رحمت تصوفانہ مزاج رکھتی ہے

مذہب اسلام کی آمد سے قبل انسانیت جس جاں کنی کے عالم میں تھی وہ مورخ کی نوک قلم سے آج بھی تاریخ کی کتابوں میں موجود ہے۔ بچیوں کا زندہ درگور کیاجانا،اولاد م آدم کا غلامی کی بیڑیوں میں مقید ہونا،نسلا بعد نسل جنگوں کاچلنا،نوخیزبچیوں کوجبراً دریائے نیل کی آوارہ لہروں کے حوالے کرنا،بیواؤں کاستی ہونا،شمال سے لیکر جنوب تک شرق سے غرب تک ہرچہار جانب ظلم وجفا کابازارگرم تھا ۔قومی یکجہتی ،بھائی چارگی،اخوت ومحبت کادوردور تک نام ونشان نہ تھا ۔ایسے ماحول میں مذہب اسلام نے اپنی تصوفانہ تعلیمات کے ذریعہ کرۂ ارض پرایسا انقلاب بپاکیا کہ پوری دنیا اخوت ومحبت کاپیکر بن گئی۔ کلھم عیال اللہ کے سانچے میں ڈھل گئی۔ لافضیلۃ لعربی علی العجمی ولالعجمی علی العربی کا دستور مرتب ہوگیا۔بچیاں ذلت کے بجائے عظمت کامیناربن گئیں۔دریائے نیل کی رفتار پرہمیشگی کی مہر لگ گئی،غلامی کی زنجیریں ٹوٹ گئیں،بیوائیں چتاسے اٹھ کر شہنشاہی کاتاج زریں بن گئیں،انسانیت سوزی کا خاتمہ ہوگیا۔انسانیت سازی کی فضا ہموار ہوئی اورپوری دنیا میں اسلامی تصوفانہ تعلیمات سے آراستہ صوفیائے کرام نے انسانیت کی بکھری ہوئی زلفوں کوسرکی چوٹی کی مانند گوندھ دیا۔

۱؂ اسلام کی تصوفانہ تعلیمات پر جب ایک مؤرخ اپنا قلم اٹھا تا ہے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تصوفانہ زندگی اس کی نگاہوں کے سامنے ہو تی ہے ، میدان طائف کا وہ واقعہ جو رہتی دنیا تک فراموش نہیں کیا جا سکتا ، پتھروں کو زندگی دینے والے مصطفی پر پتھروں کے دیش میں پتھروں کی بارش ہو رہی ہے ، جسم لہو لہان ہے ،پیر ہن چاک ہو رہے ہیں ، ملک جبال عرض کر رہا ہے ، پانی کا فرشتہ عرض کر رہا ہے ، ہواؤں پر قدرت رکھنے والا فرشتہ التجا کر رہا ہے : یا رسول اللہ اجازت دیں اس قوم کو تباہ کر دوں جو آپ کو لہو لہان کر رہی ہے ، جسم اطہر کو زخمی کر رہی ہے۔ارشادہوتاہے نہیں ،نہیں اے فرشتوں! ایسا نہ کرنا ، میں ایسی اجازت نہیں دے سکتا ، میں پوری دنیا کے لئے رحمت بن کر آیا ہوں ، رحمت تصوفانہ مزاج رکھتی ہے ، زخم تو کھاتی ہے ،زخم دیتی نہیں ۔اے فرشتوں! میں رب کی بارگاہ میں دعا گو ہوں’ ’اللھم اھد قومی فانھم لا یعلمون‘‘ اے اللہ میری قوم کو ہدایت دے دے ، وہ تمہیں نہیں جا نتی ، تیرے رسول کو نہیں پہچانتی ، تیرے قرآن کو نہیں سمجھتی۔

۲؂ نبی کا یہ کردار پوری دنیا کے لئے انسانیت کا پیغام تھا ، صوفیائے کرام نے انہیں تعلیمات کی بدولت لوگوں کے دلوں میں شمع اسلام کو روشن کیا ۔

۱؂ نبی کا پیغام تشدد سے انحراف تھا ، ظلم و جفا سے دوری تھی ، قتل و غارت گری سے کنارہ کشی تھی ، وحدت انسانیت کی تعلیم تھی ، قومی یکجہتی کا درس تھا ۔

دین اسلام کی تبلیغ تصوفانہ کردار سے ہو ئی، تلواروں سے سرحدیں تو فتح ہو ئیں ، اسلحوں سے ملک زیر نگیں ہو ئے مگر دلوں کو فتح کرنے کا سلیقہ تصوف سے ملا ’’ اسلام کا فروغ بادشاہی ازم سے نہیں بلکہ صوفی ازم سے ہوا ‘‘ یہی وجہ ہے کہ حکومتیں تو مٹ گئیں ، تلواروں کی حکمرانی کا خاتمہ ہو گیا مگر دلوں کی حکمرانی آج بھی باقی ہے ، آج بھی خانقاہوں میںآرام فرمانے والے اصفیا ء دلوں پر حکومت کر رہے ہیں ۔ اور انسانیت نوازی کا پیغام دے رہے ہیں ، قومی یکجہتی کا نظام دے رہے ہیں ، بلا تفریق رنگ و نسل حاجت روائی کر رہے ہیں ۔

تصوف و تشدد دو متضاد چیزیں ہیں جہاں تصوف ہو گا وہاں تشدد نہیں اور جہاں تشدد ہوگا وہاں تصوف نہیں ہو سکتا ۔ آج مختلف ذرائع کے ذریعہ ایک متشدد قوم خود کو تصوف کا پیرو کار کہہ رہی ہے اور اپنے نام نہاد اکابرین کو حامئ تصوف بتا کر پیش کر رہی ہے ۔ اگر خطۂ نجد سے لے کر دیوبند تک ان کے متشددانہ کردار کی عکاسی کی جا ئے تو ان کے قول و فعل میں مشرق و مغرب کا بُعْد نظر آ ئے گا ۔

خطہ عرب میں سترہویں صدی سے لے کر آج تک ہو نے والی خونریزیاں نجدی تعلیمات کا نتیجہ ہیں اور وطن عزیز میں انگریزوں کے دور حکومت سے لے کر اب تک جو فسادات رونما ہو ئے بالواسطہ نجدی پیروکاروں کی وجہ سے ہو ئے ۔ جو قوم خانقاہوں کے خلاف کتابچے نکالتی رہی ہو، صوفیاء کے مزارات کو بت کدہ کہتی رہی ہو، مزارات پر جا نے والوں کو بت پرست کہتی رہی ہو، ان کا خانقاہوں سے کوئی تعلق نہیں ہو سکتا ، مزاروں سے کوئی واسطہ نہیں ہو سکتا ۔

دیوبندیت ایک موقع پرست تنظیم کا نام ہے ، خطۂ عرب سے لے کر ہند تک انگریزوں نے وہابی مشن کے ذریعہ اپنی حکومت کا سکہ بٹھا یا ۔ ملت واحدہ کو مختلف خانوں میں بانٹا ۔ محمد بن عبدالوہاب اور آل سعود کے ذریعہ سنت کے حامی ترکوں کے اقتدار کو ختم کیا اور چند نام نہاد عالموں کے ذریعہ محمد بن عبدالوہاب کی مشرکانہ ، کافرانہ ، گستاخانہ تعلیمات کو دیارِہند میں رواج دے کر ہندوستان سے مسلمانوں کے اقتدار کا خاتمہ کیا اور مسلمانوں کی منظم تنظیم جو آزادئ ہند کے لئے کوشاں تھی ان کے درمیان انتشار کا بیج بو یا ، نتیجتاً خطۂ عرب میں ابن وہاب اور آ ل سعود کو ظاہری اقتدار ملا اور پس پست انگریزوں کا اقتدار جو کل بھی تھا اور آج بھی ہے اور ہندوستان میں دیوبندی جماعت جو ابن وہاب کی پیرو کار ہے وہ انگریزوں کی وظیفہ خوار ہو ئی ۔

آزادئ ہند کے بعد دیوبندی جماعت کے علماء نے کانگریسی حکمرانوں سے روابط قائم کئے ، ہندوستان کے مختلف خطوں میں کانگریس کے دور حکومت میں مسلم کش فسادات ہو تے رہے اور یہ موقع پرست تنظیم مسجدوں پر قبضہ کرتی رہی ،اوقاف پر قبضہ کرتی رہی ، اقلیتی امور پر اپنی اجارہ داری قائم کرتی رہی ، بچی تھیں خانقاہیں، ان پر بھی چند نام نہاد سیاسی رہنماؤں کے ذریعہ اپنی اجارہ داری قائم کرنے کی فراق میں نظر آ رہی ہیں ۔ وقت کا تقاضہ ہے، احقا ق حق اور ابطال باطل ہو ، متشدد قوم کا چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب ہو ، تشدد و تصوف کے فرق کو واضح کیا جا ئے ۔ وہابیت اور صوفیت کے درمیان خطۂ امتیاز کھینچا جا ئے۔

 

No comments:

Post a Comment