امام جعفر الصادق شخصیت تعارف اور 22 رجب کے کونڈے کی نیاز


 

حضور سیدنا امام جعفر الصادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ذات با برکات محتاج تعارف نہیں ہے  شریعت، طریقت، حقیقت،،معرفت ، فقہ ، حدیث اور علوم قرآن و معارف کے  ثقہ امام اور ہزاروں محدثین کے استاذ اور حضرت امام اعظم ابوحنیفہ و امام مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے بھی استاذ تھے آپ ہر قسم کے علوم و فنون میں ماہر وکامل اور اکمل تھے ۔ آپ سلسلۂ امامت کی چھٹی کڑی اور حضور سیدنا امام سید محمد الباقر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فرزند ارجمند اور آپ کے علوم معارف کے وارث و امین اور سجادہ نشین تھے ۔

آپ کا نسب نامہ: آپ کا سلسلۂ نسب تین واسطوں سے حضرت مولیٰ علی کرم اللہ وجہہ الکریم اور سیدہ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا سے مل جاتا ہے۔ آپ کی کنیت ابو عبد اللہ اور ابو اسماعیل ہےاور لقب صادق زیادہ مشہور و مقبول ہے.آپ حضور سیدنا سید السادات امام محمد  الباقر رضی اللہ تعالیٰ عنہ و ارضاہ عنا وسلام اللہ علیہ کے صاحب زادے ہیں۔ اور حضور سیدنا امام  زین العابدین ابن حسین ابن علی ابن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے پوتے ہیں اور حضور سیدنا امام  حسین ابن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے پرپوتے ہیں۔

 آپ کا شجرہ نسب یہ ہے ’’جعفر بن امام محمد الباقر بن امام علي زین العابدین ابن الشهيد بکربلاء الامام الحسين بن علي بن أبي طالب کرم اللہ وجھہ الکریم"

ننیہالی رشتہ: آپ کا ننھیالی رشتہ اور نسب حضرت سیدنا امیرالمومنین ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ سے  ملتا ہے۔کیونکہ آپ کی والدہ حضرت فروہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پوتے حضرت قاسم ابن محمد ابن ابو بکر الصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیٹی تھیں اور آپ کی نانی سیدنا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پوتی تھیں، جن کا نام نامی واسم گرامی بی بی اسماء بنت عبد الرحمٰن بن ابی بکر الصدیق رضوان اللہ علیہم اجمعین ہے، اسی وجہ سے حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ مجھے  حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شفاعت کی جتنی امید ہے بالکل اتنی ہی امید حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی شفاعت ملنے کی ہے، کیونکہ انہوں  نے مجھے دو دفعہ جنا ہے، یعنی دو واسطوں سے وہ میرے نانا ہیں۔

آپ کی پیدائش سن ۸۰ ھجری میں 17,ربیع الاول اور بروایتے دیگر 8/رمضان المبارک کو مدینۃ الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہوئی اور آپ کی شہادت سن 148 ھجری میں 15/رجب المرجب یا 24 یا 25/شوال المکرم 148ھجری مطابق 765عیسوی  ابو جعفر المنصور ابن ابو العباس السفاح کے عہد میں بروز جمعہ ہوئی۔ آپکو زہر دے کر شہید کیا گیا ۔جنۃ البقیع میں مدفون ہوۓ۔

حلیہ شریف: چونکہ آپ امام حسین علیہ السلام کے پوتے اور سیدنا امیرالمومنین ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نواسے تھے اسلیئے حلیہ شریف میں دونوں کا امتزاج دکھتا تھا مگر  خون رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کا رنگ کچھ زیادہ ہی شوخ تھا۔آپ بڑے حسین وجمیل اور نہایت شکیل بھی تھے، قد مبارک موزوں و مناسب تھا پیشانی کشادہ ،ناک لمبی اور آنکھیں پر جلال تھیں حسن سراپا پر جمال مصطفوی کا انعکاس تھا۔ ہیبت، شجاعت اور مروت ورثہ میں ملی تھیں۔

آپ کے فضائل و شمائل: حافظ ذہبی آپ کے بارے میں تذکرۃ الحفاظ میں لکھتے ہیں کہ حضرت امام ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے ان کے بارے میں فرمایا کہ میں نے جعفر ابن محمد (رضوان اللہ تعالیٰ علیہما) سے بڑا فقیہ کوئی نہیں دیکھا۔

ممبر سلونی کے مالک: تذكرة الحفاظ / طبقات الحفاظ للذهبي (1/ 125) میں علامہ ذھبی کہتے ہیں: جعفر بن محمد بن علي ابن الشهيد الحسين بن علي بن أبي طالب الهاشمي الإمام أبو عبد الله العلوي المدني الصادق: أحد السادة الأعلام وابن بنت القاسم بن محمد وأم أمه هي أسماء بنت عبد الرحمن بن أبي بكر فلذلك كان يقول: ولدني أبو بكر الصديق مرتين. حدث عن جده القاسم وعن أبيه أبي جعفر الباقر وعبيد الله بن أبي رافع وعروة بن الزبير وعطاء ونافع وعدة وعنه مالك والسفيانان وحاتم بن إسماعيل ويحيى القطان وأبو عاصم النبيل وخلق كثير قيل مولده سنة ثمانين فالظاهر أنه رأى سهل بن سعد الساعدي وثقه الشافعي ويحيى بن معين. وعن أبي حنيفة قال: ما رأيت أفقه من جعفر بن محمد وقال أبو حاتم: ثقة لا يسئل عن مثله. وعن صالح بن أبي الأسود: سمعت جعفر بن محمد يقول: سلوني قبل أن تفقدوني؛ فإنه لا يحدثكم أحد بعدي بمثل حديثي. وقال هياج بن بسطام: كان جعفر الصادق يطعم حتى لا يبقى لعياله شيء۔

قلت: مناقب هذا السيد جمة ومن أحسنها رواية حفص بن غياث أنه سمعه يقول: ما أرجو من شفاعة علي شيئا إلا وأنا أرجو من شفاعة أبي بكر مثله لقد ولدني مرتين. توفي سنة ثمان وأربعين ومائة فقط والله اعلم:

 ترجمہ: ممبر سلونی کے وارث: حضرت امام جعفر ابن محمدابن علی ابن الشھید الحسین ابن علی ابن ابی طالب الھاشمی العلوی المدنی الصادق آپ عظیم سادات کرام میں سے ہیں۔اور آپ حضرت قاسم بن محمد ابن ابو بکر صدیق کی بیٹی کے بھی شہزادے ہیں۔اور ان  کی نانی بی بی اسماءبنت عبد الرحمن بن ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں ،اسی لینے حضرت امام جعفر صادق فرماتے تھے مجھے حضرت ابو بکر صدیق نے دو مرتبہ جنا۔

روایات احادیث: آپنے اپنے نانا قاسم سے اور اپنے بابا ابو جعفر محمد الباقر سے اور عبیداللہ بن ابی رافع اورعروہ بن زبیر اور عطا و نانفع وغیرہ محدثین سے روایت فرمائی اور آپ سےبہت سارے محدثین خلق کثیر نے روایتیں فرمائی مثلا امام مالک،سفیان ثوری اور سفیان بن عیینہ اور محدث حاتم بن اسماعیل اور یحییٰ قطان  اور ابو عاصم النبیل اور دیگر خلق کثیر نے روایت کی۔کہا گیا کہ آپ کی پیدائش اسی 80 ھجری میں ہوئی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ نے سہل ابن سعد الساعدی صحابی  کو دیکھا ہے۔ اور یہ بھی مشہور ہے کہ حضرت انس ابن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی آپ کی ملاقات ہوئی غرضیکہ آپ کے تابعی ہونے میں کوئی شک نہیں۔ امام شافعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپ کی توثیق فرمائی اور یحییٰ بن معین نے بھی۔

سب سے بڑا فقیہ: حضرت امام ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے آپ فرماتے ہیں ما رأیت افقہ من جعفر ابن محمدیعنی میں نے امام جعفر ابن محمد سے زیادہ کسی کو بڑا فقیہ نہیں دیکھا ۔

ثقاہت بے مثال: اور ابو حاتم نے کہا کہ آپ کی ثقاہت بے مثال ہےاور صالح بن ابو الاسود نے کہا میں نے جعفر ابن محمد سے سنا وہ کہتے ہیں "سلونی قبل ان تفقدونی" یعنی پوچھ لو مجھ سے جو پوچھنا چاہتے ہو قبل اس کے کہ میں تمہارے درمیان سے اٹھا لیا جاوں۔ اس لیئے کہ  بلا شبہ کوئی بھی میرے بعد ایسی حدیثیں میری طرح تم سے نہیں بیان کر پائے گا۔

اور ھیاج ابن بسطام  کہتے ہیں  کہ امام جعفر صادق لوگوں میں اتنا کھانا بانٹتے تہے کہ ان کے اہل وعیال کیلیۓ کچھ نہیں بچتا تھا۔ میں کہتا ہوں  کہ  اس سید امام صادق (علیہ السلام) کے مناقب اور قدر و منزلت بہت زیادہ ہے ۔ان میں سے سب سے حسین منقبت حفص ابن غیاث کی روایت ہے انہوں نے سنا آپ فرماتے ہیں : ما ارجو من شفاعۃ علی شیئاًالا و انا ارجو من شفاعۃ ابی بکر مثلہ،، یعنی مجھے جتنی امید میرے دادا حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی شفاعت کی امید ہے اتنی ہی میرے نانا حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شفاعت کی امید ہے انہوں نے مجھے دو مرتبہ جنا۔آپ کا وصال148ھجری میں ہوا ۔

 ابو عثمان عمرو بن بحر جاحظ نحوی متوفی250ہجری کہتے ہیں: کہ حضرت امام جعفر صادق وہ ہیں جن کےعلم اور فقہ  نے دنیا کو علم و فقہ سے لبریز کر دیا۔

اماموں کے استاذ

قال: ابوعثمان عمرو بن بحر جاحظ (ت : ٢٥٠ھ. ق) وجعفر بن محمّد الّذی ملأ الدنیا علمه وفقهه. ویقال: انّ اباحنیفة من تلامذته وکذلک سفیان الثورى ۔

یعنی حضرتجعفر بن محمد وہ شخصیت ہیں جن کا علم اور فقہ پوری دنیا پر چھایا ہوا ہے اور کہا جاتا ہے کہ حضرت ابوحنیفہ اور  حضرت سفیان ثوری امام جعفر صادق ( رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے شاگرد تھے ۔

حضور امام جعفر الصادق تحقیق سے بے نیاز تھے چنانچہ محمد بن ادریس ، ا بوحاتم رازی (ت : 277 ھ.ق.) ۔انہوں نے امام صادق ( رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے متعلق کہا ہے : « جعفر بن محمد ثقة لا یسال عن مثلہ  یعنی امام جعفر بن محمد ثقہ ہیں اور یہ تحقیق سے بے نیاز ہیں ۔ امام جعفرصادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے علم و فضل کا چرچا ہر جگہ ہے۔

 چنانچہ محمد بن حبان بن احمد ، ابوحاتم تمیمی بستی (ت: ٣٥٤ ھ.ق.) کہتے ہیں : جعفر بن محمد بن علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب (رضی اللہ عنہ) کنیتہ ابوعبداللہ ، یروی عن ابیہ ، و کان من سادات اھل البیت فقھا و علما و فضلا۔ روی عنہ الثوری و مالک و شعبة والناس

حضرت امام جعفر بن محمد بن علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب (رضوان اللہ علیھم) کی کنیت ابوعبداللہ ہے ، یہ اپنے والد سے روایت نقل کرتے ہیں ۔ یہ سادات اہل بیت سے فقیہ، عالم اور فاضل ہیں ۔ ثوری، مالک ، شعبہ اور تمام لوگ ان سے روایت نقل کرتے ہیں ۔

آپ ثقات الناس ہیں: چنانچہ عبداللہ بن عدی جرجانی (ت : 365 ھ.ق.) فرماتے ہیں:وجعفر من ثقات الناس کما قال یحیی بن معین۔ و جعفر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ)  تمام لوگوں میں ثقہ تھے ، جیسا کہ یحیی بن معین نے کہا ہے ۔

امام جعفرصادق اپنے ردیف ائمہ میں سب سے زیادہ عیاں تھے: ابوعبدالرحمن سلمی (ت: 412 ھ. ق.) نے کتاب «طبقات مشایخ الصوفیہ « میں کہا ہے : «جعفر الصادق فاق جمیع اقرانہ من اھل البیت و ھو ذو علم غزیر فی الدین و زھد بالغ فی الدنیا و ورع تام عن الشھوات و ادب کامل فی الحکمة ۔

 جعفر صادق (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) اہل بیت کی اپنی ردیف میں سب سے زیادہ عیاں تھے ، ان کے پاس دین کا بہت زیادہ علم ، دنیا میں بہت زیادہ زہد و تقوی اور حکمت میں کامل ادب تھا ۔

علوم سے آراستہ امام: ابوالفتح محمد بن عبدالکریم شھرستانی (ت : ٥٤٨ ھ.ق.) کہتے ہیں:جعفر بن محمّد الصادق هو ذو علم غزیر وادب کامل فی الحکمة وزهد فی الدنیا وورع تام عن الشهوات وقد اقام بالمدینة مدة یفید الشیعة المنتمین إلیه ویفیض على الموالین له اسرار العلوم۔

حضرت امام جعفر صادق کے پاس دین کا بہت زیادہ علم ، دنیا میں بہت زیادہ زہد و تقوی اور حکمت میں کامل ادب تھا ۔یہ ایک مدت تک مدینہ میں رہے اور اپنے متبعین کو علم پہنچاتے رہے اور اپنے چاہنے والوں کو علوم کے اسرار آگاہ کرتے رہے ۔

ہر علوم کے جامع: جمال الدین ابوالفرج ابن جوزی (ت : 597 ھ.ق)انہوں نے148 ہجری کے واقعات میں لکھا ہے : « جعفر بن محمّد بن على بن الحسین بن على بن ابى طالب ابوعبدالله جعفر الصادق... کان عالماً زاهداً عابداً

حضرت امام جعفر بن محمد بن علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب ، ابوعبداللہ ، جعفر صادق عالم، زاہد او رعابد شخص تھے ۔

سچ اور حق بولنے والے

 ابوسعد عبدالکریم سمعانی (ت: 562 ھ.ق.) کہتے ہیں  کہ لقب لجعفر الصادق ، لصدقہ فی مقالہ

 حضرت امام جعفر صادق کو ۔ ان کو اپنے اقوال میں صادق ہونے کی وجہ سے صادق کہا گیا ۔

 ابن اثیر جزری (ت : 630ھ.ق.)  فرماتے ہیں: لقب بہ لصدقہ فی مقالہ و فعالہ ... و مناقبہ مشھورة

 امام جعفر صادق کو گفتار اور کردار میں صادق ہونے کی وجہ سے صادق کہا گیا ... ان کے فضائل و مناقب بہت زیادہ مشہور ہیں ۔

شان امام جعفر الصادق

محمد بن طلحة شافعی (ت : 652 ھ.ق.) کہتے ہیں:ھو من عظماء اهل البیت وساداتهم(علیهم السلام) ذو علوم جمّة وعبادة موفّرة، واوراد متواصلة وزهادة بیّنة، وتلاوة کثیرة. یتتبع معانى القرآن ویستخرج من بحر جواهره ویستنتج عجائبه

جعفر بن محمد (علیہ السلام) کا شمار اہل بیت اور سادات کے بزرگوں میں ہوتا ہے ۔ ان کے پاس بہت زیادہ علم تھا اور وہ بہت زیادہ عبادت کرتے تھے ، ان کا تقوی اور تلاوت بہت زیادہ مشہور ہے ، انہوں نے قرآن کے معانی کو تلاش کیا ہے اور اپنے جواہرات کے دریا سے استخراج کرتے تھے اور اس کے عجائب کا استنتاج کرتے تھے ...۔

امام جعفرصادق کے فضائل ناقابل بیان

ابوالعباس احمد بن محمد بن ابراھیم بن ابوبکر بن خلکان (ت : 681 ھ.ق.) کہتے ہیں و کان من سادات اهل البیت. ولقّب بالصادق لصدقه فی مقالته. وفضله اشهر من ان یذکر

وہ اہل بیت کے سادات سے تعلق رکھتے تھے ، ان کو ان کے اقوال میں صادق ہونے کی وجہ سے صادق کہا گیا اور ان کی فضیلت اس قدر زیادہ ہیں جن کو بیان کیا جائے ... ۔

بے شمار فضائل

ابن صباغ مالکی (ت : ٨٥٥ ھ.ق.)کہتے ہیں کان جعفر الصادق من بین اخوته خلیفة ابیه ووصیّه والقائم من بعده... وصّى إلیه ابوجعفربالامامة وغیرها وصیة ظاهرة ونصّ علیه نصاً جلیاً... وامّا مناقبه فتکاد تفوت من عدّ الحاسب

امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے تمام بھائیوں میں اپنے والد کے جانشین ، وصی اور قائم مقام تھے ... امام محمد باقر (علیہ السلام) نے ظاہری طور پر امام صادق کی امامت کا اعلان کیا اور ان کو تمام چیزوں کی وصیت کی ... ان کے فضائل اس قدر زیادہ ہیں کہ شمار کرنے والے شمار نہیں کرسکتے۔

صاحب علم لدنی

 عبدالرحمن بن محمد حنفی بسطامی (ت : 858 ھ.ق.) فرماتے ہیں:جعفر بن محمّد ازدحم على بابه العلماء واقتبس من مشکاة انواره الأصفیاء، وکان یتکلّم بغوامض الأسرار وعلوم الحقیقة وهو ابن سبع سنین ۔

حضور امام جعفر بن محمد وہ شخص ہیں جن کے دروازہ پر علماء ازدحام کرتے تھے اور امت کے منتخب افراد ان کے انوار کے چراغ سے استفادہ کرتے تھے ، جس وقت ان کی عمر سات سال کی تھی تو آپ پوشیدہ اسرار اور علوم حقیقی کو بیان کرتے تھے ۔

بےشمار محدثین کے استاذ

 احمد بن عبداللہ خزرجی (ت : 923 ھ.ق.  ) فرماتے ہیں جعفر بن محمّد بن علىّ بن الحسین بن علىّ بن ابى طالب الهاشمى ابوعبدالله، احد الأعلام... حدّث عنه خلق کثیر لایحصون

حضرت امام جعفر بن محمد بن علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب ہاشمی ، ابوعبداللہ کا شمار امت کے بزرگ افراد میں ہوتا ہے ، آپ سے اس قدر لوگوں نے حدیث کو نقل کیا ہے جن کو شمار نہیں کیا جاسکتا

صادقین کے صادق

 شمس الدین محمد بن طولون (ت : 953 ھ.ق.) کہتے ہیں کان من سادات اھل البیت و لقب بالصادق لصدقہ فی مقالتہ و فضلہ اشھر من ان یذکر

آپ کا شمار سادات اہل بیت میں ہوتا ہے ، آپ کو گفتار و کردار میں صادق ہونے کی وجہ سے صادق کے لقب سے نوازا گیا ، آپ کے فضائل اس قدر زیادہ ہیں جن کو شمار نہیں کیا جاسکتا ۔

 

 

احمد بن حجر ہیتمی (ت: 974 ھ.ق) کتنی خوبصورتی سے فرماتے ہیں و نقل عنہ الناس من العلوم ما سارت بہ الرکبان و انتشر صیتہ فی جمیع البلدان « (17) ۔ آپ سے اس قدر علم نقل ہوا  کہ لوگ فوج در فوج آپ کے پاس آنے لگے اور آپ کا مقام و منزلت پورے ملک پر چھا گیا ۔

مزید کچھ اور مشاھر  کے فرمودات

 علمائے اہلسنت کے نزدیک حضور سیدنا امام جعفر الصادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقام و مرتبہ اظہر من الشمس ہے

 حضور امام الاسلام والمسلمین أعلم علماء العالمین سیدنا امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مرتبہ و مقام کے بارے میں ان حضرات علمائے اسلام کےبڑے بڑے اقوال پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں ناچیز ابوالحماد محمد اسرافیل حیدری چاہتا ہے کہ ان کی شان اور جگ ظاہر ہوجائے ۔ یہاں میں کچھ مزید شہادات جو علماء اہلسنت والجماعت کی طرف سے آپ کی شان میں وارد ہوئی ہیں  وہ آثار و اقوال ہدیۂ ناظرین کر رہا ہوں ۔

عظیم الشان امام جعفر صادق اماموں کے امام علامہ ذھبی ایک روایت کے ضمن میں رقمطراز ہیں قال الذهبي في معرض حديثه عن الإمام الصادق: «جعفر بن محمّد بن علي بن الحسين الهاشمي أبو عبد اللّه أحد الأئمة الأعلام برّ صادق كبير الشأن وليس هو بالمكثر إلا عن أبيه، وكان من جلَّة علماء المدينة، وحدَّث عنه جماعة من الأئمة، منهم أبو حنيفة ومالك وغيرهما.

یعنی امام جعفر الصادق ہاشمی ائمہ اعلام میں سے ہیں۔آپ بہت نیک ،سچے اور کبیر الشان امام ہیں زیادہ تر احادیث اپنے والد محترم حضرت امام باقر سے روایت کرتے ہیں آپ علمائے مدینہ منورہ میں جلیل القدر ہیں۔ اماموں کی ایک جماعت نے آپ سے احادیث روایت فرمائی ہے جیسے امام ابو حنیفہ اور امام مالک وغیرہم

علامہ نووی کہتے ہیں: وقال النووي: «روى عنه محمّد بن إسحق، ويحيى الأنصاري، ومالك، والسفيانان، وابن جريج، وشعبة، ويحيى القطّان، وآخرون، واتفقوا على إِمامته وجلالته وسيادته، قال عمرو بن أبي المقدام: كنت إِذا نظرت إِلى جعفر بن محمّد علمت أنه من سلالة النبيّين

آپ سے محمد بن اسحٰق اور یحییٰ انصاری اور امام مالک اور سفیان بن عیینہ اور سفیان بن ثوری شعبہ اور یحییٰ القطان وغیرہ بہت سارے محدثین نے روایت کی ہے آپ کی امامت جلالت اور سیادت پر سب کا اتفاق ہے عمرو ابن المقدام کہتے ہیں میں جب انہیں دیکھتا تو مجھے محسوس ہوتا کہ میں انبیاء کرام کی اولاد کو دیکھ رہا ہوں۔

بیان سے زیادہ فضیلت والے امام

ابن خلکان کہتے ہیں: وقال ابن خلكان: أحد الأئمة الإثني عشر على مذهب الإماميّة، وكان من سادات أهل البيت، ولقّب بالصادق لصدقه في مقالته، وفضله أشهر من أن يذكر.» امام جعفر صادق بارہ اماموں میں سے ایک ہیں امامیہ کے مذہب کے مطابق،آپ سادات اہل بیت میں سے ہیں صادق کہے جانے کی وجہ مقال میں آپ کی صداقت ہے آپ کی فضیلت اتنی مشہور ہے کہ اسے بیان نہی کیا جا سکتا ہے۔

 

علامہ شبلنجی کہتے ہیں آپ کی فضیلت اور مناقب اتنے زیادہ ہیں کہ شمار نیں کئے جاسکتے،وقال الشبلنجي:«ومناقبه كثيرة تكاد تفوت حدّ الحاسب، ويحار في أنواعها فهم اليقظ الكاتب

وقال محمد الصبان: «وأمّا جعفر الصادق فكان إِماماً نبيلاً. وقال: وكان مُجاب الدعوة إِذا سأل اللّه شيئاً لا يتمّ قوله إِلا وهو بين يديه مستجاب الدعوات امام اور محمد الصبان کہتے ہیں کہ امام جعفر صادق امام  نبیل تھے آپ مستجاب الدعوات تھے آپ جب کوئی دعا رب تعالیٰ سے کرتے آپ کی دعا ختم نھیں ہوپاتی کہ مراد سامنے آجاتی۔

ہر اچھائی سے احسن امام

سبط ابنِ الجوزی کہتے ہیں علمائے سیر کا کہنا ہے کہ امام جعفر صادق طلب ریاست کو چھوڑ کر عبادت میں مشغول ہوگئے۔ اور فرماتے ہیں کہ حضرت امام کے مکارم اخلاق کے بارے میں  زمخشری نے اپنی کتاب ربیع الابرار میں شقرانی سے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ مولیٰ تھے ایک روایت نقل کی ہے انہوں نے کہا کہ تقسیم کےلئے کچھ خاص عطیات نکالے گئے  منصور کے زمانے میں،

کہتے ہیں کہ میرے پاس کوئی سفارشی نہیں تھامیں دروازے پر متحیر کھڑا تھا کہ اسی دوران اچانک حضرت امام جعفر الصادق تشریف لے آئے،تو ان سے میں نے اپنی حاجت بیان کی ،پس وہ گئے اور آئے اور مجھے دینے کے لئے ان کا عطیہ  ان کی آستین میں تھا، جو انھوں نے مجھے عطا فرما دیا اور بیان کیاکہ بیشک حسن یعنی نیک کام  ہر ایک کی جانب سے حسن اوراچھا ہے  اور تم جیسے پر ہوتو  اورزیادہ احسن ہے ۔ اور قبیح یعنی برائی ہر ایک کے ساتھ اور ہر ایک کی طرف سے قبیح ہے اور تمہاری طرف سے  ہو تو  وہ اور زیادہ اقبح ہے۔۔اور ان سے حضرت امام جعفر صادق نے اس لئے  ایسا فرمایا کہ شقراوی شراب نوشی کرتا تھا تو یہ امام جعفر صادق کے مکارم اخلاق میں تھا کہ آپ نےاس کی حاجت روائی فرمائی اس کے حالات کے جاننے کے باوجود اور بطور تعریض اس کو نصیحت کی  ۔یہ  آپ کے مکارم اخلاق کی بات تھی کہ آپ نے اس کے ساتھ کشادہ دلی سے کام لےکر اس کی حاجت روائی فرمائی اس کے حالات پر واقفیت کے باوجود،

 اور اس کو تعریض کے طریقے سے نصیحت کی اور یہ انبیاء کرام کے اخلاق سے ہے۔ ۔

سبط ابن الجوزي کی اصل عبارت اس طرح ہے۔

وقال سبط ابن الجوزي: «قال علماء السير: قد اشتغل بالعبادة عن طلب الرئاسة» وقال: «ومن مكارم أخلاقه ما ذكره الزمخشري في كتابه ربيع الأبرار عن الشقراني  مولى رسول اللّه ﷺ قال: خرج العطاء أيام المنصور ومالي شفيع، فوقفت على الباب متحيّراً وإِذا بجعفر بن محمّد قد أقبل فذكرت له حاجتي، فدخل وخرج وإذا بعطائي في كمّه فناولني إِيّاه، وقال: إِن الحَسَن من كلّ أحد حَسَن، وأنه منك أحسن؛ لمكانك منّا، وأن القبيح من كلّ أحد قبيح، وأنه منك أقبح؛ لمكانك منّا. وإِنما قال له جعفر ذلك؛ لأن الشقراني كان يشرب الشراب، فمن مكارم أخلاق جعفر أنه رحّب به وقضى له حاجته مع علمه بحاله، ووعظه على وجه التعريض، وهذا من أخلاق الأنبياء

امام جعفرصادق تمام علوم کے جامع

حضرت محمد طلحہ الشافعی المتوفی652ھ کہتے ہیں  کہ حضرت امام جعفر الصادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ عظماء اہل بیت میں سے ہیں،تمام علوم کے جامع اور بہت زیادہ عبادت گزار اور ہمیشہ وظائف کرتے تھے۔

آپ زہد وتقوی  والے اور قرآن مجید کی بہت زیادہ تلاوت گزار تھے۔قرآن کریم کے معانی کی تلاش وتتبع کرتے تھے اور اور اسکے بحر سے قرآنی جواہرات نکالتے تھے اور اس کے عجائب سے نتیجہ اخذ فرماتے تھے۔ انکی اصل عبارت یہ ہے

قال الشیخ محمد بن طلحة الشافعي (ت 652 هـ): هو من عُظماء أهل البيت، ذو علوم جَمَّة، وعبادة موفورة، وأوراد متواصلة، وزهادة بيِّنة، وتلاوة كثيرة، يتتبع معاني القرآن الكريم، ويستخرج من بحره جواهره، ويستنتج عجائبه.

امام جعفرصادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ امام مالک ابن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نظر میں

امام مالک ابن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ امام المالک فرماتے ہیں کہ امام جعفر الصادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے أفضل کسی آنکھ نے نہیں دیکھا اور کسی کان نے نہی سنا اور نہ ہی کسی بشر کے قلب پرآپ سے کسی افضل کا خیال  گزرا۔

۰ آپ علم، فضل اور زہد وتقوی میں یگانۂ روزگار تھے۔اور ایک دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں  کہ میری آنکھوں نے امام جعفر الصادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے زیادہ علم ،فضل اور پرہیزگاری میں  کسی کو نہیں دیکھا۔آپ ہمیشہ یا تو روزہ دار ہوتے یا عبادت میں مشغول رہتے یا ذکر الٰہی میں مستغرق رہتے۔ اور شہر کی عظیم الشان شخصیت آپ ہی ہوتے تھے،اور ان زاہدین میں جواپنے رب کے خوف و خشیت میں رہتے ہیں ان میں آپ سب سے بڑے ہیں۔آپ سے بہت سے محدثین نے احادیث اخذ کی ہیں۔آپ مجالست میں عمدہ اور کثیر الفوائد تھے۔

قال مالك بن أنس إمام المالكية: «وما رأتْ عَينٌ، ولا سمعت أذنٌ، ولا خَطَر على قلب بشرٍ، أفضل من جعفر بن محمّد الصادق، علماً، وعِبادة، وَوَرَعاً»، ويقول في كلمة أخرى: «ما رأت عيني أفضل من جعفر بن محمّد فضلاً وعلماً وورعاً، وكان لا يخلو من إحدى ثلاث خصال: إمّا صائماً، وإمّا قائماً، وإمّا ذاكراً، وكان من عظماء البلاد، وأكابر الزهّاد الذين يخشون ربّهم، وكان كثير الحديث، طيب المجالسة، كثير الفوائد

حضور امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : لولا السنتان لھلک النعمان۔

یعنی حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں میرے جو دو سال گزرے اگر وہ مبارک دوسال مجھے نہ ملتے تو میں ہلاک ہوجاتا۔

حضور مدار پاک کے مرشد بایزیدالبسطامی امام جعفر صادق کی خدمت میں

سلطان العارفین حضرت با یزید بسطامی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مراتب عالیہ  وولالیت حقہ حضرت امام جعفر الصادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمات کے نتیجے ہیں۔آپ بارگاہ امام عالی مقام حضور سیدنا امام جعفر الصادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں سقائی کی خدمت پر مامور تھے ایک دن حضرت امام جعفر الصادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےآپ پر نظر شفقت ڈال دی پھر  کیا ہوا آپ کی نظر عنایت سے حضرت بایزید بسطامی اکابر اولیاء کے سرگروہ بنا دئے گئے۔

تصانیف جلیلہ

حضرت امام جعفر الصادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ علوم ظاہر یعنی فقہ اورحدیث اور تاویل وتفسیر اصول و قواعد،،ریاضی ، فلکیات وارضیات اور خزائن زمیں وآسمان وغیرہ جملہ علوم ومعارف کے عالم ہونے کے ساتھ ساتھ تمام علوم باطنیہ کے بھی ماہرو کامل تھے۔اور سارے علوم و معارف میں یکتا و بےنظیر تھے۔کمال الدین دمیری حیوٰۃ الحیوان میں لکھتے ہیں کہ ابن قتیبہ نے کتاب ادب الکاتب میں تحریر کیا ہے کہ حضرت امام نے ایک کتاب بنام جفر خاص اہل بیت کی لئے تحریر فرمائی اس کی خصوصیت یہ ہے کہ قیام قیامت کے جملہ حاجات جو پیش ہوں گی ان تمام کو آپ نے تحریر فرما دیا۔۔

آپ کی کرامات اور مکاشفات

حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایسے معدن معجزات و کرامات سے پیدا ہوئے تھے جن  سے شان ولایت اور کرامات کا ظہور تو ہمہ دم ہوتے رہتا ہے۔

 جس کے نانا  ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں جو کہ سراپا صداقت و کرامت ہیں اور جنکے بابا مولاۓ کائنات ہوں جو  بفحواۓ "من کنت مولاہ فعلی مولاہ" اولیائے جہان کے سردار ہیں اس خاندان کی مکاشفات و کرامات  میں بال برابر شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے

امام احمد ابن حجر شافعی الھیتمی والمکی  رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ صواعق محرقہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ منصور نے جب حج کیا تو آپکی چغلی کی گئی۔ جب چغلخور گواہی کے لئے آیا تو آپ نے اسے فرمایا کیا تو حلف اٹھاتا ہے؟

 اس نے کہا ہاں اور اس نے حلف اٹھایا۔ آپ نے کہا اس بات پر امیر المومنین اس کو حلف دیجئے۔ اس نے اسے کہا کہ میں اللہ تعالیٰ کی قوت سے بیزار ہو کر اپنی قوت کی پناہ میں آتا ہوں کہ جعفر نے اس طرح کیا اور کہا ہے۔ تو وہ آدمی ایسا کہنے سے رک گیا پھر اس نے حلف اٹھایا ۔ ابھی اس نے بات ختم نہ کی تھی کہ و ہیں مر گیا تو امیر المومنین نے حضرت جعفر طیار سے کہا آپ ظلم سے قتل نہیں ہوں گے پھر آپ واپس ہوئے تو ربیع آپ کو اچھے انعام اور قیمتی لباس کے ساتھ ملا۔ یہاں یہ حکایت ختم ہو جاتی ہے۔

 مزیدمکاشفات و کرامات:

آپ کے چچا زاد بھائی حضرت عبداللہ المحض رضی اللہ تعالیٰ  عنہ  تھےجو بنی ہاشم کے شیخ  تھے  اور محمد  الملقب بنفس   کے والد تھے۔ بنو امیہ کی حکومت کے آخر میں ان کے کمزور ہو جانے کی وجہ سے بنو ہاشم نے محمد نفس زکیہ اور ان کے بھائی کی بیعت کرنے کا ارادہ کیا اورحضرت جعفرصادق کی طرف پیغام بھیجا کہ وہ ان دونوں کی بیعت کریں مگر انہوں نے ایسا نہ کیا تو آپ پر ان دونوں سے حسد کرنے کی تہمت لگائی گئی ۔ آپ نے فرمایا قسم بخدا بیعت لینا نہ میرے لئے اور نہ ہی ان دونوں کے لئے روا ہے۔ یہ بیعت زرد قبا والا شخص لے گا جس کے ساتھ ان کے بچے اور جوان کھیلیں گے۔ ان دنوں منصور عباسی موجود تھا اور زرد قبا پہنا کرتا تھا۔ حضرت جعفر صادق کی پیش گوئی ہمیشہ اس کے متعلق کام کرتی رہی۔ یہاں تک کہ انہوں نے اسے بادشاہ بنا دیا اور حضرت جعفر سے پہلے ان کے باپ حضرت باقر نے منصور کو زمین کے مشرق و مغرب پر قابض ہونے اور اس کی مدت حکومت کے متعلق خبر دی تھی۔ اس نے آپ سے کہا ہماری حکومت تمہاری حکومت سے پہلے ہوگی ۔

 فرمایا ہاں۔ اس نے کہا کیا میرے بیٹوں میں سے بھی کوئی بادشاہ ہو گا ؟ فرمایا ہاں ۔ اس نے کہا کیا بنی امیہ کی مدت لمبی ہوگی یا ہماری ؟  فرمایا تمہاری اور اس بادشاہ سے تمہارے بچے اس طرح کھیلیں گے جس طرح گیندوں سے کھیلا جاتا ہے۔ اس بات کی تاکید میرے والد نے مجھے کی ہے۔

جب منصور کو خلافت ملی اور وہ زمین کا مالک ہوا تو حضرت جعفر کے قول سے متعجب ہوا۔ ابو القاسم طبری نے ابن وہب کے طریق سے بیان کیا ہے کہ میں نے لیٹ بن سعد کو کہتے سنا کہ میں نے ۱۱۳ھ میں حج کیا۔ جب میں نے مسجد میں عصر کی نماز پڑھی تو میں کوہ ابو قبیس پر چڑھ گیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک آدمی بیٹھا دعا کر رہا ہے اس نے کہا اے میرے رب ! اے میرے رب ! یہاں تک کہ اس کا سانس ختم ہو گیا پھر کہنے لگایا حی یا حی ۔ یہاں تک کہ اس کا سانس ختم ہو گیا پھر کہنے لگا اے میرے اللہ میں انگور کھانا چاہتا ہوں ۔ پس مجھے انگور کھلا دے۔ اے اللہ میری دو چادر میں بوسیدہ ہو چکی ہیں مجھے چادریں دے دے۔ لیٹ کہتے ہیں خدا کی قسم ابھی اس کی بات مکمل نہیں ہوئی تھی کہ میں نے انگوروں کی ایک بھری ہوئی ٹوکری دیکھی۔ اس وقت انگور کا کوئی موسم نہ تھا۔ پھر میں نے دو چادریں پڑی ہوئی دیکھیں میں نے ان جیسی چادر میں دنیا میں کبھی نہیں دیکھیں۔ جب اس نے انگور کھانے کا ارادہ کیا تو میں نے کہا میں بھی آپ کا شریک ہوں۔ اس نے کہا کس وجہ سے آپ میرے شریک ہیں۔ میں نے کہا اس لئے کہ آپ نے دعا کی ہے اور میں ایمان رکھتا ہوں ۔ اس نے کہا آئیے اور کھائیے۔ میں آگے بڑھا اور انگور کھائے۔ اس جیسا انگور میں نے کبھی نہیں کھایا۔ اس کی گٹھلی بھی تھی۔ ہم کھا کر سیر ہو گئے مگر ٹوکری میں کوئی تبدیلی پیدا نہ ہوئی ۔ اس نے کہا جمع نہ کر اور نہ ہی اسر بں سے کچھ چھپا کر رکھ۔ پھر اس نے ایک چادر لی اور دوسری مجھے دے دی۔ میں نے کہا مجھے اس کی ضرورت نہیں ۔ آپ ایک کا تہ بند بنالیں اور دوسری کو اوڑھ لیں ۔ وہ اپنی دونوں بوسیدہ چادروں کو ہاتھ میں لئے نیچے اتر گیا تو اسے سعی کی جگہ پر ایک آدمی ملا۔ اس نے کہا اے ابن رسول اللہ اللہ نے جو آپ کو پہنایا ہے اس سے مجھے بھی پہنادیں کیونکہ میں نگاہوں تو انہوں نے دونوں چادریں اسے دے دیں تو میں نے اس سے پوچھا یہ کون ہے؟ اس نے کہا یہ جعفر صادق ہیں۔ میں نے اس کے بعد ان سے کچھ سننا چاہا مگر مجھے اس کی ہمت نہ ہوئی۔

آپ کی سب سے بڑی کرامات یہ ہیں کہ آپ نے جس جس پر نگاہ کرم ڈال دی وہ اپنے اپنے فن کا امام بن گیا  ۔ امام موسیٰ کاظم،امام ابو حنیفہ،امام مالک  امام سفیان ثوری امام سفیان بن عیینہ،اما یحیی القطا ن،امام ابن معین ۔ جابر ابن حیان،امام بایزیدالبسطامی،وغیرہ

کتب سیر میں آپ کی کرامات بسیار مذکور ہیں۔

آپ کی اولاد امجاد

آپ کے اولاد کرام میں کل 6/شہزادے اور ایک شہزادی کے نام ملتے ہیں جن کے اسمائے گرامی یہ ہیں حضرت اسماعیل،محمد ،عبداللہ ، اسحٰق، موںسیٰ کاظم  رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین صاحب زادی کا نام ام فروہ جن کو ابن الاخضر نے فاطمہ کہا ہے  اور الملل والنحل میں صرف پانچ اولاد کا ذکر کیا ہے۔

خلفائے کرام

آپ کے شاگردوں اور خلفاء کی لمبی فہرست ہے اس جگہ ان چند مشاہیر کے نام ذکر کر رہا ہوں جن کے فیضان سے سارا جہان روشن ہے

اسمائے گرامی خلفاۓ با وقار

حضرت امام موسیٰ الکاظم ،حضرت، امام اعظم ابو حنیفہ، حضرت امام مالک حضرت سلطان العارفین بایزید بسطامی رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین حضرت سلطان العارفین بایزید بسطامی حضور سیدنا سید احمد بدیع الدین شاہ مدار قدس سرہ کے پیر و مرشد ہیں ۔

مزار مقدس۔   آپ کےمزار مقدس آپ کےوالد امام محمد الباقر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے پہلو میں سیدۂ کائینات سیدہ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کے قریب جنت البقیع میں ہے ۔

22 رجب میں، کونڈے کی نیاز کی حقیقت کچھ اس طرح ہے ۔

سب سے پہلے تو یہ سمجھنا چاہیئے کہ کونڈوں کی نیاز کا مطلب کیا ہے ؟  خوب جان لیجئیے کہ نیاز کا مطلب ایصالِ ثواب ہے یعنی ٢٢،رجب المرجب کی تاریخ میں کھیر بناکر مٹی کے کونڈوں میں رکھ کر حضرت سیدنا سید السادات ابو الائمہ امام جعفر الصادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بارگاہ میں  فاتحہ پڑھ کر ایصال ثواب کرنے کا نام کونڈوں کی نیاز ہے ۔ سب سے پہلے  فتاویٰ دار العلوم دیوبند میں  علماۓ و مفتان دیوبند نے اپنے اپنے فیس بک اور گوگل اور انسٹاگرام اور میسینجر پر یہ شگوفہ چھوڑا کہ  یہ نیاز ٢٢رجب میں نہیں ہونا چاہیے۔  کیونکہ شیعہ فرقہ کے لوگ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی ٢٢رجب میں وصال ہونے پر خوشیاں منانے کےلئے اسی٢٢ تاریخ میں کھیر پکا کر کونڈوں میں رکھ کر نیاز کرتے ہیں لہٰذا مسلمانوں کو یہ نیاز نہیں کرنا چاہیے۔

یہ علمائے دیوبند کی طرف سے لوگوں کو اہل بیت کے مشاغل و معمولات سے منحرف کرنے کا ایک پروگرام ہے۔ علمائے دیوبند کی ناصبیت مزاجی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ اسی روش پر عطاری علماء بھی اچھل کودمچا رہے ہیں اور اپنے ماموں جی کے سگے بھانجہ بننے کی ڈھونگ کر رہے ہیں۔

 اور وہ  جو ان عطاریوں  کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں وہ ٢٢رجب سے پہلے 15رجب میں ماموں جی کے نام پر دکھاوا کرتے ہیں۔ ان کے لیئے  ان شاءاللہ میں عنقریب ایک ایسی لسٹ پیش کروں گا جس میں ٢٢رجب میں کونڈا کرنے والے علمائے اہلسنت کی ایک طویل فہرست ہوگی۔ اور عطاریوں کے ساتھ کھچڑی کھانے والوں کی ایک الگ لسٹ ہوگی۔ پہلے میں ایصال ثواب اور ٢٢رجب کے کونڈوں کی نیاز پر  بہترین فتاوے ہدیئہ ناظرین کر رہا ہوں۔

مفتی اعظم اور دار الافتاء بریلی شریف کا فتویٰ

 چنانچہ مولانا مفتی عبدالرحیم بستوی جو ایک طویل مدت تک مسند دار الافتاء بریلی شریف پر بحیثیت مفتی فائز رہے آپ ٢٢رجب میں کونڈوں کی نیاز سے متعلق ایک استفتاء کے جواب میں ایک فتویٰ دیتے ہیں جس کی نقل من و عن ہدیۂ ناظرین ہے-

"فاتحہ کی اصل ایصال ثواب ہےاور ایصالِ ثواب اہلسنت کے نزدیک جائز و مستحسن ہے اور ثواب پہنچتا ہے کتب فقہ و عقائد میں تصریح ہے کہ اپنے اعمال خواہ بدنی ہوں یا مالی دوسروں کو ثواب پہنچانے سے انہیں ثواب ملتا ہے۔اور اس کو بھی ملتا ہے اور کسی کے ثواب میں کمی نہیں ہوتی، فقہ حنفی کی مشہور کتاب در مختار میں ہے.الاصل أن كل من اتي بعبادة ماله ان يجعل ثوابها لغيره وان ثوابها عنده لفعل نفسه بظاهر الأدلة علامه الشامي ردالمحتار ميں فرماتے ہیں۔"ولا بعبادة ما اي سواء كانت صلاة اوصوما او صدقة او زكوٰة او ذكرا اوطوافا او حجا أو عمرة او غير ذالك من زيارة قبور الأنبياء عليهم السلام و الشهداء والصالحين و تكفين الموتيٰ وجميع انواع البر كما في الهندية و قدمنا في التاترخانية من المحيط الافضل لمن يتصدق نفلا ان ينوي لجميع المومنين و المومنات لأنها تصل ولا ينقص من اجره شئ"

اسي طرح هدايه،نور الإيضاح،مراقي الفلاح، شرح فقه اكبر شرح العقائد النسفيه وغیرہ کتب معتبرہ میں ایصال ثواب کے جائز ہونے کی تصریح ہے ٢٢رجب کو امام جعفر الصادق رحمۃ اللّٰہ کا فاتحہ کرانا شرعاً جائز ہے۔اور دوسرے بزرگوں کی بھی فاتحہ دلانا جائز ہے۔کہ اصل جائز ہے اور باعث نفع و ثواب ہے واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

 کتبہ عبد الرحیم بستوی خادم رضوی دار الافتاء بریلی شریف

الجواب صحیح فقیر مصطفیٰ رضا قادری غفر لہ

اس فتوے میں مفتی اعظم مصطفیٰ رضا خان بریلوی کی تصدیق بڑی اہمیت رکھتی ہے۔

مولانا اختر رضا خان بریلوی تاج الشریعہ کافتوی

اپنے ہی بزرگوں کی پیروی کرتے ہوۓ سلسلۂ رضویہ کے تاج الشریعہ مولانا اختر رضا خان بریلوی اپنے فتاویٰ تاج الشریعہ جلد نہم میں لکھتے ہیں: عوام میں ٢٢/رجب کا فاتحہ رائج و معمول ہے جس میں شرعاً کوئی مضایقہ نہیں ہے اور یہاں یہ بات بھی کچھ حرج کا باعثِ نہیں ہے کہ شیعہ اس تاریخ کو فاتحہ کرتے ہیں

 کہ أفعال مباحہ و حسنہ میں مشابہت ہوجانا کچھ مضائقہ نہیں رکھتا۔۔۔۔

درمختار میں ہے فان التشبه بهم لا يكره في كل شيء بل في المذموم فيما يقصد به التشبه"

اور اگر کوئی بے زعم مشابہت تاریخ مذکور کو کرے اختیار ہے  واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔

فقیراختر رضا خان ازہری قادری غفر لہ  شب ٨ذیقعدہ 1403.

صح الجواب واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب  قاضی محمد عبد الرحیم بستوی غفر لہ القوی ۔"

 

اب  مرکز بریلوی کے اتنے صاف واضح مدلل فتووں کی بعد بھی اگر  بریلوی رضوی علماء 22/رجب المرجب میں کونڈوں کی نیاز سے انکار کریں اور پاکستانی  عطاری ٹولے کے فریب میں آجائیں تو یہ ان کی بریلوی اماموں سے اور مسلک بریلویت سے بھی بغاوت ہو گی کہ نہیں؟۔ اللہ ہدایت دے۔

٢٢رجب کی فاتحہ سے اڑی ہوئی مصیبت ٹل جاتی ہے

ایک اور معتبر مفتی اہل سنت کے وقار مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں  کہ" رجب شریف کے مہینے  کی٢٢،تاریخ کو ہند و پاک میں کونڈے ہوتے ہیں یعنی کونڈے منگائے جا تے ہیں اور سواسیر میدا سوا پاو شکر اور سوا پاو گھی کی پوریاں بناکر حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فاتحہ کرتے ہیں  ۔ فاتحہ ہر برتن میں اور ہر کونڈے پر ہو جائے گی۔ اگر صرف زیادہ صفائی کے لئے نئے کونڈے منگالیں تو کوئی حرج نہیں،دوسری فاتحہ کے کھانوں کی طرح اسے بھی باہر بھیجا جا سکتا ہے۔اس لئے کہ بائیسویں  رجب کوحضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فاتحہ کرنے سے بہت اڑی ہوئی مصیبت ٹل جاتی ہے۔(اسلامی زندگی صفحہ75/133)

اتني بڑی خوش خبری دی کہ 22/رجب میں امام جعفر صادق کا فاتحہ دینے سے   بہت اڑی ہوئی مصیبت ٹل جاتی ہے۔ اب پندرہ رجب میں کونڈے کرنے والے تو اس عظیم نفع سے محروم ہی رہ جائیں گے۔

خاندان اعلیٰ حضرت کا معمول

اسی طرح محدث پاکستان علامہ سردار أحمد لائل پوری مفتی دار الافتاء دارالعلوم مظہر اسلام بریلی شریف کہتے ہیں مرکز اہل سنت بریلی شریف میں  کہ خاندان اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری محدث بریلوی کے صاحبزادوں اور خانوادے کے افراد میں ٢٢ رجب کے کونڈے کی تقریب منائی جاتی ہے۔(کونڈوں کی کی فضیلت بجواب کونڈوں کی حقیقت صفحہ 7/10)

واضح ہو کہ کونڈوں کا فاتحہ کوئی بریلوی ایجاد نہیں ہے

بلکہ یہ ایک امر مستحسن و معمولات اہل سنت والجماعت ہے  قرنوں سے ہوتا چلا آرہا ہے۔ چنانچہ ہر خانقاہ اہل سنت مثلا مکن پور شریف کانپور ،اجمیر شریف  پاکپٹن شریف بہرائچ شریف ،کچھوچھہ شریف دہلی میں  خانقاہ نظام الدین اولیاء اور خانوادۂ شاہ ولی اللہ محدث و اولاد محدث عبد العزیز دولوی اور وہاں کی ساری خانقاہوں میں اور کلیر شریف مارہرا شریف اور مخدوم بہار شریف اور وہاں کی دیگر خانقاہوں میں اور حسن پورہ شریف اور غوث بنگالہ علاء الحق کے آستانہ پر اور ہر سادات کے یہاں اور پاکستان کے جملہ سادات کرام کے یہاں 22رجب المرجب میں ہی   امام عالی مقام حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فاتحہ ہوتا ہے  اور جب سے عطاری جماعت کا عروج ہوا ہے اور عرس حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو رواج  دینے کی کوشش کی جانے لگی ہے اور ان کے فاتحہ کی تشہیر کی جانے لگی ہے  اس کے بعد ہی سے 15  رجب میں نیاز امام جعفرصادق کو پیچھے ڈھکیل نے کی کوشش شروع ہوگئی ہے ۔ جبکہ بزرگوں نے کہا ہے 22/رجب میں نیاز دلانے سے  بہت اڑی ہوئی مصیبت امام جعفر صادق کے صدقے ٹل جاتی ہے۔  سنی بہشتی زیور کامل میں مولانا خلیل احمد خان برکاتی نے بھی ٢٢رجب کے کونڈوں کی فاتحہ کا ذکر صفحہ 318 پر کیا ہے:

٢٢رجب المرجب میں ہی نیاز کرنا معمول اہلسنت والجماعت ہے

  "پاکستان کے ایک اور بڑے  مولانا ابو البرکات سید احمد قادری رضوی نے اپنے فتاویٰ میں لکھا ہے کہ گیارہویں شریف ،عرس اور چہلم کی طرح  22/رجب میں امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نیاز کیلئے کونڈے بھرنا معمولات اہلسنت میں سے ہے  "  مفتی پاکستان جناب سید احمد قادری رضوی صاحب کی عبارت سے ناظرین نے ٢٢رجب میں نیاز کرنے کوضرورت سمجھ لیاہوگا اسی تاریخ میں یہ نیازصدیوں سے رائج و معمول میں ہے .اور اخیر میں تحفۂ اثنا عشریہ کی ایک عبارت ہدیۂ ناظرین کرتا ہوں جو متاخرین میں ان سارے مشاہیر  علماء ومشائخ کی جماعت میں  موثق و مقبول ہیں  اور آپ ایسے محدث و مفسر ہیں کہ جن کی اسناد سے اس دور کے بزرگوں کی کوئی بھی خانقاہ محروم نہیں ہے۔

 میری مراد بارہویں صدی کے مجدد اسلام حضرت علامہ محدث عبد العزیز دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ہیں  جن کی بارگاہ ناز سے اسناد حدیث و تفسیر فقیر مداری ابو الحماد محمد اسرافیل حیدری المداری کو بھی چند وسائط سے  پہونچی ہیں فلللہ الحمد علیٰ ذالک ۔

آپ فرماتے ہیں اہل بیت سے متعلقہ تقاریب و ایام جیسے  22/رجب کو کونڈوں کی نیاز زمانۂ قدیم سے ہو تی چلی آرہی ہے" (تحفہ اثنا عشریہ )

ماشاءاللہ ثابت ہوگیا کہ  ہر سادات گھرانے میں اور ہر پیر خانے میں  اور ان کے مریدین و خلفاء کے یہاں اور محبان اہل بیت کے یہاں ٢٢, رجب المرجب کو کونڈے بھرے جاتے ہیں اور امام جعفر صادق علیہ السلام ورضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نیاز ہوتی ہے۔

وہ علمائے اہلسنت و محدثین کرام  جن کے یہاں 22/رجب کو امام کا نیاز ہوتا ہے

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی،حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی، اور ان کے شاگرد حضرت سید آل رسول مارہروی، حضرت پیر سید مہر علی شاہ گولڑہ شریف حضرت پیر سید کلب علی مکن پوری  حضرت علامہ فضل حق خیرآبادی، حضرت محدث اعظم ہند کچھوچھہ شریف  اعلیٰ حضرت  اشرفی میاں کچھوچھہ شریف، حضرت سید شیخ الہند ذو الفقار علی قمر مداری مکن پور شریف،  حضرت سید پیر جماعت علی شاہ  محدث بریلوی مولانا احمد رضا خان صاحب  مفتی اعظم مصطفیٰ رضا خان بریلوی  مولانا احمد یار خان نعیمی۔ صدر الشریعہ امجد علی اعظمی،گھوسوی، مولانا سید ابو البرکات احمد قادری رضوی، سید احمد سعید کاظمی، مولانا سردار احمد خان قادری سید بابا ولی شکوہ مکنپوری ،اور  مولانا اختر رضا خان ازہری بریلوی اور اخیر  میں یہ ناچیز ابو الحماد الحیدری المداری کا بھی لیا جا سکتا ہے۔

ان مولویوں کے نام جو امام کی نیاز کی تاریخ 22رجب  سے گریز کرتےہیں۔ عرس حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بہانے 22رجب سے گریز کرنے والے علمائے دیوبند اور علمائے عطاریہ کے نام درجہ ذیل ہیں ۔

مولانا الیاس عطار قادری حالانکہ جب یہ عرس حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہیں مناتے تھے تو یہ بھی 22/رجب المرجب میں ہی کونڈوں کی نیاز کراتے تھے جیسا کہ ان کی بعض کتابوں میں لکھا ہوا ہے لیکن جب سے اہل بیت کی محبت کا خمار اترا اور عرس حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مناکر مجدد بننے کا شوق  مواج ہوا۔ آن جناب پیدائش مولود کعبہ کے دن بالکل سناٹا کھینچ لیتے ہیں لیکن عرس حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مناتے وقت  جھوم جھوم کر نعرے لگاتے ہیں اور بڑی خوشی ظاہر کرتے ہیں ایسا لگتا ہے  کہ یہی ان کے سب سے زیادہ فالور ہیں۔ آن جناب 22/رجب سےسات پائدان نیچے اتر کر علم جفر کے حساب سے چھکا مارنے لگتے ہیں۔ دوسرا نام ان کے خلیفہ جناب عمران عطاری ،اور حاجی حبیب عطاری  اور ان کے ہمنوا جناب مفتی منیب الرحمن رضوی  کا ہے۔ حال ہی میں مخالفت اہلبیت کے معاملے میں ان کے خلاف بڑی  چہ میگوئیاں ہوئیں تھیں بالآخر آپ کو اپنے اس موقف سے رجوع کرنا پڑا تھا،اور جناب ڈاکٹر آصف اشرف لاہوری یہ وہی آصف جلالی جی ہیں جنہوں نے سیدہ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کو خطاوار بتایا تھا  اور مولانا مظفر حسین اختری صاحب اور دیوبندی عالم اورنگزیب فاروقی دوبند اور الیاس گھمن دیو بندی اور مولانا حنیف جالندھری وغیرہ

ان لوگوں نے مذکورہ بالا تمام علمائے اہل سنت والجماعت و محدثین کرام و سادات عظام و جملہ مشائخ اہل خانقاہ سے مخالفت کرتے ہوئے اس بابت ایک نیا مسلک بنا لیا ہے اور علمائے دیو بند کی نظریات کو اپنا راستہ بنا لیا ہے

اس جماعت کی  یہ زعم ہے کہ 22رجب میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی تاریخ وصال ہے۔

 اور حضور سیدنا امام جعفر صادق  15رجب میں پیدا ہوئے لہذا اھل تشع  حضرت معاویہ ابن سفیان رضی اللہ عنہ کی موت پر خوشیاں منانے کیلیے  کھیر پوری بانٹتے ہیں۔ العیاذ باللہ،

 لہذا اھل تشیع کی مخالفت میں 15رجب کو ہی کھیر پوری پر نیاز دلانا چاہیے  ۔ 

۔اور اسی دن حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پیدائش بھی ہے اس لئیے اور اچھا ہوگا" 

اس کے جواب میں میں کہون گا کہ  اولاً شروع سے ہی مشاہیر واکابر اہلسنت و جملہ سادات کرام و مشائخ اہل خانقاہ اور ان کے خلفاء کی روش 22/رجب میں ہی امام جعفر صادق کی نیاز دلانے کی ہے۔  ان علمائے اہل سنت والجماعت سے الگ ہٹ کر اور معمولات اہل سنت کو چھوڑ کر دیابنہ اور وھابیہ کے ساتھ جا ملنا  اہل سنت سے گمراہی کی علامت ہے جو کسی طرح روا نہیں کہا جا سکتا ، گویا یہ لوگ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ان کے اسلاف اب تک غلط کرتے چلے آئے اگر ایسا ہے جب تو انہیں ڈوب مرنا چاہیئے ۔

اور اھل سنت سے نکل کر ایک نئی جماعت بنانے کی گھوسنا کر دینا چاہیئے ۔

اگر یہ کہتے ہیں کہ،یہ لوگ  شیعہ لوگوں کی مشابت سے بچنے کیلئے ہی ایسا کرتے ہیں تو کیا اس فلسفے کو ان کے پیر اور پیران پیر اور ان کے اساتذہ اور سلف صالحین اور سادات کرام اس مشابہت سے واقف نہیں تھے؟

 یا للعجب ،وہ لوگ آیت کریمہ ان الصفا والمروۃ من شعائر اللہ کی شان نزول بھی نہیں پڑھے تھے؟ اور صاحب در مختار نے تو واضح فرما دیا کہ "،فان التشبہ بھم لا یکرہ فی کل شیئٕ  بل فی المذموم فیما یقصد بہ التشبہ" یعنی اس معاملے میں اہل تشع سے تشابہ بھی اگر ہو رہا ہے تو بھی کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔

 اور جیساکہ  فتاویٰ تاج الشریعہ میں مولانا اختر رضا بریلوی ازہری نے بھی کہا کہ" یہ بات بھی کچھ حرج کا باعثِ نہیں ہے کہ شیعہ اس تاریخ کو فاتحہ کرتے ہیں"  ۔ اب تو مولانا اختر رضا خان ازہری نے ٢٢رجب میں کونڈوں کی نیاز کے مخالفین کے سارے داؤ پیچ کی کھٹیا کھڑی کردی اور سارے منصوبوں  پرپانی ڈال دیا۔

 فقیر مداری ابو الحماد محمد اسرافیل حیدری المداری کو امید قوی ہے کہ رضوی اور اختری بمعنی از ہری علماء و ائمہ حضرات اپنے اپنے گاؤں اور محلوں  میں  22رجب کو ہی امام کا نیاز دلائیں گے اور وہ مولوی جو امام جعفر صادق کی تاریخ کے خلاف گاؤں گاؤں میں غدر کاٹ رہے ہیں ان کا خمسہ بھی درست ہو گیا ہوگا اور اب وہ بھی 22/رجب کو ہی مولیٰ امام جعفر صادق علیہ السلام کے کونڈوں کا نیاز دلائیں گے۔

 ورنہ اپنے پیر روں سے بغاوت کرکے دائرۂ مریدین سے ہی باہر ہو جاییں گے اور جنھوں نے بغاوت  کر لی ہے ان کے لیئے توبہ کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی تاریخ وصال 22/رجب بہت مختلف فیہ ہے

چنانچہ مشہور سیرت نگار حضرت محمد ابن اسحاق مطلبی نے لکھا ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تاریخ وصال 8/رجب ہے( بحوالہ البدایہ والنہایہ لابن کثیر) حضرت ابن جوزی نے کہا ہے کہ 15/رجب المرجب وفات کی تاریخ ہے (تنقیح فحول اھل الاثر)اور امام ابن حجر و ابن عبد البر رحمھا اللہ نے لکھا ہے کہ جب حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات ہوئی تو رجب کی 4 راتیں باقی تھیں، ( تہذیب التہذیب ،  الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب)

علامہ طبری نے آپ کی وصال کے متعلق 3، اقوال نقل کیئے ہیں 1, رجب/15رجب اوروصال کے وقت رجب کی 8/راتیں باقی تھیں یعنی 21/22رجب (تاریخ الامم و الملوک جریر طبری) اور سعد بن ابراہیم نے بھی رجب کی ایک تاریخ وفات کی لکھی ہے۔ اب جبکہ ائمۂ توارخ و سیر نے اتنا بڑا  شدیداختلاف لکھ دیا ہے پھر بھی اتنی ضد کیوں ہے کہ یہ لوگ ٢٢, کو ہی  عرس حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مناتے ہیں۔ اور اگر اتنی ہی ضد ہے تو ساتھ میں حضرت عبد اللہ ابن الزبیر و حضرت محمد ابن ابو بکر صدیق و حضرت عبد الرحمن بن ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام بھی  عرس کے پوسٹر میں شامل کرلیں اور خوب دھوم دھام سے ان سارے مامووںاورحضرت کی پوری سوانح حیات بیان کریں اور حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو کہ سابقین اولین میں سے ہیں انکا بیان اور اچھا رہے گا ان کا عرس کیوں نہیں مناتے  ہیں  ؟

 دال میں کچھ تو کالا ہے؟

22 رجب المرجب میں سیدنا امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کی نیاز كي حقيقت..  مشائخ و سادات کرام کے بیان کرتےچلے آئے کہ سن  122 ھ رجب کی 22 تاریخ کی رات یعنی 21 کا دن گزار کر 22 کی رات بوقتِ نمازِ تہجد اللہ رب العزت نے حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کو *مقامِ قطبیت کبری و ولایت خاصۂ نبویہ و وراثت علویہ  سے سرفراز فرمایا۔

22 رجب کو اس عظیم الشان نعمت کبریٰ و  مقامِ قطبیت عظمیٰ حاصل ہونے کے بعد سیدنا امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ نے صبح کے وقت اللہ رب العزت کے جانب شکر ادا کرنے کے لیے نیاز بنوائی جو دودھ اور چاول ملاکر بنائی گئی جسے لوگ کھیر کہتے ہیں..

سیدنا امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ خاندانِ رسول صلى اللہ علیہ والہ و سلم کے چشم و چراغ ہیں آپ کے گھر میں ٹوٹی چٹائی اور مٹّی کے برتن ہی تھے اسی پر آپ شاکر و صابر تھے۔

 آپ نے مٹی کے پیالے میں نیاز رکھ کر اپنے دوست و احباب کو بلا کر فرمایا کہ آج رات اللہ پاک نے مجھے مقامِ قطبیت کبری اور غوثیت عظمیٰ عطا فرماکر اس کا شکر ادا کر نے کا موقع عنایت فرمایا ہے ۔ یہ نیاز آپ لوگوں کو بطورِ تبرّک پیش ہے ۔

آپکے بڑے صاحب زادے سیدنا امام موسیٰ الکاظم رضی اللہ عنہ اور آپ کے دیگر مصاحبین  نے دریافت کیا کہ اس نیاز میں ہمارے لیے  کیا ہے ؟ تو آپ نے فرمایا کہ رب کعبہ کی قسم اللہ تعالیٰ نے جو نعمت عظمیٰ مجھے عطا فرمائی ہے اس کا میں شکر ادا کرتا ہوں نیاز  دلا کرکی اسی طرح اسی تاریخ میں جو بھی شکر ادا کرےگا اور ہمارے وسیلے سے جو دعا مانگےگا تو اللہ رب العزت اس کی مراد ضرور پوری فرماۓ گا اور دعا ضرور قبول ہوگی کیوں کہ اللہ رب العزت اپنے شکر گزار بندوں کو مایوس نہیں فرماتا..

 کہتے ہیں کہ۔۔۔۔۔۔۔سیدنا امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کے پرپوتے سیدنا امام حسن عسکری رضی اللہ عنہ سے کچھ دشمنانِ اہلِ بیت نے سوال کیا کہ جب ہمارے گھر میں پیتل،تانبے کے بہترین برتن موجود ہیں تو مٹی کے کونڈون کی کیا ضرورت ہے؟؟

اس پر سیدنا امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہمارے نانا جان محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے مٹی کے برتن میں کھانا..

آج مسلمانوں نے ہمارے نانا جان کی سنتوں کو ترک کر دیا ہے..

ہم نے اس نیاز کو مٹی کے پیالوں میں اس لیے ضروری قرار دیا ہے تاکہ کم از کم سال میں ایک مرتبہ ہی مٹی کے کونڈوں میں نیاز کھا کر  سنت رسول صل اللہ علیہ وآلہ و سلم ادا ہو جاۓ..

 واللہ اعلم بالصواب ۔

منہاج الصالین، مصنف  محی الدین ابو بکر البغدادی،

کشف الاسرار عبداللہ ابن علی اصفہانی

معدن أسرار أہل البیت۔محمد بن اسماعیل متقی مکی

مخزن انوار ولایت برہان الدین عسقلانی

بعض محبین نے یہ حوالے مستخرج کرکی میرے پاس بھیجے ہیں جو ابھی میرے نزدیک محل تحقیق ہیں۔

١١ رہویں شریف ١١گیارہ ربیع الآخر اور کونڈے کی نیاز و فاتحہ  22 رجب کو ہی کریں

 خیال رہےکہ 22 رجب نہ تو حضرت  امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وصال کی تاریخ ہے اور نہ ہی پیدائش کی تاریخ ہے  بلکہ جس طرح ١١ ربیع الآخر  نہ تو حضرت غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پیدائش کا دن ہے اور نہ ہی وصال کی تاریخ ہے قادری حضرات  عید غوثیہ مناتے ہیں اور جلوس و لنگر اور أفضل کھانوں پر فاتحہ خوانی کرتے ہیں اور بہت سی چیزوں کا اہتمام کیا کرتے ہیں توشہ شریف کا فاتحہ دیتےہیں یہ سارےکام  دھوم دھام سےہوتے ہیں۔  اسی طرح22 رجب المرجب ہے

یہ تو سارے سلاسلِ اولیاء کیلئے جشن کا دن ہونا چاہئے سلیئے کہ تمامی اہلسنت والجماعت کے مسلمانوں کی نسبت کی انہیں کے دامن سے بندھی ہے اس دن بھی جلوس جعفریہ نکلنا چاہیئے، بلکہ  سارے ائمۂ اہلبیت کی پیدائش و وصال کی تواریخ میں بڑے اہتمام سے لنگر وطعام کا انتظام کرنا چاہیئے تاکہ دنیا کو یہ پیغام جائے کہ  سارےائمۂ  اہلبیت علمائے اہلسنت والجماعت کے امام ہیں صرف شیعہ لوگوں کی جاگیریہ امام نہیں ہیں۔ یہ تواریخ تو ہم سب کےلئے   حصول نعمات کے دن ہیں خصوصاً امام جعفر الصادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حصول نعمات کے دن ہم سبھی اہلسنت کیلیۓ عید سے کم نہیں ہے ۔

 اس لئے ہم اس دن خاص پکوان پر  امام جعفر صادق علیہ السلام کی نیاز دے کر اظہار مسرت کرتے ہیں اور خویش و اقارب اور اپنے محلوں کے مسلمانوں کے گھروں میں امام کی نیاز پہونچاتے ہیں .. انکی سیرت و سوانح بیان کرتے ہیں تمامی اہلسنت والجماعت کو چاہیئے کہ سارے ائمۂ اہلبیت کی مقررہ تاریخوں میں ان کے اعراس دھوم دھام اور جوش و خروش سے منایا کریں تاکہ محبت اہلبیت کو فروغ ملے اور ذات رسالت سے رشتہ مستحکم ہو ۔

اہل بیت سے محبت کرنے والوں کیلئے  یہ تحفہ بارگاہ ائمہ اہلبیت وبارگاہ خدا و رسول علیہ السلام میں قبول ہو

 فقط والسلام

 چونکہ سخت بیماری کی حالت میں خود ہی پورے مضمون کی کتابت کی ہے اگر غلطیاں ملیں  تو ناظرین معاف کردیں اور مجھے مطلع فرمائیں اور مجھ فقیر الی ربہ الکریم کی لیئے دعاۓ شفا کریں۔

کتبہ ابو الحماد محمد اسرافیل حیدری المداری

دار النور آستانہ عالیہ زندہ شاہ مدار قدس سرہ العزیز مکن پور شریف

کانپور نگر پن کوڈ 209202

موبائل: 9793347086


No comments:

Post a Comment