لاکھوں فتوے لکھے، لیکن افسوس! کہ سب کو نَقل نہ کیا جاسکا، جو نَقل کرلیے گئے تھے ان کا نام ” العطایا النبّویۃ فی الفتاوی الرضویۃ”رکھا گیا ۔ فتاویٰ رضویہ (جدید) کی 30جلدیں ہیں جن کے کُل صفحات:21656، کل سُوالات وجوابات:6847اور کل رسائل: 206ہیں۔ (فتاویٰ رضویہ،ج ۳۰،ص ۱۰، رضا فاؤنڈیشن مرکز الاولیاء لاہور)ہر فتوے میں دلائل کا سمندر موجزن ہے۔ قرآن و حدیث ، فِقْہْ ،مَنْطِق اور کلام وغیرہ میں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی وُسْعَتِ نظری کا اندازہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے فتاوٰی کے مُطالَعے سے ہی ہوسکتا ہے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی چند دیگر کُتُب کے نام درج ذیل ہیں: “سبحٰنُ السُّبُّوح عَن عیبِ کِذب مَقْبُوح”سچے خدا پر جھوٹ کا بہتان باندھنے والوں کے رد میں یہ رسالہ تحریر فرمایا ،جس نے مخالفین کے دم توڑ دئیے اور قلم نچوڑ دئیے۔”نُزُوْلِ آیاتِ فُرقان بَسُکونِ زمین و آسمان” اس کتاب میں آپ نے قرآنی آیات سے زمین کو ساکِن ثابِت کیا ہے ۔ سائنسدانوں کے اس نظریے کا کہ زمین گردِش کرتی ہے رَدّ فرمایا ہے۔علاوہ ازیں یہ کتابیں تحریر فرمائیں: المُعْتَمَدُ الْمُسْتَنَد ، تَجَلِّیُّ الْیقین، اَلْکَوکَبَۃُ الشِّھابِیۃ، سِلّ السُّیُوف الہِندیۃ ، حیاۃُ الموات وغیرہ۔

ٹرین رُکی رہی

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ایک بار پِیلی بِھیت سے بریلی شریف بذرِیعہ رَیل جارہے تھے۔ راستے میں نواب گنج کے اسٹیشن پر ایک دو مِنَٹ کے لیے ریل رُکی، مغرِب کا وَقت ہوچکا تھا ۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ نَماز کے لیے پلیٹ فارم پر اُترے ۔ ساتھی پریشان تھے کہ َریل چلی جائے گی تو کیا ہوگا لیکن آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اطمینان سے اذان دِلوا کر جماعت سے نَماز شُروع کردی۔ اُدھر ڈرائیور انجن چلاتا ہے لیکن رَیل نہیں چلتی،اِنجن اُچھلتا اورپھر پٹری پر گرتا ہے۔ٹی ٹی، اسٹیشن ماسٹروغیرہ سب لوگ جمع ہوگئے، ڈرائیور نے بتایا کہ انجن میں کوئی خرابی نہیں ہے۔ اچانک ایک پنڈِت چیخ اُٹھا کہ وہ دیکھو کوئی دَرویش نمازپڑھ رہا ہے ، شاید رَیل اسی وجہ سے نہیں چلتی؟ پھر کیا تھا اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے گرد لوگوں کا ہُجُوم ہوگیا۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اطمینان سے نَماز سے فارِغ ہو کرجیسے ہی رُفَقا کے ساتھ ریل میں سُوارہوئے توریل چل پڑی۔سچ ہے جواﷲ کاہوجاتاہے کائنات اسی کی ہوجاتی ہے۔
(تذکرہٗ امام احمد رضا ص۱۵ مطبوعہ مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی)

مصطفی جان رحمت پہ لاکھوں سلام

اعلیٰ حضرت ،امام اہلسنت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بے مثال عشق کا اظہار آپ کے اُس منظوم سلام سے بھی ہوتا ہے جس کے بارے میں علماء نے ارشاد فرمایا ہے کہ اعلیٰ حضرت اگر اور کوئی کام نہ بھی کرتے تو یہ سلام ہی آپ کی عظمت کے لیے کافی تھا ۔
جی ہاں! یہ وہ سلام ہے جس کی گونج پا ک و ہند کے گوشے گوشے میں سنائی دیتی ہے بلکہ یہاں سے نکل کر پوری دنیا میں یہ سلام پڑھا جار ہا ہے۔مساجد میں نماز ِ جمعہ کے بعد اور محافلِ میلا د کے اختتام پر اس کو بطورِخاص پڑھا جاتا ہے ،اردو جاننے والوں میں شاید ہی کو ئی ایسا ہو جسے اس سلام کا کوئی شعر یاد نہ ہو ۔
علمائے کرام ارشاد فرماتے ہیں’’دو کلام‘‘سرکارِ دوعالم صلَّی اللہ تَعَالیٰ عَلَیہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ میں بہت مقبول ہیں ،ایک اردو کا اور ایک عربی کا،عربی کا تو’’قصیدہ بردہ شریف‘‘ہے اور اُردو کا یہی اعلیٰ حضرت کا لکھا ہوا سلام’’مصطفی جان ِرحمت پہ لاکھوں سلام‘‘ہے ۔
اس کی قبولیت میں کیسے شک ہو سکتا ہے جبکہ سنہری جالیوں کے رو برو زائرین جب سلام پیش کرتے ہیں تو اس مبارک سلام کے چند اشعار بھی سرکا ر صلَّی اللہ تَعَالیٰ عَلَیہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں ۔
اس سلام کے والہانہ پن کی خصوصیت یہ ہے کہ اعلیٰ حضرت نے اپنے پیارے آقا و مولیٰ صلَّی اللہ تَعَالیٰ عَلَیہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم کے ہر ہر عضوِ پاک پر الگ الگ سلام پیش کیا ہے جس سے آپ کے عشقِ رسول صلَّی اللہ تَعَالیٰ عَلَیہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم کا اور فناء فی الرسول صلَّی اللہ تَعَالیٰ عَلَیہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم ہونے کا بخوبی اندازہ ہو تا ہے۔
یہ سلام جہاں عشقِ رسول صلَّی اللہ تَعَالیٰ عَلَیہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم کا شاہکار ہے ،وہیں اعلیٰ حضرت کے فنی تبحر کی گواہی بھی دے رہاہے ۔آپ کا یہ سلام ایک سو بہتر اشعار پر مشتمل ہے۔
( فیضان اعلیٰ حضرت ص281 مطبوعہ مکتبہ شبیر برادرز لاہور)

شجرہء مبارکہ

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ شرائطِ اربعہ کے جامع پیر کامل وولیِّ کامل تھے آپ کا سلسلہ حضور صلَّی اللہ تَعَالیٰ عَلَیہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم تک متصل تھا اعلیٰ حضرت کے کمالات ِ ولایت کے بیانات سے پہلے مناسب یہ ہے کہ ہم ان کی اتصال ِسند کو جان لیں۔
اگرچہ کئی (تیرہ)سلاسل بلخصوص’’ سلاسل ِ اربعہ‘‘(قادریہ ۔چشتیہ ۔ نقشبندیہ ۔سہروردیہ) میں خلافت و اجازت حاصل تھی لیکن اختصار کے پیشِ نظر یہاں صرف سلسلہءعالیہ قادریہ کے مشائخ ِکرام کے اسمائے گرامی پیش کئے جاتے ہیں :

سلسلہ عالیہ قادریہ برکاتیہ رضویہ کے مشائخِ عظام:

1.     حضر ت سید المرسلین جنابِ احمد مجتبیٰ محمد مصطفی صلَّی اللہ تَعَالیٰ عَلَیہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم
2.      حضرت امیر المومینن علی ِ مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم
3.     حضرت امام ِ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ
4.      حضرت امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ
5.     حضرت امام محمد الباقر رضی اللہ تعالیٰ عنہ
6.     حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ
7.     حضرت امام موسیٰ کاظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ
8.     حضرت امام علی رضا رضی اللہ تعالیٰ عنہ
9.     حضرت شیخ معروف کرخی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
10. حضرت شیخ سری سقطی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
11. حضرت شیخ جیند بغدادی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
12. حضرت شیخ ابوبکر شبلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
13. حضرت شیخ عبدا لواحد تمیمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
14. حضرت شیخ ا بو الفرج طرطوسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
15. حضرت شیخ ابوالحسن علی ہکاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ
16. حضرت شیخ ابو سعید مخزومی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
17. حضور سیدنا غوثِ اعظم شیخ عبدا لقادر حسنی حسینی جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
18. حضرت سید عبدا لرزاق رضی اللہ تعالیٰ عنہ
19. حضرت سید ابوصالح رضی اللہ تعالیٰ عنہ
20.  حضرت سید محی الدین ابونصر رضی اللہ تعالیٰ عنہ
21. حضرت سید علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
22.  حضرت سید موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ
23. حضرت سید حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ
24.  حضرت سید احمد الجیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
25. حضرت شیخ بہاء الدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ
26. حضرت سید ابراہیم ایرجی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
27. حضرت سید محمدنظام الدین بھکاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ
28. حضرت شیخ محمد ضیاء الدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ
29. حضرت سید شاہ جمال اولیا ء رضی اللہ تعالیٰ عنہ
30. حضرت سید شاہ محمد کالپوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
31. حضرت سید شاہ احمد کالپوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
32. حضرت سید شاہ فضل اللہ کالپوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
33. حضرت سیدشاہ برکت اللہ مارہروی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
34. حضرت سیدشاہ آلِ محمد مارہروی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
35. حضر ت سید شاہ حمزہ مارہروی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
36. حضرت سیدنا شاہ آلِ احمد اچھے میاں مارہروی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
37. حضرت سیدنا شاہ آلِ رسول مارہروی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
38. اعلیٰ حضرت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رضی اللہ تعالیٰ عنہ
(حیاتِ اعلیٰ حضرت از مولانا ظفر الدین بہاری مطبوعہ مکتبہ نبویہ لاہور ص728)

مرشدِ گرامی

اعلیٰ حضرت مادر زاد ولی تھے ۔آ پ نہ صرف بہت بڑے عالم ،فاضل ،فقیہہ اور محدث، بلکہ اپنے وقت کے کامل صوفی بزرگ بھی تھے آپ کی شانِ ولایت کے بیان سے پہلے اُس سرچشمہء فیض کا ذِکرِ خیر کیا جاتاہے جسکی تابانیوں سے فیض لے کر یہ ماہ ِ کامل پوری آب و تاب کے ساتھ طلوع ہو ا۔جی ہاں ! یہ ذِکر ِ خیر ہے سید ی اعلیٰ حضرت امام ِ اہلسنت کے پیر و مرشد وشیخ ِ طریقت، حضرتِ سید نا مخدوم سید شاہ آلِ رسول مارِہروی قادری برکاتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا ۔

اسمِ گرامی :

’’خاتم الاکابر‘‘ حضرتِ سید نا مخدوم سید شاہ آلِ رسول مارِہروی قادری برکاتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

ولادت ِ باسعادت:

آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی ولادتِ باسعادت ماہِ رجب المرجب 1209ھ ’’مارہرہ شریف‘‘ ضلع ’’ایٹہ‘‘ یو پی ہند وستان میں ہوئی۔

تعلیم و تربیت :

سید شاہ آلِ رسول مارِہروی کی تعلیم و تربیت اپنے والدِ ماجدحضرت سید نا شاہ آلِ برکات’’ستھرے میاں‘‘کی آغوش ِ شفقت میں ہوئی اور انہیں کی نگرانی میں آپ کی نشوو نما ہوئی آ پ نے ابتدائی تعلیم حضرت عین الحق شاہ عبد المجید بدایونی صاحب اورحضرت مولانا شاہ سلامت اللہ کشفی بدایونی سے خانقاہ ِ برکاتیہ میں حاصل کی بعدازاں ’’فرنگی محلّ ‘‘کے علماء مولانا انوار احمد صاحب،مولاناعبدا لواسع صاحب اور مولانا شاہ نور الحق رزاقی صاحب سے کتب ِمعقولات ،علم ِ کلام ،فقہ و اصولِ فقہ کی تحصیل و تکمیل فرمائی ۔
حضرت مولانا شاہ عبدا لعزیز محدث دہلوی کے درسِ حدیث میں بھی شریک ہوئے ۔ صحاح کا دورہ کرنے کے بعد سلاسلِ حدیث و طریقت کی سندیں مرحمت ہوئیں ۔

بیعت و خلافت :

حضرت کو خلافت و اجازت حضور سیدآلِ احمد’’ اچھے میاں‘‘(اپنے تایا جان )سے تھی ، والد ِماجد نے بھی اجازت مرحمت فرمائی تھی مگر مرید حضرت اچھے میاں کے سلسلے ہی میں فرماتے تھے۔

فضائل :

حضرت شاہ آلِ رسول رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تیرھویں صدی ہجری کے اکابر اولیا ء اللہ میں سے تھے ۔آپ کی وہ عظیم شخصیت تھی جس کی مساعی و کوشش سے اسلام و مذہب ِاہلسنت وجماعت کو استحکام حاصل ہوا۔ بڑے نڈر، بے باک،شفیق اور مہربان تھے ۔ آپ کی شان بڑی ارفع و اعلیٰ ہے ،اعلیٰ حضرت نے آپ کے فضائل فارسی اشعار میں قلمبندفرمائے ہیں جس کا مطلع اِس طرح ہے :
خوشا!دلے کہ دہند ش ولائے آلِ رسول
خوشا !سرے کہ کنند ش فدائے آلِ رسول

عادات وصفات :

آپ کے عادات و صفات میں بھی شریعت کی پوری جلوہ گری تھی اور شریعت ِمطہرہ کی غایت درجہ پابندی فرماتے ،نماز باجماعت مسجد میں ادا فرماتے اور تہجد کی نماز کبھی قضاء نہ ہونے دیتے ۔نہایت کریم النفس ،عیب پوش اور حاجت براری میں یگانہء عصر تھے۔
محافلِ سماع قطعاً مسدود بلکہ صرف مجالسِ و عظ و نعت و منقبت و ختم قرآن ودلائل الخیرات شریف ،حُضَّارِعرس(حاضرین ِعرس) کی مہمانداری باقی رکھی تھی، فضولیات کی حضور کے دربار میں جگہ نہ تھی ،ظاہر شریعت سے ایک زرہ تجاوزبھی گوارہ نہ فرماتے ۔

جودو سخا:

آپ کے جودوسخا کا عالم یہ تھا کہ لوگ مصنوعی ضروریات بتا کر جب چاہتے روپیہ مانگ کر آپ سے لے جاتے اور چور بھی بعض اوقات مسافروں کی صورت میں آتے اور آ پ کی بارگاہ سے بامراد لوٹتے،آپ کی اہلیہ محترمہ عرض کرتیں کہ:”آپ خود ولی ہیں تو سب کو ولی ہی سمجھتے ہیں کچھ احتیا ط فرمائیں”مگر آپ خود گھر میں جا کر سائل کے لیے ضروری اشیاء لاتے اور دیدیتے جو حاجت مند آتا اس کی حاجت براری کرتے اور اکثر اپنے کپڑے تک اتار کر دیدیتے ۔عاجز ی کی انتہا یہ تھی کہ آ پ خود کبھی امام نہ بنتے بلکہ کسی اور سے ہی نماز پڑھواتے ۔

بیعت و خلافت

1294ھ جمادی الاخریٰ کا واقعہ ہے کہ ایک روز اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ(کسی خیال سے) روتے روتے سو گئے، خواب میں دیکھا کہ آپ کے جدامجد حضرت مولانا شاہ رضاعلی خان صاحب تشریف لائے، ایک صندوقچی عطا فرمائی اور فرمایا عنقریب وہ شخص آنے والا ہے جو تمہارے درد ِدل کی دوا کرے گا۔
دوسرے ہی روز تاج الفحول محب ِ رسول حضرت مولانا شاہ عبدالقادر صاحب عثمانی بدایونی علیہ الرحمہ تشریف لائے اور اپنے ساتھ(بغرضِ بیعت) مارہر ہ مقدسہ لے گئے، مارہرہ مقدسہ کے اسٹیشن ہی پر اعلیٰ حضرت نے فرمایا! شیخ ِکامل کی خوشبو آرہی ہے ۔ (بعد ازاں ایک سرائے میں ٹھہرے اور نہا دھو کر نئے کپڑے پہننے کے بعد خانقاہِ برکاتیہ میں بیعت کے لئے حاضر ہوئے)۔

ہم تو کئی روز سے انتظار کر رہے ہیں:

جب امامُ الاولیاء، سلطان العارفین ،تا جدارِ مارہر ہ حضرت مولانا سید شاہ آلِ رسول صاحب حسینی علیہ الرحمہ کی خدمت ِبابرکت میں پہنچے حضرت نے دیکھتے ہی فرمایا: آئیے! ہم تو کئی روز سے انتظار کر رہے ہیں ۔ پھر بیعت فرمایا اور اُسی وقت تما م سلاسل کی اجازت بھی عطا فرمادی اور خلافت بھی بخش دی نیز جو عطیات سلف سے چلے آرہے تھے وہ بھی سب عطا فرمادیئے اور ایک صندوقچی جو وظیفہ کی صندوقچی کے نام سے منسوب تھی عطا فرمائی۔آپ کو جن سلاسل ِطریقت کی اجازت و خلافت حاصل ہوئی ان کی تفصیل درجہ ذیل ہے :
(1)قادریہ برکاتیہ جدیدہ (2)قادریہ آبائیہ قدیمہ (3)قادریہ ہدایہ (4)قادریہ رزاقیہ (5)قادریہ منصوریہ (6)چشتیہ نظامیہ قدیمہ (7)چشتیہ محبوبیہ جدیدہ (8)سہروردیہ واحدیہ (9)سہروردیہ فضیلیہ (10)نقشبندیہ علائیہ صدیقیہ (11)نقشبندیہ علائیہ علویہ (12)بدیعہ (13)علویہ منامیہ

حضور بائیس سال کے اس بچہ پر یہ کر م کیوں ہوا؟

اتنی عطائیں دیکھ کر تمام مریدین کو جو حاضر تھے تعجب ہوا، جن میں قطب ِدوراں تاج الاولیاء حضرت مولانا شاہ سید ابوالحسین احمد نوری میاں صاحب علیہ الرحمہ نے( جو حضرت کے پوتے اور جانشین تھے) اپنے جدِا مجد سے عرض کیا حضور! بائیس سال کے اس بچہ پر یہ کر م کیوں ہوا؟ جبکہ حضور کے یہاں کی خلافت و اجازت اتنی عام نہیں، برسوں ،مہینوں آپ چلّے ریاضتیں کراتے ہیں ’’جو‘‘کی روٹی کھلواکر منزلیں طے کراتے ہیں ،پھر اگر اس قابل پاتے ہیں تب بھی ایک یا دو سلسلہ کی اجازت و خلافت عطا فرماتے ہیں (نہ کہ تمام سلاسل کی)۔

میں’’ احمد رضا ‘‘ کو پیش کر دوں گا:

حضرت نوری میاں علیہ الرحمہ بھی بہت بڑے روشن ضمیر وعارف باللہ تھے، اِسی لئے یہ سب کچھ دریافت کیا تاکہ زمانے کو اس بچے کا مقام ولایت و شانِ مجددیت کا پتہ چل جائے ۔ سیدناشاہ آلِ رسول نے ارشاد فرمایا اے لوگو! احمدرضا کو کیا جانو یہ فرما کر رونے لگے اور ارشاد فرمایا۔میاں صاحب! میں متفکر تھا کہ اگر قیامت کے دن رب العزت جل مجدہ ٗ نے ارشاد فرمایا کہ آلِ رسول !تو دُنیا سے میرے لیے کیا لایا تو میں کیا جواب دوں گا ۔الحمد للہ آج وہ فکر دور ہو گئی، مجھ سے رب تعالیٰ جب یہ پوچھے گا کہ آلِ رسول! تو دُنیا سے میرے لیے کیا لایا تو میں مولانا احمد رضا کو پیش کر دوں گا،اور حضرات اپنے قلب زنگ آلود لیکر آتے ہیں، اُن کو تیار ہونا پڑتا ہے ،یہ اپنے قلب کو مجلّیٰ و مصفّیٰ لے کر بالکل تیار آئے، ان کو تو صرف نسبت کی ضرورت تھی ۔

محبتِ مرشد

سلوک و تصوف او رارادت و طریقت میں ضروری ہے کہ اپنے آقائے نعمت سے بھر پور تعلقِ خاطر ہو، جبھی فیضانِ قلب و نظر سے بہر ور ہواجا سکتاہے ۔ اعلی حضرت اپنے مرشدِ گرامی سے سچی عقیدت رکھتے تھے ، اور کیوں نہ ہو کہ خودہی فرماتے ہیں :
·         ارادت شرطِ اہم ہے بیعت میں ،بس مرشد کی ذرہ سی توجہ درکا رہے اور دوسری طرف اگر ارادت نہیں تو کچھ نہیں ہو سکتا ۔
·         جب تک مرید یہ اِعْتِقَاد(یعنی یقین)نہ رکھے کہ میرا شیخ تمام اَولیائے ِزمانہ سے میرے لیے بہترہے، نَفع نہ پائے گا۔
·         اپنے تمام حَوَائج (یعنی حاجتوں)میں اپنے شیخ ہی کی طرف رجوع کرے۔
·         اَصلِ کارحُسْنِ عقیدت ہے یہ نہیں تو کچھ نفع نہیں، اور صر ف حُسْنِ عقیدت ہے تو خیر اِتِّصَال (یعنی قُرب)تو ہے۔
·         پَرنالہ کی مثل تم کو فیض پہنچے گا۔حُسْنِ عقیدت ہونا چاہیے (ملفوظاتِ اعلی حضرت مکتبہ المدینہ ص401-402-403)

ننگے پاؤں خانقاہ ِ برکاتیہ تک جاتے:

صاحبزادہ سید محمد امین میاں برکاتی نبیرہء خاتم الاکابر حضرت سید شاہ آلِ رسول برکاتی قدس سرہٗ فرماتے ہیں:
اعلیٰ حضرت اپنے مرشدان ِعظام کا اِس درجہ ادب ملحوظ رکھتے تھے کہ مارہرہ کے اسٹیشن سے خانقاہ ِبرکاتیہ تک برہنہ پا(ننگے پاؤں) پیدل تشریف لاتے تھے اور مارہرہ سے جب کبھی حجام خط یا پیالہ لے کر بریلی جاتا تو ’’حجام شریف‘‘ فرماتے اور اس کے لئے کھانے کا خوان اپنے سرِ اقدس پر رکھ کر لایا کرتے تھے۔ 
(احترام سادات ِ اور امام احمد رضا صاحب بریلوی از سید صابر حسین بخاری قادری مطبوعہ لاہو ر ص 35)

غوثِ پاک سے محبت

سید ی اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے پیر و مُرشِد سیدنا شاہ آلِ رسول مارہروی کے ذریعے محبوبِ سبحانی ،قطبِ ربانی ،حضرت سیدنا شیخ عبدا لقادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی غلامی و نسبت کا شرف حاصل ہوا۔
آپ کو سرکارِ بغدادِ حضور ِ غوث پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ذات ِ بابرکات سے بے پناہ عشق او روالہانہ لگاؤ تھا آ پ کی مجلس میں بڑی عقیدت و احترام کے ساتھ حضو رِ غوث پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام لیا جاتا اور اس غلامی کا اظہار اعلیٰ حضرت اپنے اشعار میں کس والہانہ انداز سے کرتے ہیں:
تجھ سے در،در سے سگ اور سگ سے ہے مجھ کو نسبت
میری گردن میں بھی ہے دُور کا ڈورا تیرا
اس نشانی کے جو سگ ہیں نہیں مارے جاتے
حشر تک میرے گلے میں رہے پٹہ تیرا

چوں قلم دردستِ کاتب:

اعلیٰ حضرت کے کمالِ ادب ِ غوثِ اعظم کی ایک جھلک آپ کے چہیتے خلیفہ و شاگرد حضرت ِ محدث اعظم ہند سید محمد محدث کچھوچھوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ( جو کہ غوثِ پاک کی اولاد میں سے تھے اور آپ سے کارِ افتا ء کی تربیت حاصل کرنے کے لیے حاضر ہوئے تھے )یوں دکھاتے ہیں ۔
دوسرے دن کارِ افتاء پر لگانے سے پہلے خود گیارہ روپے کی شیرینی منگائی ،اپنے پلنگ پر مجھ کو بٹھا کر اور شیرینی رکھ کر فاتحہ ء غوثیہ پڑھ کر دستِ کرم سے شیرینی مجھ کو بھی عطا فرمائی اور حاضرین میں تقسیم کا حکم دیا۔(کیا دیکھتا ہوں ) کہ اچانک اعلیٰ حضرت پلنگ سے اُٹھ پڑے ۔ سب حاضرین بھی ان کے ساتھ کھڑے ہو گئے کہ شاید کسی حاجت سے اندر تشریف لے جائیں گے ۔لیکن حیرت بالائے حیرت یہ ہوئی کہ اعلیٰ حضرت زمین پر اکڑوں بیٹھ گئے ۔سمجھ میں نہ آیا کہ کیا ہو رہا ہے ۔ دیکھا تو یہ دیکھا کہ تقسیم کرنے والے کی غفلت سے شیرینی کا ایک ذرہ زمین پر گر گیا تھا اور اعلیٰ حضرت اس ذرہ کوزبان کی نوک سے اُٹھا رہے ہیں،اور پھر اپنی نشت گاہ پر بدستور تشریف فرما ہوئے ۔
اس واقعہ کو دیکھ کر سارے حاضرین سرکارِ غوثیت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عظمت و محبت میں ڈوب گئے اور فاتحہءغوثیہ کی شیرینی کے ایک ایک ذرے کے تبرک ہو جانے میں کسی دوسری دلیل کی حاجت نہ رہ گئی۔
اور اب میں نے سمجھا کہ بار بار مجھ سے جو فرمایا جاتا کہ میں کچھ نہیں یہ آپ کے جد امجد (حضور ِ غوث ِ پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ)کا صدقہ ہے و ہ مجھے خاموش کر دینے کے لیے ہی نہ تھا،اور نہ صرف مجھ کو شرم دلانا ہی تھا بلکہ درحقیقت اعلیٰ حضرت حضور ِ غوث ِ پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ میں ’’چوں قلم دردستِ کاتب ‘‘(جیسے لکھنے والے کے ہاتھ میں قلم) تھے، جس طرح کہ غوث ِ پا ک سرکا ر ِ دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کے ہاتھ میں ’’چوں قلم دردستِ کاتب ‘‘تھے ۔
(فیضانِ اعلٰی حضرت مطبوعہ شبیر برادرز لاہور ص322)

بارگاہ غوثیت میں مقامِ اعلٰی حضرت

میرے نائب مولانا احمد رضا خان ہیں:

’’علی پورسیداں‘‘ ضلع سیالکوٹ کے مشہور و معروف بزرگ امیرِ ملت حضرت مولانا الحاج پیر سید جماعت علی شاہ صاحب نقشبند ی مجددی محدث علی پوری علیہ الرحمہ کی ذات ِگرامی محتاج تعارف نہیں۔انہیں کا واقعہ ہے کہ اپنے نانا جا ن’’ قطبِ اقطابِ جہاں‘‘’’شہنشاہِ بغداد‘‘سرکارِغوث ِ اعظم رضی للہ تعالیٰ عنہ کی زیارت کا شرف حاصل ہو اتو آ پ سے سرکارِ غوث ِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا :

’’ہندوستان میں میرے نائب مولانا احمد رضا خان ہیں‘‘

چنانچہ امیر ملت حضرت پیر سید جماعت علی شاہ صاحب اعلیٰ حضر ت کی زیارت کے لیے بریلی تشریف لائے اور اعلیٰ حضرت سے یہ خواب بھی بیان کیا ۔ (تجلیاتِ امام احمد رضا از مولانا امانت رسول قادری مطبوعہ برکاتی پبلیشرز ص89)

بریلی میں مولانا احمد رضا خان:

شیر ربانی، حضرت پیر روشن ضمیر،میاںشیر محمد صاحب شرقپوری نقشبند ی کوایک مرتبہ شہنشاہِ بغداد، سرکارِ غوث ِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خواب میں زیارت ہوئی ،میاں صاحب نے دریافت کیا حضور ! اس وقت دُنیامیں آپ کا نائب کون ہے ؟ سرکارِ غوث ِ پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا:
بریلی میں مولانا احمد رضا خان
بیداری کے بعد صبح ہی کو سفر کی تیاری شروع کر دی، مریدوں نے پوچھا حضور کہاں کا ارادہ ہے ؟ فرمایا : بریلی شریف کا قصد ہے ،رات فقیرنے خواب میں سرکارِ غوث ِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زیار ت کی اور پوچھا حضور اس وقت دُنیا میں آپ کا نائب کون ہے تو فرمایا کہ ’’احمد رضا ‘‘ لہٰذا ان کی زیارت کرنے جا رہا ہوں ۔
مریدوں نے عرض کیا حضور! ہم کو بھی اجازت ہو تو ہم بھی چلیں اور ان کی زیارت کریں آپ نے اجازت عطا فرمائی ۔شیر ربانی میاں شیر محمد صاحب اپنے مریدین کے ہمراہ شرقپور شریف سے بریلی شریف چل دیئے ۔
یہاں بریلی شریف میں اعلیٰ حضرت نے فرمایا کہ آج شیخ ِ پنجاب تشریف لارہے ہیں، اوپر والے کمرے میں ان کے قیام کا انتظام کیا جائے اس کمرے کو صاف کر کے فرش لگایا جائے۔جس وقت شیر پنجاب اعلیٰ حضر ت کے کاشانہء اقدس پر پہنچے تو اعلیٰ حضر ت پھاٹک پر تشریف فرما تھے اور فرما رہے تھے کہ فقیر استقبال کے لیے حاضر ہے۔ مصافحہ ومعانقہ کے بعد پھاٹک والے مکان کے اوپر حضرت کا قیام ہوا، تین روز تک یہیں قیام فرمایا، پھر اجازت چاہی۔
(تجلیات امام احمد رضا از مولانا محمد امانت رسول قادری مطبوعہ برکاتی پبلیشر ز ص97)

قطبُ الارشاد:

خواص ہی نہیں عوام کو بھی بارہا اعلیٰ حضرت کے مقام کے بارے میں سرکارِ غوث پا ک کی طرف سے اشارے ملتے رہے، چنانچہ نامور صاحب ِقلم علامہ ارشدالقادری صاحب ایک واقعہ کی منظر نگاری یوں کرتے ہیں:
’’بریلی کے اسٹیشن پر ایک سرحدی پٹھان کہیں سے اتر ا، متصل ہی نوری مسجد میں اس نے صبح کی نماز ادا کی ، نماز سے فراغت کے بعد جاتے ہوئے نمازیوں کو روک کر اس نے پوچھا ’’یہاں مولانا احمد رضا خان نامی کوئی بزرگ رہتے ہیں ؟‘‘ ان کا پتہ ہو تو بتا دیجئے ۔ ایک شخص نے جواب دیا ۔۔۔ یہاں سے دو تین میل کے فاصلے پر ’’سوداگران ‘‘ نام کا ایک محلہ ہے وہیں اس کے علم و فضل کی راجدھانی ہے ۔ سرحدی پٹھا ن اٹھنا ہی چاہتا تھاکہ اس(نمازی) نے سوال کیا۔ کیا میں یہ معلوم کر سکتا ہوں کہ آپ کہاں سے تشریف لا رہے ہیں؟ جواب دیا سرحد کے قبائلی علاقے سے میرا تعلق ہے ۔ وہیں پہاڑ کے دامن میں ایک چھوٹا ساگاؤں ہے جہاں میرا آبائی مکان ہے ۔
آپ مولانا احمد رضا خان کی تلاش میں کیوں آئے ہیں ؟ اس سوال پر اس کے جذبات کے ہیجان کا عالم قابلِ دید تھا ، فوراً ہی آبدیدہ ہو گیا ۔ ـ’’یہ سوال نہ چھیڑئیے تو بہتر ہے‘‘ کہہ کر خاموش ہو گیا۔اس پر اسرار جواب سے پو چھنے والوں کا اشتیاق اور بڑھ گیا ۔ جب لوگ زیادہ مصر ہوگئے تو اس نے بتایا ۔ ۔۔ میں نے گزشتہ شب ِ جمعہ کو نیم بیداری کی حالت میں ایک خواب دیکھا ہے جس کی لذت میں کبھی نہیں بھولوں گا۔
اے خوشا نصیب! اولیا ئے مقربین اور ائمہء سادات کی نورانی محفل ہے جہاں بریلی کے ’’احمدرضا‘‘نامی ایک بزرگ کے سر پر امامت کی دستار لپیٹی گئی ہے ۔ اور انہیں ’’قطب الارشاد‘‘ کے منصب پر سرفراز کیا گیا ہے۔ میری نگاہوں میں اب تک وہ منظرمحفوظ ہے ۔ اس دن سے میں اس مردِ مومن کی زیارت کے لئے بے تاب ہو گیاہوں ۔
سرحدی پٹھان نے اپنی بات ختم کرتے ہوئے کہا ۔۔۔آپ حضرات قابلِ رشک ہیں کہ اپنے وقت کے’’ قطب لارشاد ‘‘کے چشمہ ء فیضان کے کنارے شب و روز کی زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ اتناکہہ کر وہ بے تابیء شوق میں اٹھا اور تیز تیز قدم بڑھاتے ہوئے محلہ سوداگران کی طرف چل پڑا ۔
اس ایک واقعہ میں دوسرے بہت سے غیر معمولی پہلوؤں کے سوا ایک تابناک پہلو یہ بھی ہے کہ عشقِ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کی برکتوں نے آپ کو مناز لِ ولایت میں ایک اہم منز ل، عظیم منصب ’’قطب الارشاد ‘‘ پر فائز کر دیا تھا ۔ اس شانِ ولایت کی توثیق متعدد واقعات سے ہوتی ہے ۔

فرشتوں کے کاندھوں پر’’ قطب الارشاد ‘‘کا جنازہ :

مخدوم ُ الملت ،محدث اعظم ہند حضرت سید محمد کچھوچھوی علیہ الرحمہ اپنا مشاہدہ بیان کرتے ہیں:
’’میں اپنے مکان پر (کچھوچھہ شریف میں)تھا، اوربریلی کے حالات سے بے خبر تھا ۔ میرے حضور شیخ المشائخ سید علی حسین اشرفی میاں وضو فرمارہے تھے کہ یکبارگی رونے لگے ۔ یہ بات کسی کی سمجھ میں نہ آئی کہ آپ کیوں رو رہے ہیں ۔ میں آگے بڑھا تو فرمایا کہ: بیٹا میں فرشتوں کے کاندھوںپر ’’ قطب الارشاد ‘‘ کا جناز ہ دیکھ کر رو پڑا ہوں ، چند گھنٹے کے بعد بریلی کا تار ملا(کہ اعلیٰ حضرت کا وصال ہو گیا ہے ) تو ہمارے گھر میں کہرام پڑ گیا۔ 
(حضرت بریلوی کی شخصیت از مولانا ڈاکٹر غلام مصطفی مطبوعہ جمعیت اشاعت اہلسنت کراچی ص 17-19)

مقام اعلٰی حضرت اولیاءکرام کی نظر میں

آپ کی اسی شانِ ولایت کا اثر تھا کہ ہندوستان بھر کے جیَّد بزرگانِ دین ،صوفیا ،علماء ، و مجاذیب آپ کی قدرو منزلت کا اظہار برملا کیا کرتے تھے۔آیئے! ان میں سے چند ایک کی جھلکیاںمُلاحظہ کرتے ہیں:

مولانا شاہ فضل رحمن گنج ِ مرادآبادی:

حضرت مولاناشاہ فضل رحمن صاحب گنج ِ مرادآبادی علیہ الرحمہ 1208ھ میں پیداہوئے۔ ’’تذکرہ علمائے ہند ‘‘ میں ہے:
مولاناشاہ فضل رحمن صاحب کے اوصافِ حمید ہ ایسے نہیں کہ زبان ِ بریدہ، قلم ِبے بُنیا د ،کاغذ پر اِن میں سے تھوڑے بھی لکھ سکے اور انسان ضعیف البیان کی کیا مجال ہے کہ ان کا عشرِ عشیر بھی بیان کر سکے ۔ آپ مرید و خلیفہ حضرت ِ شاہ محمد آفاق دہلوی اور شاہ غلام علی دہلوی علیہماالرحمہ کے ہیں۔مخلوق اُ ن کی طرف رجوع کرتی ہے، چھوٹے بڑے ، مالدار و مفلس ،مشہور و غیر مشہور ، دور و نزدیک سے آتے ہیں اور بیعت سے سر فراز ہوتے ہیں ۔ 
(تذکرہ ء علمائے ہند از مولوی رحمن علی مطبوعہ پاکستان ہسٹاریکل سوسائٹی کراچی ص 328)
1292ھ کا واقعہ ہے 27رمضا ن المبارک کو اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ گنج مراد آباد تشریف لے گئے ۔ اس سفر میں آپ کے ہمراہ حضرت مولانا شاہ وصی احمد صاحب محدثِ سورتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بھی تھے۔ (جوکہ حضرت مولانا فضلِ رحمن کے خلیفہ ء مجاز تھے)حضرت مولانا شاہ فضل رحمن صاحب علیہ الرحمہ نے آپ کی آمد سے مطلع ہو کر اپنے مریدوں سے فرمایا کہ’’ آج ایک شیر حق آرہا ہے ‘‘ پھرقصبہ سے باہر نکل کر آپ کا استقبال کیا۔ خانقاہ ِرحمانیہ میں شاہ صاحب کے مخصوص حجرہ میں اعلیٰ حضرت قیام پذیر ہوئے ۔ عصر کے بعدکی مجلس میں شاہ صاحب نے حاضرین سے یہ فرمایاکہ:
’’مجھے آپ میں نور ہی نور نظرآتا ہے ‘‘
نیز فرمایا:
’’میرا جی چاہتا کہ میں اپنی ٹوپی آپ کو اوڑھا دو ں اور آپ کی ٹوپی خود اوڑھ لوں‘‘۔ یہ فرما کر اپنی ٹوپی اعلیٰ حضرت کو اوڑھائی اورحضرت کی ٹوپی خود اوڑھ لی۔
اعلیٰ حضرت نے واپسی کی اجازت چاہی اور فرمایا کہ والد ِ ماجد سے اتنی ہی اجاز ت لے کر آیا تھا۔ شاہ صاحب نے فرمایا اُن سے میرا سلام کہنااورکہنا کہ دو روزفضل ِرحمن نے روک لیا تھا اور یوں 29رمضا ن کو رخصت فرمایا ۔یہاں پر قابلِ ذکریہ بات ہے کہ اُس وقت اعلیٰ حضرت کی عمر صرف 20سال تھی ، حضرت شاہ صاحب کی عمر تقریباً 84سال تھی، لیکن ایک اللہ کے ولی نے اپنی نگاہِ ولایت سے پہچان لیا کہ اِ س نوجوان کا آفتابِ ولایت ایک وقت میں طلوع ہو کر چمکے گا اور اپنی نورانیت سے عالم کو منور فرمائے گا۔ (تجلیاتِ امام احمدر ضا از مولانا امانت رسول صاحب مطبوعہ کراچی پبلیشرز ص 32)
’’حیاتِ اعلیٰ حضرت ‘‘میں اتنا زائد ہے:بعدِ ملاقات اعلیٰ حضرت نے مجلسِ میلا د شریف کے(جواز کے) متعلق شاہ صاحب سے سُوال کیا فرمایا:تم عالم ہو پہلے تم بتاؤ۔اعلیٰ حضرت نے فرمایا :میں تو مستحب جانتا ہوں ۔شاہ صاحب نے فرمایا: لوگ اسے بدعتِ حسنہ کہتے ہیں اور میں سنت جانتا ہوں،صحابہءکرام جو جہاد کو جاتے تھے تو کیا کہتے تھے یہی نہ کہ مکے میں ایک نبی پیدا ہوئے ہیں، اللہ تعالیٰ نے اُن پر قرآن اُتارا،اُنہوں نے یہ ،یہ معجزے دکھائے، اللہ تعالیٰ نے اُن کو یہ، یہ فضائل عطا فرمائے ، بتائیے اور مجلسِ میلاد میں کیا ہوتا ہے ؟یہی تو بیان ہو تا ہے جو صحابہءکرام اُس مجمع میں بیان کیا کرتے تھے۔فرق اتنا ہے کہ تم اپنی مجلس میں لڑوا(لڈو) بانٹتے ہو اور صحابہ ء کرام اپناموڑ( سر) بانٹتے تھے۔(حیاتِ اعلیٰ حضرت از مولانا ظفر الدین بہاری مطبوعہ لاہور ص1005)

حاجی وارث علی شاہ( دیوا شریف):

حاجی سید وارث علی شاہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بڑے پائے کے بزرگ گزرے ہیں ،بڑی ساد ہ زندگی گزاری ۔حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کے شہر مدینے شریف پہنچے توجوتی اُتار دی پھر ساری زندگی جوتی کے بغیر ہی گزاردی ۔
ایک مرتبہ اعلیٰ حضرت نے سید صاحب کی خدمت میں حاضر ہونے کا ارادہ فرمایا، آپ کی عمر 25سال تھی، آپ سید صاحب کی زیارت کے لیے ’’دیواشریف‘‘ پہنچے۔ اعلیٰ حضرت اور سید وارث علی شاہ کا اس وقت تک آپس میں کوئی تعارف نہیں تھا ،ملاقات کا یہ پہلا موقعہ تھا ،پیر صاحب رونق افروز تھے ،مریدین آپ کی خدمت میں حاضرتھے۔جب اعلیٰ حضرت پہنچے تو سید صاحب فوراً سنبھل کر بیٹھ گئے اور فرمایا:’’مولانا اعلیٰ حضرت آگئے ‘‘۔
حضرت سید وارث علی شاہ صاحب کے پاس بڑے بڑے علما ء آتے تھے آپ کسی کو مولانا نہیں کہتے تھے اور نہ ہی اعلیٰ حضرت کہتے تھے۔پہلی مرتبہ آپ نے جس کو مولانا اور اعلیٰ حضرت کہا تو وہ سید ی امام احمد رضا خا ن ہی ہیں۔ (چہر ہ والضحیٰ از مولانا الہٰی بخش قادری مطبوعہ انجمن غلامانِ قطبِ مدینہ لاہور ص 105)

حضرت ِ سیدنا پیر مہر علی شاہ( گولڑہ شریف ):

ماہِ شریعت ،مہرِ طریقت ،حضرت پیر سید مہر علی شاہ صاحب گولڑوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کسی تعارف کے محتا ج نہیں۔ آپ یکم رمضا ن المبار ک 1275ھ بروز سوموار گولڑہ شریف میں پیدا ہوئے ۔ آپ نے عمر بھر شریعت و طریقت کی بے مثال خدمات انجا م دیں ۔سلسلہ عالیہ چشتیہ میں حضرتِ خواجہ شمس الدین سیالوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دستِ اقدس پر بیعت ہوئے اور خلافت و اجازت سے مشرف ہوئے ۔فتنہ ء قادیانیت کے خلاف آپ کی خدمات مثالی ہیں ۔ 29صفر 1356ھ بروز منگل آپ کا وصال ہوا ۔گولڑہ شریف میں ہی تدفین ہوئی۔ (تذکرہ اکابرِ اہلسنت از مولانا عبدالحکیم شرف قادری مطبوعہ مکتبہ قادریہ لاہور ص536)
آپ اعلیٰ حضرت کے ہمعصر تھے ،آپ نے اعلیٰ حضرت سے جس طرح محبت کا اظہار کیا مفتی محمد غلام سرور قادری صاحب اپنی کتاب ’’الشاہ احمد رضا ‘‘ میں اُس کا بیان یو ں کرتے ہیں :
جامع مسجد ہارون آباد کے امام اور غلہ منڈی ہارون آبا د کی مسجد کے خطیب مولانا مولوی احمد الدین صاحب فاضل مدرسہ انوارالعلوم نے راقم الحروف کو بتایا کہ میں حضرت مولانا مولوی نوراحمد صاحب فریدی کو بار ہایہ فرماتے سُنا کہ: عارفِ باللہ امام اہلسنت حضرت مولانا سید پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ:
’’آپ اعلیٰ حضرت کی زیارت کے لیے بریلی شریف حاضر ہوئے تو اعلیٰ حضرت حدیث پڑھا رہے تھے فرماتے ہیں مجھے یوں محسوس ہوتا کہ اعلیٰ حضرت بریلوی حضو رِ پُر نور حضرت ِ محمد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کو دیکھ دیکھ کر آپ کی زیارت شریفہ کے انوار کی روشنی میں حدیث پڑھا رہے ہیں‘‘۔ 
(الشاہ احمد رضا از غلام سرور قادری مطبوعہ مکتبہ فریدیہ ساہیوال ص103)
مولانا نواب الدین گولڑوی روایت فرماتے ہیں کہ :
استاذُ العلماء حضرت مولانا فیض احمد صاحب مؤلف ’’مہر منیر‘‘ 1963میں قبلہ غلام محی الدین عرف ’’بابو جی ‘‘رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ حرمین شریفین حاضر ہوئے تو مدینہ منورہ میں قطب ِمدینہ حضرت مولانا شیخ ضیاء الدین احمد مدنی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی بارگاہ میں بھی حاضر ہوئے اور آپ سے پوچھا کہ کیا اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور پیر مہر علی شاہ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ملاقات ثابت ہے ۔ تو سید ی قطب مدینہ نے ارشاد فرمایا کہ:
اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ اور پیر مہر علی شاہ صاحب علیہ الرحمہ کی ملاقات کا ثبوت تو نہیں ملتا(یعنی مجھ تک یہ بات نہیں پہنچی) البتہ حضرت ِاعلیٰ گولڑوی کا ذکر ِخیر اور مرزا قادیانی کے جھوٹے دعویٰ کے خلاف آپ کے مجاہدانہ کارناموں کا تذکرہ اعلیٰ حضرت کی مجالس میں بارہا سنا جاتا رہا ۔
(ملخصاً’’ لمعات قطب مدینہ‘‘ از خلیل احمد رانا مطبوعہ دار الفیض گنج بخش لاہور ص27)

بیعت کرنا کیسے شروع فرمایا

جنابِ سیدایوب علی صاحب ارشاد فرماتے ہیں کہ :
پہلے جوبھی مرید ہونے کے لیے بارگاہِ اعلیٰ حضرت میں عرض کرتا،تو آپ اُسے سید شاہ ابوالحسین احمد نوری میاں صاحب مارہروی یاحضرت ِمولانا شاہ عبدا لقادر صاحب بدایونی علیہ الرحمہ کی خدمت میں بھیج دیا کرتے تھے۔
کچھ دنوں کے بعد عالم ِرؤیا(خواب) میں اپنے شیخِ کامل خاتم الاکابر حضرتِ سیدنا شاہ آلِ رسول مارہروی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی زیارت سے مشرف ہوئے ۔ارشاد فرمایا: 
’’آپ سلسلے کا دائرہ کیوں تنگ کرتے ہیں مرید کیوں نہیں کرتے؟ ‘‘
اس حکم کے بعد آپ نے سلسلہء بیعت شروع فرمادیا ۔

عام روش سے ہٹ کر :

مولانا ظفرالدین بہاری صاحب تحریر فرماتے ہیں :
اعلیٰ حضرت نے پیری مریدی کے اُن ذرائع کی طرف جو اس زمانہ میں مروج ہیں کبھی اصلاً توجہ نہ فرمائی، نہ کبھی اُن طریقوں سے کام لیا ،نہ کبھی اس کا پروپیگنڈاکیا،نہ ہر شہر میں بھاری ایجنٹ ہی مقرر کئے، مگر پھر بھی جن کی قسمت میں قسامِ ازل نے داخل سلسلہء عالیہ قادریہ رضویہ ہونا تحریر فرمادیا تھا، اطراف و اکنافِ عالم سے آ آ کر داخل سلسلہ ء عالیہ ہوتے رہے ۔

دُنیا بھرمیں سلسلہ کی وسعت:

یہ سلسلہ صرف اپنے صوبہ(U.P) ،مغربی و شمالی ’’آگرہ‘‘اور’’اودھ ‘‘ہی تک محدودنہ رہا بلکہ ہندوستان کے اکیس صوبوں، اسلامی ریاستوں اور ریاست ہائے راجگانِ راجپوتا نہ وغیرہ سے تجاوز کر کے بیرونِ ہند، کابل ، ایران ، ترکی سے بھی بڑھ کر عرب اور شام حتیٰ کہ حرمین شریفین تک وسیع ہو گیاتھا ۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت ازمولانا ظفر الدین بہاری مطبوعہ مکتبہ نبویہ لاہور ص708)

ایک لاکھ مریدین :

’’حیاتِ اعلیٰ حضرت ‘‘ہی میں ہے کہ :
آ پ کے مریدوں کی تعداد ہزاروں سے تجاوز کر کے قریب ایک لاکھ کے پہنچ گئی تھی ۔
(حیاتِ اعلیٰ حضرت ازمولانا ظفر الدین بہاری مطبوعہ مکتبہ نبویہ لاہور ص696)
(اور اب موجودہ دور میں یہی سلسلہ ء قادریہ رضویہ شیخ ِ طریقت بانی ء دعوتِ اسلامی امیرِ اہلسنت ابو بلال حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار ؔقادری رضوی ضیائی کے ذریعے دُنیا بھر کے بیشتر ممالک میں پھیل چکا ہے اور آپ کے مریدین کی تعداد لاکھوں سے تجاوز کر چکی ہے۔ سبحان اللہ )
 خلفائے اعلیٰ حضرت
اعلیٰ حضر ت رضی اللہ تعالی عنہ کے خلفاء کی صحیح تعدا د کا تعین تو نہیں کیا جا سکتا لیکن قرین ِ قیاس یہ تعد ا دسو سے اوپر تجاوز کر تی ہے۔ اعلیٰ حضرت کے خلفاء نہ صرف برصغیر پاک و ہند سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ عرب و افریقہ کے بلاد میں بھی ایک کثیر تعداد پائی جاتی ہے۔ اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالی عنہ کے خلفاء کی فہرست ذیل میں پیش کی جاتی ہے:

خلفاء و پاک و ہند:

·         حضرت ِ حجۃُ الاسلام مولانا محمد حامد رضا خان
·         مفتیء اعظم ہند مولانا محمد مصطفی رضا خان
·         صدر الشریعہ مولانا محمدامجد علی اعظمی
·         صدرالافاضل مولانا محمد نعیم الدین مرادآبادی
·         ملک العلماء مولانا طفرالدین بہاری
·         سیدا حمد اشرف کچھوچھوی
·         سید محمد محدث کچھوچھوی
·         مولانا شاہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی
·         قطبِ مدینہ مولانا ضیاء الدین احمد مدنی
·         مولانا شاہ عبدالسلام جبل پوری
·         قاری بشیر الدین صاحب جبلپوری
·         مولانا عبدالباقی برھان الحق جبلپوری
·         مولانا سید سلیمان اشرف بہاری
·         مولانا سید محمد دیدار علی شاہ الوری
·         ابوالبرکات سید احمد قادری
·         مداح الحبیب مولانا جمیل الرحمن قادری
·         فقیہ اعظم مولانا محمد شریف محدث کوٹلوی
·         مولانا محمد امام الدین کوٹلوی
·         مولانا شاہ ہدایت رسول قادری
·         مفتی محمد غلام جان ہزاروی
·         سید محمد عبدالسلام باندوی
·         مولانا عبد الاحد صاحب پیلی بھیتی
·         سلطان الوعظین
·         مولانا عبدالحق صاحب پیلی بھیتی
·         مولانا ضیاء الدین پیلی بھیتی
·         مولانا حبیب الرحمن خان صاحب پیلی بھیتی
·         مولانا عبدالحئی صاحب پیلی بھیتی
·         مولانا شاہ محمد حبیب اللہ قادری میرٹھی
·         مولانا محمد شفیع صاحب بیسلپوری
·         مولانا محمد عمرالدین ہزاروی
·         مولانا احمد بخش صادق صاحب
·         مولانا احمد حسین امروہوی
·         مولانا رحیم بخش آروی قادری
·         مولانا رحم الہٰی منگلوری
·         مولانا عبدالعزیز خاں بجنوری
·         مولانا عزیز الحسن پھپھوندوی
·         مولانا محمد حسنین رضا خان
·         مولانا احمد مختار صدیقی میرٹھی
·         قاضی عبدالوحید عظیم آبادی
·         قاضی شمس الدین جونپوری
·         مولانا سید غلام جان جود ہپوری
·         مولانا محمد اسمعیل فخری محمود آبادی
·         حضرت مولانا سید محمد حسین میرٹھی
·         منشی حاجی محمد لعل خان مدراسی
·         مولانا مشتاق احمد کانپوری
·         میر مومن علی جنیدی
·         مولانا سید نور الحسن نگینوی
·         مولانا نثار احمد کانپوری
·         مولانا حافظ یقین الدین بریلوی
·         حاجی کفایت اللہ صاحب

خلفائے عرب و افریقہ:

·         سید اسمعیل خلیل مکی
·         الشیخ احمد الخضراوی المکی
·         الشیخ اسعد بن احمد الدھان مکی
·         سید ابو بکر بن سالم البار العلوی
·         مولانا شیخ بکر رفیع
·         حضرت شیخ حسن العجیمی
·         حضرت سید حسین جمال بن عبدالرحیم
·         سید حسین بن سید عبدالقادرمدنی
·         مولانا سید عبدالرشید مظفر پوری
·         سید فتح علی شاہ صاحب
·         حضرت شیخ عبداللہ بن ابو الخیر میرداد
·         علامہ سید عبداللہ دحلان مکی
·         حضرت شیخ عبداللہ فرید بن عبد القادرکردی
·         شیخ علی بن حسین مکی
·         سید علوی بن حسن الکاف الحضری
·         حضرت شیخ عمر بن حمدان المحرسی
·         حضرت شیخ مامون البری المدنی
·         مولانا سید محمد ابراھیم مدنی
·         ابوالحسن بن عبدالرحمن المرزوقی
·         سید محمد بن عثمان دحلان
·         حضرت شیخ محمد جمال بن محمد الامیر
·         محمد سعید بن محمد بالصبیل مفتیء شافعیہ
·         السید محمد سعید بن السید محمد المغربی
·         الشیخ محمد صالح کمال مفتیء حنفیہ
·         محمد عبدالحئی بن سید عبدالکبیر الکتانی
·         السید محمد عمر بن ابو بکر رشیدی
·         الشیخ مولانا محمد یوسف
·         سید مصطفی خلیل مکی آفندی

تلامذہء اعلیٰ حضرت

اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے تلامذہ کی فہرست بہت طویل ہے،مندرجہ بالاخلفاء وخدام کے علاوہ درجہ ذیل حضرات کا ذکر بھی مولانا حسنین رضا خان نے’’سیرتِ اعلیٰ حضرت‘‘ میں کیا ہے،تحریر فرماتے ہیں:
حسبِ ذیل حضرات بھی اعلیٰ حضرت کے حلقہء درس میں شامل تھے :
·         مولانا شاہ ابو الخیر سید غلام محمد صاحب بہاری
·         مولانا سید عبدا لرشید صاحب بہاری
·         مولوی حکیم عزیر غوث صاحب
·         مولوی واعظ الدین صاحب چاٹگام
·         مولوی سلطان الدین سلہٹ
·         مولوی نوراحمد صاحب بنگال
·         نواب مرزا طوسی ۔۔۔وغیرہ
یہ حضرات آپ کے پا س خصوصیت سے توقیت ، لوگارثم ،تکسیر ، ریاضی اور کتبِ احادیث پڑھتے تھے۔
حسبِ مراتب فتاویٰ بھی اِنکے سپر د ہوتے تھے اِن دنوں اعلیٰ حضرت کو بہت کام کرنا پڑتا تھا تو اِن سب حضرات کی مشاورت سے ایک نیا نظم قائم کیا گیا ۔(سیرتِ اعلیٰ حضرت از مولانا حسنین رضا خان مطبوعہ کراچی ص 133)

دربارِ رسالت میں انتظار

۲۵ صفَر المُظَفَّرکو بیت المقدَّس میں ایک شامی بُزُرگ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے خواب میں اپنے آپ کو دربارِ رسالت صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہٖ وسلّم میں پایا ۔تمام صحابہ کرام علیہم الرضوان اور اولیائے عِظام رَحِمَہُمُ اللہُ تعالٰی دربار میں حاضِر تھے ،لیکن مجلس میں سُکوت طاری تھا اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کسی آنے والے کا اِنتظار ہے ۔شامی بُزُرگ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے بارگاہِ رسالت صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہٖ و سلّم میں عرض کی ، حُضور! (صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہٖ و سلّم ) میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں کس کا انتظار ہے ؟ سیِّدِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہٖ و سلّم نے ارشاد فرمایا،ہمیں احمد رضا کااِنتظار ہے۔شا می بزرگ نے عرض کی، حُضُور ! احمد رضا کون ہیں ؟ ارشاد ہوا،ہندوستان میں بریلی کے باشِندے ہیں۔بیداری کے بعد وہ شامی بُزُرگ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مولانا احمد رضارحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی تلاش میں ہندوستان کی طرف چل پڑے اور جب وہ بریلی شریف آئے تو انہیں معلوم ہوا کہ اس عاشقِ رسول کا اسی روز (یعنی ۲۵ صفرالمُظفَّر۱۳۴۰ھ) کو وصال ہوچکا ہے جس روز انہوں نے خواب میں سرورِ کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہٖ و سلّم کو یہ کہتے سنا تھا کہ”ہمیں احمد رضا کا انتظار ہے۔”(سوانح امام احمد رضا ،ص ۳۹۱، مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر)
یا الہٰی جب رضاؔ خوابِ گراں سے سر اٹھائے
دولتِ بیدارِ عشقِ مصطفٰے کا ساتھ ہو

وفات حسرت آیات

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی وفات سے چارماہ بائیس دن پہلے خود اپنے وِصال کی خبر دے کر ایک آیتِ قرآنی سے سالِ وفات کا اِستخراج فرمایا تھا۔وہ آیتِ مبارکہ یہ ہے:
وَ یُطَافُ عَلَیۡہِمۡ بِاٰنِیَۃٍ مِّنۡ فِضَّۃٍ وَّ اَکْوَابٍ
ترجمہ کنزالایمان:اور ان پر چاندی کے برتنوں اور کُوزوں کا دَور ہوگا۔(پ ۲۹، الدھر:۱۵)
(سوانح امام احمد رضا ، ص ۳۸۴، مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر )
۲۵صفَر الْمُظَفَّر ۱۳۴۰ھ مطابق ۱۹۲۱ کو جُمُعَۃُ الْمبارَک کے دن ہندوستان کے وقت کے مطابق2 بج کر38 منٹ پر،عین اذان کے وقت اِدھر مُؤَذِّن نے حَیَّ عَلَی الفَلاح کہا اور اُدھر اِمامِ اَہلسُنَّت ولی نِعمت ، عظیمُ البَرَکت، عظیمُ الْمَرْتَبَت، پروانہ شمعِ رِسالت، مُجَدِّدِ دین ومِلّت، حامیِ سُنّت، ماحیِ بدعت، عالِمِ شَرِیْعَت، پیرِطریقت، باعثِ خَیْروبَرَکت، حضرتِ علامہ مولٰینا الحاج الحافِظ القاری الشاہ امام اَحمد رَضا خان علیہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن نے داعئ اَجل کو لبیک کہا۔
اِنّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیہِ رَاجِعُون۔
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مزارِپُراَنوار بریلی شریف میں آج بھی زیارت گاہِ خاص و عام بنا ہوا ہے۔

1 comment: