نام
و نسب:
آپ
رضی اللہ عنہ کا نام عمر اور ابو حفص کنیت تھی۔ آپ علیہ الرحمہ کے والد محترم کا
نام عبد العزیز اور والدہ کا نام ام عاصم ہے۔ آپ کے والد بنو امیہ میں ایک ممتاز
اور خاص مقام رکھتے تھے اور مصر کے گورنر تھے۔ اور ان کی گورنری کا زمانہ قریباً
اکیس سال کے ایک طویل عرصہ پر محیط تھا۔ حضرت سیدنا عمر بن عبد العزیز رضی اللہ
عنہ رضی اللہ عنہ کی والدہ ام عاصم حضرت عاصم بن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی
صاحبزادی تھیں۔ اس لحاظ سے حضرت عمر خلیفۂ راشد آپ رضی اللہ عنہ کے پڑنانا ہوئے۔
نافع
سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’کاش اپنی اولاد میں
سے مجھے وہ شاندار شخص معلوم ہوتا جو زمین کو اسی طرح عدل سے بھر دے گا جس طرح وہ
ظلم سے بھری ہوگی۔‘‘(طبقات ابن سعدجزء 5صفحہ 330)
پھر
کہتے ہیں کہ ’’میں اکثر ابن عمر رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کرتا تھا کہ اولاد عمر
رضی اللہ عنہ میں وہ کون شخص ہے جس کے چہرے پر علامت ہے اور جو زمین کو عدل سے بھر
دے گا۔‘‘ عبد اللہ بن دینارؒ سے مروی ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا
کہ ’’ہم لوگ بیان کیا کرتے تھے کہ یہ حکومت ختم نہ ہوگی تا وقتیکہ اولاد عمر رضی
اللہ عنہ میں سے اس امت کا والی ایک ایسا شخص نہ ہو جو عمر رضی اللہ عنہ کے نقشِ
قدم پر چلے اور چہرے پر ایک مسّا ہو۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ عمر بن عبد العزیز کو
لایا، ان کی والدہ ہام عاصم بنت عاصم بن عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ تھیں۔‘‘(طبقات
ابن سعد جزء5ص330)
ولادت
باسعادت :
اس
پیشگوئی کے مصداق حضرت سیدنا عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ مصر کے ایک گاؤں
حلوان میں 62ھ میں پیدا ہوئے۔(تاریخ الخلفاء جزء 1ص171)علامہ ذہبی کے نزدیک آپ
رضی اللہ عنہ کی پیدائش مدینہ منورہ میں ہوئی۔(تذکرۃ الحفاظ جزء 1صفحہ118)
تعلیم
و تربیت:
آپ
رضی اللہ عنہ کا بچپن مدینہ منورہ میں گزرا اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ
کے زیر سایہ تربیت پائی اور صالح بن کیسان ان کے اتالیق مقرر ہوئے۔ آپ رضی اللہ
عنہ نے بچپن میں ہی قرآن کریم حفظ کیا اورفصاحت و بلاغت اورشعر و شاعری کا علم
حاصل کیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے مدینہ کے متعدد علماء و فقہاء سے علم حاصل کیا۔
علوم دینیہ میں آپ بڑے پایہ کے عالم تھے۔ علامہ ذھبی لکھتے ہیں: ’’وہ بڑے امام،
بڑے فقیہہ، بڑے مجتہد، حدیث کے بڑے ماہر اور معتبر، حافظ، سند اور نرم
خوتھے۔‘‘(تذکرۃ الحفاظ جزء 1صفحہ118)
میمون
بن مہران کہا کرتے تھے کہ ہم عمر کے پاس اس خیال سے آئے تھے کہ ہم سے وہ کچھ
سیکھیں لیکن ہم کو معلوم ہوا کہ ہم خود ان کے شاگرد ہیں۔ آپ کے نزدیک علماء
شاگردوں کی طرح ہوتے تھے (تذکرۃ الحفاظ جزء 1صفحہ118)
عبد
الملک کے بعد ولید بن عبد الملک کے زمانہ میں جب مدینہ کے گورنر مقرر ہوئے تو
مدینہ کے علماء و صلحاء آپ کے ہم جلیس رہے۔(فتح الباری جزء 2ص3،تذکرۃ الحفاظ جزء
1صفحہ118)
مدینہ
کی گورنری:
حضرت
سیدنا عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ 87ھ تا 93ھ مدینہ کے گورنر رہے۔ اس دور میں
مکہ اور طائف بھی ان کے زیر حکومت تھے۔آپ رضی اللہ عنہ نے مسجد نبوی کی از سر نو
تعمیر کروائی اور ولید بن عبد الملک کے ایماء پر مسجد میں ایک فوارہ بھی تعمیر
کروایا۔مسجد نبوی کے ساتھ اطرافِ مدینہ کی مساجد جن میں رسول اللہﷺ نے نماز ادا
فرمائی تھی ان کو منقّش پتھروں سے تعمیر کروایا۔(فتح الباری جزء1ص571)
مدینہ
میں مختلف جگہوں پر کنوئیں کھدوائے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے متعدد بار امیر الحجاج کا
فریضہ سر انجام دیا۔ 93ھ میں ولید بن عبد الملک نے حضرت سیدنا عمر بن عبد العزیز
رضی اللہ عنہ کو بوجوہ معزول کر کے خالد بن عبد اللہ کو مکہ کا اور عثمان بن حیان
کو مدینہ کا گورنر مقرر کیا۔(تاریخ طبری جزء4ص11تا19)
سلیمان
بن عبد الملک کی وفات اورخلعتِ خلافت:
ولید
بن عبد الملک کے بعد سلیمان بن عبد الملک خلیفہ مقرر ہوا۔ سلیمان کو آپ پر بے حد
اعتماد تھا۔ اور اہم امور میں آپ سے مشورہ و معاونت لیتا تھا۔ 99ھ میں سلیمان بن
عبد الملک کی وفات ہوئی تو رجاء بن حیات نے بنو امیہ کو مسجد وابق میں جمع کر کے
ان سے نئے سرے سے سلیمان کے فرمان پرنئے خلیفہ کے لیے بیعت لی۔ جب اسے معاہدہ کے
استحکام کا یقین ہوگیا تو اس نے سلیمان کی وفات کی خبر سنائی اور فرمان کھول کر
پڑھا جس میں حضرت سیدنا عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ رضی اللہ عنہ کا نام تھا۔
رجاء بن حیات نے ان کو اٹھا کر منبر پر کھڑا کردیا۔ حضرت سیدنا عمر بن عبد العزیز
رضی اللہ عنہ انّا للہ پڑھ رہے تھے کہ یہ بارِ عظیم مجھ پر کیسے آن پڑا اور ہشام
بن عبد الملک اس لیے انّا للہ پڑھ رہا تھا کہ خلافت مجھے کیوں نہیں ملی۔(تاریخ
طبری جزء4ص59-60،طبقات ابن سعد جزء 5ص338)
بیعت
ہوجانے کے بعد سلیمان بن عبد الملک کی نماز جنازہ آپ نے پڑھائی۔ تجہیز و تکفین کے
بعد شاہی سواری آئی لیکن آپ نے اسے ناپسند کیا اور اپنے خچر پر سوار ہوگئے۔
لوگوں نے قصر خلافت کی طرف لے جانا چاہا تو فرمایا کہ جب تک سلیمان کے اہل و عیال
وہاں سے منتقل نہ ہوںمیں اپنے خیمہ میں رہوں گا۔(تاریخ طبری جزء4ص60،طبقات ابن سعد
جزء 5ص338)
بحیثیت
خلیفہ خدمات:
آپ
رضی اللہ عنہ کی خلافت کے بارہ میں لوگوں نے خوابیں دیکھی تھیں۔ (سیرت عمر بن عبد
العزیز جزء 1ص36)
خلافت
کا آغاز آپ نے امن کے پیغام سے کیا۔ کتاب اللہ، دین اللہ اور سنت رسولﷺ کو
مستحکم کرنے اور اپنانے پر زور دیا۔ (سیرت عمر بن عبد العزیز جزء 1ص40)
حضرت
سیدنا عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں میں جمہوریت کو از
سر نوزندہ کیا اور اسلامی سیاست کی تجدید کر کے اس کو صحیح اسلامی تعلیم کے مطابق
مقرر کر دیا۔ خلافت اسلامیہ کی بنیاد کتاب و سنت اور آثار صحابہ پر قائم کی۔ اسی
بنا پر علمائے امت نے ان کو خلفائے راشدین میں شمار کیا ہے اور بعض نے انہیں پہلی
صدی کا اور بعض نے دوسری صدی کا مجدّد قرار دیا ہے۔ بنو امیہ کے حکمرانوں نے لوگوں
کے مال و جائداد پر جو ظالمانہ قبضہ کیا تھا ان کو واپس دلانا ایک مجدد خلافت
اسلامیہ کا سب سے اولین فرض تھا۔ آپ نے سب سے پہلے یہی کام کیا جس پر خاندانِ
بنوامیہ نے برہمی کا اظہار کیا۔ باغِ فدک جس پر ان کے خاندان کی معاش کا دارومدار
تھا۔ خلیفہ بنتے ہی فدک کے متعلق رسول اللہ ﷺاور خلفائے راشدین کے طرز عمل کا پتا
کیا جب حقیقت کا پتا چلا تو آپ نے قریش اور دیگر قبائل کو جمع کر کے کہا کہ فدک
آنحضور ﷺکے ہاتھ میں تھا، ان کے بعد حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور بعد میں حضرت
عمر رضی اللہ عنہ اس کا انتظام فرماتے رہے۔ آخر میں مروان نے اس کو اپنی جاگیر
میں داخل کر لیااس کے بعد وہ میرے قبضہ میں آیا اور میں تم کو گواہ بناتا ہوں کہ
فدک کی جو حالت عہد رسالت میں تھی اس کو اسی طرف لوٹاتا ہوں۔(سنن ابو داؤد کتاب
الخراج باب فی صفایا النبیؐ من الاموال، طبقات ابن سعدجزء5ص388)
اسی
طرح امراء نے اپنے علاقوں میں اپنے اغراض کے لیے جوظالمانہ رقمیں اور نذرانے مقرر
کر رکھے تھے وہ ختم کروائے اور ظالم عمّال کو معزول کر دیا۔ حضرت سیدنا عمر بن عبد
العزیز رضی اللہ عنہ اپنی امارت کے دور میں نہایت شان و شوکت سے رہتے تھے لیکن
خلافت کے زمانہ میں نہایت سادہ زندگی بسر کی۔ لباس اور غذا نہایت سادہ تھی۔(سیرت
عمر بن عبد العزیز لابن عبد الحکم جزء 1ص43)
بحیثیت
فاتح:
آپ
رضی اللہ عنہ اسلامی تاریخ میں ایک فاتح کی حیثیت سے تو معروف نہیں لیکن آپ کا
عہد خلافت جنگی مہمات سے خالی نہ تھا۔ سلیمان بن عبد الملک نے روم کی طرف فوج بھیج
رکھی تھی جو رسد کی کمی کی وجہ سے پریشان حال تھی۔ خلیفہ بنتے ہی آپ نے ان کو کمک
مع رسد بھجوائی۔ اسی طرح جب ترکوں نے آذر بائیجان پر حملہ کیا اور بہت سے
مسلمانوں کو شہید کیا اور قیدی بنایا تو آپ نے ابن حاتم بن نعمان باہلی کو روانہ
کیا جنہوں نے وہاں مسلمانوں کو بچایا اور مجرمین کو سزا دی۔ اندلس وغیرہ کی طرف
بھی انہوں نے کثرت سازو سامان کے ساتھ فوجیں بھجوائیں۔ ہندوستان میں جنگیں تو بنو
امیہ کے دور میں کافی عرصہ پہلے سے ہی شروع ہو چکی تھیں۔ آپ رضی اللہ عنہ کے دور
میں بھی کسی قدر اس میں اضافہ ہوا۔(تاریخ طبری جزء4ص61)
بطور
مناظر:
100ھ
میں عراق میں فرقہ حروریہ نے سر اٹھایاتو آپ نے اپنے عامل عبد الحمید کو ایک دور
اندیش سردار کی کمان میں فوج بھجوانے کا حکم دے کر کہا کہ جب تک یہ لوگ خون ریزی
اور فتنہ فساد نہ کریں ان سے کسی قسم کا تعرض نہ کیا جائے۔ عبد الحمید نے محمد بن
جریر بن عبد اللہ بجلی کو حضرت سیدنا عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ کا حکم سنا
کر دو ہزار سپاہیوں کے ساتھ بھیجا۔ حضرت عمربن عبد العزیز نے خود بسطام
سردارِخوارج کو خط لکھا اور مناظرہ کی دعوت دی۔ بسطام راضی ہوگیا اور دو اشخاص کو
مناظرے کے لیے بھیجا۔ جس کا کوئی خاص نتیجہ نہ نکلا۔ خیر جنگ ہوئی عبد الحمید نے
شکست کھائی پھر مسلمہ بن عبد الملک کی قیادت میں اہل شام کی فوج بھیجی جس نے فتح
حاصل کی۔(تاریخ طبری جزء4ص62)
ازواج
و اولاد:
حضرت
عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ کی تین بیویاں تھیں جن میں سے ایک بیوی عبد الملک
بن مروان کی صاحبزادی فاطمہ بنت عبد الملک تھیں۔ اس کے علاوہ ایک ام الولد تھی۔
آپ کی اولاد کی مجموعی تعداد 16تھی۔
سیرت
و اخلاق:
حضرت
سیدنا عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ درویش صفت، نہایت خوش خلق، حلیم الطبع،
متحمل مزاج اور نرم خو انسان تھے۔ دنیاوی شان و شوکت سے بالکل بیزار تھے۔ متانت،
سنجیدگی اور شرم و حیا کا پیکر تھے۔ رحمدلی ان کا خاص وصف تھا۔ اپنے اعلیٰ اخلاق
کی وجہ سے ہر دلعزیز تھے۔ آپ ہمیشہ علماء کی قدر کیا کرتے تھے اور ان سے مشورہ
لیا کرتے تھے۔ عبادات کا خاص اہتمام کیا کرتے تھے۔ عام معمول یہ تھا کہ شام ہونے
کے بعد آدھی رات تک امور خلافت انجام دیتے، آدھی رات کے بعد علماء سے صحبت رکھتے
اور رات کا پچھلا پہر عبادت میں گزارتے۔ نماز فجر پڑھنے کے بعد پھر حجرے میں چلے
جاتے اور اس وقت کوئی دوسرا نہیں جا سکتا تھا۔ آپ نے تقویٰ اور پرہیز گاری سے
زندگی کو گزارا۔ بلا شبہ آپ صدق میں حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ ، عدل میں حضرت
عمر فاروق رضی اللہ عنہ ، حیا میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اور زہد میں حضرت
علی رضی اللہ عنہ کے مثیل تھے۔
احیائے
شریعت و ترویج سنت نبویہﷺ:
آپ
رضی اللہ عنہ نے احیائے شریعت، ترویج سنت نبویہؐ، امحائے بدعات اور تحفظ عقائد کے
لیے بہت سعی کی اور اسے ایک خلیفہ کا نصب العین قرار دیا۔
حضرت
انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ رضی اللہ عنہ کے
بعداس نوجوان یعنی حضرت عمر بن عبدالعزیزکے سواکسی کے پیچھے ایسی نماز نہیں پڑھی
جو رسول اللہ ﷺکی نمازسے زیادہ مشابہت رکھتی ہو۔(سنن ابو داؤد جلد اول حدیث
نمبر886)
یحییٰ
سے مروی ہے کہ حضرت سیدنا عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ سوموار اور جمعرات کا
روزہ رکھا کرتے تھے۔(طبقات ابن سعد جزء5ص332-333)
محبت
و خشیت الٰہی و محبت رسول و اہل بیت:
حضرت
سیدنا عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ خشیت الہٰی بہت رکھتے تھے۔ آپ کی زوجہ
فاطمہ بنت عبد الملک بیان کرتی ہیں کہ خدا کی قسم میں نے عمر سے بڑھ کر کسی کو
اللہ سے ڈرنے والا نہیں دیکھا۔(طبقات ابن سعد جزء5 ،سیرت عمر بن عبد العزیز جزء
1ص47)
محبت
رسول اور محبت اہل بیت ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ آپ نے بنو امیہ کے دورسے
جاری بد رسم خطبہ میں حضرت سیدنا مولیٰ علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے خلاف الفاظ کے
استعمال کو ختم کروایا۔
حضرت
سیدنا عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کے دل میں محبت مولا علی کرم اللہ وجہہ
الکریم کیسے پیدا ہوئی؟
علامہ
ابن اثیر اپنی مشہور کتاب الکامل میں لکھتے ہیں :عمر بن عبدالعزیز کی
خلافت سے پہلے تمام سلاطین بنو امیہ امیرالمومنین مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم
سب و شتم کرتے تھے لیکن عمر بن عبدالعزیز نے اس کو سختی سے روکا اور تمام عمال کو
اس گناہ عظیم سے روکنے کی تاکید کی ۔ عمر بن عبدالعزیز کو مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم
سے محبت پیدا ہونے کی صورت یہ ہوئی جیسا کہ وہ خود بیان کرتے ہیں کہ میں مدینہ
منورہ میں علم کی تحصیل کر رہا تھا اور اس زمانہ میں عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ
بن مسعود سے درس حاصل کر رہا تھا ، ان کو میرے متعلق یہ معلوم ہوا کہ میں مولا علی
کرم اللہ وجہہ الکریم کو برے الفاظ کے ساتھ یاد کرتا ہوں ، ایک دن میں ان کی خدمت
میں ایسے وقت حاضر ہوا جب وہ نماز میں مشغول تھے ، میں انتظار کرنے لگا جب وہ فارغ
ہوئے تو مجھ سے کہنے لگے کہ تم کو یہ کس طرح معلوم ہوا کہ اللہ اصحاب بدر اور
اصحاب بیعت رضوان سے خوش ہونے کے بعد ان پر غضب ناک ہوا ، میں نے کہا کہ میں نے یہ
کسی سے نہیں سننا تو فرمانے لگے کہ پھر مجھے کس طرح معلوم ہوا کہ تم مولا علی کرم
اللہ وجہہ الکریم کو برا سمجھتے ہو ۔ میں نے کہا کہ اب میں اللہ سے اس فعل کی
معذرت چاہتا ہوں اور پھر آپ سے عفو کا خواست گار ہوں ۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ
سے ایسا کبھی نہ ہوگا ۔بات یہ تھی کہ میرے والد جب خطبہ دیتے تھے تو مولا علی کرم
اللہ وجہہ الکریم پر جب سب و شتم کے الفاظ کاذکر کرنا چاہتے تو ان کی زبان لٹ ٹپا
جاتی ، میں نے پوچھا کہ بابا آپ خطبہ میں بے تکلف کہتے چلے جاتے ہیں لیکن جب مولا
علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا ذکر آتا تو مجھے آپ کی تقریر میں نقص معلومہوتا ہے ۔
انہوں
نے کہا کہ کیا تم اس کو سمجھ گئے ۔ میں نے کہا : ہاں ! کہنے لگے ، بیٹا ، جو لوگ
ہمارے گرد بیٹھے ہیں اگر ان کو اتنا معلوم ہوجائے جتنا ہم علی بن ابی طالب کے
متعلق جانتے ہیں تو یہ لوگ ہم کو چھوڑ کر علی بن ابی طالب کی اولاد کے پاس جمع
ہوجائیں گے۔
جب
عمر بن عبدالعزیز حکمران ہوئے تو ان کے دل میں دنیا کی کسی چیز سے الفت باقی نہ
رہی تھی کہ جس کے لئے وہ اتنا عظیم الشان گناہ کرتے ، اس لئے انہوں نے سب علی بن
ابی طالب کو یک سر چھوڑ دیا اور لوگوں کو اس کے چھوڑنے کا حکم دیا ۔ مولا علی کرم
اللہ وجہہ الکریم پر سب و شتم کے بجائے خطبہ میں اس آیت کی تلاوت کرتے تھے ۔إِنَّ
اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى (النحل:
90)اللہ عدل ، احسان اور اقرباء کی اعانت کرنے کا حکم دیتا ہے۔
عمر
بن عبدالعزیز کا مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم پر سب و شتم ختم کروانے یہ کام بڑی
وقعت کی نظر دیکھا گیا اور سب نے ان کی بڑی تعریف کی ۔ کثیر غزہ نے یہ اشعار کہے :
اے
عمر ! جب تم والی ہوئے تم نے مولا علی کو برا بھلا نہیں کہا اور نہ تم نے کسی بے
گناہ کو ڈرایا اور نہ کسی مجرم کے قول کی اتباع کی
تم
ہمیشہ کہی ہوئی حق بات کہتے ہو اور در حقیقت ہدایت کی نشانیاں حق گوئی ہی سے رو
نما ہوتی ہیں تم نے جس اچھے کام کے متعلق حکم دیا اس کو پہلے کر کے دکھا دیا ، جس
سے ہر مسلم کا دل تم سے خوش ہے ۔بے شک انسان کھلی کج روی اور گمراہی کے بعد ۔یہ
کافی ہے کہ اس کو ایک اصلاح کرنے والا درست کر سکتا ہے ۔( انتخاب و ترجمہ : سید
حسنی الحلبی )جب عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ نے یہ اشعار سنے تو بولے کہ اب ہم
فلاح پا چکے ۔
عدل
و انصاف کا قیام:
حضرت
سیدنا عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں خلفائے راشدین کے عدل
و انصاف اور مساوات کو قائم کر دکھایا۔ آپ کے عدل و انصاف کی وجہ سے لوگ اتنے
خوشحال تھے کہ رسول اللہ ﷺ کی پیشگوئی جو عدی بن حاتم سے مروی روایت میں مذکور ہے
کہ ایک شخص مٹھی بھر سونا یا چاندی لے کر ایسے شخص کو ڈھونڈے گا جو اسے قبول کرے
لیکن اسے کوئی قبول کرنیوالا نہ ملے گا، ظاہری طور پرآپ کے عہد خلافت میں پوری
ہوتی نظر آتی ہے۔ یحیٰ بن سعید کا بیان ہے کہ مجھ کو حضرت سیدنا عمر بن عبد
العزیز رضی اللہ عنہ نے افریقہ کا صدقہ وصول کرنے کے لیے بھیجا۔ میں نے صدقہ وصول
کر کے فقراء کو بلایا کہ ان میں تقسیم کر دوں لیکن مجھ کو کوئی فقیر نہ ملا کیوں
کہ حضرت سیدنا عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو امیر بنا دیا تھا۔ اس
لیے میں نے صدقہ کی رقم سے غلام خرید کر آزاد کر دیے۔(سیرت عمر بن عبدا لعزیزلابن
عبد الحکم جزء1ص65 )
آپ
نے رعایا کے اموال اور حقوق کی حفاظت کی۔ جابجا سرائے بنوائیں، مہمان خانے تعمیر
کروائے اور ایک لنگر خانہ بنوایا جس سے فقراء و مساکین اور مسافر کھانا کھاتے تھے۔
سابق ظالمانہ طرز حکومت کو یکسر تبدیل کر دیا اور اس کی اصلاح کی۔(طبقات ابن سعد
جزء 5ص341)
حضرت
سیدنا عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ رضی اللہ عنہ نے اپنے پڑنانا حضرت عمر بن
خطاب رضی اللہ عنہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی رعایا کا خاص خیال رکھا اور عدل و
انصاف کا خاص قیام فرمایا۔
عوام
کی فلاح و بہبود:
آپ
کی خلافت کا زمانہ اگرچہ بہت مختصرتھا لیکن پھر بھی آپ نے بہت سی اصلاحات کیں اور
خلافت کو اس سطح پر لائے جس پر خلفائے راشدین کی خلافت تھی۔ آپ نے بدعات کا خاتمہ
کیا۔ بیت المال کی اصلاح کی۔ خراج، جزیہ اور ٹیکس وغیرہ ملکی محاصل کی اصلاح کی۔
ذمیوں کے حقوق اور ان کے مذہبی مقامات کو پورا تحفظ دیا۔ اسی طرح جیل خانہ کی
اصلاح کی اور قیدیوں کے ساتھ ان مراعات کو قائم رکھا جو مقتضائے انسانیت ہیں۔
غرباء کی امداد کے لیے وظائف مقرر کیے ۔ اور بیت المال میں ایک مدّ قائم کی جس سے
قرضداروں کا قرض ادا کیا جاتا تھا۔(طبقات ابن سعدجزء5 +سیرت عمر بن عبدا لعزیز
جزء1ص63)
آپ
نے اپنے عہد میں بہت سی مساجد تعمیر کروائیں اور حدود حرم کی تجدید کروائی۔ (طبقات
ابن سعد) اپنی زندگی میں صرف ایک محل خناصرہ میں تعمیر کروایا جس میں اکثر رہا
کرتے تھے۔(نھر الذھب فی تاریخ حلب جزء1ص68)
فرض
شناسی:
حضرت
سیدنا عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ رضی اللہ عنہ نے خلافت کا فریضہ پوری تندہی
سے انجام دیا۔ سارا دن رعایا کی فلاح و بہبود میں گزر جاتا۔ رات گئے تک اسی کام
میں مشغول رہتے اور رات کے بقیہ حصے میں عبادت اور استراحت فرماتے۔(سیرت عمر بن
عبدا لعزیز جزء1ص150)
آپ
کے اس معمول کو دیکھ کر ایک روز آپ کے بھائی ریان بن عبد العزیز نے مشورہ دیا کہ
کبھی کبھی سیر و تفریح کے لیے باہر چلے جایا کریں تو فرمایا کہ اس دن کا کام کیسے
پورا ہوگا؟ بھائی نے کہا کہ دوسرے دن ہو جائے گا۔ تو فرمایا کہ روز کا کام انجام
پاجائے تو یہی بہت ہے، دو دن کا کام ایک دن میں کیسے پورا ہوگا؟(تاریخ دمشق لابن
عساکر جلد45ص198)
ایک
شخص نے آپ سے فارغ اوقات میں ملاقات کی خواہش ظاہر کی تو فرمایا کہ فرصت کہاں؟
فرصت تو گئی، فرصت تو اب سوائے اللہ کے ہاں اور کہیں نہیں۔(طبقات ابن سعدجزء5ص397)
اشاعت
دین:
اشاعت
اسلام آپ کی زندگی کا ایک اہم مقصد تھا۔ تالیف قلب کے لیے لوگوں کو رقوم دے کر
اسلام کی طرف مائل کیا۔ چنانچہ ایک پادری کو اس غرض سے ایک ہزار دینار دیے۔ (طبقات
ابن سعدجلد سوم ص265)آپ نے بادشاہوں کوبذریعہ خطوط اسلام کی دعوت دی اور ان میں
سے بعض نے اسلام بھی قبول کیااور اپنے نام عربی میں رکھے۔ (فتوح البلدان از علامہ
بلاذری جزء1 ص425)آپ کے حسن اخلاق کی وجہ سے آپ کے عہد میں ذمی کثرت سے مسلمان
ہوئے۔
نیکی
و بھلائی کا دور دورہ:
حضرت
سیدنا عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں لوگوں میں روحانیت کو
فروغ دیا اور نیکی و بھلائی کی طرف تحریض دلائی حتیٰ کہ نیکی پر ترغیب دلانے کی
خاطر انعامات دینے کا بھی اعلان فرمایا (سیرت عمر بن عبد العزیز جزء1ص121) اور اس
کابہت مثبت نتیجہ نکلا۔ ایک راوی لکھتے ہیں ’’جب وہ خلیفہ ہوئے تو باہمی ملاقات
میں ایک شخص دوسرے شخص سے کہتا تھا کہ رات کو تم کونسا وظیفہ پڑھتے ہو؟
تم
نے کتنا قرآن یاد کیا ہے؟
تم
قرآن کب ختم کرو گے؟
اور
کب ختم کیا تھا؟
اور
مہینے میں کتنے روزے رکھتے ہو؟‘‘(تاریخ طبری جزء4ص29)
علمائے
کرام سے محبت:
گذشتہ
خلفاء کی بزمِ طرب کی زینت شعرا خطباء اورادیبوں سے تھی،لیکن عمر بن عبد العزیز کا
ذوق ان سے مختلف تھا،اس لیے ان کے زمانہ میں شعراکا ہجوم چھٹ گیا اوراس کی جگہ
علمائے دین نے لے لی۔ ان کی تخت نشینی کے بعد حسب معمول حجاز اورعراق کے مشہور
شعرا میں نصیب جزیر،فرزدق،احوص،کثیر اوراخطل،قصیدے لے لے کر پہنچے اورعرصہ تک
ٹھہرے رہے لیکن کسی کو باریابی کی اجازت نہیں ملی،ان کی بجائے علما فقہا کو بلاتے
تھے اوران کی قدر دانی کرتے تھے،شعرا کی یہ کس مپرسی دیکھ کر ایک دن جریر نے عون
بن عبد اللہ کے ذریعہ جو ایک ممتاز فقیہ تھے،یہ اشعار کہہ کر حضرت عمر بن عبد
العزیز کی خدمت میں بھیجے: یا یھا القاری المرخی عمامتہ ھذا زمانک انی ندمضی زمنی
اے وہ قاری جس کے عمامہ کا شملہ لٹک رہا ہے یہ تیرا زمانہ ہے،میرا زمانہ گذر گیا
ابلغ خلیفتنا ان کنت لاقیہ انی لدی البابکا المصفورفی قرن اگر ہمارے خلیفہ سے
ملاقات ہو تو میرا یہ پیغام پہنچادے کہ میں دروازہ پر بیڑیوں میں جکڑا ہوں عون بن
عبد اللہ نے عمر بن عبد العزیز سے کہا کہ جریر سے میری آبرو بچائیے،آپ نے جریر کو
باریابی کی اجازت دی،اس نے قصیدہ سنایا،جس میں اہل مدینہ کے مصائب مشکلات کا حال
تھا،حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ نے ان کے لیے کپڑا،غلہ اورنقد روپیہ
بھیجا اور جریر سے پوچھا بتاؤ تم کس جماعت میں سے ہو، مہاجرین میں ،انصار میں، ان
کے اعزہ میں ،مجاہدین میں، اس نے کہا کسی میں نہیں، فرمایا پھر مسلمانوں کے مال
میں تمھارا کیا حق ہے،اس نے کہا خدا نے میرا حق مقرر کیا ہے،بشرطیکہ آپ اس کونہ
روکیں میں ابن سبیل (مسافر) ہوں دور دراز کا سفر کرکے آپ کے آستانہ پر ٹھہراہوں،آپ
نے فرمایا،خیر اگر تم میرے پاس آئے ہو تو میں اپنی جیب سے تم کو بیس روپیہ دیتا
ہوں،اس حقیر رقم پر خواہ میری تعریف کرویا مذمت،جریر نے اسے بھی غنیمت سمجھا
اوراسے لے کر باہر آیا، دوسرے شعرا نے لپک کر پوچھا،کہو ابو حرزہ کیا معاملہ رہا،
اس نے جواب دیا اپنا اپنا راستہ لو یہ شخص شاعروں کو نہیں ؛بلکہ گداگروں کو دیتا
ہے۔ مگر علما فقہا اورقراء کی بڑی قدردانی تھی،ان کو دور دور سے بلاکر خواص میں
داخل کرتے تھے۔ زمامِ خلافت ہاتھوں میں لینے کے بعد سالم بن عبد اللہ بن
عمر،محمد بن کعب قرظی اور رجاء بن حیوٰۃ ،ریاح بن عبیدہ سے امور خلافت میں مشورہ
لیتے تھےمیموں بن مہران،رجاء بن حیواۃ،ریاح ابن عبیدہ آپ کے ندیم خاص تھے،ان کے
علاوہ اورمتعدد علما آپ کے ہم جلیس تھے۔
تدوین
حدیث کی طرف خصوصی توجہ:
آپ
نے تدوین حدیث کی طرف خصوصی توجہ کی اور قاضی ابوبکر بن حزم گورنر مدینہ کو لکھا
کہ ’’احادیث نبویہؐ کی تلاش کر کے ان کو لکھ لو کیونکہ مجھے علم کے مٹنے اور علماء
کے فنا ہونے کا اندیشہ ہے اور نبی کریم کی حدیث کے علاوہ کوئی حدیث قبول نہ کی
جائے۔‘‘(بخاری کتاب العلم باب کیف یقبض العلم)
علامہ
ابن حجر لکھتے ہیں کہ یہ حکم صرف گورنر مدینہ تک ہی محدود نہ تھا بلکہ تمام علاقوں
کے گورنروں کو بھیجا گیا تھا۔ (فتح الباری جزء1ص194) اور اس حکم کی تعمیل کی گئی
اور تمام ممالک میں ان احادیث کی کاپیاں بھیجی گئیں۔ (جامع بیان العلم و فضلہ
جزء1ص331) آپ نے نہ صرف تدوین احادیث نبویہ فرمائی بلکہ اس کی تعلیم و اشاعت کے
لیے گورنروں اور عمّال کو تلقین کی کہ ممالک میں علماء بھجوائے جائیں اور مدرس و
علماء کے لیے وظائف مقرر کیے تا کہ وہ فکر معاش سے بے نیاز ہوکر لوگوں کو اس کی
تعلیم دیں اور نہ صرف مدرس و علماء بلکہ طلباء کے لیے وظائف مقرر کیے ۔(سیرت عمر
بن عبدا لعزیز لابن عبد الحاکم جزء1 ص141، جامع بیان العلم جزء 1ص647،تذکرۃ
الحفاظ)آپ نے تعلیم کے علاوہ لوگوں کی تربیت اور دینی مسائل کے حل کے لیے واعظ
اور مفتی مقرر کیے ۔(حسن المحاضرۃجزء1ص298,299)
سیرت
صحابہ کی اشاعت:
سیرت
و مناقب صحابہ کے متعلق سب سے پہلے آپ نے ہی توجہ فرماتے ہوئے عاصم بن عمر بن
قتادہ کو مقرر کیا کہ دمشق کی مسجد میں مغازی اور مناقب صحابہ رضی اللہ عنہ کا درس
دیا کریں۔(تھذیب التھذیب جزء5ص47)
حضرت
سیدنا عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ نے صرف کتاب و سنت کی اشاعت پر ہی توجہ نہیں
کی بلکہ دیگر علوم و فنون کے لیے بھی تدابیر کیں تا مسلمان دوسرے علوم سے بھی بہرہ
ور ہوسکیں۔ ایک یونانی حکیم اہرن القس کی کتاب کا عربی ترجمہ ماسر جیس نے مروان بن
حکم کے زمانہ میں کیا تھا جو شاہی کتب خانے میں متروک پڑی تھی۔ آپ نے اسے چالیس
روز استخارہ کرنے کے بعد شائع کرواکے ممالک میں تقسیم کر دیا۔(اخبار العلماء
باخبار الحکماء جزء 1ص243)
وفات
و تدفین:
حضرت
سیدنا عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ نے 25 رجب 101ھ میں زہر خورانی کی وجہ سے
بیس روز بیمار رہنے کے بعد بمقام دیر سمعان وفات پائی اور وہیں دفن ہوئے۔ آپ کی
وفات ایک سازش کا نتیجہ تھی۔ اس وقت آپ کی عمر 39 برس تھی۔ آپ دو برس، پانچ
مہینے اور چار دن مسندِخلافت پر متمکن رہے۔(طبقات ابن سعد جزء 5ص408 ،تاریخ طبری
جزء 4ص68)
آپ
رضی اللہ عنہ نے اپنی قبر کے لیے زمین اپنی زندگی میں ہی خرید لی تھی اورخالد بن
ابی بکر سے مروی ہے کہ عمر بن عبد العزیز نے وصیت کی تھی کہ انہیں پانچ سوتی کپڑوں
کا کفن دیا جائے جن میں کرتہ اور عمامہ بھی ہو۔ انہوں نے کہا کہ ابن عمر رضی اللہ
عنہ کے اعزہ میں سے جو مرتا تھا وہ اس کو اسی طرح کفن دیتے تھے۔ بوقتِ وفات آپ کی
زبان پر سورة القصص کی آیت 84 تھی۔(طبقات ابن سعد جزء 5ص406)
شاہ
روم کا اظہارِ افسوس:
محمد
بن معبد کا بیان ہے کہ میں شاہ روم کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس کو نہایت غمزدہ
حالت میں زمین پر بیٹھا ہوا پایا۔ میں نے پوچھا کیا حال ہے؟
بولا
جو کچھ ہوا تم کو خبر نہیں؟
میں
نے کہا کہ کیا ہوا؟
بولا:
مرد صالح کا انتقال ہوگیا، میں نے کہا وہ کون۔ بولا: عمر بن عبد العزیز۔ پھر کہا
’’اگر عیسیٰ علیہ السلام کے بعد کوئی مُردوں کو زندہ کر سکتا تو حضرت سیدنا عمر بن
عبد العزیز رضی اللہ عنہ رضی اللہ عنہ ہی کر سکتے تھے، مجھے اس راہب کی حالت پر
کوئی تعجب نہیں جس نے اپنے دروازے کو بند کر کے دنیا کو چھوڑ دیا اور عبادت میں
مشغول ہو گیا، مجھے اس شخص کی حالت پر تعجب ہے جس کے قدموں کے نیچے دنیا تھی اور
اس نے اس کو پامال کر کے راہبانہ زندگی اختیار کی۔‘‘(تاریخ دمشق لابن عساکر
جزء56ص15)
خلافت
راشدہ کی یادِ نو:
غرضیکہ حضرت سیدنا عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ کی خلافت ایسی تھی جس نے مسلمانوں میں خلافت راشدہ کی یاد از سر نو تازہ کر دی۔ ابن خلدون لکھتے ہیں:’’حضرت عمربن عبد العزیز مروانی سلسلہ کی درمیانی کڑی تھے، انہوں نے اپنی تما م تر توجہ خلفائے راشدین اور صحابہ رضی اللہ عنہ کے طریقہ کی طرف مبذول کی۔‘‘(تاریخ ابن خلدون جزء1ص258)(بشکریہ : کریم پاساہ سہروردی قادری حفظہ اللہ )
No comments:
Post a Comment