Gurde me Pathri kaisi Paida hoti hai

گردے کیا ہیں؟
 ان میں کیسے پتھری پیدا ہوجاتی ہے۔ اس بارے میں حکیم محمد عبداللہ صاحب نے اپنی کتب میں بڑی تفصیل سے بیان فرمایا ہے۔ آسان علاج بھی تحریر فرمایا ہے۔ مرحوم کے پاس جو علم تھا وہ کتابوں کی شکل میں عوام الناس تک پہنچا دیا ہے۔ گردہ و مثانہ کا علاج ہم بوجہ مجبوری خود ہی اللہ پر تکیہ رکھ کر کرتے رہتے ہیں مگر ہمیں یہ علم نہیں ہوتا کہ پتھری گردہ میں ہے یا مثانہ میں۔ نیم حکیم اور جعلی ڈاکٹر پیٹ کے نچلے حصہ میں چاہے قولنج کا درد ہی کیوں نہ ہو‘ پیسے بٹورنے کی خاطر دردگردہ اور پتھری کی دوا دے دیتے ہیں۔ مرض کچھ دوا کچھ۔۔۔
 ہسپتالوں میں صحیح ڈاکٹر کو دکھانا مشکل ہے۔ سپیشلسٹ کے پاس تو غریب آدمی پہنچ ہی نہیں سکتا کیونکہ مالی استطاعت ہی نہیں۔ دوسرا ڈاکٹر صاحبان کے پاس اتنا رش ہوتا ہے کہ وہ پوری توجہ مریض کو نہیں دے سکتے۔ جو دل میں آیا لکھ دیا۔ ان کا بھی قصور نہیں کہ وہ بھی انسان ہیں۔ روزانہ مریضوں کے ہجوم کو نپٹانا ان ہی کا کام ہے۔ بات کرنے کامقصد یہ ہے کہ ٹھیک دوائی نہ ملنے کی وجہ سے گردے متاثر ہوتے ہیں اور کئی دوسری بیماریاں جنم لینے لگ جاتی ہیں۔ آئیے! ذرا گردوں کے بارے میں جانیں کہ کیا ہوتےہیں اور کہاں ہوتے ہیں؟
گردے نصف دائرہ کی شکل میں دو عضو ہیں جو گیارہویں پسلی کے نیچے پیٹ کی پچھلی طرف کمر میں واقع ہیں۔ گردے جگر سے غذاکے بالکل رقیق حصہ کو جذب کرکے اس میں سے غذا لے کر باقی صاف پانی کو اپنی نالیوں کے ذریعہ مثانہ میں جمع کرتے ہیں۔ جب مثانہ پانی سے بھر جاتا ہے تو نالی کا منہ کھل کر پیشاب بن کر نکلتا ہے جب غلیظ اور مرطوب غذاؤں کا زیادہ استعمال سے لیس دار رطوبتیں جن کے اندر مٹیالے اجزا کا غلبہ ہوتا ہے گردہ یا مثانہ کے اندر اکٹھی ہوکر پڑی رہتی ہیں تو جسم کی حرارت لطیف اجزاء کو ان سے اڑا دیتی ہے اور مٹیالے اجزا باقی رہ جاتے ہیں جو جم کر پتھری کا باعث بنتے ہیں۔
اکثر برف کا پانی یا سردائی یا چاول وغیرہ زیادہ استعمال کرنے سے بوجہ ریح گردہ میں کھچاؤ پیدا ہوکر درد ہونے لگتا ہے۔ پتھری بن جانا نہایت تکلیف دہ ہے جب پتھری مثانہ کے اندر چبھتی ہے تو مریض درد کے مارے لوٹ پوٹ جاتا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ پتھری گردہ میں ہے یا مثانہ میں اس کیلئے درج ذیل علامات ملاحظہ فرمائیں۔ 
1۔ اگر ریت یا پتھری گردہ میں ہو تو ایسے مریض کی کمر میں دھیما دھیما درد ہوتا ہے جس کی ٹیسیں خصیتین ران اور بعض اوقات خشفہ تک جاتی ہیں۔ ذرا تیز چلنے‘ دوڑنے‘ سائیکل موٹرسائیکل کی سواری سے درد میں شدت پیدا ہوتی ہے۔
2۔ پیشاب میں بار بار خون ملا آتا ہے کبھی کبھی پیشاب کے بعد خون آتا ہے اگر قبض رہتی ہو تو مریض کو قے بھی ہونے لگتی ہے جب گردوں میں بڑی پتھریاں بن جائیں تو پیشاب میں رکاوٹ پیدا ہوجاتی ہے۔ بعض اوقات پیشاب بند ہوکر زندگی کا چراغ گل ہوجاتا ہے۔
اگر مثانہ میں پتھری ہو تو مقام پیڑو اور سیون کے آس پاس سخت درد ہوتا ہے اور خارش بھی ہوتی ہے۔ پیشاب کی حاجت بار بار ہوتی ہے۔ پیشاب سخت تکلیف سے نکلتا ہے۔ بعض اوقات پیشاب کے ساتھ پاخانہ بھی نکلتا ہے سب سے اہم بات یہ ہے کہ پیشاب کرچکنے کے بعد مریض کو محسوس ہوتا ہے کہ پیشاب کی حاجت باقی ہے۔
پیشاب ان امراض میں گاڑھا ہوتا ہے کام کرتے ہوئے درد محسوس ہوتا ہے۔
تشخیص کی بہترین تدبیر: مریض کو شام کے وقت کسی چینی یا کانچ کے برتن میں پیشاب کرائیں۔ برتن کو ڈھک دیں‘ صبح دیکھیں کہ ریت کس رنگ کی ہے۔ اگر سرخ رنگ کی ہو تو گردہ اور اگر سفید رنگت ہو تو مثانہ کی بیماری ہے۔ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ کسی قسم کی بوتل سیون اپ یا پیپسی وغیرہ مریض کو پلائیں دو منٹ کے اندر اندر تڑپنا شروع کردے گا۔

اگر مثانہ میں پتھری رک جائے اور تکلیف زیادہ ہورہی ہو تو مریض کو سینے کے بل لیٹا کراسے کہیں کہ وہ اپنے پاؤں اوپرآسمان کی طرف اٹھائے اوراُس کی پیڑو کی ہڈی پر گرم پانی ڈالیں اور نیچے سے اوپر کو ملیں تو اس طرح مریض کو پیشاب کُھل کر آئے گا اور وہ تکلیف میں بالکل آرام محسوس کرے گا۔ گردہ اور مثانہ کے مریض کو آلو‘ اروی‘ ارد کی دال‘ باجرہ کی روٹی‘ بینگن‘ مسور کی دال‘ ٹماٹر‘ انڈا پالک‘ چاول‘ دال ماش‘ گوبھی‘ مٹر‘ ٹھنڈا پانی سے پرہیز کرنا لازمی ہے۔ جو بھی کسی اور بیماری میں مبتلا ہوں انگریزی ادویات کھارہے ہوں وہ لازمی طور پر صاف ستھرا پانی کثرت سے استعمال کریں۔ کیونکہ پانی کی کمی سے گردے متاثر ہوتے ہیں۔
...................
از حکیم محمد عرفان الحق چشتی

No comments:

Post a Comment