رومن اُردو سے مراد اُردو الفاظ کو
انگریزی حروف تہجی کی مدد سے لکھنا ہے. مثلاً کتاب کو Kitaab اور دوست کو Dost لکھنا۔ اس طرزِ تحریر
کو دشمنِ اردو کہا جائے تو بےجا نہ ہو گا۔
اگر قارئین اس بات کو
نہیں سمجھے کہ رومن اردو سے اردو رسم الخط کو کیا خطرہ لاحق ہے تو اس کو سمجھنے کے
لیے ترکوں کی مثال دی جاسکتی۔ سلطنت عثمانیہ کے زوال کے بعد ١٩٢٨ء میں سیکولر ذہنیت
کے حامل کمال اتاترک نے کئی طریقوں سے اسلام سے اپنی نفرت کا اظہار کیا۔ جیسے کہ اذان
پر پابندی، حج و عمرہ کرنے کو ممنوع قرار دیا گیا، آیا صوفیہ جیسی عظیم الشان مسجد
کو میوزیم میں تبدیل کیاگیا اور یہاں تک کہ ہجری کیلنڈر کی جگہ عیسوی کلینڈر کو نافذ
کیاگیا۔
کمال اتاترک نے اسلام
دشمنی کا ایک اور ثبوت دیا اور ترکی زبان جو عربی رسم الخط میں لکھی جاتی تھی اسے بدل
کر رومن حروف میں لکھنے کا حکم دے دیا۔
جواز یہ پیش کیاگیا کہ
اس سے شرح خواندگی اوپر آئے گی۔ لیکن اس اقدام کا اصل مقصد آنے والی تُرک نسل کو
اسلامی کتب جو عربی رسم الخط میں تھیں ان سے دور کرنا تھا۔ اس بات کا واضح ثبوت ترکی
کے پہلے وزیراعظم عصمت انونو کے ان الفاظ سے ہوتا ہے کہ"حرف انقلاب کا مقصد نئی
نسل کا ماضی سے رابطہ منقطع کرنا اور ترک معاشرے پر مذہب اسلام کی چھاپ اور اثر و رسوخ
کو کمزور بنانا ہے۔" (یادداشتِ عصمت انونو، جلد دوئم، ص، 223)
یہ اسلام دشمن منصوبہ کامیاب رہا اور آنے والی نسل دیگر کتب تو دور کی بات قرآن مجید پڑھنے میں بھی دشواری کا سامنا کررہی تھی۔ کیونکہ قرآن مجید بھی عربی رسم الخط میں ہے۔ نتیجے کے طور پر سلطنت عثمانیہ کے زمانے میں لکھی جانے والی بیش بہا کتب کا خزانہ تو موجود تھا لیکن ترک ان کتابوں کو پڑھنے سے قاصر تھے۔ کسی نے ان حالات کا کیا خوب تجزیہ کیا ہے کہ ترک قوم رات کو سوئی تو پڑھی لکھی لیکن صبح اٹھی تو انپڑھ ہوچکی تھی کیونکہ ان کا واسطہ ایک ایسے رسم الخط سے پڑا تھا جس سے وہ نابلد تھے۔
کچھ افراد کا کہنا ہے
کہ اردو کی بورڈ استعمال کرتے ہوئے اردو لکھنا مشکل اور وقت طلب کام ہے تو ان کے لیے
عرض ہے کہ جاپانی اور چینی انٹرنیٹ بلکہ کسی بھی جگہ رومن رسم الخط کا استعمال نہیں
کرتے بلکہ اپنے رسوم الخط کو ترجیح دیتے ہیں۔
کیا اردو اب جاپانی اور
چینی زبان سے بھی مشکل ہو گئی ہے جو ہم اس سے دور ہو رہے ہیں؟
اسی طرح کچھ احباب اردو رسم الخط سے اس لئے بھاگتے ہیں کہ املاء کی غلطی کے باعث کوئی ان کا مذاق نہ اڑائے جیسے کہ اگر لفظ ”کام“ کو رومن اردو میں لکھنا ہو تو یوں لکھا جا سکتا ہے Kaam یا kam بلکہ Km لکھنے سے بھی کام بن جائے گا۔ کیونکہ اس کے لکھنے کا کوئی اصول نہیں۔ لیکن اگر اردو رسم الخط کا استعمال کرتے ہوئے کام کو ”قام“ لکھ دیا تو غلطی پکڑی جاسکتی ہے۔ اس میں گھبرانے کی کیا بات ہے اگر کوئی ہمارے املاء کی تصحیح کر دے تو ہمیں اس کے لئے ان کا شکر گزار ہونا چاہیئے ۔ رومن اردو کی جانب ہمارے جھکاؤ کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہم بحیثیت قوم انگریزی زبان سے بیحد مرعوب ہیں۔ ہمیں اس بات کو سمجھنے میں دیر نہیں لگانی چاہیئے کہ کسی بھی زبان کو بننے اور بگڑنے میں وقت لگتا ہے یا پھر یوں کہا جائے کہ آنے والی نسلیں زبان کی صورت بناتے یا بگاڑتے ہیں۔ ہمارے یہاں ایک نسل تو رومن اردو لکھتے بڑی ہوگئی اور اگر اب بھی رومن اردو کا راستہ نہ روکا گیا تو حالات وہی ہوجائیں گے کہ اردو تحریر دیکھ کر لوگوں کو سمجھ ہی نہ آئے گی کہ لکھا کیا ہے اور اس بات پر سارے متفق ہیں کہ جس زبان کا رسم الخط نہ رہے تو اس کے دامن میں موجود ادب کا بیش بہا سرمایہ بھی ضائع ہوجاتا ہے۔
تمام دوستوں سے گزارش ہیکہ اردو رسم الخط کا استعمال کریں شروع میں کچھ دن ٹینشن ھوگی پھر تیزی آ جائے گی ۔ برائے مہربانی اس تحریر کو شئیر یا فاروڈ کیا جائے السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ اس طرح کے پیغام (میسج) کو فارورڈ کرنے کی بجائے نقل کر کے چسپاں کردیں (کاپی کر کے پیسٹ کر دیں)۔
بشکریہ : ڈاکٹر انوار احمد بگوی
No comments:
Post a Comment