تارک السلطنت حضرت سلطان ابراہیم بن ادہم علیہ الرحمہ

 


آپ علیہ الرحمہ کا اسم گرامی ابراہیم کنیت ابو اسحاق اور لقب امان الارض ہے آپ بلخ کے بادشاہ تھے آپ کے آباو اجداد بھی بلخ کے بادشاہ تھے ۔ آپ کے والد گرامی کا اسم مبارک ادہم بن سلیمان تھا آپ حضرت سیدنا امیر المومنین عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے ہیں کتاب مناقب المحبوبین میں آپ کا شجرہ نسب یوں درج ہے ۔حضرت سلطان ابراہیم بلخی رضی اللہ عنہ بن حضرت ادہم رضی اللہ عنہ بن حضرت سلیمان رضی اللہ عنہ بن حضرت ناصر بلخی یا منصور بلخی رضی اللہ عنہ بن حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ بن

حضرت امیرالمومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ یوں آپ شیخ فاروقی النسب ہیں ۔

کتاب مناقب المحبوبین میں ہے کہ حضرت خواجہ سلطان ابراہیم بن ادہم علیہ الرحمہ نے حضرت خضر علیہ السلام کی ہدایت پر سلطنت چھوڑی اور سب سے پہلے حضرت امام اعظم رضی اللہ عنہ کی خدمت میں جا کر علم حاصل کیا ۔آپ علیہ الرحمہ حضرت خواجہ فضیل ابن عیاض علیہ الرحمہ کے دست اقدس پہ بیعت ہوئے اور ان سے خرقہ خلافت حاصل کیا ۔ آپ حضرت ابو سفیان ثوری علیہ الرحمہ اور حضرت ابویوسف غسولی علیہ الرحمہ کی صحبت میں بھی رہے اور حضرت خضر علیہ السلام کے بھی صحبت دار تھے ۔ آپ علیہ الرحمہ نے ایک خرقہ خلافت حضرت امام باقر رضی اللہ عنہ سے بھی حاصل کیا ۔

سیرالاقطاب میں ہے آپ علیہ الرحمہ کو حضرت عمران بن موسیٰ علیہ الرحمہ اور حضرت زید راعی علیہ الرحمہ سے بھی خلافت حاصل تھی حضرت زید راعی کو حضرت خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ سے اور حضرت معمر الجیلی رضی اللہ عنہ سے خلافت ملی تھی جن کا اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں شمار ہوتا ہے ۔

آپ علیہ الرحمہ سلطنت کے بادشاہ تھے ایک دن آپ کی خادمہ آپ کے شاہی کمرے میں صفائی کی غرض سے گئی کمرے میں کوئی موجود نہ تھا شاہی بستر کو دیکھ کر سوچا کہ کمرے میں موجود کوئی نہیں ہے کیوں نہ کچھ لمحے شاہی بستر پر لیٹ کر دیکھوں یہ بستر خاص بادشاہ کےلئے ہے وہ خادمہ بستر پہ جونہی لیٹی تو شاہی خداموں نے دیکھ لیا اور شور برپا ہوگیا کہ بادشاہ کے شاہی بستر کی توہین ہے اس خادمہ نے استعمال کیا اب اس کو سخت سے سخت سزا دی جائے گی اتنے میں قاضی نے سزا سنائی کہ اس خادمہ نے شاہی بستر کو استعمال کیا لہذا اسے تیس لتر مارے جائیں تاکہ آنے والے وقت میں کوئی اس طرح کی حرکت نہ کر سکے جب خادمہ کو لتر مارے گئے خادمہ کی چیخیں بادشاہ تک پہنچی تو بادشاہ نے وجہ دریافت کی سارا واقعہ بادشاہ یعنی حضرت خواجہ سلطان ابراہیم بن ادہم بلخی علیہ الرحمہ کو بتایا گیا تو آپ خدا کے حضور بہت روئے اور فرمایا کہ جس نے چند لمحے شاہی بستر پہ گذارے اس کا یہ حال ہوا جو ابراہیم بلخی کئی سالوں سے اس بستر پہ گذارتا آرہا ہے اُس کا روزِ محشر کیا حال ہوگا ؟اس واقعہ سے حضرت خواجہ سلطان ابراہیم بن ادہم بلخی علیہ الرحمہ بہت متاثر ہوئے ۔

منقول ہے کہ حضرت خواجہ سلطان ابراہیم بن ادہم علیہ الرحمہ خلق خدا کا ہجوم دیکھ کر اپنی سلطنت سے بھاگ نکلے اور مکہ معظمہ میں سکونت اختیار کی ۔

کتاب سر العارفین میں ہے کہ حضرت خواجہ سلطان ابراہیم بن ادہم بلخی علیہ الرحمہ لا الہ الا اللہ کا بہت ذکر کیا کرتے تھے آپ ذکر کرنے والوں کو بہت عزیز جانتے اور درویشوں فقیروں سے مل کر بیٹھتے حضرت خواجہ سلطان ابراہیم بن ادہم بلخی علیہ الرحمہ کے گھر متواتر چار چار اور پانچ پانچ وقت کا فاقہ ہوتا ۔ آپ جنگلی میوے سے افطار فرماتے اور سبز گھاس لاتے اسے بغیر نمک کے کھاتے اور فرماتے جس شخص کو اللہ تعالیٰ دوست رکھتا ہے وہ زبان اور نفس کی لذت کو ترک کر دیتا ہے چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ اگر لذتوں کو ترک کرنے کی لذت تجھے معلوم ہوجائے تو سوائے اس لذت کے اور کوئی لذت تو طلب نہ کرے اس واسطے کہ جو شخص زبان اور نفس کی لذت کو ترک کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے دوست رکھتا ہے ۔

کتاب اقتباس الانوار میں منقول ہے کہ ایک دن حضرت خواجہ ابراہیم بن ادہم علیہ الرحمہ دریائے دجلہ کے کنارے بیٹھے کپڑا سی رہے تھے اتفاق سے ایک شخص وہاں گذرا اس نے کہا بلخ کی بادشاہی ترک کر کے آپ کو کیا حاصل ہوا آپ نے فورا" اپنی سوئی دریا میں پھینک دی اور دریا کی مچھلیوں کو حکم دیا کہ میری سوئی لاو تو ہزاروں مچھلیاں سونے کی سوئیاں منہ میں لے کر نکل آئیں۔ آپ نے فرمایا مجھے اپنی لوہے کی سوئی درکار ہے یہ سن کر ایک کمزور سی مچھلی باہر آئی جس کے منہ میں لوہے کی سوئی تھی۔ آپ نے اس شخص سے مخاطب ہو کر فرمایا کم سے کم مرتبہ مجھے یہ عطا ہوا ہے اور اس سے زیادہ مرتبہ دیکھنے کا متحمل نہیں ہو سکے گا ۔

 کتاب مرآت الاسرار میں ہے کہ حضرت خواجہ سلطان ابراہیم بن ادہم بلخی علیہ الرحمہ کا آخر عمر میں تصرف بہت بڑھ گیا تھا آپ کثرت سے طعام تیار کرا کے غرباء اور مساکین میں تقسیم فرمایا کرتے تھے ۔

کتاب سیرالاقطاب میں ہے کہ حضرت خواجہ سلطان ابراہیم بن ادہم بلخی علیہ الرحمہ کے حضرت امام ابو حنیفہ علیہ الرحمہ سے بڑے گہر مراسم تھے حضرت امام ابو حنیفہ علیہ الرحمہ انکو برابر سیدنا و سندنا ابراہیم ادہم کہہ کر مخاطب فرماتے تھے حضرت امام ابو حنیفہ علیہ الرحمہ کے ساتھیوں نے ان سے پوچھا کہ ابراہیم بن ادہم سید کس طرح ہوئے حضرت امام ابو حنیفہ علیہ الرحمہ نے فرمایا ہم لوگ تو دوسرے کاموں میں بھی مشغول ہوتے ہیں اور وہ ہمیشہ خدا تعالیٰ کی خدمت میں ہی لگے رہتے ہیں اسی لئے وہ سید اور سند ہیں ۔

حضرت خواجہ جنید بغدادی علیہ الرحمہ فرماتے تھے مفاتیح العلوم ابرھیم ادہم یعنی سارے علوم کی کنجی ابراھیم ادہم ہیں ۔

کتاب تذکرہ خواجگان چشت میں ہے کہ حضرت خواجہ سلطان ابراہیم بن ادہم بلخی علیہ الرحمہ صائم الدہر تھے پانی سے روزہ افطار کرتے بہت کم سوتے تھے زیادہ وقت عبادت الہی میں گزرتا تھا ۔

تذکرة العارفین کے مطابق آپ کے تین بیٹے تھے اول ناصر الدین علیہ الرحمہ جو مکہ معظمہ میں فوت ہوئے دوسرے اسحاق جو فرخ شاہ وائی کابل کے جد تھے تیسرے ناصح الدین۔ مگر اقتباس الانوار میں ہے اسحاق بن ابراہیم بن ادہم کی کوئی اولاد نہیں تھی (واللہ اعلم)

آپ کے بے شمار خلفاء تھے مگر مشہور ترین چھ خلفاء ہیں:

·      حضرت خواجہ حذیفہ مرعشی علیہ الرحمہ

·      حضرت شفیق بلخی علیہ الرحمہ

·      حضرت ابراہیم بن شیبہ ہروی علیہ الرحمہ

·      حضرت علی بن بکار بصیری علیہ الرحمہ

·      حضرت خلف بن ایوب بلخی علیہ الرحمہ

·      حضرت یحییٰ علیہ الرحمہ۔ (جو آپ کے خادم تھے)

البتہ ہمارا سلسلہ چشتیہ حضرت خواجہ حذیفہ مرعشی علیہ الرحمہ سے آگے چلتا ہے ۔

حضرت خواجہ سلطان ابراہیم بن ادہم علیہ الرحمہ کی تاریخ وصال کے بارے میں مختلف روایات ملتی ہیں مرآت الاسرار اور سفینتہ الاولیاء میں 16 جمادی الاول 162ہجری لکھا ہے ۔ آداب الطالبین میں 26جمادی الاول شجرہ الانوار میں شوال 162ہجری اور دیگر روایات کے مطابق 101ہجری 161ہجری 166ہجری بھی لکھی گئی ۔

حضرت خواجہ سلطان ابراہیم بن ادہم علیہ الرحمہ کا مزار مبارک کوہ شام میں ہے اور ایک روایت کے مطابق بغداد میں مگر پہلا قول صحیح ہے مرآت الاولیاء میں ہے کہ حضرت شیخ فریدالدین عطار علیہ الرحمہ نے تذکرة الاولیاء میں لکھا ہے کہ جب آپ کے وصال کا وقت آیا تو آپ گم ہوگئے اس لئے معلوم نہیں کہ آپ کی قبر مبارک کہاں ہے البتہ جب فوت ہوئے تو ہاتف غیبی نے آواز دی کہ ""امام الارض فوت شدہ "" اس سے پتہ چلا کہ آپ کا وصال ہو گیا بعض کہتے ہیں کہ آپ بغداد شریف میں حضرت امام احمد بن حنبل علیہ الرحمہ کے پہلو میں مدفون ہیں اور بعض نے لکھا ہے کہ شام میں حضرت لوط علیہ السلام کے مزار مبارک کے نزدیک مدفن ہیں ۔

واللہ اعلم (مناقب المحبوبین ، مخزن چشت ، اقتباس الانوار ، مرآت الاسرار ، کتاب سُر العارفین ، سیرالاقطاب ، تذکرہ خواجگان چشت ، شجرہ چشتیہ منظوم فارسی )


No comments:

Post a Comment